فہرست مضامین

نعت گوئی کے آداب اور حدودِ شرعیہ

مکرمی!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔

نعتِ نبویؐ، معروفِ صنفِ سخن ہے۔ مسلمان ہی نہیں غیر مسلم شعراء نے بھی بارگاہ نبوت میں ہدیۂ عقیدت پیش کیا ہے۔ نعت گوئی کے مندرجہ ذیل پہلوؤں پر شرعی اعتبار سے روشنی ڈال کر رہنمائی فرمائیے!

1. نعت گو شعراء عام طور پر مبالغہ سے کام لیتے ہیں۔ مبالغہ کس حد تک جائز ہے؟

2. عام نعت گو شعراء نبی اکرم ﷺ سے براہِ راست تخاطب کرتے ہیں۔ کیا یہ جائز ہے اگر جواب اثبات میں ہو تو بالتفصیل وضاحت فرمائیں۔

دعا خوا ہ

۷۵/۸/۲۹ اختر راہی

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ۸؍ ستمبر ۷۵؁ء

محترمی و مکرمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ

آپ کا عنایت نامہ ملا۔ صرف نعت ہی نہیں ہر طرح کے کلام میں مبالغہ صرف اس حد تک جائز ہے کہ اس کے پیچھے یا اس کے نیچے اصل حقیقت بالکل چھپ کر یا دب کر نہ رجائے بلکہ ہر سامع و قاری بآسانی سمجھ لے کہ حقیقتِ نفس الامری کیا ہے جسے مبالغے کے رنگ میں بیان کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر یہ شعر ہے۔

حُسنِ یوسف، دَمِ عیسیٰ، یدِ بیضا داری

آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

اس شعر کے پہلے مصرع میں مبالغہ تو ہے لیکن دوسرے مصرعے نے یہ واضح کر دیا ہے کہ مقصودِ کلام یہ ہے کہ ہمارے نبی ﷺ کے معجزات و صفات میں جامعیت اور ہمہ گیری تھی۔ دوسرا شعر یہ ہے۔

کیا شانِ احمد کا چمن میں ظہور ہے

ہر گُل میں ہر چمن میں محمد کا نور ہے

اس شعر میں ایسا مبالغہ ہے جس کی اجازت ذاتِ باری کی شانِ وحدانیت و خلاقیت نہیں دیتی اور اس کے ڈانڈے شرک سے جا ملتے ہیں۔

3. نبی ﷺ سے براہِ راست تخاطب میں کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ اس کی پشت پر یہ عقیدہ کار فرما نہ ہو کہ آنحضور ﷺ ہر خطاب کو بلا واسطہ اور بلا استثناء اس طرح سن رہے ہیں جس طرح اس دنیا میں ایک متکلم دوسرے کا کلام سنتا ہے۔ اس کے بجائے اسے عالم تصوّر کا خطاب سمجھنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ اگر چاہے گا اور ہمارے ہدیۂ عقیدت کو اس قابل سمجھے گا تو آنحضور ﷺ تک اسے پہنچا دے گا۔

4. عام نعت گو شعراء جس طرح رسول اکرم ﷺ کو معشوقِ نازنین فرض کر کے آپ کے سراپا کی تفصیل بیان کرتے ہیں اور آپ ﷺ کے جسد عنصری بلکہ اعضائے مبارک کی تعریف کرتے ہیں۔ یہ اندازِ کلام ناپسندیدہ اور سوئے ادب کا پہلو رکھتا ہے۔ آنحضور ﷺ کے شمائل و محاسن بیان کرتے وقت وقار و متانت اور تعظیم و تقدیس کی روش اختیار کرنی چاہئے۔

خاکسار

ابو الاعلیٰ

حضرت مولانا حافظ محمد صاحب گوندلوی

الجواب بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

1. مبالغہ ایسا جائز نہیں ہے کہ جسم میں رسول اللہ ﷺ کو مقامِ نبوت اور مقامِ رسالت سے اٹھا کر الوہیت کے حدود میں داخل کر دیں۔ اس طرح کرنا ناجائز ہے۔ باقی مقامِ رسالت کے اندر ہر قسم کی تعریف جائز ہے۔ مثلاً عصمتِ انبیاء کے عقیدہ سے حسان بن ثابت کا یہ شعر۔

خُلقْتَ مُبَرَّءً مِّنْ کُلِّ عَیْبٍ کَاَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَاءٗ

2. اگر خطاب کرنے والا اس عقیدہ سے خطاب کرے کہ رسول اللہ ﷺ حاضر و ناظر ہیں تو پھر یہ حرام ہے۔ شرک و کفر تک پہنچ سکتا ہے۔ اگر صرف محبت کے اظہار کے لئے ہو یا درود و صلوٰۃ میں اس لئے خطاب کرتے ہیں کہ فرشتے درود کو نبی اکرم ﷺ تک پہنچاتے ہیں تو اس صورت میں جائز و درست ہے۔

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب

الجواب ومنہ الصدق والصواب

حضور اقدس ﷺ کی تعریف کرنا نظم میں اور نثر میں بہت بڑی سعادت ہے اور بڑے اجر و ثواب کا باعث ہے۔ البتہ شریعتِ اسلامیہ میں چونکہ حدود کی رعایت کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ لہٰذا نعت گوئی میں جھوٹ کی تو بالکل گنجائش نہیں اور ایسا مبالغہ جو حدود جھوٹ میں داخل ہو وہ بھی جائز نہیں۔ تشبیہ اور استعارہ کلام میں استعمال کرلیا جائے تو اس کی گنجائش ہے اور صیغۃ حاضر سے خطاب کرنا اس عقیدے کے ساتھ تو بالکل ہی حرام ہے کہ آپ کو حاضر و ناظر سمجھا جائے اور اگر یہ عقیدہ نہ ہو بلکہ اس تصوّر و تخیل سے خطاب ہو کہ جیسے میں آستانہ میں حاضر ہوں تو اس کی گنجائش ہے مگر بچنا اس سے بھی افضل ہے کیونکہ بہت سے عوام اس طرح کے شعر سن کر حاضر و ناظر والے عقیدے ہی کی طرف ذہن لے جاتے ہیں۔

حضرت مولانا محمد یوسف بنوری

الجواب باسمہ تعالیٰ

نعت گوئی مبارک ہے۔ مبالغۃ اگر حدود شرعیہ سے تجاوز نہ کرے تو گنجائش ہے۔ وہ مبالغہ جو کفر و شرک اور صریح جھوٹ پر مشتمل ہو کسی حال میں درست نہیں۔ صیغۂ تخاطب کا استعمال شعراء کے یہاں عام ہے۔ اگر عقیدہ حاضر ناظر نہ ہو تو جائز ہے ورنہ نہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔

حضرت مولانا محمد چراغ صاحب

الجواب

1. شعر کی بنیاد ہی مبالغہ پر ہے اس لئے شعر میں مبالغہ کی گنجائش ہوتی ہے۔ بشرطیکہ کسی نص قطعی یا عقل کے خلاف نہ ہو۔ نعتِ نبوی میں بھی اس حد تک جائز اور روا ہے۔ آنحضرت ﷺ کا فرمان ہے لا تطرونی کما اطرت النصاری عیسی ابن مریم۔ میری مدح اور تعریف میں عیسائیوں کی طرح مبالغہ آرائی نہ کرنا۔ اس فرمان میں آنحضرت ﷺ نے عیسائیوں جیسی مبالغہ آرائی سے منع فرمایا ہے۔ مطلقاً مبالغہ آرائی سے منع نہیں فرمایا۔

2. شعر میں ممدوح کو مخاطب کرنا شعراء کا عام معمول ہے۔ عربی اشعار اس سے بھرے پڑے ہیں۔ اس تخاطب سے مراد محبت، دلی وابستگی اور تحسّر ہوتا ہے۔ ایسا تخاطب تو جائز ہے۔ لیکن اگر اس تخاطب سے مراد ممدوح کو پکارنا ہو اور یہ خیال کرنا ہو کہ مخاطب ہماری بات کو سن رہا ہے۔ اور وہ حاضر و ناظر ہے تو ایسا تخاطب جائز نہیں ہو گا۔ یہ صفت تو صرف اللہ جل شانہ کی ہے اس میں اس کا کوئی شریک نہیں۔

واللّٰہ تعالٰی اعلم

مفتی جمیل احمد تھانوی

الجواب

1. اس حد تک کہ کوئی ناجائز، یا گستاخی یا دوسرے انبیاء کی تحقیر یا صفات باری میں شریک نہ کیا جائے ورنہ گناہ بن جائے گا۔ خود صفات و خصوصیات اس قدر ہیں کہ ان کا بیان دفتروں کے دفتروں سے پورا نہیں ہو سکتا۔ مبالغہ کی ضرورت وہاں ہوتی ہے جہاں اصل کمالات نہ ہوں یا کم ہوں مگر ناجائز تک نہ پہنچیں تو گوارا ہے۔

2. براہِ راست تخاطب کی چند صورتیں ہیں بعض شرک، بعض گناہ بعض جائز ہیں۔ اگر یہ سمجھا کہ حضور ﷺ بھی حق تعالیٰ کی طرح ہر جگہ موجود (بوجود علمی) اور دیکھنے سننے والے حاضر و ناظر ہیں تو خدائی صفت میں شریک کرنا ہے شرک و کفر ہے اور نمبر ۲ اگر یہ سمجھا کہ ہماری پکار و خطاب کو فرشتے حضور ﷺ تک پہنچا دیتے ہیں تو یہ بے ثبوت ہے صرف درود شریف پہنچانا ثابت ہے اور نمبر ۳ اگر حضور اکرم ﷺ کا تصور مبارک ذہن میں لےکر کہتے ہیں تو یہ جائز ہے کہ تصوّر ہر شے کا ہو سکتا ہے اس میں کوئی خلل نہیں اور بزرگوں کے کلام میں یہ موجود ہے۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں۔

یا صاحب الجمال ویاسید البش ر

من وجھک المنیر لقد نور القمر

لا یمکن الثناء کما کان حقہ

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

التحیات میں السلام علیک ایھا النبی موجود ہے اور سب مسلمانوں کو پڑھنا واجب ہے اور ساری دنیا اس میں شریک ہے کہ ہر زندہ اپنے مردہ کو کہا کرتا اے فلاں تو ایسا تھا ویسا تھا تو یہ شریک نہیں، جرم نہیں درست ہے کہ تصوری بات ہے۔

مولانا عزیز زبیدی واربرٹن۔

الجواب

مبالغہ جائز ہے، نہ کہ غلو:

جسے ہم مبالغہ کہتے ہیں، شاعری میں ''حسن'' کہلاتا ہے۔ فکر و نظر کی ندرت، رفعت، رعنائی اور دلربائیاس کی وہ زمین ہے جہاں سے شاعری کے گل و لالہ اُگتے، پھلتے اور پھولتے ہیں۔ گویا کہ ایک حد تک مبالغہ، شعر کے پیرایۂ بیان کا طول و عرض ہے، جس سے اُسے بالکلیہ پاک رکھنا ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ بات جہاں آکر بگڑتی ہے وہ صرف مبالغہ نہیں وہ اسراف اور غلو ہے جو جاہلی شاعری کی جان اور خمیر ہے اور اس میں یہ آفت دو طرح سے داخل ہوتی ہے۔

1. شاعرانہ تخیل کی بنیاد وہم پرستانہ ہو۔

2. یا وہ نفس پرستی اور عیاشی پر مبنی ہو۔

کیونکہ اب شاعری بام ثریا سے پستی کی طرف لڑھکنا شروع ہو جاتی ہے مگر شاعر کا بیمار ذہن اسے محسوس نہیں کر پاتا۔

وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا (کھف)

وہم پرستی:

وہم پرستی کی راہ سے ''جاہلیت'' کی مکروہ قدریں ایک ایک کر کے شاعری میں داخل ہوتی ہیں اور اسے داغدار کر کے رکھ دیتی ہیں۔ چنانچہ شاعری کا رخ بلندی کے بجائے پستی کی طرف ہو جاتا ہے جس کے منہ سے اب پھول نہیں جھڑتے۔ شرک و بدعت کے بگولے پھوٹتے ہیں۔ یہ مبالغہ ہے لیکن غالیا نہ۔

نفس پرستی:

نفس پرستی کی زمین سے ''شراب و کباب'' کی دنیا ابھرتی ہے جس کی وجہ سے شاعری نفس و طاغوت کی چاکری کے فرائض انجام دیتی ہے اور فسق و معصیت کے لئے راہیں ہموار کرتی اور ابن آدم کو بہیمیت کی راہ پر ڈال کر اس کی بہیمانہ پستیوں کا تماشا دیکھتی ہے۔یہ بھی مبالغہ ہے مگر مسرفانہ۔

یہ دو تو وہ داخلی امور ہیں جو نعت گوئی کی عافیتوں کو غارت کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ خارجی مفاسد بھی ہیں جن کی وجہ سے نفس نعت گوئی ''بجا'' ہونے کے باوجود ممنوع ہو سکتی ہے مثلاًاس کے ساتھ منہیات شامل ہو جائیں۔ جیسے:

1. ساز مثلاً طبلہ وغیرہ

2. فلمی لَے، بازاری اور غیر سنجیدہ گلوکاری، جیسے قوالوں کی قوالی ایاکم ولحون اھل العشق (مشکوٰۃ)

3. ایسا ماحول جونعتیہ کلام سے اتباع کے بجائے غلط تحریکات اخذ کرے۔ یا وہ کلام جو ماحول کے مزاج اور استعداد سے بالا تر ہو (کلموا الناس علی قدر عقولھم)

اگر کوئی شعر ان بیماریوں سے پاک ہے تو وہ مبالغہ نہیں، شاعرانہ رفعتیں ہیں، روح القدس سے جن کی تائید کی توقع کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ ایسی شاعری سنجیدگی اور روحانی قدروں کے منافی نہیں رہتی۔ کیونکہ شاعر بات کی معنوی رعنائیوں کے موتی شاعری کی پاکیزہ لڑی میں پرو کر آپ کے سامنے رکھنے کا اہتمام کرتا ہے۔ کچھ برا نہیں کرتا۔ اصل بات ذوق و شعور کی خواصی کی ہے، جو شخص اس باب میں جتنا راسخ ہوتا ہے، اس کے کلام میں اتنا ہی اچھوتا پن پایا جاتا ہے جسے کم ذوق انسان مبالغہ تصور کرتا اور ایک باذوق شخص اس کو ایک نادر ''دریافت'' تصوّر کر کے اس کی داد دیتا ہے۔ بہرحال نعت گوئی میں ''مطلق مبالغہ'' برا نہیں، غالیانہ یا مسرفانہ برا ہے۔ اب اگر کوئی شخص رسولِ کریم ﷺ کے مقام و مرتبت، شرف و مزیت یا آپ کے فکر و عمل کی ندرت، دلآویزی اور معنوی حسن و جمال کے لئے حسین اور محیر العقول پیرایۂ بیان اختیار کرتا ہے تو اس کی حوصلہ شکنی ہم مناسب نہیں سمجھتے۔

یٰا۔ براہ راست تخاطب:

یہ بھی دراصل ''مبالغہ'' کی ہی ایک شکل ہے۔ اس میں بھی ''حضورِ مخاطب'' والی بات نہیں ہوتی دراصل اپنی طبیعت کے ''استحضار'' کی بات ہوتی ہے۔ یوں تصور کیا جائے کہ شاعر و فورِ جذبات کی وجہ سے اپنے آپ کو ''ممدوح''کے پاس محسوس کرتا ہے۔ یہ نہیں کہ اسے اپنے پاس حاضر کرتا ہے۔ یہ وہ اعتباری فرق ہے جسے کم سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے اس لئے جو بات بالکل سادہ تھی، وہ بتنگڑ بن گئی ہے انسان کے ذہنی تصورات کی حد پرواز کا یہ اعجاز ہوتا ہے، ذہنی ممدوح کا نہیں۔ یہاں ٹریفک یک طرفہ ہے مگر احباب اسے دو طرفہ بنا کر دو انتہاؤں کی طرف چلے گئے ہیں، ایک نے اس سے ممدوح کے حاضر و ناظر کا فلسفہ ایجاد کر لیا، دوسرے نے اسے شرک و بدعت کی باعت تصور کرلیا۔

ایک شاعر: سینکڑوں میلوں سے اپنے ممدوح کے در و دیوار کو مخاطب کرتا ہے۔ گھر بیٹھے پھول سے باتیں ہوتی ہیں۔ چاند اور ستاروں سے خطاب کیا جاتا ہے اور اجڑی بستیوں سے حالپوچھا جاتا ہے کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ کوئی شاعر انہیں حاضر و ناظر خیال کرتا ہے۔ دراصل یہ بات ممدوح کی بات نہیں اپنے اپنے ذہنی استحضار کی بات ہے۔ اگر کوئی شخص واقعی ممدوح کو حاضر و ناظر تصور کر کے مخاطب کرتا ہے تو وہ ذہنی بیمار ہے، اس کی کوئی بھی بات قابلِ اعتبار نہیں ہے، دنیا میں خوش فہم اور بے مغزے بھی تو آخر رہتے ہی ہیں مگر بچوں یا بے عقلوں کی حرکتوں کو کوئی اپنا مذہب نہیں بنا لیا کرتا، الا یہ کہ وہ بھی بچہ یا بے عقل ہو۔ بہرحال یہ کہنے والے کی افتادِ طبع پر منحصر ہے کہ وفورِ جذبات کی بنا پر اپنے ذہنی استحضار کی بات کر رہا ہے یا اپنے ممدوح کی اگر شاعرانہ طبیعت کے استحضار کا نتیجہ ہے تو کچھ برا نہیں۔ ورنہ برا ہی برا ہے۔ جو شعراء پہلے ہو گزرے ہیں جب تک ان کا ذہنی پس منظر معلوم نہ ہو اس وقت تک ہم اسے ذہنی استحضار کی بات تصور کریں گے کیونکہ یہ قدرتی بھی ہے اور عام بھی۔ اس لئے ہم اس حد تک اسے جائز تصور کرتے ہیں۔

عزیز زبیدی۔ واربرٹن۔

ضلع شیخوپورہ

جناب ماہر القادری صاحب

۲۱؍ اگست ۷۵؁ء

جناب مکرم۔ السلام علیکم

یاد آوری کا دلی شکریہ! اپنے دونوں سوالوں کے جواب ملاحظہ فرمائیے۔

1. اللہ تعالیٰ کے بعد مخلوقات میں سب سے افضل و اعلیٰ اور برتر و برگزیدہ رسول اللہ ﷺ ہیں اس لئے حضور کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ امام الانبیاء، سرور دو جہاں، سید البشر، افضل الخلق، حجۃ الکبریٰ، آیت اللہ ....... اس قسم کی مدح و نعت مبالغہ نہیں ہے۔

آج یوسفؑ بھی ان کی غلامی میں ہیں تو نے دیکھا زلیخا ہمارا نبی

نبی سارے ہیں خدّام محمد

ہر نبی کو سند نبوت کی آپ ﷺ کے آستاں سے ملتی ہے

جبریل امیں خادم و دربان محمدؐ

نور سے نور ملا عرش پہ معراج کی رات

اس قسم کے اشعار میں وہ مبالغہ پایا جاتا ہے جو شریعت کی نگاہ سے پسندیدہ نہیں۔ مولانا احمد رضا خاں بریلوی کی نعتیہ غزل کا ایک شعر ہے۔ ؎

میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب یعنی محبوب و محب نہیں میرا تیرا

اس میں اللہ تعالی اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان دنیا کے دوستوں جیسی یک رنگی اور مساوات پائی جاتی ہے جس سے توحید مجروح ہوتی ہے۔ بندہ چاہے وہ نبی ہی کیوں نہ ہو اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان مرتبہ کا فرق، زمین و آسمان کے بعد سے زیادہ بعد ہے یہ تشبیہ بھی ناقص ہے۔

2. رسول اللہ ﷺ کو ''یا'' اس عقیدہ کے ساتھ پکارنا کہ رسول اللہ ﷺ ہر پکارنے والے کی پکار سن کر اس کا دکھ درد دور فرما دیتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنی خدائی کے تمام اختیارات حضور کی پکار سن کر اس کا دُکھ درد دُور فرما دیتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنی خدائی کے تمام اختیارات حضور کو سونپ دیئے ہیں، رزق، حیات، شفاء اور وجود و عطا سب آپ کے دستِ قدرت میں ہے۔ یہ عقیدہ مشرکانہ ہے اور اس عقیدے کے ساتھ ''یا'' کا تخاطب بھی شرک ہو گا۔

ہاں! ذوق و شوق میں ''یا'' منہ سے نکل جائے یا شعر میں نظم ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اس میں بھی جہاں تک احتیاط برتی جائے۔ بہتر ہے کہ اصل چیز ''توحید'' ہے۔ اس پر حرف نہیں آنا چاہئے۔ التحیات میں ''السلام علیک ایھا النبی'' پڑھا ہی جاتا ہے۔

شاعر میں بادِ صبا سے، چاند سے، پھولوں سے اور خود محبوب سے ''یا'' کے ساتھ خطاب کرتے ہیں اور یہ کوئی نہیں سمجھتا کہ بادِ صبا اور مہ و انجم صاحبِ قدرت اور صاحبِ سمع و بصر ہیں اور محبوب، محب کے خطاب کو سن رہا ہے اور سینکڑوں میل سے محبوب اپنے محب کی بے چینی دور کر دے گا۔ یہ جذبۂ محبت ہے جو ''یا'' بن جاتا ہے۔

پروفیسر منظور احسن عباسی

نعتِ پیغمبر ﷺ نہ تو حمدِ الٰہی کی طرح فرائض دینیہ میں سے ہے اور نہ سلاطین و امراء کی مدح و ستائش کی طرح معیوب و مکروہ ہے بلکہ ایک عمل مستحسن اور بعض صورتوں میں ذاتِ اقدس نبوی کے ساتھ رابطۂ مہر و ولا کا ایک ذریعہ ہونے کے باعث بہت بڑے اجر کا باعث بھی ہے۔

نعت کہنے والوں میں صحابیٔ آنحضرت ﷺ حضرت حسان بن ثابت کو درجۂ اولیت حاصل ہے جن کے اشعارِ نعت کو نبی اکرم ﷺ نے استماع فرما کر ان کی تحسین فرمائی۔ نعت گوئی کے لئے یہ واقعہ نہ صرف اس کے جواز کی دلیل ہے بلکہ یہ عمل مستوجبِ تحسین بھی ہے اور اگر اشعارِ نعت کے زیر اثر یہ واقعہ نہ صرف اس کے جواز کی دلیل ہے بلکہ یہ عمل مستوجبِ تحسین بھی ہے اور اگر اشعارِ نعت کے زیر اثر مستمعین کے قلوب میں ذات اطہر کے لئے محبت و الفت یا احترام و عقیدت کے جذبات اُبھرنے لگیں تو میرے نزدیک وہ نعت ذریعہ نجات ہے۔

اشعارِ نعت کی حقیقت یہ ہے کہ ان میں حضور ﷺ کی سیرتِ طیبہ، اسوۂ حسنہ اور محاسن و مکارم اخلاق کا ذکر کیا جائے اور چونکہ صفاتِ عالیہ کے نقطۂ نظر سے کوئی فرد بشر ان سے افضل و اشرف بلکہ ان کا سہیم و عدیل نہیں ہے اس لئے خواہ کتنی ہی خوبیوں کا مذکور ہو نعت نبوی میں مبالغہ کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا اس عاجز کا ایک شعر ہے۔

ہمتائے ذاتِ سید کون و مکاں نہیں

دونوں جہاں میں نہیں دونوں جہاں نہیں

خاتم الانبیاء ﷺ کی شان میں یہ حقیقت ہے کہ ان کے علاوہ جس کے لئے بھی یہ بیان ہو مبالغہ ہے۔ مبالغہ کے معنی یہ ہیں کہ حقیقت نفس الامر سے بڑھا کر کوئی بات کہی جائے۔ شعرا کے نزدیک اس باب میں جس قدر کذب بیانی سے کام لیا جائے اتنا ہی قابلِ قدر ہوتا ہے۔ چنانچہ مبالغہ آمیز اشعار کے بارے میں کہا جاتا ہے اکذبہ اعذبہ یعنی شعر میں دورغ ترین قول شیریں ترین تصور ہوتا ہے لیکن محاسن مجروہ میں سے جس خوبی کو بھی ذاتِ اقدس سے نسبت دی جائے وہ حقیقت کا اظہار ہو گا کیونکہ کائناتِ حسن و خوبی میں سے کوئی امر ایسا نہیں جو آپ میں موجود نہ ہو۔

آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

یہ صفت بھی فخر نبوت کی نسبت سے حقیقت اور ان کے ماسوا سب کے لئے مبالغہ ہے کیوں کہ فضل و شرف کے لحاظ سے خواہ کوئی ہستی کتنی ہی بلند ہو اس ذاتِ ارفع کے مقابلہ میں پست اور ادنیٰ ہے۔

واضح ہو کہ ہم نے جس فضل و شرف کا ذکر کیا ہے اس سے مراد وہ فضل و شرف ہے جو اللہ کے نزدیک معتبر ہے۔ اہل دنیا مال و دولت اور حکومت و اقتدار میں جس فرق مراتب کے قائل ہیں وہ حقیقی معنوں میں فضل و شرف نہیں ہے لہٰذا اگر آنحضرت ﷺ کی توصیف انسان کے خود ساختہ فضل و شرف کی نسبت سے کی جائے تو وہ نعت یا تمجید و توصیف نہیں بلکہ ہجویا تحقیر و تذلیل ہے نعوذ باللہ۔ مثلاً شہسواری، تیغ زنی، خوش خوراکی، خوش لباسی، محفل آرائی، جاہ و حشم یا فراوانی مال و متاع وغیرہ کی صفات سے ذاتِ اقدس کو متصف قرار دینا اور اسے نعت کہنا تعریف کی بجائے توہین ہے البتہ ان کی عالی حوصلگی، کفر شکنی، قناعت، حیا، تعلق باللہ اور مہبطِ انعاماتِ الٰہیہ ہونے کی نسبت سے جس قدر بھی توصیف کی جائے کم ہے۔

اللہ تعالیٰ کے نزدیک انسان کی سب سے بڑی خوبی طاعت و عبودیت ہے اور سب سے بڑا عیب سرکشی و خود سری ہے لہٰذا کوئی ایسی ستائش جس سے پیغمبر ﷺ کی کامل شانِ عبودیت کی ذرہ برابر بھی مخالفت کا شائبہ ہو وہ معصیت، ان کی شانِ نبوت کے منافی اور بارگاہِ نبوی میں سوء ادب کے مترادف ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اہلِ علم و بصیرت اپنے نعتیہ اشعار کے ذریعہ ایسے خیالات کے اظہار میں احتیاط سے کام لیتے ہیں جو حضور ﷺ کی شانِ عبدیت کے منافی ہوں اور قصیدہ گو شعراء کے عام دستور کے علی الرغم مبالغہ، غلو، محال اور خلاف عقل تحسینو و تعریف سے قطعاً گریز کرتے ہیں۔ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ اپنے ممد و حین امراء و سلاطن کی طرح اللہ کے محبوب ترین بندہ کو اس کی اپنی مرضی اور اس کے مقصد کے خلاف اللہ کا ہم مرتبہ بنا دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حضور کی سب سے بہتر مدح یا نعت وہ ہے جس میں ان کی سیرتِ طیبہ کے گوشوں کو پیش کیا گیا ہو کیونکہ ان کے فضل البشر، سید الانبیاء حبیبِ خدا اور رحمۃ للعالمین ہونے کی یہی سب سے بڑی دلیل ہے اور یہی وہ فضائل ہیں جو تمام کائنات میں کسی کو حاصل نہیں ہیں۔

واضح ہو کہ کمال احتیاط کے باعث بعض باخبر اصحاب نظم و نثر دونوں صورتوں میں بالفاظ ندا حضور کو پکارنے یا براہِ راست تخاطب کو پسند نہیں فرماتے اور میں ذاتی طور پر اشعار میں بار بار حضور کے اسمائے گرامی کے استعمال کو بھی ایک حد تک سوءِ ادب خیال کرتا ہوں۔ ؎

ہزار بار بشوئم دہن زشک و گلاب

ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی ست

تاہم ان دونوں باتوں میں زیادہ تشدد ضروری نہیں معلوم ہوتا تآنکہ یہ ندا یا تخاطب اللہ کو پکارنے یا منادی و مخاطب سے استجابت مدعا کی نیت سے یا اس کے مشابہ نہ ہو کیونکہ بہرحال اجابتِ دُعا یا حلِ مقاصد صرف ذات واحد کی خصوصیت ہے اور دانش مندی اس میں ہے کہ ماسوا اللہ کی مدح میں کوئی شائبہ شرک باللہ نہ ہونے پائے۔ اس باب میں میری رائے یہ ہے کہ ادبیاتِ نظم و نثر میں نبی اکرم ﷺ سے براہِ راست تخاطب کی ہر صورت میں قدغن ضروری نہیں ہے۔ خاص کر ان اصحاب کے لئے جو فکرِ صحیح کے مالک اور آدابِ دینی سے واقف ہوں۔

براہِ راست تخاطب کی بعض صورتیں ایسی ہیں جن میں مطلق شائبہ شرک نہیں ہے مثلاً ایک غریب الوطن اپنے وطن کو یاد کر کے اسے پکارتا ہے یا ایک مریضبے کس اپنے ماں باپ کو والہانہ آواز دیتا ہے یا شعراء اپنے اشعار میں اپنے محبوب سے مخاطب ہوتے ہیں۔ چنانچہ بعض نعتوں میں بھی دیارِ حبیب ﷺ یا مدینہ کی گلیوں یا بادِ صبا کو خطاب کر کے اظہار ذوق و شوق کیا گیا ہے۔ اس طرح کا تخاطب نہ صرف یہ کہ روا ہے بلکہ اہلِ دل کو اس سے باز رکھنا ممکن ہی نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب