وفودِ عرب بارگاہِ رسالت ﷺ میں
رحمتِ عالم ﷺ نے جب اپنے وطن اور گھر بار کو خیر باد کہہ کر مدینہ منورہ میں نزولِ اجلال فرمایا تو گلشنِ اسلام میں بہار تازہ آگئی۔ چند سال پہلے وادیٔ بطحا سے جو صدائے حق بلند ہوئی تھی وہ اب روز بروز بلند سے بلند تر ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ یمن، بحرین اور حضرت موت سے حدودِ شام و عراق تک پھیلے ہوئے لاکھوں مربع میل علاقے میں گھر گھرتک پہنچ گئی۔ معبودانِ باطل کے پجاریوں نے جب دیکھا کہ شمع رسالت ﷺ کے پروانوں میں اضافہ ہی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے تو ان پر ہیبتِ حق طاری ہو گئی اور وہ دنیائے عرب کے کونے کونے سے اپنے علاقوں اور قبیلوں کے نمائندہ وفد بنا کر جوق در جوق بارگاہِ رسالت میں حاضر ہونے لگے۔ کچھ اسلام قبول کرنے کے لئے، کچھ دعوتِ اسلام قبول کرنے کے بعد احکامِ دین سیکھنے اور حضور ﷺ کی زیارت و بیعت سے مشرف ہونے کے لئے اور صلح و امن کا معاہدہ کرنے کے لئے وفود (سفارتوں) کا یہ سلسلہ ۵ ہجری میں شروع ہوا اور وصالِ نبوی سے چار ماہ قبل تک جاری رہا۔ ۹ھ میں تو اس کثرت سے وفود آئے کہ اس سال کا نام ہی عام الوفود پڑ گیا۔ ان تمام وفود کی تعداد کے بارے میں اہلِ سیر میں اختلاف ہے۔ انہوں نے پندرہ سے لے کر ایک سو چار وفور تک کا حال لکھا ہے۔ ان میں سے بائیس وفود کے حالات ہم یہاںبیان کرتے ہیں۔ ان سے معلوم ہو گا کہ اس زمانے میں قبائل عرب کی ذہنی کیفیت کیا تھی اور ہادیٔ اکرم ﷺ کا اندازِ تبلیغ و ہدایت کیا تھا۔ حضور ﷺ ہر وفد کے ساتھ، بلا لحاظ اس کے کہ وہ کس غرض سے بارگاہ نبوی میں حاضر ہوا، ایسے حسنِ اخلاق اور شفقت سے پیش آتے تھے کہ وہ کسی نہ کسی صورت میں اس سے ضرور متاثر ہوتا تھا۔ جن لوگوں کو قبولِ اسلام کی سعادت نصیب ہو جاتی، وہ واپس جا کر اپنے قبیلے میں ایسی تندہی اور خلوص کے ساتھ اسلام کی تبلیغ کرتے کہ کوئی تیرہ بخت ہی ایمان لانے سے محروم رہ جاتا۔ جو لوگ پہلے ہی مسلمان ہوئے وہ بارگاہ نبوی سے احکامِ دین سیکھ کر واپس جاتے تو ساری عمر اوامر و نواہی کی پابندی میں گزار دیتے۔ یہی لوگ تھے جنہوں نے چند سال بعد قیصر و کسریٰ کے تخت اُلٹ ڈالے اور ساری دنیا میں اسلام کا بول بالا کر دیا۔ رَضِیَ الله عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنه.
1. وفد ازد:
فتح مکہ کے بعد ازد سے سات آدمیوں کا ایک وفد بارگاہ نبوی میں حاضر ہوا۔ حضور ﷺ کو ان کی وضع قطع اور خوش کلامی بہت پسند آئی۔ آپ نے ان سے پوچھا: ''تم لوگ کون ہو؟'' انہوں نے عرض کیا: ''ہم مومن ہیں۔'' حضور مسکرائے اور فرمایا: ''ہر بات کی ایک حقیقت ہوتی ہے۔ بتاؤ تمہارے قول اور ایمان کی کیا حقیقت ہے؟''
اہل وفد نے عرض کیا: ''ہم میں پندرہ خصلتیں ہیں۔ ان میں سے پانچ تو ایسی ہیں جن کے متعلق آپ کے قاصدوں (مبلغین یا داعیانِ اسلام) نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ان پر ایمان رکھیں اور پانچ ایسی ہیں جن کے متعلق ہدایت کی ہے کہ ان پر عمل کریں اور پانچ وہ ہیں جن کے ہم زمانہ جاہلیت سے پابند ہیں اور اب تک ان پر قائم ہیں۔''
حضور ﷺ نے پوچھا: ''وہ پانچ باتیں کون سی ہیں جن پر تمہیں ایمان رکھنے کا حکم دیا گیا ہے؟''
اہل وفد نے عرض کیا: ''یا رسول اللہ یہ ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانیں اور مرنے کے بعد جی اُٹھنے کا یقین کریں۔''
حضور ﷺ نے پوچھا: ''وہ پانچ باتیں کیا ہیں جن پر تمہیں عمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے؟''
اہل وفد نے جواب دیا: ''یہ کہ ہم اقرار کریں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، نماز پابندی سے پڑھیں، زکوٰۃادا کریں، رمضان کے روزے رکھیں اور اگر استطاعت ہو تو بیت اللہ کا حج کریں۔''
فرمایا: ''اچھا اب وہ پانچ باتیں بتاؤ جن پر تم زمانۂ جاہلیت سے کار بند ہو۔''
اہل وفد نے عرض کیا: ''خوشحالی کے وقت شکر کرنا، مصیبت پر صبر کرنا، راضی برضائے الٰہی رہنا، آزمائش کے وقت راستبازی پر قائم رہنا اور دشمنوں کی مصیبت پر ہنسی نہ اڑانا۔''
حضور ﷺ نے فرمایا: ''تم لوگ تو بڑے حکیم اور عالم نکلے۔ تمہاری حکمت و دانش گویا انبیاء کی حکمت و دانش ہے۔ اچھا تو اب پانچ باتیں میں تمہیں بتاتا ہوں تاکہ کل مجموعہ بیس باتیں ہو جائیں۔
1. ضرورت سے زیادہ اشیائے خوردونوش جمع (ذخیرہ) نہ کرو۔
2. ضرورت سے زیادہ مکانات نہ بناؤ (یا وہ مکان نہ بناؤ جس میں تمہیں بسنا نہ ہو)
3. جس چیز کو چھوڑ کر کل تمہیں چلا جانا ہے اس میں ایک دوسرے کی حرص نہ کرو۔
4. اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ ڈرتے رہو جس کی طرف پھر تمہیں لوٹنا ہے۔ اور اس کے حضور جواب دہی کرنی ہے۔
5. ان چیزوں سے رغبت رکھو جو آخرت میں تمہارے کام آئیں گی جہاں تمہیں ہمیشہ رہنا ہے۔
اہلِ وفد نے حضور کے ارشادات پر آمَنَّا وصَدَّقْنَا کہا اور وطن واپس جا کر ہمیشہ ان پر عمل کیا۔
2. وفد اشعریین:
اشعریین یمن کا ایک نہایت معزز قبیلہ تھا۔ اس کے مورث اعلیٰ کا نام اشعر تھا۔ اس کا اصل نام تو کچھ اور تھا۔ لیکن ولادت کے وقت جسم پر بالوں کی کثرت کی وجہ سے اشعر مشہور ہو گیا۔ چنانچہ اس کی اولاد نے بھی اشعریین کے نام سے شہرت پائی۔ جلیل القدر صحابی حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ اسی قبیلہ سے تھے۔ انہوں نے حضور ﷺ کی بعثت کا چرچا سنا تو یمن سے مکہ پہنچے اور سرور عالم کی خدمت میں حاضر ہو کر نعمتِ اسلام سے بہرہ یاب ہو گئے اور پھر وطن کو معاودت کی۔ وہاں اپنے قبیلہ کے لوگوں کو بڑے دلنشین انداز میں دعوت اسلام دی۔ چونکہ قبیلہ میں بڑی با اثر حیثیت کے مالک تھے اس لئے لوگوں نے ان کی باتیں بڑے دھیان سے سنیں۔ تھوڑے ہی عرصہ میں تقریباً پچاس آدمی حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔ حضرت ابو موسیٰؓ اشعری انہیں ساتھ لے کر بارگاہ نبوت میں حاضری کے لئے سمندر کے راستے یمن سے مدینہ کو روانہ ہوئے۔ اثنائے سفر میں بادِ مخالف چل پڑی جس نے ان کی کشتی کو ساحل حجاز پر پہنچانے کے بجائے ساحل حبش پر پہنچا دیا۔ طوعاً وکرہاً حبش میں اتر پڑے وہاں حضرت جعفرؓ بن ابی طالب دوسرے مہاجرین حبشہ کے ساتھ موجود تھے۔ وہ ان کو ساتھ لے کر مدینہ کو روانہ ہوئے۔ اس وقت خیبر فتح ہو چکا تھا اور حضور وہیں مقیم تھے۔ یہ جماعت خیبر میں ہی حضور کی خدمت میں باریاب ہوئی۔ اس موقع پر حضور نے فرمایا ''اہل یمن آتے ہیں جن کے دل بڑے گداز ہیں۔''
حضرت انسؓ بن مالک سے روایت ہے کہ شرف باریابی حاصل کرنے سے پہلے اشعریین فرطِ ابتہاج سے یہ شعر پڑھتے تھے۔
(ترجمہ) ''کل ہم اپنے دوستوں سے ملیں گے۔''
یعنی محمد (ﷺ) اور ان کے ساتھیوں سے''
وفد سرور عالم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ''یا رسول اللہ ہم آپ کی خدمت میں اس لئے حاضر ہوئے ہیں کہ تفقّہ فی الدین حاصل کریں اور کائنات کے آغاز کے بارے میں دریافت کریں۔
حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:
''سب سے پہلے اللہ کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس کا تخت پانی پر تھا۔ پھر اس نے زمین و آسمان پیدا کئے اور ہر چیز کو لوحِ محفوظ میں رکھ دیا۔''
لسانِ رسالتؐ سے تکون عالم کی تشریح سن کر اہل وفد اتنےے خوش ہوئے کہ ان کے قدم زمین پر نہ ٹکتے تھے۔
3. وفد جہینہ:
اس قبیلہ میں سب سے پہلے ایک سعید الفطرت شخص عمرو بن مرہّ الجہنی نے اسلام قبول کیا۔ وہ اپنے قبیلے کے بت خانہ کے متولّی تھے اور بڑی عزت و حشمت کی زندگی گزار رہے تھے۔ ہادی اکرم نے مختلف قبائل کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے بلا تامل اس دعوت پر لبیک کہی۔ اپنے بت خانے کو آگ لگا دی اور اس میں نصب بت کو ہتھوڑے سے توڑ کر وہیں پھینک دیا۔ اس کے بعد سیدھے مدینہ منورہ پہنچے اور حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہو گئے قبول اسلام کے بعد کچھ عرصہ مدینہ منورہ میں مقیم رہ کر حضرت معاذ بن جبل سے قرآن کی تعلیم حاصل کرتے رہے پھر حضور کے ایماء پر اشاعتِ اسلام کے لئے اپنے قبیلے میں واپس گئے اور ایس تندہی کے ساتھ حق کی تبلیغ کی کہ بہت تھوڑی مدت میں سوائے ایک بد بخت شخص کے سارا قبیلہ ان کے ہاتھ پر مسلمان ہو گیا۔ فتح مکہ سے پہلے اس قبیلہ کا ایک دو رکنی وفد سرور عالم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے اسلام کا اظہار کیا۔ وفد کے ایک رکن کا نام عبد العزی ابن بدر تھا۔ حضور ﷺ اس قسم کے جاہلی ناموں کو سخت ناپسند فرماتے تھے چنانچہ آپ نے عبد العزی سے مخاطب ہو کر فرمایا ''تم آج سے عبد اللہ بن بدر ہو۔'' قبیلہ جہنیہ بنی غیّان کی شاخ تھا۔ غیّان کے معنی چونکہ سرکشی کے ہوتے ہیں اس لئے حضور ﷺ نے اس کا نام بھی بدل دیا اور فرمایا ''آئندہ تمہارا قبیلہ ''بنی رشدان'' کہلائے گا۔'' (یعنی ہدایت یافتہ لوگ) جس وادی میں ان لوگوں کا مسکن تھا اس کا نام غولی (یعنی گمراہی) تھا۔ حضور ﷺ نے فرمایا ''آئندہ تم اس کو وادی رُشد کہا کرو۔'' فتح مکہ کے وقت اس قبیلہ کے بہت سے افراد حضور کے ہمرکاب تھے اور قبیلے کا جھنڈا حضرت عبد اللہ بن بدر (مذکور) کے پاس تھا۔ فتح مکہ کے بعد یہ لوگ مدینہ منورہ میں آباد ہو گئے۔
علامہ ابن سعد کا بیان ہے کہ حضور نے ان لوگوں کو مسجد بنانے کے لئے بطور خاص زمین مرحمت فرمائی۔
4. وفد اشجع:
۵ ہجری میں قبیلہ اشجع کا ایک وفد معاہدہ صلح کے لئے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہ وفد باختلافِ روایت ایک سویا سات سو آدمیوں پر مشتمل تھا۔ یہ لوگ مدینہ آکر محلہ شعبِ سلع میں قیام پذیر ہوئے۔ حضور کو ان کی آمد کی اطلاع ملی تو آپ نے اس بات کا انتظار نہ فرمایا کہ وہ خود بارگاہ نبوت میں حاضر ہوں بلکہ آپ خود ان کے پاس تشریف لے گئے، خیر و عافیت پوچھی اور بڑی دیر تک کمال اخلاق اور محبت کے ساتھ ان سے گفتگو فرماتے رہے۔ پھر صحابہؓ سے فرمایا کہ اپنے مہانوں کی کھجوروں سے تواضع کرو۔ وہ لوگ کھانے سے فارغ ہو گئے تو آپ نے انہیں بڑی نرمی کے ساتھ اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ انہوں نے جواب دیا ''محمد ﷺ ہم اسلام قبول کرنے کے لئے نہیں آئے۔ ہماری آمد کی غرض و غایت یہ ہے کہ آپ سے امن اور صلح کا معاہدہ کریں۔ کیونکہ آپ ﷺ کی اور آپ کی قوم کی آئے دن کی لڑائیوں نے ہمیں سخت پریشان کر رکھا ہے۔''
رحمت عالم ﷺ نے خندہ پیشانی سے فرمایا ''جو تم کہتے ہو وہ ہمیں منظور ہے۔'' چنانچہ صلح اور امن کا ایک معاہدہ لکھا گیا۔ جس کو فریقین نے منظور کر لیا۔ اس دوران میں اہلِ وفد حضور ﷺ کے اخلاق کریمانہ سے اتنے متاثر ہو چکے تھے کہ معاہدہ صلح معرض تحریر میں آنے کے معاً بعد وہ سب پکار اُٹھے۔ ''اے محمد ﷺ! آپ اللہ کے سچے رسول ہیں اور آپ کا دین برحق ہے۔'' چنانچہ سب کے سب دولت اسلام سے بہرہ یاب ہو کر اپنے گھروں کو لَوٹے۔
5. وفد اسلم و غِفار:
اسی زمانے میں قبیلہ اسلم اور قبیلہ غفار کو بھی قبول اسلام کی سعادت نصیب ہوئی اور ان کے بہت سے افراد عمیرہ بن افطی کی سرکردگی میں خدمت نبوی میں باریاب ہوئے۔ انہوں نے عرض ''کیا یا رسول اللہ ہم نے دل و جان کے ساتھ اللہ کی اور آپ کی اطاعت اختیار کی ہمیں کوئی ایسی چیز عطا فرمائیں کہ ہم دوسرے قبائل کے سامنے اپنا سرعزت کے ساتھ بلند کر سکیں۔''
حضور نے ان کی درخواست کے جواب میں دستِ دعا اُٹھا کر فرمایا ''الٰہی اسلم کو سلامت رکھ اور غفار کی مغفرت فرما'' یہ دعا اہلِ وفد کے لئے اتنا بڑا اعزاز تھی کہ وہ فرطِ مسرت سے پھولے نہیں سماتے تھے۔
6. وفد بنو اسد:
۹ ہجری کے اوائل میں بنو اسد بن خزیمہ کا ایک وفد حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہ دس آدمیوں پر مشتمل تھا اور ضرار بن الازور، وابصہ بن معبد اور طلیحہ بن خویلد جیسے مشہور لوگ اس میں شامل تھے۔ یہ قبیلہ بڑا جنگجو تھا اور کفر و اسلام کے معرکوں میں قریش کا حلیف رہا تھا۔ حضور نے ان کی طرف کوئی مبلغ نہیں بھیجا تھا اور وہ حالات سے مجبور ہو کر خود ہی بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئے تھے۔ وفد کے کچھ اراکین نے فخریہ لہجے میں کہا کہ آپ نے کوئی مہم یا تبلیغی جماعت ہماری طرف نہیں بھیجی۔ بلکہ ہم نے خود ہی اسلام قبول کیا اور پھر دور دراز کی مسافت طے کر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ تعلی پسند نہ آئی اور یہ آیت نازل ہوئی۔
يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لَا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلَامَكُمْ بَلِ اللَّهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدَاكُمْ لِلْإِيمَانِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (سورہ حجرات)
''(اے نبی) یہ لوگ تم پر یہ احسان رکھتے ہیں کہ ہم اسلام لائے کہہ دو کہ مجھ پر اپنے اسلام لانے کا احسان نہ رکھو۔ بلکہ اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تم کو ایمان لانے کی ہدایت کی اگر تم اپنے قول میں سچے ہو۔''
رکن وفد حضرت ضرار بن الازور اپنے قبیلے کے اربابِ ثروت میں سے تھے ان کے پاس ایک ہزار اونٹوں کا گلہ تھا۔ دولتِ اسلام سے بہرہ یاب ہوئے تو جہاں ہر قسم کے لہو و لہب سے توبہ کر کی وہاں سب مال مویشی بھی راہِ خدا میں دے دیئے اور خالی ہاتھ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے حضور کی خدمت میں یہ شعر پڑھے:
ترکت الخمور وضرب القداح واللھو تعلله وانتھالا
فیارب لا تغبنن صفقتي فقد بعت أھلي ومالي مرالا
رحمت عالمؐ نے فرمایا ''تمہاری تجارت خسارے میں نہیں رہی۔''
اراکینِ وفد نے حضور ﷺ سے پوچھا: ''یا رسول اللہ! جانوروں کی بولیوں سے شگون لینا کیسا ہے؟''
حضور نے فرمایا: ''ناجائز ہے۔''
پھر انہوں نے پوچھا: ''خط کشی (رمل) کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟''
حضور نے فرمایا! ''یہ بلاشبہ ایک علم ہے بشرطیکہ کوئی جانتا ہو۔''
ان لوگوں نے اپنے قبیلہ میں جا کر بڑے جوش اور اخلاص کے ساتھ اسلام کی تبلیغ کی۔ بد قسمتی سے اس وفد کا ایک رکن طلیحہ بن خویلد اسدی اواخر رسالت میں قتنہ ارتداد میں مبتلا ہو گیا۔ اور نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ صدیق اکبرؓ کے عہد خلافت میں حضرت خالدؓ بن ولید نے اسے کمر شکن شکست دی اور وہ شام کی طرف بھاگ گیا۔ حضرت عمر فاروق کے عہد خلافت میں اللہ تعالیٰ نے اسے دوبارہ قبول اسلام اور توبہ کی توفیق دی اور اس نے دربار خلافت میں حاضر ہو کر فاروق اعظم کی بیعت کی اس کے بعد اس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ میدان جہاد میں گزارا۔
7. وفد بنی عذرہ:
صفر ۹ ہجری میں قبیلہ عذرہ کے انیس (اور ایک دوسری روایت کے مطابق بارہ) آدمی بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے۔ حضور نے ان سے پوچھا ''تم کون لوگ ہو؟'' انہوں نے عرض کیا ''ہم بنی عذرہ ہیں قصّی کے (ماں کی طرف سے) بھائی ہیں ہم نے قصّی کے انصار بن کر خزاعہ اور بنی بکر کو مکہ سے نکالا تھا اس لئے ہم حضور کے قرابت دار بھی ہیں۔''
رسولِ اکرم نے ان کے جواب میں اہلا وسہلاً ومرحبا فرمایا پھر انہیں بشارت دی کہ انشاء اللہ جلد ہی ان کا علاقہ ہرقل کے چنگل سے آزاد ہو جائے گا۔
اہل وفد نے حضور ﷺ سے چند سوالات پوچھے۔ تسلی بخش جواب ملنے پر سب حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔ حضور نے انہیں نصیحت فرمائی کہ (۱) کاہنوں سے سوال نہ پوچھا کرو اور (۲) جو قربانیاں تم اب دیتے ہو وہ سب منسوخ ہیں صرف عید الضحٰے کی قربانی باقی رہ گئی ہے۔ استطاعت ہو تو ضرور دیا کرو۔
یہ لوگ چند روز بطور مہمان حضور کے پاس ٹھہرے اور پھر انعام و جائزہ سے مشرف ہو کر رخصت ہوئے۔
8. وفد سلاماں:
سلاماں کے سات (یا ایک دوسری روایت کے مطابق سترہ) آدمی شوال ۱۱ ہجری میں رسولِ کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے انہوں نے قبولِ اسلام کے بعد خود بھی حضور کی بیعت کی اور پھر اپنے قبیلے کے تمام لوگوں کی طرف سے بھی بیعت کی۔
انہوں نے حضور سے پوچھا ''یا رسول اللہ افضل ترین عمل کون سا ہے؟'' حضورؐ نے فرمایا! ''پابندی وقت سے نماز ادا کرنا'' پھر انہوں نے عرض کیا ''یا رسول اللہ ہمارے ہاں خشک سالی ہے بارش کے لئے دعا کیجیے۔'' حضور نے اسی وقت زبان مبارک سے یہ الفاظ ارشاد فرمائے۔
وفد کے ایک رکن حبیبؓ بن عمرو نے عرض کیا یا رسول اللہ اپنے مبارک ہاتھ اُٹھا کر دعا فرمائیں'' حضور مسکرائے اور ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔ یہ وفد اپنے وطن واپس گیا تو معلوم ہوا کہ جس دن حضور ﷺ نے دعا کی تھی اسی دن بارش ہو گئی تھی۔
9. وفد بنو حارث بن کعب:
بنو حارث بن کعب نجران کا ایک نہایت معزز اور جنگجو قبیلہ تھا۔ سارے عرب میں شہرت تھی کہ اس نے کبھی دشمن سے شکست نہیں کھائی۔ رسول اکرم نے حضرت خالدؓ بن ولید کو تبلیغِ اسلام کے لئے اس قبیلہ میں بھیجا تھا۔ ان کی مساعی سے یہ بہادر قبیلہ مشرف بہ اسلام ہو گیا اور ان کا ایک وفد ۹ ہجری یا ۱۰ ہجری حضرت خالدؓ بن ولید کے ساتھ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوا۔
حضور ﷺ نے ان سے پوچھا کہ زمانہ جاہلیت میں جو تم سے لڑا وہ ہمیشہ مغلوب رہا اس کا کیا سبب ہے۔ انہوں نے عرض کیا ''یا رسول اللہ اس کے تین سبب تھے۔
1. ہم اپنی طرف سے کسی پر ظلم یا زیادتی نہیں کرتے تھے۔
2. ہم خود کسی پر چڑھ کر نہیں جاتے تھے اور نہ لڑائی میں پہل کرتے تھے۔
3. جب کوئی ہم پر لڑائی تھوپ دیتا تھا تو میدانِ جنگ میں ہم بنیان مرصوص بن جاتے تھے اور کبھی منتشر نہیں ہوتے تھے۔
حضور ﷺ نے فرمایا ''بے شک تم سچ کہتے ہو۔ جو فوج یا جماعت ان اصولوں پر لڑے گی وہ ہمیشہ غالب رہے گی۔
جب یہ لوگ رخصت ہونے لگے تو حضور ﷺ نے عام اراکین وفد کو دس دس اوقہ اور ان کے سردار قیسؓ بن الحصین کو ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی مرحمت فرمائی۔
10. وفد بنو صدف:
فتح مکہ کے بعد قبیلہ صد کے انیس آدمیوں کی ایک جماعت حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ یہ لوگ اسلام قبول کر چکے تھے لیکن بارگاہ نبوت میں پہنچ کر وہ بغیر سلام کئے بیٹھ گئے۔ حضور نے ان سے پوچھا ''کیا تم لوگ ابھی تک اسلام نہیں لائے اور کیا ہمارا کوئی داعی تمہارے پاس نہیں گیا۔''
انہوں نے عرض کیا ''یا رسول اللہ ہم اسلام قبول کر چکے ہیں اور آپ کا مبلغ ہمارے پاس پہنچ چکا ہے۔
ہادیٔ اکرم ﷺ نے فرمایا: تو پھر تم نے سلام کیوں نہیں کیا؟
یہ سن کر انہیں سخت ندامت ہوئی اور سب نے کھڑے ہو کر السّلامُ عَلیکَ ابہا النبی ورحمۃ اللہ'' کہا۔ حضور نے جواب میں ''وعلیکم السلام'' فرمایا اور حکم دیا کہ بیٹھ جاؤ پھر آپ ﷺ نے انہیں اوقاتِ نماز اور فرائض اسلام کی تعلیم دی۔
11. وفد بنی سعد ہذیم:
بنو سعد ہذیم قبیلہ قضاعہ کی ایک شاخ تھے۔ اس قبیلہ کے چند حضرات مسجد نبوی میں پہنچے تو دیکھا کہ رسول اکرم ﷺ کسی جنازہ کی نماز پڑھا رہے ہیں یہ لوگ اگرچہ پہلے ہی اسلام قبول کر چکے تھے لیکن انہوں نے نماز جنازہ میں شرکت نہیں کی اور الگ ہو کر بیٹھے رہے۔ حضور نماز جنازہ سے فارغ ہوئے تو ان سے پوچھا ''تم کون لوگ ہو؟'' انہوں نے عرض کیا کہ ہم سعد ہذیم کے آدمی ہیں۔ حضور ﷺ نے پوچھا ''کیا تم مسلمان ہو'' انہوں نے عرض کیا ''ہاں یا رسول اللہ ہم آپ پر ایمان لا چکے ہیں اور بیعت کے لئے حاضر ہوئے ہیں۔'' حضور ﷺ نے فرمایا ''پھر تم اپنے بھائی کی نماز جنازہ میں شریک کیوں نہ ہوئے۔'' انہوں نے عرض کیا ''یا رسول اللہ ہم سمجھتے تھے کہ بیعت کئے بغیر ہمیں نماز میں شریک ہونے کا حق نہیں ہے۔''
حضور ﷺ نے فرمایا ''ایمان لانے اور بیعت کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے۔'' یہ لوگ اپنے ایک ساتھی ساتھی کو سواریوں کے پاس بٹھا آئے تھے، اتنے میں وہ بھی آگئے اہل وفد نے حضور کو بتایا کہ یہ ہم میں سے کم عمر ہیں اس لئے ہماری خدمت کرتے ہیں۔
حضور نے فرمایا ''أصْغَرُ الْقَوْمِ خَادِمُھُمْ'' (چھوٹا اپنے بڑوں کا خادم ہوتا ہے) اللہ تعالیٰ اسے برکت دے۔ اس کے بعد یہ لوگ رخصت ہونے لگے تو حضور نے انہوں آواز دے کر ٹھہرایا اور فرمایا ''آپ لوگ ٹھہریں۔ اتنی جلدی واپسی کی کیا ضرورت ہے۔ چنانچہ یہ وفد تین دن مدینہ منورہ میں ٹھہرا اور حضور ﷺ نے اس کی بے حد خاطر مدارات کی یہ لوگ وطن واپس آگئے تو ان کی تبلیغ سے سارا قبیلہ مسلمان ہو گیا۔ جس نوجوان کو حضور ﷺ نے دعائے برکت دی تھی وہ کلام اللہ کے عالم اور اپنی قوم کے امام بنے۔
12. وفد بلی:
قبیلہ کا ایک وفد ربیع الاول ۹ ہجری میں بارگاہ نبوی میں حاضر ہوا۔ اس کے قائد ابو انصباب تھے حضور ﷺ نے ان کے سامنے محاسنِ اسلام بیان کئے اور انہوں نے کچھ باتیں آپ سے دریافت کیں۔ ہر ایک کا تسلی بخش جواب ملا تو سب حلقہ بگوش اسلام ہو گئے اور حضور کی بیعت کی۔ آپ ﷺ ان کے لئے کھجوروں کا ایک بوجھ خود اُٹھا کر لائے اور ان سے فرمایا ''کھاؤ'' وہ لوگ حضور کا خلقِ عظیم دیکھ کر ششدر رہ گئے حضور ﷺ نے ان کو تین دن مہمان رکھا اور پھر ہر ایک کو انعام دے کر رخصت کیا۔
13. وفد بنو تمیم:
فتح مکہ کے کچھ عرصہ بعد بنو تمیم کا وفد بڑی شان و شوکت اور جاہلی ٹھاٹھ کے ساتھ مدینہ منورہ آیا۔ یہ ستر یا اسی آدمیوں پر مشتمل تھا اور اس میں قبیلہ کے بڑے بڑے رؤسأ شعلہ بیان خطیب اور سحر البیان شاعر شامل تھے۔ زمانہ جاہلیت میں عربوں میں مفاخرت اور مقابلت کا جذبہ بہت شدید تھا اور وہ لوگ ہر وصف میں ایک دوسرے سے مقابلہ کیا کرتے تھے۔ (اسلام نے مفاخرۃ کو مذموم قرار دیا اور فضیلت کی بنیاد تقویٰ کو ٹھہرایا) بنو تمیم کے دماغوں میں بھی خاندانی فخر و غرور کا نشہ سمایا ہوا تھا۔ وہ آتے ہی مسجد نبوی میں گھس پڑے۔ حضور ﷺ اس وقت گھر کے اندر تھے ان لوگوں کی بیباکی اور اکھڑ پن کی یہ کیفیت تھی کہ انہوں نے نہ تو حضور ﷺ کے باہر تشریف لانے کا انتظار کیا اور نہ اس بات کا لحاظ کیا کہ حضور ﷺ کس درجہ کی شخصیت ہیں۔ بلکہ آستانہ اقدس پر جا کر بے تحاشہ آوازیں دینی شروع کر دیں ''محمدؐ (ﷺ) باہر آؤ اور ہماری بات سنو۔'' حضور کو ان کا اکھڑ پن ناگوار تو گزار لیکن آپ ﷺ باہر تشریف لے آئے۔ آپ چاہتے تو ان لوگوں کو سخت سزا دے سکتے تھے لیکن آپ ﷺ کی شانِ عفووکرم دیکھئے کہ ان سے نہایت خندہ پیشانی سے ملاقات فرمائی۔ وفد کے ایک رئیس اقرع بن جالس نے حضور ﷺ نے کہا محمد ﷺ میں وہ ہوں کہ خدا کی قسم میری مدح انسان کی عزت کو بڑھا دیتی ہے اور میری ہجو انسان کو داغ لگا دیتی ہے۔'' حضور ﷺ نے فرمایا یہ تو خدا کا کام ہے۔ انہوں نے کہا ''ہم سب سے زیادہ معزز ہیں۔'' حضور نے فرمایا ''تم سے زیادہ معزز یوسفؑ بن یعقوبؑ تھے۔''
اگرچہ قبول اسلام کے لئے یہ شرط بڑی نامعقول تھی لیکن حضور ﷺ چاہتے تھے کہ یہ لوگ کسی ہی ڈھب سے دعوتِ حق کو سمجھ جائیں چنانچہ آپ نے فرمایا ''میں فخاری اور شعر بازی کے لئے مبعوث نہیں ہوا لیکن اگر تم اسی کے لئے آئے ہو تو یونہی سہی تم اپنا کمال دکھاؤ ہم جواب دیں گے۔''
بنو تمیم میں ایک شخص عطارد بن حاجب تھے وہ ایک شعلہ بیان خطیب تھے اور ایک دفعہ نوشیراں کے دربار میں اپنی خطابت کے جوہر دکھا کر کمخواب کا خلعت حاصل کر چکے تھے۔ حضور ﷺ سے اجازت پا کر وہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور مفاخرہ کا آغاز اپنی اس تقریر سے کیا۔
''تعریف اس خدا کی جس نے اپنے فضل و کرم سے تاج و تخت کامالک بنایا۔ اہل مشرق میں ہمیں سب سے زیادہ معزز کیا۔ ہمارے خزانے سیم و زر سے بھرے ہوئے ہیں جنہیں ہم فیاضی سے خرچ کرتے ہیں۔ لوگوں میں ہمارا مثل و نظیر نہیں۔ کیا ہم آدمیوں کے سردار اور ان میں صاحب فضل نہیں ہیں؟ اگر کسی کو یہ دعویٰ ہو تو وہ ہمارے قول سے اچھا قول اور ہمارے حالات سے اچھے حالات پیش کرے۔ اب مجھ کو جو کہنا تھا کہہ چکا۔''
عطارد یہ تقریر کر کے بیٹھ گئے۔ حضور نے ان کا جواب دینے کے لئے حضرت ثابت بن قیس انصاریؓ کو اشارہ کیا۔ انہوں نے یہ خطبہ دیا۔
''تعریف اس خدائے عزوجل کی جس نے زمین اور آسمان پیدا کئے۔ ان پر اپنا حکم جاری کیا۔ اپنی کرسی اور اپنے علم کو وسعت دی۔ وہ قادر مطلق ہے جو کچھ ہوتا ہے۔ اسی کی قدرت سے ہوتا ہے۔ اس کی قدرتوں میں سے ایک یہ ہے کہ اپنی مخلوق میں سے ہمارے لئے ایک پیغمبر مبعوث کیا جو سب سے زیادہ شریف النفس ہے۔ سب دنیا سے بڑھ کر راست گو اور سب سے زیادہ شریف الاخلاق ہے۔ پھر اس پیغمبر پر ایک کتاب نازل کی اور اپنی خلقت کا اسے امانت دار بنایا اور وہی وہ شخص ہے جسے خدا نے سارے عالم سے برگزیدہ کیا۔ پھر اس نے لوگوں کو حق کی طرف بلایا تو اس کی قوم اور اقربا میں سے پہلے مہاجرین نے حق کو قبول کیا۔ جو نسب میں افضل ہیں ان کے چہرے سب سے زیادہ روشن ہیں اور ان کے اعمال سب سے اچھے ہیں پھر ان کے بعد سارے عرب میں سے ہم گروہِ انصار نے دعوتِ حق پر لبیک کہا۔ لہٰذا ہم خدا کے انصار اور اس کے رسول کے وزیر ہیں اور لوگ جب تک ایمان نہ لائیں اور لا الٰہ الا اللہ نہ کہیں ہم ان سے لڑتے رہیں گے اور جو کوئی اللہ اور اللہ کے رسول کو ماننے سے انکار کرے گا ہم اس کے خلاف راہِ خدا میں جہاد کریں گے اور جہاد کرنا ہمارے لئے کوئی دشوار کام نہیں ہے۔ مجھے جو کہنا تھا کہہ چکا اور اب میں تمام مومنین اور مومنات کے لئے بارگاہِ الٰہی میں دعائے مغفرت کرتا ہوں۔''
تقریریں ہو چکیں تو اشعار کی باری آئی۔ بنو تمیم کی طرف سے ان کے سحر البیان شاعر زبرقان بن بدر کھڑے ہوئے اور اپنی قوم کی شان میں ایک پُرزور قصیدہ پڑھا جس میں خود ستائی، تعلّی اور نخوت کے سوا کچھ نہ تھا تاہم اس کے زورِ بیان اور فصاحت و بلاغت میں کوئی کلام نہ تھا۔ حافظ ابن حجرؒ نے اصابہ میں لکھا ہے کہ زبرقان کے اشعار سن کر خود جناب رسالت مآب نے فرمایا:
ان من البیان لسحراً یعنی بعض بعض تقریروں میں جادو ہوتا ہے
زبرقان بیٹھے تو حضور ﷺ نے حضرت حسان بن ثابت کو حکم دیا کہ وہ ان کا جواب دیں۔
حضرت حسانؓ اقلیم سخن کے بادشاہ تھے۔ زمانہ جاہلیت میں شاہان غسان کے درباروں میں اپنے حسنِ کلام اور طاقت لسانی کا لوہا منوا چکے تھے۔ قبول اسلام کے بعد ان کی شاعری کے جوہر اور بھی چمک گئے تھے۔ کیونکہ انہوں نے محض رضائے الٰہی کو اپنا مقصود بنا لیا تھا اور اپنی شاعری کو مدحت رسول کے لئے وقف کر دیا تھا۔ انہوں نے حضور کا اشارہ پاتے ہی اٹھ کر زبر قان ہی کے بحر اور قافیہ میں فی البدیہہ ایسے فصیح اور بلیغ اشعار سنائے کہ بنی تمیم انگشت بدفداں ہو گئے۔ لیکن وہ آسانی سے کب ہار مانتے تھے۔ زبرقان (اور بروایتِ دیگر عطارد) پھر اٹھ کھڑے ہوئے اور چند اشعار اپنی فضیلت میں پڑھے۔ حضرت حسانؓ نے ان ان اشعار کا بھی برجستہ جواب دیا۔ اب بنوتمیم کی زبانیں گنگ ہو گئیں۔ اقرع بن حابس جو خود بڑے فصیح البیان شاعر اور خطیب تھے اور جن کی اصابت رائے کا سارا عرب معترف تھا۔ یہاں تک کہ متحارب قبائل اپنے جھگڑوں میں ان کو حَکَم (جج یا ثالث) بنایا کرتے تھے بے ساختہ پکار اُٹھے ''باپ کی قسم محمد ﷺ کا خطیب ہمارے خطیب سے بہتر ہے اور ان کا شاعر ہمارے شاعر سے افضل ہے۔ ان کا کلام ہمارے کلام سے زیادہ فصیح اور ان کی زبان ہماری زبان سے زیادہ شیریں ہے۔'' اہل وفد نے ان کی رائے سے اتفاق کیا اور سب اسی وقت حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔ یہ لوگ چند دن مدینہ منورہ میں ٹھہرے اور قرآن اور عقائد دین کی تعلیم حاصل کی۔ عطاردؓ بن حاجب اسلام سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے نوشیرواں سے انعام میں پایا ہوا کمخوابی خلعت مدینہ کے بازار میں فروخت کر دیا۔ (اس لئے کہ یہ ریشمی تھا)۔
حضرت عمر فاروقؓ کو معلوم ہوا تو انہوں نے حضور کی خدمت میں عرض کیا '' یا رسول اللہ عطارد اپنا خلعت جو اس نے نوشیرواں کے دربار سے حاصل کیا تھا، فروخت کر رہا ہے، آپ اُسے خرید لیں۔''حضور ﷺ نے فرمایا یہ ریشم کا بنا ہوا ہے اسے وہ مرد استعمال کرے گا جس کا عاقبت میں حصہ نہ ہو۔'' یہ وفد رخصت ہونے لگا تو حضور ﷺ نے ہر شخص کو انعام و اکرام سے سرفراز فرمایا۔
14. وفد کندہ:
۱۰ ہجری میں کِندہ (حضرت موت) سے اسی آدمیوں کا ایک وفد بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوا اس کے سردار معدی کرب المعروف بہ اشعث بن قیس تھے وہ اپنے علاقے کے حکمران تھے اور ان کے ساتھی بھی صاحبِ حیثیت لوگ تھے۔ یہ سب اصحاب اگرچہ اسلام قبول کر چکے تھے لیکن ابھی انہوں نے وہ سادگی اختیار نہیں کی تھی جس کی اسلام تعلیم دیتا ہے۔ چنانچہ مدینہ میں اس شان سے وارد ہوئے کہ سب نے اپنے کندھوں پر حیرہ کی زریں چادریں ڈال رکھیں تھیں جن کے سنجاف حریر کے تھے۔ حضور ﷺ نے انہیں دیکھ کر استعجاب کا اظہار فرمایا اور پوچھا ''کیا تم اسلام قبول نہیں کر چکے؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم اللہ کے فضل سے نعمتِ اسلام سے بہرہ یاب ہو چکے ہیں۔''
حضور ﷺ نے فرمایا ''پھر یہ حریر کیسا؟''
اہل وفد اپنی غلطی پر متنبہ ہوئے اور سب نے فوراً چادریں پھاڑ پھاڑ زمین پر پھینک دیں۔ حضور ﷺ ان کا جذبہ الاص دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ جب وہ رخصت ہونے لگے تو حضور ﷺ نے رئیسِ وفد اشعث کو بارہ اوقیہ اور دوسرے لوگوں کو دس س اوقیہ چاندی بطور انعام مرحمت فرمائی۔
15. وفد خولان:
شعبان ۱۰ ہجری میں خولان کے دس مسلمان بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم خدا اور رسول کے اطاعت گزار ہیں اور طویل سفر کر کے محض حضور کی زیارت کے لئے حاضر ہوئے ہیں۔
رسول اکرم نے فرمایا: ''مَنْ زَارَنِي بِالْمَدْنِیَةِ کَانَ فِي جَوَارِي یَوْمَ الْقِیٰمَةِ''
(جس نے مدینہ آکر میری زیارت کی وہ قیامت کے دن میرا ہمسایہ ہو گا)
اس قبیلہ کے لوگ ''عم انس'' نامی ایک بت کی پرستش کیا کرتے تھے۔ حضور نے پوچھا ''تم نے عم انس کا کیا کیا؟'' انہوں نے عرض کیا ''یا رسول اللہ ہم آپ پر ایمان لے آئے ہیں اور اس کی پرستش ترک کر دی ہے البتہ چند بوڑھے لوگ ابھی تک اس کی پوجا کئے جاتے ہیں۔'' پھر انہوں نے جاہلیت کے زمانے کے چند واقعات سنائے کہ وہ کس طرح عم انس پر چڑھاوے چڑھاتے تھے اور خود بھوکے ننگے رہ کر ہر چیز سے اس کا حصہ نکالتے تھے۔
حضور نے ان لوگوں کو فرائض دین سکھائے اور بطور خاص یہ نصیحتیں فرمائیں۔
1. عہد کو پورا کرو۔
2. امانت میں خیانت کرو۔
3. پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرو۔
4. کسی شخص پر ظلم نہ کرو کیونکہ قیامت کا دن ظالم کے لئے اندھیری رات ثابت ہو گا۔
16. وفد مخارب:
قبیلہ مخارب کے دس آدمی ۱۰ ہجری میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے نہایت اخلاق سے ان کو ٹھہرایا اور حضرت بلالؓ کو ان کی خاطر مدارات پر مامور فرمایا۔ ایک دن حضور نے ظہر سے عصر تک کا وقت ان کے لئے وقف کر دیا۔ دوران گفتگو میں حضور ﷺ نے ایک شخص کی طرف غور سے دیکھا اور فرمایا ''میں نے تمہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔'' وہ بولے ''حضور نے بالکل درست فرمایا۔ آج سے سالہا سال پہلے حضور ﷺ بازار عکاظ میں تشریف لائے تھے۔ آپ نے مجھے وہاں دیکھا تھا اور مجھ سے بات بھی کی تھی۔ میں نے آپ کو نہایت گستاخانہ جواب دیا تھا۔''
حضور نے فرمایا ''ہاں ٹھیک ہے ٹھیک ہے یاد آگیا۔''
انہوں نے عرض کیا ''یا رسول اللہ اس دن مجھ سے زیادہ بدبخت کوئی نہ تھا۔ میں نے سب سے بڑھ چڑھ کر حضور کی مخالفت کی تھی۔ میرے سب ساتھی تو اپنے آبائی مذہب پر مر گئے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے اب تک زندہ رکھا اور ایمان لانے کی توفیق بخشی۔
حضور نے فرمایا: ''سب کے دل اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ میں ہیں۔''
انہوں نے عرض کیا: ''یا رسول اللہ میری گزشتہ لغزشوں کے لئے معافی کی دعا فرمائیے۔''
حضور نے فرمایا ''اسلام لاتے ہی وہ سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں جو حالتِ کفر میں سرزد ہوئے ہوں۔''
17. وفد نجیب:
بنی نجیب کے تیرہ آدمیوں کا ایک وفد ۹ ہجری میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہ لوگ اسلام قبول کر چکے تھے اور اپنے قبیلے کی زکوٰۃ لے کر آئے تھے۔ حضور نے فرمایا ''اسے واپس لے جاؤ اور اپنے قبیلے کے فقراء میں بانٹ دو۔'' انہوں نے عرض کیا ''یا رسول اللہ حاجت مندوں کو دے کر جو کچھ بچ رہا ہے ہم وہی لائے ہیں۔'' حضور ان کے جذبۂ اخلاص پر بہت خوش ہوئے۔ ان لوگوں نے دین کے بارے میں حضور سے چند سوالات پوچھے۔ آپ نے ان کے جوابات لکھوا دیئے۔ یہ لوگ کچھ دن حضور ﷺ کے مہمان رہے لیکن ان کو واپسی کی بڑی جلدی تھی۔ صحابہؓ نے پوچھا ''تم یہاں سے جلد جانے کے لئے کیوں بے تاب ہو۔'' انہوں نے کہا ''ہم چاہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے ہمیں جو فیوض و برکات حاصل ہوئے ان کی خبر اپنے اہل قبیلہ کو جلد از جلد پہنچائیں۔''
جب وہ رخصت ہونے لگے تو حضور نے ہر ایک کو فرداً فرداً انعام عطا فرمایا اور پھر پوچھا ہ تم میں سے کوئی رہ تو نہیں گیا انہوں نے عرض کیا ''ایک نوجوان کو ہم اسباب کی نگرانی پر مقرر کر آئے تھے وہ باقی ہے۔'' حضور نے اس کو بھی بلا بھیجا تاکہ تحفہ دیں۔ اس نے عرض کیا ''یا رسول اللہ میرے لیے تو فقط دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ میرے دل کو غنی بنا دے اور مجھے بخش دے۔'' حضور ﷺ نے اس کے لئے یہی دعا فرمائی۔ حجۃ الوداع میں اس قبیلے کے سولہ آدمی حضور ﷺ کی خدمت میں آئے تو آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ اس نوجوان کا کیا حال ہے۔ انہوں نے عرض کیا ''یا رسول اللہ اس کے استغناء کا یہ حال ہے کہ سارے جہان کی دولت اس کے قدموں پر ڈھیر کر دی جائے تو وہ آنکھ اُٹھا کر نہیں ڈیکھتا۔'' حضور ﷺ نے فرمایا ''میں اللہ سے آرزو کرتا ہوں کہ ہم سب کا خاتمہ اسی حالت پر ہو۔''
18. وفد بنو سعد بن بکر:
۹ ہجری میں بنو سعد بن بکر کی نمائندگی ایک ''یک رکنی'' وفد نے کی، یہ صاحب تھے حضرت ضمام بن ثعلبہ۔ وہ اپنے قبیلہ کے سربراہ اور نہایت دانا آدمیوں میں شمار ہوتے تھے۔ اس لئے دربار رسالت میں اہل قبیلہ نے اپنی وکالت کے لئے صرف انہیں ہی بھیجنا کافی سمجھا۔ وہ بدوی سادگی کے ساتھ مدینہ منورہ پہنچے اور اپنی ناقہ کی مہار تھامے بلا تکلف مسجد نبوی میں جا گھسے۔ حضور اس وقت صحابہ کرامؓ کے حلقے میں تشریف فرما تھے۔ ضمام نے سانڈنی کو ایک کونے میں بٹھایا اور مجمع کے قریب پہنچ کر سلام و کلام کے بغیر یوں گویا ہوئے۔
''آپ لوگوں میں محمد (ﷺ) یا بردایت دیگر ابنِ عبد المطلب کون صاحب ہیں؟''
صحابہؓ نے حضور ﷺ کی طرف اشارہ کر کے کہا ''یہ گورے رنگ کے جو تکیہ لگائے بیٹھے ہیں۔''
ضمام نے کہا ''اے ابن عبد المطلب آپ کا داعی ہمارے پاس آیا تھا۔ اس نے چند باتیں آپ کی طرف سے ہمارے سامنے پیش کیں میں ان کی آپ سے تصدیق کرانا چاہتا ہوں۔ آپ میرے بدوی لہجے کی شتی سے دل میں غبار تو نہ لائیے گا۔''
حضور ﷺ نے فرمایا: ''تم جو کچھ پوچھنا چاہتے ہو بلا تکلف پوچھو۔''
ضمام: آپ کے داعی نے ہم سے کہا کہ آپ کو اس بات کا یقین ہے کہ اللہ نے آپ کو پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔'
رسول اکرمؐ: ''اس نے سچ کہا۔''
ضمام: ''آسمان کس نے بنایا؟''
رسول کریمؐ: ''اللہ نے۔''
ضمام: ''اور زمین؟''
رسول کریم: ''اللہ نے''
ضمام: اچھا تو ان پہاڑوں کو کس نے قائم کیا اور اس میں قسم قسم کی چیزیں کس نے بنائیں۔''
رسول کریمؐ: ''اللہ نے''
یہ سن کر ضمام بولے ''اسی کی قسم جس نے زمین و آسمان بنائے اور ان پہاڑوں کو قائم کیا۔ سچ بتائیے کیا واقعی اللہ نے آپ کو رسول بنایا ہے؟''
رسول اکرم: ''ہاں''
ضمام: ''آپ کے داعی نے یہ بھی کہا تھا کہ دن رات میں ہم پر پانچ نمازیں فرض ہیں۔''
رسول اکرمؐ: ''اس نے سچ کہا''
ضمام: ''اس ذات کی قسم جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا سچ بتائیے کیا واقعی اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟''
رسول اکرمؐ: ''ہاں''
ضمام: ''آپ کے قاصد نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمارے مالوں پر زکوٰۃ بھی واجب ہے۔''
رسول اکرمؐ: ''اس نے سچ کہا''
ضمام: ''اس ذات کی قسم سچ بتائیے کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟''
رسول اکرمؐ: ''ہاں''
ضمام: آپ کے قاصد نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمارے ذمہ ایک سال میں ماہِ رمضان کے روزے ہیں۔''
رسول اکرمؐ: ''ہاں اس نے سچ کہا۔''
ضمام: ''اس ذات کی قسم جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ٹھیک بتائیے واقعی اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا۔''
رسول اکرم: ''ہاں''
ضمام: ''آپ کے قاصد کا یہ بھی خیال ہے کہ ہم میں جس کے پاس سواری اور زادِ راہ ہو اس پر بیت اللہ کا حج کرنا بھی فرض ہے۔''
رسولِ اکرمؐ: ''اس نے سچ کہا۔''
یہ سوال و جواب ہو چکے تو ضمام نے کلمۂ شہادت پڑھا اور کہا: ''میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے۔ میں اپنی قوم کا قاصد ہوں جومیرے پیچھے ہے اور میں بنو سعد بن بکر کا بھائی ہوں۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو سچا نبی بنایا ہے۔ میں ان باتوں پر جو آپ نے مجھے بتائی ہیں ذرہ برابر کمی بیشی نہ کروں گا۔''
یہ کہہ کر وہ اسی وقت واپس چل پڑے۔ حضور ﷺ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا ''اگر یہ شخص سچ کہہ رہا ہے تو ضرور جنت میں داخل ہو گا۔''
''اصابہ'' میں حضرت عمر فاروقؓ سے روایت ہے کہ ''میں نے ضمام سے بہتر اور موثر گفتگو کرنے والا کوئی شخص نہیں دیکھا۔''
ضمامؓ اپنے قبیلے میں واپس گئے و سب سے پہلے جو الفاظ ان کے منہ سے نکلے وہ یہ تھے۔ ''بئست اللّات والعزّٰی'' ''لات اور عزّیٰ دونوں ذلیل و خوار ہیں۔'' ان کے قبیلے والے یہ سن کر پہلے تو بہت جھلائے لیکن جب ضمام نے دلنشین انداز میں اس ساری گفتگو کی روئداد سنائی جو اُن کے اور رسول اکرم ﷺ کے مابین ہوئی تھی تو سارا قبیلہ شام ہونے سے پہلے پہلے مشرف باسلام ہو گیا۔
19. وفد عبد القیس:
قبیلہ عبد القیس بحرین کا رہنے والا تھا۔ یہ سعید الفطرت لوگ تھے اور فتح مکہ سے بہت پہلے دعوت اسلام پر لبیک کہہ چکے تھے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ مسجد نبوی کے بعد سب سے پہلا جمعہ عبد القیس ہی کی مسجد میں قائم ہوا جو انہوں نے بحرین کے مقام جواثیٰ میں تعمیر کی تھی۔ اس قبیلہ کے نمائندے احکامِ دین سیکھنے کے لئے دو مرتبہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے۔ پہلی مرتبہ ۵ ہجری میں یا اس سے کچھ پہلے یا بعد اور دوسری مرتبہ ۹ ہجری یا ۱۰ ہجری میں۔ پہلی مرتبہ ان کے وفد میں تیرہ آدمی تھے اور دوسری مرتبہ بیس (بقول علامہ ابن سعد) یا چالیس (بقول حافظ ابن حجرؒ اور قسطلانی) ان کے پہلی مرتبہ ورود مدینہ کے بارے میں زرقانیؒ نے ''شرح مواہب'' میں بیہقی سے نقل کیا ہے کہ ایک دن رسول اکرم نے فرمایا کہ ابھی تمہارے پاس کچھ لوگ آرہے ہیں جو اہل مشرق میں سب سے بہتر ہیں۔ حضرت عمرؓ فاروق نے حضور ﷺ کا ارشاد سنا تو فرطِ اشتیاق سے ان لوگوں کو دیکھنے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ مجلس نبوی سے باہر نکلے تو انہیں تیرہ آدمیوں کا ایک قافلہ ملا۔ انہوں نے اہل قافلہ کو رحمتِ عالم ﷺ کے ارشاد سے آگاہ کیا اور پھر انہیں ساتھ لے کر دربارِ رسالت کی طرف روانہ ہوئے ان لوگوں نے دور سے حضور ﷺ کو دیکھا تو اپنا سامان وہیں چھوڑ چھاڑ دیوانہ وار حضور کی طرف دوڑ پڑے اور آپ کے دستِ مبارک چومنے لگے تاہم اس وفد کے سردار عبد اللہ بن عوف الاشج (معروف بہ عبد الاشج یا اشج) پیچھے رہ گئے۔ وہ اگرچہ نوجوان تھے لیکن بڑے بردبار اور زیرک تھے۔ انہوں نے اپنے گرد آلود لباس میں ہادی اکرم کی خدمت میں حاضر ہونا مناسب نہ سمجھا۔ انہوں نے پہلے تو اپنے قافلے کے اونٹ باندھے۔ پھر اپنی گٹھڑی کھول کر سفر کے کپڑے اتارے اور دوسرا صاف ستھرا لباس پہنا۔ پھر نہایت اطمینان کے ساتھ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے دست اقدس کو بوسہ دیا۔ اشج کی شکل و صورت یونہی سی تھی اور اس میں کوئی دلکشی نہیں تھی۔ حضور ﷺ نے ان کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھا تو انہوں نے عرض کیا ''یا رسول اللہ آدمی کی قدر و قیمت اس کے قدو قامت اور شکل و صورت سے نہیں ہوتی۔ اس کی قیمت صرف اس کے دو چھوٹے سے اعضاء سے ہوتی ہے زبان اور دل۔'' ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس موقع پر خود رسول اکرم ﷺ نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے۔ ''انسان کی کھال کی مشک نہیں بنائی جاتی البتہ اس کی دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ایک اس کی زبان دوسرے اس کے دل کی۔'' پھر آپﷺ نے اشجؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا ''تم میں دو خصلتیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے دانائی اور بردباری (یا بردایت دیگر حلم اور وقار)۔ انہوں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ یہ دونوں خصلتیں پیدائشی اور خلقی ہیں۔'' حضوررﷺ نے ان لوگوں کو رملہؓ بنت حارث کے مکان پر ٹھہرایا اور دس تک تک مہمان رکھا اس دوران میں عبد اللہ الاشج حضور ﷺ سے قرآن و دینی مسائل سیکھتے رہے۔
صحیح مسلم اور دیگر کتب صحاح میں وفد عبد القیس کی آمد کا حال اور طریقے سے مذکور ہے۔ اس میں یہ تصریح نہیں کی گئی کہ اس قبیلہ کے لوگ دو مرتبہ بارگاہ رسالت میں باریاب ہوئے۔ علامہ شبلیؒ نے سیرۃ النبی ﷺ میں لکھا ہے کہ ابن مندہؒ اور دولابیؒ نے اس قبیلہ کے دو وفدوں کا ذکر کیا ہے اور اسی بنا پر علامہ قسطلانیؒ اور حافظ ابن حجر نے بھی اس کے دو وفد قرار دیئے ہیں۔ صحیح مسلم اور دوسری کتبِ صحاح کی روایتوں کا خلاصہ یہ ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ جب عبد القیس کا وفد مدینہ آیا تو حضور ﷺ نے پوچھا ''یہ وفد کس قبیلہ کا ہے۔'' جواب ملا ''قبیلہ ربیعہ کا'' (عبد القیس کا دوسرا نام ربیعہ بھی تھا) حضور ﷺ نے فرمایا ''مرحبا۔ (تم لوگ خوشی سے مسلمان ہوکر آئے ہو اس لئے) تم لوگ نہ دنیا میں رسوا ہو گے نہ آخرت میں شرمندہ۔'' انہوں نے عرض کیا ''یا رسول اللہ آپ کے اور ہمارے علاقے کے درمیان کفارِ مضر کا جنگجو قبیلہ بستا ہے اس لئے ہم صرف ان ہی مہینوں میں آپ تک پہنچ سکتے ہیں جن میں کفار کے نزدیک (بھی) لڑائی حرام ہے۔ دوسرے مہینوں میں سفر ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں اختصار کے ساتھ دین کے چند ایسے احکام بتا دیں جن پر عمل کر کے ہم جنت کے مستحق قرار پائیں اور جو لوگ ہم سے پیچھے رہ گئے ہیں واپس جا کر ان کو بھی آپ کے ارشادات سے آگاہ کر دیں۔
حضور ﷺ نے فرمایا میں تمہیں چار باتوں کا حکم دیتا ہوں اور چار باتوں سے منع کرتا ہوں۔ امر کی چار باتیں یہ ہیں۔ (۱) خدائے واحد پر ایمان لانا یعنی زبان سے کلمہ شہادت اور دل سے اس پر یقین رکھنا۔ (۲) نماز پڑھنا اور زکوٰۃ ادا کرنا۔ (۳) ماہ رمضان کے روزے رکھنا۔ (۴) مالِ غنیمت میں سے پانچواں حصہ بیت المال میں جمع کرنا۔ اور جن چیزوں سے تمہیں بچنا ہے، وہ یہ ہیں:
(۱) دُبّا (توبنی) (۲) حنتم (روغنی) (۳) نقیر (کاٹھ کا بنا ہوا) (۴) مزفت (رال سے لپا ہوا) قسم کے برتنوں کے استعمال کو ترک کرنا ہو گا (ان برتنوں میں عرب شراب ڈال کر پیا کرتے تھے۔ چونکہ بنو عبد القیس شراب پینے کے سخت عادی تھے اور شراب کا ذخیرہ انہیں برتنوں میں رکھتے تھے۔ اس لئے حضور ﷺ نے ان کے استعمال سے منع فرمایا)۔
انہوں نے سوال کیا ''حضور ﷺ آپ کو علم ہے کہ نقیر کسے کہتے ہیں؟''
حضور نے فرمایا ''ہاں جانتا ہوں۔ کھجور کی موٹی لکڑی لکڑی کو اندر سے کھود کر تم اس میں کھجوریں رکھتے ہو اور ان پر کھجور کے درخت کا رس ڈال دیتے ہو۔ پھر اس میں پانی ملاتے ہو۔ رس اور پانی مل کر جوش کھاتا ہے۔ ٹھنڈا ہو جانے کے بعد تم اسے پیتے ہو اور پھر نشہ میں چور ہو کر اپنے ہی بھائی پر تلوار چلاتے ہو۔'' حضور ﷺ کا ارشاد سن کر اہل وفد ہنس پڑے۔ حضور ﷺ نے ہنسی کا سبب پوچھا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ہمارے ہاں ایسا حادثہ رونما ہو چکا ہے۔ ہم میں یہ صاحب موجود ہیں جن کو ان کے بھائی نے نشہ میں چور ہو کر زخمی کر دیا تھا۔'' پھر انہوں نے پوچھا ''یارسول اللہ ہمارے لئے کون سے ظروف کا استعمال جائز ہے۔'' فرمایا ''چمڑے کے ڈول، مشکیزے اور کپّے وغیرہ۔''
انہوں نے عرض کیا ''یا رسول اللہ ہمارے ہاں چوہے بہت ہیں وہ ایسی چیزو ں کو کُتر دیتے ہیں۔''
حضور ﷺ نے فرمایا ''کترا کریں ہاں اگر تم نگرانی رکھو گے تو وہ بھاگ جائیں گے۔''
اس وفد میں ایک عیسائی صاحب ابو منذر بشیر المعروف بہ جارود بن عَمرو بھی تھے۔ انہوں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا ''یا رسول اللہ میں تو پہلے ہی آسمانی مذہب کا پابند ہوں کیا میرے تبدیل مذہب سے آپ ﷺ میرے ضامن ہوں گے۔'' حضور نے فرمایا ''ہاں میں تمہارا ضامن ہوں اللہ نے تم کو تمہارے مذہب سے بہتر مذہب کی ہدایت کی ہے۔ یہ سن کر جارود اور ان کے ساتھی مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ جب وہ رخصت ہونے لگے تو عرض کیا ''یا رسول اللہ میرے پاس سواری نہیں ہے۔ راستے میں ہمیں دوسروں کی بہت سی سواریاںملیں گی کیا ہم ان پر قبضہ کر لیں۔'' حضور ﷺ نے فرمایا نہیں انہیں آگ سمجھو آگ۔'' رخصت کے وقت وقت وفد کے سب اراکین انعام سے سرفراز ہوئے۔
20. وفد بنو ثقیف:
رمضان المبارک ۹ ہجری میں انیس آدمیوں پر مشتمل بنی ثقیف کا وفد بارگاہ نبوی میں حاضر ہوا۔ اس وفد کی آستانۂ اسلام پر حاضر ہونے کی تاریخ اسلام میں خاص اہمیت ہے۔ ثقیف طائف کا بڑا نامور اور جنگجو قبیلہ تھا۔ ۱۰ ہجری نبوت میں قبیلہ کے سرداروں عبدیا لیل، مسعود اور حبیب نے نہ صرف دعوت حق کو رد کر دیا تھا بلکہ حضور ﷺ سے ایسا نازیبا سلوک بھی کیا تھا کہ انسانیت سر پیٹ کر رہ گئی تھی۔ تاہم رحمت عالم ﷺ نے ان کے لئے دعا فرمائی تھی کہ ''خدایا بنی ثقیف کو ہدایت عطا فرما اور ان کو میرے پاس بھیج۔'' صلح حدیبیہ کے موقع پر اسی قبیلہ کے ایک رئیس عروہ بن مسعود قریش کی طرف سے سفیر ہو کر حضور ﷺ کے پاس آئے تھے۔ جب واپس گئے تو قریش کو بتایا:
''میں دنیا کے بہت سے بادشاہوں کے درباروں میں گیا ہوں لیکن محمد ﷺ کے ساتھ ان کے ساتھیوں کو جو عقیدت ہے وہ میں نے کہیں نہیں دیکھی۔ محمد وضو کرتے ہیں تو لوگ پانی پر اس طرح ٹوٹ پڑتے ہیں کہ اس کا ایک قطرہ زمین پر نہیں گرنے پاتا۔ محمد تھوکتے ہیں تو لوگ فرط عقیدت سے اسے ہاتھوں اور چہرے پر مل لیتے ہیں۔ محمد ﷺ بولت ہیں تو لوگ ساکت و صامت ہو جاتے ہیں۔ محمد ﷺ کوئی حکم دیتے ہیں تو ہر شخص اس کی تعمیل کے لئے دیوانہ وار لپکتا ہے۔''
عروہؓ اسلام سے متاثر تو اسی وقت ہو گئے تھے لیکن قبول اسلام کا شرف اس وقت حاصل ہوا جب حضور ﷺ غزوہ تبوک سے واپس تشریف لا رہے تھے۔ اسلام لا کر واپس گئے اور اپنے قبیلے کو بھی اسلام کی دعوت دی۔ جواب تیروں کی بوچھاڑ کی صورت میں ملا اور وہ شہید ہو گئے۔ اس کے بعد بنو ثقیف نے غزوہ حنین میں ہوازن کا ساتھ دیا۔ ہوازن کی شکست کے بعد حضور نے طائف کا محاصرہ کر لیا۔ ان لوگوں نے اپنے قلعے کی برجیوں سے مسلمانوں پر آگ اور تیروں کا مینہ برسا دیا۔ لیکن جب حضور ﷺ نے ان کے درختوں کو کاٹنے کا حکم دیا تو انہوں نے آپ ﷺ کو پیغام بھیجا ''خدا کے لئے ہمیں ہماری روزی سے محروم نہ کریں۔''
حضور نے ان خوف ناک دشمنوں کی استدعا قبول فرمالی اور محاصرہ اٹھا کر مدینہ منورہ تشریف لے آئے۔ اہل طائف کو اب اپنی قدرِ عافیت معلوم ہو گئی تھی قریب قریب سارا عرب حلقہ بگوش اسلام ہو چکا تھا۔ اور وہ سمجھ گئے تھے کہ اب مسلمانوں سے مقابلہ ان کے بس کا روگ نہیں ہے۔ اسی بے بسی کے احساس نے انہیں وفد کی صورت میں بارگاہ رسالت میں حاضر ہونے پر مجبور کیا۔ عبدیا لیل کی قیادت میں جب یہ وفد مدینہ کے قریب مقام ذی حرص میں پہنچا تو ان کی ملاقات حضرت مغیرہ بن شعبہ سے ہوئی جو وہاں اونٹ چرا رہے تھے۔ انہیں وفد کے آنے کی غرض و غایت معلوم ہوئی تو اس قدر خوش ہوئے کہ حضورﷺ کو اطلاع دینے کے لئے مدینہ کی طرف دوڑ پڑے۔ راستے میں ابو بکر صدیق مل گئے۔ انہوں نے پوچھا ''خیر تو ہے اس طرح بےتحاشا کیوں بھاگ رہے ہو۔'' حضرت مغیرہؓ نے واقعہ بیان کیا تو صدیق اکبرؓ نے انہیں قسم دے کر کہا کہ یہ خوش خبری مجھ کو پہنچانے دو۔ چنانچہ انہوں نے جب حضور ﷺ کو بنو ثقیف کے آنے کی اطلاع دی تو آپ بھی بے حد مسرور ہوئے اور حکم دیا کہ ان لوگوں کو مسجد نبوی میں خیمے نصب کر کے ٹھہرایا جائے۔ تاکہ قرآن کی آواز ان کے کانوں میں پڑتی رہے اور مسلمانوں کی نماز میں محویت دیکھ کر ان پر اثر پڑے۔ یہ لوگ فی الواقع حضور ﷺ کی اس تدبیر سے اسلام سے بڑے متاثر ہوئے۔ سرور عالم ﷺ خود بھی عشاء کی نماز کے بعد ان کے پاس تشریف لے جاتے اور بڑی بڑی دیر تک ان سے گفتگو فرماتے رہے۔ ایک دن انہوں نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ آپ ہم سے تو اپنی رسالت کا اقرار کرانا چاہتے ہیں۔ لیکن خود آپ خطبے میں اپنا نام نہیں لیتے۔ حضور نے فرمایا ''میں سب سے پہلے اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ اللہ نے مجھے نبی اور رسول بنا کر بھیجا ہے اور اس کی طرف سے میں خلقت کی ہدایت اور اصلاح کے لئے مبعوث ہوا ہوں۔'' آہستہ آہستہ یہ لوگ چند شرطوں کے ساتھ اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ اس سلسلہ میں رسول اکرم ﷺ اور رئیس وفد عبدیا لیل کے درمیان جو گفتگو ہوئی وہ اس طرح تھی۔
عبدیا لیل: ہمارے ہاں مرد عام طور پر مجرد رہتے ہیں اس لئے وہ زنا کاری پر مجبور ہیں۔ کیا اس کی اجازت ہو گی؟
حضورؐ: زنا تو قطعاً حرام ہے۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:
وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا
(زنا کے پاس ہو کر بھی نہ پھٹکنا۔ کیوں کہ وہ بے حیائی ہے اور بہت برا چلن ہے) (۳۴:۱۷۔ سورہ بنی اسرائیل، رکوع۳)
عبدیا لیل: اور سود کے بارے میں آپ کا کیا حکم ہے۔ یہ تو ہمارا اپنا ہی مال ہے۔
حضور: تم اپنا اصل روپیہ لے سکتے ہو لیکن سود تو بالکل حرام ہے۔ اللہ کا حکم ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ
(اے لوگو!) اگر تم ایمان رکھتے ہو تو اللہ سے ڈرو اور جو سود لوگوں کے ذمہ باقی ہے اس کو چھوڑ دو) (سورہ بقرہ۔ رکوع ۳۶۔۲:۲۷۸)
عبدیا لیل: اور شراب کے بارے میں آپ کا کیا ارشاد ہے؟ ہم لوگ پست ہا پشت سے شراب کے عادی ہیں کہ یہ ہمارے ملک کے انگوروں کا عرق ہے اس کی اجازت تو مرحمت فرمائیں۔
حضورؐ: اللہ تعالیٰ نے شرک اور جوئے وغیرہ کے ساتھ شراب بھی حرام کر دی ہے۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (۵:۹۲ سورہ مائدہ، رکوع۱۱)
(اے ایمان والو۔ شراب، جوا، انصاب وازلام ناپاک شیطانی کام ہیں ان سے بچتے رہو تاکہ فلاح پاؤ)
عبدیا لیل: یا رسول اللہ ہمیں نماز سے تو معاف فرما دیں۔
حضور: جس دین میں خدا کی عبادت نہ کی جائے وہ دین فطرت نہیں۔
یہ درخواستیں نامنظور ہو گئیں تو اہل وفد نے زکوٰۃ اور جہاد سے استثناء کی درخواست کی۔ (حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ میں نے بعد میں رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ جب یہ لوگ صدقِ دل سے سلام قبول کر لیں گے تو جہاد بھی کریں گے اور زکوٰۃ بھی دیں گے)
اس کے بعد اہل وفد نے حضور ﷺ نے پوچھا کہ ہمارے بت لات کے بارے میں آپ کا کیا اراد ہے۔
حضور نے فرمایا: ''اسے توڑ دیا جائے گا۔''
یہ لوگ اپنے بت سے اتنے خوف زدہ تھے کہ حضور کا ارشاد سن کر بہت حیران ہوئے اور کہنے لگے ''اس بت کو توڑنا تو بربادی کو دعوت دینا ہے۔'' حضرت عمر فاروقؓ اس موقع پر موجود تھے ان سے ضبط نہ ہو سکا اور ان لوگوں کو ملامت کرنے لگے کہ تم ایک بے جان پتھر سے اتنا ڈرتے ہو۔ اہل وفد نے برہم ہو کر کہا ''عمر تم نہ بولو ہم تمہارے پاس نہیں آئے۔'' حضرت عمرؓ خاموش ہوئے تو انہوں نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا ''لات کو گرانے کا کام ہم سے تو نہیں ہو سکے گا۔ آپ خود اپنے آدمی بھیج کر یہ کام کرا لیں۔''
حضور نے متبسم ہو کر فرمایا ''اچھا تو یہ بت شکنی ہمارے ذمہ ہی رہی تم لوگ یہ کام نہ کرنا۔'' اس کے بعد سب اہل وفد مسلمان ہو گئے اور واپس جا کر سارے قبیلے کو بھی دائرہ اسلام میں لے آئے۔ وفد واپس چلا تو رسول اکرم ﷺ نے حضرت مغیرہؓ بن شعبہ اور ابو سفیانؓ کو طائف بھیج کر لات اور اس کے معبد کو منہدم کروا دیا۔
21. وفد نجران:
نجران مکہ معظمہ سے یمن کی طرف سات منزل پر ایک چھوٹی سی ریاست تھی۔ جو سارے عرب میں عیسائیت کا سب سے بڑا مرکز تھی (بعض مورخین کے بیان کے مطابق یہ ریاست حدودِ یمن کے اندر واقع تھی) اس ریاست کا یمن کی حکومت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ بلکہ یہ براہ راست قیصرِ روم کے ما تحت تھی) نجران کا علاقہ نہایت سر سبز اور شاداب تھا اور اس کے باشندے جو عیسائی عرب تھے، صنعت و حرفت اور تجارت کی بدولت بڑے خوشحال تھے۔ یہاں عیسائیوں کا ایک عظیم الشان گرجا تھا جو کعبہ نجران کے نام سے مشہور تھا۔ ریاست کا نظم و نسق تین شعبوں میں منقسم تھا۔ ہر شعبے کا اعلیٰ عہدیدار الگ تھا۔ دینی معاملات کا افسر اعلیٰ ''اسقف'' کہلاتا تھا۔ خارجی اور جنگی امور کا نگراں ''سید'' اور داخلی امورکا نگران ''عاقب'' کہلاتا تھا۔ رسول اکرم ﷺ نے ان لوگوں کو ایک نامۂ مبارک بھیجا جس میں انہیں اسلام کی دعوت دی گئی تھی ان لوگوں نے اسلام تو قبول نہیں کیا۔ البتہ ساٹھ آدمیوں کا ایک وفد ۹ ہجری میں تحقیق احوال کے لئے مدینہ منورہ آیا۔ اس وفد میں اسقف، سید اور عاقب سمیت نجران کے بڑے بڑے معززین اور شرفاء شامل تھے۔ ان لوگوں کے لئے مسجد نبوی کے صحن میں خیمے لگا دیئے گئے اور انہوں نے وہیں قیام کیا۔ یہ لوگ غالباً اتوار کے دن مدینہ منورہ پہنچے تھے جو ان کا یومِ عبادت تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے طریقے پر مسجد نبوی میں نماز پڑھنی چاہی تو صحابہ نے اعتراض کیا۔ حضور نے فرمایا ''پڑھنے دو'' اجازت ملنے پر انہوں نے مشرق کی طرف منہ کرکے اپنی نماز پڑھی۔ ان لوگوں نے خاصی مدت مدینہ منورہ قیام کیا اس دوران میں حضور ﷺ ان کو برابر حق کی طرف بلاتے رہے اور ان کے طرح طرح کے سوالوں کا جواب وحی کی رو سے دیتے رہے لیکن ان لوگوں کی زبان پر ایک ہی رٹ تھی۔ ''میں نہ مانوں'' مفسرین نے لکھا ہے کہ سورۂ آل عمران کی ابتدائی اسی آیتیں وفد نجران کے قیام کے دوران ہی نازل ہوئیں۔ ایک دن حضور نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو کہنے لگے کہ ہم تو پہلے سے مسلمان ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ صلیب کے پجاری ہو اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہتے ہو حالانکہ ان کی حالت اللہ کے نزدیک آدم علیہ السلام جیسی تھی اور وہ بھی ان کی طرح مٹی سے پیدا کئے گئے تھے۔ پھر وہ خدا کس طرح ہو گئے۔ اہل وفد نے حضور ﷺ کی کوئی بات نہ مانی اور برابر کٹ حجتیاں کرتے رہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ (اٰل عمران ع۶)
(اور جو کوئی تم سے علم آئے۔ پیچھے بھی جھگڑا کرتا ہے اس سے کہہ دو کہ آؤ ہم اپنے بچوں، مردوں اور عورتوں کو بلا لیتے ہیں۔ تم اپنے بچوں، مردوں اور عورتوں کو بلا لو۔ پھر ان کے ساتھ ہم اور تم خدا سے دعا کریں کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہو اس پر خدا کی لعنت پڑے۔)
چنانچہ اتمامِ حجت کے طور پر حضور ﷺ حضرت فاطمۃ الزہراؓ، حضرت حسنؓ اور حسینؓ کو ساتھ لے کر عیسائیوں سے مباہلہ کے لئے تیار ہو گئے۔ (بعض روایات میں اس موقع پر حضرت علی کرم اللہ وجہٗ کو بھی حضور ﷺ نے اپنے ساتھ لیا تھا۔ عیسائیوں کو مباہلہ کرنے کی ہمت نہ پڑی کیوں کہ ان میں سے بعض دور اندیش لوگوں نے رائے دی کہ اگر یہ واقعی نبی ہیں تو ہم لوگ ہمیشہ کے لئے تباہ و برباد ہو جائیں گے۔ چنانچہ انہوں نے کہا کہ ہم نہ مباہلہ کرتے ہیں اور نہ اسلام قبول کرتے ہیں لابتہ ہمیں جزیہ دینا منظور ہے۔ آپ ہمارے ساتھ ایک دیانت دار آدمی کو بھیج دیں جس کو ہم خراج کی رقم جو آپ مقرر کریں گے، ادا کر دیا کریں گے۔ حضور نے ان کی بات مالی اور فریقین کے مابین اسی کے مطابق معاہدہ صلح طے پا گیا۔ جب یہ وفد رخصت ہونے لگا تو حضور نے ابو عبیدہ بن الجراح کو خراج کی وصولی کے لئے اس کے ساتھ بھیج دیا۔ اور فرمایا یہ ہماری امت کے امین ہیں بعض روایتوں میں ہے کہ نجران سے یکے بعد دیگرے دو وفد حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ پہلا وفد تین آدمیوں پر مشتمل تھا اور اسی وفد کے ساتھ بحث کے دوران میں آیت مباہلہ نازل ہوئی تھی۔ ان لوگوں نے مباہلہ نہ کیا اور جزیہ دینا قبول کر کے واپس چلے گئے۔ اس وفد کے بعد دوسرا وفد جو ساٹھ آدمیوں پر مشتمل تھا مدینہ منورہ آیا اوروہ بھی حضور سے فرمانِ امن لے کر واپس گیا۔
22. وفد بنو کلب:
بنو کلب سے دو دو آدمیوں کے دو وفد یکے بعد دیگرے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پہلے وفد کے سامنے حضور نے فرمایا ''میں سچا نبی ہوں اور پاکیزگی کے ساتھ آیا ہوں۔ خرابی اور پوری خرابی اس شخص کی ہے جس نے مجھے جھٹلایا، مجھ سے منہ موڑا اور مجھ سے جنگ کی اور بھلائی اور پوری بھلائی اس شخص کی ہے جس نے میری مدد کی مجھ پر ایمان لایا، میری تصدیق کی اور میرے ساتھ ہو کر جہاد کیا۔'' عاصمؓ اور عبد عمروؓ (جن پر یہ وفد مشتمل تھا) دونوں نے عرض کیا ''بے شک ہم آپ کی تصدیق کرتے ہیں اور آپ پر ایمان لاتے ہیں۔''
بعد میں اس قبیلے کے دو اور آدمی ابن سعدانہ اور بیعہ بن ابراہیم بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور شرف اسلام سے بہرہ ور ہوئے۔ حضور ﷺ نے ان کو ہدایت فرمائی ''نماز اپنے وقت پر پڑھا کرو اور زکوٰۃ اپنے حق کے موافق ادا کیا کرو۔''