رسالت مآبؐ کی جنگی پالیسی اور دفاعی نقطۂ نظر
اسلام کے سطح بین دشمن عموماً یہ پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں کہ اسلام چونکہ ایک جارحانہ مذہب ہے اس لئے اس کی عمومی دعوت کو کامیابی سے ہمکنار ہونے میں کچھ زیادہ دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور دوسرے مذاہب کے مقابلے میں یہ قلیل عرصہ میں اقصائے عالم میں پھیل گیا۔ اس سراسر معاندانہ اور متعصبانہ اعتراض کے اگرچہ آج تک بہت کافی اور شافی جوابات دیئے جا چکے ہیں لیکن دلوں کے امراض کا علاج جس طبیب مطلق کے پاس ہے وہی اس بیماری کو زیادہ کر دے تو پھر انسانی دلائل و براہین کیا کام دے سکتے ہیں اور حقیقتِ حال کی وضاحت اپنا کیا اثر دکھا سکتی ہے۔ تاہم ہمارے نزدیک چونکہ یہ پروپیگنڈہ یکسر بے بنیاد ہے اور اس کے پس پردہ عقل و فکر سے عاری اور تعصب و عناد کی ذہنیت کار فرما ہے اس لئے ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ دعوتِ اسلام کی محیّر العقول کامیابی کے اصل محرکات کا سراغ لگائیں اور دیکھیں کہ آخر وہ کیات بات تھی جس نے اس تحریک کو دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک نہ صرف پہنچا دیا بلکہ لوگوں کو اس کا گرویدہ بنا دیا اور وہ اسلام میں جوق درجوق اور فوج در فوج داخل ہونے لگے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی حیرت انگیز کامیابی میں دو عنصر بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اور باقی تمام چیزیں انہی دو عناصر کا نورِ ظہور ہیں۔ پہلا عنصر تو خود اس دعوت کی نوعیت ہے کہ یہ عوت فطرت انسانی کے عین مطابق اور کائناتِ انسانی کے مسائل و مصائب کے لئے نسخۂ کیمیا کا حکم رکھتی تھی اور دوسرے اس دعوت کے علمبردار کی اپنی شخصیت اس قدر محامد و محاسن کا مجموعہ تھی کہ عقل انسانی کے لئے اس سے آگے سوچنا بھی ممکن نہیں تھا اور فطرت سلیمہ اس سے متاثر ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتی تھی۔
اس وقت چونکہ ہمارا موضوع محسن انسانیت، فاتح بدر و حنین کی شخصیت مقدسہ کے صرف ایک پہلو، حربی پہلو یا جنگی پالیسی کے بارے میں کچھ گزارشات کرنا ہے اس لئے ہم آپ ﷺ کی فوجی مہارت، عسکری قابلیت اور جنگی پالیسی کے متعلق چند شواہد پیش کرتے ہیں تاکہ اس حقیقت کی دنیا پر بارِدگر وضاحت ہو جائے کہ اسلام، جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے صلح و سلامتی کا مذہب ہے اور آنحضرت ﷺ ہمیشہ حرب و قتال سے گریزاں رہے ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہرگز نہیں تھی کہ آپ فنونِ جنگ سے واقف نہیں تھے بلکہ اس کا حقیقی اور اصل سبب آپ کی مصالحانہ روش تھی اور آپ کی مصالحانہ روش کے پس پردہ کار فرما آپ کے اندر کا انسانی ہمدردی اور شفقت کا جذبہ تھا اسی لئے بجز انتہائی ناگزیر صورتوں کے آپ نے جنگ کا آغاز کبھی نہیں کیا۔ بامرِ مجبوری اگر آپ ﷺ کو جنگ کے لئے نکلنا ہی پڑا تو اس میں بھی آپ کا اساسی کلیہ ہمیشہ یہی رہا کہ مخالف عنصر کا خون بہانے کے بجائے اسے بے بس کر دیا جائے تو اس کے اندر ضعف و کمزوری کا احساس اس حد تک راسخ ہو جائے کہ یا تو وہ دستِ تعاون بڑھانے پر آمادگی کا اظہار کر دے یا مزاحمت چھوڑ دے اور ہمارے راستے سے ہٹ جائے۔ اردو کے مشہور سیرت نگار ڈاکٹر حمید اللہ صدیقی نے حضور ﷺ کی سیرتِ مقدسہ کے اس پہلو پر خاص طور سے بڑا جامع اور وقیع کام کیا ہے وہ اپنی کتاب ''عہدِ نبویﷺ کے میدانِ جنگ میں'' لکھتے ہیں کہ ''اصل میں آنحضرت ﷺ نے دشمن کو نیست و نابود کرنے کی جگہ مجبور کرنا پسند فرمایا۔'' دوسری جگہ اپنی کتاب میں ''عہد نبوی میں نظامِ حکمرانی'' میں رقمطراز ہیں کہ ''آنحضرت ﷺ کی سیاست قریش کو تباہ و نابود کرنے پر نہیں، بلکہ محفوظ رکھ کر بے بس اور مغلوب کر دینے پر مشتمل تھی۔''
فاضل محقق نے اپنے اس نظریے کو بڑے مضبوط دلائل کے ساتھ بڑی خوبی سے ثابت کیا ہے۔ ان کے بیان کردہ تفصیلی سلسہ واقعات اور ان پر تبصرے کا لب لباب یہ ہے کہ مؤلف ''محسنِ انسانیت'' نے اِس طرح لکھا ہے کہ سرورِ کائنات ﷺ نے اس پالیسی کے لئے حسب ذیل عملی خطوط اختیار فرمائے۔ اول یہ کہ آپ نے اپنی دفاعی طاقت کو تعداد، تنظیم، جفاکشی، جنگی تیاری اور اخلاقی تربیت کے لحاظ سے بڑی تیزی کے ساتھ نشوونما دی، پھر اس کو مشین کی طرح نقل و حرکت میں رکھا اور مخالف طاقتوں کو مرعوبیت اور خوف کا ہدف بنایا۔ دوسرے یہ کہ اہل مکہ کی تجارتی شاہراہ کی ناکہ بندی (Blokade) کر کے ان کا زور توڑ دیا۔ پھر معاہداتی رابطوں کے ذریعے مختلف قبائل کو تدریجاً دشمن سے توڑ کر اپنے ساتھ لے لیا، کبھی فوجی کارروائی کے لئے اچانک کسی موقع پر دشمن کو تیاری کی مہلت دیئے بغیر جا لیا جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر اظہار ہوا، کبھی غیر متوقع راستے اختیار کر کے اور نقل و حرکت کی منزل مقصود کو پردۂ راز میں رکھ کر مخالف طاقت کو غلط فہمی میں ڈال دیا جیسا کہ غزوۂ بنی مصطلق کے واقعہ سے ظاہر ہے، کبھی اپنا نقشۂ جنگ اپنے حق میں بنا لیا جیسا کہ غزوۂ بدر میں ہوا اور کبھی کوئی ایسی نئی تدبیر اختیار کر لی جس کا دشمن کو تجربہ نہ رہا ہو اور وہ اس تدبیر کے بروئے کار آنے پر حملہ آور ہونے سے پہلے ہی حیرت میں پڑ گیا ہو جیسا کہ غزوۂ احزاب یعنی جنگ خندق میں ہوا۔
آئیے اب حضور ﷺ کی دفاعی پالیسی کا ذرا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیں کیونکہ آپ کے عہد کی جنگیں نہ صرف اسلامی تاریخ بلکہ انسانی تاریخ میں ایک خاص اہمیت رکھتی ہیں اور دوست تو دوست مخالف بھی حضور ﷺ کی غیر معمولی دفاعی صلاحیت و استعداد سے استفادہ کرتے نظر آتے ہیں اور اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں پاتے جیسا کہ نپولین کہا کرتا تھا کہ تعداد کی کمی کے باوجود اگر کسی فوج میں جنگجویانہ روح موجود ہو تو وہ اپنے سے کئی گنا زیادہ لشکر کے مقابلے میں فتح مند و سرخرو ہو سکتی ہے۔ یہ بالکل وہی بات ہے جسے آنحضرت ﷺ قوتِ ایمانی سے تعبیر فرمایا کرتے تھے بلکہ قوتِ ایمانی کے مقابل کسی دیگر داعیہ اور سپرٹ کو رکھا ہی نہیں جا سکتا اور جسے قرآن حکیم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے ان یکن منکم مائۃ صابرۃ یغلبوا مائتین۔ اگر تم سے سو آدمی ثابت قدم رہے تو وہ دو سو پر غلبہ پا لیں گے۔'' نپولین کی نظر میں تھا کہ عہد نبوی کی جنگوں میں مسلمانوں کا اکثر دگنی تگنی اور بعض اوقات دس گنی قوت سے مقابلہ ہوا اور قریب قریب ہمیشہ فتح مسلمانوں کو حاصل ہوئی۔ اس کے علاوہ فوجی قائدین کی نگاہ میں ریڈولف ہٹلر بھی بڑی حیثیت رکھتا ہے۔ پولین اور ہٹلر دونوں کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ دشمن کی سرگرمیوں کا پتہ چلتے ہی اس کی سرکوبی میں ذرہ بھر تامل نہیں کرتے تھے اور حالات کیسے ہی ناموافق ہوں کسی توقف کے بغیر دشمن کے سر پر پہنچ کر اس کو سراسیمہ کر دیتے تھے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ ان سے پہلے آنحضرت ﷺ نے غزوہ تبوک کے موقع پر یہی تدبیر اختیار نہیں فرمائی تھی۔ یہ وہ وقت تھا کہ موسم یکسر ناموافق تھا اور حالات بھی قطعاً ناسازگار تھے لیکن اسلامی سرحدوں پر رومیوں کی سرگرمیوں کا حال سن کر آپ ﷺ ایک بہت بڑے لشکر کی ہمراہی میں دشمنوں کی مدافعت کے لئے عین موقع پر پہنچ گئے اور ہرقل یا تو مکر و فریب کے ساتھ جنگی تیاریوں میں مشغول تھا اور یا یہ خبر سنتے ہی ہوش و حواس کھو بیٹھا اور اس کی فوج مسلمانوں کے پہنچنے سے قبل ہی منتشر ہو گئی۔ اِسی طرح کے اور بہت سے جنگی اقدامات اور دفاعی تدبیریں ہیں جن میں دنیا کے مشہور ماہرین دفاع نے حضور اکرم ﷺ کی پیروی کو اپنا شعار بنایا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ حضور ﷺ کے عمل اور ان کے عمل میں ایک واضح فرق موجود ہے اور وہ یہ کہ حضور کا مقصد انتہائی پاکیزہ تھا، آپ توحیدِ الٰہی، عدل و انصاف اور مکارمِ اخلاق کی نشر و اشاعت کے لئے میدانِ جنگ میں آنے پر مجبور کر دیئے جاتے تھے اور نپولین اور ہٹلر کے پیش نظر ہوس ملک گیری کے سوا اور کچھ نہ تھا۔
آنحضرت ﷺ کے عہد مسعود و مبارک میں غزوات اور سرایا کی ابتداء ہجرت کے بعد ہوئی ہے اور دس برس میں باختلاف روایات ستائیس یا انتیس یا پچیس یا اس سے کم و بیش غزوات میں حضور ﷺ نے شرکت فرمائی۔ اور ساٹھ کے قریب سرایا بھیجے۔ اہل سیر نے سات غزوات کو خاص اہمیت دی ہے جن میں بدر، احد، خندق، خیبر، فتح مکہ، حنین اور تبوک شامل ہیں۔ تمام غزوات و سرایا کا جنگی نقطۂ نظر سے جائزہ لیں تو حضور ﷺ کی کامیاب دفاعی پالیسی کا کمال اس سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس دس سال کی مختصر جنگی مدت میں دس لاکھ مربع میل سے بھی زیادہ رقبہ آپ ﷺ کے زیرِ اقتدار آچکا تھا گویا اسلامی مملکت دو سو چوہتر مربع میل روزانہ کے اوسط سے وسعت اختیار کر رہی تھی۔ اس میں ایک انتہائی اہم نکتہ یہ ہے کہ اس وسیع و عریض علاقے کی فتح میں جس میں یقیناً کروڑوں کی آبادی تھی دشمن کے بمشکل ڈیڑھ سو آدمی قتل ہوئے اور دس سال میں مسلمان فوج کا مشکل سے ماہانہ ایک سپاہی شہید ہوتا رہا۔ اس کے علاوہ مفتوحہ علاقوں میں قبضے کا استحکام، مفتوحین کا ذہنی تزکیہ، اور ایسے افسروں اور سپاہیوں کی تعلیم و تربیت جنہوں نے آپ کی وفات کے بعد صرف پندرہ سال کے قلیل عرصے میں تین براعظموں ایشیا، افریقہ اور یورپ پر پھیلے ہوئے علاقوں پر حکومتِ مدینہ کا تسلط قائم کر دیا۔ ایسے امور میں جو دنیا کے ہر جنگی قائد اور دفاعی سیاست کے ماہر کو آپ کے آگے زانوئے تلمذ طے کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
جن میں آنحضرت ﷺ بنفس نفیس شریک ہوئے۔
جن کو آنحضرت ﷺ نے روانہ کیا اور خود ساتھ نہ گئے۔