فہرست مضامین

حضرت محمد ﷺ کا نظامِ حکومت

اسلامی ریاست کے سیاسی سربراہ کی حیثیت سے پیغمبرِ خدا ﷺ کی سیرت طیبہ اور اسوۂ حسنہ کے لئے ضروری ہے کہ پہلے یہ دیکھا جائے کہ:

1. اسلام اور غیر اسلامی مذاہب میں کیا فرق ہے؟

2. محمدی تصوّرِ مملکت کیا ہے؟

3. نبوی مملکت کا دائرہ کار کیا ہے؟

4. مقامِ نبوت کیا ہے؟

تاکہ پیغمبرِ خدا ﷺ کی مبارک زندگی کے سیاسی پہلو کے سمجھنے میں آسانی رہے۔

اسلام اور غیر اسلامی مذاہب:

گنے چنے چند معتقدات پر یقین رکھنا، وہم پرستی اور دیروکلیسا کے سلسلہ کی کچھ خوش فہمیوں پر سر دھننا، برہمنیت اور پاپائیت کی مکارانہ روحانی سیادت کو تسلیم کرنا اور بعض جزوی کارِ خیر کے مفروضوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنا، غیر اسلامی مذاہب کا سارا طول و عرض ہے۔ اس کے برعکس اسلام ان جزوی عقیدت مندیوں میں طاغوت کے ساجھے، وقتی اور فرضی خوش فہمیوں، روباہی اور استحصالی طرز کی ساری شرمناک حیلہ سازیوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اسلام کے نزدیک، اخروی جوابدہی کے احساس کے ساتھ اپنی دنیا کو منشاء الٰہی کے تابع رکھ کر ''سفر حیات کی منزلیں'' طے کرنے کا نام روحانیت ہے، اسلام ہے، دین ہے اور ایمان ہے، اس میں ''دین و دنیا'' کی تفریق اور ''روحانیت اور مادیت میں'' دوئی کا وہ تصور اور احساس بالکل مفقود ہے۔ جو شومئی قسمت سے غیر اسلامی مذاہب میں رواج پا گیا ہے اور یہ وہ غیر اسلامی تصورِ روحانیت ہے جس میں ''رحمٰن اور شیطان'' کو ایک ساتھ راضی رکھنے کی گنجائش نکل آئی ہے۔

نبوی تصوّرِ مملکت:

اسی طرح نبوی تصورِ مملکت اور دوسری اقوام کے تصوّرِ ریاست میں بھی فرق ہے، غیر اسلامی ریاست کا حاکمِ اعلیٰ بادشاہ، اس کے آئین کا ماخذ اربابِ اقتدار کی مرضی ہوتی ہے یا اقتدارِ اعلیٰ کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں۔ اس میں خدا ریاست کے تابع ہوتا ہے۔

ملک خدا کا، حاکم اعلیٰ احکم الحاکمین، ملکی آئین اور قانون کا سرچشمہ اور ماخذ رب العٰلمین کی مرضی اور منشاء، حکمرانِ اسلامی آئین کے محافظ، اس کے نفاذ کے ضامن اور کتاب و سنت سے مستفید ہونے کے لئے خلقِ خدا کی حکیمانہ اور مشفقانہ رہنمائی کرنا اور ان کو اپنا مخلصانہ اور ناصحانہ تعاون پیش کرنا نبوی تصورِ مملکت کے بنیادی عناصر ہیں۔ اس میں ریاست، خدا کی مرضی اور منشاء کی قانوناً پابند ہوتی ہے۔

محمدی نظامِ ریاست:

اسی طرح محمدی ریاست کا دائرۂ کار بھی دوسروں سے کافی مختلف اور وسیع ہے۔ محإدی ریاست انسان، جن، پرند، چرند اور شجر و حجر کی صلاح و فلاح عافیت اور مناسب احترام کی بنیاد پر ان سب کو محیط اور حاوی ہے۔ محمدی نظامِ ریاست، رب کی ربوہیتِ عامہ کا مظہر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس دوسری اقوام کے نظامِ ریاست صرف لوگوں کے مفاد کے تابع ہوتے ہیں انسان سے باہر کی دنیا ان کی توجہ اور دلچسپی کا مرکز نہیں ہوتی الا یہ کہ ان کی وہم پرستی کا کوئی داعیہ موجود ہو۔

مقامِ نبوت:

انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اللہ کی مرضی اور منشا کے بے خطا ترجمان، اس کے بے داغ مبلغ، نوعِ انسان کے لئے درد مند مصلح مگر ان سب سے بڑھ کر اپنے رب کے غلام، وفادار اور عبد صالح ہوتے ہیں، وہ خدا کی طرف سے بندوں کے لئے ''مطاعِ برحق'' تو ہوتے ہیں مگر معبود نہیں ہوتے، وہ الوہیت کے شائبہ سے بالکل پاک ہوتے ہیں۔ ان کی دعوت رب کی عبادت اور سچی غلامی کے لئے ہوتی ہے۔ اس لئے ان کی ریاست بھی عبدیت کا کامل نشان ہوتی ہے۔

یہ وہ چار عناصر ہیں، اگر آپ نے ان کو ملحوظ رکھا تو یقیناً آپ کو یہ بات بھی سمجھ میں آجائے گی کہ ایک سیاسی سربراہ کی حیثیت سے رسول اللہ ﷺ نے جو سیاسی اسوۂ حسنہ پیش کیا ہے وہ بالکل قدرتی ہے۔

تمکن فی الارض:

سیاسی تنظیم دینی فریضہ ہے: علیکم بالجماعة والعامة (مسند احمد) ملی سیاسی تنظیم سے علیحدگی، دین و ایمان میں خلل کا موجب ہے۔ من فارق الجماعة شبرا فقد خلع ربقة الإسلام من عنقه (ایضا) ملی تنظیم سے باہر انسان شیطان کا نوالہ ہوتا ہے اس لئے اس سے بچو۔ إن الشیطان۔۔۔۔۔ یأخذ الشاذة والقاصیة والناصیة وإیاکم (ایضا) ملی تنظیم سے علیحدہ ہو کر غیر مسلم اقوام سے ناطے جوڑنا رسم جاہلیت کا احیا ہے دین نہیں ہے لیس أحد یفارق الجماعة شبرا فیموت إلامات میتةجاهلیة(بخاری و مسلم) ملتِ اسلامیہ کو ایک سے زیادہ حکومتوں میں تقسیم کرنا بھی شرعاً جائز نہیں ہے۔ مسیلمہ کذاب نے مطالبہ کیا تھا کہ ملک کو بانٹ لیا جائے نصف آپ کا ہو اور نصف اس کا تو حضور ﷺ نے رد کر دیا تھا (ابن اثیر) بخاری سے معلوم ہوتا ہے کہ، ملک تو بڑی بات ہے آپ ﷺ نے فرمایا تھا۔

''لو سألتني ھذہ القطعة ما أعطیتکھا (بخاری جلد اول) اگر تو مجھ سے چھڑی کا یہ ٹکڑا بھی مانگے تو میں تجھے نہیں دوں گا۔''

سقیفہ بنی ساعدہ میں مہاجرین اور انصار کی الگ الگ حکومتوں کی تجویز بھی بالاتفاق رد کر دی گئی تھی (ابن جریر طبری)

افسوس! ہم ملت اسلامیہ کی وحدت کی دینی حیثیت کو نظر انداز کر کے ڈیڑھ اینٹ کی حکومتوں پر نہ صرف قناعت کر رہے ہیں، بلکہ ان کو خاصہ طول بھی دے رہے ہیں۔ ہم علی الاعلان کہتے ہیں کہ ملتِ اسلامیہ ایک اکائی ہے، اس کی حکومت بھی واحد ہونی چاہئے، چند سیاسی بو الہوسوں کی ضیافت طبع کے لئے جداگانہ حکومتوں کا قیام ملتِ اسلامیہ کی تذلیل ہے اس کو ختم ہونا چاہئے۔ دین و سیاست میں تفریق، دراصل بے خدا سیاسی شاطروں کی ایک بھونڈی سازش ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے تو تمکن فی الارض (حکومت) اور سیاسی غلبہ کو سچے اسلامی علم و عمل کا قدرتی نتیجہ اور حاصل قرار دیا ہے: بنو عامر کے ایک بوڑھے رئیس نے خدمت اقدس میں حاضر ہو کر دریافت کیا کہ اگر میں اسلامی ذمہ داریوں کو پورا کروں تو مجھے اس کا کیا صلہ ملے گا؟ فرمایا: اخروی نجات، عرض کی: حضور! یہ تو کل کی بات ہوئی، آج کیا ملے گا؟ فرمایا:

نعم النصر والتمکین في البلاد (کامل لابن الاثیر۔ مختصرا) عمدہ فتوحات اور دنیا کی حکومت۔

لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰہ:

لا إله إلا اللّٰہ جہاں کلمۂ توحید اور ایمان ہے وہاں یہ ''حلف وفاداری'' بھی ہے۔ عرب کو دعوت دیتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے دو باتیں پیش کیں۔ جئتکم بخیر الدنیا۔ میں تمہارے لئے دنیا کی بہتری کا پیغام لایا ہوں، قوموا معي لا إله إلا اللّٰه وأن تفلحوا، میرے ساتھ مل کر خدائے واحد کا نعرہ بلند کرو، انسانوں کی اجتماعی بہتری کا نظام بروئے کار آجائے گا۔ (اسلام کا نظام حکومت)

خود آپ ﷺ مکلف تھے:

''معی'' (میرے ساتھ) کا لفظ اس لئے فرمایا کہ اس حلفِ وفاداری کے مکلف آپ خود بھی تھے۔ ابو داؤد میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے۔

قالت کان النبي ﷺ إذا سمع المؤذن یتشھد قال وأنا وأنا (باب ما یقول إذا سمع المؤذن)

جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام موذن کو شہادتیں پڑھتے سنتے، فرماتے، میں بھی میں بھی (گواہی دیتا ہوں)

علماء نے لکھا ہے کہ آپ اپنی رسالت کے اقرار کے اسی طرح مکلف تھے، جس طرح آپ ﷺ کی امت، کیونکہ رسالت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سرکاری حیثیت اور منصب کا نام ہے، جس کی شہادت دینے کے آپ ''بحیثیت محمد بن عبد اللہ اور محمد رسول اللہ ﷺ مکلف تھے۔ اس اعتراف کا مطلب یہ ہے کہ آپ اللہ کی مشیت کے تابع تھے۔ آپ کی مشیت اللہ کی مشیت کے مساوی تھی نہ اس سے آزاد تھی۔ ایک دفعہ ایک صحابی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے، دوران گفتگو کہہ دیا ما شاء اللّٰہ وشئت جو خدا چاہے اور جو آپ چاہیں۔ آپ نے فرمایا جعلت للّٰہ ندا، تم نے (تو مجھے) خدا کا ہمسر اور شریک بنا دیا، ما شاء اللّٰہ وحدہ (ادب المفرد باب قول الرجل ما شاء اللّٰہ وشئت) (بلکہ کہو) جو تنہا خدا چاہے۔''

اس لئے علماء نے لکھا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقام، مقام تشریع نہیں تھا، تشریح و توضیح تھا۔ لیکن یہ بات کہ آپ کی یہ بات از قسم تشریح ہے، تشریع نہیں ہے، خدا جانے ہمیں اس میں امتیاز کیے بغیر آپ کا اتباع کرنا ہے، ہمارے لئے وہ تشریع بھی ہے اور تشریح بھی۔ ما أمرتکم به فخذوہ وما نھیتکم عنه فانتھوا (کنز العمال)

بادشاہت:

غیر اسلامی دنیا میں اقتدار کو بادشاہت اور سلطنت کو شہنشاہیت کہا جاتا ہے اور اسے شخصی اور نجی اغراض کی تکمیل اور فوز و فلاح کا ایک عظیم ذریعہ تصور کیا جاتا ہے مگر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نزدیک وہ تو بہت بڑا ہی بد نصیب ہے گویا کہ اسے تو چھُری کے بغیر ہی ذبح کیا گیا ہے۔

من ولي القضاء فقد ذبح بخیر سکین (ترمذی، ابن ماجہ)

مزہ تو اس کا عمدہ ہے مگر تاثیر بری۔ نعمت المرضعة وبئست الفاطمة (بخاری)

شریح بن ہانی کے والد کی کنیت 'ابو الحکم'' تھی۔ آپ نے سنا تو ناپسند کیا، فرمایا:

إن اللّٰہ ھو الحکم وإلیه الحکم (ابو داؤد)

حکم (فیصلے کرنے والی) تو اللہ کی ذات ہے اور جہانِ دنیا کے سارے مقدمات کا مرجع بھی اسی کی ذات ہے، شہنشاہ کا لقب، حضور کے نزدیک ہی شرمناک لقب ہے۔

أخنی الأسماء یوم القیامة عند اللّٰہ رجل یسمی ملك الأملاك (بخاری)

قیامت میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ بے شرم وہ انسان ہے جس کا نام ''شہنشاہ'' ہے۔

مسلم میں ہے:

أغیظ رجل علی اللّٰہ یوم القیمة وأخبثه رجل کان یسمی ملك الأملاك لا ملك إلا اللّٰہ۔ اللہ کے نزدیک قیامت میں سب سے زیادہ مبغوض ترین اور خبیث تر وہ شخص ہو گا جس کا نام شہنشاہ اور شاہانِ شاہ رکھا گیا حالانکہ (حقیقی) بادشاہ صرف اللہ ہے۔

قیامت میں اللہ تعالیٰ بادشاہی کے مدعیوں کو للکارے گا کہ، اب کہاں ہو؟

یقبض اللّٰہ الأرض یوم القیمة ویطوي السماء بیمینه ثم یقول أنا الملك أین ملوك الأرض (بخاری مسلم)

حکومت بطرزِ نبوت:

فتح مکہ کے دن اسلامی لشکرِ جرار کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارد گرد ٹھاٹھیں مارتا ہوا دیکھ کر حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ بول اُٹھے: اے ابو الفضل (عباس) آج آپ کا بھتیجا عظیم بادشاہ ہو گیا ہے، حضرت عباسؓ بولے: اے ابو سفیان! (بادشاہ نہیں، حکومت بطرز) نبوت ہے۔''

قال أبو سفیان یا أبا لفضل! لقد أصبح ملك بن أخیك الیوم عظیما، قال قلت یا أبا سفیان! إنھا النبوة (زاد المعاد)

معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبرِ خدا ﷺ کیلئے بھی بادشاہت کا لفظ صحابہ کو گوارا نہیں تھا۔ کیونکہ بادشاہ کسی کے بنائے بنتے ہیں، انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام فرستادۂ خدا ہوتے ہیں کوئی انہیں تسلیم کرے یا نہ کرے وہ روحانی تاجدار ہوتے ہیں اور رسول بھی۔ علاوہ ازیں حقیقی بادشاہی صرف حق تعالیٰ کو سزاوار ہے، اور وہی سچا بادشاہ ہے، اس لئے ایک پیغمبر اور اس سے ہمسری کی یہ توقع؟ معاذ اللہ۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھ کر ایک شخص لرز گیا، آپ نے تسلی دیتے ہوئے اس سے فرمایا۔

ھون علیك فإني لست بملك (بخاری)

''گھبراؤ نہیں! میں بادشاہ نہیں ہوں۔''

روض الانف میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیاسی سیادت کے بارے میں راہب بحیرا کا یہ قول نقل کیا گیا ہے۔

ھذا سید العلمین، ھذا رسول رب العلمین یبعثه رحمة العلمین۔ (روض الأنف للسھیل)

یہ سارے جہاں کے سردار، رب العٰلمین کے رسول، جن کو رحمۃٔ للعالمین بنا کر رب رسول بنائے گا۔ یعنی حضور دنیا کے سیاسی سربراہ تو ہوں گے مگر بطرز نبوت، جو سراپا رحمت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سیاسی قیادت بھی، مزرع آخرت کے طور پر تھی، غرض یہ تھی کہ باوقار اور شریفانہ زندگی نصیب ہو، جس سے رب بھی راضی ہو اور آخرت بھی سنور جائے۔ اس لئے ہمارے علماء نے اسلامی حکومت کی یہ تعریف کی ہے۔

إنھا دولة لم تکن من طرز دول الدنیا ھی بالأمور النبویة والأحوال الأخرویة أشبه (الفخری)

یہ عام حکومتوں کی مانند نہیں تھی، بلکہ نبوی انداز اور اخروی رنگ سے زیادہ مشابہ تھی۔ اسلامی ریاست کی یہ تعریف جامع بھی ہے اور نبوی طرزِ حکومت کے عین مشابہ بھی۔

امانت:

حضور ﷺ کے نزدیک اسلامی حکومت کا نام ''امانت'' ہے۔

إنھا أمانة(مسلم)

یہ اس لئے کہ اسلامی اقتدار، خداکی طرف سے امانت ہے۔ اس میں خود یا شورائیہ یا پوری قوم کوئی کمی بیشی کرنے کی مجاز نہیں ہوتی۔

خلافت:

بعد میں آنے والے اپنے جانشینوں کی حکومت کا نام آپ نے ''خلافت'' تجویز فرمایا (مسند احمد و ابو داؤد) اس اصطلاح نے کسی فرد، گروہ یا امت کی خود رائی، تشریع قانون سازی اور کتاب و سنت سے بغاوت اور بالا تری کے تمام امکانات ختم کر دیئے ہیں، کیونکہ خلفا کے ذمے کتاب و سنت کے منشا کی حکیمانہ ترجمانی اور مصلحانہ نفاذ ہے۔ تاکہ ملتِ اسلامیہ اسلامی علم و عمل سے متمتع ہو، اور اپنی دنیا کو وحی الٰہی کے تابع رکھ کر خدا کے حضور سرخرو ہونے کے قابل ہو سکے۔

امامت:

ایک اور نام ''امام'' ہے، ولأئمة المسلمین (مسلم) چونکہ ملت اسلامیہ کے سربراہ اپنے اسلامی علم و عمل، طہارتِ نفس اور تعلق باللہ کی وجہ سے پوری ملت اسلامیہ کے لئے نمونہ اور قابلِ اقتدا ہوتے ہیں، اس لئے ان کو امام بھی کہا جاتا ہے۔

راعی:

ان کا ایک نام ''راعی'' بھی ہے، چونکہ وہ امت مسلمہ کی دنیا و آخرت کی اصلاح حال کے ضامن اور نگہبان ہوتے ہیں، اس لئے ان کو ''راعی'' بھی کہا جاتا ہے۔ جیسے بکریوں کے چرواہے کا حال ہے۔ ألا کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیته (بخاری)

اولو الامر:

ان کو ''اولو الامر'' بھی کہتے ہیں کیونکہ ان کا حکم چلتا ہے اور وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ اسلامی سربراہ چونکہ ''عبد صالح اور بندۂ خدا'' ہوتا ہے۔ اس لئے ان کی اطاعت بھی دینی فریضہ قرار دی گئی ہے (بخاری) مگر مشروط (بخاری) جن سیاسی سربراہوں کے علم و عمل کا ماخذ نفس و طاغوت ہوتا ہے، کتاب و سنت میں ان کے لئے ''ظالم، ملک'' قیصر و کسریٰ کے تلمیحی اسماء استعمال کئے گئے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں حضور کا ارشاد ہے کہ ان کو راہِ حق پر لانے کی کوشش کی جائے اگر وہ راہِ راست پر آجائیں تو بہتر ورنہ ان کے غیر اسلامی طرزِ عمل کی اطاعت سے پرہیز کیا جائے، اگر افتراق و انتشار کا اندیشہ ہو تو اس سے بچنے کی ضرور کوشش کی جائے۔ ہاں اگر کھلم کھلا کفر پر وہ اصرار کریں تو پھر اس کی بیعت توڑی جا سکتی ہے۔ (بخاری و مسلم)

وراثت:

باب خلافت میں ''وراثت'' نہیں چلتی (اسمعوا وأطیعوا وإن استعمل علیکم عبد حبشي رأسه زبیبة ما أقام فیکم کتاب اللّٰہ تعالٰی (بخاری)

سیرت ابن ہشام میں ہے کہ حضور ﷺ نے خاندانی وراثت کا ذرہ بھر لحاظ نہیں کیا (ابن ہشام) اصل بات ملک کا استحکام اور ملت کی فلاح ہے اس کے لئے صلاحیت درکار ہوتی ہے، صرف خاندانی نجابت نہیں۔

آئین اور قانون:

اسلامی ریاست کے آئین کا نام ''کتاب'' اور قانون کا نام ''سنت'' ہے۔ ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللّٰہ وسنت رسوله (مؤطا) میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ چلا ہوں، جن کو تم نے اگر تھام کر رکھا تو کبھی گمراہ نہ ہو گے، کتاب اللہ اور اس کے رسول کی سنت۔

حضرت صدیق اکبر کا ارشاد ہے، من ولي أمر أمة محمد ﷺ شیئاً لم یقم فیهم بکتاب اللّٰہ فعلیه بھلة اللّٰہ (کنزل العمال) ملتِ اسلامیہ کا سربراہ ہو کر جس نے اسلامی آئین (کتاب اللہ) ان میں نافذ نہ کیا، اس پر خدا کی پھٹکار رہے۔

آئین و قانون کی پابندی:

اسلامی ریاست کے آئین و قانون کی پابندی میں کوئی استثناء نہیں ہے۔ پیغمبر خدا ﷺ نے اپنے طرزِ عمل سے واضح فرمایا کہ وہ خود بھی ان سے بالاتر نہیں۔

قال عمر: رأیت رسول اللّٰہ ﷺ یقید من نفسه (ابو داؤد طیالسی)

حضور اپنی ذات سے بھی بدلہ دیتے تھے۔

مرض الوفات میں آپ نے اعلان فرمایا کہ اگر میں نے کسی کی جان و مال اور آبرو کا نقصان کیا ہو تو یہ لو میری جان، مال اور آبرو حاضر ہے۔ اسی دنیا میں وہ مجھ سے انتقام لے لے، ایک نے چند پیسوں کا دعویٰ کیا جو ادا کر دیئے گئے۔ (ابن ہشام)

ایک شخص کو معمولی چوٹ لگی، اس نے آپ سے قصاص چاہا، آپ نے فرمایا:

تعالِ فاستقد فقال بل عفوت یا رسول اللّٰہ (ابو داود باب القود بغیر حدید)

آئیے! بدلہ لے لیجیے! اس نے کہا: حضور! میں نے معاف کر دیا۔

بنو، مخزوم کی ایک خاتون کے مقدمے کے سلسلے میں جب کسی نے سفارش کی تو آپ نے فرمایا۔

وأیم اللّٰہ! لو أن فاطمة بنت محمد سرقت لقطعت یدھا (بخاری۔ مسلم)

بخدا! اگر میری بیٹی (حضرت) فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔

خانہ ساز آئین و دستور!

فرمایا: من أحدث في أمرنا ھذا ما لیس منه فھو رد (بخاری و مسلم)

جو شخص اسلام کے بجائے کچھ اور ایجاد کرتا ہے وہ مردود ہے۔

ومن وقر صاحب بدعة فقد أعان علی ھدم الإسلام (شعب الایمان)

جس نے اس متجدد کا احترام کیا، اس نے اسلام کو منہدم کرنے میں مدد دی۔''

فرائض میں مساوات:

ایک سفر میں سب کے ذمے کام سونپے گئے۔ جنگل سے لکڑی لانے کا کام حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ذمہ لیا (زرقانی بحوالہ سیرت طبری) تین تین سواریوں کے لئے ایک ایک اونٹ تھا۔ دستور کے مطابق دوسروں کی طرح آپ بھی باری باری سوار ہوتے تھے۔ صحابہ کے اصرار کے باوجود آپ نے اس سلسلہ میں کسی کی رضا کارانہ جذبات قبول نہ فرمائیں۔ (ابو داؤد طیالسی)

غرض یہ ہے کہ ایک خلیفہ اور ریاست اسلامیہ کا امیر خدا نہ بننے پائے۔ اس کو اپنی عبدیت اور بے چارگی کا احساس رہے۔ اور جب بندوں میں مل کر بیٹھیں یا چلیں پھریں تو پھر ''بندہ و آقا'' کے امتیازات کے ذریعے کاررواں کی فطری سادگی اور بے ساختگی کا خون نہیں ہونا چاہئے۔ یہی وجہ تھی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس امر کو پسند نہیں فرمایا کرتے تھے کہ کوئی ہاتھ باندھے آپ کے سامنے کھڑا رہے۔ (ترمذی)

تقرری:

آپ کسی ایسے شخص کی تقرری کو ناپسند فرماتے تھے جو ''اس منصب'' کا امیدوار ہوتا تھا۔

إنا واللّٰہ لا نولي علی ھذا العمل أحد اسأله ولا أحدا حرص علیه (بخاری۔ مسلم)

وجہ ظاہر ہے کہ اسلامی ریاست کی ملازمت ایک خدمت ہے، حکومت حسبِ ضرورت جس کی ضرورت محسوس کرتی ہے، بلا لیتی ہے، دوسرا کوئی اگر از خود اس کی درخواست کرتا ہے تو ظاہر ہے اس کے سامنے کچھ ''ذاتی مفاد'' ہی ہو گا۔ ورنہ اپنے طور پر چاہیں تو وہ ملک و ملت کی کوئی سی خدمت انجام دے ہی سکتے ہیں۔

صحیح اور پوری خدمت:

خلافت ایک بھاری ذمہ داری ہے اعزاز نہیں ہے۔ جو اس کا حق ادا نہیں کرتے، حضور کی نگاہ میں وہ رب کے حضور پیش ہونے کے اہل نہیں رہتے۔

ما من عبد یسترعیه اللّٰہ رعیة فلم یحطھا بنصیحة إلا لم یجد رائحةالجنة(بخاری)

سب سے برا حکمران:

خدا کے رسول ﷺ کی نگاہ میں سب سے برے ''راعی'' ظالم ہیں

إن شر الرعاء الحطمة(مسلم)

جو ملت اسلامیہ پر سختی کرتے ہیں۔ حضور نے ان کے حق میں بددعا کی ہے:

من ولي من أمر أمتي شیئاً فشق علیھم فاشقق علیه(مسلم)

فرمایا: وہ برے حکمران ہیں کہ قوم ان کو بری نگاہ سے دیکھے اور وہ اس کو بری نگاہ سے دیکھیں اور ان کو لعنت کرے وہ اس پر پھٹکار کریں۔

شر ارأئمننکم تبغضونھم ویبغضونکم وتلعنونھم وتلعنونکم (مسلم)

عورت کی امارت:

اسلام میں اس کے لئے کوئی گنجائش نہیں، اس لئے فرمایا: جنہوں نے عورت کو اپنا سربراہ بنا لیا، وہ قوم تباہ ہوئی۔

لن یفلح قوم ولو أمرھم امرأة (بخاری)

سربراہ آزاد نہیں:

ہر سربراہ سے باز پرس ہو گی۔ ألا کل کم راع وکلکم مسئول عن رعیته (بخاری)

اگر وہ خلافِ شرع بات کہے تو ملتِ اسلامیہ کو اس کا اتباع نہیں کرنا چاہئے۔

لا طاعة في معصیة إنما الطاعة في المعروف (مسلم و بخاری)

اہل ترکی موجودگی میں انتخاب:

اگر ملک میں اہل تر بزرگ موجود ہو تو اس کی موجودگی میں انتخاب کرانا یا اس کے بالمقابل انتخاب لڑنا شرعاً جائز نہیں، جنہوں نے کلمہ پڑھ کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کی ہے، یہ جرأت اس کے خلاف ہے۔

کنا بایعنا رسول اللّٰہ ﷺ ..... علی أن لا ننازع الأمر أھله (مسلم و بخاری)

سربراہ کی تبدیلی:

ملتِ اسلامیہ کو انتشار میں مبتلا کر کے اسلامی صدرِ مملکت کو غیر پارلیمانی طریقہ سے علیحدہ کرنے کی کوشش کرنا ناجائز ہے۔ أدوا إلیھم حقھم وسلوا اللّٰہ حقکم (مسلم بخاری)

اس سے غرض یہ ہے کہ حکمران اگر اقامتِ نماز اور شعائرِ دین کا احترام اور التزام کرتے ہوں مگر منکرات کے مرتکب بھی ہو جاتے ہوں تو اب ان کو اُٹھا کر پھینکنے کی کوشش نہ کی جائے بلکہ اپنے منصب پر رکھ کر ان کی اصلاح کی جائے۔ علیحدگی آخری چارۂ کار ہے۔ فوری اقدام نہیں ہے۔

اپنی سفلی اغراض کی بنیاد پر ان سے معاملہ کرنا اخلاص نہیں، بد نیتی ہے۔

رجل بایع إماما لا یبایعه إلا للدنیا فإن أعطاہ منھا وفي وإن لم یعطه منھا لم یف (مسلم)

فرمایا ہاں اگر وہ عملاً کفر بواح (احکامِ دین کی کھلی خلاف ورزی) کا مرتکب ہو تو پھر اس کو پارلیمانی طریقے سے بدلنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔

ألا إن تروا کفر ابواحا عندکم من اللّٰہ برھان (بخاری و مسلم)

کفر بواح سے مراد، معروف کفر نہیں ہے، کیونکہ ایسا تو کوئی بھی نہیں کرتا۔ علماء نے لکھا ہے کہ اس سے مراد:

کتاب و سنت کے بجائے وہ کہیں اور سے رہنمائی حاصل کریں، اسلامی منکر و معروف کی پرواہ نہ کریں، اقامت نماز سے غفلت برتیں اور ان کی ذات کی وجہ سے ملک وملت میں کافرانہ طرزِ حیات کا چلن عام ہو رہا ہو۔ تو ایسی صورت میں امتِ محمدیہ کے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ جائز طریقے سے ان سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرے۔ باقی رہے نرے کافر؟ سو وہ پوری ملتِ اسلامیہ کا نہ سربراہ ہو سکتے ہیں اور نہ اس کے کسی کلیدی منصب پر فائز ہو سکتے ہیں۔ ألا إن تروا کفر ابواحا عندکم من اللّٰہ برھان (بخاری مسلم)

معزز اور کم تر درجہ کے انسان:

ملک و ملت کے آئین اور قوانین کی افادی حیثیت اسی وقت غارت ہو جاتی ہے جب معزز لوگوں سے تو درگزر کی جائے مگر اسی جرم کا مرتکب کوئی عام آدمی ہاتھ لگ جائے تو قانونی گرفت دو آتشہ ہو جائے۔ حضور کا ارشاد ہے کہ:

إنما ھلك من کان قبلکم إنھم کانوا یقیمون الحد علی الوضیع ویترکون الشریف (بخاری)

پہلی امتیں صرف اس لئے برباد ہوئیں کہ ادنیٰ لوگوں پر قانون کا بہرحال نفاذ کرتے تھے مگر معزز لوگوں کو چھوڑ دیتے تھے۔

وھم ید علی من سواھم ویسعي بذمتھم أدناھم (ابو داؤد)

وہ دوسروں کے مقابلے میں ایک ہیں، اور ان کا کم تر درجہ کا آدمی بھی ان کی طرف سے ذمہ لے سکتا ہے۔ فرما کر ملتِ اسلامیہ کے عوام کا درجہ بھی بلند کر دیا ہے۔

آپ نے ادنیٰ اور اعلیٰ کے عامیانہ معیار یکسر بدل دیئے تھے، فرمایا

المسلمون أخوة، لافضل لأحد علی أحد إلا بالتقویٰ (طبرانی وغیرہ)

سب مسلمان، بھائی بھائی ہیں، کوئی کسی سے بڑا نہیں، مگر تقویٰ کی بنا پر۔

بے خدا حکمرانوں کے ووٹر:

جو لوگ ایسے انسان کو اقتدار پر فائز کرنے اور رکھنے کے لئے ووٹ دیتے اور حمایت کرتے ہیں جو خدا کے نافرمان ہیں۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں۔ اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں، نہ ہمارا ان سے کچھ تعلق رہا۔

من صدقھم بکذبھم وأعانھم علی ظلمھم فلیس مني ولست منه(نسائی)

فرمایا جو رب کو ناراض کر کے ان کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ دین سے نکل گئے۔

من أرضی سلطانا بما یسخط ربه خرج من دین اللّٰہ (مستدرک حاکم)

سیکون علیکم أئمة یملکون ارذاقکم یحدثونکم فیکذبونکم ویعملون فیسیئون العمل لا یرضون منکم حتّٰی تحسنوا قبیحھم وتصدقوا کذبھم فأعطوھم الحق ما رضوا به فإذا تجاوزوا فمن قتل علٰی ذلك فھو شهید (کنز العمال)

قریب ہے کہ تم پر کچھ ایسے حکمران ہوں گے، جن کے قبضہ میں تمہاری روزی ہو گی، وہ تم سے بات کریں گے تو جھوٹ بولیں گے۔ کام کریں گے تو برے۔ جب تک تم ان کے قبیح کاموں کی تعریف اور ان کے جھوٹ کو سچ نہ کہو گے وہ تم سے خوش نہیں ہوں گے، جتنا سہہ سکیں ان کو حق بتاؤ اگر وہ حد سے بڑھ جائیں تو پھر جو اس راہ میں قتل ہو گیا۔ وہ شہید رہا۔

إنکم سترون بعدي أثرة وأمورا تنکرونھا (بخاری)

میرے بعد ان لوگوں سے تمہیں سابقہ پڑے گا جو خود کو مقدم رکھیں گے اور کھلے بندوں منکرات کا ارتکاب کریں گے۔

فرمایا: میرے بعد بڑے اختلافات ہوں گے، ان حالات میں میری سنت اور خلفائے راشدین کے طرز حیات کو سامنے رکھئے۔

فسیری اختلافا کثیرا فعلیکم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدین المھدیین۔ (ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ)

احتساب:

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے احتساب کی طرف خصوصی توجہ دی تھی۔ چھوٹی بڑی بہت سی باتیں احادیث میں ملتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ، آپ کا احتساب صائب اور حکیمانہ ہوتا تھا، ایک دفعہ بازار میں تشریف لے گئے۔ غلے کا ڈھیر دیکھا، اندر ہاتھ ڈال کر دیکھا تو نمی محسوس ہوئی، پوچھا یہ کیا ہے؟ عرض کی: بارش کی وجہ سے بھیگ گئی ہے، فرمایا:

أفلا جعلته فوق الطعام حتی یراہ الناس، تو پھر اسے اوپر کیوں نہ کر لیا تھا کہ لوگوں کو نظر آئے۔ اس قسم کی اور بھی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔

ایک تحصیلدار نے حضور ﷺ کے سامنے مال رکھتے ہوئے فرمایا کہ، یہ آپ کا اور وہ مجھے ہدیہ ملا ہے۔ فرمایا: کہ گھر بیٹھے آپ کو یہ ہدیے کیوں نہ موصول ہوئے۔ (بخاری مختصرا)

حکام کا تقرر:

دوسرے فرائض کے علاوہ تعلیم اور تبلیغ حکام کے بنیادی فرائض میں داخل تھے، حافظ ابن عبد البر حضرت معاذؓ کے تذکرہ میں لکھتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ان کو قرآن و سنت کی تعلیم دینے کے لئے یمن بھیجا تھا، فصل، مقدمات اور مالیات کی وصولی کا صیغہ ان کے ہاتھ میں تھا۔

بعثه رسول اللّٰہ ﷺ قاضیا إلی الجند من الیمن یعلم الناس القراٰن وشرائع الإسلام ویقضي بینھم وجعل إلیه قبض الصدقات من العمال الذین بالیمن (استیعاب)

بعد کی حکومتوں نے حکام کے لئے دوسرے امور تو تجویز کیے لیکن کتاب و سنت کی تعلیم اور تبلیغ دین ان کے فرائض سے خارج کر دیئے، اس لئے حکام سرے سے دینی علم و عمل سے یکسر خالی ہو گئے۔ اب افسر تو ملتے ہیں معلم اور مبلغ نہیں، علوم و فنون کے قارون تو نظر آتے ہیں لیکن تزکیہ و طہرات کے حامل دکھائی نہیں دیتے۔ خدا جانے یہ غفلت ہمیں کہاں لے جا کر ڈبوئے گی۔

معاہدات:

آپ نے مختلف اقوام سے مختلف معاہدے فرمائے، معاہدے سیاسی نوعیت کے زیادہ تھے۔ ان کی تفصیل زاد المعاد اور ابو داؤد میں کافی ملتی ہے۔

مالیات:

مالیات کے سلسلہ کی وصولی احتیاط سے ہوتی، دیانتدار اور امین لوگ اس کے لئے مقرر کیے جاتے اور کوشش کی جاتی کہ جہاں جو وصول ہو وہاں کے غریبوں پر ہی اسے خرچ بھی کیا جائے (مشکوٰۃ وغیرہ)

اقتصادیات کے بارے میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک حکیمانہ بات کہہ کر دنیا کو جائز آمدنی اور جائز مصارف کی طرف مؤثر توجہ دلائی ہے، فرمایا:

مجھے الہام ہوا ہے کہ جتنی روزی کسی کی مقرر ہے اس کو مکمل کیے بغیر کوئی شخص نہیں مرے گا۔ اس لئے خدا سے ڈرتے رہیں۔ تلاش روزی میں حدود کو ملحوظ رکھیں، دیر ہو جانے کی صورت میں ناجائز ذرائع اختیار نہ کریں، کیونکہ اللہ کو راضی کر کے ہی اللہ سے کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔

إن روح القدس نفث في روعي إن نفساً لن تموت حتی ما تستکمل رزقا، ألا فاتقوا اللّٰہ وأجملوا في الطلب ولا یحملنکم استبطاء الرزق أن تطلبوہ بمعاصی اللّٰہ فإنه لا یدرك ما عند اللّٰہ إلا بطاعته (مشکوٰۃ)

استقامت:

مشکل میں سربراہ ریاست، پناہ گاہیں تلاش نہیں کیا کرتے بلکہ خود پناہیں مہیا کرتے اور بنتے ہیں۔ غزوۂ حنین (شوال ۸ ؁ھ) میں جب نو مسلم مجاہد بھاگ کھڑے ہوئے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تنہا میدان میں ڈٹے رہے۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب کار زار گرم ہو جاتا تو ہم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پناہ لیتے تھے۔

کنا واللّٰہ إذا  حمرا لبأس نتقي به (مسلم غزوہ حنین)

ایک رات مدینہ منوہ میں خوفناک آواز سنائی دی اور لوگ گھبرا گئے۔ سب سے پہلے آپ نے گھوڑا لیا اور ادھر سے ہو کر واپس راستہ میں لوگوں سے آکر ملے اور فرمایا: گھبراؤ نہیں، خیریت ہے۔

لم تراعوا لم ترا عوا (بخاری، Mذا فزعوا باللیل)

دُکھ سُکھ میں شریک:

ملک اور قوم پر جب مصیبت آتی ہے تو سربراہ مملکت سب سے پہلے اس کا سامنا کرتا ہے اور اس میں وہ برابر کا شریک ہو کر چلتا ہے۔

غزوہ خندق (ذو قعدہ ۵ ؁ھ) میں خندق کی کھدائی میں سخت چٹان آگئی، جو ٹوٹ نہ سکی، حضور کے پاس شکایت لے کر گئے، آپ نے کدال سے تین ضربیں لگائیں تو وہ ریت کا ایک ڈھیر ہو گئی۔

فأخذ النبي ﷺ المعول فضرب فعاد کثیبا أھیل أو أھیم (بخاری۔ غزوۂ احزاب)

بھوک سے عاجز آکر صحابہؓ نے پیٹ پر پتھر باندھ رکھے تھے، حضور ﷺ سے اپنا حال بیان کیا تو آپ نے دکھایا کہ انہوں نے خود بھی پیٹ پر پتھر باندھ رکھے ہیں۔ قام وبطنه معصوب بحجر (بخاری) خلاصہ ما في الروایات۔

بیماروں کی عیادت:

اسلامی ریاست کا سربراہ معاشرے کا ایک فرد ہوتا ہے۔ معاشرے میں رہ کر ممکن حد تک مواساۃ کرنا بھی اس کا اخلاقی فریضہ ہوتا ہے۔ مریض کی عیادت کے لئے آپ تشریف لے جاتے، تسلی دیتے، ماتھے پر ہاتھ رکھتے، نبض دیکھتے، دعا فرماتے اور إن شاء اللّٰہ طھور (اللہ نے چاہا تو خیریت ہے) کہتے (بخاری ملخصاً)

جانوروں کا خیال:

صرف انسان کی بات نہیں، اسلامی ریاست جانوروں کے مفاد کی بھی نگرانی کرتی ہے۔ سواری کاجانور یہاں سے وہاں تک پہنچانے کے لئے ہوتا ہے۔ مگر کچھ لوگ اوپر بیٹھے پہروں باتیں کرتے رہتے ہیں اور سواری کھڑی رہتی ہے۔ اس لئے حضور کا ارشاد ہے کہ:

جانوروں کی پشت کونشستگاہ نہ بناؤ اور نہ اس کو کرسی بناؤ۔

إیاكم أن تتخذوا ظھور دوابکم منابر فإن اللّٰہ سخرھا لکم لتبلغکم إلی بلاد لم تکونوا بالغیه إلا بشق الأ نفس( ابو داود باب في الوقوف علی الدابة)

ایک روایت میں ہے کہ:

ان بے زبان جانوروں کے سلسلہ میں خدا سے ڈرو، مناسب سواری کرو اور مناسب کھلاؤ۔

اتقوا اللّٰہ في ھذہ البھائم المعجمة فارکبوھا صالحة وکلوھا صالحة۔

ایک دفعہ ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے تو اچانک ایک اونٹ بلبلاتا ہوا آیا۔ اور رو دیا۔ حضور ﷺ نے شفقت کے ساتھ ہاتھ پھیرا تو چپ ہو گیا۔ آپ نے پوچھا کہ اس کا مالک کون ہے؟ حضور! فلاں انصاری، فرمایا، اس جانور کے بارے میں تمہیں خدا کا خوف نہیں آتا۔ اس نے تیری شکایت کی ہے کہ اس سے کام زیادہ لیتے ہو مگر کھانے کو نہیں دیتے ہو۔

فدخل حَائِطًا لرجل من الأنصار، فإذا جمل فلما رأی النبي ﷺ حَنَّ وذرفت عیناہ فأتاہ النبي ﷺ فمسح ذفراہ فسکت فقال من رب ھذا الجمل، لمن ھذا الجمل؟ فجاء فتی من الأنصار فقال لي رسول اللّٰہ ﷺ أفلا تتقي اللّٰہ في ھذہ البھیمة التي ملكك إیاھا فإنه شکا إلی أنك تجیعه وتدئبه (ابو داود باب ما یؤمر به من القيام علی الآداب والبھائم)

بخاری میں ہے کہ ایک بیل جس پر سواری کی گئی تھی مڑ کر سوار کو دیکھا اور کہا: لم أخلق ھٰذا خلقت للحراثة (باب استعمال البقر للحراثة) میں سواری کے لئے نہیں بنایا گیا میں تو صرف کھیتی باڑی کے لئے بنایا گیا ہوں۔

جانوروں کو باہم لڑانے سے بھی منع فرمایا۔ نھی رسول اللّٰہ ﷺ عن التحریش بین البھائم (ابو داود باب التحریش بین البھائم)

جانوروں کو گالیاں دینے سے بھی منع فرمایا۔ سفر میں ایک عورت نے سواری پرلعنت کی تو آپ نے اس کو سزا دی۔ (ابو داؤد) لا تسبوا الدیك یعنی مرغے کو گالی نہ دو۔

ایک شخص کو پیاس لگی، کنوئیں میں اتر گیا۔ پانی پیا، باہر نکل کر دیکھا کہ ایک کتا پیاس سے گیلی مٹی چوس رہا ہے۔ اسے ترس آیا۔ اپنا موزہ بھر کر لایا اور اس کو پلایا۔ اللہنے اس کی وجہ سے اس کی بخشش کر دی، صحابہ نے پوچھا جانوروں کے بارے میں بھی اجر ہے؟ فرمایا:

فقال في کل ذات کبد رطبة أجر (أبو داود باب ما یؤمر به من القیام علی الدواب والبھائم)

ہاں ہر جاندار چیز کی خدمت میں اجر ہے۔

یہ بھی آپ کا ارشاد ہے کہ جو مسلمان درخت لگاتا یا زراعت کرتا ہے۔ پھر اس سے پرندے یا انسان یا جانور کھاتے ہیں۔

کان له به صدقة (بخاری۔ باب فضل الزرع والغرس) تو وہ اس کے صدقہ ہے۔

دنیا کے نزدیک کتے حقیر جانور ہیں مگر حضور ﷺ نے حضرت علیؓ کو بھیج کر قبیلہ بنو جذیمہ کے نقصانات کا تاوان ادا کیا۔ یہاں تک کہ کتے کا خوں بہا بھی ادا کیا۔ حلبی میں ہے اس برتن کا بھی تاوان ادا کیا جس میں کتا پانی پیتا تھا۔

وأعطاھم عرض ما تلف علیھم حتی میلغةالکلاب (ص ۲۲۳/۳)

گدھے کا چہرہ داغا ہوا دیکھا تو تڑپ اُٹھے اور قانوناً ممانعت فرما دی (ابو داؤد) جانوروں کو باندھ کر نشانہ بناتے تھے۔ ایک دفعہ چند بچے ایک مرغی کو باندھ کر نشانہ بنا رہے تھے۔ حضرت ابنِ عمر نے روکا اور کہا رسول پاک نے لعنت کی ہے۔ لعن من فعل ھذا (بخاری)

اسی طرح زندہ جانوروں کے گوشت کا ٹکڑا کاٹ کر پکاتے اور کھاتے تھے، آپ نے فرمایا،

فھو میتة (ترمذي باب ما جاء ما قطع من الحي فھو میت)

ایک عورت نے ایک بلی کو باندھ رکھا تھا۔ نہ کھانے کو دیا نہ پینے کو آخر وہ مر گئی، آپ فرماتے ہیں۔

عرضت علي النار فرأیت فیھا امراة من بني إسرائیل تعذب في ھرّةلھا ،الحدیث (مسلم)

کہ میں نے اس کو آگ میں جلتا دیکھا تھا۔

مسند احمد میں ایک روایت ہے کہ آپ نے فرمایا۔ تم لوگ جانوروں سے جو سلوک کیا کرتے ہو اگر اللہ تعالیٰ وہ تم کو معاف کر دے تو پھر بہت کچھ تمہارے گناہ معاف ہو گئے۔ (احمد)

کسی نبی کا ذکر ہے کہ انہوں نے ایک درخت کےنیچے آرام کیا تو چیونٹی نے ان کو کاٹ لیا۔ اس پر انہوں نے ان کو ہلاک کر دیا، خدا نے وحی کی کہ جرم ایک کا، سزا سب کو دے ڈالی (عبد اللہ بن مسعود، مسند احمد)

ایک دفعہ صحابہؓ سے بھی ایسا فعل سرزد ہو گیا تو آپ نے برا منایا اور فرمایا: آگ کی سزا دینا صرف اللہ کا حق ہے۔

بے جان چیزوں کا احترام:

اسلام نے بے جان چیزوں کے احترام کا بھی درس دیا، لوگ زمانہ کو برا بھلا کہتے ہیں، فرمایا: لا تسبوا الدھر (بخاری) زمانے کو گالیاں نہ دو۔

ایک دفعہ ہوا نے ایک صحابی کی چادر الٹ دی تو انہوں نے اس کو گالی دی۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔

لا تلعنھا فإنھا مأمورة (ترمذی، ابو داؤد)

اسے لعنت نہ کرو، یہ تو اللہ کے حکم سے چلتی ہے۔

زمین کے راستوں کے متعلق فرمایا کہ، ان کے بھی حقوق ہیں۔ ادا کرو۔ فإن أبیتم فأعطوا الطریق حقه(أبو داود باب في الجلس في الطرقات)

حقوق ملائکہ:

فرشتے معصوم ہیں اور لطیف مخلوق ہے، بندوں پر ان کے بھی کچھ حقوق ہیں، اسلامی ریاست کے سربراہ اور پیغمبرِ خدا کی حیثیت سے آپ نے فرمایا:

ننگے نہ ہوا کرو، کیونکہ تمہارے ساتھ وہ ہستیاں بھی لگی ہوئی ہیں جو کسی وقت بھی تم سے جدا نہیں ہوتیں، مگر قضائے حاجت اور مباشرت کے وقت، اس لئے چاہئے کہ آپ ان سے حیا کریں اور ان کا احترام ملحوظ رکھیں۔

إیاکم والتعزي فإن معکم من لا یفارقکم إلا عند الغائط وحین یفضي الرجل إلی أھله فاستحیوھم وأکرموھم (ترمذی باب ما جاء

جنوں کے حقوق:

جنوں کی روٹی کپڑے کے بھی کچھ حقوق ہیں جن کے سلسلہ میں بندگانِ خدا بھی ان سے تعاون کر سکتے ہیں۔

لیلۃ الجن، جنوں کا ایک وفد حضور کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عرض کی، حضور! اپنی امت کو روکو کہ وہ ہڈی، لید اور کوئلے سے استنجا نہ کیا کرے، کیونکہ ان کے ساتھ ہماری روزی وابستہ ہے، چنانچہ حضور نے اس سے روک دیا۔

قدم وفد الجن علی النبي ﷺ قالوا یا رسول اللّٰہ انهَ أمتك أن یستنجوا بعظم أوروثة أو حُممة فإن اللّٰہ جعل لنا فیھا رزقا فنھٰنا رسول اللّٰہ ﷺ عن ذلك (ابو داود)

ترمذی میں ہے کہ، یہ تمہارے بھائی جنوں کی خوراک ہے:

لا تستنجوا بالروث ولا بالعظام فإنھا زاد إخوانکم الجن (ترمذی)

مسلم اور احمد میں: ''فإنها طعام إخوانکم'' آتا ہے۔

جنوں کے جانوروں کے حقوق:

جنوں سے فرمایا: ہر قسم کی مینگنی تمہاری سواریوں کی خوراک ہے۔

کل بغوة علف لدوابّکم (منتقی بحوالہ احمد و مسلم)

حضرت مجد ابن تیمیہؒ (مؤلف منتقی) فرماتے ہیں

وفیه تنبیه علی النھي عن إطعام الدواب النجاسة

یعنی حضور کا یہ فرمانا کہ ان کے ساتھ استنجا نہ کیا کرو، یہ اس امر پر تنبیہ ہے کہ جانوروں کو ناپاک غذا اور طعام نہ دیا جائے۔

گو یہاں جنوں کے جانوروں کا ذکر ہے، تاہم ہمارے جانوروں کا بھی یہی حکم ہے کہ ان کو ناپاک شے کھانے کو نہ دی جائے۔

مردوں کے حقوق:

اسلامی ریاست کے اولین سربراہ محمد رسول اللہ ﷺ نے صرف زندوں کی فکریں نہیں کیں، بلکہ جب دنیا سے وہ چل بسے ہیں تو وہاں کےمناسب حال ان کی ضروریات کا خیال رکھئے اور فائدہ پہنچانے کا حکم بھی دیا ہے۔ مثلاً

جب مرنے لگے تو کلمہ شریف کی تلقین کرو لقنوا موتاکم لا إله إلا اللّٰہ (مسلم) تاکہ اس کا خاتمہ اچھا ہو۔

جب فوت ہو جائے تو اس کو نہلاؤ (اغسلوہ بماء سدر) (بخاری) پھر اس کو اچھا سا کفن دو: (فلیحسن کفنه۔مسلم)

اس کے جنازے کے ساتھ جاؤ، جنازہ پڑھو، اس کی مغفرت کے لئے دعائیں مانگو اور پھر اس کو دفن کرو۔ (مشکوٰۃ ومنتقی)

فرمایا: ان کی قبروں پر چڑھ کر نہ بیٹھ جایا کرو۔

لا تجلسو علی القبور (مسلم)

ان کا ذکر خیر کیا کرو، مقصد یہ ہے کہ اس طرح اس کی بخشش ہو سکتی ہے۔

أنتم شھداء اللّٰہ علی الأرض (بخاری)

تم سرکاری گواہ ہو، تمہاری گواہی بڑا وزن رکھتی ہے اس لئے بہتر یہی ہے کہ ان کو اچھے ذکر سے یاد کیا کرو، اگر خدا اس کو بخش دے تو تمہارا کیا بگڑتا ہے؟

کوئی یہ پوچھے کہ واعظ کا کیا بگڑتا ہے

جو بے عمل پہ بھی رحمت وہ بے نیاز کرے

فرمایا: ان کو بعد میں گالیاں نہ دیا کرو

الغرض حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت طیبہ، سربراہ ریاست کی سیرت بھی ہے اور اسوۂ رسول بھی، ملکی اور ملّی نظام کے آئین اور قانونی پہلوؤں کے اسباق بھی ہیں اور تبلیغ بھی۔ آپ کا ارشاد ہے: بعثت لاتمم مکارم الأخلاق۔ حسنِ اخلاق کی تکمیل کے لئے میری بعثت ہوتی ہے (مسند احمد) حضرت ابو ذرؓ فرماتے ہیں: رأیته یأمر بمکارم الأخلاق (مسند احمد)

میں نے آپ کو دیکھا کہ وہ (لوگوں کو) حسنِ اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں۔

یہ حسنِ خلق کیا ہے؟ یہ ذات، خدا، اور خلقِ خدا کے حقوق اور تعلق کو حسن و خوبی سے انجام دینے کا نام ہے۔ جس میں سیاست، معاشرت، معیشت، انفرادی اور اجتماعی قسم کے دوسرے تمام شعبے آ جاتے ہیں۔ اس لئے جس پہلو سے بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت طیبہ کا مطالعہ فرمائیں گے۔ آپ اس کو جامع، اکمل اور احسن پائیں گے۔ ہم صرف ایسی سیاست اور حکومت کے متمنی ہیں، جو رسول پاک ﷺ کے سیاسی اسوۂ حسنہ کی آئینہ دار ہو۔ جو بندوں کی دنیوی اور اخروی فلاح اور اصلاح کی ضامن ہے۔ وصلی اللّٰہ تعالٰی علیه وعلٰی آله وسلم۔