میں نے مُحسنِ انسانیت ''کیوں'' لکھی؟
آپ کا لفظ ''کیوں'' سامنے ہے۔
آپ کو معلوم ہے ناں کہ اس دور کے اہلِ دانش نے لفظ کے ذر کو چیر کر اس میں پہاڑ جیسی قوتیں ڈھونڈ نکالی ہیں۔ جیسے سائنسدانوں نے ایٹم کو پھاڑ کر توانائی کے لا محدود خزانوں کی دریافت کر لی ہے۔ ماہرین علم اللفظ کہتے ہیں کہ لفظ دو ایک ٹیڑھی لکیروں اور تین چار نقطوں یا زبان سے ادا ہونے والی آوازوں کا نام نہیں۔ لفظ بڑی عظیم حقیقت ہے اور اس کے کرشمے اور اثرات بے پایاں۔ لفظ رُلا دیتا ہے، ہنسا دیتا ہے، لڑا دیتا ہے، ملا دیتا ہے، انقلاب برپا کر دیتا ہے۔ باپ ٹھیک ہے۔ آخر ''کن'' بھی تو ایک لفظ ہی تھا جس کے ادا ہوتے ہی طوفانِ وجود عدم کے بند توڑ کر نکلا تو کیا سے کیا ہو گیا۔ خیر یہ بات اگر اور آگے چلی تو بہت دور جا نکلے گی۔
کہتا یہ تھا کہ اہلِ پنجاب کی کہاوت کے مطابق جہاں ''کیوں'' آیا، لڑائی چھڑائی۔ تو کیا خدانخواستہ آپ کا ارادہ کوئی لڑائی چھیڑنے کا ہے؟ اگر ایسا ہے تو ما سپرانداختیم۔ مگر سپر تو اٹھائی ہی نہیں جاتی، سپر انداختگی کیا ہو گی۔ ہم جو ایک لفظ اللہ کے اٹوٹ رشتہ محبت و مودت میں بندھے ہیں، ہم کیسے لڑ سکتے ہیں۔ ہم لڑیں تو اس لفظِ بلند و برتر اور اس اسمِ اعظم کی توہین ہو گی۔ یوں اللہ والے ایسے بھی بہت ہیں جو اللہ وحدہٗ لا شریک سے بہت گہرا تعلق رکھتے ہیں اور حبل اللہ کو تھامے ہوئے ہیں مگر اس اللہ کے دوسرے پرستاروں سے لڑتے بھڑتے بھی ہیں۔ عام حالات میں منبر و محراب کے محاذ سے لاؤڈ سپیکر کے ذریعے لڑتے ہیں، مسندِ افتا سے تکفیر و تفسیق کے ہتھیار استعمال کرتے ہیں، پریسوں سے نفرت انگیز پمفلٹ اور پوسٹر چھپواتے اور پھیلاتے ہیں، اور کوئی اچھا موقع ملے تو چھرے اور لٹھ لے کر پورا جہاد بھی کر گزرتے ہیں جیسے کہ کراچی کی ایک مسجد میں کچھ دن قبل ہوا، اور پنجاب میں ذرا پہلے ہو چکا ہے۔ انہیں اللہ والوں کی برکت سے برطانیہ میں ایک مسجد میں قفل ڈال دیا گیا ہے تاکہ امتِ محمدیہ ﷺ سے منسوب خدا پرست نقص عامہ کا باعث نہ بنیں۔ مسجد کے باہر سب خیریت ہے۔ مسجد کے دروازے کھلے تو یہ مقامِ مقدس اکھاڑا بن جائے۔ خدا کے سامنے عاجزی اور اس کے بندوں سے محبت کرنے کے مرکز میں مذہبی پہلوانی؟ واہ رے مسلمانو!
مگر ذرا غور کیا تو خیال آیا کہ آپ جیسے شریف النفس بردارِ عزیز کی مجھ سے کیا لڑائی۔ بات کچھ اور ہے۔ شاید مطلب یہ ہو کہ تم علمی اور عملی لحاظ سے جس سطح پر ہو، اس پر ہوتے ہوئے سرکار خاتم النبین ﷺ کی نور افروز شخصیت پر قلم اٹھانے کی تم نے جرأت کیسے کی؟
سچی بات یہ ہے اس بارے میں حد درجہ کی جھجک مجھ میں پہلے بھی تھی اور سیرت پا کے متعلق چند ابواب کی کتاب لکھنے کے بعد بھی یہ احساس میرے ساتھ لگا ہوا ہے کہ تم کہاں اور کہاں وہ انسانِ اعظم۔ بہرحال اب جبکہ کتاب لکھی جا چکی ہے اور چند ایڈیشن اس کے پھیل چکے، اب قلم اسے واپس تو نگل نہیں سکتا۔ اب مجھے اور آپ کو یہی دعا کرنی چاہئے کہ ایک فقیر پر تقصیر کی اس سعی حقیر کو اللہ تعالیٰ قبول فرما لے۔
اچھا تو اصل مدعا، آپ کا یہ تھا! آگے خطوط وحدانی میں آپ نے لکھا ہے۔ ''جذبۂ محرکہ؟'' مگر اس کا جواب تو سیدھا سا ہے اور ہر سیرت نگار مسلمان کا جواب ایک ہی ہو گا۔ میں نے جو کچھ لکھا حضور ﷺ سے محبت کی بنا پر، اور آپ ﷺکے پیغام کو عام کرنے اور آپ کی زندگی کا نمونہ دوسروں کے سامنے رکھنے کے شوق کے ماتحت لکھا۔
البتہ میں اپنے ذاتی تجربہ کو بھی بیان کرتا ہوں، جیسا کہ آپ کا منشا ہے۔
سال اب مجھے یاد نہیں، غالباً ماہنامہ فاران کا سیرت نمبر نکلا جس کے لئے مجھ سے برادرم مولانا ماہر القادری نے مضمون لکھنے کی فرمائش کی۔ کسی رسالے کے لئے محض ایک مضمون لکھ دینا سیرت نگاری کے بھاری کام کے مقالے میں ذرا سہل امر ہے۔ چنانچہ میں نے دو ایک کتابوں کا مطالعہ کیا اور مضمون لکھ دیا ۔ پچھلے سارے دورِ کار میں میرا طریقہ یہ رہا ہے کہ نظم ہو یا نثر، دینی مقالات کا دائرہ ہو یا ادبی نگارش کا، اپنی طبیعت کی مخصوص ساخت کے تحت میں نے ہمیشہ کوئی ایسی راہ نکالنی چاہی یا کوئی ایسا پہلو ابھارنے کی فکر کی جو عام طور پر لکھنے والوں کی توجہات کی زد سے باہر ہو۔ عنوان سوچے تو اسی طرح، اسلوب نکالے تو اسی طرح، مواد اور ہیئت کا انتخاب کیا تو اسی طرح۔ کچھ ایسے ہی نقطۂ نظر سے مطالعہ سیرت کرتے ہوئے میرا نقشۂ مضمون بنا۔
ادھر یہ مضمون چھپا اور ادھر احباب نے زبانی اور بذریعہ خطوط فرمائش کرنا شروع کی کہ اسی طرز پر مکمل سیرت مرتب کرو۔ اتنے بھاری بھر کم کام کو ہاتھ ڈالنا کچھ آسان نہیں ہوتا۔ میں اپنی روحانی اور جسمانی دونوں طرح کی کمزوریوں کو جانتا تھا، اس وجہ سے تعاقب کرنے والی فرمائشوں سے بھاگتا رہا۔ مگر بھاگتے بھاگتے یکایک کیا دیکھتا ہوں کہ سرگودھا کے احباب چوہدری محمد یونس صاحب جناب اسعد گیلانی، چوہدری محمد سلم صاحب اور حکیم عبد الرحمان صاحب نے۔ آگے سے میرا راستہ روک لیا۔ بہت ٹال مٹول کی، مگر چند روز بعد یہ وفد اس حکیم کے ساتھ موجود کہ ''لکھو''! بعض مشکلات کے عذر کیے۔ انہوں نے کاغذ میرے سامنے رکھا اور قلم تھموایا، اور پھر چند روز بعد رپورٹ مانگنے لگے کہ کتنا کام ہوا! یعنی جیسے جیل میں کڑی نگرانی کے تحت بان بٹنے کی مشقت لی جاتی ہے، ایسی ہی کڑی نگرانی اور بے رحمانہ احتساب نے مجھے ایسا بوجھ اُٹھانے پر مجبور کر دیا جو میری قوت سے کہیں زیادہ تھا۔ کام ہو گیا تو اس لئے کہ تائید ایزدی بر سرِ عمل تھی۔ تو اب اگر میں یہ کہوں کہ محسنِ انسانیت کا مصنف تنہا میں نہیں ہوں بلکہ متذکرہ چار یار بھی ہیں اور وہ سارے رفقاء بھی جن کی اجتماعی فرمائش کی نمائندگی یہ حضرات کر رہے تھے۔ ان حضرات کے محبت آمیز تقاضوں نے جو تھوڑا سا ارادہ پیدا کیا ہے، حضور ﷺ کی ذات والا صفات اور سیرتِ پرتجلیات کی محبت و کشش اسے مضبوط تر کر کے پیرایۂ عمل میں لانے کا باعث بنی۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ دائم المریض آدمی ہوں، اور مارشل لاء کے حادثے نے ذہنی طور پر بہت مجروح کر رکھا تھا یہاں تک کہ کام چھوڑ دیا تھا، اور سوچا کرتا تھا کہ سلطانِ وقت کا مزاج یہ چاہتا ہے اور اسی کے سامان کر رہا ہے کہ یہاں علم و ادب نہ ہو، بلکہ لوگ جہالت مآب ہو کر رہیں اور ایمان ہو بھی تو اتنا زور دار نہ ہو کہ فسق و فجور کو فروغ نہ مل سکے اور جمہوریت اگر رہے تو اس شکل میں کہ جبریت اور فسطائیت انسانی ضمیروں پر جوتے برساتی رہے، تو پھر ایسے حال میں خوا مخواہ خونِ جگر گھلانے اور دماغ کھپانے کا کیا حاصل! یہ ذرا مایوسانہ زاویۂ نگاہ تھا، مگر فی الحقیقت اس کی رُوح احتجاج کی روح تھی۔ یہ ایک قلم چھوڑ ہڑتال تھی۔ یہ بھی مطالعۂ سیرت کو تازہ کر لینے کا فیضان تھا کہ اس مایوسانہ احتجاج کا سلسلہ ٹوٹا، اور ایک نئے نشہ عزیمت کے ساتھ میں نے قلم اُٹھایا کہ میں اسی چھوٹے سے اور بظاہر بے ضرر ہتھیار سے تلوار کی دھار توڑ دوں گا۔ چنانچہ اب آپ خاص مارشل لا کے ماحول میں میری اس کیفیت کو سامنے رکھ کر محسنِ انسانیت کو دیکھیں تو آپ محسوس کریں گے کہ میں نے اپنے حصے کا کام کر دیا۔ کام بھی اس حالت میں کیا کہ کتاب کا بیشتر حصہ میں نے پلنگ پر لٹ کر، بستر کو گاؤ تکیہ بنا کر، دونوں جانپ تپائیوں پر کتابیں اور کاغذات رکھ کر پڑھنے، نوٹ لینے اور مختلف ابواب کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس کام کو کرتے ہوئے دل کی گہرائیوں میں ایک مسرت محسوس ہوتی اور پھر عالم باطن میں کچھ ایسے احوال بھی گزرے کہ جن سے مجھے یہ امید بندھ گئی کہ مجھے زیارتِ حرمین کی سعادت ملے گی۔ شکر للہ کہ خداوند کریم کی طرف سے مجھے دو مرتبہ یہ سعادت ملی، اگرچہ ظاہری لحاظ سے ایک سفر کے لئے بھی میرے پاس زادِراہ نہ تھا۔
اصل بات تو رہی جاتی ہے!
محسنِ انسانیت میں نے کیوں لکھی کا جو پہلو آپ دریافت کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ اس سے مقصود کیا تھا؟ ترتیب و تدوین میں کیا امور پیش نظر رہے۔ سو اب میں نمبردار عرض کرتا ہوں۔
1. میں نے دیکھا کہ عام طور پر جلسوں میں مقررین کا سارا زورِ تقریر اس نقطے پر صرف ہوتا تھا (اور اب بھی ہوتا ہے) کہ سرورِ عالم ﷺ کا درجہ بہت ہی بلند ہے، وہ ذات اقدس بے مثال خوبیوں سے آراستہ ہے بلکہ اس سلسلے میں قرآن و حدیث کی صراحتوں سے آگے بڑھ کر کچھ ایسے اسرار و معارف بیان کیے جاتے کہ جن کی وجہ سے یہی محسوس ہوتا کہ نعوذ باللہ خدا اور مصطفیٰ میں بس یہی کچھ انیس بیس کا فرق ہے۔
میں نے سوچا کہ حضور ﷺ کی ذات، آپ ﷺ کے نام اور پیغام کو ایسے انداز سے پیش کرنا چاہئے کہ جس سے اس احساس کی آبیاری ہو کہ حضور ﷺ جس مشن پر مامور ہوئے تھے، حضور کے بعد اسی کی علمبردار پوری امت ہے اور اس بنا پر اس کے لئے لازم ہے کہ وہ حضور ﷺ کی سیرت اور اسوہ اور تعلیم کو سمجھ کر اسے اپنانے کی طرف متوجہ ہو۔ میرا مقصد یہ بھی تھا کہ حضور کی شخصیت اور سیرت کے آئینے میں کبھی ہم اپنی صورتوں پر بھی غور کریں اور دیکھیں کہ یہ کتنی مسخ ہو گئی ہیں۔ حضور ﷺ جس طرح کے انسان تیار کرتے رہے تھے، اور جس طرح کے محب اور پیرو اور امتی اپنے لیے چاہتے تھے، ہم ویسے نہیں رہے ہیں۔ ایک طرف حضور ﷺ سے والہانہ محبت اور دوسری طرف حضور ﷺ کے خلق، حضور ﷺ کے مسلک اور حضور ﷺ کے مشن سے انحراف، یہ ایک ایسے تضاد کی خلیج ہے کہ جلد از جلد پاٹنے کے لئے رسالت مآب پر ایمان لانے والے ہر شخص کو بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔
2. میرے مطالعۂ سیرت نے مجھ پر یہ واضح کیا کہ سید المرسلین کی سیرت، کسی ایسے فرد کی سیرت نہ تھی جو تارک الدنیا ہو کر، یا دنیا کی سرگرمیوں میں رہتے ہوئے کشمکشِ حیات سے کنارہ کش رہ کر محض اپنی گھریلو معاشی زندگی کی حدود میں سکڑکر رہنے والے شخص کی سیرت نہ تھی جو مذہبی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی دائرے میں پائی جانے والی برائیوں کے لئے روادار اور زندگی کے ہر شعبے کی رزم خیر و شر میں غیر جانبدار ہو کر جیا ہو۔ بخلاف اس کے اس سید الناسؐ یا انسانِ اعظم نے ضلالت و جہالت کے درخت کی اعتقادی جڑوں کے خلاف اپنی انقلابی دعوت کا تبر حرکت میں لانے کے بعد پھر اس کی تمام شاخوں اور کونپلوں تک لڑائی جاری رکھی اور اس محاربۂ عظیم کے خاتمے پر فتح مبین نے آگے بڑھ کر اس کے گلے میں ہار ڈالے۔
3. میں دیکھتا تھا کہ اعاظم کی عرق ریزیوں سے مرتب شدہ سیرت کے دفتروں میں واقعات و احوال اور سنین و رجال کے تذکرے اس طرح آراستہ ملتے تھے جیسے عجائب گھروں میں چیزیں قرینے سے رکھی جاتی ہیں اور ایک ایک شے اہتماماً خوب واضح ہوتی ہے۔ مگر ان سارے اجزاء کے ملنے سے جو ''عالم مصطفوی'' یا ''جہان محمدی'' مرتب ہوتا ہے وہ بحیثیت مجموعی ایک جیتی جاگتی دنیا کی طرح سامنے نہیں آتا جیسے کسی باغ کی سیر کرتے ہوئے ایک ایک درخت اور پھولوں کی ایک ایک کیاری تو زائرین کو خوب اچھی طرح دکھائی جائے مگر پورے چمن کے مجموعی منظر نظر افروز اور اس کے حسنِ ترتیب اور اس کے محل وقوع کو دیکھا دکھایا نہ جا سکے۔ میں نے چاہا کہ سیرت پاک کے بکھرے ہوئے اجزا نہ دکھائے جائیں بلکہ اپنے قارئین کو ''کل'' کی کلیّت کے جمال سے بھی بہرہ اندوز کرنے کی بری بھلی سعی کروں۔
4. میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ سیرت کو لکھنے والے اور پڑھنے والے اور بیان کرنے والے اور سننے والے کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ ایک مذہب کا شعور ابھرتا ہے، اور اس میں زیادہ سے زیادہ کچھ عقیدتوں اور کچھ عبادتوں اور کچھ اخلاقیات کی چمک دمک دکھائی دیتی ہے مگر ایسا نہیں معلوم ہوتا کہ سرورِ عالم ﷺ نے بہ حیثیت امام تہذیبِ حق اپنی انقلابی دعوت کے ساتھ فلاحِ انسانیت کی ایک ایسی تحریک کا علم بلند کیا تھا جو علمی اور مادی ترقیوں کے آنے والے دَور میں دائماً سرمایہ سعادت ہو گی۔ سیرت کوئی ثبت شدہ نقشہ نہیں ہے، بلکہ ایک منظر متحرک ہے۔ حضور ﷺ ایک قافلہ، رشد و ہدایت کے نقیب اول اور سالار اعلیٰ ہیں نہ کہ فرد تنہا! اس وجہ سے حضور ﷺ کی سیرت کی تجلیات سامنے لانے کے لئے ضروری ہے کہ حضور ﷺ کو پورے قافلۂ رشد و ہدایت کی نقل و حرکت کے سمیت دکھایا جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کیا جائے کہ حضور ﷺ کا کام محض ایک خاص طرح کے افراد بنانے بنانے پر ختم نہیں ہو جاتا، بلکہ ان افراد کو منظم کر کے ایک جماعت اور پھر ایک معاشرہ تیار کرنا اور اس جماعت کی جدوجہد سے خدائی ہدایت کے مطابق نظامِ قسط یا حکومتِ حق قائم کر دکھانا بھی آپ ﷺ کے پیغمبرانہ منصب کا تقاضا تھا جسے آپ ﷺ نے بوجوہ احسن پورا کر دکھایا اور اپنی چلائی ہوئی تحریک، اپنی استوار کردہ تنظیم، اپنے تشکیل دادہ معاشرے اور اپنی قائم کردہ ریاست کو بعد کی تاریخ کے لئے نمونہ و معیار بنا دیا۔
میں نے سیرت نگاری کے کلاسیکل اسلوب سے ذرا ہٹ کر حضور ﷺ کو تحریک فلاحِ انسانیت کے سربراہ کی حیثیت سے دکھایا ہے۔
میرے ذہن میں تحریکی انداز سے سیرت نگاری کرتے ہوئے اتباع سنت کے اس محدود تصور میں تبدیلی کرنا بھی تھا کہ نماز، عبادات، اذکار اور اخلاقیات میں بڑے اہتمام سے لوگ یہ ملحوظ رکھتے ہیں کہ سنت یا طریقِ نبوت کیا تھا؟ (ایسے لوگ بھی اتنے کم ہیں کہ ان کا ہونا بھی اس زمانہ فساد میں غنیمت!) لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کہ زندگی کے ان بڑے بڑے معاملات میں سنت کیا ہے کہ لوگوں کو دعوت کیا دی جائے؟ کس طریق سے دی جائے؟ بات ماننے والوں کو منظم کس طرح کیا جائے؟ ان کی تعلیم، تربیت اور تزکیہ کے لئے کیا تدابیر کی جائیں؟ سیاسی جدوجہد کیسے ہو؟ ہجرت اور جہاد اور مواخات کے تقاضے کیسے پورے کیے جائیں؟ اقامتِ دین کا مرحلہ آئے تو ریاست کی ہیئت کیاہو؟ اقامتِ صلوٰۃ کیسے ہو؟ نفاذ حدود وتعزیرات کس طریق سے ہو؟ لوگوں کی معاشی بہبودکے لئے کیا کیا جائے؟ بین الاقوامی امور کس انداز سے طے ہوں؟ غرضیکہ سنت کا تعلق اسی طرح ان سارے معاملات سے ہے، جیسے عبادات و معاشرت میں ہے۔
پس ضروری تھا کہ سیرت کے عنوان سے حضور ﷺ کی شخصیت، کارنامے، پیغام، تحریکی سعی اور اقامتِ نظامِ حق کے بھی پہلوؤں کی جھلک دکھا کر ادھر متوجہ کر دیا جائے۔
5. میں اگر اس بحث میں کسی طرف سے فریق نہیں ہوں جو حضور ﷺ کے بشر ہونے، نہ ہونے پر فرقہ وارانہ ذہنوں سے کی جاتی ہے۔
میں تو یہی کہہ سکتا ہوں کہ حضور ﷺ کا پیغمبرانہ مرتبہ اور آپ کا اخلاقی علو اور آپ کی نظامِ حق کے لئے بھرپور حکیمانہ سعی اور پوری انسانی زندگی کو بدلنے والی اس سعی کا ایک قلیل وقت میں غیر خونی طریقِ انقلاب سے کامیاب ہونا اور دیکھتے دیکھتے دس بارہ لاکھ مربع میل رقبے پر نظامِ حق کا چھا جانا نیز انتہائی جہالت، وحشت، جرائم، دنیا پرستی اور شرک میں ڈوبے ہوئے معاشرے کے افراد کا آپ ﷺ کی دعوت کے اثر سے پستیوں سے اٹھ کر معاً بلندیوں پر جا پہنچا، ایسے پُر اعجاز واقعات ہیں کہ جنہیں دیکھ کر اپنا بیگانہ حضور ﷺ کو فوق البشر سمجھ سکتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ حضور ﷺ ایک اوسط درجے کی سطح کے عام آدمی نہ تھے۔ نبوت سے پہلے بھی خاص صلاحیتوں اور کمالات سے متصف تھے، اور کسی کو نبوت ملنا تو خود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ انسانوں کی عام ذہنی و اخلاقی و روحانی سطح سے بہت بلند ہستی ہے۔ پھر نبوت کے بعد جو ایمانی و اخلاقی تجلّیات آپﷺ کی ذات میں جلوہ گر ہوتی رہیں اور جو انقلابی کارنامہ آپ ﷺ کے ہاتھوں انجام پایا اور جو جو کچھ برگ و باراس نے دیئے اور جس طرح آپ ﷺ کی دعوت پر لبیک کہنے والوں کو ترفع نصیب ہوا اس کا تصور کر کے آخر اس امر کا انکار کیسے کیا جا سکتا ہے کہ حضور ﷺ عام سطح کے آدمی نہ تھے بلکہ چیزے دیگر تھے۔
مگر کسی بھی حقیقت کے دو پہلوؤں میں سے جب ایک کو غلو کر کے بڑھا دیا جاتا ہے تو دوسرے پہلو سے کوئی گھاٹا ہو جاتا ہے۔ حضور ﷺ کو پیدائشی طور پر انسان نہ ماننے سے دوسری پیچیدگیوں کے علاوہ ایک مشکل یہ پیش آتی ہے کہ آپ ﷺ کی صفات اور آپ ﷺکے کام کے متعلق یہ تصور ذہنوں پر چھا جاتا ہے کہ انسانیت سے ایک برتر ہستی کا اسوہ اور اس کے کیے ہوئے معجزانہ انقلابی کام ہم جیسے عام آدمیوں کے لئے کہاں قابلِ عمل ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ حضور ﷺ کو جسمانی حیثیت سے نورِ محض بنا دینے والوں نے اس اصل کام کا سر رشتہ ہی ہاتھ سے چھوڑ دیا جس کے لئے تمام انبیاء اور ان کے آخر میں حضور ﷺ خاتم النبیین ﷺ مبعوث ہوئے اور جس کے لئے پہلی امتوں کی طرح امت محمدیہ کو برپا کیا گیا۔
حضور ﷺ کا اصلی شرف ہی یہ ہے کہ آپ ﷺ بشر ہو کر فوق البشریت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔ بخلاف اس کے اگر کہا جائے کہ وہ خاکی انسانوں کے سے سانچے سے ہٹ کر وہ اس طرح مجبول کیے گئے کہ ان سے حیرت انگیز کمالات ظاہر ہوئے تو یہ بڑائی اسی طرح کی ہو گی جیسے فرشتے فرشتے ہونے کی وجہ سے برائیوں سے پاک اور اللہ کی عبادت و اطاعت میں منہمک رہتے ہیں۔ مندرجہ بالا عرض کردہ، غیر معتدل نقطۂ نظر، سیرتِ پاک میں جگہ جگہ ایک تو ایسے اسرار و رموز نکال کر دکھاتا ہے اور دوسرے ہر واقعہ میں ایسے عجائب و غرائب بھر دیتا ہے (ثابت شدہ تمام معجزات راقم کی نگاہ میں برحق ہیں!) کہ حضور ﷺ کو دنیائے انسانیت کے اندر رکھ کر دیکھنا ہی نہیں رہتا بلکہ سرکار رسالت مآب نے جہاں کہیں اپنی فراست و حکمت اور اپنی عملی شجاعت و سخاوت اور دوسرے اوصاف کے ذریعہ واقعات پر دور رس اثرات ڈالے ہیں۔ ان چیزوں پر کاوش کرنے کی طرف ذہن جاتا ہی نہیں۔ اسی وجہ سے میں نے ضعیف روایات (ان کے ساتھ جب واعظانہ سحر بیانیاں بھی شامل کر دیں تو حضور ﷺ کا دورِ تاریخِ انسانی کا باب نہیں رہتا، بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دور فوق التاریخ تھا) سے پوری طرح اجتناب کرنے کی فکر کی اور ثابت شدہ معجزات کو حسبِ ضرورت بیان کیا۔
6. ایک مسئلہ اور بھی تھا۔ سیرت کی بیشتر کتابوں میں واقعات کی ترتیب، سنین کے تعین، افراد کے متعلق تفحص اور روایات سیرت کے بارے میں اختلافی بحثیں شامل ہوتی ہیں اور ہونی بھی چاہئیں۔ میں نے یہ محسوس کیا کہ ان بحثوں کی وجہ سے عام ذہن کے لئے حضور ﷺ سے وابستگی پیدا کرنے میں تھوڑی سی رکاوٹ پیدا ہوئی ہے، کیونکہ جملہ ہائے معترضہ کی طرح پیش آنے والی ان بحثوں کی وجہ سے تسلسلِ واقعات سے توجہ ہٹتی ہے۔ سو میں نے محسنِ انسانیت کی اساسی اور پہلی جلد کو ان بحثوں سے خالی رکھا۔ ارادہ یہ تھا کہ دوسری تحقیقی جلد میں تاریخی اور سوانحی مباحث کو چھیڑا جائے گا۔ اب تک یہ کام نہیں ہو سکا۔ آگے جو خدا کو منظور۔
مختصراً یہ تھے ووہ جس کے تحت میں نے ''محسنِ انسانیت'' کے لئے قلم اُٹھایا۔
بس اب بات اتنی لمبی ہو چکی ہے کہ آپ کے بقیہ ۲ سوالوں کا جواب نہیں لکھا جا سکتا۔
یہ مضمون دراصل میرے اس طرزِ فکر پر مبنی تھا جسے میں نے برکت علی ہال لاہور میں سیرت کے جلسے میں ۱۹۴۹ء تا ۱۹۵۰ء) پیش کیا تھا۔ اس جلسے میں خاص طور پر مجھے یاد ہے کہ سیرت کمیٹی میں پٹی والے مولانا عبد المجید قرشی مرحوم موجود تھے، اور انہوں نے ایک جواں سال نوخیز مقرر کی تقریر کو ٹھوڑی ہاتھ پر رکھ کر بڑے غور و تعجب سے سنا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ مسلسل سوچ بچار میں ہیں۔