نقوشِ سیرت کا تقاضا
ایک وقت تھا کہ دنیا ظلمت کدہ بنی ہوئی تھی۔ چہار سو اندھیرے چھائے ہوئے تھے۔ کفر و شرک کے اندھیرے، فسق و فجور کے اندھیرے، الحاد و زندیقیت کے اندھیرے، ظلم و استبداد کے اندھیرے۔ اور گم گشتہ راہ انسانیت ان بھیانک اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی تھی۔ خالقِ کائنات سے دکھی انسانیت کی یہ مظلومیت دیکھی نہ گئی، اس کی رحمت جوش میں آئی اور اس نے فاران کی چوٹیوں سے اس آفتابِ جہاں تاب کو طلوع فرمایا، جس کی بدولت تمام اندھیرے چھٹ گئے، دنیا بقعۂ نور بن گئی اور سارا عالم جگمگا اُٹھا۔ ﷺ ؎
وہ دانائے سبل، ختمِ رسل مولائے کُل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا
اس سراجِ منیر کی ضو افشانیوں کے تو کیا کہنے، اس سے کسبِ ضو کرنے والے چاند ستارے جہاں تہاں گئے اجالے بکھیرتے گئے اور ان کے نقشِ پاکی شوخی، قدوم میمنت لزوم کی شہادت دیتی رہی۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔
لیکن کبھی آپ نے غور فرمایا ہم بھی اسی جلیل القدر، عظیم المرتبت، سرور دنیا و دیں، رحمۃٌ للعالمین ﷺ کے امتی ہیں، جس کے امتی ہونے کا شرف حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حاصل تھا، تو کیا وجہ ہے کہ ان کا وجود دنیا کے لئے اجالا تھا لیکن ہم سراپا ظلمت ہیں، انہوں نے سمندروں میں گھوڑے دوڑا دیئے تھے۔ پہاڑوں کے سینوں کو چیر ڈالا تھا، آندھیوں بلکہ طوفانوں کے رخ کو پھیر دیا تھا۔ بڑے بڑے فرعونوں اور نمرودوں کے گریبانوں کو چاک کر دیا تھا اور دنیا کو امن چین اور سکون کا گہوارہ بنا دیا تھا لیکن ہم ہیں کہ اپنا وجود ہی ہمارے لئے باعثِ ننگ و عار ہے۔ ذلتوں، تباہیوں، بربادیوں اور شکستوں سے کوئی دوسری قوم اس قدر دو چار نہ ہو گی جس طرح ہم ہیں۔ آخر کیوں؟ دو لفظوں میں اس کا جواب صرف یہ ہے کہ انہوں نے قرآنی تعلیمات اور آنحضرت ﷺ کو سیرتِ مقدسہ کے ہر ہر نقش کو اپنے لئے اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا اور ہمارا عمل اس کے بالکل برعکس ہے۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
اگرچہ ہم بھی عشقِ رسول کا دم بھرتے ہیں، لہک لہک کر صلِ علیٰ کے ترانے گاتے ہیں۔ ربیع الاول میں بڑے وسیع پیمانے پر میلاد کی محفلیں منعقد کرتے ہیں، سیرت کی کتابیں لکھتے، چھاپتے اور پڑھتے ہیں اخبار و رسائل کے سیرت نمبروں کا اہتمام کرتے ہیں اور ہر ہر طریقے سے آنحضرت ﷺ کے حضور اس خراج عقیدت کو پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ہمارے دل لبریز ہیں۔ لیکن کیا کبھی غور کیا کہ اس سے عشقِ رسول کے تقاضے پورے ہو گئے؟ سرورِ کائنات ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے صرف اس لئے دنیا میں مبعوث فرمایا تھا کہ وہ ہم عشاقِ رسالت پناہ سے خراج عقیدت وصول فرمائیں یا آپ کی بعثت کا مقصد عظیم کچھ اور تھا؟ جی ہاں یقیناً کچھ اور تھا اور وہ محبت کے کھوکھلے نعروں اور عشقِ رسول کے جھوٹے دعووں سے بڑھ کر تھا اور وہ یہ تھا کہ ہم آپ ﷺ کے لائے ہوئے انسانیت کے لئے خدائے بزرگ و برتر کے پیامِ آخریں۔ قرآن مجید۔ سے اپنی حیاتِ مستعار کے شب و روز اور لیل و نہار کی ایک ایک ساعت کے لئے رہنمائی حاصل کریں، زندگی کے ہر موڑ اور ایک ایک قدم کے لئے صرف اور صرف اسی میناۂ نور سے کسبِ ضو کریں اور سیرتِ مقدسہ کے ہر ایک نقش کو اپنے لئے مشعلِ راہ قرار دے لیں۔ صرف قرار دینے ہی پر اکتفا نہ کریں بلکہ بالفعل اس پر عمل پیرا ہو جائیں کیونکہ سیرتِ مقدسہ کا ہر ایک نقش پکار پکار کر ہم سے اتباع و عمل کا تقاضا اور مطالبہ کر رہا ہے۔ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اُسْوَۃ حَسَنَۃ۔
ایک مسلمان کی شان کے شایاں ہی نہیں کہ اپنے خدا اور محبوب پیغمبر ﷺ کے احکام، فرامین اور ہدایات کے برعکس زندگی بسر کرے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا
''کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو پھر ان کو خود اپنے معاملہ میں کوئی اختیار باقی رہ جائے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کر وہ یقیناً گمراہی میں پڑ گیا۔''
دوسرے مقام پر آنحضرت ﷺ کے فرمودات اور فیصلوں پر سر تسلیمِ خم کر دینے کو ایمان کے لئے معیار اور کسوٹی قرار دیا گیا ہے، ارشاد ہے:
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
''پس نہیں، تیرے رب کی قسم وہ ہرگز مومن نہ ہوں گے جب تک کہ (اے رسول ﷺ) تم کو اس معاملہ میں حکم نہ بنائیں جس میں ان کے درمیان اختلاف ہوا ہو، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس سے اپنے دل میں کوئی تنگی تک محسوس نہ کریں سر بسر تسلیم کر لیں۔''
اس آیات مبارکہ سے یہ حقیقت الم نشرح ہو رہی ہے کہ آپ ﷺ کے فرمودات اور فیصلوں پر دل میں ذرا سا انقباض محسوس کرنا بھی ایمان کے تقاضوں کے منافی ہے چہ جائیکہ کھلم کھلا آپ ﷺ کے طریقۂ اسوہ سیرت اور ہدایت کی مخالفت کی جائے اور اگر کوئی ڈھٹائی سے مخالفت پر کمر بستہ ہو ہی جائے تو اسے یہ تنبیہ بھی پیش نظر رکھنی چاہئے۔
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
''پس ڈرنا چاہئے ان لوگوں کو جو رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں کہ وہ کسی فتنہ میں مبتلا ہو جائیں یا ان پر درد ناک عذاب نازل ہو جائے!
قرآن حکیم کی یہ آیات جو ہمیں آئینہ دکھا رہی ہیں، ہم مسلمانوں پر فرض ہے اجتماعی طور پر بھی اور انفرادی طور پر بھی کہ ہم اس آئینہ میں اپنی شکلیں دیکھنے کی کوشش کریں اور پھر غور کریں کہ آیا ہمارا کوئی عمل اللہ اور اس کے رسول کی منشا کے خلاف تو نہیں بلکہ معاف فرمانا ہمیں تو جائزہ اس نقطۂ نگاہ سے لینا چاہئے کہ ہمارے اطوار اور اعمال کا کتنے فی صد حصہ اللہ و رسول کے حکم کے مطابق ہے اور پھر انصاف کے ساتھ حسن ظنی و خود فریبی میں مبتلا ہوئے بغیر جائزہ لینا چاہئے کہ ان آیات مذکورہ کی تنبیہات کا ہم مورد تو نہیں بن رہے الغرض اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق زندگی بسر کرنے لئے یہ از بس ضروری ہے کہ ہم ہر وقت اسوۂ رسول کو پیشِ نظر رکھیں اور تمام کاروبارِ حیات میں خواہ ان کا تعلق عبادات سے ہو یا معاملات سے، معیشت سے ہو یا معاشرت سے، سیرت مقدسہ سے کسبِ ضوء کو فرض سمجھیں کہ اس کے بغیر ایمان کی تکمیل ہی نہیں ہو سکتی۔ خود آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:
لا یؤمن أحدكم حتّٰی یکون هواه تبعا لما جئت به۔
''تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہش نفس اس چیز کی تابع نہ ہو جائے جسے میں لے کر آیا ہوں۔''
پس سیرتِ مقدسہ کا ایک ایک نقش امتِ محمدیہ کے ہر فرد سے اتباع و عمل کا تقاضا کرتا ہے اور ہر مسلمان کو ہر وقت پیش نظر رکھنا چاہئے کہ:
کون ہے تارک آئین رسولِ مختار؟ مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟
کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟ ہو گئی کس کی نگہہ طرزِ سلف سے بیزار؟
قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغام محمد ﷺ کا تمہیں پاس نہیں