فہرست مضامین

رسولِ مقبول ﷺ میدانِ جہاد میں

اغیار نے ہم مسلمانوں پر جو ان گنت ''احسانات'' کیے ہیں۔ ان میں سے ایک ''احسانِ عظیم'' دین اسلام کے بارے میں لوگوں کو شکوک و شبہات کے گرداب میں پھنسانا ہے۔ انہوں نے اسلام دشمنی کی زہریلی گولیوں کو شکر کی تہ چڑھا کر بڑے خوب صورت رنگوں میں یوں پیش کیا کہ نہ صرف غیر مسلم بلکہ مسلمان بھی انہیں خوشی خوشی نگل کر لڑ کھڑا گئے ہیں۔ مستشرقین، معترضین کے بوئے ہوئے بیج ان کی ہمہ وقت آبیاری کی بدولت یوں پروان چڑھے کہ مسلمانوں کے ذہنوں میں بھی یہ خیال سر سراتا ہے کہ ''اسلام کی سرعتِ اشاعت کا راز مسلمانوں کی قوت بازو اور شمشیر زنی میں مضمر ہے۔'' اعدائے دین نے غزوات کو بطور دلیل پیش کیا ہے اور اس کایا پلٹ دین کی مخالفت میں اندھے ہو کر لوگوں کو اس دائرے میں داخل ہونے سے باز رکھنے کی کوشش میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے وہ یہ نہیں سوچ سکے کہ اگر خاتم المرسلین، سید النبیین جناب محمد مصطفیٰ ﷺ اور ان کے فدا کاروں نے تلوار کے زور سے اسلام کو پھیلایا تو پیشتر ازیں محمد ﷺ اور ان کے تیغ زن ساتھیوں کو کس نے اور کس تلوار سے مسلمان بنایا گیا؟''

قرآن عظیم واضح اعلان کرتا ہے۔

لَا إِكرَاھَ فِي الدِّينِ

دین میں کسی پر جبر نہیں ہے (البقرہ: رکوع ۳۲، آیت ۳)

روزِ روشن کی طرح واضح اس اعلان کے بعد کیا رحمۃٌ للعالمین کی ذات اقدس جوکہ احکاماتِ ربانی کی عملی تصویر اور قرآنی تعلیمات کا چلتا پھرتا شاہکار تھی، کیونکر کسی کو جبراً مسلمان بنانے کی خاطر تلوار اُٹھا سکتی تھی۔ ان کے دستِ مبارک تو اس وقت تلوار کی طرف بڑھے جب قادرِ مطلق کا یہ فرمان جاری ہوا۔

''أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ'' جن سے لڑائی کی جاتی ہے ان کو بھی اب لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم کیا جا رہا ہے اور خدا ان کی مدد پر یقیناً قادر ہے۔

یہ آیت اس حقیقت کی ضامن ہے کہ ظالموں نے ہی مسلمانوں کو لڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔ خون کے دھبے اشکوں سے نہیں خون سے ہی دھوئے جا سکتے ہیں۔ وحشت وبربریت کا انسداد اور فی زمانہ ہونے والی جنگوں کا موازنہ غزوات اور جنگ کے اسلامی تصور سے کریں تو آگ میں جلتے ہوئے زندہ بچوں، عورتوں، بوڑھوں، ضعیفوں، کمزوروں کی سڑاند شاید انہیں دیدۂ بینا دے دے۔ آئیے ذرا دیکھتے چلیں کہ رسولِ عربی کی بعثت سے قبل ''جنگ'' کی رسومات کیا تھیں اور دورِ اسلام کیا انقلاب لایا۔

تاریخ کے اوراق اس امر کا بین ثبوت ہیں کہ اسلام سے قبل صورت حال یہ تھی کہ

1.

اسیروں کو کسی اندھے کنویں میں ڈال دیتے تھے

کنویں کے منہ پر سِل پتھر کی لا کر ڈال دیتے تھے

کبھی سُوکھا ہوا ٹکڑا کبھی بد ذائقہ پانی

کیا کرتے تھے فاتح اس طرح قیدی کی مہمانی

2. نیند کے مزے لوٹتے ہوئے لوگوں پر دفعتہً جا ہلّہ بولتے اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہو جاتا تھا۔

3. معصوم بچوں کو تیروں سے چھلنی کیا جاتا تھا۔ دشمن کو گرفتار کر کے اسے کسی درخت سے باندھ کر تیروں کا نشانہ بناتے۔

4. قتل کا یہ طریقہ تھا کہ:

پہلے دست و بازو توڑ دیتے تھے

زمیں میں گاڑ کر پھر ان پہ کُتے چھوڑ دیتے تھے

کبھی زندوں کے تن سے بوٹیاں نچوائی جاتی تھیں

سلاخیں گرم کر کے جس پر برسائی جاتی تھیں

کبھی پٹوایا جاتا تھا انہیں پُرخار کوڑوں سے

کبھی رُندوایا جاتا تھا اونٹوں اور گھوڑوں سے

5. انتقام کا جذبہ یوں دلوں میں ٹھاٹھیں مارتا تھا کہ زندہ تو زندہ مردوں کے بھی ہاتھ، پاؤں، ناک، کان وغیرہ کاٹ لیے جاتے۔ مقتول کا کلیجہ نکال کر چبانا کوئی مشکل بات نہ تھی۔

6. حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کر دیئے جاتے۔

7. منتیں یوں ماتیں کہ فلاں دشمن پر غلبہ پائیں گے تو اس کی کھوپڑی میں شراب نوشی کریں گے۔

رسولِ عربی ﷺ نے جنگ کی حقیقت میں جو انقلابِ عظیم برپا کیا اس میں سب سے نمایاں کارنامہ جنگ کے مقصد کو متعین کرنا اور اسے محض خون آشامی و غارت گری کے دائرے سے نکال کر ایک اعلیٰ اخلاقی اور مدنی نصب العین کی سطح تک لانا ہے۔ آپ ﷺ سے قبل جنگ کسی نیک مقصد کے لئے نہیں لڑی جاتی تھی۔ عرب میں جنگ کے لئے جو الفاظ، محاورے، ترکیبیں اور استعارے استعمال ہوتے تھے وہ سب کے سب صرف ایک وحشیانہ جنگ کا تصور پیش کرتے تھے۔ لیکن اسلام نے تمام رائج الوقت الفاظ و اصطلاحات کو موقوف کر کے ''جھاد فی سبیل اللّٰہ'' کی اصطلاح وضع کی۔ لغت کے اعتبار سے جہاد کے معنی ہیں ''کسی کام کے حصول میں انتہائی کوشش صرف کرنا۔'' مراد یہ کہ مجاہد کا اصل منشا مضرت کو دُور کرنا ہے۔ اور اس کے لئے وہ اتنی کوشش کرنا چاہتا ہے جتنی مضرت کو دور کرنے کے لئے درکار ہے۔ اس لئے اس نے جہاد کے ساتھ فی سبیل اللّٰہ کی بندش عائد کر دی تاکہ نفس کی کسی خواہش، کسی ملکی تسخیر، کسی ذاتی عداوت کے انتقام یا شہرت و ناموری کے حصول کی خاطر کوشش کرنااس میں داخل نہ ہو سکے یعنی فی سبیل اللّٰہ یہ جنگ تو وہ جنگ ہے جو اللہ کے احکام کے اندر رہ کر خالص اللہ کے لئے لڑی گئی ہو، جس میں

؎ نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی

کا جذبہ کار فرما ہو۔ چنانچہ مذکورہ نصب العین کے پیش نظر جانِ کائنات جناب رسولِ خدا کا یہ دستور تھا کہ جب کسی مہم پر فوج بھیجی جاتی تو امیرِ فوج کو خصوصی طور پر ہدایت کی جاتی کہ لَا تَقْتُلُوْا شَیْخًا وَّلَا طِفْلًا وَّلَا صَغِیْرًا وَلَا اِمْرَاۃٌ (کسی بوڑھے، بچے، کمسن اور عورت کو قتل نہ کرو) اسیرانِ جنگ سے جو تیروں کا نشانہ بنا کرتے تھے، آنحضور ﷺ نے ان سے اچھا برتاؤ کرنے کی طرح ڈالی۔ لڑائیوں میں عہد کی پابندی کا خاص خیال رکھا گیا، قاصدوں کو قتل کرنا ممنوع قرار دیا۔ دشمن کے مال اور جائیداد کی لوٹ مار کا رواج ختم کر دیا گیا۔ مختصر یہ کہ اسلام نے مدافعت، حقوق کی حفاظت، ظلم کے انسداد، راہِ حق کی حفاظت، فتنہ و فساد کے انسداد، عہد شکنی، اسلامی مملکت کے اندر بد امنی اور خلفشار پیدا کرنے والے کفار اور منافقین کے شر سے چھٹکارا پانے، قیامِ امن کی کوشش اورامر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضے کی خاطرتلوار اٹھانے کی اجازت دی تاکہ مسلمان بیرونی اور اندرونی دشمن کے حملوں اور ریشہ دوانیوں سے محفوظ ہو کر اس فرض کی تکمیل کے لئے کوشاں رہیں جو کہ اہلِ جہاں کی فلاح و بہبود کے لئے خداوندِ عالم کی طرف سے ان پر عائد کیا گیا ہے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ جنگ کے حکم کے ساتھ ساتھ ایک یہ شرط عائد کی گئی کہ وَلَا تُفْسِدُوْا اِنَّ اللّٰه لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِين یعنی (لڑائی میں) حد سے تجاوز نہ کرو کیونکہ اللہ تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

حد سے تجاوز کرنے والوں کو یاد دہانی کرا دی گئی۔
وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ

(مت مارو کسی جان کو جو اللہ نے منع کر دی ہے بغیر کسی حق کے)

ورنہ جان لو کہ ''قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا اور پہلی چیز جس کا فیصلہ لوگوں کے درمیان کیا جائے گا وہ خون کے دعوے ہیں۔''

چنانچہ مذکورہ شرائط کے ساتھ قرآن مجید جہاد کو مسلمانوں پر فرض قرار دیتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے۔ كُتِبَ عَلَيكُمُ الْقِتَالُ

تم (لوگوں پر) جنگ کو فرض کر دیا گیا ہے۔

لہٰذا جَاهِدُوْا فِي اللهِ حَقَّ جِهَادِه

(اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے)

حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ''جس شخص نے زندگی میں نہ جہاد کیا اور نہ کبھی راہِ خدا میں لڑنے کی نیت کی تو وہ منافقوں کی حالت میں مرا۔''

ایک مرتبہ آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ ''سب لوگوں میں بہتر کون ہے؟'' تو آپ ﷺ نے فرمایا ''جو کوئی جان اور مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کرے۔'' حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ''دو طرح کی آنکھوں کو دوزخ کی آگ نہیں چھو سکتی اوّلًا وہ آنکھ جو اللہ کے خوف سے روئی ہو اور دوم وہ آنکھ جو اللہ کی راہ میں رات بھر حفاظت کے لئے جاگتی رہے۔''

جہاد جب کبھی فرض ہوتا ہے تو وہ پورے کّرۂ ارضی کے مسلمانوں پر فرض ہوتا ہے مگر افسوس صد افسوس! آج جس قدر شدت سے یہ فریضہ ہم پر لاگو ہو رہا ہے ہم اتنے ہی اس سے غافل ہیں۔

تمہید طولانی ہوتی جا رہی ہے۔ اب اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی زندگی یوں تو سراپا جہاد تھی مگر مدینہ منورہ میں ہجرت کرنے کے بعد جب ملّت کی منظم اجتماعی زندگی کی قیادت آپ ﷺ نے سنبھالی تو پھر آپ ﷺ نے قیامت تک کے لئے امت کی رہنمائی کے لئے جہاد فی سبیل اللہ کے انتظام و انصرام سے لے کر جنگ کے اصولوں، لشکر کی صف بندی اور تزویرات و تدبیرات، حربی مہارت، عسکری صلاحیت، ذاتی شجاعت تک کے اہم نکات میں عملی طور پر رشد و ہدایت کی جو مثالیں چھوڑی ہیں ان کی مختصر روئیدادیوں ہو گی۔

سپہ سالارِ اعظم کی جنگی تیاری:

فنِ حرب اور سیاست دفاع کے چوٹی کے ماہرین و مبصرین کے نزدیک جنگ کی تیاری میدانِ جنگ سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور جنگ کی تیاری کے سلسلے میں درجِ ذیل امور خصوصی طور پر اہم ہیں۔

1. اندرونی استحکام

2. عوام کی اخلاقی تشکیل

3. ہمسایہ ممالک سے خوشگوار تعلقات

4. جنگ کی نوعیت کا صحیح اندازہ اور اس کی تیاری

5. مادی وسائل کی فراہمی

6. اسلحہ کی تیاری

7. اسلحہ کے استعمال کی تعلیم

8. منصوبہ جنگ کا سادہ ہونا

9. میدانِ جنگ کے نقشہ کی صحیح تربیت۔

10. حکمتِ عملی اور تدبّر

11. صحیح اشخاص کا انتخاب

12. پروپیگنڈہ

رسول اللہ ﷺ نے جنگی تیاری کے ان تمام اصولوں کو مدّنظر رکھا۔ ایک شہری مملکت قائم کر کے اسے مستحکم کیا۔ آپ نے مسجد نبوی کی تعمیر کی تاکہ سب مسلمان یکجا ہو کر علانیہ خدا کے حضور سر بسجود ہو سکیں۔ آپس میں تبادلۂ افکار کر سکیں اور ان کے مواعظ و نصائح سے مستفید ہو سکیں۔ بے سر و سامان اور بے خانماں مہاجرین کا مسئلہ اس مملکت کے لئے بہت نازک صورت اختیار کر سکتا تھا۔ لیکن آپ ﷺ نے اِسے خوش اسلوبی سے سلجھایا۔ مہاجرین و انصار کو اخوت و مساوات کی لڑیوں میں پرویا۔ جس سے نہ صرف اقتصادی مسائل حل ہو گئے بلکہ یگانگت، محبت اور ہم آہنگی کے چشمے بہہ نکلے۔ علاوہ ازیں آپ ﷺ نے اپنے اور اپنے جملہ متبعین کے حقوق و فرائض کا تعین کر کے ان کو احاطۂ تحریر میں لاکر ایک دستاویز کی شکل کی۔ مدینے کے یہودی قبائل سے حربی اور سیاسی معاہدات کیے جن کی رو سے انہوں نے رسولِ عربی ﷺ کو اپنا مشترک فرمانروا تسلیم کر لیا۔ اور مدینے کو حرم اور شہری مملکت کا درجہ حاصل ہوا۔ جغرافیائی اور تجارتی اعتبار سے مدینے کو مکے پر فوقیت حاصل تھی۔ تجارتی قافلوں کو مدینے کا راستہ پاٹنا پڑتا تھا۔ اہلِ مکہ کے لئے مدینہ کے باشندوں سے مخالفت مول لینا بہت مہنگا سودا تھا کیونکہ مدینے کا راستہ بند ہونے کی صورت انہیں تجارت کے لئے لمبا اور دشگوار گزار راستہ اختیار کرنا پڑتا اور حملہ آور ہونے کے لئے بھی یہ خورد و نوش کی قلت اور نقل و حمل کی دشواریوں سے پُر علاقہ تکالیف کا باعث ہوتا۔ گویا مدینے کو بڑی دفاعی اہمیت حاصل تھی۔ پیغمبرِ اسلام رسولِ خدا ﷺ نے مدینے کی حدودِ حرم قائم کر کے اس کے جغرافیائی محلِ وقوع کو مسلمانوں کے لئے مفید تر بنا دیا کیونکہ اب جو قافلہ وہاں سے گزرتا اسےشاہِ مدینہ سے اجازت لینی پڑتی اور وہاں کے قوانین کا پابند ہونا پڑتا۔ اگر یہ حدودِ حرم قائم نہ کی جاتیں تو مکہ والوں سے جنگ کی صورت میں مدینہ کی حفاظت کے لئے بڑی فوج رکھنی پڑتی جس پر کافی خرچ اُٹھتا۔ اس تدبّر سے مزید برآں یہ فائدہ ہوا کہ مکہ والوں کو مدینہ پر حملہ کرنا مشکل ہو گیا کیونکہ مدینے پر حملہ کر کے حدود حرم میں تیغ آزمائی کرنا خود مکّےکی سلامتی کے لئے خطرے کا باعث ہو سکتا تھا اور مسلمانوں کے لئے حدودِ مکہ میں شمشیر زنی کا جواز پیدا ہو سکتا تھا۔ ہجرت کے دوسرے سال سرکارِ دو عالم ﷺ نے بیت المقدس کی بجائے کعبہ کو قبلہ مقرر کیا جس کا مقصد مسلمانوں کی منزل اور حربی کشمکش کے جواز کے لئے ایک نصب العین متعین کرنا تھا۔

قرآن پاک کی تعلیمات نے مسلمانوں کو اتحاد کی نعمت عظمیٰ سے نوازا۔ ذاتی رنجشیں اور عداوتیں دھل گئیں۔ باہمی اعتماد کی فضا بحال ہوئی۔ تمدنی اور معاشرتی طور طریقے بدل گئے اقدار میں انقلاب آگیا۔ خاندانی جھگڑے اپنی موت آپ مر گئے۔ اقتصادی حالات سدھرنے لگے اور اخوت اور محبت کے جذبے میں سرشار ہو کر لوگ استحکام پا گئے۔ اندرونی استحکام کے بعد آپ نے امورِ خارجہ کی طرف توجہ دی۔ گرد و نواح کے قبائل میں تبلیغ شروع کی اور پھر دور افتادہ علاقوں میں تشریف لے گئے۔ ان کے پیام کی صداقت، اوصاف اور حسنِ اخلاق کا جادو بیرونی قبائل کو مسخر کر گیا۔ بہت سے قبیلے حلقۂ دوستی میں آگئے اور انہوں نے بھی ہر موقع پر ساتھ دینے کا عہد کیا۔

جنگ کا محور سپہ سالار کی شخصیت ہوا کرتی ہے۔ سپہ سالار کی دانشمندی الجھے ہوئے معاملات کو سلجھاتی اور اس کی دور اندیشی آنے والے خطرات کا انسداد کرتی ہے۔ اس کے پائے اثبات طوفانوں کے رخ پھیر دیا کرتے ہیں۔ اس کی انصاف پسندی اور مردم شناسی موزوں اشخاص کو میدانِ جنگ میں اپنے جوہر دکھانے کا موقع فراہم کراتی ہے۔ سپہ سالاروں کا عزمِ آہنی سپاہیوں کا جذبہ اس درجہ بلند کر دیتا ہے کہ وہ دنیوی خوف و ہراس سے بے نیاز ہو کرموت پر کمندیں پھینکنے لگتے ہیں۔ اس کی بصیرت کامیابی کی ضامن، اس کی نگاہِ تیز دشمنوں کے سینوں اور دماغوں میں اتر کر وہاں پلنے والی سازشوں، وہاں جنم لینے والے ارادوں اور منصوبوں کو عریاں کر دیتی ہے اور اس کے خلوص سے سپاہیوں کی رگ رگ میں بجلیاں رقصاں ہو جاتی ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ذات اعلیٰ صفات میں ایک عظیم ترین سپہ سالار کی بہترین خصوصیات جمع تھیں۔ قدرت نےبڑی فراخ دلی سے آپ پر ذہانت و تدبّر کے خزانے لٹائے تھے۔ زندگی کی سختیوں سے نبرد آزما ہونا سکھایا تھا۔ آپ کے اخلاق و کردار، امانت و دیانت، انصاف پسندی، خدا خوفی، خدا ترسی کے دشمن بھی معترف تھے۔ یہی وجہ تھی کہ لوگ آپ کے یوں گرویدہ ہو گئے تھے کہ ان کا جینا، ان کا مرنا، ان کے اک اشارے کا منتظر تھا۔ سپہ سالار خود مجسم صفات ہو تو اس کی سپاہ کیونکر نہ اخلاقی قدروں کی حامل ہو گی؟ کسی فوج کے کردار میں اگر عزم اور حوصلہ، شجاعت و پامردی، بے نفسی و خود اعتمادی، جفا کشی و ایثار، ضبط و نظم، اطاعت شعاری اور فرمانبرداری، اخوت و مساوات، خلوص و ہمدردی، پاکیزہ افکار اور یقین محکم جیسے اوصاف نہ ہوں تو وہ کیونکر فتح کے پرچم لہرا سکتے ہیں۔ سرورِ کائنات نے اس حقیقت کو ملحوظِ خاطر رکھا اور لشکریانِ اسلام کی اخلاقی تربیت اور ذہنی اصلاح پر خصوصی توجہ مرکوز کی۔ آپ نے نیکی کا ایک بلند معیار قائم کیا۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا پاکیزہ تصور اپنی امت کو دیا۔ روزہ رکھنے کا حکم دے کر سپاہیوں کو نہ صرف تزکیہ نفس کی تربیت دی بلکہ اس کے ذریعے بھوک، پیاس اور تکالیف سہنے کا بھی عادی بنا دیا۔ نماز کا عادی بنا کر یک سوئی اور نظم و ضبط کا درس دیا اور اطاعت و فرمانبرداری کے جذبے سے روشناس کیا۔ آپ نے ایک واضح نصب العین لشکریانِ اسلام کے سامنے رکھا اور اس کے لئے ایسا یقین محکم پیدا کیا کہ وہ اپنے بڑے سے بڑے دشمن سے بلا خوف و خطر ٹکرا گئے۔ سپہ سالار اس حقیقت سے باخبر تھے کہ میدانِ جنگ میں قوتِ بازو سے زیادہ ایمان کی طاقت کام آتی ہے۔ سپہ سالارِ کامل نے لشکریانِ اسلام کے سامنے جو نصب العین رکھا وہ صرف اتنا تھا کہ خدا کی زمین کو فتنہ و فساد سے پاک کیا جائے۔ خداوند عزوجل فتنہ و فساد کو ناپسند کرتا ہے۔ اسے یہ گوارا نہیں کہ اس کے بندوں کو بے قصور ستایا جائے، نوعِ انسانی کے امن و چین کے خطرے میں ڈالا جائے۔ اسی لئے وہ چاہتا ہے کہ مسلمان اس ظلم کے انسداد اور عدل و انصاف کے قیام کے لئے زندگی کے عیش و آرام اور اپنی جان و مال کو قربان کر کے یہ نصب العین پورا کریں۔ یہی وہ نصب العین ہے جس کے لئے قرآن عظم پکارتا ہے۔ ''اے ایمان والو! کیا میں تمہیں ایسی تجارت بتاؤں جو تمہیں درد ناک عذاب سے بچائے۔ وہ تجارت یہ ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی راہ میں اپنی جان و مال سے جہاد کرو۔ یہ تمہارے لئے بہترین کام ہے اگر تم جانو۔

اور پھر یہ نوید جانفزا سنائی کہ ''جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوتے ہیں وہ مرتے نہیں بلکہ حیاتِ جاوید پا لیتے ہیں۔'' یہ سپہ سالار محمد عربی تھے جنہوں سے اسرارِ موت و حیات کو فاش کیا۔ شہادت کے حسین چہرے سے موت کے تاریک اور ہیبت ناک نقاب کو اُٹھا دیا۔ اور سپاہی کے دل میں وہ جذبہ ابھارا جو اسے سرفروش بنا دیتا ہے، جو اس سے سپہ سالار کے لائحہ عمل کی تکمیل کرواتا، اس کی تلوار کی نوک سے قوم کے مستقبل کی تصویر کھنچواتا اور اس میں اپنے خون کا رنگ بھرواتا ہے۔ یہ سپاہی ہے جو اپنے خون سے ملّت کی آبیاری کرتا ہے اور اپنی ہڈیوں سے مملکت کی بنیادیں مستحکم کرتا ہے۔ ایک سپاہی کے دل میں اطاعت امیر کا جذبہ، اس پر اعتمادِ کامل اور اس کی عظمت کا احساس موجزن ہونا چاہئے۔ نظم و ضبط، ٹیکنیکل حربی صلاحیت، جسمانی صحت، اور اسلحہ کے استعمال کی مہارت، پھرتی اور مستعدی، نقل و حمل کی استعداد اور اپنے نصب العین کی بلندی کا احساس اس کا خاصا ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے فیضِ نظم کا نتیجہ تھا کہ لشکریانِ اسلام ان تمام خصوصیات سے لیس تھے۔ آپ ﷺ نے اپنے سپاہیوں کو اسلحہ کا استعمال بتایا، سخت مزاحمت کے باوجود منزلِ مقصود تک پہنچنے کی صلاحیت ان میں پیدا کی۔ فوجی رازوں کا امین ہونا سکھایا، فوجوں کی صف بندی کو اہمیت دی۔ معرکۂ کار زار میں آپ خود ہاتھ میں چھڑی لیے ہوئے صفوں کو استوار کرتے تھے اور بہ نفسِ نفیس تمام دستوں کا معائنہ فرماتے تھے۔ جاسوسی کا انتظام بھی مکمل کر لیا گیا تھا۔ جنگ کی کامیابی کے لئے یہ امر ناگزیر ہے کہ فوجیں جنگی علاقہ کے جغرافیہ سے واقف ہوں اور ان میں نقل و حرکت کی بہترین صلاحیت موجود ہو۔ رسولِ اکرم ﷺ کو فوجوں کی نقل و حرکت کی اہمیت کا بخوبی اندازہ تھا۔ آپ اوائل جوانی میں تجارتی قافلوں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے حجاز میں گھوم چکے تھے، جس کی بنا پر آپ اس کے جغرافیائی حالات سے آگاہ تھے، مدینہ کے انتخاب میں اسی واقفیت نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ آپ ﷺ نے مدینہ سے مکہ تک مختلف راستوں سے اپنی فوجوں کو دورہ کرایا تھا تاکہ وہ تمام مشکل راستوں اور ان کے نشیب و فراز سے واقف ہو جائیں۔

بات ہو رہی تھی جنگی تیاریوں کی۔ آئیے اب غزوۂ بدر، غزوۂ بنی قینقاع، غزوۂ احد غزوہ السویق، غزوۂ خندق، غزوات بنی لحیان و بنی مصطلق کو ذہن میں رکھ کر میدان کار زار میں سرور کونین رسولِ خدا ﷺ کو مصروفِ عمل دیکھیں۔

جنگی اصول اور غزوات:

دورِ جدید کے ماہرینِ حرب نے جنگ کے مندرجہ ذیل بنیادی اصول قرار دیئے ہیں۔

1. اصلی مقصود کا پیش نظر رکھنا۔

2. اقدام۔

3. اچانک حملہ۔

4. لشکر کشی۔

5. حفاظت۔

6. قوت کے استعمال میں کفایت۔

7. نقل و حرکت

8. تعاون۔

ملاحظہ فرمائیے کہ شاہِ امم سپہ سالار اعظم جناب محمد مصطفیٰ ﷺ نے آج سے چودہ سو برس قبل غزوات میں کس طرح ان اصولوں کی بنیاد رکھی تھی۔ ذکر ہو گا خصوصی طور پر بدر کے میدانِ جنگ کا جہاں چراغ مصطفوی شرارِ بو لہبی سے پہلی مرتبہ باقاعدہ طور پر سیتزہ کار ہوا۔

اصلی مقصد:

ایک دور اندیش سپہ سالار کے پیشِ نظر اہم ترین مقصد دشمن کی اصل فوج جو سرچشمۂ قوت ہوتی ہے اس پر غلبہ پانا ہوتا ہے۔ جناب محمد مصطفی ﷺ نے اس اصول کو غزوۂ بدر میں یوں برتا کہ بقول ابو الاثر حفیظ جالندھری

نظر آیا کہ مٹی ایک دستِ نور نے پھینکی خدا کے ہاتھ نے یا بازوئے مامور نے پھینکی

یہ مشتِ خاک اُڑ کر جا پڑی ناپاک چہروں پر اداسی چھا گئی پُر ہول دہشتناک چہروں پر

ہوا کا ایک تند و تیز جھونکا دوڑ کر آیا اڑا کر ساتھ ننھے ننھے ریزے ریت کے لایا

کیا ان ریت کے ذروں نے حملہ جنگجوؤں پر الٹ کر جا پڑا دامانِ صحرا زشت روؤں پر

لہو نتھنوں سے جاری ہو گیا اور پھٹ گئی آنکھیں گڑھے مٹی سے جیسے پٹ گئے ہوں پٹ گئی آنکھیں

مجاہد جا پڑے کفار پر گھبرا گئے کافر ہوا کا رُخ بدلتے ہی ہزیمت کھا گئے کافر

بھری تھی خاک آنکھوں میں سجھائی کچھ نہ دیتا تھا سوا اللہ اکبر کے سنائی کچھ نہ دیتا تھا

دلوں پر ہیبتِ حق چھا گئی کفار بھاگ اُٹھے پڑی جب دونوں جانب سے خدا کی مار بھاگ اُٹھے

دشمن کی اصل قوت کو تباہ کرنے کے لئے آپ نے ممکنہ تدابیر اختیار کیں اور جب ریت کے طوفان سے دشمن میں ابتری پھیلی تو آپ نے ٹھیک موقع پر حملہ کر کے اس کے قلبِ لشکر کو تباہ کر دیا یہاں ایک اور جنگی اصول اقدام کار فرما نظر آتا ہے۔ اقدام کے بغیر کوئی جنگ فیصلہ کن نتائج سے ہمکنار نہیں ہو سکتی۔ دفاعی طریقۂ جنگ زخم پر مرہم کا پھاہا تو رکھ سکتا ہے لیکن زخم کو مند مل نہیں کر سکتا۔ دفاعی جنگ میں آگے بڑھنے کا جوش و خروش اور منزل تک پہنچنے کا کوئی جذبہ نہیں ہوتا صرف اپنا دفاع مقصود ہوتا ہے اور اس مقصد کی خاطر وہ اپنے دائیں بائیں، آگے پیچھے دیکھتا رہتا ہے کہ وہ کس طرف سے نشانہ بنتا ہے، کس طرح وار روکنا ہے۔ نرغے میں آنے کا فکر لاحق رہتا ہے۔ نقل و حرکت کی آزادی اسے میسر نہیں ہوتی۔ جبکہ اقدام کرنے والی فوج جوش و خروش اور آگے بڑھنے کے جذبے سے معمور ہوتی۔ جبکہ اقدام کرنے والی فوج جوش و خروش اور آگے بڑھنے کے جذبے سے معمور ہوتی ہے۔اسے نقل و حرکت کی پوری پوری آزادی ہوتی ہے۔ جنگ بدر میں اگر آنحضرت ﷺ نے اپنی محدود فوج کے پیش نظر دفاعی خط قا؛ئم کیا تھا مگر مناسب وقت پر اچانک اقدام بھی کیا اور دشمن کے دائیں بازو پر اپنے دستوں کو لا جمع کیا۔ اس طرح آپ نے نہ صرف دفاعی جنگ ہی کے اصول پر عمل کیا بلکہ اقدام کے اصول کو بھی پوری طرح برتا۔

لشکر کشی:

فنِ لشر کشی کے مندرجہ ذیل اصول ہوا کرتے ہیں۔

1. ایسی جگہ دشمن کو لڑنے پر مجبور کیا جائے جو اپنے لئے مفید ہو۔

2. منتخب کردہ میدانِ جنگ میں پہلے پہنچا جائے تاکہ لڑائی کے شروع ہونے تک تازہ دہم ہونے کا موقع مل سکے۔

3. اپنے دشمن کو اس بات کا اندازہ لگانے کا موقع نہ دیا جائے کہ اسے کس چیز کی مدافعت کرنی ہے اور کس جگہ حملہ آور ہونا ہے۔

4. دشمن کے مقصد سے آگاہ ہونا۔

5. غیر متوقع راستوں سے حملہ آور ہونا۔

مذکورہ اصولوں کی روشنی میں اسلامی لشکر کو بدر تک اور پھر بدر کے میدان میں آنے تک دیکھیے۔ رسولِ عربی ایسے راستوں سے بدر تک پہنچے کہ دشمن کو اس کی اطلاع نہ ہو سکی اور نہ اس امر کاان پر انکشاف ہو سکا کہ آپ ﷺ تجارتی قافلے پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں یا لشکرِ قریش سے مقابلہ کے لئے بڑھ رہے ہیں۔ نیز آپ کس جگہ مقابلہ کرنے والے ہیں۔ اس کا بھی اسے اندازہ نہیں ہو سکا۔

حفاظت:

لڑائی میں تحفظ کی بہترین شکل یہ ہے کہ اپنے ارادوں کو دشمن پر مسلط کر دیا جائے جنگِ بدر میں آپ نے حفاظت کی تمام صورتیں اختیار فرمائی تھیں۔ اگلی صفوں کی حفاظت کے لئے بہترین جگہ پر تیر اندازوں کو مقرر کیا تھا۔

قوت کا محتاط استعمال:

فوجوں کی تقسیم ایسی ہو جس سے ہر سپاہی کو اپنی صلاحیت کے مطابق کام کرنے کا موقع ملے تا کہ زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو سکے۔ حالات کے مطابق فوج کی تقسیم برائے محاذ اور برائے عقب کی بجائے۔ دشمن کو نرغے میں لینے کے بعد اپنی قوت اور اپنے وسائل کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اگر اسے کچلنا بس میں ہو تو صفایا کر دیا جائے ورنہ اسے بے جگری سے لڑنے پر مجبور نہ کیا جانا چاہئے بلکہ ایک طرف سے نکل جانے کا راستہ دے دینا چاہئے۔ سپہ سالارِ اسلام نے جنگِ بدر میں اپنی مختصر سی قوت کا استعمال بڑی احتیاط سے کیا۔ ۳۱۳ سپاہیوں کو نہ صرف محاذ اور عقب کے دستوں میں منقسم کیا بلکہ محفوظ دستے بھے علیحدہ رکھے تاکہ بوقت ضرورت کام آئیں۔ دشمن پر اس وقت تک تیر اندازی نہیں کی جب تک وہ پوری طرح زد میں نہیں آگیا۔ اور تیروں کے ضائع ہونے کا احتمال باقی نہیں رہا۔

جنگ کے خاتمے پر آپ نے ساری طاقت کا جائزہ لیا اور دیکھا کہ اپنے پاس اونٹوں کی بہت قلت ہے۔ اسی لئے آپ ﷺ نے اسے گھیرے میں لینے کی بجائے پسپا ہونے کا موقع دیا۔ یہ قوت کا محتاط استعمال تھا جس کی وجہ سے جنگِ بدر میں آپ ﷺ کے صرف بارہ سپاہی شہید ہوئے اور اس کے مقالے میں دشمن کے ستر آدمی ہلاک اور اسی قدر گرفتار ہوئے۔

حرکت پذیری اور تعاون:

یہ دو اصول جنگ میں اہم کردار ادا کیا کرتے ہیں۔ لشکریانِ اسلام کی ہمیشہ یہ خصوصیت رہی کہ وہ تیزی سے آتے، نہایت سُرعت سے اپنے مورچے قائم کرتے اور لڑائی کے میدان میں برق رفتاری سے دشمن کی صفوں پر ٹوٹ پڑتے۔ یہ باہمی تعاون کی طاقت تھی جس کی بنا پر تیر اندازوں نے ٹھیک وقت پر اس طرح تیر برسائے۔ اقدام کرنے والے دستوں نے مناسب وقت پر اس طرح پیش قدمی کی کہ دشمن کو کثرتِ تعداد کے باوجود نقصان اُٹھانا پڑا۔

مذکورہ اصولوں کے علاوہ بھی کچھ امور ہیں جو جنگ کی کایا پلٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ مثلاً زمین کا ماہرانہ استعمال، حربی چالیں، جاسوسی کا نظام اور منصوبہ سادہ ہونا۔

زمین کے استعمال کو لیجیے۔ لڑائی میں نشیبی زمین کا انتخاب نقصان دہ ہوتا ہے۔ روشنی اور دھوپ کا خیال رکھنا پڑتا ہے تاکہ لشکر میں بیماریاں نہ پھوٹ پڑیں۔ اس بات کا بھی لحاظ کرنا پڑتا ہے کہ بوقت مقابلہ سورج سپاہیوں کے منہ پر پڑ کر ان کی آنکھوں کو چندھیا نہ دے۔ اس امر کا دھیان رکھنا ہوتا ہے کہ دفاع اور پیش قدمی ہر دو صورتوں میں سدّراہ بننے والی کوئی چیز نہ ہو۔

قافلہ سالار سردارِ دو عالم جناب حضرت محمد ﷺ نے جنگ بدر میں زمین کا ماہرانہ استعمال کیا۔ آپ ﷺ نے چشمہ پر پوری طرح قبضہ کر لیا۔ تیر اندازوں کو بہترین جگہ متعین کیا۔ اور اس بات کا بھی لحاظ رکھا کہ جنگ کے وقت سورج کی شعاعیں مجاہدین کی آنکھوں تک رسائی پا کر خلل انداز نہ ہوں۔ نیز اپی نقل و حرکت سے دشمن کو ایسی جگہ پڑاؤ ڈالنے پر مجبور کیا جو ریتلی ہونے کے باعث اس کے لئے مشکلات کا سبب بنی۔

وادیٔ بدر کا ذرہ ذرہ گواہ ہے کہ سیلِ سیہ کاری کے مقابلے میں جب نورِ خدا بہرضیا باری صف آرا ہوا تو اس وقت ایک طرف آہن پوش سوار اور زرہ پہنے ہوئے گھوڑے، ریشم کی کمندیں اور لوہے میں گوندھے ہوئے کوڑے تھے۔ اونٹوں کی قطاریں اور خیمہ خرگاہیں تھیں تو دوسری طرف نہتے مسلمان تھے۔ ایک طرف چنگ ودف اور رقص و نغمہ کی طرب کوشی تھی تو دوسری طرف ذکرِ خدا سے معمور دل، ایک طرف بھوکی نگاہیں تھیں تو دوسری طرف استغناء۔ اتنے واضح فرق کے باوجود کامیابی جو مسلمانوں کا مقدر بنی اس کا باعث جہاں نماز عجز کے سجدوں سے تڑپتی ہوئی جبینیں اور سینے میں چٹانوں کی طرح مضبوط ارادے تھے۔ وہاں دانشمندانہ حربی چالیں، فنی مہارت اور کمال تدبر بھی تھا، دشمن کو آگے بڑھنے کا موقع دینا اور پھر اچانک ان پر تیروں کی بوچھاڑ کر دینا اس حقیقت کا بین ثبوت ہے۔

فوج خواہ کیسی ہی کیوں نہ ہو بغیر جاسوسوں کی مدد کے کامیاب نہیں ہو سکتی۔ فتح پانے کے لئے دشمن کے وسائل، ارادوں اور نقل و حرکت کا علم ہونا ضروری ہے۔ لشکر اسلام کے لئے جاسوسی کا مکمل انتظام تھا۔

جہاں تک منصوبے کی سادگی کا تعلق ہے ہر اچھے سپہ سالار کی طرح پیغمبر اسلام نے بھی اس امر کا خیال رکھا کہ جنگ کا منصوبہ ان کے وسائل اور بساط سے باہر نہ ہو۔ نیز منصوبہ بدلتے حالات کا ساتھ دے سکے، بوقت ضرورت اس میں ترمیم یا اضافہ کیا جا سکے۔ آپ ﷺ کی جنگی چالوں سے دشمن کو نہ صرف محاذ کی سمت بدلنی پڑی بلکہ ایسی جگہ محاذ قائم کرنا پڑا جہاں نہ پانی تھا اور نہ جانوروں کے لئے چارہ۔ سورج منہ کی طرف تھا، ہوا مخالف سمت سے تھپیڑے لگا رہی تھی۔ زمین ریتلی اور دلدلی تھی۔

جنگ اُحد میں گو مسلمانوں کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ تاہم سپہ سالارِ اسلام کی شخصیت حربی مہارت اور ان کے آہنی عزم کا یہ روشن ثبوت تھی۔ تیر انداز سپہ سالار کی واضح ہدایت کے خلاف پہاڑی سے نیچے اتر آئے تھے جس کی بنا پر خالد بن ولید کو موقع مل گیا تھا کہ اپنے پسپا ہونے والے لشکر کو یک جا کر کے منتشر مسلمانوں پر ہلہ بول دے لیکن ان نازک حالات میں آپ ﷺ کی شخصیت نے جوہر نمایاں انجام دیئے۔ آپ ﷺ اپنے چند جاں نثاروں کے ساتھ پہاڑ پر چڑھ گئے اور ایک مورچہ بنا کر دشمن پر سنگ باری شروع کر دی۔ آپ ﷺ زخمی ہو گئے اور دندان مبارک شہید ہو گئے لیکن ہمت نہیں ہاری۔ بدستور دشمن کی مزاحمت کرتے رہے۔ یہاں تک کہ دشمن کو میدان چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ جنگیں محض مادی وسائل کے ذریعے ہی نہیں جیتی جا سکیں۔ بعض اوقات فتح کا کوئی امکان نہ ہونے کے باوجود کوشش اور آہنی عزم کامیابی کا وسیلہ بن جاتے ہیں۔ سرکارِ مدینہ نے اس جنگ میں سکونِ اور استقلال کا دامن مضبوطی سے تھام کر حالات کو سنبھالا دیا۔ مسلمانوں کے میدانِ جنگ سے اکھڑتے ہوئے قدموں کو دیکھ کر بھی آپ نے راہِ فرار اختیار نہیں کی بلکہ مورچہ بندی کر کے مقالہ کیا۔ یہ آپ کی بصیرت کا ثبوت تھا۔

تاریخ شاہد ہے کہ کم و بیش تمام جنگیں اقدام کرنے والی فوج نے جیتی ہیں اور دفاعی جنگ بالعموم ناکام رہی مگر غزوہ خندق ان مثالوں کا شاندار استثنیٰ ہے۔ یہ جنگ دفاعی جنگ تھی۔ مسلمانوں کے تین ہزار سپاہی دشمن کے سات ہزار سپاہیوں کے مقابلہ میں صف آرا تھے۔ محسنِ انسانیت رسول پاک ﷺ کے پیشِ نظر یہ امر بھی تھا کہ دھرتی کا سینہ انسانی خون سے جہاں تک ممکن ہو رنگا نہ جائے۔ چنانچہ حملہ آوروں کی راہ میں خندق کھود کر آپ ﷺ نے نہ صرف دشمن کے عددی تفوق کو زائل کیا بلکہ خون آشامی سے بھی حتی الوسع گریز کیا۔

اپنی مہارت فنی کی بدولت آپ ﷺ نے موسم کی تبدیلی سے پورا پورا فائدہ اُٹھایا۔ آپ نے دیر تک دشمن کو مصروف رکھا اور جب موسم خراب ہو گیا تو اسے اپنا محاصرہ اٹھا لینا پڑا۔ آپ نے نہایت احتیاط کے ساتھ جنگ کا نقشہ ترتیب دیا۔ مدینے پر بڑا حملہ شمال اور مغرب ہی کی طرف سے ہو سکتا تھا لہٰذا ان اطراف میں خندق کے ذریعے دفاعی حصار قائم کیا۔ جنوب اور مشرق کے تنگ راستوں سے پیادہ فوج شہر میں داخل ہو سکتی تھی وہاں آپ نے قلعہ بندی کر کے تیر انداز متعین کیے تاکہ دشمن آگے نہ بڑھ سکے۔ ان سمتوں کی پہاڑیوں پر چوکیاں قائم کیں تاکہ دشمن کی راہ میں رکاوٹیں حائل رہیں۔

یہی تدبّر، یہی بصیرت، یہی عزم و استقلال غزوۂ خیبر میں بھی ہے اور دیگر چھوٹے چھوٹے معرکوں میں بھی۔ فتح مکہّ کا جائزہ لیں تو رسولِ عربی کے درد مند دل سے رحمت کی اُٹھتی ہوئی گھٹائیں فضا کا تکدّر اور انسانی غلطیوں کی پردہ داری کرتی نظر آئیں گی۔ اس کا عفوِ عام وحشت دور کرتا اور حیاتِ نو مژدہ سناتا نظر آئے گا۔

میدانِ جنگ میں شہنشاہ دو جہاں کا ایک اور رُخ بھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ جب رات کی سیاہی تمام افواج کو تھپک تھپک کر سلا دیتی تھی یہ اسلام کا ہادی درگاہِ باری میں سجدہ ریز ہوتا تھا۔ اس کی روشن جبین طاعت گزاری میں مصروف ہوتی تھی۔ اس کی پُر انوار آنکھیں اشک کی لڑیاں پروتی تھیں۔ ایک طرف افرادِ امت خوابِ راحت کے مزے لوٹتے تھے تو دوسری طرف فکرِ امت میں محمد ﷺ کی زبان وقفِ دعا ہوتی تھی۔ اور دن کے اجالے میں سپہ سالار اور لشکریاں، اسلام اس حکم ربّانی کا عملی مجسمہ ہوتے تھے۔

''اے ایمان والو! جب تمہاری مڈ بھیڑ ہو جائے کسی دشمن فوج سے تو ثابت قدم رہو اور اللہ کا ذکر کرو۔ امید ہے تم فلاح یاب ہو گے۔ (انفال)

کفار اور دیگر اعدائے دین نے ہمیشہ مسلمانوں کی مخالفت کی ہے اور وہ آئندہ بھی مسلمانوں کے خلاف جنگ آزما ہوتے رہیں گے۔ ان کے فتنہ سے بچنے کا صرف ایک ذریعہ ہے اور وہ یہ ہے کہ دنیائے اسلام متحد ہو کر کفارِ عالم اور دشمنانِ دین کے مقابلہ پر اُتر آئے۔ احکامِ خداوندی اور رسول اللہ ﷺ کی قائم کردہ مثالوں کو مشعلِ راہ بنائے۔ اگر یوں نہ کیا گیا تو سُن لیجئے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہوتا ہے۔

إِلَّا تَنْفِرُوْا

اگر تم میدانِ جنگ کی طرف اپنی فوجوں کے ساتھ کوچ نہیں کرو گے۔

يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا

تو تم پر بہت بڑا عذاب ڈالا جائے گا۔

وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيرَكُمْ

اور تمہاری جگہ تمہارے علاوہ دوسرے قوم کو دے دی جائے گی۔

ماخذ

1. قرآن کریم

2. جہاد ازبریگیڈیر گلزار احمد

3. اسلام اور روا داری مولانا رئیس احمد جعفری ندوی

4. شاہنامہ اسلام حفیظ جالندھری

5. حدیثِ دفاع میجر جنرل محمد اکبر خان

6. رسول ﷺ میدانِ جنگ میں میر واجد ترمذی

7. اسلامی جنگیں میر نعیم احمد جامعی