حرفِ اوّل
ماہنامہ ''محدث'' اپنی زندگی کے چھٹے سال سے گزر رہا ہے اور اس عرصے میں سیرتِ رسول ﷺ پر کئی مضامین کے علاوہ ایک خصوصی اشاعت ''رسول مقبول نمبر'' (حصہ اوّل) اور اس کا ضمیمہ پیش کر چکا ہے۔ رسولِ مقبول نمبر ہماری توقعات سے کہیں بڑھ کر مقوبل ہوا۔ اہل قلم دانشوروں نے اپنی قلمی تعاون سے حوصلہ افزائی کی۔ احباب نے پرخلوص مشورے دیئے اور قارئین نے ''محدث'' کی پذیرائی میں کوئی کسر نہ چھوڑی یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تھا کہ اس نے ہماری بے مایہ کوششوں کو قبول عام بخشا۔
حصہ اوّل کے بعد ''حصہ دوم'' کا انتظار کیا جاتا رہا اور قارئین خطوط کے ذریعے بار بار اپنی بے تابی کا اظہار کرتے رہے مگر گاناگوں اسباب کی وجہ سے تعویق ہوتی رہی۔ ان اسباب کا تذکرہ اب ہمارے لئے روح فرسا ہے اور قارئین کے لئے اس میں دلچسپی کا کیا سامان ہو سکتا ہے اور بقول غالبؔ
سفینہ جب کہ کنارے پہ آلگا غالبؔ
خدا سے کیا ستم وجورِ ناخدا کہیے
زیرِ نظر اشاعت کو ہم نے خوب سے خوب تر بنانے کی کوشش کی ہے۔ کوئی ایسا مضمون شامل نہیں کر رہے جو کسی دوسرے رسالہ یا کتاب میں شامل ہو اور ہمارے قارئین بآسانی اس تک رسائی رکھتے ہوں۔ مولانا مناطر احسن گیلانی مرحوم اور مولانا عبد الماجد دریا بادی کے مختصر مضمون ''نوادر'' کی حیثیت رکھتے ہیں ''النادر کالمعدوم'' ایک حقیقت ہے۔ یہ مضامین تقریباً تیس سال پہلے شائع ہوئے تھے اور اس کے بعد کہیں اور نظر سے نہ گزرے۔ فلپ کے حتی کا مقالہ (مترجمہ وحید الدین خاں) ''معارف'' (اعظم گڑھ) کے شکریہ کے ساتھ نقل کیا ہے۔ ان کے علاوہ تمام مضامین ہماری درخواست پر اہل قلم نے تحریر فرمائے ہیں۔
رسولِ مقبول ﷺ پر اردو میں بیسیوں نہیں بلکہ سینکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور ان میں سے بعض ہزاروں صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں مگر اس ذخیرہ کتب پر معروف دانشور جناب ڈاکٹر برہان احمد فاروقی صاحب نے ایک جملے میں تبصرہ کیا کہآج کل تاریخ زیادہ اور سیرت کم لکھی جاتی ہے۔'' ڈاکٹر صاحب کا مقصود یہ تھا کہ عموماً رسول مقبول ﷺ کی زندگی اعداد و شمار اور سوانحات کی صورت میں پیش کی جاتی ہے اور غیر مسلم مستشرقین جن سے استناد آج کل فخریہ کیا جاتا ہے۔ ان کی تالیفات پڑھتے ہوئے صرف 'عظیم انسان'' کا تصورّ ابھرتا ہے مگر رسول ﷺ کی حیثیت ماند رہتی ہے۔ اُمتِ مسلم کا مسئلہ یہ ہے کہ رسولِ مقبول ﷺ کی حیثیتِ رسالت کو اپنا کر فلاح و نجاح حاصل کی جائے۔ بعض مضامین میں قارئین کو یہ شعوری کوشش کار فرما نظر آئے گی۔
زیر نظر اشاعت میں پہلا مقالہ پروفیسر منظور احسن عباسی کا ہے جس میں انہوں نے قرآن کی سورۃ الفاتحہ کے لفظ ''الحمد للہ'' کی روشنی میں آپ کے نام نامی، اسم گرامی، محمدؐ، احمدؐ کی نکتہ آفرینی فرمائی ہے جو بظاہر ''نام'' کے لحاظ سے تو ''نکات بعد الوقوع'' کی حیثیت رکھتی ہے لیکن مدبّر ازلی کا عبد المطلب سے ایسا نام رکھوانا جو پہلے عرب میں معروف نہ تھا اسے ''اتفاقات'' کے باب س نکال کر منشاء خداوندی کے تحت اسمِ گرامی کو آپ کے دنیا و آخرت کے صفات و خواص کا آئینہ دار بنا دیتا ہے۔ ہم نے رسول مقبول ﷺ نمبر کا افتتاح نام کی مسمی پر تقدیم اور اس کا جامع صفات و کمالات ہونے کی وجہ سے اس آرٹیکل سے کیا ہے۔ دوسرا مضمون مولانا نور محمد امینی کے رشحاتِ قلم میں سے ہے۔ انہوں نے ''حدیث'' کی روشنی میں رسولِ مقبول ﷺ کا ''چہرہ اقدس'' بیان فرمایا ہے۔
اس کے بعد مولانا گیلانی مرحوم کا مختصر سا مضمون ہے۔ انہوں نے ایک جملہ ''کچھ نہ تھا سب کچھ ہو گیا'' کو سارے مضمون کی روح بنا دیا ہے۔ مرحوم اپنے اندازِ بیان میں منفرد رہے اور اس کے خاتم بھی ہیں۔ ان کا یہ شہ پارہ، ادب اور سیرت کا عمدہ نمونہ ہے۔
جناب پروفیسر عبد الحمید صدیقی صاحب نے انگریزی زبان میں رسولِ مقبول ﷺ کی سیرت لکھی۔ پروفیسر صاحب تجدّد زدہ اور مغربی فکر سے متاثر طبقہ کے ذہنی خلجان اور خلفشار سے آگاہ ہیں اس طبقہ کے ذہنی کانٹے چننے میں خداداد بصیرت کے مالک ہیں۔ ان کی تالیفات کا یہ پہلو بہت نمایاں ہے انہوں نے نبی کریم ﷺ پر مخالفین کے اعتراضات کا جائزہ قرآن کی روشنی میں لیا ہے۔ اگر بغور دیکھا جائے تو یہی اعتراض برنگ دیگر آج بھی اُٹھائے جا رہے ہیں۔ پروفیسر صاحب کے انگریزی مقالہ کا ترجمہ جناب محمد اقبال شائق نے کیا ہے۔
پروفیسر صاحب کے مقالہ کے بعد جناب آباد شاہ پوری کا مقالہ ہے انہوں نے اختصار اور جامعیت سے نبی اکرم کی داعیانہ زندگی کے چند پہلوؤں اور منہاجِ دعوت پر روشنی ڈالی ہے۔ دعوت کا موزوں طریق کار ہی کسی تحریک کو زندہ رکھ سکتا ہے۔ اسلام کی قرونِ اولیٰ میں حیرت انگیز اشاعت کا راز یہی ''اندازِ عوت'' تھا۔ جب اس 'اندازِ دعوت'' کو نظر انداز کیا گیا تو پہلی سی تیزی اور ہمہ گیری نہ رہی۔
سید مودودی کی تحریروں سے ترتیب دیا ہوا مضمون ''مدینہ میں اسلامی معاشرہ اور ریاست کی تشکیل'' ان کی باقی تحریروں کی طرح فکر انگیز اور مربوط ہے۔
سلیم تابانی صاحب نے جناب رسالت مآب ﷺ کی جنگی پالیسی اور دفاعی نقطۂ نظر پر خوب لکھا ہے۔ ہمارے ہاں انیسویں صدی میں معذرت امیز سیرت نگاری کا رجحان رہا ہے۔ سر سید احمد خاں اور علی گڑھ مکتب فکر کے دوسرے اہل قلم اس رجحان کے نمائندہ تھے۔ شبلی علی گڑھ مکتبِ فکر کے ناقد ہونے کے باوجود اس ''تجدد گردی'' سے نہ بچ سکے اور جنگِ بدر کے بارے میں بعض ایسی باتیں لکھ دیں جو کتاب و سنت کے واضح بیانات کے خلاف ہیں اور آج شبلی مرحوم کی تحریریں چلتا ہوا سکّہ بن گئی ہیں۔ سلیم تابانی نے ان غلط فہمیوں کی اچھے انداز میں تصحیح کی ہے۔
طالب ہاشمی صاحب نے ''وفودِ عرب بارگاہ رسالت ﷺ میں'' میں حسنِ انتخاب کا حق ادا کیا ہے۔ انہوں نے وفود سے ملاقات کرتے ہوئے رسولِ مقبول ﷺ کے طرزِ عمل پر روشنی ڈالی ہے۔ اس گفتگو اور طرزِ عمل سے ''اسلامی ریاست'' کی خارجہ پالیسی کے بنیادی نکات مرتب ہوتے ہیں۔
مولانا دریا بادی نے سیرت کے ایک پہلو پر گفتگو کرتے ہوئے فتح مکہ (انقلاب عظیم) کو اپنی خصوصی توجہ کا مرکز بنایا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جسموں کے فاتح ہر دور میں مل جاتے ہیں مگر دلوں میں انقلاب پیدا کرنے والے کی نظیر ممکن نہیں ہے۔ ''سورۃ الفتح'' کی روشنی میں بہت سی قابل غور ہی نہیں قابلِ عمل باتیں کی ہیں۔ جوشِ کامرانی میں جو کچھ ہوتا ہے اس پر اچھے انداز میں گرفت کی ہے۔
عیسائی پادریوں اور غیر مسلم مستشرقین نے مسلمانوں کی خوں آشام تلواروں کا بڑا چرچا کیا ہے۔ حالانکہ نبی اکرم ﷺ کی زندگی کے تقریباً یک صد غزوات و سرایا میں صرف ڈیڑھ سو افراد کی جان ضائع ہوئی اور مدینہ کی ریاست میں روزانہ دو سو چوہتر مربع میل کا اضافہ ہوتا رہا جب کہ دورِ قریب کی ایک جھڑپ میں اس سے کہیں زیادہ افراد موت کے گھاٹ اترے۔ محترمہ شہناز اختر صاحبہ نے اپنے مقالہ میں نبی اکرم ﷺ کی عسکری زندگی کے متعلق لکھا ہے۔ اندازِ بیان بھی خوب ہے۔
مولانا عزیز زبیدی منجھے ہوئے قلم کار ہیں۔ انہوں نے آنحضرت ﷺ کے برپا کردہ ''نظامِ حکومت'' پر گفتگو کی ہے۔ کہ اس کا دائرۂ کار اور ذمہ داریوں کی حدود کا دائرۂ کار کہاں تک وسیع ہے؟
''عظمتِ رسول'' بزبان شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
اور غالبؔ کے الفاظ میں ؎
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم
کان ذات پاک مرتبہ دان محمد ﷺ است
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی نے قراان پاک کے حوالے سے اسی ایجاز و اختصار کو پھیلا کر پیش کیا ہے۔
قرونِ وسطیٰ میں عیسائی پادریوں نے اپنے ہم مذہبوں کو اسلام کی تعلیمات سے دور رکھنے کے لئے بے سروپا الزامات لگائے۔ مگر زمانہ کی بدلتی ہوئی رو کے ساتھ انہیں اپنا طرزِ عمل بدلنا پڑا۔ آج پادری نرویمر کا انداز تو ترک کر دیا مگر مقصد نگارش میں تبدیلی نہیں ہوئی۔ فلپ کے حٹی اسی گروہ کا نمائندہ ہے۔ اس مضمون سے مغربی لٹریچر میں نبی اکرم ﷺ کے بارے میں طرزِ عمل معلوم ہوتا ہے۔
فلپ کے حٹی کے مقالہ کے بعد چودھری عبد الحفیظ صاحب کا آرٹیکل ہے جس میں انہوں نے انسانیت کی بلند ترین شخصیتوں انبیائے کرام خصوصاً سرکارِ دو عالم حضرت محمد ﷺ کی سیرت کو بطور مثال پیش کرتے ہوئے دورِ غلامی کے پیدا کردہ اس ''تصوّر'' کو غلط قرار دیا ہے کہ اپنے کام خود اپنے ہاتھ سے سر انجام دینا یا دستکاری قسم کے پیشوں کو اپنانا عظمت کے منافی ہے بلکہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کے فرمانات کی روشنی میں ''اپنی خدمت آپ'' اور Social and Manual Work قسم کی سکیموں پر خیال آرائی کرتے ہوئے انہیں بنیادی طور پر دینِ فطرت ''اسلام'' کی روح قرار دیا اور ایسے لوگ جو اپنی مرعوبانہ ذہنیت کے پیدا کردہ احساس کمتری کی بنا پر اول تو ہاتھ سے کام کرنے کو عار سمجھتے ہیں ثانیاً اگر کبھی ایسی سکیمیں جذباتی رنگ میں شروع کرتے بھی ہیں تو اپنے مغربی آقاؤں کی تقلید میں، حالانکہ یہ چیزیں فطرت کا تقاضا ہونے کی بنا پر اصلاً دینِ فطرت کا حصہ ہے خواہ انہیں اغیار ہی کیوں نہ اپنائیں۔
جناب بشیر انصاری ایم۔ اے نے سیرت کا ایک سرسری جائزہ لیا اور چند تابندہ نقوش چنے ہیں جب کہ مولانا خالد سیف نے سیرتِ رسول ﷺ کے اصل تقاضا پر خیال آرائی کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ سیرت کا رنگ صحابہ کی طرح ہم پر چڑھنا چاہئے۔ ہمارے ہاں عموماً تقریر و تحریر سے آنحضرت ﷺ کو خراجِ عقیدت پیش کرنے پر اکتفاء کر لیا جاتا ہے حالانکہ نقوشِ سیرت کا تحفظ صرف اس طرح ہو سکتا ہے کہ سیرتؐ کی چھاپ انفرادی اور معاشرتی زندگی پر ہو۔
بخاریؒ کی کتاب ''الجامع الصحیح'' سورۃ حسنۃ کا جامع شاہکار ہونے کے ساتھ ''سیرت رسول'' کی حفاظتِ صحت کا ایک زندہ ثبوت ہے۔ اس دور میں انگریزی زبان کی عالمگیر حیثیت کے پیشِ نظر اس کا انگریزی ترجمہ وقت کی اہم ضرورت تھی۔ اتفاق دیکھیے کہ اس کے اولین مترجم مدینہ منورہ کے ڈاکر محمد محسن خاں صاحب کو ''خواب'' میں آنحضرت ﷺ سے شرف ملاقات کے وقت آپ کے پسینہ کے نوش کرنے کی تعبیر کی صورت میں ترجمہ مکمل کرنے کی توفیق ملی۔ ہمارے فاضل دوست حافظ نذر احمد صاحب نے اس اہم پس منظر کے ساتھ موصوف کا تفصیلی انٹر ویو پیش فرمایا ہے۔
اقبال ہمارے شاعر تھے۔ حپبّ رسول کا جذبہ ان کی رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے تھا۔ پاکستان اقبال کے خواب کی تعبیر ہے۔ اقبال کے حوالے سے پاکستانیوں کے قلب و روح میں وہی جذبۂ حبِ رسول موجزن ہونا چاہئے جس نے اقبال کو تڑپایا تھا۔ جناب مظفر حسین صاحب ایک عرصے سے اقبال پر لکھ رہے ہیں۔ ان کا Vision وسیع، مطالعہ اقبال عمیق ہے۔ انہوں نے اقبال کے کلام، خطبات اور متفرق تحریروں سے عمدہ مضمون تیار کیا ہے جو اقبال دوستوں کے لئے دلچسپی ہی نہیں ''عمل'' کا پیغام ہے۔
ان مضامین کے بعد جناب مولانا نعیم صدیقی صاحب کا مقالہ ہے۔ ادارہ ''محدث'' کی طرف سے سیرت نگار حضرات کو ایک سوالنامہ بھیجا گیا تھا۔ افسوس ہے کہ بروقت تمام جوابات وصول نہیں ہو سکے۔ مولانا نعیم صدیقی صاحب کی تالیف ''محسنِ انسانیت'' تاریخ اور سیرت کے درمیان حد فاصل ہے۔ ان سے سوال تو تین چار کئے گئے تھے مگر جواب صرف اس سوال کا ہے۔
''آپ نے سیرت پر کیوں قلم اٹھایا؟ (جذبہ محرکہ کیا تھا) سیرت نگاری میں کن خطوط پر کام کیا ہے۔''
مولانا نعیم صدیقی صاحب کا یہ جواب پر مغز اور فکر انگیز ہے۔
آخر میں ''نعت'' کے بارے میں ایک سوالنامہ اور اہلِ علم کے جوابات ہیں۔ نعت گوئی دو دھاری تلوار ہے۔ افراط و تفریط ہر دور میں نقصان و خسران ہے۔ حمد خداوندی میں تعریف و توصیف بیان کرتے ہوئے کوئی حد نہیں۔ نعت میں پھونک پھونک کر قدم (قلم) اُٹھانا پڑتا ہے۔ غالباً ؎
باخدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار
کا یہی مفہوم ہے۔ بہرحال ''نعت کے حدود و آدابِ شرعی'' پر ایک گلدستہ پیش خدمت ہے۔
پھر معروف نعت گو حضرات کا بارگاہِ رسالت میں ہدیہ عقیدت شاملِ اشاعت ہے۔
ہم ان اہلِ قلم حضرات کا شکریہ ادا کرنا اپنا خوشگوار فریضہ سمجھتے ہیں جنہوں نے ہماری درخواست پر اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود گراں قدر مقالات لکھے۔ جن حضرات کے مضامین ترتیب و تدوین کے بعد موصول ہوئے اور شامل ہونے سے رہ گئے۔ ان سے معذرت خواہ ہیں۔ ان شاء اللہ ان کے مضامین ہم ''محدث'' کی کسی دوسری اشاعت میں شامل کریں گے۔
قارئین سے گزارش ہے کہ اس خصوصی اشاعت پر ہمیں اپنی مؤقر رائے سے مطلع فرمائیں۔