فہرست مضامین

ڈاکٹر محمد محسن خاں مدنی

ایک حاصلِ زیست ملاقات

انگریزی زبان میں مکمل صحیح البخاری کے پہلے مترجم

ڈاکٹر محمد محسن خاں کون ہیں؟ اور کیا ہیں؟ اس کی ایک جھلک تو قارئین کو خود اس انٹرویو میں ملے گی۔ اگر ڈاکٹر صاحب موصوف کی ناگواریٔ خاطر کا احساس نہ ہوتا تو آج ہم دل کھول کر موصوف کے متعلق باتیں کرتے۔ مختصر یہ کہ آپ مجسمۂ اخلاص و نیکی ہیں جس کا اندازہ ڈاکٹر صاحب موصوف سے پہلی ملاقات ہی میں ان کے چہرہ مہرہ سے ہو جاتا ہے۔ ان ادارتی سطور کے راقم پر اپنے مدینہ منورہ کے قیام کے دوران بیشتر دفعہ ان کے جذبۂ اخلاص اور دینی تڑپ کا اس حد تک اثر ہوا کہ راقم ڈاکٹر صاحب موصوف سے دینی اور علمی تعاون اپنے لئے سعادتِ دارین سمجھتا رہا لیکن مسلسل طبع ارادہ کے درمیان حائل ہو گئی۔ ڈاکٹر صاحب بھی میرے علاج میں خصوصی توجہ کے علاوہ ذاتی طور پر بڑی شفقت رکھتے تھے۔ چنانچہ ''یادگاری تحفۂ'' کے طور پر مجھے بخاری شریف کا وہ نسخہ بکمال عنایت مرحمت فرمایا جس سے انہوں نے انگریزی ترجمہ مکمل کیا ہے۔ اس پر ان کے دستِ مبارک سے پیشتر نشانیوں کے علاوہ احادیث کے نمبر بھی ہیں۔ اسی تعلق سے پاکستان کے دورے کے دوران ہمارے غریب خانہ پر بھی قدم رنجہ فرمایا لیکن تفصیلی انٹرویو کی سعادت رفیق محترم جناب حافظ نذر احمد صاحب کے حصہ میں آئی جسے ''محدث'' کی زینت بناتے ہوئے دو وجہ سے مسرت محسوس کر رہا ہوں۔ اول یہ کہ یہ امیر المومنین فی الحدیث امام بخاریؒ کی مایہ ناز تصنیف الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہ ﷺ وسننہ وایامہ کے پہلے انگریزی مترجم کا انٹرویو ہے جسے اسوۂ رسول کی مدوّنہ شاہکار کتابوں میں ''اصح الکتب بعد کتاب اللّٰہ'' کا درجہ حاصل ہے۔ دوم یہ کہ اس انٹرویو کی اشاعت سے میں اپنے ''محسن'' سے تجدید ملاقات کر رہا ہوں۔

محدث کی خصوصی اشاعت ''رسولِ مقبول نمبر'' کی مناسبت سے ہم یہ ''انٹرویو'' ہدیہ قارئین کر کے انہیں بھی شریک ملاقات کرتے ہیں۔

(حافظ عبد الرحمان مدنی)

پاکستان نژاد ڈاکٹر محمد محسن خاں مدنی طب جدید کے ماہر اور امراضِ سینہ کے معالجِ خصوصی ہیں نہ وہ کسی دینی دار العلوم سے باضابطہ فارغ التحصیل ہیں۔ نہ اپنے دورِ طالب علمی میں انہیں زبان و ادب سے خصوصی شغف رہا ہے۔ وہ سائنس کے طالب علم تھے اور اب جسمانی امراض کا علاج کرتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی دین ہے وہ جس سے جو خدمت چاہے لے لے۔ اللہ کریم نے انہیں اپنے نبی اکرم ﷺ کی احادیث طیبہ کی خدمت کے لئے چن لیا اور مکمل بخاری شریف کو انگریزی زبان میں ترجمہ کرنے کا شرف بخشا۔

قیام پاکستان سے بہت قبل مشہور جرمن نو مسلم علامہ محمد اسد نے انگریزی زبان میں بخاری شریف کے ترجمہ و تشریح کی داغ بیل ڈالی تھی، انہوں نے کامل تحقیق و تدقیق سے اس کام کا بیڑا اٹھایا۔ اسی مقصد خاص کے لئے عرفات پریس قائم کیا مگر بوجوہ چند پاروں سے آگے کام نہ بڑھا۔

حضرت امام بخاری (م ۲۵۶ ؁ھ) نے سولہ سال کی مسلسل محنتِ شاقہ سے صحیح البخاری مدوّن کی تھی انہوں نے احادیث کی مضمون وار ترتیب تیسری صدی ہجری میں روضۂ اطہر اور منبر رسول پاک ﷺ کے درمیان بیٹھ کر کی۔ تقریباً بارہ صدیوں بعد جواں ہمت عاشقِ رسول ڈاکٹر محمد محسن خاں نے امام بخاریؒ کی جمع کردہ احادیث کو انگریزی زبان کے قالب میں ڈھالا۔ آپ نے یہ عظیم خدمت ۱۵ سال کی طویل مدت میں باوضو رہ کر پایہ تکمیل کو پہنچائی۔ ترجمہ کا بیشتر کام روضۂ اقدس کے قریب مسجدِ نبوی ﷺ کی صف اوّل میں بیٹھ کر ۱۳۵۶؁ھ سے ۱۳۷۱؁ھ کے درمیان انجام دیا۔

ایں سعادت بزور بازو نیست

تانہ بخشد خدائے بخشندہ

ملاقات اور آرزوئے ملاقات:

بندہ کو دوبار دیارِ حبیبؓ جانے کا موقع میسر آیا۔ لیکن مترجم بخاری سے ملاقات کی صورت پیدا نہ ہوئی۔ دل کی آرزو دل میں رہی۔ اب بظاہر اس کے حصول کی کوئی صورت نہ تھی، ایک صبح اچانک ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ راہوالی (گوجرانوالہ چھاؤنی) سے محترم الحاج شیخ محمد یوسف سیٹھی صاحب کی رَس گھولتی ہوئی آواز کانوں میں پہنچی۔' آج دوپہر میں اور ڈاکٹر محمد محسن خاں صاحب لاہور آرہے ہیں، کوئی خاص مصروفیت تو نہیں؟ دوپہر چند ساعات آپ کے ساتھ گزاریں گے۔''

عرض کیا۔ ''سراپا انتظار ہوں چشم براہ ہوں۔''

مختصراً انتظار کی گھڑیاں طویل ہوتی گئیں۔ اس مدت میں محسن کائنات ﷺ کے خادم ڈاکٹر محمد محسن خاں کی خیالی تصویریں معلوم نہیں کتنی بنائیں۔ سڑک سے گزرنے والی ہر کار پر یہی گمان ہوتا کہ ان کی سواری ہے، جو دیارِ حبیب کے باسی ہیں، جو محبوبِ خدا ﷺ کے کلام و بیان کو انگریزی زبان کا پیرایہ پہنانے والے ہیں۔ کیا واقعی وہ خود چل کر میرے غریب خانہ کو شرف بخشنے والے ہیں!

اللہ اللہ وہ آہی گئے۔ الحاج شیخ محمد یوسف سیٹھی صاحب آگے آگے۔ وہ دو قدم پیچھے۔ سراپا تصویر عجز و نیاز، پاکستانی نژاد، پنجای الاصل، مصری خدوخال، نزیک سعودی عرب۔ لانبا لیکن متوازن قد، متناسب اعضاء گھٹا ہوا جسم، بڑی بڑی آنکھیں، کشادہ پیشانی، وجیہ شکل، باریش نورانی صورت، سیاہ بال، متواضع صورت، منکسر المزاج، شستہ اُردو، لہجہ عربی۔ یہ ہیں ''ڈاکٹر محمد محسن خاں۔''

سلام و دعا کے ساتھ بڑی محبت سے معانقہ کیا۔ عربوں کے روایتی انداز میں مزاج پرسی ہوئی۔ چند لمحات کی گفتگو میں ہی بیگانگی یگانگت سے بدل گئی، یوں محسوس ہونے لگا برسوں کی ملاقات ہے۔

میں نے عرض کیا بخاری شریف کے انگریزی ترجمہ کے سلسلے میں کچھ معلومات چاہتا ہوں۔ اگر مختصر سا انٹرویو ہو جائے تو میرے ساتھ اور بہت سے ملاقات میں شریک ہو جائیں گے۔ فرمانے لگے ایسی تو کوئی بات نہیں۔ میں نے دوبارہ عرض کیا جو سوال میرے ذہن میں گردش کر رہے ہیں ہو سکتا ہے وہ اور بہت سے لوگوں کے دل میں بھی ہوں۔ اگر ان کی عقدہ کشائی ہو جائے تو ترجمہ کی تفہیم میں آسانی ہو جائے گی۔ سیٹھی صاحب نے بھی اس خیال کی تائید کی۔ اور ڈاکٹر صاحب آمادہ ہو گئے۔

یاد رہے یہ بات ڈھائی سال قبل کی ہے۔ ۱۳۹۳؁ھ کے رجب کی ۲۰؍ تاریخ تھی۔ اور اگست ۱۹۷۳؁ء کی بھی ۲۰ تاریخ ہی تھی۔ غالباً ترجمہ کی ابھی دو جلدیں ہی پریس سے آئی تھیں۔ اب جبکہ ترجمہ مکمل ہو چکا ہے، آٹھ جلدیں زیورِ طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں۔ آخری نویں جلد بھی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ یہ انٹرویو ''محدث'' کے ذریعہ آپ تک پہنچ رہا ہے۔ آئیے آپ بھی بات چیت میں شریک ہو جائیں۔

اب انٹر ویو شروع ہوتا ہے:

مرتب حافظ نذر احمد: ڈاکٹر صاحب! گفتگو کا آغاز ابتدائی زندگی سے کریں تو بہتر رہے گا۔

ڈاکٹر محمد محسن خاں صاحب: بظاہر اس کی ضرورت تو نہیں۔ میری ابتدائی زندگی اور اس عظیم کام میں کوئی ربط بھی نہیں۔ تاہم عرض کئے دیتا ہوں۔

میری پیدائش قصور ضلع لاہور میں ہوئی۔ اس اعتبار سے خالص پاکستانی ہوں۔ اب میری شہریت سعودی عرب کی ہے۔ اہلیہ بھی عرب ہیں۔ بچے بھی اس ماحول میں پلے بڑھے ہیں۔ والد ماجد غلام محی الدین صاحب بلدیہ قصور کے سیکرٹری تھے۔ دو بھائی اور ہیں۔ دونوں انجینئر ہیں۔

مرتب: آپ نے تعلیمی مراحل کہاں کہاں طے کئے؟

ڈاکٹر صاحب: قصور میں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ اسلامیہ کالج لاہور سے ایف ایس سی کا امتحان دیا۔

۱۹۴۹؁ء میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے ڈاکٹری کا امتحان پاس یا۔ ایک سال میو ہسپتال لاہور میں عملی تربیت حاصل کی۔ اس کے بعد بیرون ملک چلا گیا۔ یونیورسٹی آف ویلزاڈنبرا س ۱۹۵۲؁ء میں ''ڈپلوما ان چسٹ DIPLOMA IN CHEST'' حاصل کیا۔ یوں امراضِ سینہ کا معالج خصوصی بنا۔

مرتب: بہت خوب! یہ تو پاکستان سے دیار، مغرب کا تعلیمی سفر تھا۔ سعودی عرب کا روحانی سفر کیسے ہوا۔

ڈاکٹر صاحب: دوسرے سال ۱۹۵۳ء میں سعودی عرب کی وزارت صحت میں جگہ مل گئی۔ مرحوم ملک ابنِ سعود کا معالج اور طائف ہسپتال میں چیسٹ ڈائریکٹر مقرر ہوا۔ رسولِ مقبول ﷺ کی احادیثِ طیبہ کی خدمت کا آغاز اسی شہر سے ہوا۔

مرتب: اب ہم اصل موضوع کی طرف آرہے ہیں۔ قبلہ سیٹھی صاحب سے تو بہت کچھ سن چکا ہوں۔ آج آپ کی زبان اس کا بیان اور تصدیق چاہتا ہوں۔ آپ جسمانی امراض کا علاج کرتے کرتے صحیح البخاری جیسی کلیدی کتاب کے مترجم کیسے بن گئے؟

ڈاکٹر صاحب: بات تو واقعی تعجب کی ہے۔ میں امبتدا سے سائنس کا طالب علم رہا ہوں۔ انگریزی یا عربی زبان و ادب سے بھی مجھے کبھی کوئی شغف نہیں رہا ہے۔ پیشہ کے اعتبار سے میری ذات سے اس کام کی بظاہر کوئی مناسبت نہیں۔ اس کریم کار ساز کا محض فضل ہے کہ اس نے مجھے اس خدمت کی توفیق بخشی (یہاں پہنچ کر ڈاکٹر صاحب نے آنکھیں جھکا لیں اور وہ خاموش ہو گئے۔ جیسے وہ کچھ ڈھونڈ رہے ہیں، یا کچھ کہنا چاہتے ہیں مگر زبان ساتھ نہیں دے رہی)

ایک حیات بخش خواب اور اس کی تعبیر:

مرتب: اصل سوال تو یہی ہے کہ بخاری شریف کے ترجمہ کا خیال آپ کے دل میں کیسے آیا اور یہ مشکل ترین کام آپ کے لئے کیسے آسان ہو گیا؟

ڈاکٹر صاحب: بالکل ذاتی سی بات ہے۔ اس کا کسی اور سے کوئی تعلق بھی نہیں (ڈاکٹر صاحب نے اپنے فطری حجاب پر بمشکل قابو پاتے ہوئے سلسلہ کلام کو جاری رکھا) میں نے ایک خواب دیکھا۔ خواب نہیں۔ ایک زندہ حقیقت۔ اس نے میرے دل کی دنیا بدل دی۔ میری زندگی کے شب و روز میں ایک انقلاب بپا کر دیا۔ مختصر یہ کہ سرور کائنات فخر رسل ﷺ کی زیارت ہو گئی۔ بے زبان کو زبان، بے سواد کو قلم مل گیا۔

مرتب: یہی حیات بخش خواب تو آپ کی زبانی سننا اور ریکارڈ کرنا چاہتا ہوں (اس موقع پر ساتھ بیٹھے ہوئے سیٹھی صاحب نے بھی میری تائید کی)

ڈاکٹر صاحب: سن لیجیے۔ لیکن صفحہ قرطاس پر مرتسم نہ کیجئے۔ (ڈاکٹر صاحب کی اس خواہش و اصرار کے پیش نظر صرف چند فقروں پر اکتفا کرر ہا ہوں۔ مرتب) ''میں جمالِ جہاں آراء سے مبہوت ہو کر رہ گیا۔ اس کیفیت کا اظہار و بیان ممکن نہیں۔ صاحبِ کوثر ﷺ نے کمال لطف و کرم سے فرمایا۔ ''میرا پسینہ خوب سیر ہو کر نوشِ جان کر لو۔'' اِشرب عَرْقِی جِدًّا کے وہ شیریں الفاظ آج بھی گویا میرے کانوں میں گونج رہے ہیں۔ حضور ﷺ نے مجھے ایک تحریر بھی عطا فرمائی۔ اس کا آغاز بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے تھا۔ آخر میں مہر مبارک ثبت تھی۔ میں یہ حکم نامہ لے کر وزیرِ مملکت کے پاس گیا۔ وہاں بات نہ بنی۔ لوٹ کر میں پھر مجلس اقدس میں حاضر ہو گیا۔ بصد ادب میں نے عرض کیا۔ لبیک یا رسول اللّٰہ اور میری آنکھ کھل گئی۔''

مرتب: ماشاء اللہ۔ زہے نصیب۔ مگر اس خواب سے آپ صحیح البخاری کے ترجمہ پر کیسے متوجہ ہو گئے۔

ڈاکٹر صاحب: ڈرتے ڈرتے میں نے چند بزرگوں سے اپنے خواب کا ذکر کیا اور تعبیر چاہی۔ اشرب عرقی جدًا کی تعبیر اس کے سوا کچھ اور نہ تھی کہ میں محسنِ کائنات ﷺ کی کوئی خدمت انجام دوں۔ اور کام بھی ایسا جو ہنوز شرمندۂ تکمیل نہ ہوا ہو۔ صحیح البخاری کے انگریزی ترجمہ پر قرعہ فال پڑا اور اس پر دل جم گیا۔

ترجمہ کی کہانی:

مرتب: ترجمہ کی بات ذرا وضاحت سے کیجیے۔ زبان و بیان کی دوگونہ مشکلات پر آپ نے کیسے قابو پایا زبان بھی ایک نہیں۔ انگریزی، عربی دونوں غیر مادری اور دنیا کی بلند پایہ زبانیں۔ پھر ترجمہ ایک خاص فنی کام ہے۔

ڈاکٹر صاحب: انسان کوشش کرے تو تمام مشکلات دور ہو جاتی ہیں۔ والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سُبلنا وعدہ خداوندی ہے۔ اصل بات توفیقِ الٰہی کی ہے۔ اللہ کا نام لے کر ۱۹۵۶؁ء میں انگریزی ترجمہ کا کام شروع کر دیا۔ کچھ عرصہ اردو ترجمہ کی مشق کرتا رہا۔ لیکن اسے تحصیل حاصل سمجھ کر ترک کر دیا۔ انگریزی ترجمہ کئی بار لکھا۔ کئی بار پھاڑا۔ آخر ایک ڈگر پر لگ گیا۔ روزانہ تقریباً تیرہ گھنٹے کام کیا۔ اپنی تمام تر توانائیاں اس کام کے لئے وقف کر دیں۔ بخاری کی شرح فتح الباری کو معانی و بیان کے تعین کے لئے بنیاد کے طور پر پیش نظر رکھا۔

ساتھی ہم پیشہ ڈاکٹروں نے اپنی بساط بھر میرا ساتھ دیا، ترجمہ کی تسوید، لغات کی ورق گردانی، تحریروں کی تصحیح اور نظر ثانی کے ہر مرحلہ میں انہوں نے مقدور بھر حصہ لیا، عرب اور غیر عرب ممالک کے ۳۰ مختلف ڈاکٹروں نے مختلف مراحل میں میرا ہاتھ بٹایا۔ اس طرح ایک ایک لفظ کی چھان پھٹک ہو گئی۔ اللہ کریم ان سب کو جزائےخیر دے۔

مرتب: بہت خوب۔ ذرا یہ بھی واضح کر دیجیے۔ خود آپ نے ترجمہ کا انداز و اسلوب کیا متعین کیا تھا؟

ڈاکٹر صاحب: آپ نے مطبوعہ ترجمہ دیکھا ہے، جلد اور سرورق پر آپ نے جلی حروف میں ملاحظہ کیا ہو گا۔

TRANSLATION OF THE MEANINGS (احادیث نبویہ ﷺ کے مفہوم اور معانی کا ترجمہ) گویا میں نے لفظی ترجمہ نہیں کیا بلکہ مفہوم کو انگریزی زبان میں منتقل کرنے کی سعی کی ہے۔ اور اپنے شب و روز کا بیشتر حصہ اس کام میں لگایا ہے۔ یہ تحدیثِ نعمت کے طور پر عرض کر رہا ہوں۔ لا بفخری۔

مرتب: جزاک اللّٰہ احسن الجزاء۔ اب ذرا دیارِ حبیب ﷺ کی طرف نقلِ مکانہ اور تکمیلی مراحل پر بھی کچھ روشنی ڈال دیجئے۔

ڈاکٹر صاحب: طائف میں اس کام کے لئے ضروری سہولتیں میسر نہ تھیں۔ پھر ایک ہسپتال کا ماحول جس حد تک علمی ہو سکتا ہے اس کا اندازہ آپ خود بھی کر سکتے ہیں۔ میں نے وزیر صحت سے مدینہ منورہ کے تبادلہ کی درخواست کی۔ فضیلت مآب الشیخ عبد العزیز بن باز نے پرزور سفارش کی۔ اور میں اسلامک یونیورسٹی (جامعہ اسلامیہ) مدینہ منورہ میں بطور ڈائریکٹر شعبہ صحت آگیا۔ یہاں خالص علمی ماحول میسر آگیا۔ دونوں زبانوں کے ماہرین اور علمائے عصر کا تعاون بہ آسانی حاصل ہو گیا۔ الحمد للّٰہ علٰی ذلک۔

ترجمہ کے خصوصی معاونین:

مرتب: ڈاکٹر صاحب! آپ نے چند لمحات پیشتر فرمایا تھا کہ مختلف ممالک کے تقریباً ۳۰ ہم پیشہ ڈاکٹروں نے مختلف مراحل میں آپ کی مدد کی۔ ان میں سے چند خصوصی معاونین کا ذکر ہو جائے تو اچھا ہے۔

ڈاکٹر صاحب: جناب ڈاکٹر محمود نصر سوڈانی نے دو سال کی مدت میں اوّل سے آخر تک میرے ترجمہ کی نظر ثانی کی۔ آپ نے خرطوم یونیورسٹی سے تعلیم کی تکمیل کی ہے۔ آپ عربی زبان و ادب پر خصوصی نظر رکھتے ہیں۔ آج کل المستشفیٰ الملک مدینہ منورہ میں متعین ہیں۔

مکرر نظر ثانی الاستاذ شاکر نصیف العبیدی نے تین سال کی مدت میں مکمل کی۔ آپ نے امریکہ سے انگریزی ادب میں ایم۔اے کیا ہے۔ ان دنوں الکلیۃ التربیۃ (ٹریننگ کالج) مکہ مکرمہ میں شعبہ انگریزی کے سربراہ ہیں۔ اس سے قبل بغداد یونیورسٹی میں انگریزی کے پروفیسر کے طور پر رہے ہیں۔

(مشہور عالم، استاذ حدیث) ڈاکٹر محمد تقی الدین الہلالی (پی ایچ ڈی برلن یونیورسٹی۔ جرمن) نے چار سال ایک ایک لفظ کی چھان پھٹک کی ہے۔ آپ نے روزانہ بعد عشا دو گھنٹے اس خدمت کے لئے وقف کیے رکھے۔ ڈاکٹر ہلالی ان دنوں جامعہ اسلامیہ مدینہ یونیورسٹی میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس سے قبل آپ محمد خامس یونیورسٹی مراکش میں پروفیسر تھے۔

جزاھم اللّٰہ احسن الجزا

مرتب: اس کا مطلب یہ ہوا کہ ابتدائی تیس معاونین کے علاوہ عربی ادب دونوں زبانوں کے علاوہ ان ماہرین نے اس ترجمہ کی نوک پلک درست کرنے میں بھرپور حصہ لیا۔

ڈاکٹر صاحب: جی ہاں۔ ان کے علاوہ اسلامی دنیا کے مشہور عالم ڈاکٹر محمد امین المصری (پی ایچ ڈی کیمبرج) صدر شعبہ علوم شرعیہ، کلیۃ الشریعہ والدراساۃ الاسلامیہ۔ مکہ مکرمہ نے بھی جُستہ جُستہ کچھ مقامات کا بنظر غائر جائز لیا، اور اپنی مہر توثیق ثبت فرما دی۔

میرے لئے یہ امر واقعی طمانیت قلب کا موجب ہے کہ ان حضرات کے تعاون سے اتنا عظیم کام میرے ناتواں ہاتھوں انجام پا گیا۔

ترجمہ کا اسلوب:

مرتب: ڈاکٹر صاحب! اگر اجازت ہو تو چند سوال نفسِ ترجمہ کے بارے میں کر لوں۔

ڈاکٹر صاحب: ضرور شوق سے کیجیے، آپ رک کیوں گئے؟

مرتب: دوران مطالعہ میں نے محسوس کیا ہے کہ آپ کے ترجمہ کی زبان بے حد آسان ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ وہ علمی کم، عمومی زیادہ ہے۔ آپ اس کی کیا توجیہہ فرمائیں گے؟

ڈاکٹر صاحب: حافظ صاحب! آپ نے کچھ تکلف اور طبعی مروّت سے کام لیا ہے۔ سوال کھُل کر نہیں کیا، پاکستان کے ایک فاضل نے ترجمہ کو ''انشاء ضعیف'' کہا ہے۔ آپ کے ذہن میں ان کا اعتراض تو نہیں؟

حقیقت یہ ہے کہ میں نے لفظی ترجمہ نہیں کیا۔ بلکہ حدیث کے مفہوم کا ترجمہ یا ترجمانی کی ہے۔ چنانچہ جلد کے سرورق پر TRANSLATION OF THE MEANINGS (ترجمۂ مفہوم) کے الفاظ ثبت ہیں تاکہ کسی قاری کو غلط فہمی نہ ہو۔ میں نے یہ اسلوب کیوں اختیار کیا؟ میرے پیش نظر نو مسلم ہیں۔ افریقہ کے عوام ہیں۔ اور عربی زبان سے نابلد وہ کروڑوں عوام ہیں جن کے لئے ان کی زبان میں حدیث نبوی کی کوئی کتاب نہیں۔ میں نے انگلستان یا امریکہ کے علماء و فضلاء کے لئے یہ کام نہیں کیا۔

بایں ہمہ اگر کہیں غلطی ہو گئی ہے، کسی جگہ کوئی سقم رہ گیا ہے تو اس کی نشاندہی کر دی جائے۔ بصد مسرت و امتنان نظر ثانی کر لوں گا۔

مرتب: واقعی آپ کے بارے میں ہرگز یہ گمان نہیں ہو سکتا کہ آپ اپنی تحریر کو حرفِ آخر سمجھتے ہوں، اس لئے کہ آپ نے اول سے آخر تک ہر مرحلہ پر دوسروں سے مشورے لئے ہیں۔ ان سے بار بار نظرِ ثانی کرائی ہے۔

طباعت و اشاعت:

مرتب: اب ترجمہ کی طباعت و اشاعت کے بارے میں بھی کچھ فرما دیجئے۔

ڈاکٹر صاحب : ترجمہ کا ناشر میں خود ہوں۔ چنانچہ جلد پر پتہ یہی درج ہے۔

ڈاکٹر محمد محسن خاں۔ اسلامی یونیورسٹی (جامعہ اسلامیہ) مدینہ منورہ (سعودی عرب)

اس کے طابع آپ کے پاس بیٹھے ہیں۔ الحاج شیخ محمد یوسف سیٹھی صاحب۔ ان کاپریس ہے ''سیٹھی سٹرا بورڈ (کنورشن) لمیٹڈ۔ گوجرانوالہ چھاؤنی۔

یہ پریس ''بلا سود و زیاں'' کے اصول پر ترجمہ چھاپ رہا ہے۔ اللہ کریم اس پریس کے کارکنوں کو اور سیٹھی خاندان کو جزائے خیر دے۔ جن کے اس فراخدلانہ تعاون سے طباعت کا مرحلہ آسان ہو گیا ہے۔

مرتب: آپ مدینہ منورہ میں ہیں۔ پریس گوجرانوالہ چھاؤنی میں ہے۔ عملاً یہ کام کیسے انجام پاتا ہے؟

ڈاکٹر صاحب: اس جدید سائنسی دور میں بعد مکانی کسی کام میں حارج نہیں رہی۔ لیکن اس سے زیادہ ان خطرات کا تعاون اور خدمتِ دین کا جذبہ ہے کہ ایک دمڑی نفع کے بغیر اتنا عظیم الشان کام انجام دے رہے ہیں۔ اس دَور میں یہ بے نفسی کہاں ملے گی۔

میں ٹائپ شدہ مسودہ بھیج دیتا ہوں، کمپوزنگ، پروف ریڈنگ، کاغذ کا انتخاب، طباعت جلد سازی، غرض سارے مراحل یہ اصحاب خود طے کرتے ہیں۔ ہمیں چھپے چھپائے پانچ ہزار مجلد نسخے رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کی وساطت سے بھیج دیتے ہیں۔

مرتب: ڈاکٹر صاحب! ازراہ کرم طباعت کے فنی پہلوؤں پر بھی کچھ روشنی ڈال دیجئے۔

ڈاکٹر صاحب: معلوم ہوتا ہے آپ کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑیں گے۔

کتاب کا سائز ۷x۱۰ انچ ہے۔ احادیث کا متن عربی ٹائپ میں باضابطہ اعراب کے ساتھ چھپتا ہے۔ ترجمہ انگریزی ٹائپ میں متن کے مقابل دوسرے کالم میں طبع ہوتا ہے۔ اپنی امکانی حد تک صحتِ طباعت کا پورا پورا اہتمام کیا گیا ہے۔ اچھی قسم کا سفید کاغذ استعمال کیا جا رہا ہے۔ کپڑے کی مضبوط جلد تیار کی جا رہی ہے۔

انشاء اللہ ۹ جلدوں میں پورا ترجمہ مکمل ہو جائے گا۔ مجموعی ضخامت پونے پانچ ہزار صفحات پر محیط ہو گی (دمِ تحریر ۴۲۵۰ صفحات پر مشتمل ۸ جلدیں مکمل ہو چکی ہیں۔ نویں (آخری جلد) تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ مرتب) ''

مرتب: چند کلمات کتاب کی نشر و اشاعت کے بارے میں بھی فرما دیجیے۔

ڈاکٹر صاحب: سیٹھی سٹرابورڈ ملز (کنورشن) لمیٹڈ گوجرانوالہ چھاؤنی میں ہر جلد کے پانچ ہزار نسخے تیار ہوتے ہیں۔ جو بجنسہٖ ہمیں رابطۂ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کی معرفت روانہ کر دیئے جاتے ہیں۔

دو ہزار نسخے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ خرید کر بلا قیمت تقسیم کرتی ہے۔

ایک ہزار نسخے رابطۂ عالمِ اسلامی مکہ مکرمہ خرید کر بلا قیمت تقسیم کرتا ہے۔

ایک ہزار نسخے الحجاز کمرشل ہاؤس مکہ مکرمہ کے ذریعے اور

ایک ہزار نسخے بندہ کی معرفت ہدیہ کیے جاتے ہیں۔

ہر جلد تقریباً ساڑھے پانچ صد صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے باوجود ہدیہ فی جلد ۸ ریال ہے یعنی ''سو روزیاں کے بغیر محض لاگت'' کیونکہ مقصد وحید یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک حضور ختم المرسلین ﷺ کی بات پہنچے۔

سرمایہ کی کہانی:

مرتب: ڈاکٹر صاحب! اس عظیم الشان منصوبہ کے لئے ظاہر ہے کثیر ابتدائی سرمایہ کی ضرورت ہو گی۔ وہ کیسے فراہم ہوا؟

ڈاکٹر صاحب: یہ ایک ذاتی مسئلہ ہے۔ اگر اسے آپ نہ چھیڑتے تو بہتر ہوتا۔

مرتب: میں محسوس کر رہا ہوں کہ میرے ہمہ جہتی سوالات آپ کی حساس طبیعت پر گراں گزر رہے ہوں گے لیکن میرا مقصد یہ ہے کہ آپ کی مثال شاید کسی اور کے لئے نمونہ عمل بن جائے۔

ڈاکٹر صاحب: میں نے کچھ بھی نہیں کیا۔ یہ تو محض حضرت رسالت مآب ﷺ والے خواب کی تعبیر ہے۔ جو میرے ناتواں ہاتھوں سے پوری ہوئی ہے۔ رہا سرمایہ۔ وہ میرا کونسا تھا۔ اللہ کی امانت تھی جو اس کی راہ میں کام آگئی۔

۲۴۰۰۰ (چوبیس ہزار) ریال ذاتی رقم تھی۔ ۲۰۰۰ (دو ہزار) ریال اہلیہ نے اپنا پس انداز پیش کر دیا ۴۴۰۰۰ (چوالیس ہزار) ریال برادر محترم کا مکان فروخت کر کے فراہم کیا۔ اس طرح ستر ہزار ریال سے یہ منصوبہ ظہور میں آیا۔

مرتب: باتوں باتوں میں یہ سوال رہ گیا کہ آپ پیشہ کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں۔ امراض سینہ کے معالج خصوصی ہیں مریضوں کو وقت دیتے ہیں، جامعہ اسلامیہ میں ''صحت عامہ'' کے نگران ہیں اس علمی کام کے لئے آپ نے اتنا وقت کیسے نکالا؟

ڈاکٹر صاحب: میں شب و روز جہاں ہوتا ہوں اور فرصت کا کوئی لمحہ ملتا ہے یہ کام کرتا رہتا ہوں۔ مدینہ منورہ میں الحمد للہ یہ معلوم ہو گیا کہ نماز ظہر مسجد نبوی میں ادا کر کے کچھ دیر کے لئے دوپہر کے کھانے کے لئے گھر چلا گیا۔ پھر نماز عصر سے نماز عشا کے بعد تک مسجد نبوی میں ہی رہتا ہوں۔ تآنکہ مسجد بند کرنے کا آخر وقت نہ ہو جائے۔ یوں روضۂ اقدس کے قریب بیٹھ کر باوضو مسلسل کام کرنے کا موقع میسر رہتا ہے۔ نماز فجر میں بھی اذان سے قبل مسجد نبوی میں حاضری ہو جاتی ہے۔ نماز فجر کے بعد قرآن مجید کی تکرار کر لیتا ہوں۔

مستقبل کے عزائم:

مرتب: اللھم زد فزد۔ اللہ کریم ہم سب کو ایسے مواقع فراہم کرے اور حسنِ عمل کی توفیق بخشے۔ اب آپ بڑی حد تک صحیح البخاری کے ترجمہ کے کام سے فارغ ہو چکے ہیں۔ غالباً آپ کا یہ سفر پاکستان بھی اس مرحلہ کی ایک کڑی ہے۔ آئندہ کیا عزائم ہیں۔

ڈاکٹر صاحب: حال و مستقبل اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اب جلد ہی جامعہ اسلامیہ کے فرائض منصبی سے مستعفی ہونے کا ارادہ ہے تاکہ مکمل یکسوئی حاصل ہو جائے۔

مرتب: آخر کیوں؟ یہ تو بڑا اہم اقدام ہو گا۔

ڈاکٹر صاحب: قرآن مجید حفظ کرنا چاہتا ہوں۔ ابھی سورۂ اعراف تک کر سکا ہوں۔

مرتب: محض حفظِ قرآن تو سبب نہیں ہو سکتا، وہ تو آپ اب بھی کر رہے ہیں۔ آخر معاش کامسئلہ بھی ہو گا۔

ڈاکٹر صاحب: حافظ صاحب! یقیناً حفظِ قرآن کے علاوہ بھی ایک اور مقصد ہے۔ لیکن اسے انٹرویو کا حصہ نہ بنائیے۔ عنایت ہو گی۔ رہا معاش کا مسئلہ۔ اللہ رازق ہے۔ جامعہ اسلامیہ سے ۸۰۰ ریال ماہانہ پنشن ملے گی۔ انشاء اللہ اس میں گزارہ کر لیں گے۔ چند ماہ سے اہلیہ اس کی مشق کر رہی ہیں۔ الحمد للہ وہ میرے ساتھ متفق ہیں اور ہمیشہ ان کارہائے خیر میں ممد و معاون رہتی ہیں۔

(اس مرحلہ) پر سیٹھی صاحب نے کچھ تفصیلات بتلائیں۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کی خواہش پر ان کی اشاعت مناسب نہیں۔ جو نیک نفس نام و نمود نہ چاہے۔ اسے تشہیر سے اذیت ہوتی ہے)

مرتب: ڈاکٹر صاحب! اہلیہ محترمہ کا ذکر آگیا ہے تو کچھ بچوں کے بارے میں بھی اشارے کر دیجئے۔ بسا اوقات ذاتی امور بھی دوسروں کے لئے مشعلِ راہ ہو جایا کرتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب! آپ کچھ زیادہ ہی حسنِ ظن سے کام لے رہے ہیں۔ دعا ہے اللہ کریم مجھے ایسا ہی بنا دے۔ اہلیہ عرب ہیں۔ الحمد للہ صوم و صلوٰۃ اور شرع شریف کی پابند ہیں۔ چار بچے ہیں۔ دو حافظ قرآن ہیں اور جامعہ اسلامیہ میں زیر تعلیم ہیں۔ دو نو عمر ہیں۔ پانچ بچیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو نیک اور میرے لئے توشۂ آخرت بنائے۔

اس طویل گفتگو پر یہ یادگار مجلس ختم ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب صرف چند گھنٹوں کے لئے طویل سفر کر کے لاہور تشریف لائے تھے۔ ان کے تین قیمتی گھنٹے اس انٹرویو کی نذر ہو گئے۔ میں صمیم قلب سے اس نوازش بے پایاں کا شکر گزار ہوں۔ خصوصاً اس لئے بھی کہ انہوں نے غریب خانہ کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے نوازا۔

ایک طویل انٹر ویو کی رپورٹنگ میں کمی بیشی ہو جانا بعید از امکان نہیں۔ خاص طور پر اس صورت میں جبکہ ڈھائی سال بعد وہ قارئین تک پہنچ رہا ہو۔ امید ہے قارئین کرام ہر فروگزاشت کو بندہ سے محمول فرمائیں گے اور ڈاکٹر صاحب اپنے اخلاق کریمانہ سے کام لے کر عفوودرگزر سے نوازیں گے۔ (مرتب)