رسولِ مقبول ﷺ ایک مقنّن کی حیثیت سے
آنحضرت ﷺ کی سیرت بیان کرتے وقت آج کل آپ ﷺ کو مختلف حیثیتوں میں علیحدہ علیحدہ پیش کرنے کا رواج ہے۔ ان میں سے آپ ﷺ کی 'قانون ساز' ہونے کی حیثیت اہم ترین ہے۔ ایک تو اس وجہ سے کہ ریاست و سیاست کے تین شعبوں مقنّنہ، عدلیہ اور انتظامیہ میں بنیادی اہمیت مقنہ کو حاصل ہے کیونکہ انتظامی اصلاحات اور عدالتی انصاف کا پہلا مرحلہ متوازن قانون سازی ہی ہے۔ دوسرا اس وجہ سے کہ یہ مسئلہ شروع ہی سے معرکۃ الآراء بنا ہوا ہے کہ خود سنت کو قرآن سے کیا تعلق حاصل ہے۔ اس مسئلہ کی تفصیلات جس قدر نازک ہیں اسی قدر موجودہ دور میں ان کے بارے میں ذہنوں کی صفائی کی ضرورت ہے تاکہ بدلے ہوئے حالات میں بھی شریعت کو اس کے مالک کی مرضی کے مطابق اپنایا یا نافذ کیا جا سکے۔ یہ بھی واضح رہے کہ آنحضرت ﷺ کی یہ حیثیت اہم ترین ہونے کے ساتھ ساتھ جامع ترین بھی ہے کیونکہ اسلام انسانی زندگی کو ایک وحدت قرار دے کر اس کا مکمل ضابطۂ حیات ٹھہرتا ہے لہٰذا آنحضرت ﷺ کی قانون سازی بھی اس مکمل وحدت کے لئے ہے۔ اس موضوع کے متذکرۃ الصدر دو پہلوؤں میں سے پہلے کے بعض گوشے ذیل میں اجاگر کئے گئے ہیں جبکہ دوسرے پر کچھ بحث رسول مقبول ﷺ نمبر (حصہ اول) میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ (ادارہ)
آنچہ مے گوئی کہ آں بہترز حسن
یار من ایں دارد و آں نیزھم
قانون کی اصل غرض و غایت معاشرے میں امن و امان کا قیام اور ہر شخص کے ہر جائز حق کی حفظ و نگداشت پہلے حصہ کا زیادہ تعلق ضابطہ فوجداری سے اور دوسرے کا دیوانی سے۔ اسے عدلیہ اور انتظامیہ کے دو شعبوں پر بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ہر وہ قانون جو اس غرض کو پورا کرے گا اور جس قدر زیادہ اچھی صورت میں پورا کرے گا اسی قدر وہ قانون قابلِ اعتماد، زیادہ قابلِ تعریف، زیادہ مقبول اور زیادہ مفید ہو گا۔ اور پھر اس قانون کو پیش کرنے والا بھی اسی قدر زیادہ محسنِ انسانیت اور زیادہ سے زیادہ تحسین آفرین کا مستحق ٹھہرے گا۔
محسنِ عالم حضرت محمد ﷺ کی مقدس شخصیت کو ایک مقنّن کی حیثیت سے دیکھنے کے لئے آپ کے پیش کردہ قانون اور قانون کے نتائج کو دیکھنا بالعموم ضروری ہے اور بالخصوص ان گہری بنیادوں پر بھی غور کرنا ضروری ہو گا جو ان مشہور اور عام فہم نتائج اور تاریخی حقائق کے نہایت لطیف، دُوررس فطری وجوہ و اسالیب اور محرکات ہیں جن وجوہ و اسالیب اور محرکات نے اس قانون کو قابلِ عمل، سہل القبول اور مقبول عام بنایا۔ کیوں کہ کوئی قانون بہتر سے بہتر کیوں نہ ہو جب تک اُس پر عمل نہ ہو بے کار محض ہوتا ہے۔ اور اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ اسلامی قانون کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ یہ رواج و نفاذ کی خود ایک زندہ قوّت اور تحریک ہے۔
جہاں تک قانون کی تربیت کا تعلق ہے یہ قانون خالقِ کائنات کا بنایا ہوا ہے۔ مخلوق کے کسی فرد کا اس میں دخل نہیں۔ خلیفۃ اللہ حضرت آدم علیہ السلام سے چل کر آج تک ہر پیغمبر نے یہی وضاحت کی ہے۔ خدا ہی کی حاکمیت کو منوایا ہے اور خدا ہی کا قانون پیش کیا ہے۔
﴿وَما أَرسَلنا مِن رَسولٍ إِلّا لِيُطاعَ بِإِذنِ اللَّهِ...٦٤﴾... سورة النساء''ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لئے بھیجا ہے کہ اذنِ خداوندی کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے۔انبیائے کرام علیہم السلام کی دعوت اور دنیا کے سیاسی حکمرانوں کی حکومت میں یہی سب سے بڑا مایہ الامتیاز ہے کہ جہاں سیاسی حکمرانوں نے عوام کو اپنے زیر فرمان رکھنے اور انہیں اپنی غلامی کا طوق پہنانے کی کوشش کی ہے وہاں انبیاءؑ کی مقدس جماعت نے عوام کو اپنے ہم جنس بندوں کی غلامی سے نجات دے کر خدا کا بندہ بنانے کی مہم چلائی ہے جس کی بندگی اور غلامی سے کسی کو عار و استنکار نہیں ہو سکتا۔
﴿ما كانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤتِيَهُ اللَّهُ الكِتـٰبَ وَالحُكمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقولَ لِلنّاسِ كونوا عِبادًا لى مِن دونِ اللَّهِ وَلـٰكِن كونوا رَبّـٰنِيّـۧنَ بِما كُنتُم تُعَلِّمونَ الكِتـٰبَ وَبِما كُنتُم تَدرُسونَ ٧٩ وَلا يَأمُرَكُم أَن تَتَّخِذُوا المَلـٰئِكَةَ وَالنَّبِيّـۧنَ أَربابًا ۗ أَيَأمُرُكُم بِالكُفرِ بَعدَ إِذ أَنتُم مُسلِمونَ ٨٠﴾... سورة آل عمرانکسی انسان کا یہ کام نہیں کہ اللہ تو اس کو کتاب اور کم اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کے بجائے تم میرے بندے بن جاؤ۔ وہ تو یہی کہے گا کہ سچے اللہ والے بنو جیسا کہ اس کتاب کی تعلیم کا تقاضا ہے جسے تم پڑھتے اور پڑھاتے ہو۔ وہ تم سے ہرگز یہ نہ کہے گا کہ فرشتوں یا پیغمبروں کو اپنا رب بنا لو کیا ممکن ہے کہ ایک نبی تمہیں کفر کا حکم دے جب کہ تم مسلم ہو۔﴿لَن يَستَنكِفَ المَسيحُ أَن يَكونَ عَبدًا لِلَّهِ وَلَا المَلـٰئِكَةُ المُقَرَّبونَ...١٧٢﴾... سورة النساءمسیح اس بات کو عار نہیں سمجھے گا کہ وہ اللہ کا ایک بندہ ہو اور نہ مقرب ترین فرشتے اس کو عار سمجھتے ہیں۔اس مقدس دعوت میں یہ نفسیاتی تحریک بنیادی حیثیت سے شامل ہے کہ وہ انسان جو اپنے ہم جنسوں کی غلامی میں زندگی بسر کرنا قطعاً پسند نہیں کرتا اسے خدا کے ترتیب دیئے ہوئے ایک ایسے قانون کی سرپرستی کا آرام دہ سایہ نصیب ہو گیا جو لم یلد ولم یولد کا بتایا ہوا ہے جس میں کسی کی طرفداری کا شائبہ تک نہیں۔ قانون بنانے والے سے اپنی رعایا کی زندگی کا کوئی گوشہ پوشیدہ نہیں، کوئی تقاضا نظر سے اوجھل نہیں کسی تقاضے کا پورا کرنا اسے مشکل نہیں۔
قانونی پابندی کی مشکل کا حل:قانون کوئی بھی ہو، آخر پابندی کا تقاضا کرتا ہے اور پابندی بہرحال ایک ناگوار حقیقت ہے۔ لیکن خدا کی بارگاہ وہ بارگاہ یا پناہ گاہ ہے جہاں اللہ کے بندوں نے یہی التجا پیش کی ہے کہ تیری بے نیاز مشفقانہ تادیب میں بھی ہماری بھلائی ہی بھلائی ہے بار الٰہا! ہم کو اپنے ہم جنسوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑ!
مسلّط مکن چومُغے برسرم زدستِ توبہ گر عقوبت برم
بہ گیتی نہ باشد بتر زیں بدے جفا بردن از دستِ ہم چوں خودے
علامہ اقبال مرحوم فرماتے ہیں:
آدم از بے خرد مے بندگیٔ آدم کرو گو ہرے داشت دے نذر قباد و جم کرو
یعنی از خوے غلامی زسگاں خوار تر است من ندیدم کر سگے پیش سگے سرخم کرد
اس کے مقابلہ میں خدا کی وہ بندگی اور خدا کے قانون کی وہ پابندی جو اس کا بندہ رضا کارانہ قبول کرتا ہے اور جس پابندی میں قبول و اذعان کی فطری کشش موجود ہوتی ہے وہ دل تنگی کا سامان نہیں ہوتی بلکہ عین راحت ہوتی ہے اور سکون و اطمینان کا سامان بن جاتی ہے یہاں تک کہ اس کا گرفتار گرفتاری پر نہیں آزاری میں ضائع کئے ہوئے وقت پر پچھتاتا ہے۔
نالہ از بہر رہائی نکند مرغِ اسیر
خورد افسوسِ زمانے کہ گرفتار نہ بود
مسلماں کی آزادی کے معنی یہی ہیں کہ اسے اس پابندی سے روکنے والی کوئی قوت راہ میں حائل نہ رہ جائے۔
خلاص حافظ ازاں زلفِ تابدار مباد
کہ بستگانِ کمندِ تورستگار انہند
دیگر بے شمار ایسے فطری محرکات میں سے جو رسول مقبول ﷺ کے پیش کردہ قانون کی پابندی از خود قبول کرنے کے لئے انسان کو آمادہ کرتے ہیں ایک یہ مذکورہ عقیدہ ہے کہ یہ خالقِ کائنات کا قانون ہے اسے قبول کرنے میں کسی ننگ و عار کا شائبہ تک نہیں بلکہ اس کی پابندی وہ پابندی ہے جو ہر غلامی سے آزاد کر دیتی ہے۔
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
(۲) دوسری امتیازی خوبی اس میں یہ ہے کہ دنیا کے تمام نئے اور پانے قوانین کے مقابلہ میں اس قانون کا پیش کرنے والا (ﷺ) خود بھی اپنے پیش کردہ قانون کا بالکل اسی طرح پابند ہے جس طرح ایک عام شہری۔ بلکہ پہلا پابند خود ہے اور بعد میں یہ پابندی کسی دوسرے تک پہنچتی ہے۔
﴿ءامَنَ الرَّسولُ بِما أُنزِلَ إِلَيهِ مِن رَبِّهِ وَالمُؤمِنونَ ۚ كُلٌّ ءامَنَ بِاللَّهِ وَمَلـٰئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ...٢٨٥﴾... سورة البقرةرسول اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اس رسول کو ماننے والے ہیں انہوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کر لیا ہے یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں۔اسلامی آئین اور عوامی تحریک:عوام کے لئے اس قانون کو قبول کرنے میں یہ صورتِ حال ایک ایسی فطری تحریک اور بوئے جنسیت کی ایسی نفسیاتی تسکین کا سامان بن جاتی ہے کہ ہر خاص و عام اس خوشگوار پابندی کے لئے مجبور نہیں بے تاب ہوجاتا ہے۔
بائیبل کے مطالعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ لاوی خاندان (نسلِ ہارونؑ) کو کس قدر قانونی تحفظات حاصل تھے بلکہ بے شمار مراعات ملی ہوئی تھیں جن میں عوام کا کوئی حصہ نہ تھا۔ سو ختنی قربانی صرف اسی خاندان کا حق تھا۔ دنیا کا سب سے بڑا اور پرانا مقنن ''منو'' جس نے ہندو جاتی کے لئے سمرتی ترتیب دی۔ اسے پڑھ کر دیکھئے کہ اس نے پہلے نسل آدم کو چار ورتوں (طبقوں) برہمن، کشتری، دیش اور شودر پر تقسیم کرکے ایک نہ ختم ہونے والی بے انصافی کی پائیدار بنیاد رکھ دی اور ہر طبقہ کے علیحدہ علیحدہ حقوق و فرائض مقرر کئے سب سے اونچے طبقہ برہمن کو قدم قدم پر تحفظات اور مراعات سے نوازا۔ افلاطون کے فلسفہ تک دیکھ جاؤ طبقاتی امتیازات قدم قدم پر نظر آئیں گے۔
رسول مقبول ﷺ نے اپنے پیش کردہ قانون کے اجرا و نفاذ میں جو طریقِ عمل اختیار فرمایا وہ یہ ہے کہ قانون کے سامنے ہر چھوٹا بڑا یکساں تھا۔ یہاں تک کہ خود اپنی ذات بھی مستثنےٰ نہ تھی۔ بلکہ انا اول المسلمین کہہ کر آپ نے اپنے آپ کو سب سے پہلا قانون کا پابند عملاً ثابت کر دیا۔ اور قانون کے احترام کی بے نظیر مثال قائم کر دی۔
قبیلہ مخزوم کی ایک عورت چوری کے جرم میں گرفتار ہوتی ہے، حضرت اسامہؓ بن زیدؓجن سے آنحضرت ﷺ نہایت محبت رکھتے تھے، لوگوں نے ان کو سفارشی بنا کر خدمتِ نبوی ﷺ میں بھیجا۔ آپ نے فرمایا اسامہؓ! کیا تم حدودِ خداوندی میں سفارش کرتے ہو۔ پھر آپ نے لوگوں کو جمع کر کے خطاب فرمایا ''تم سے پہلی امتیں اسی لئے تباہ و برباد ہو گئیں کہ جب معزز آدمی کوئی جرم کرتا تو تسامح کرتے اور معمولی آدمی مجرم ہوتے تو سزا پاتے۔ خدا کی قسم اگر محمد ﷺ کی بیٹی فاطمہؓ چوری کرتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹے جاتے۔''
مرض الموت میں آپ ﷺ نے مجمع عام میں اعلان فرمایا کہ میر ذمہ اگر کسی شخص کا کچھ قرضہ آتا ہو یا کسی جان و مال و آبرو کو کوئی صدمہ پہنچا ہو تو میری جان و مال و آبرو حاضر ہے۔ ایک صحابیؓ نے کہا کہ جنگِ بدر کے موقع پر صفیں سیدھی کراتے ہوئے آپ ﷺ نے مجھے تیر کی لکڑی سے چوکا دیا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا بدلہ لے سکتے ہو! اسؓ نے کہا اس وقت میرا بدن ننگا تھا۔ آپ ﷺ نے کُرتہ اتار دیا لیکن صحابیؓ مہرِ نبوت کو بوسہ دے کر عذر خواہ ہوا اور پیچھے ہٹ گیا۔
اسی فطری تعلیم اور عملی تربیت کا نتیجہ تھا کہ آنحضرت ﷺ کے جانشین جو اس نظامِ حکومت میں قوم کے سربراہ بنتے رہے اپنی ما تحت عدالتوں اور اپنے مقرر کئے ہوئے ججوں کے سامنے مدعا علیہ کی حیثیت سے اپنے مدعیوں اور مستغیثوں کے برابر مجرموں کے کٹہروں میں کھڑے ہوتے رہے۔ تاریخ کے صفحات اس قسم کے واقعات سے پُر ہیں۔
قانون بھی خالقِ کائنات کا بنایا ہوا اور اس کے اجرا و نفاذ کا یہ امتیازی طرزِ عمل، اس کا لازمی نتیجہ تھا کہ اسی دور میں دنیا نے وہ امن و اطمینان حاصل کیا، جس کی نظیر انسانی تاریخ میں کسی دوسری جگہ نہیں ملتی۔
(۳) تیسری امتیازی خوبی اس قانون اور مقنّن میں یہ ہے کہ اس نے ایک معیّن روزِ جزا کا عقیدہ دیا جس دن تمام پوشیدہ سے پوشیدہ جرائم کھُل کر سامنے آجائیں گے اور دنیا میں ایک دوسرے کو دیئے ہوئے سارے دھوکے مغالطے نکل جائیں گے۔ اس عقیدے کو واضح کرنے میں رسول مقبول ﷺ کے طرزِ عمل کا ایک واقعہ کافی ہے۔
ام سلمیٰؓ کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ آپ نے اپنے حجرہ کے دروازہ کے قریب لوگوں کو جھگڑتے سنا تو آپ ﷺ باہر تشریف لے آئے اور فرمایا۔
«إنما أنا بشر وإنه يأتيني الخصم فلعل بعضهم ألحن بحجته من بعض فأحسبه أنه صادق فقضيته بحق مسلم فإنما ھي قطعة من النار فليحملھا أو يذرھا»میرے پاس مقدمہ آتا ہے۔ مدعی اپنی چرب زبانی سے دعویٰ ثابت کر دیتا ہے حالانکہ حق دوسری جانب ہوتا ہے، میں اس بیان کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ نافذ کرتا ہوں۔ مگر وہ یہ سمجھ لے کہ ایک مسلمان کا مال ناجائز طریقہ سے لینا آگ کو لینا ہے۔ اب وہ آزاد ہے اسے قبول کرے یا چھوڑ دے۔روزِ جزاء کی جواب دہی کا ذمہ دارانہ تصوّر اس سے زیادہ کیا دلایا جا سکتا تھا کہ آنحضرت ﷺ نے اس دن کے فیصلے کے سامنے اپنے فیصلے کو بھی بے حقیقت قرار دے دیا۔ یہ واقعہ ایک طرف آپ کی بے نفسی کی انتہا ہے اور دوسری طرف قانون الٰہی کی پابندی کا وہ ہمہ گیر اثر پیدا کرتا ہے جس سے زیادہ اثر پیدا کرنا ممکن نہیں۔ قرآن مجید کے الفاظ میں سنیئے:
«ما کنت بدعا من الرسل وما ادری ما یفعل بی ولا بکم»میں انوکھا رسول نہیں ہوں میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا ہو گا اور تمہارے ساتھ کیا۔آپ ﷺ کے اس طرزِ عمل نے اسلام قبول کرنے والوں کے ضمیر کو اس حد تک بیدار کر دیا اور آخرت کے عقیدے نے یہ بیداری اس مقام تک پہنچا دی کہ لوگ قانون کی پابندی ہی میں دنیوی اور اُخروی راحت یقین کرنے لگے۔ ہر مرد و عورت نے اس پابندی ہی کو ذریعۂ نجات یقین کر لیا۔ اور یہ یقین معاشری اور معاشی زندگی کے اطمینان اور امن کا مستقل سرمایہ بن گیا۔ اس سلسلہ میں ذیل کے دو واقعات بطور شہادت کافی ہوں گے۔
بریدہؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا۔ ماعز بن مالک نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے پاک کر دیجئے؟ آپ نے فرمایا: ''تیرا برا ہو لوٹ جا اور اللہ کے حضور توبہ و استغفار کر لے!'' راوی کہتا ہے وہ تھوڑی دور تک واپس گئے پھر لوٹ آئے اور پھر یہی کہا کہ ''اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے پاک کر دیجئے! نبی ﷺ نے پھر وہی جواب دیا۔ تین بار ایسا ہی ہوا چوتھی بار رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''میں تجھے کس چیز سے پاک کر دوں؟ وہ بولے زنا سے۔ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے پوچھا یہ شخص پاگل تو نہیں؟ آپ ﷺ کو بتایا گیا کہ وہ پاگل نہیں ہے۔آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کیا اس نے شراب پی رکھی ہے؟ ایک شخص نے اُٹھ کر ماعز کے منہ کی بُو سونگھی تو اسے شراب کی بو نہیں ملی۔ آپ ﷺ نے پھر ان سے پوچھا کیا تم نے زنا کیا ہے؟ انہوں نے کہا ''ہاں'' اس پر آپ ﷺ نے حکم صادر فرمایا اور ان کو سنگسار کر دیا گیا۔
اس واقعہ کو دو تین دن گزرے ہوں گے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور آپ ﷺ نے فرمایا ''ماعز بن مالک کے لئے مغفرت کی دعا کرو اس نے ایسی توبہ کی ہے جو اگر ایک پوری قوم کے درمیان تقسیم کر دی جائے تو ان سب کے لئے کافی ہو۔''
پھر آپ ﷺ کے پاس قبیلہ ارذ کے بطن غامد کی ایک عورت آئی اور اس نے کہا: ''اے اللہ کے رسول مجھے پاک کر دیجئے!'' آپ ﷺ نے فرمایا ''تیرا برا ہو لوٹ جا، اور اللہ کے حضور ﷺ توبہ و استغفار کر لے۔'' وہ بولی ''آپ مجھے ماعز بن مالک کی طرح لوٹانا چاہتے ہیں؟ یہ زنا سے قرار پایا ہوا حمل ہے۔'' آپ ﷺ نے فرمایا کیا تو (زنا سے) حاملہ ہے؟ اس نے کہا۔ ''ہاں''۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ''وضع حمل تک انتظار کر۔'' راوی کہتا ہے کہ پھر آپ ﷺ نے اس عورت کو بچہ جننے تک کے عرصہ کے لئے ایک انصاری کی نگرانی میں دے دیا کچھ عرصہ بعد اس انصاری نے نبی ﷺ کے پاس آکر اطلاع دی کہ غامدی عورت بچہ جن چکی ہے آپ نے فرمایا۔ ''مگر ہم ایسا نہیں کریں گے کہ اسے سنگسار کر دیں اور اس کے شیر خوار بچہ کو اکیلا چھوڑ دیں۔ کوئی اسے دودھ پلانے والا نہ ہو۔'' آپ ﷺ نے اس سے کہا کہ ''لوٹ جا اسے دودھ پلا جب دودھ چھڑا لینا تب آنا۔ جب وہ دودھ چھڑا چکی تو بچہ کو لے کر آپ کے پاس آئی بچہ کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا تھا۔ اس نے آپ سے کہا رسولِ خدا ﷺ میں نے اس کا دودھ چھڑا دیا ہے اور اب یہ کھانا کھانے لگا ہے۔ آپ ﷺ نے بچہ کو کسی مسلمان کے حوالے کر دیا اور اس عورت کے رجم کا حکم صادر فرمایا۔ چنانچہ اسے سینہ تک زمین میں گاڑ کر سنگسار کرا دیا۔ خالد بن ولیدؓ نے ایک پتھر مارا جس سے خون کے چھینٹے اڑ کر خالد کے چہرہ پر پڑے۔ انہوں نے عورت کو برے الفاظ سے یاد کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ''خالد ذرا سنبھل کر، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے جو اگر ناجائز چنگی وصول کرنے والا بھی کرتا تو اسے بخش دیا جاتا۔'' پھر آپ نے س کے جنازہ کی نماز پڑھی اور اسے دفن کرایا۔ (مسلم۔ نسائی)
اگر کسی قانون اور مقنّن کی خوبی و کامیابی کا تعلق قانون کے قابلِ عمل ہونے اور عوام کے دل میں قانون کا احترام موجود ہونے سے ہے، تو اس لحاظ سے نہ اس قانون کی مثال دنیا میں ملے گی، اور نہ ایسے مقنّن کی۔ ایک مرد اور ایک عورت دو مجرم آپ کے سامنے ہیں۔ یہ مجرم اپنے انجام سے ناواقف قطعاً نہ تھے۔ آنحضرت ﷺ کے سامنے ان کا صرف اقرارِ جرم نہیں۔ ہر ایک کا اصرار ہے کہ ''اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے پاک کیجئے۔'' کیا یہ اصرار اس مقدّس جذبہ اور اس قوّت محرکہ کے وجود کی زندہ شہادت نہیں۔ جس جذبے اور قوت کی حفاظت میں مجرم بطیبِ خاطر جان دے دینا ضروری سمجھتا ہے لیکن قانون کے احترام میں سرِ مو فرق آنا پسند نہیں کرتا۔ مقنن ﷺ (شارع) رحم و عفو کے سارے جذبات کے باوجود حد جاری کرتا ہے اور مجرم اس شان سے قبول کرتے ہیں۔
ایک مرتبہ پھر یاد کر لیجئے کہ کوئی اچھے سے اچھا قانون اس وقت تک مفید نہیں ہو سکتا جب تک اس کا احترام نہ ہو۔ کیا دنیا میں کسی قانون کے احترام کی ایسی مثال موجود ہے؟ اور کوئی ایسا مقنّن تاریخ انسانی میں نظر آتا ہے؟
اس قانون کی غرض اور اس مقنّنِ اعظمؓ کا مقصد صرف قیام امن ہے۔ اس سلسلہ میں صرف ایک گزارش کافی ہو گی۔
عدلیہ حقوق و فرائض کا فیصلہ کرتی ہے۔ قانون کے اس شعبہ کا تعلق معاشرے کے ساتھ بالواسطہ ہے۔ البتہ انتظامیہ کا تعلق انسانی معاشرے کے امن و امان سے بلا واسطہ اور قریب تر ہوتا ہے۔ ضابطہ فوجداری کی آخری دفعہ اور جرائم میں سب سے بڑا جرم قتل ہے۔ جس میں انتقام در انتقام کا سلسلہ تمام معاشرے کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک آگ لگا دے سکتا ہے اور لا دیتا ہے۔ دنیا کے ہر قانون نے اس جرم کی سزا موت رکھی ہوئی ہے۔ ہمارے مروجہ قانون میں فوجداری جرائم میں نہایت کم درجہ جرائم سے اوپر کوئی جرم بھی قابلِ راضی نامہ نہیں۔ فوجداری میں مدعی حکومت ہوتی ہے فوجداری عدالتیں فریقین میں راضی نامہ کرانے کی مجاز نہیں۔ سوائے اس کے کوئی صورت نہیں ہوتی کہ فریقین آپس میں راضی ہو کر غلط بیانات دیں شہادت تبدیل کریں اور عدالت کو مجرم کی بریّت کے لئے گنجائش پیدا ہو جائے۔ لیکن اسلام نے فوجداری کے آخری جرم قتل میں بھی راضی نام کی گنجائش رکھی ہوئی ہے۔ مقتول کے ورثاء کو اختیار ہے کہ قصاص میں دیّت وصول کریں یا معاف کر دیں۔
﴿فَمَن عُفِىَ لَهُ مِن أَخيهِ شَىءٌ فَاتِّباعٌ بِالمَعروفِ...١٧٨﴾... سورة البقرةاگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لئے تیار ہو تو معروف طریقے کے مطابق عمل ہونا چاہئے۔مجرم کو مقتول کے ورثاء کے سپرد کر دینے میں ایک طرف یہ فائدہ ہے کہ ارادۂ قتل کرنے والا مجرم اپنا مستقبل خوب سوچ سکتا ہے اور ایسے خطرناک اور ظالمانہ فعل سے پہلے اسے سو بار سوچنا پڑے گا۔ دوسرے ورثاء معانی کا اختیار استعمال کر کے قتل در قتل کے انتقامی سلسلہ سے معاشرے کو بچا سکتے ہیں اور خود بچ سکتے ہیں۔ قانون کی اصل غرض و غایت جو قیام امن ہے معاشرے کو صرف اسی ایک صورت میں کامیاب ہو سکتی ہے۔
آدمیّت احترام آدمی:اسلامی قانون اور اسلام۔ مقنن کی سب سے بڑی امتیازی شان یہ ہے کہ اس نے انسانی جان کے احترام کا وہ معیار قائم کیا ہے۔ جس کی مثال دنیا کے کسی قانون میں نہیں ملتی
﴿الحُرُّ بِالحُرِّ وَالعَبدُ بِالعَبدِ﴾ بنیادی قانون کا اعلان کر کے ''خوں شاہ رنگین تراز معمار نیست'' کا یقین دلایا اور پھر فرمایا کہ ایک قتل ناحق ساری دنیا کو قتل کر دینے کے برابر ہے۔
﴿مَن قَتَلَ نَفسًا بِغَيرِ نَفسٍ أَو فَسادٍ فِى الأَرضِ فَكَأَنَّما قَتَلَ النّاسَ جَميعًا...٣٢﴾... سورة المائدةجس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوائے کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا۔
مومن کو ہتھیار سے اشارہ کرنا بھی انسان کو جہنمی بنا دیتا ہے۔
ایک مرتبہ آپ نے کعبہ کو مخاطب کر کے مجمع عام میں فرمایا:
«ما أطیبک والطیب ریحک. ما أعظمك وأعظم حرمتككوالذي نفس محمد بيده لحرمة المؤمن أعظم عند الله حرمة منك ماله ودمه وأن يظن به خيراً» (بخاری)
تو کیسا سرسبز و شاداب اور تیری خوشبو کیسی خوش ہے۔ تو کیسا عظیم ہے اور تیری امت کس قدر بلند ہے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے۔ یقیناً مومن کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے بڑھ کر عظیم ہے اسی طرح اس کا مال اور اس کا خون۔ ضروری ہے کہ نیک ظن رکھا جائے۔آپ کے اس ارشاد نے انسانی جان کے اتلاف کا وہ خاص چور دروازہ بھی ہمیشہ کے لئے قطعاً بند کر دیا جو عقیدت کے پردوں کے پیچھے انسانی زندگی کے ہر نیک و بد دور میں برابر کھلا رہا ہے۔ اور لوگ اپنے اپنے زعم کے مطابق مقدس مقامات پر دشمن تو رہے ایک طرف اپنے فرزندوں تک کو ذبح کرتے رہے ہیں اور لعنت و نفریں کے بجائے اس درندگی پر تحسین و آفرین کے مستحق ٹھہرتے رہے ہیں۔
دنیا کے ہر قانون میں قانون کے تحت انتظامیہ کے کارکن کسی قتل کے الزام میں ایک شخص کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کر دیتے ہیں۔ عدالت اسے اس الزام سے بری قرار دے دیتی ہے۔ اس کے بعد انتظامیہ نے کبھی اصل قاتل کو تلاش نہیں کیا۔ کیا مقتول بھی اس فیصلہ کے بعد زندہ ہو گیا ہے؟ اور قتل قتل نہیں رہا؟؟ اسلام کا قانون ایسے ناقص انصاف کا قائل نہیں یہاں مجرم خود پیش ہوتا ہے اور پھر سب سے آخری عدالت کا فیصلہ اور فیصلے کا آخری دن بہرحال باقی ہے۔ یہ وہ نظام ہے جو ان فطری حقائق کی بنیاد پر قائم ہوا ہے اور قائم رہنا اس کے لئے مقدّر ہو چکا ہے۔
ہزاروں ہزار درود و سلام ہوں اس محسنِ انسانیت کی مقدس ذات پر جس نے انسانی جان کی حفاظت اور امن امان کے قیام کے لئے صرف ایک بے مثال قانون ہی پیش نہیں کیا بلکہ اس مثالی قانون کے اجراء و نفاذ کے سلسلہ میں وہ وہ سہولتیں پیدا کیں، تحریکیں اُٹھائیں اور اپنی پاک زندگی کے ایسے ایسے عملی نمونے پیش کئے جن سے یہ قانون خود بخود نفاذ و اجراء کی ایک فعال قوت بن گیا۔ ماننے والوں نے مجبور ہو کر نہیں مانا بلکہ مقنن کی موجودگی اور رہنمائی ہی میں اپنے نہ ماننے پر متاسّف ہوئے اور دورِ انکار پر پچھتائے۔
﴿رُبَما يَوَدُّ الَّذينَ كَفَروا لَو كانوا مُسلِمينَ ﴿٢﴾... سورة الحجراَللّٰھُمَّ صل علٰي مُحمّد وعلٰي اٰل مُحمّد صلاة تامًا وبارك وسلم