فتحِ مکّہ
فتح مکّہ پہ پیشِ سرورِ ﷺ دیں آئے جب بانیانِ فتنہ و کیں
ان میں جو جس قدر بھی سرکش تھا آج اتنی ہی خم تھی اس کی جبیں
سب کا انجام صاف ظاہر تھا لمحۂ آخریں تھا ان کے قریں
آج یہ شہر ہونے والا تھا اہلِ باطل کے خون سے رنگیں
ہر کوئی دل میں یہ سمجھتا تھا سب کے سر تیغ سے اُڑیں گے یہیں
مشرکینِ عرب کھڑے تھے وہاں اپنے انجام پر ملول و حزیں
ان کے چہروں پہ یاس چھائی تھی مرگ تھی خیمہ زن یسار و یمیں
آسماں پھٹ پڑا تھا آج ان پر تنگ تر ہو گئی تھی اُن پہ زمیں
ان کے ماضی پہ گر نگاہ کرو ان کا ہر فعل قابلِ نفریں
کون تھا ان میں عفو کے قابل ان کا ایک ایک جرم تھا سنگیں
سب کے سب ظلم کیش و بد اندیش شیطنت میں وہ ایک ایک لعیں
ان کے عیبوں کو گر گِنا جائے ایک، دو، تین، چار، پانچ نہیں
خود نگر، خود پسند، خود پرور خود سرو خود فریب اور خود بیں
بے خبر، بے شعور، بے دانش بے یقیں، بے دریغ اور بے دیں
بد عمل، بد سترشت، بد اطوار بدگماں، بد دماغ اور بد بیں
زانی و بادہ خوار و غارت گر قاتل و بت پرست و راہ نشیں
کون تھا ان کا ناصر و حامی کیسے ملتی تھی انہیں پناہ کہیں
ان کے دل زندگی سے تھے مایوس
ان کی جانیں عجب عذاب میں تھیں
اس طرف تھے وہ محسنِ اعظم ﷺ حُسنِ اخلاق کی مثال حسیں
روئے انور پہ کب نشانِ ملال دل میں کب عزمِ انتقام کہیں
عجز اور انکسار رُخ سے عیاں جذبۂ لطف و مہر دل میں مکیں
اُنؐ کی باتوں میں تھی گلوں کی مہک ان کا لہجہ تھا شہد سے شیریں
پاس ہی آپ ؐ کے صحابہؓ بھی حُکم کے منتظر کھڑے تھے وہیں
آپ ؐ نے دشمنوں سے فرمایا: کہیے انجام کیا ہے ذہن نشیں؟
دشمنوں نے کہا: حضورؐ! ہمیں اپنے بچنے کی کچھ امید نہیں
آپؐ ابنِ کریم بنِ کریم آپ ﷺ ہی رحمت کرم کے امیں
آپ ؐ بدلہ نہیں لیا کرتے
بخش دیجئے تو کچھ بعید نہیں
وہ مجسم عنایت و رحمت وہ سراپا متانت و تمکیں
جن کا معیارِ عدل احساں تھا جن کا اخلاق تھا کتابِ مبیں
جن کا ہر فعل نیک و پاکیزہ جن کا ہر قول صائب اور متیں
جن کی گفتار نغمۂ فردوس جن کا کردار اسوۂ زرّیں
جن کی رفتار پر تصدّق ہوں لالہ و یاسمین، گل و نسریں
دیکھ کر جن کا نورِ پیشای شرمسار و خجل مہ و پرویں
ہاں! وہی زیبِ محفل ہستی ہاں وہی زینتِ بہشت بریں
لوگ ساحر بھی ان کو کہتے تھے ان کا اخلاق ہی تھا سحر آگیں
ان کے اخلاق کی مثال سُنے آج بھی کوئی گر ہے نکتہ چیں
آپ ﷺ نے ان سے جو سلوک کیا کس کو آئے گا آج اس پہ یقیں
آپ ﷺ نے ان کے ظلم کی یادیں سب کی سب ذہن سے بھلا ڈالیں
اس سراپا کرم نے فرمایا: جب تھے دشمن اسیرو زیرِ نگیں
میری جانب سے تم ہو سب آزاد
آج تم پر کوئی گرفت نہیں