فہرست مضامین

سیرتِ طیبہ کے چند تابندہ نقوش

چھٹی صدی عیسوی کے نصف آخر میں جب دنیا روحانی و اخلاقی انحطاط کی تاریکیوں میں گھر چکی تھی اور تمام مذاہبِ عالم تنزل کی آخری منزل پر جا چکے تھے۔ تہذیبِ قدیم کی آخری کرن ٹمٹما رہی تھی۔ انسانیت، فساد و شر اور انتشار و گمراہی کے کنارے کھڑی تھی۔ پوری دنیا میں اضطرابات و فتن کا ایک طوفان برپا تھا۔ اس وقت اس تاریکی کے عالم میں ایک روشنی کا ظہور ہوا جس نے تاریکی کو دور کیا اور سسکتی ہوئی انسانیت کو درخشاں مستقبل کی راہ دکھلائی یہ سن عیسوی ۵۷۵ ویں خزاں تھی۔ جب قریش خاندان کی ایک خاتون کے گھر مکہ معظمہ میں جناب رسالت مآب ﷺ نے جنم لیا۔ آپ کی تشریف آوری سے خزاں دیدہ چمن میں بہار آگئی۔ کفر و ضلالت کے بادل چھٹ گئے۔ رُخِ انسانیت پر تابندگی پھیل گئی۔ دراصل یہ ساعتِ سعید انسانیت کی معراج تھی۔

عرب اس وقت اخلاقی، سماجی اور مذہبی و روحانی طور پر تباہ ہو چکا تھا۔ عرب کے لوگ بتوں اور مظاہر فطرت مثلاً سورج، چاند اور ستاروں کی پرستش کے علاوہ اپنے ہاتھ سے تراشے ہوئے بتوں کے آگے سجدہ ریز تھے۔ ان کے مشرکانہ افعال کا یہ عالم تھا کہ خانہ کعبہ جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صرف خداوندِ عالم کی عبادت کے لئے تعمیر کیا تھا وہ بتوں کا مرکز بن چکا تھا۔ یہودی بھی بتوں کے پرستار تھے اور اپنے ''معبودوں'' کو خانہ کعبہ میں لا کر رکھتے تھے۔ عیسائیوں نے حضرت مریمؑ کا ایسا بت بنا رکھا تھا جس کی گود میں حضرت مسیح علیہ السلام کا مجسمہ بنا ہوا تھا اور اسے بھی خانہ کعبہ میں جگہ دے دی گئی تھی۔ دراصل اس وقت عرب کے تمام مذاہب میں بت پرستی عام تھی۔ اس لئے کعبہ کے در و دیوار بتوں سے آراستہ تھے۔ ان بت پرستوں کے علاوہ وہاں کچھ ایسے لوگ بھی موجود تھے جو لا مذہب تھے۔ ان کو صائبین کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ اپنی آزاد خیالی میں بت پرستوں کا خوب تمسخر اڑایا کرتے تھے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن میں دینِ حنیف کی ہلکی سی جھلک موجود تھی۔ وہ بتوں سے کنارہ کش اور ان کی پرستش سے بیزار ضرور تھے مگر حیران اور بے بس تھے۔

اخلاقی طور پر ان کی سب سے بڑی برائی رسم دختر کشی تھی۔ عرب اپنی لڑکیوں کو زندہ در گور کر دیا کرتے تھے کیونکہ وہ لڑکی کو اپنے لیے باعثِ ذلت شمار کرتے تھے اور یہ ان کی خام خیالی تھی کہ لڑکی کی پیدائش ان کے سرِ غرور کو نیچا دکھائے گی اور دوسروں کی نگاہوں میں ذلیل کرے گی۔ لڑکی کی پیدائش ان سب کے لئے باعثِ شرم و عار تھی۔ وہ بچیاں جو ان کے دستِ جور و ستم سے بچ جاتی تھیں ان سے وہ ظالمانہ سلوک کیا جاتا تھا جس کے تذرکے سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ عرب کے لوگ کثرت سے شراب نوشی کرتے۔ زنا۔ قمار بازی اور موسیقی پر دل و جان سے فریفتہ تھے۔ گانے بجانے والی عورتوں کی اخلاق سوز حرکتیں عام تھیں لیکن اہلِ عرب کو یہ حیا سوز ادائیں بے حد پسند تھیں۔ اور ان عورتوں کو بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ایسی عورتوں سے بڑے بڑے سردار پبلک طور پر بیاہ رچاتے تھے۔ کثرتِ ازدواج کی کوئی حد نہ تھی۔ کنیزوں کے لئے یہ رواج تھاکہ وہ اپنے مالک کی وفات کے بعد خاوند کی اولاد کی ملکیت تصور ہوتی تھیں۔

یہ کہنا غلط ہو گا کہ عرب کے لوگ صفاتِ حسنہ سے یکسر عاری تھے۔ ان میں کچھ ایسی صفات بھی موجود تھیں جو ان کے انسانی جوہر کو نمایاں کرتی تھیں۔ مہمان نوازی، شجاعت، سخاوت، قبائلی وفاداری سلسلہ نسب کی حفاظت اور شعر و ادب کا اونچا مذاق ان کی سیرت کے قابلِ فخر نقوش ہیں۔ ان چند خصوصیات کے باوصف ان کے اس قدر بہیمانہ صفات پائی جاتی ہیں جن کے سامنے ان چند اعلیٰ صفات کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔

عرب کے لوگ مختلف قبائل اور خاندانوں میں بٹے ہوئے تھے اور وہ ہر وقت آپس میں بر سر پیکار رہتے تھے۔ غصہ، نفرت اور جذبۂ انتقام ان کی سرشت میں داخل تھا۔ لڑائی جھگڑا اور معمولی باتوں پر قتل و غارت ان کا وطیرہ تھا۔ عرب خود سر اور مختار قسم کی زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کا کوئی ایسا با اختیار مرکز نہ تھا جو کسی قانون اور ضابطے اور زندگی میں عملی صورت دے سکے۔ یہ رہی عرب کی حالت۔ انگلستان جو آج دنیا میں علم و سیاست کی کشتی کا ناخدا بنا بیٹھا ہے اور جسے تہذیبِ مغرب میں امام کی حیثیت حاصل ہے اس وقت آگ اور خون کی ہولی کھیل رہا تھا۔ اٹلی، تاریخ کی پُر عظمت مملکتِ روما کا گہوارہ اپنی تہذیب کی آخری سانسیں گن رہا تھا۔ یونان اپنی قدیم علمی برتری سے تہی دامن ہو چکا۔ سیاسی اعتبار سے وہ روماء شرقی کے زیرِ نگین تھا اور اس کی علمی قندیل بھی بجھ چکی تھی۔ ایشیا بد امنی کی آماجگاہ بن چکا تھا۔ الغرض تمام دنیا پر وحشت و بربریت اور اضطراب و انتشار کے بادل چھا چکے تھے۔ اقوامِ عالم کی اخلاقی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ انہی حالات میں وہ روز سعید بھی آپہنچا جب رسالت مآب ﷺ خداوندِ عالم کا پیغام لے کر دنیا کے سامنے تشریف لائے۔ اور آپ نے اپنے حق آفرین پیغام سے دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ امریکہ کے مشہور واشنگٹن ارونگ کو بھی یہ اعتراف کرنا پڑا۔ ''بالآخر وہ وقت آگیا جب متفرق قبائل کو ایک ہی قبیلے کی صورت میں متحد ہونا پڑا اور ان کے دلوں میں ایک مشترکہ نصب العین کا جذبہ بیدار ہونے لگا۔ جب کہ ایک ایسی اولو العزم ہستی ان کے درمیان ظہور پذیر ہوئی جس نے ان بکھرے ہوئے اجزا کی شیرازہ بندی کی اور ان میں ایک نیا ولولہ پیدا کر دیا۔ جس کا محرک اس کا والہانہ جوش اور شجاعانہ جذبہ تھا۔ اس شخصیت نے صحرائے عرب کے ایسے طاقتور رہنما کی حیثیت اختیار کر لی جس نے روئے زمین کی حکومتوں کو متزلزل کر دیا۔''

رسولِ اکرم ﷺ نے عربوں کو باہم شیر و شکر کر دیا اور ان میں مساوات اور اخوت و مروت کی روح پھونک دی۔ عربی اور عجمی کی تفریق ختم کر کے تقویٰ کو معیارِ فضیلت قرار دیا۔ صحابہ کرام نے عہد جاہلیت کی تمام رسومات بد سے یکسر کنارہ کشی اختیار کر لی اور ان میں زندگی کی نئی لہر دوڑ گئی اور اس نئی لہر نے ان کے زاویۂ نگاہ میں انقلاب برپا کر دیا اور اس انقلاب نے زندگی کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ زندگی کے ہر پہلو میں خوشگوار تبدیلی آئی۔ اسی کیفیت کا نقشہ مصنفِ محسنِ انسانیت نے ان الفاظ میں کھینچا ہے۔ ''انبیاء کرام کے سوا کوئی عنصر تاریخ میں ایسا دکھائی نہیں دیتا جو انسان کو پورے کے پورے انسان کو اجتماعی انسان کو اندر سے بدل سکا ہو۔ حضور اکرم ﷺ کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کی دعوت نے پورے کے پورے انسان کو اندر سے بدل دیا اور صبغۃ اللہ کا ایک ہی رنگ مسجد سے لے کر بازار تک، مدرسہ سے لے کر عدالت تک اور گھروں سے لے کر میدان جنگ تک چھا گیا۔ ذہن بدل گئے۔ خیالات کی رو بدل گئی۔ نگاہ کا زاویہ بدل گیا۔ عادات و اطوار بدل گئے۔ رسوم و رواج بدل گئے۔ حقوق و فرائض کی تقسیمیں بدل گئیں۔ خیر و شر کے معیارات اور حلال و حرام کے پیمانے بدل گئے۔ اخلاقی قدریں بدل گئیں۔ قانون اور دستور بدل گیا۔ جنگ و صلح کے اسالیب بدل گئے اور تمدن کے ایک ایک ادارے اور ایک ایک شعبے کی کایا پلٹ گئی اور اس پوری کی پوری تبدیلی میں جس کا دائرہ ہمہ گیر تھا۔ ایک سرے سے دوسرے سرے تک خیر و فلاح کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔ ہر طرف بناؤ ہی بناؤ۔ تعمیر ہی تعمیر اور ارتقاء ہی ارتقاء ہے۔ درحقیقتِ محسنِ انسانیت کے ہاتھوں انسانی زندگی کو نشاۃ ثانیہ حاصل ہوئی اور حضور ﷺ نے ایک نظامِ حق کی صبح طلوع کی۔'' اسی بنیادی تبدیلی کی کیفیت حضرت جعفر طیارؓ نے بھی بیان فرمائی ہے۔ حضرت جعفرؓ جو اُں نوّے مسلمانوں میں شامل تھے جنہوں نے قریش کے ظلم و ستم سے تنگ آکر مکہ معظمہ سے ہجرت کر کے حبشہ میں پناہ لی تھی۔ انہوں نے ان تبدیلیوں کا اجمالاً نقشہ کھینچا ہے جو رسالت مآب ﷺ کی دعوت سے صحابہ کرام میں پیدا ہوئی تھیں۔ حضرت جعفر نے حبشہ کے عیسائی بادشاہ کے سامنے تقریر کرتے ہوئے فرمایا۔ ''اے بادشاہ ہم جہالت میں مبتلا تھے۔ بتوں کو پوجتے تھے۔ نجاست سے آلودہ تھے۔ مردار کھاتے تھے۔ اپنے ہمسایوں سے برا سلوک کرتے تھے۔ طاقتور، کمزوروں کی دولت ضائع کر دیتے تھے۔ ایسے حالت میں خداوند عالم نے ہم میں سے ایک بزرگ ہستی کو مبعوث فرمایا جس کے حسب و نسب، سچائی، دیانت داری، تقویٰ اور پاکیزگی سے ہم خوف واقف تھے۔ اس نے ہم کو توحید کی دعوت دی اور سمجھایا کہ اکیلے خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ بتوں اور پتھروں کی پرستش سے انہوں نے منع فرمایا جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے۔ انہوں نے ہمیں نماز کے احکام بتلائے۔ صدقہ کی تعلیم دی اور روزہ رکھنے کا حکم دیا جب کہ ہم بیمار یا سفر پر نہ ہوں۔ اور سچ بولنے کا حکم دیا۔ اپنے زیر دستوں کی حفاظت کی ذمہ داری ہم پر ڈالی۔ اپنے رشتہ داروں سے شفقت اور ہمسایوں سے اچھے برتاؤ کا حکم دیا۔ ہم برے کاموں سے باز آگئے۔ آوارگی اور خونریزی سے رک گئے۔ اس نے ہمیں جھوٹی شہادت سے منع فرمایا۔ اور یتیموں کو ان کی جائیداد سے محروم نہ کرنے کا حکم دیا۔ عورتوں پر تہمت لگانے سے منع فرمایا۔ ہم نے ان کے ارشادات کو دل و جان سے قبول کیا۔ ہم اس کی صداقت پر ایمان لے آئے۔ ہم نے ان تمام احکام کی پیروی کی جو خداوند عالم نے ان کے ذریعے بتلائے اور اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان لے آئے۔ یہی باتیں اس کا اجمالی خاکہ ہیں جو پیغمبر علیہ السلام نے ہم کوبتلائیں۔''

جنابِ رسالت مآب ﷺ کا انسانیت پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ انہوں نے فاطرِ کائنات اور اس کی کرم فرماؤں سے انسانیت کا رشتہ استوار کر دیا۔ وہ انسان جو شجر و حجر کو اپنا خدا سمجھ بیٹھا تھا۔ چاند اور ستاروں کی پرستش کرتا تھا۔ اسے اپنی برتری اور عظمت سے آگاہ کیا اور بتایا کہ تو شجر و حجر کے آگے سجدہ ریز کیوں ہے جب کہ تو خود مسجودِ ملائک ہے۔ تو خداوندِ عالم کی افضل ترین مخلوق ہے۔ کائنات کا ذرہ ذرہ تیری خدمت کے لئے مامور ہے۔ یہ چاند، ستارے، پتھر، شجر اور سورج تو سب تیرے لئے بنائے گئے ہیں۔ انسان تو خلیفۃ اللہ فی الارض ہے۔ خدا تعالیٰ کے سوا کسی اور کے آگے سجدہ ریز ہونا انسانیت کی توہین ہے۔ خالق کائنات کے آگے سجدہ ریز ہونا ہی انسانیت کی معراج ہے۔

حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات کا سب سے اہم اور بنیادی اصول عقیدۂ توحید تھا۔ خدا کی وحدانیت کے اس ناقابلِ تردید عقیدہ کے بارہ میں پروفیسر ہٹی کا قول ہے کہ اسلام کی سب سے بڑی قوت کی علت غائی ایک غیر مرئی ہستی پر ایمان کامل میں پوشیدہ ہے۔ اس مذہب کے پیروؤں کو ایک ایسے اطمینان کا احساس اور تسلیم و رضا کا جذبہ حاصل ہے۔ جو دوسرے مذاہب کے پیروؤں میں نہیں پایا جاتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسلامی ممالک میں خود کشی کے واقعات مقابلۃً کم پائے جاتے ہیں۔''

جمہوریت کا یہ شعلہ اور انسانیت کا یہ ذہنی ارتقاء پادریوں اور حکمرانوں کے استبداد کے خلاف ایک جہاد تھا۔ ظالم نسلوں اور جابر حکمرانوں کے ناقابلِ فہم استبداد کے بوجھ تلے انسانی روح کراہ رہی تھی۔ اور ان کے مستقل مفادات کی خاطر انسانیت کے مفادات بری طرح پامال ہو رہے تھے۔ آخر کار انہوں نے ذات و نسل اور موروثی استحقاق کے بتوں کو پاش پاش کر دیا۔ اور پادریت کا خاتمہ کر کے ایک اہم کارنامہ سرانجام دیا۔ انہوں نے بنی نوع انسان پر یہ بہت بڑا احسان کیا کہ ایسے طبقہ کے تقدس کی اجارہ داری کو ختم کر دیا جو خدا اور بندے کے درمیان حائل تھی۔ ؎

کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے

پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو

نبی اکرم ﷺ نے غلامی کے مکمل خاتمہ کے لئے بتدریج مؤثر اقدامات کیے۔ غلامی کی یہ لعنت صرف عرب ہی میں رائج نہ تھی بلکہ پوری دنیا اس لعنت کا شکار تھی جو انسانیت کے نام پر بدنما داغ تھی۔ رسالت مآب ﷺ سے قبل تمام بڑے بڑے مفکرین جن میں ارسطو بھی شامل ہے۔ غلامی کو سیاست، معاشرہ اور حکومت کے لئے ایک جزو لا ینفک قرار دے چکے تھے۔ غلامی، یونانی اور رومن تہذیب کا ایک اہم حصہ تھی۔ اس کے برعکس پیغمبر اسلام ﷺ نے غلاموں کی آزادی کو ایک عظیم اخلاقی مروت قرار دیا۔ اور انہوں نے خود اپنی حیاتِ طیبہ میں بے شمار غلاموں کو آزاد کیا۔ نیز آپ نے غلاموں کے مالکوں کو تنبیہ فرما دی کہ ان سے ضرورت سے زیادہ کام نہ لیا جائے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ غلاموں کو ویسا ہی کھانا کھلاؤ جیسا کہ تم کھاتے ہو اور ان کو لباس بھی ویسا ہی دو جیساتم خود استعمال کرتے ہو۔ حضور ﷺ کی انقلاب آفرین تعلیم سے غلاموں کی حالت اس قدر سدھر گئی کہ انہیں معاشرے میں اہم حیثیت حاسل ہو گئی۔ ان میں سے بعض لوگوں نے بادشاہت اور سپہ سالاری کے منصب بھی پائے۔ قرآن پا کے متعدد مقامات پر غلاموں کی رہائی کی تاکید آئی ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ بھی ہے کہ کسی عربی کو عجمی پر۔ سفید کو سیاہ پر کوئی فوقیت نہیں سوائے نیک اور پرہیزگارانہ عمل کے۔ عدل و مساوات کے اس حکیمانہ اصول نے سرمایہ داری و آقائی کے بُت کو پاش پا شکر دیا اور غلاموں کے حقوق کا تعین ایک ایسی پالیسی کی بنیاد پر کیا جس کی وجہ سے ہر دو فریق کی شکایتیں مٹ گئیں اور کوئی فریق کسی کے دستِ ظلم کا فریادی نہ رہا۔ حضورِ اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ کسی جرم پر جسقدر سزا ایک آزاد شخص کو دی جا سکتی ہے اس سے کم بلکہ نصف سزا غلام کو دی جائے۔ اس پر غور فرمائیے کہ اس مظلوم طبقہ کے لئے رحمۃ للعالمین کے پاس رحم و کرم کی کتنی فراوانی ہے۔ آپ نے بندہ اور بندہ نواز ایک ہی صف میں کھڑے کر دیئے۔ یہ سب کچھ ساتویں صدی عیسوی میں ہوا جبکہ اٹھارھویں صدی تک انگلستان، فرانس، جرمنی، سپین اور ہالینڈ میں غلامی کا دور دورہ رہا۔ اور اسے نو آبادیاتی نظام کے سہارے جاری رکھا گیا۔ جہاں غلام کی محنت کی ضرورت تھی۔ ان حالات میں اسلام کی فوقیت اور اس کی انسانیت نوازی میں کوئی شک باقی رہ جاتا ہے؟

ایک طرف دنیا میں آج بھی ایک نسلی فتنہ برپا ہے۔ پیلے رنگ والوں کا ایک گروہ ہے تو کالے رنگ (نیگرو) والوں کا دوسرا۔ اور سفید فاموں کا تیسرا۔ یہ سب آپس میں ایک دوسرے سے ٹکرانے والے اور ایک دوسرے کو بدگمانی اور حقارت کی نظر سے دیکھنے والے ہیں۔ دوسری طرف اسلام کا اعلان یہ ہے کہ غیر اختیاری چیزیں جتنی بھی ہیں چاہے وہ رنگ ہو یا نسل، زبان ہو یا ملک ان میں سے کوئی چیز بھی افضلیت کا معیار یا پیمانۂ فساد نہیں بن سکتی۔ بزرگی و برتری کا معیار تو صرف اختیاری و ارادی چیز یعنی ایمان و عمل صالح ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قرآن مجید میں ارشاد ہے اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں تم میں سے زیادہ پسندیدہ ہے جو سب سے زیادہ متقی اور صاحبِ کردار ہو۔ آج اگر دنیا اس معیار کو اپنا لے تو دنیا میں کہیں بھی قومی اور فرقہ وارانہ ہنگامے اور فساد باقی نہیں رہ سکتے۔ بلکہ انفرادی جھگڑوں اور فتنوں کا وجود بھی باقی نہیں رہ سکتا۔

اسلام نے عورت کے بارے میں تمام شکوک و شبہات کو رفع کر دیا اور عورت کو مرد پر وہی حقوق حاصل ہیں جو مرد کو عورت پر حاصل ہیں۔ دراصل یہ فرمان عورت کے حق شہریت کا سب سے بڑا اعلان تھا۔ رسالت مآب ﷺ کا فرمان ہے کہ تم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرتا ہے۔ اسلام ہی نے بتایا کہ ماں کے پاؤں تلے جنت ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ نے عورت کو اس وقت رفعت و عزت کا مقام بخشا جب اس کی حیثیت جانوروں سے بھی بد تر تھی۔ بعثتِ نبوی سے قبل عورت کو ذلت و حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اسلام نے بتایا ہ عورت کا وجود تو رحمت اور سکینیت کا مظہر ہے۔ رسولِ پاک ﷺنے مشروط نکاحوں کی رسم یکسر بند کر دی اور عورت کو اس کے قانونی حقوق مرد کے برابر عطا کیے۔ اس وقت دنیا میں غیر محدود تعدد ازدواج کا دور دورہ تھا مگر اسلام نے اس پر پابندی عائد کر دی۔ ہر چند اسلام میں طلاق کی اجازت ہے لیکن وہاں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ سب جائز امور میں سے سب سے بری چیز اللہ تعالیٰ کے نزدیک طلاق ہے۔ کیونکہ یہ ازدواجی مسرت کی راہ میں رکاوٹ ہے اور اولاد کی صحیح تربیت میں مانع ہے۔ اسلام نے جہاں مرد کو طلاق کے حقوق دیئے ہیں وہاں عورت کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ مناسب وجوہ کی بنا پر خلع کر سکتی ہے۔ اسلام نے بیوہ کو نکاحِ ثانی کی اجازت دے کر اسے محتاجی اور رہروی سے بچایا ہے۔

رسولِ اکرم ﷺ نے غیر مسلم رعایا کے جان و مال اور مذہب کی حفاظت کی مکمل ذمہ داری اُٹھائی اور ان کے حقوق و مفادات کی پوری طرح نگہداشت فرمائی۔ فتح مکہ کے بعد نبی اکرم ﷺ نے اعلان فرمایا کہ ''نجران کے عیسائیوں اور ہمسایہ حکومتوں سے کہا کہ ان کے جان و مال اور مذہب کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبر کا وعدہ بالکل برحق ہے۔ حاضر وغیرحاضر سب بے فکر رہیں کہ ان کے عقیدے اور عبادات میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جائے گی اور نہ ہی ان کے حقوق و مفادات میں کوئی تبدیلی ہو گی، کسی بشپ کو اس کے عہدہ سے، کسی راہب کو اس کی خانقاہ سے اور کسی پادری کو اس کے کلیسا سے علیحدہ نہیں کیا جائے گا۔ حسبِ سابق انہیں چھوٹے بڑے میں مکمل آزادی ہے۔ کسی مجسمہ یا صلیب کو ضائع نہیں کیا جائے گا۔ کسی پر کسی قسم کا ظلم روا نہیں ہو گا نہ ان پر ''عشر'' نافذ کیا جائے گا۔ نہ ہی مجاہدین کی ضروریات کے لئے ان سے کسی چیز کا مطالبہ کیا جائے گا۔'' کیا دنیا کی تاریخ اس حسنِ سلوک اور مذہبی رواداری کی مثال پیش کر سکتی ہے؟

نبی رحمت ﷺ نے محصور دشمن کے کسی عضو کو کاٹنے سے منع فرما دیا اور اسے وحشت و بربریت کے مترادف قرار دیا۔ قیدیوں سے نرمی کا برتاؤ کرنے کا حکم دیا۔ سماجی طبقات میں اعتدال پیدا کرنے کے لئے قرآن پاک نے ذخیرہ اندوزی سے منع فرما دیا۔ اسلامی قانونِ وراثت، اجتماعی خیرات، زکوٰۃ اور انفرادی صدقات کا فلسفہ بھی یہی ہے کہ معاشرہ میں دولت کی تقسیم مناسب اور منصفانہ ہو۔ اور دولت کی افراط تفریط سے ایک دوسرے میں بعد پیدا نہ ہو۔ دولت مند اسے اپنا فرض سمجھ کر دے اور غریب اپنا حق سمجھ کر لے۔ نہ دولت مند احسان جتلائے اور نہ غریب لینے میں عار محسوس کرے۔

رسولِ اکرم ﷺ کی تعلیمات اس امر کی مظہر ہیں کہ قانون کی نگاہ میں تمام افراد مساوی ہیں۔ قرآن ہی کو سب پر بالا دستی حاصل ہے۔ حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ میں نے حضور ﷺ کو اپنی ذات کو بھی قصاص کے لئے پیش فرماتے دیکھا ہے۔ صحیحین میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ایک فاطمہ نامی عورت چوری کے الزام میں پکڑی گئی۔ جرم ثابت ہو گیا تو قریش کے با اثر لوگوں نے ملزمہ کو بچانے کی کوشش کی۔ انہوں نے حضرت اسامہ بن زید کو سفارشی بنا کر آپ ﷺ کے پاس بھیجا۔ حضور اکرم ﷺ سخت دکھ ہوا۔ آپ ﷺ نے اس وقت یہ تاریخی الفاظ بیان فرمائے کہ تم سے پہلی امتیں اس لئے تباہ ہوئیں کہ ادنیٰ طبقے کا فرد جرم میں ماخوذ ہوتا تو اسے سزا دی جاتی لیکن خوشحال طبقے کے مجرمین کو چھوڑ دیا جاتا لو ان فاطمۃ بنت محمدٍ سرقت لقطعت یدھا خدا کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرے تو میں اس کے ہاتھ بھی کاٹ ڈالوں گا۔ بے لاگ انصاف کی ایسی مثالیں دنیا میں خال خال ہی ملیں گی۔

۱۰ ؁ھ کو رسالت مآب ﷺ کا مشن مکمل ہو گیا۔ رسولِ پاک کی حیاتِ مقدسہ میں ہی تمام عرب اسلام کے جھنڈے تلے جمع ہو گیا۔ یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے۔ انیسویں صدی کے مشہور شاعر ''لالر ٹائن'' کو ان حقائق کا اعتراف کرنا پڑا۔

''اس قدر کمزور وسائل کے ساتھ کسی دیگر انسان نے انسانی طاقت سے زیادہ ذمہ داری قبول نہیں کی۔ کیونکہ اتنے بڑے مقصد کے حصول کے لئے اپنے نصب العین کے تصور اور اسے عملی صورت میں لانے کے لئے اس کے پاس سوائے اپنی ذات کے اور کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ اور نہ ہی مٹھی بھر انسانوں کے بغیر جو صحرا کے گوشے میں بس رہے تھے اسے کوئی اور مدد حاصل تھی۔ دنیا میں کبھی بھی کسی نے اتنا عظیم اور مستقل انقلاب پیدا نہیں کیا۔ آپ کی بعثت سے لے کر دو صدیوں میں اسلام نے عرب کے دلوں میں اور تلواروں پر حکومت کی۔ اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے انہوں نے ایران، خراسان، شمالی ہند، شام، مصر، حبشہ اور شاملی افریقہ کے متعدد ممالک فتح کر لیے۔''

فلاسفر، فصیح البیان، مقرر، مرسل، مقنن، جنگجو، فاتح اور معقولات پر مبنی اعتقادات کے بحالی کنندہ ایک ایسے مذہب کے لئے جو اصنام پرستی سے بے نیاز، بیس سلطنتوں کے بانی اور ایک عالمگیر روحانی حکومت کی بنا ڈالنے والے محمد ﷺ ہی تھے۔ ان تمام معیارات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جن کی رو سے انسانی عظمت کو ناپا جا سکتا ہے۔ یہ سوال جرأت کے ساتھ پوچھا جا سکتا ہے کہ آیا کوئی انسان آپ ﷺ کی ذات سے عظیم تر قرار دیا جا سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی آپ پر کروڑ کروڑ رحمتیں ہوں۔ آمین!