عظمتِ رسول ﷺ۔ قرآن کے آئینے میں
آپ ﷺ کا اسم گرامی:
آنحضور ﷺ کے بہت سے اسمائے گرامی قرآن کریم و کتب حدیث میں مذکور ہیں مگر آپ ﷺ کے ذاتی نام دو ہیں۔ محمد ﷺ اور احمد اور یہ دونوں ہی آپ ﷺ کے علوئے مرتبت و عظمتِ مقام کی دلیل ہیں۔ سورۂ فتح میں آپ ﷺ کا نام محمد بتایا گیا ہے۔
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ الله
''محمد اللہ کے رسول ہیں۔''
آپ کا دوسرا نام ''احمد'' ہے جو حضرت عیسیٰؑ نے آپ ﷺ کی بعثت کی اطلاع دیتے ہوئے بیان فرمایا:
وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ
''میں ایک رسول کی بشارت دیتا ہوں، وہ میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہو گا۔''
لفظ احمد اور محمد ﷺ دونوں کا مادہ حمد ہے۔ حمد کا لفظ جب خدا کی طرف سے بولا جائے تو اس کے معنی ہیں تعریف و ثناء، مدح و ستائش کے ساتھ ساتھ عطا اور بخشش کا مفہوم بھی شامل ہوتا ہے۔ اور جب یہ لفظ بندے کی طرف سے بولا جائے تو اس سے مراد، حمد و ثنا کے ساتھ ساتھ تشکرّ و امتنان کے جذبات بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس طرح محمد ﷺ سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے عادات و خصائل اور کار ہائے نمایاں کی بدولت ساری دنیا میں مشہور و معروف اور تعریف کیا ہوا ہے۔ اور پورا عالمِ انسانیت آپ کے احسانات کا شرمندۂ منت ہے۔ جملہ ملائکہ آپ ﷺ کے ثناء خواں ہیں تمام انبیاء آپ ﷺ کے شاگرد ہیں اور تمام بنی نوع حتیٰ کہ آپ ﷺ کے دشمن تک بھی آپ کی ذاتی حیثیت میں آپ ﷺ کی عظمتِ کردار کا انکار نہیں کر سکتے۔
آپ احمد ہیں ان معنوں میں کہ آپ خدا کی سب سے زیادہ تعریف کرنے والے اور اس کے سب سے بڑے سپاس گزار ہیں۔ اپنے خالق و مالک کے رُتبے و مقام کو جتنا آپ نے جانا اور پہچانا ہے وہ کسی اور نبی کو بھی نصیب ہے۔ اس لئے آپ ﷺ بجا طور پر احمد ومحمد ہیں۔
آپ کا رفع ذکر:
وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكرَكَ (انشراح)
''ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کر دیا۔''
حقیقت یہ ہے کہ عظمتِ محمد ﷺ سے خود خدا ہی صحیح طور پر آگاہ ہے جو قرآن کریم میں جا بجا آپ کے اخلاقِ عالیہ و فضائل محامدہ کی گواہی دیتا ہے اور انسان آپ کے بلند مرتبہ کے ادراک سے بھی عاجز و قاصر ہیں۔
اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذکر کو شہرتِ جاوداں بخشنے کے لئے سرکاری طور پر اہتمام فرما دیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ روئے زمین کے ہر ہر گوشے میں ہر وقت دن ہو کہ رات، صبح ہو کہ شام، ہر لمحہ اور ہر گھڑی آپ ﷺ کے نامِ مبارک کا ذکر ہوتا رہتا ہے خواہ کوئی سننا چاہے یا نہ سننا چاہے۔ بہرطور اللہ کی معبودیت کے ساتھ ساتھ محمد ﷺ کی منصبِ رسالت کی بھی شہادت دی جاتی ہے۔ جہاں آپ ﷺ کا نام دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے لئے اللہ پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ محمد ﷺ پر ایمان لانا بھی شرطِ لازم ہے پھر مسلمان ہونے کے بعد اللہ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اطاعتِ رسول بھی ضروری ہے۔
آپ ﷺ کے رفع ذکر کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے دشمنوں کا نام روئے زمین سے مٹا ڈالنے کا بھی سرکاری اہتمام فرمایا ہے۔
اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ (کوثر)
''یقیناً آپ ﷺ کا دشمن ہی بے نام و نشان ہے۔''
اسی کا نتیجہ ہے کہ دنیا آج ابو جہل و ابو لہب وغیرہ کو ملعون کہہ کر پکارتی ہے اور آج تک کسی نے اپنی اولاد کا نام ان کے ناموں پر نہیں رکھا جب کہ مسلمانوں میں نبی کریم ﷺ کے نام پر اپنے بچوں کا نام رکھنے کا رواج بکثرت ہے۔
آپ تمام بنی نوعِ انسان کی ہدایت و رشد کے لئے مبعوث کئے گئے ہیں۔
وَمَا اَرْسَلْنٰكِ اِلَّا كَافَّة لِلَّنَّاسِ بَشِيرًا وَّنَذِيرًا
''ہم نے آپ ﷺ کو سب لوگوں کے لئے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔''
چنانچہ ہر رنگ، ہر زبان، ہر نسل، اور ہر جغرافیائی خطے کے انسانوں کے لئے آپ ﷺ داعی الی اللہ ہیں۔ آپ ﷺ کے اسمِ مبارک نے تمام دنیا کے مسلمانوں کو رنگ و نسل اور زبان و مکاں کے امتیاز کے بغیر وحدت کی ایک کڑی میں پرو کر رکھ دیا ہے۔ اگر آپ ﷺ کا نامِ گرامی ایک مضبوط بندھن ہے جس نے سب مسلمانوں کو یک جا کر دیا ہے تو آپ ﷺ کا اسوۂ حسنہ وہ مضبوط ربط ہے جس سے ہر مسلمان آپ ﷺ کے ساتھ کلّی طور پر مربوط ہے۔
خُلقِ محمدی:
عظمتِ رسول کا نمایاں ترین پہلو آپﷺ کے کردار اور اخلاق کی عظمت ہے جس کے سامنے روئے زمین کے تمام اعاظم و اکابر دم بھرتے نظر آتے ہیں جس کے متعلق خود خالقِ کائنات یہ گواہی دے کہ:
اِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيم (قلم)
''بے شک آپ ﷺ کا اخلاق بڑا بلند ہے۔''
اس کی عظمتِ کردار میں کیا شبہ باقی رہ جاتا ہے۔ آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے کی چالیس سالہ زندگی بھی ایسی بے داغ ہے کہ کسی مقام پر انگلی رکھنی محال ہے۔ نبوت سے پہلے آپ ''صادق'' اور ''امین'' کے لقب سے مشہور تھے۔ اس وقت بھی آپ شرک کی نجاست اور قمار بازی و شراب خوری جیسی خباثتوں سے محفوظ تھے۔ آپ کی عظمتِ اخلاق کی دلیل اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتی ہے کہ آپ ﷺ کے ہمسروں نے جن میں دوست و دشمن سب شامل تھے بالاتفاق آپ ﷺ کو صادق اور امین تسلیم کر لیا تھا۔ اس عظمتِ سیرت کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اپنے اندر یہ صفات پیدا کرنے کے متمنی ہوں۔ نبوت کے بعد جب آپ ﷺ نے اپنی دعوت کا آغاز فرمایا اور ہر طرف سے آپ کی مخالفت شروع ہوئی۔ تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے مخالفین کے سامنے یہی دلیل بطور معجزہ پیش کر دی اور آپ ﷺ نے علی الاعلان فرمایا:
فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِه اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
''یقیناً میں اس (یعنی اعلانِ نبوت) سے پہلے ایک عمر تمہارے درمیان گزار چکا ہوں کیا تم پھر بھی نہیں سمجھتے۔''
یعنی جس شخص کی ساری زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح تمہارے سامنے موجود ہے۔ جس نے عام دنیاوی معاملات میں تم سے راستباز اور امین ہونے کی سند حاصل کر لی ہے، جس نے عام انسانی معاملوں میں بھی کبھی جھوٹ نہیں بولا، کیا اب اس کی دعوت کے معاملے میں شک و شبہ کی گنجائش ہو سکتی ہے، کیا وہ خالقِ کائنات کے بارے میں جھوٹ بولنے کا مرتکب ہو سکتا ہے؟
آپ ﷺ انتہا درجہ کے رحم دل، خیر خواہ اور غمگسار تھے۔ آپ ﷺ کی شفقت و رحمت صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کے لئے عام تھی۔ اس سے دوست بھی حصہ پاتے اور دشمن بھی، بلکہ بے زبان جانور بھی آپ کی رحم دلی سے برابر فیض یاب ہوتے تھے۔ ارشاد باری ہے:
وَمَا اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَة لِّلْعٰلَمِينَ
''ہم نے آپ ﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔''
یہ آپ ﷺ کی نرمیٔ طبع ہی کا نتیجہ تھا کہ آپ ﷺ ایک اخلاق باختہ، گم کردہ راہ، اور منتشر قوم کو ٹھوس بنیادوں پر ایک مضبوط قوم بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کو آپس میں شیر و شکر کیا۔ ان کا منتشر شیرازہ یکجا کیا اور ان کے افکار و عقائد اور اعمال و اخلاق کی دنیا ہی بدل کر رکھ دی۔ ان میں ایک دیرپا اور دور رس انقلاب بپا کر دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ
''اللہ کی رحمت کے سبب سے آپ ﷺ ان کے لئے نرم خُو ہو گئے۔ اور اگر آپ ﷺ تُند خُو اور سخت دل ہوتے تو وہ تمہارے پاس سے منتشر ہو جاتے۔''
آپ ﷺ اپنی امت کے حق میں اس حد تک شفیق و غمگسار تھے کہ اپنی امت کی ہر تکلیف آپ ﷺ کے لئے بڑی شاق و دشوار ہوتی۔ آپ ﷺ کو ہر وقت اپنی امت کو بہتری اور بھلائی کا ہی خیال رہتا۔
لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ
''بے شک تمہارے پاس تم میں سے ایک رسول آیا ہے۔ اسے تمہاری تکلیف گراں معلوم ہوتی ہے۔ تمہاری بھلائی کا وہ حریص ہے۔ وہ مومنوں پر نہایت شفقت کرنے والا مہربان ہے۔''
عام لوگوں کے حق میں آپ کی ہمدردی و شفقت کا یہ عالم تھا کہ جو لوگ آپ کی دعوت پر ایمان نہ لاتے۔ آپ ﷺ ان کے لئے بڑے فکر مند رہتے۔ اور ان پر آخرت کے عذاب کے تصوّر ہی سے آپ ﷺ کی جان پر بن جاتی۔
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا
''اگر یہ لوگ ایمان نہ لائے، تو شاید آپ اسی بات پرافسوس کرتے ہوئے اپنی جان کو ہلاک کر ڈالیں گے۔''
آپ ﷺ کے اخلاقِ جلیلہ کے متعلق اس مختصر سے مضمون میں کیا لکھا جا سکتا ہے۔ مختصراً یہی کہا جا سکتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ ﷺ کے اخلاق کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ قرآن ہی آپ ﷺ کا اخلاق ہے۔
معراج نبوی:
آنحضرت ﷺ کی معراج کا واقعہ قرآن کریم میں سورۂ نجم اور سورہ بنی اسرائیل میں مذکور ہے۔ یہ واقعہ آپ ﷺ کو تمام عالمِ انسانیت میں سے بلند ترین مقام پر فائز کرتا ہے۔ خود خالقِ کائنات کا ارشاد ہے کہ فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنَ اَو اَدْنٰی (صرف دو قوسوں کا فاصلہ دونوں کے درمیان رہ گیا، یا پھر اس سے بھی کم فاصلہ) اس سے بڑھ کر عظمتِ شان کیا ہو سکتی ہے۔ جس مقام پر فرشتوں کے سرخیل جناب جبریل کو بھی جانے کی اجازت نہیں، وہاں آپ ﷺ نے پہنچ کر اپنے ربِ اکبر سے ملاقات کی۔ چنانچہ ساری کائنات میں سے نہ کسی خاکی کو وہ مقام نصیب ہوا نہ کسی نوری کو۔ ہم آپ ﷺ کے متعلق یہی کہہ کر چپ ہوجاتے ہیں کہ:
بعد از خدا بزرگ توئی قصّہ مختصر
جس طرح معراج کے واقعہ نے آپ ﷺ کو دنیا میں سارے عالمِ انسانیت سے برتر و ارفع بنا دیا ہے اسی طرح آخرت میں وہ اپنا مقام و مرتبہ ہر فرد بشر سے فزوں تر ہو گا۔ تمام انسانوں کے متعلق آپ ﷺ خدا کی عدالت میں گواہی دیں گے۔
فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا (نساء)
''اس وقت کیا حال ہو گا جب ہم آپ ﷺ کو ان کے خلاف گواہ بنا کر کھڑا کر دیں گے۔''
اور روزِ قیامت جب اللہ تعالیٰ کا جلال پورے عروج پر ہو گا اور تمام انبیاء قہر الٰہی سے تھر تھر کانپ رہے ہوں گے اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے فصل و کرم سے شفاعتِ عظمیٰ کے لئے آپ کو مقامِ محمود میں لا کھڑا کریں گے۔
عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا(بنی اسراءیل)
''جلد ہی آپ ﷺ کا رب آپ کو مقام محمود میں مبعوث کر دے گا۔''
اس طرح آخرت میں بھی تمام مخلوقات میں سے آپ ﷺ کو ارفع ترین مقام نصیب ہو گا اور آپ ﷺ اپنے رب اکبر کے سب سے قریب ہوں گے۔
آپ ﷺ کی عظمت کا بیان اس وقت تک تشنۂ تکمیل رہتا ہے، جب تک اس میں قرآن کریم اور اسلام کا بھی مختصر سا ذکر نہ آجائے۔ کیونکہ آپ ﷺ نے دنیا کے سامنے دینِ اسلام مکمل ترین اور جامع شکل میں پیش فرمایا اور قرآن کریم کے ذریعے سے اپنی دعوت کو مؤثر و کامیاب بنایا۔
اسلام وہ دین ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (بقرۃ)
''یقیناً اللہ نے تمہارے لئے دین اسلام کو چن لیا ہے۔ پس تم حالتِ اسلام ہی میں مرنا۔''
اللہ تعالیٰ نے اسلام کی شان ان الفاظ میں بیان فرمائی:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (مائدہ)
''آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کر دیا۔ تم پر اپنی نعمتیں تمام کر دیں اور تمہارے لئے دینِ اسلام کو پسند کر لیا ہے۔''
گویا اللہ تعالیٰ نے نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے دینِ اسلام کو مکمل کر کے بنی نوع انسان کے لئے اپنی نعمتوں کو مکمل کر دیا۔ اب دین و دنیا کی کوئی نعمت بھی ایسی نہیں جو اسلام کے مقابلے میں پیش کی جا سکے۔ جو شخص نعمتِ اسلام کی توہین کرتا ہے یعنی دائرۂ اسلام میں شامل نہیں ہوتا اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے۔
وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ (اٰل عمران)
''جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا پیچھا کرے وہ اس سے ہرگز قبول نہیں ہو گا اور آخرت میں بھی وہ خسارے میں رہے گا۔''
اسلام ایک دین ہے جب کہ دوسرے مذاہب میں۔ اسلام پوری زندگی کے لئے ضابطۂ حیات ہے جب کہ دیگر مذاہب زندگی کے چند پہلوؤں کو محیط ہوتے ہیں۔ یہ دین دوسرے مذہبوں کی طرح جنتر منتر، تعویذ دھاگے اور عملیات کا مرکب نہیں، بلکہ عملی زندگی کو نکھارنے والا انقلاب، نفس کا تزکیہ کرنے والی اور انسان کو تہذیب و شائستگی سے ہمکنار کرنے والی ایک تحریک ہے۔
اسی طرح قرآن کریم وہ کتاب ہے جس کا مصنف کوئی دنیاوی طاقت نہیں، بلکہ خود شہنشاہ رب العالمین ہے، جسے سردار ملائکہ جبریل امین کے ذریعے خاتم النبیین ﷺ پر نازل کیا گیا ہے۔ جو سراسر حق ہے (اِنَّہٗ لَحَقُّ الْیَقِیْن) جس کے کلام میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکی۔ (لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ) جس نے تاریخِ قدیم کی وہ گمشدہ کڑیاں بیان کیں، جو دستبردِ زمانہ سے بالکل مٹ چکی تھیں۔ اس نے آئندہ کے متعلق ایسی پیشن گوئیاں بیان کیں، جن کو بعد میں زمانے نے من و عن صحیح ثابت کر دیا۔ یہ کتاب روئے زمین پر ہر وقت، ہر لمحہ اور ہر گھڑی تلاوت کی جاتی ہے۔ یہ ایسی کتاب ہے جو ہر وقت کروڑوں مسلمانوں کے سینوں میں محفوظ رہتی ہے۔ جس میں بیان کردہ علمی حقائق موجودہ دور کے گراں قدر علمی و تحقیقی کارناموں اور صنعتی ترقیوں کے علی الرغم آج تک صحیح ثابت ہوتے ہیں۔ اور قیامت تک صحیح ثابت ہوتے رہیں گے۔ جس کے الفاظ، معانی، اسلوب، غرض ہر چیز تہذیب و شرافت کا بہترین معیار ہے اور جس میں کہیں بھی تضاد بیانی کا شائبہ تک نہیں۔
اور حقیقت یہ ہے کہ قرآن کی جلالتِ شان سے بھی کما حقہٗ وہ شہنشاہ رب العٰلمین ہی واقف ہے ۔ کیا دنیا میں اس پائے کی کوئی اور بھی کتاب ہے؟
آنحضرت ﷺ کی عظمت کا ایک اہم پہلو آپ کی لائی ہوئی تعلیم ہے۔ آپ ﷺ دنیا کے اس ظلمت کدہ میں مشعلِ ہدایت، روشنی کا مینار اور چمکتا ہوا سورج بن کر تشریف لائے۔ ارشادِ ربانی ہے۔
1.قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ
''بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی اور واضح کتاب آئی ہے۔''
2.وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا(احزاب)
''آپ اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والے اور چراغ روشن ہیں۔''
3تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا (فرقان)
''وہ بڑی بابرکت ہستی ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہان کو ڈرائے''
مَا كَانَ مُحَمَّدِ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكنْ رَسُوْل اللّٰه وَخَاتَمُ النَّبِيين (احزاب)
''محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، بلکہ اللہ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے خاتمے پر ہیں۔''
مندرجہ بالا آیات کی روشنی میں آپ کی تعلیم کی درج ذیل خصوصیات ہیں۔
ابدیّت:
یعنی آپ ﷺ کی تعلیم قیامت تک کے لئے ہر طالبِ حق کے لئے مشعلِ ہدایت اور روشنی کا مینار ہے۔
عملیّت:
آپ کی تعلیم کسی فلسفی کے خیالات اور کسی مفکّر کی خیالی جنت نہیں کہ کتابوں کی دنیا میں تو وہ بڑی حسین و جمیل معلوم ہوں مگر حقیقت کی دنیا میں صفر اور ناممکن العمل ہیں بلکہ آپ کی تعلیم آسان اور فطرت، جذبات و احساساتِ انسانی کے عین مطابق ہے۔ اس وجہ سے اس پر عمل کرنا ممکن ہے۔ اور آپ ﷺ نے اور آپ ﷺ کے اصحاب کرام نے اس تعلیم پر خود عمل پیرا ہو کر دکھا دیا ہے۔
جامعیت:
آپﷺ کی تعلیم پر کسی ایک گروہ کی اجارہ داری نہیں ہے۔ یہ تعلیم کوئی خاص طبقہ، پادریوں کا گروہ، کاہنوں کی برادری، پنڈتوں کا خاندان ہی حاصل نہیں کر سکتا، بلکہ ہر شخص بلا امتیاز حسب و نسب، رنگ و نسل، لسان و مکان اس تعلیم کو سیکھ کر انبیاء کا وارث بن سکتا ہے۔ اور پھر اس پر عمل کی راہیں بھی ہر ایک کے لئے کھلی ہیں۔
ہمہ گیریت:
ہر پیشے اور ہر گروہ کے لوگ سائنسدان، لیڈر، فرمانروا، وکیل، سپہ سالار، تاجر، صنعتکار، کسان و زمیندار، آجر و مستاجر، مرد عورت، میاں بیوی، اولاد اور والدین غرض ہر شخص کے لئے ہر موقع اور ضرورت کے مطابق آپ کی روشن اور بے داغ تعلیم و سیرت موجود ہے، اور آج دنیا میں کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے (خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم) جس نے آپ ﷺ کی سیرت مبارک اور تعلیم مبارک سے کسبِ فیض نہ کیا ہو۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ کسی نے یہ فیض شعوری طور پر حاصل کیا ہے اور کسی نے غیر شعوری طور پر۔ آخر آج یورپ کو تہذیبِ جدید کے زینوں پر کس نے چڑھایا۔ اس یورپی ترقی سے اسلام کو کتنا گہرا تعلق ہے۔
آپ کا عظیم ترین کارنامہ جو جلی حروف میں لکھے جانے کا مستحق ہے اور جس کے بغیر آپ کا ذکر خیر مکمل ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ وہ تشکیلِ امتِ مسلمہ ہے، آپ ﷺ سے پہلے دنیا میں انبیاء کی عظیم تعداد تشریف لائی، مگر کوئی کسی ایک علاقہ میں مبعوث ہوا، تو کوئی کسی ایک ملک کی طرف، اور کوئی نبی صرف ایک قوم کی طرف۔ لیکن آنحضور ﷺ کا فریضہ منصبی یہ تھا کہ آپ پورے عالمِ انسانیت کی سیرت کی تشکیل کرنے کے لئے تشریف لائے تھے۔ آپ ﷺ نے اپنی مسلسل کوشش، انتھک جدوجہد اور سعی پیہم کے ذریعے پہلے عرب کے اجڈ، اکھڑ، متفرق و پراگندہ، محبت نا آشنا مشرکوں کو توحید کی دعوت پیش کی۔ آپ ﷺ نے اس راہ میں بڑی ابتلائیں سہیں، بڑی تکلیفیں اُٹھائیں۔ آپ ﷺ کے اصحاب نے اس دین کے لئے بڑی قربانیاں دیں اور بالآخر آپ ﷺ ایسا گروہ تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے، جو ذہنی و فکری، عملی و اخلاقی لحاظ سے بالکل بدل چکا تھا جو اب خدا پرست و خدا ترس ہو چکا تھا۔ جو دن کے وقت جہاد کرتے، رات کے وقت نماز پڑھتے۔ آپس میں خیر خواہ و ہمدرد، اپنے دین کے سچے مخلص۔ اللہ کے اور بندوں کے سب حقوق ادا کرتے، قانون کے پابند تھے اور علم کے شیدائی۔ وہ اپنے امیر کی اطاعت پر متحد و متفق ہو چکے تھے۔ پھر یہ گروہ اٹھا اور اس نے پوری دنیا میں ایک عظیم انقلاب برپا کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نعمتِ عظمیٰ کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا ہے۔
لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (اٰل عمران)
''اللہ نے مومنوں پر احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے ایک ایسا رسول مبعوث کر دیا جو ان کو آیاتِ الٰہی پڑھ کر سناتا ہے۔ ان کا تزکیہ کرتا ہے، ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ حالانکہ وہ پہلے سخت گمراہی میں پڑے تھے۔''
عظمتِ اخلاق و بلندی کردار آپ کی رفعتِ شان کا بنیادی جز تھا، چنانچہ آپ نے اپنی امت کو بھی اسی عظمتِ اخلاق کے رنگ میں رنگ دیا تو آپ کی امت بھی دوسری امتوں سے برتر اور اعلیٰ قرار پائی۔ اور آپ ﷺ اپنی اُمت سے افضل ترین قرار پائے۔
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا(بقرۃ)
''اور اسی طرح ہم نے تمہیں امتِ وسط بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ اور رسول تم پر گواہ رہے۔''
اُمتِ وسط ایک جامع اصطلاح ہے۔ اس سے مراد عدل و انصاف اور توسط کی راہ پر قائم رہنے والی، مرکزی حیثیت کی حامل قوم ہے۔ جس کے ساتھ عدل و انصاف کی بنا پر تمام قوموں کے تعلقات، یکساں ہیں۔ اس امتِ وسط کا فریضہ تبلیغی اور اخلاقی لحاظ سے ایک زندہ شہادت کا نمونہ قائم کرنا ہے۔
یورپ کا مشہور مصنف ٹامس کار لائل اپنی کتاب ہیروز اینڈ ہیروز ورشپ میں تاریخِ عالم کے نامور ترین اشخاص کا ذکر کرتا ہے۔ اس میں وہ گروہانبیاء میں سے آنحضور ﷺ کا انتخاب کرتا ہے، حالانکہ اور بھی بہت عظیم الشان اور جلیل المرتبت انبیاء کی سیرت و کارنامے اس کے سامنے تھے۔
آپ ﷺ کے درجات کی بلندی کا یہ عالم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرما ک:
لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ (فتح)
''تاکہ آپ ﷺ کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ معاف فرما دے۔''
آپ ﷺ کی تمام غلطیاں معاف فرما دی تھیں اور آپ کی تمام لغزشیں ختم کر دی تھیں۔ دوسری طرف آپ کو معلم ہونے کی حیثیت سے اپنی امت کے تمام نیک اعمال سے برابر کا اجر و ثواب مل رہا ہے۔ بمصداق اس آیت کے مَنْ يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُنْ لَهُ نَصِيبٌ مِنْهَا(النساء) اندازہ لگائیے۔ آپ ﷺ کی امت کی تعداد تمام انبیاء کی تعداد سے زیادہ ہے تو پھر آپ ﷺ کے درجات کی بلندی کا کیا عالم ہو گا۔ یہی بات نبی کریم ﷺ نے یوں بیان فرمائی۔ میرے پاس دو فرشتے ایک میزان لے کر آئے۔ ایک پلڑے میں مجھے رکھا گیا۔ دوسرے میں کسی اور آدمی کو۔ تولا گیا تو میرا پلڑا بھاری نکلا۔ پھر دوسرے پلڑے میں دو آدمیوں کو رکھ دیا گیا۔ پھر آہستہ آہستہ وہاں تعداد بڑھائی جاتی رہی۔ علیٰ ہذا القیاس دوسرے پلڑے میں ساری کائنات کو رکھا گیا تو پھر بھی میرا پلڑا بھاری نکلا۔
آخر ایسا کیوں نہ ہوتا۔ آپ پر اللہ کے احسانات ہی بے پایاں ہیں۔
وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى (ضحٰی)
''اور آپ ﷺ کا رب آپ ﷺ کو عطا فرمائے گا جس سے آپ خوش ہو جائیں گے۔''
دوسرے مقام پر فرمایا:
إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ (کوثر)
''بے شک ہم نے آپ کو کوثر عطا فرما دی۔''
کوثر سے مراد کثرتِ انعام الٰہی، یعنی آپ ﷺ پر اللہ تعالیٰ کے احسانات، برکتیں، رحمتیں اور انعام بے حد و حساب ہیں جو اور کسی کو دنیا میں نصیب نہیں ہیں۔
آپ کی عظمت کا ایک اور اہم پہلو آپ کی اپنی اُمّت ہیں وہ مخصوص مقام ہے جس کے متعلق خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ (نساء)
''رسول کی اطاعت ہی اللہ کی اطاعت ہے۔''
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ
''کہہ دیجیے، اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اطاعت کرو، پھر خود اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا۔''
اپنے اختلاف و جھگڑے کے موقع پر آنحضور ﷺ کی طرف رجوع کرنا اور پھر آپ کے فیصلے کو برضا و رغبت تسلیم کرنا ہر مسلمان کے ایمان کی لازمی شرط قرار دی گئی۔ فرمایا:
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (النساء)
''تیرے رب کی قسم وہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے اختلافات میں آپ کو حکم نہ مان لیں۔ پھر آپ ﷺ کے فیصلے پر اپنے دل میں کوئی تنگی نہ پائیں اور اسے خوشی سے تسلیم کر لیں۔''
سورۂ حجرات میں بڑے واضح الفاظ میں مسلمانوں کو رسول اللہ ﷺ کے سامنے ادب و احترام سے رہنے کے آداب سکھائے کہ ''اے ایمان والو! اپنی آواز رسول کی آواز سے بلند نہ کرو، اگر ایسا کرو گے تو ہو سکتا ہے کہ تمہارے اعمال برباد ہو کر رہ جائیں اور تمہیں خبر تک نہ ہو۔ اور جو لوگ رسول کو حجروں کے باہر سے پکارنے لگتے ہیں وہ بے وقوف ہیں۔ (حجرات)
آپ ﷺ کی ذات کی موجودگی تمام لوگوں کے لئے جائے امن قرار پائی۔ کیونکہ آپ کی موجودگی میں عذابِ الٰہی نازل نہیں ہوتا۔
وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ
''اور اللہ ایسا نہ کرے گا کہ تمہاری موجودگی میں ان کو عذاب دے۔''
غور فرمائیے کسی بھی قوم میں اتنا بلند و ارفع مقام کسی بادشاہ کو بھی حاصل ہو سکا ہے۔ آپ ﷺ کے اپنی امت پر اتنے گرانقدر احسانات ہیں کہ ان کا عوض دینا ہمارے بس میں نہیں۔ ہم تو صرف اتنا کر سکتے ہیں کہ آپ ﷺ کے رفع درجات اور بلندیٔ مراتب کے لئے اللہ سے دعاگو رہا کریں۔ اسی لئے امت کو حکم ہوا۔
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا(احزاب)
''بے شک اللہ رب العزت اور اس کے فرشتے نبی ﷺ پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔''
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدً وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدً وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔