فہرست مضامین

دعوتِ حق کے داعیٔ اعظم ﷺ

رسول اللہ ﷺ کو کس مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا اس کا ذکر مختصر مگر نہایت بلیغ الفاظ میں سورۂ احزاب میں ہوا ہے۔ ارشاد ہوا ہے یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا وَّدَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا۔ یعنی بحیثیت رسول آپ ﷺ کے پانچ اوصاف ہیں۔ آپ ﷺ (نوعِ انسانی پر) گواہ ہیں، بشارت دینے والے ہیں، ڈرانے والے ہیں، اللہ کی طرف بلانے والے ہیں اور چراغِ روشن ہیں۔ ان پانچ الفاظ میں حضور ﷺ کا مقصد بعثت اس طرح سمٹ آیا ہے جیسے سمندر کو کوزے میں بند کر دیا جائے۔ بنیادی طور پر یہ آیت ان تمام خوش عقیدگیوں کی جڑ کاٹ دیتی ہے جن کا تانا بانا عجوبہ پسند ذہنوں نے رسول اللہ ﷺ کی ذات مطہرہ کے اردگرد بُن دیا ہے اور جنہوں نے وہ تمام امتیازات ختم کر دیئے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور بند کے درمیان موجود ہیں اور جن کی تعلیم خود رسول اللہ ﷺ نے دی ہے۔ ان پانچ الفاظ میں سے ہر لفظ مطالب و مفاہیم کی وسیع دنیا اپنے دامن میں رکھتا ہے، لیکن چونکہ ہمارا آج کا موضوع حضور ﷺ کی داعیانہ زندگی سے تعلق رکھتا ہے اس لئے ہم صرف اسی پہلو پر حصر کریں گے۔

رسول اللہ ﷺ اللہ کی طرف سے جو دعوت لے کر آئے وہ انسان کی پوری زندگی سے متعلق تھی۔ یہ ایک انقلابی دعوت تھی جو انسان کے فکر و نظر اور کردار و عمل کی دنیا کو یکسر بدل ڈالنا چاہتی تھی۔ انسان صدیوں سے جن محدود تصورات میں مقید چلا آتا تھا، اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو جن خطوط پر اس نے از خود استوار کر لیا تھا۔ یہ انقلابی دعوت ان تمام تصورات کو ادھیڑ کر اور تمام خود ساختہ خطوط کو ختم کر کے نئے تصورات اور خطوط پر اس زندگی کو استوار کرنا چاہتی تھی۔ عبد اور معبود کے جس رشتے کو نوعِ انسان نے فراموش کر دیا تھا اسے ازِ سر نو قائم کرنا چاہتی تھی۔ یہ انقلابی دعوت کسی خاص سرزمین اور کسی خاص قوم کے لئے نہ تھی بلکہ رنگ و نسل کے امتیازات اور زبان و وطن اور زمان و مکان کی حد بندیوں سے ماورا، پوری انسانیت اس کی مخاطب تھی۔ اس طرح حضور ﷺ کی داعیانہ حیثیت، گزشتہ تمام انبیاء سے بالکل مختلف تھی جو بہرحال ایک محدود دور اور خاص قوموں کے لئے مبعوث کئے گئے تھے۔ پھر حضور ﷺ محض رسول اور پیغمبر اور دعوت حق کے داعی و مبلغ ہی نہ تھے بلکہ پوری انسانیت کے لئے آپ ﷺ کا کردار نمونۂ عمل بھی تھا اس لئے بھی حضور ﷺ کا مقامِ دعوت دوسرے انبیاء سے بالکل جداگانہ تھا۔

کسی دعوت اور تحریک کی کامیابی کے لئے دو باتیں اشد ضروری ہوتی ہیں دعوت دینے والے کا انفرادی کردار اور دعوت کا انداز اور طریقِ کار۔ کوئی بھی دعوت اور تحریک جب اُٹھتی ہے تو اسے مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پھر یہ دعوت اور تحریک کسی معاشرے کے معمولات اور اس کے برسر اقتدار طبقات پر جتنی زیادہ شدید ضرب لگانے والی ہو اتنی ہی اس کی مخالفت بھی شدید کی جاتی ہے۔ مخالفین اگرچہ مختلف گروہوں پر مشتمل ہوتے ہیں اور ہر گروہ ایک دوسرے کا مخالف لیکن اس دعوت اور تحریک کی مخالفت میں وہ متحد ہو جاتے ہیں۔ پھر یہ دعوت اور تحریک جیسے جیسے جڑ پکڑتی اور قلوب و اذہان مسخر کرتی جاتی ہے مخالفت اتنی ہی تیز و تند ہونے لگتی ہے۔ اس بے پناہ مخالفت کا مقابلہ دعوت اور تحریک کا داعی اپنے کردار کی مضبوطی اور ثبات ہی سے کر سکتا ہے۔ یہی نہیں کہ خود اس کا اپنا کردار مضبوط اور بلند ہو کہ مخالفین کی شدید سے شدید کاروائیاں اور حملے اسے سرنگوں نہ کر سکیں بلکہ وہ اپنے پیروکاروں کے دلوں میں بھی جرأت و عزیمت اور صبر و ثبات کا ویسا ہی جذبہ پھونک سکے جس سے وہ خود سرشار ہے۔ یہ تو عام دعوتوں اور تحریکوں کا معاملہ ہے۔ اسلام کی دعوت و تحریک کی کامیابی کے لئے تو اس سے کہیں زیادہ کردار کی بلندی اور مضبوطی کی ضرورت ہوتی ہے کہ یہ تحریک اور دعوت، دنیا میں پائی جانے والی ہر برائی سے نبرد آزما ہوتی ہے اور کسی بھی مرحلے میں اس کے ساتھ مداہنت اور مصالحت کی پالیسی اختیار نہیں کرتی۔ اسلامی دعوت کے داعی کو چومکھی لڑائی لڑنا ہوتی ہے، اپنے معاشرے کے اندر اور باہر بیک وقت متعدد محاذوں پر۔ اس جنگ میں کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب اس میں یہ تمام اوصاف بدرجہ اتم پائے جائیں اور اس کے کردار کی عملی مثال اس کے متبعین کو بھی ان اوصاف سے متصف کر سکے۔

داعی کے انفرادی کردار کی طرح دعوت کا انداز اور طریق کار بھی اس کی کامیابی کے لئے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ دعوت بجائے خود کتنی ہی پرکشش اور صحیح کیوں نہ ہو کسی معاشرے میں اس وقت جڑ پکڑتی ہے جب کہ اسے نہایت حکیمانہ انداز میں پیش کیا جائے۔ دعوت کے مخاطب گوناگون ذہنیت اور عملی و فکری سطح کے لوگ ہوتے ہیں، ان کے اندر بیسیوں قسم کی کمزوریاں ہوتی ہیں جن سے انہیں بڑا پیار ہوتا ہے، ان کے اندر مختلف نوعیت کی اندھی عصبیتیں ہوتی ہیں جن کے خلاف وہ ایک کلمہ سننا گوارا نہیں کرتے، ان کی محبتوں اور عقیدتوں کے کچھ مرکز ہوتے ہیں جن پر ذرا سی انگشت نمائی بھی ان کی برداشت سے باہر ہوتی ہے اس لئے ان لوگوں میں کام کرنے کے لئے بڑی حکمت و دانش کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر حالات ہمیشہ یک رنگ نہیں رہتے بلکہ بدلتے رہتے ہیں اور ہمیشہ یکساں اور جامد طریقِ کار کام نہیں آتا۔ داعی کو ان بدلتے ہوئے حالات کو سامنے رکھ کر حکمتِ عملی وضع کرنا پڑتی ہے اس طرح کہ دعوت کے اصولوں اور بنیادی طریق کار پر کوئی زد نہ پڑے اور دعوت اپنی صحیح شکل و صورت میں اپنا راستہ اس طرح بناتی چلی جائے جس طرح ایک ندی پہاڑوں کی چٹانوں، وادیوں اور میدانوں میں اپنا راستہ بناتے ہوئے چلی جاتی ہے اور حالات کی تبدیلی نہ تو اس ندی کی ہیئت کو تبدیل کر پاتی ہے اور نہ اس کو اپنی منزل کی طرف بڑھنے سے روک سکتی ہے۔

رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ پر ہم جب ان دونوں زاویوں سے نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ان کی ذات پوری تاریخِ انسانی میں منفرد دکھائی دیتی ہے۔ انفرادی کردار کے اعتبار سے حضور ﷺ عظمت و نور کا ایک ایسا مینار ہیں جن کے آگے دنیا کی ساری بلندیاں ہیچ اور سرنگوں ہیں۔ حضور ﷺ کی سیرت اخلاقِ عالیہ سے عبارت تھی جس کی طرف لوگوں کے دل بے اختیار کھینچتے اور دشمن دوست بن جاتے تھے۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں۔ آنحضرت ﷺ کی عادت کسی کو برا بھلا کہنے کی نہ تھی، برائی کے بدلے میں برائی نہ کرتے، بلکہ درگزر سے کام لیتے اور معاف فرما دیتے۔ کبھی کسی سے اپنے ذاتی معاملے میں انتقام نہ لیتے، نام لے کر کبھی کسی مسلمان پر لعنت نہ کرتے، کسی غلام، لونڈی، عورت، خادم یا جانور کو کبھی اپنے ہاتھ سے نہ مارتے۔ کسی کی درخواست رد نہ فرماتے الّا یہ کہ ناجائز ہوتی۔ حضرت علیؓ کا بیان ہے آپ ﷺ خندہ جبین، نرم خو اور طبیعت کے مہربان تھے۔ سخت مزاج اور تنگ دل نہ تھے، نہ عیب جُو اور تنگ گیر تھے۔ کوئی برا کلمہ زبان مبارک سے نہ نکالتے۔ کسی کی کوئی بات ناپسند ہوتی تو اس سے اغماض فرماتے۔ سلام میں پیش دستی فرماتے، راستہ چلتے ہوئے مرد، عورتیں، بچے، جو سامنے آتے انہیں سلام کرتے۔ اپنوں سے محبت کے ساتھ پیش آتے اور دشمنوں پر احسان کرتے (یہی اخلاقِ عالیہ تھے جس نے ایک طرف اپنوں کو جاں نثار اور فدا کار بنایا اور انہوں نے اپنے قرابتداروں بلکہ والدین تک پر آپ ﷺ کی معیت و رفاقت کو ترجیح دی اور دوسری طرف دشمنوں کے دل جیتے اور ان کی تلواروں کو حق کے مقابلے میں کُند کر دیا۔ زید بن حارثہ کا واقعہ کون نہیں جانتا، وہ بچپن میں اپنے والدین سے چھٹے، غلام بن کر لائے گئے اور فروخت کر دیئے گئے۔ ان کے والد اور چچا ڈھونڈتے ڈھونڈتے مکہ آپہنچے، مگر زیدؓ جو مدّتوں اپنے گھر کی یاد میں تڑپتے رہے تھے، والد کے ساتھ جانے کے بجائے حضور ﷺ کا دامن تھام لیتے ہیں۔ یمامہ کے سردار ثمامہ بن اثالؓ گرفتار ہو کر آتے ہیں۔ حضور ﷺ کے حکم سے انہیں عمدہ کھانا مہیا کیا جاتا ہے۔ حضور ﷺ ان سے پوچھتے ہیں۔ ثمامہ! تمہارا کیا خیال ہے؟ کہتے ہیں: ''مجھے قتل کریں گے تو ایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کا خون کچھ قیمت رکھتا ہے اور احسان فرمائیں گے تو ایسے شخص پر جو احسان ماننے والا ہے اور (فدیہ میں) مال لینا چاہتے ہیں تو وہ بھی حاضر کر سکتا ہوں۔'' تین دن آپ ﷺ ان سے یہی بات پوچھتے ہیں اور وہ یہی جواب دیتے ہیں۔ آخر انہیں رہا کرنے کا حکم صادر فرما دیتے ہیں۔ ثمامہ رہا ہو کر جاتے ہیں اور نہا دھو کر واپس آجاتے ہیں۔ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جاتے ہیں۔ اور عرض کرتے ہیں آج سے پہلے کوئی شخص میری نظر میں آپ سے بڑھ کر اور آپ کے دین سے زیادہ کوئی دین مبغوض نہ تھا، مگر اب آپ کی ذات اور آپ کے دین سے بڑھ کر مجھے کوئی اور محبوب نہیں ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ ﷺ نے اپنے خون کے پیاسوں کو جس طرح معاف کیا اس نے پورے عرب کے دل مسخر کر لیے اور یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا کا سماں بندھ گیا۔ دو سال کے اندر اندر پورا عرب آپ ﷺ کے آگے دل و جان سے ہتھیار ڈال چکا تھا۔

حضور ﷺ کی داعیانہ زندگی کا ایک اور پہلو اللہ پر توکّل اور اس سے گہری لَو اور خشیت تھا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ایک ایک لمحہ یادِ الٰہی میں کٹتا تھا۔ سفر ہوتا یا حضر۔ گھر میں ہوتے یا مسجد میں، دستر خوان پر ہوتے یا میدانِ جنگ میں، ہر حالت میں دل و جان ذکر الٰہی میں مصروف رہتے۔ اُٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے، سوتے جاگتے زبان پر تسبیح و تہلیل جاری رہتی۔ رات کا بڑا حصہ شب بیداری میں گزرتا اور اس ذوق و شوق سے تہجد کی نماز پڑھتے کہ پوری پوری رات اللہ کی حضوری میں کھڑے کھڑے گزر جاتی۔ پائے مبارک پر ورم آجاتا۔ جنگ کے میدان میں بھی یہی کیفیت ہوتی۔ خشیتِ الٰہی سے اکثر رقت طاری ہو جاتی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے۔ اللہ پر توکل کا یہ عالم تھا کہ حالات چاہے کیسے ہی ناموافق ہوتے، فضا کیسی ہی ناسازگار ہوتی اور اسباب و وسائل کتنے ہی بے مایہ ہوتے، دعوت کے کام میں ذرا بھی حائل نہ ہوتے اور نہ دل پر مایوسی کے بادل چھاتے۔ سخت سے سخت مصائب و شدائد میں بھی آپ کا دل مطمئن اور اللہ کے توکل سے بہرہ ور رہتا۔ دعوت کے ان ایام کی بات ہے جب کفار ہر قسم کے حربے آزمانے پر تلے ہوئے تھے۔ ابو طالب آپ ﷺ کو طلب کرتے ہیں اور سمجھاتے ہیں۔ ''جانِ پدر! اس کام سے ہاتھ اُٹھاؤ۔'' آپ ﷺ فرماتے ہیں: عمِّ محترم! میری تنہائی کا خیال نہ کیجئے، حق زیادہ دیر تک بے کس و تنہا نہیں رہے گا۔ ایک دن عرب اور عجم اس کے ساتھ ہوں گے۔'' ایک اور موقع پر کسی اور شخص کے جواب میں فرمایا: ''خدا مجھے تنہا نہیں چھوڑے گا۔''

ایک بار کافروں کا مشقِ ستم بنتے ہوئے ایک صحابیؓ سے فرمایا خدا کی قسم! وہ وقت قریب ہے جب یہ دین اوجِ کمال کو پہنچے گا اور اہلِ ایمان کو خدا کے سوا کسی کا ڈر نہیں رہے گا۔ ہجرت کی رات جب کفار نے آستانۂ مبارک کا محاصرہ کر رکھا تھا، حضور ﷺ کے سوا کسی کا ڈر نہیں رہے گا۔ ہجرت کی رات جب کفار نے آستانۂ مبارک کا محاصرہ کر رکھا تھا، حضور ﷺ کا بے خوف و خطر نکلنا،غارِ ثور میں اپنے رفیقِ سفر حضرت ابو بکرؓ کو لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے) کہہ کر تسلی دینا توکل علی اللہ ہی کا مظہر تھا۔ غزوۂ نجد سے واپسی کے دوران ایک بدّو کا آپ کو ایک درخت تلے سوتے ہوئے تنہا جا لینا اور اس کے اس سوال پر کہ اب بتاؤ مجھ سے تمہیں کون بچا سکتا ہے، آپ کا پوری طمانیتِ قلب سے اس ذاتِ پاک کا نام لینا جس نے آپ کو دَاعِیًا اِلَی اللّٰہ بنا کر بھیجا تھا، یہ بھی اسی توکل علی اللہ کا ایک رخ تھا۔ پھر اُحد اور حنین کے معرکوں میں جب کہ دشمن کے سخت دباؤ کی تاب نہ لا کر میداں جاں نثاروں سے خالی ہو گیا، آپ کا اپنی جگہ پر جمے کھڑے رہنا اسی توکل علی اللہ ہی کا رُخِ حسین تھا۔

حضور کی ایک اور داعیانہ صفت یہ تھی کہ آپ کی پوری زندگی صبر سے مزین تھی۔ مخالفین نے کیا کچھ ظلم نہ ڈھائے، ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو وہ تلواریں بے نیام کر کے میدان میں نکل آئے اور فتح مکہ تک چین نے لینے دیا، پھر ادھر سے ذرا اطمینان نصیب ہوا تو قیصرِ روم سے کشمکش چھڑ گئی۔ بایں ہمہ حضور ﷺ نے ہر مرحلے پر صبر و استقامت سے کام لیا اور مخالفت کے طوفانوں اور انتہائی نامساعد حالات میں پہاڑ کی طرح قائم رہے۔ منکرینِ حق کے کسی دباؤ میں نہ آئے اور مخالف قوتوں کی ذرا پروا نہ کی۔

یہ تھے حضور ﷺ کے انفرادی کردار کے چند روح پرور پہلو، جنہوں نے عوتِ اسلامی کی کامیابی میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اب ہم حضور ﷺ کے دعوتی طریقِ کار پر ایک مختصر نظر ڈالیں گے۔

حضور ﷺ رسالت مآبﷺ نے جس وقت دعوتِ اسلامی شروع کی۔ عرب معاشرہ مسائل کا جنگل بنا ہوا تھا۔ طبقاتی، اقتصادی، معاشرتی، اخلاقی اور سیاسی مسائل کا جھاڑ جنکاڑ اس طرح اُگ آیا تھا کہ زندگی تلخ ہو کر رہ گئی تھی۔ حضور ﷺ نے شاخوں کی طرح متوجہ ہونے اور انہیں تراشنے کاٹنے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے جڑ کی طرف توجہ دی اور اپنی دعوت کا آغاز یَا اَیُّھَا النَّاسُ قُوْلُوْا لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ (اے لوگو! اس بات پر ایمان لاؤ کہ اللہ کے سوا اور کوئی الٰہ نہیں ہے) سے کیا اور فرمایا کہ ذاتِ واحد پر ایمان و یقین ہی تمہیں دنیا اور آخرت میں نجات بخشے گا) اس لئے کہ انسانی زندگی میں ساری خرابیاں اس تصوّر سے پیدا ہوتی ہیں کہ اللہ کا یا تو کوئی وجود ہی نہیں ہے اور اگر ہے تو اس کا انسانی زندگی کی رہنمائی اور ہدایت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ انسان آزاد ہے کہ اپنے لئے جیسا چاہے ضابطۂ حیات بنائے اور اپنی مرضی سے جب چاہے اس میں ترمیم و تغیر کرے اور وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالتا رہے۔ وہ اپنی دنیا کی زندگی کا کسی اعلیٰ تر ذات کے آگے جواب دہ نہیں ہے اور نہ یہ کہ اسے کسی ایسی ذات کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ انسان چاہے فردِ واحد ہو یا کسی معاشرے کے بہترین دماغوں پر مشتمل کوئی گروہ۔ بہرحال اس کی نظر بھی محدود ہے اور اس کے ذاتی میلانات، جذبات اورعواطف بھی ہیں جن سے اس کا ساختہ پر داختہ کوئی قانون اور ضابطہ ایک مخصوص رنگ لیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس طرح ایسے قانون کی بنیاد ہی میں خرابی مضمر ہوتی ہے جو عمل کی کسوٹی پر اور زیادہ وسیع ہوتی جاتی ہے۔ اس خرابی کو دور کرنے کے لئے ایک نیا قانون اپنی زندگی کا ضابطہ خود بنائے خرابیوں پر خرابیاں جنم دیتا ہے اور ایک ایک خرابی کی کوکھ سے کئی کئی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں جن سے رفتہ رفتہ پوری انسانی زندگی داغ داغ ہو جاتی ہے۔ اسی لئے اللہ کے فرستادہ داعیانِ حق اپنی دعوت کا آغاز اس مقام سے کرتے ہیں جہاں پہلے ہی قدم پر خرابیوں کے منبع کا منہ بند ہو جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان کی زندگی کا نظام اور ضابطہ دینے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کا ہے۔ وہ جس طرح اس کائنات کا تکوینی فرمانروا ہے اسی طرح تشریعی حکمران بھی ہے۔ انسانی معاشروں پر اسی کا قانون چلنا چاہئے اور چونکہ وہ انسان کی فطرت کا خالق اور اس کے جذبات و عواطف کی کمزوریوں اور خوبیوں، اس کی ضروریات اور مفادات سے اچھی طرح باخبر ہے اس لئے اس کا قانون اور ضابطۂ حیات ان تمام نقائص سے پاکیزہ اور منزہ ہے جو انسان کے بنائے ہوئے قوانین اور نظام ہائے زندگی میں پائے جاتے ہیں جن میں بار بار کی ترمیم و اضافہ سے نہ صرف یہ کہ پہلے سے موجود نقائص دور نہیں ہوتے بلکہ نئے نئے نقائص پیدا ہو جاتے ہیں۔

رسول اللہ ﷺ کی دعوت کا نقطۂ آغاز بھی یہی تھا۔ حضور نے اس انقلابی کلمہ کی بنیاد پر جس نے سنگ و خشت اور گوشت پوست کے سارے خداؤں کی نفی کر دی تھی۔ ایک ایسا نیو کلیس (Nucleus) وجود میں لانے کی طرف اپنی ساری توجہ مرکوز کر دی جس کے ارد گرد آگے چل کراسلامی معاشرہ اور اسلامی ریاست قائم کی جانے والی تھی۔ ایک ایسی جماعت کی تشکیل جو ان اصول و نظریات پر نہ صرف ایمانِ کامل رکھتی ہو جن کی دعوت حضور ﷺ دے رہے تھے بلکہ ان کے سانچے میں اپنی زندگی کو عملاً ڈھال دے اور پھر انہیں پورے معاشرے اور ریاست پر نافذ کرے۔ حضور ﷺ نے مکہ کی زندگی کا پورا عرصہ اس نیوکلیس کی تعمیر، اس کی نظریاتی اور اخلاقی تربیت میں صرف کیا۔ ہجرت کے بعد مدینہ میں اسی نیوکلس کے اردگرد اسلامی معاشرہ بنا اور یہی اسلامی معاشرہ دنیا بھر میں اسلام کی اشاعت و توسیع کا سبب بنا۔ اسی نیوکلیس نے اسلامی ریاست کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا جو قیامت تک دنیاکے کسی بھی حصے میں قائم ہونے والی اسلامی ریاست کا عملی نمونہ قرار پائی۔ مکہ کی زندگی میں کفار نے ایسی پیشکشیں کیں جن سے بظاہر مشکلات و مصائب سے نجات ملتی اور اقتدار کی باگ ڈور ہاتھ میں آتی تھی لیکن حضور ﷺ نے اس قسم کی ہر پیشکش ٹھکرا دی۔ اس لئے کہ اوّل تو باطل نظامِ اقتدار میں کسی حق پرست فرد واحد کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، دوسرے سے اسے اس نظام کے ساتھ کسی نہ کسی حد تک مصالحت کر کے اور اپنے اصولوں میں لچک پیدا کر کے چلنا پڑتا ہے۔ تیسرے معاشرے کے فکر و نظر میں مطلوبہ تبدیلی لائے بغیر اوپر سے قانون کا نفاذ محض مصنوعی عمل ہوتا ہے اور اس طرح نافذ کردہ قانون عموماً ناکامی سے دوچار ہوتا ہے۔

پھر حضور ﷺ نے دعوت کی توسیع و اشاعت کا فطری راستہ اختیار کیا اور مرحلہ وار اقدامات کئے۔ دعوت کا آغاز اپنے گھر والوں، رشتہ داروں اور قریبی ساتھیوں سے کیا۔ پھر اس کا دائرہ بتدریج پھیلتا چلا گیا، پہلے مختلف قبائل میں پھیلی ، پھر گرد و نواح کے علاقے کی طرف توجہ دی، جب اپنے شہر نے شدید مخالفت کی، سعید روحیں اس دعوت پر ایمان لے آئیں اور شورہ پشتوں اور ان لوگوں کے سوا کوئی باقی نہ رہا۔ جو کسی دعوت پر اس کے کامیاب ہونے کے بعد ہی ایمان لاتے ہیں اور ان لوگوں نے حضور ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کا مکہ میں رہنا دو بھر کر دیا، تو ہجرت کر کے مدینے چلے آئے۔ یہاں آزاد فضا میں اسلامی معاشرہ اور اسلامی ریاست قائم ہوئی جو دس سال کی سخت کشمکش کے بعد اپنے مخالفین کو زیر کرنے اور تمام عرب کو زیرِ نگیں لانے میں کامیاب ہو گئی۔ حضور ﷺ کا یہ تدریجی عمل امت کے داعیان حق کے لئے نمونہ ہے اس بات کا کہ اسلامی ریاست کسی مصنوعی طریقہ سے نہیں بلکہ فطری طریقے سے بتدریج جدوجہد کرتے ہوئے وجود میں آتی ہے اور انہیں تدریجی عمل ہی اختیار کرنا چاہئے۔ اسی طرح پوری دعوت ایک ہی مرتبہ نہیں دے دی بلکہ اس میں بھی تدریج کا خیال رکھا ہے۔ توحید، رسالت اور عقائد ایسے بنیادی امور پہلے ذہن نشین کرائے۔ پھر عبادات اور معاملات زندگی میں رہنمائی کی۔

داعی حق ﷺ نے دعوتِ اسلامی پھیلانے میں حکمتِ تبلیغ کو ہمیشہ مدّ نظر رکھا۔ حضور ﷺ مخاطب کی نفسیات، ذہنیت، سمجھ بوجھ اور حالات کو نگاہ میں رکھ کر اور مُوڈ بھانپ کر موقع و محل کے مطابق بات کرتے۔ قریش سے پہلے خطاب عام پر نظر ڈالیے۔ کوہِ صفا پر چڑھ کر حضور ﷺ کا اپنی قوم کو اس انداز میں پکارنا جو کسی بہت بڑے خطرے سے متنبہ کرنے کے لئے اس عہد کا معمول تھا، پھر قریشی اکابر کی زبان سے اپنے صادق و امین ہونے کا اعتراف کروانا اور اس بہت بڑے خطرے کو دشمن کی غارت گری سے تعبیر کر کے اس حق کی دعوت دینا جس سے محروم رہ کر انسان کی زندگی دنیا اور آخرت میں غارت ہو جاتی ہے ، اس اندازِ تخاطب کی ایک ایک کڑی بتاتی ہے کہ بلانے والا انسانی نفسیات و جذبات اور ذہنی کیفیات کا کتنا ماہر اور حکمت و دانش کی گہرائیوں سے کس قدر باخبر تھا۔ اس پہلے خطابِ عام ہی نے صدیوں سے سوئے ہوئے معاشرے کو جھنجھوڑ ڈالا۔ ہر ذہن سوچنے پر مجبور ہو گیا۔ جن لوگوں نے مخالفت کی انہوں نے گویا نظریات کی اس جنگ میں ابتداء ہی میں اپنی اخلاقی شکست تسلیم کر لی کہ جس شخص کی صداقت امانت کی وہ خود گواہی دے رہے تھے اس کی دعوت جھٹلانے کا ان کے پاس کوئی جواز نہ تھا۔ وہ محض ہٹ دھرمی اور اندھے تعصب سے کام لے رہے تھے۔

حضور ﷺ مخاطب کی کمزوریوں کا خیال رکھتے اور اس کی جاہلی عصبیت کو بھڑکانے والی بات سے ہمیشہ اجتناب فرماتے۔ کٹر سے کٹر مخالفین کے ساتھ احترام سے پیش آتے، ان کی باتیں اطمینان اور حوصلے کے ساتھ سنتے اور الجھنے الجھانے کے بجائے ایسا جواب دیتے کہ مخالف سوچنے پر مجبور ہو جاتا۔ عُتبہ بن ربیعہ کا واقعہ اس سلسلے کی محض ایک مثال ہے۔ اِسے اکابرِ قریش، حضور ﷺ سے مصالحت کی بات چیت کے لئے بھیجتے ہیں اور پیشکش کرتے ہیں آپ ﷺ جو فرمائیں ہم ماننے کے لئے تیار ہیں۔ مال چاہتے ہیں مال دیں گے، سرداری کی خواہش ہے اپنا سردار بنا لیں گے، بادشاہ بننے کی تمنا میں یہ سب کچھ کر رہے ہیں تو تاج بھی سر پر رکھ دیں گے۔ حضور ﷺ لمبی چوڑی بحث کرنے کے بجائے سورۂ حٰم السجدہ کی ابتدائی ۳۸ آیات تلاوت کرتے ہیں اور فرماتے ہیں یہ ہے میرا جواب۔ عُتبہ واپس جاتا ہے تو اس کا چہرہ بدلا ہوا ہے، اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے ہم نے اس شخص کے بارے میں جو کچھ مشہور کر رکھا ہے ان میں سے کوئی بات نہیں۔ یہ شاعر ہے نہ ساحر اور کاہن۔ میرا خیال ہے جو کلام وہ سناتا ہے رنگ لا کر رہے گا۔ اسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔ ناکام رہا تو دوسرے لوگ خود اس سے نبٹ لیں گے تمہیں اپنے بھائی سے لڑنا نہیں پڑے گا اور اگر کامیاب ہو جاتا ہے تو، اس کی بادشاہی تمہاری بادشاہی اور اس کی عزت تمہاری عزت ہو گی۔ قریشی اکابر کا عتبہ کے خیالات کی اس تبدیلی پر تبصرہ یہ تھا کہ ابو سعید! آخر تم پر بھی اس کا جادو چل گیا۔ عتبہ بدر کے میدان میں قتل ہوا۔ لیکن دراصل وہ اسی روز قتل ہو گیا تھا جب وہ حضور ﷺ کی دعوت کی عظمت و حقانیت تسلیم کرنے کے باوجود ایمان نہ لایا۔ وہ میدانِ بدر میں جب پہنچا ہو گا، تو یقیناً اس کا دل کہہ رہا ہو گا کہ تم ایک ایسی دعوت سے لڑنے آئے ہو جو حق ہے اور جس کے لئے کامیابی مقدر ہو چکی ہے۔

حضورﷺ، مخاطب کی محبوب شخصیتوں اور دیوتاؤں پر ایسی تنقید نہ کرتے جو انہیں مشتعل کر کے قبولِ حق کی راہ میں رکاوٹ بن جائے۔ برائی پر تنقید کی حیثیت سے کرتے۔ اس برائی میں ملوث کسی فرد کو براہِ راست مطعون نہ کرتے۔ اندازِ تخاطب نہایت شیریں اور نرم ہوتا۔ تلخ و ترش گفتگو سے پرہیز کرتے۔ جو بات بھی کہتے ایسے اچھے انداز میں کہتے کہ مخاطب کے دل میں گھر کر جاتی۔ اصولوں پر مصالحت اور مداہنت کی راہ اختیار نہ کرتے۔ قریش نے آپ سے مصالحت کی جو کوششیں کیں ان میں ایک شرط یہ تھی کہ وہ جو دعوت لے کر اُٹھے ہیں اس میں ہمارے نظامِ زندگی اور نظریات کے لئے بھی تھوڑی سی گنجائش پیدا کر لیجئے۔ ایک سال ہم آپ ﷺ کے خدا کی پرستش کرت ہیں ایک سال آپ ہمارے دیوتاؤں کی پوجا کریں لیکن حضور ﷺ نے اس پیشکش کو خود مسترد کرنے کے بجائے وحی الٰہی کے ذریعے مسترد کروایا تاکہ مخالف دوبارہ ایسی پیشکس کرنے ہی نہ پائیں اور یہ خیال وہ اپنے دل و دماغ سے ہمیشہ کے لئے نکال دیں کہ اصولوں پر بھی کوئی مصالحت ہو سکتی ہے۔

حضور ﷺ کے دل میں کسی کے لئے نفرت نہ تھی۔ ہر ایک کے ساتھ محبت، ہمدردی، دل سوزی اور مشفقانہ جذبے کے ساتھ پیش آتے۔ ایسا جذبہ جو مریض کے لئے کوئی طبیب اپنے دل میں رکھتا ہے، بلکہ مریضوں کو خود اپنی صحت کے بارے میں اتنی فکر اور بے چینی نہ تھی، جتنی حضور ﷺ کو ان کے لئے پریشانی اور اضطراب تھا۔ حضور ﷺ نے ایک مرتبہ اپنے مقام، دعوت اور لوگوں کی ہدایت کے سلسلے میں اپنی فکر و پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا۔ ایک شخص نے الاؤ جلایا، آگ کے شعلے دیکھ کر پروانے اس پر ٹوٹ پڑے، اس شخص نے ہاتھ ہلا ہلا کر انہیں بچانے کی سر توڑ کوشش کی، مگر پروانے تھے کہ اندھا دھند اس الاؤ میں گر رہے تھے۔ یہی مثال میری ہے۔ میں تمہیں جہنّم کی آگ میں گرنے سے تمہاری کمریں پکڑ پکڑ کر بچانے کی کوشش کرتا ہوں مگر تم ہو کہ اس آگ میں چھلانگ لگانے پر تلے ہوئے ہو۔ (او کما قال)

حضور ﷺ، مخالفین کے سامنے جب بھی دعوت پیش کرتے جذباتی استدلال کے بجائے عقلی استدلال سے کام لیتے، جذباتی استدلال بے شک بڑا سریع الاثر ہوتا ہے، لیکن انسانی جذبات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے، ان میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے اور اس اتار چڑھاؤ کے مطابق زندگی متاثر ہوتی ہے۔ جذبات ٹھنڈے پڑ جائیں، تو جذباتی استدلال بھی دلوں میں اپنی جگہ چھوڑ دیتا ہے، یا کوئی نیا جذبہ اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ اس کے برعکس عقلی استدلال انسان کو اپنے موقف پر ہمیشہ قائم رکھتا ہے جب کوئی شخص کسی دعوت کو حق سمجھ کر شعوری طور پر قبول کرتا ہے تو پھر اس کے قدم کبھی متزلزل نہیں ہو پاتے۔ حضور ﷺ لوگوں کو غور و فکر کی دعوت دیتے اور ذہنوں کو فکر و تدبّر کے لئے آمادہ کرتے تاکہ حق کو قبول کریں تو شعوری طور پر۔ اسلام کی بنیادوں حتیٰ کہ توحید و رسالت تک کا تصوّر دل و دماغ میں جاگزیں کرنے کے لئے عقلی دلائل اور فکر سے کام لیتے اس کے لئے مشاہداتی دلائل دیتے، جن کا تعلق آفاق سے بھی ہوتا اور انسان کے اپنے نفس سے بھی۔

حضور ﷺ مناظرے اور بحث مباحثے سے ہمیشہ دامن بچاتے۔ مناظرہ اور بحث مباحثہ دراصل خود حق کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اس لئے کہ مخالف احقاقِ حق سے زیادہ اپنی بات کی پچ کرنے میں اپنی ساری قوتیں صرف کر دیتا ہے۔ اپنے دلائل کمزور پا کر اس کے اندر جھنجھلاہٹ اور تلخی پیدا ہو جاتی ہے، وہ مقابل کی بات سنجیدگی اور متانت سے توجہ دینے کے بجائے اس کی ہر حالت میں کاٹ کرنے کی فکر میں رہتا ہے۔ اس طرح فریقین ذہنی گشتی میں لگ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو پچھاڑنا ہی ان کا اوّل و آخر مقصود بن جاتا ہے۔ حضور قرآن کریم کے ارشاد تُجَادِل بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنْ پر عمل پیرا تھے۔ بڑے دھیمے انداز میں مخاطب میں جھنجھلاہٹ کی کیفیت پیدا کیے بغیر، اپنی دعوت اس طرح پیش کرتے کہ ذہن اور قلب دونوں اسے سننے پر آمادہ ہو جاتے۔ عقلی استدلال کے ساتھ اس کے قلب کے تاروں پر بھی ضرب لگاتے۔ انسان کی زندگی میں تبدیلی، قلب کی تبدیلی سے آتی ہے۔ اس تبدیلی میں حضور ﷺ کا اسوۂ حسنہ اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔

دعوت دینے والے کے قول و عمل میں ہم آہنگی دعوت کی قبولیت کے لئے بہت ضروری ہوتی ہے۔ جس دعوت کے پیچھے عملی نمونہ ہو وہ اپنے مخاطبین کو کبھی متاثر نہیں کرتی۔ کردار کا عملی نمونہ ہی دل کی دنیا میں انقلاب برپا کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ اس دعوت کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی جس کی طرف آپ ﷺ دنیا کو بلا رہے تھے۔ آپ ﷺ کی عملی زندگی ہر آنکھیں رکھنے والے کو پکار پکار کر کہہ رہی تھی کہ داعیٔ حق ﷺ کسی خن سازی سے کامنہیں لے رہے بلکہ اس دعوت پر اتنا یقین رکھتے ہیں کہ جو احکام لوگوں کو دیتے ہیں پہلے خود اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ قول و عمل کی اتنی مکمل اور حسین ہم آہنگی دنیا میں کسی اور ہستی میں نظر نہیں آتی، یہی وجہ ہے کہ حضور ﷺ کی جان کے دشمن اور دعوتِ حق کے شدید ترین مخالف جب آپ ﷺ کو بالکل قریب سے دیکھتے، تو بے اختیار پکار اُٹھتے کہ واقعی آپ ﷺ اللہ کے سچے فرستادہ ہیں اور حلقۂ غلامی میں شامل ہو کر اپنا تن من دھن اس دعوت کے لئے وقف کر دیتے۔

حضور ﷺ کی داعیانہ زندگی کا ایک رخ یہ ہے کہ حالات چاہے کتنے روح فرسا اور مایوس کن ہوتے مخالف ہوا کتنی ہی تند و تیز ہوتی، آپ کا حوصلہ کبھی شکست نہ کھاتا۔ آپ ﷺ کو اپنی دعوت کی کامیابی کا یقینِ کامل ہوتا۔ عین اس وقت جب مکہ کے لوگوں سے مایوس ہو کر مدینے جا رہے ہیں سراقہ آپ ﷺ کا تعاقب کرتے ہوئے پہنچ جاتا ہے، لیکن گھوڑا پے بہ پے ٹھوکر کھاتا ہے یہاں تک کہ اس کے پاؤں ریت میں دھنس جاتے ہیں۔ سراقہ معافی کا خواستگار ہوتا ہے تو حضور ﷺ فرماتے ہیں سراقہ! میں تمہارے ہاتھوں میں کسریٰٔ فارس کے طلائی کنگن دیکھ رہا ہوں۔ اس وقت سراقہ کا جو بھی ردِّ عمل تھا اس نے اپنی زندگی میں دیکھا کہ مسلمانوں نے فارس کی سلطنت کے پرخچے اُڑا دیئے۔ اس کے صدیوں کے خزانے، مالِ غنیمت میں مدنیۃ النبی پہنچے۔ ان میں کسریٰ کے طلائی کنگن بھی تھے اور سراقہ نے وہ کنگن اپنے ہاتھوں میں پہنے۔ ایک مرتبہ فرمایا ایک زمانہ آئے گا جب صنعاء سے ایک محمل نشین عورت تنہا سفر کرے گی اور اللہ کے سوا اسے کسی کا خوف نہ ہو گا۔ حضور ﷺ کا یہ ارشاد بھی پورا ہوا۔ ایسے مایوس کُن حالات میں مستقبل کے پردے چیر کر کامیابی و کامرانی کو قدم چومتے ہوئےدیکھنا درحقیقت اسی یقین دہانی کا نتیجہ تھا کہ اللہ نے جس دعوت کو دے کر حضور ﷺ کو مبعوث فرمایا تھا اسے وہ کامیابی سے ہمکنار بھی کرے گا۔ یہ غیر متزلزل یقین ہمیشہ آپ ﷺ کے قلب میں نور کی طرح چمکتا دمکتا اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کے دلوں میں عزیمت و استقامت کی لو روشن کرتا رہا۔ اسی یقینِ کامل کے ساتھ آپ ﷺ دعوت کی توسیع و اشاعت کے منصوبے بناتے۔ اس دعوت کے نتیجے میں قائم ہونے والی ننھی منھی اسلامی ریاست کے تحفظ اور دفاع کا سروسامان کرتے، دشمن کے مقابلے میں افواج بھیجتے اور اس کی معاندانہ سرگرمیوں کو کچلنے کی تدبیریں کرتے۔

ایک اور بات جو حضور ﷺ کی داعیانہ زندگی میں بڑی اہمیت کی حامل یہ ہے کہ جہاں آپ ﷺ نے مخالفین سے اصولوں کی قربانی دے کر کبھی مصالحت نہ کی، وہاں حیاتِ مبارکہ میں ایسے مراحل بھی آئے جب حضور ﷺ کو بیرونی خطرات کی روک تھام اور انسداد کے لئے بعض مخالف طاقتوں کے ساتھ معاہدے اور اشتراک عمل کرنا پڑا۔ تاہم حضور نے ہمیشہ اس کا اہتمام رکھا کہ امت مسلمہ کا جداگانہ تشخص قائم رہے اور جو بھی اجتماعی ہیئت وجود میں آئے اس میں نہ صرف یہ کہ گم نہ ہو بلکہ ایک حق پرست جماعت ہونے کی حیثیت سے بالا دستی اور قیادت مسلمانوں ہی کے ہاتھ میں رہے۔

رسول اللہ ﷺ ہر دور اور ہر زمانے میں ہر ملک کے اہلِ ایمان کے رہنما و قائد ہیں۔ حضور ﷺ کی زندگی کے جہاں دوسرے پہلو مسلمانوں کے لئے واجب الاتباع ہیں اسی طرح آپ ﷺ کی داعیانہ زندگی بھی ان لوگوں کے لئے عملی نمونہ ہے جو دعوتِ حق کا پرچم لے کر اُٹھیں۔ اس دعوت کے داعی افراد اور جماعت کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی جدوجہد کے ہر مرحلہ میں قدم قدم پر حضور ﷺ کے اسوۂ حسنہ سے رہنمائی طلب کرے۔ اس جماعت کے رہنما اور کارکن اپنی زندگیوں کو حضور ﷺ کے عملی کردار کے سانچے میں ڈھالیں اور اپنا طریقِ کار، اس طریق کار کی روشنی میں وضع کریں جو حضور ﷺ نے اپنایا تھا اور جس پر چل کر ایک ایسا انقلاب برپا کیا جس نے تاریخ اور تہذیب و تمدّن کا دھارا بدل کر رکھ دیا۔