سرورِ کائنات ﷺ بحیثیت مؤسِّس و مُدبّرِ ریاست

ایک عظیم الشان ریاست کی تاسیس اور تدبیر و تنظیم سرورِ کائنات ﷺ کا حیرتِ انگیز اور لاثانی کارنامہ ہے۔ ایک ایسی شخصیت جسے اپنے ہم وطنوں نے قتل کر دینے کا تہیہ کر رکھا ہو صرف ایک مونس و مدگار رفیقِ سفر کے ساتھ غاروں میں چھپتی، نامانوس اور دشوار گزار راستوں پر چلتی' اپنے وطن سے سینکڑوں میل دور مدینہ میں پناہ گزیں ہوتی ہے۔ وطن سے بے وطن ہونے والی یہ ہستی تائید ایزدی اور اپنی فراست سے ۱ھ میں مدینہ کے چند محلوں پر مشتمل ایک شہری ریاست قائم کرتی ہے۔ یہ ریاست اوسطاً ۲۷۴ مربع میل فی یوم کی بے نظیر سرعت کے ساتھ دس سال کے قلیل عرصہ میں بڑھ کر دس لاکھ مربع میل ہو جاتی ہے۔ پورا عرب جس میں نراج کا دور دورہ تھا اور جس نے ایک جھنڈے اور ایک حکومت کے ما تحت اکٹھا ہونا سیکھا ہی نہیں تھا یکایک پرچم اسلام کے ما تحت متحدو منظم ہو گیا اور اس نے آنحضور ﷺ کی روحانی و سیاسی قیادت کو تسلیم کر لیا۔ قومیت کا بت پاش پاش ہو گیا اور اس کی جگہ پر ایک عالمگیر مسلم برادری کا قیام عمل میں آیا۔ پوری ملت کو ایک معبود، ایک رسول، ایک کتاب، ایک قبیلے اور ایک مرکز پر جمع کر دیا گیا۔ میثاقِ مدینہ کو تحریر صورت دے کر اسے دنیا کا پہلا تحریری دستور بنا دیا گیا۔ عوام اور ریاست کے حقوق و فرائض کا تعین ہوا۔ انصاف اور قانون کی حکومت قائم ہوئی اور قانون کے سامنے مساوات کا اصول وضع ہوا۔ انتظامیہ، مقننہ اور دلیہ کے اصول و ضوابط مرتب ہوئے۔ شوریٰ کی فضیلت قائم ہوئی۔ ریاست کے شہریوں کی معاشرتی، معاشی، تعلیمی، اخلاقی و روحانی اور سیاسی زندگی کے ضابطے وضع ہوئے اور ان کا عملی نفاذ ہوا۔ خارجہ پالیسی کے اصول اور طریقِ کار کا تعین ہوا۔ غیر مسلم اقلیتوں اور مختلف مذہبی جماعتوں سے سلوک اور ان کے حقوق و فرائض کی نشاندہی کی گئی۔ جنگ اور صلح کے قوانین مرتب ہوئے۔ انسانی شرف و عظمت کی حرمت قائم ہوئی۔ الغرض معاشرۂ انسانی کی تشکیل، تعمیر اور فلاح و بہبود نیز ایک صحیح اور اعلیٰ درجہ کی اسلامی فلاحی مملکت کے قیام سلسلے میں جتنے بھی ضروری اقدامات ہو سکتے ہیں، کیے گئے۔ معاشرہ اور ریاست کی اسی تنظیم و تدبر کا اثر تھا کہ جب ربیع الاوّل ۱۱ھ میں سرورِ کائنات ﷺ اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے ہیں تو کم و بیش پورا عرب آپ ﷺ کی سیادت کو تسلیم کر چکا تھا اور دس لاکھ مربع میل پر آپ ﷺ کی حکومت قائم ہو چکی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک مضبوط، متحد، با اخلاق، ایثار و اخلاص کی پیکر رنگ و زبان و نسل کے امتیازات سے بالاتر، ﴿كُنتُم خَيرَ‌ أُمَّةٍ أُخرِ‌جَت لِلنّاسِ تَأمُر‌ونَ بِالمَعر‌وفِ وَتَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ‌ وَتُؤمِنونَ بِاللَّهِ...١١٠﴾... سورة آل عمران" امت و ملت تیار ہو چکی تھی۔ اسی ملت کے افراد نے آنحضور ﷺ کی وفات کے بعد آپ کے شرع کیے ہوئے کام کو جاری رکھا اور پوری نسل انسانی کو توحیدِ خداوندی، وحدتِ نسلِ انسانی، شرفِ انسانیت، عدل و مساوات، رواداری، خوش معاملگی اور دیگر اعلیٰ روحانی، اخلاقی اور انسانی اقدار کی تعلیم دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔

اس وقت کی دنیا کی دو عظیم طاقتوں نے جسے تاریخ ایران ایمپائر اور بازنطینی ایمپائر کے نام سے یاد کرتی ہے، اس نئی ابھرنے والی عالمی اصلاحی و فلاحی تحریک کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا اور اسے دبا دینے اور کچلنے کے سارے حربے استعمال کرنے شروع کر دیئے۔ نتیجہ ملّتِ اسلامیہ اور ان عظیم الشان حکومتوں کی ٹکّر کی صورت میں نکلا۔ لیکن تاریخ، عالم نے یہ نظارہ دیکھا کہ عرب کے ریگزاروں سے اُٹھنے والی یہ ملّت جس کی آبیاری دنیا کو آخری اور مکمل پیغامِ رشد و ہدایت دینے والے ہادیٔ برحق، خاتم الانبیاء کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ دیکھتے دیکھتے ان حکومتوں پر چھا گئی۔ اور آنحضور ﷺ کی وفات کو ابھی پندرہ برس بھی نہیں گزرے تھے کہ ایرانی شہنشاہیت کا مکمل طور پرر خاتمہ ہو گیا اور اس کے تمام مقبوضات پروانِ اسلام کے زیرِ نگیں آگئے۔ باز نطینی شہنشاہیت کا غرور بھی خاک میں مل گیا۔ شام، مصر، فلسطین ان کے ہاتھوں سے چھن گئے اور ایک عظیم اور انسانیت نواز برادری کا حصہ بن گئے۔ اس نئی قائم شدہ اسلامی ریاست کی وسعت ابھی رکھی نہیں۔ آنحضور ﷺ کی وفات کو ابھی پورے سو برس بھی نہیں گزرے تھے کہ مسلمان ا یک ایسی عظیم الشان مملکت کے مالک بن گئے جس کی نظیر پوری تاریخِ عالم میں موجود نہیں تھی۔ عظیم رومی حکومت بھی اپنے انتہائی عروج کے زمانے میں اس وسعت اور عظمت کو نہیں پہنچ سکی تھی۔ اس عظیم حکومت کی سرحدیں مشرق میں چین، مغرب میں فرانس کی خلیج بسکے، شمال میں بحیرۂ آرال اور جنوب میں عدن تک پھیلی ہوئی تھیں۔ اور اس وسیع و عریض سلطنت میں تین برِّاعظموں ایشیاء، افریقہ اور یورپ کے وسیع و عریض اور زرخیز و شاداب خطے شامل تھے اور ان علاقوں میں پھیلی ہوئی لاکھوں مساجد کے میناروں سے روزانہ پانچ مرتبہ محمد عربی ﷺ کے خدائے برتر و بالا کا نام پکارا جاتا تھا اور اسلام کی عظمت و سچائی کی شہادت دی جا رہی تھی۔

آج کم و بیش چودہ برس گزر جانے کے بعد اس عظیم مدبّر اور ہادی کے ماننے والوں کو پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا بالخصوص جبکہ:

1. دنیا کی کم و بیش چوتھائی آبادی آنحضور ﷺ کو اپنے لئے اسوۂ حسنہ سمجھتی ہے اور ان کو دیئے ہوئے قانون کو احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

2. آپ ﷺ کے پیرو مشارق و مغاربِ ارض میں پھیلے ہوئے ہیں۔

3. پرانی دنیا کی اکثر اہم شاہراہوں پر سیاستاً یا سکونتاً انہی کا قبضہ ہے۔

4. پیروانِ اسلام کی اکثریت جنگی نسلوں پر مشتمل ہے۔

5. دنیا کی سب سے مفید اور قیمتی دولت تیل کی پیداوار کا کثیر ترین حصہ انہی کے حصے میں آیا ہے۔

6. یہ ملت عظیم الشان اور قابل رشک تاریخ رکھتی ہے۔

7. یک نسلی نہ رکھنے کی وجہ سے اس ملت کا کوئی نہ کوئی حصہ نئی زندگی کا ثبوت دیتا رہتا ہے۔

8. اور اس کا پھیلاؤ ابھی رکا نہیں۔ اس کے بعض طبقات میں انتہائی ناسازگار مقامات پر زبردست اور منتظم دشمنوں کو شکست دینے کی صلاحیت ابھی باقی ہے۔

یہ سارا فیض اسی ہستی کا ہے جسے تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا تھا اور جسے پوری نسلِ انسانی کی اصلاح، ہدایت اور تعمیر و ترقی کے لئے بھیجا گیا تھا۔

یہاں یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے ایک اسلامی ریاست کی تاسیس اور تنظیم و تدبیر کا جو کام سر انجام دیا اس کو بالتفصیل بیان کیا جائے۔

آنحضور ﷺ ماہِ ربیع الاوّل ۱ھ ؁میں جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو آپ نے تین امور پر اپنی خاص اور فوری توجہ مبذول کی۔

1. مسلمانوں کو یک جا اور متحد ہو کر روحانی و اجتماعی رفعتیں حاصل کرنے کے لئے مسجدِ نبوی کی تعمیر کی۔ اذان کی ابتداء ہوئی اور مسلمان باقاعدگی سے دن رات میں پانچ وقت ایک جگہ پر اکٹھے ہونے شروع ہوئے۔ عبادت کے علاوہ مسجد مسلمانوں کی جملہ سماجی و سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنی۔

2. سرورِ کائنات نے فرمانِ الٰہی﴿إِنَّمَا المُؤمِنونَ إِخوَةٌ...١٠﴾... سورة الحجرات" اور ﴿وَاذكُر‌وا نِعمَتَ اللَّهِ عَلَيكُم إِذ كُنتُم أَعداءً فَأَلَّفَ بَينَ قُلوبِكُم فَأَصبَحتُم بِنِعمَتِهِ إِخو‌ٰنًا...١٠٣﴾... سورة آل عمران" کی عملی مثال قائم کی اور جملہ مسلمانوں میں رشتۂ مواخاۃ قائم کیا۔ یوں یہ بات واضح کر دی گئی کہ رشتۂ اسلام اور حبل اللہ مادی اور خونی رشتوں سے زیادہ وقیع او زیادہ قوی ہے۔ اس رشتۂ اخوت میں کسی قسم کا دنیاوی امتیاز یا قومیت کا امتیاز جس کے مختلف ماہر رنگ، نسل، لسان اور وطن وغیرہ ہیں، حائل نہیں ہو سکتا۔

3. میثاقِ مدینہ طے کر کے آپ ﷺ نے مسلمانوں کی شہری ریاست کا آغاز کیا اور خود اس کے سربراہ تسلیم کر لئے گئے۔

میثاقِ مدینہ:

سرورِ کائنات ﷺ جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے تو آپ ﷺ کے سامنے علاوہ دیگر امور کے مدینہ اور اس کے ساکنانِ قدیم و جدید کے مندرجہ ذیل مسائل فوری توجہ طلب تھے۔

1. مہاجرینِ مکہ کی آبادی و رہائش اور روزگار کا انتظام۔ نیز قریشِ مکہ سے مہاجرین کو پہنچے ہوئے نقصان کا بدلہ۔

2. اپنے اور مقامی باشندوں کے حقوق و فرائض کا تعین۔

3. شہر کے غیر مسلم عربوں اور خاص کر یہود سے سمجھوتہ۔

4. شہر کی سیاسی تنظیم اور اس کے تحفظ و دفاع کا کام۔

انہی مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے آنحضور ﷺ نے ہجرتِ مدینہ کے چند ماہ بعد ہی مدینہ کے شہریوں کی رضا مندی سے ایک دستاویز مرتب فرمائی جسے میثاقِ مدینہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر حمید اللہ کی تحقیق کے مطابق یہ میثاق دنیا کا سب سے پہلا تحریری دستور تھا ۔ اس ددستور کے ترپن جملے یا دفعات تھیں۔ یہ میثاق پورے کا پورا ابنِ اسحاق، ابنِ ہشام اور صاحبِ کتاب الامول ابو عبید القاسم بن سلام نے اپنی کتابوں میں محفوظ کر رکھا ہے ۔ میثاق کی پہلی ۲۳ دفعات مہاجرین و انصار سے متعلق قواعد پر مشتمل ہیں اور بقیہ حصہ مدینے کے یہودی قبائل کے حقوق و فرائض سے بحث کرتا ہے۔ ان دونوں میں ایک جملہ دہرایا گیا ہے کہ آخری عدالتِ مرافعہ محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات ہو گی۔ اختصار پسندی کے پیش نظر ذیل میں اس معاہدہ کی چند اہم دفعات کا ذکر کیا جاتا ہے۔

یہ نوشتہ یا دستاویز ہے۔ محمد ﷺ کی طرف سے جو نبی ہیں، قریش اور اہلِ یثرب میں سے ایمان داروں، اطاعت گزاروں نیز ان لوگوں کے درمیان جو ان کے تابع ہوں، ان کے ساتھ شامل ہو جائیں اور ان کے ہمراہ جہاد میں حصہ لیں۔

(۱) دوسرے لوگوں کے بالمقابل وہ ایک امت (سیاسی وحدت) ہوں گے۔

(۲-۱۰) قریشی مہاجرین، بنو عوف، بنو ساعدہ، بنو جشم، بنو حارث، بنو نجار، بنو النّبیب، بنو عمرو بن عوف اور بنو اوس اپنے اپنے دستور کے مطابق خوں بہا ادا کریں گے اور ہر گروہ اپنے قیدی خود فدیہ دے کر چھڑائے گا تاکہ ایمانداروں کا برتاؤ باہم نیکی اور انصاف کا ہو۔

(۱۱) اور ایمان دار لوگ کسی مفلس اور زیر بار شخص کو مدد دیئے بغیر نہ چھوڑیں گے تاکہ اس کا فدیہ یا خوں بہا بخوبی ادا ہو سکے۔

(۱۳) اور متقی، ایماندار ہر اس شخص کی مخالفت پر کمربستہ رہیں گے جو ان میں سے سرکشی کرے، ظلم، گناہ یا زیادتی کا مرتکب ہو یا ایمان دار لوگوں میں فساد پھیلائے۔ ان سب کے ہاتھ ایسے شخص کی مخالفت میں ایک ساتھ اُٹھیں گے خواہ وہ ان میں سے کسی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔

(۱۷) ایمانداروں کی صلح ایک ہی ہو گی۔ اللہ کی راہ میں ہو تو کوئی مومن کسی دوسرے مومن کو چھوڑ کر دشمن سے صلح نہیں کرے گا جب تک یہ صلح سب کے لئے برابر نہ ہو۔

(۲۱) اور کوئی مشرک قریشِ مکہ کو یا ان کے مال کو پناہ نہیں دے گا اور نہ ہی اس سلسلے میں کسی اہلِ ایمان کے لئے رکاوٹ بنے گا۔

(۲۲) جو شخص کسی مومن کو ناحق قتل کرے گا اور گواہوں سے اس کا ثبوت مل جائے گا تو اس سے قصاص لیا جائے گا۔

(۲۴) اور جب کبھی تم میں کسی چیز کے متعلق اختلاف پیدا ہو تو اللہ تعالیٰ اور محمد ﷺ کی طرف رجوع کیا جائے گا۔

(۲۶) اور بنی عوف کے یہودی، ایمانداروں کے ساتھ ایک امت (سیاسی وحدت) تسلیم کیے جاتے ہیں۔ یہودی اپنے دین پر رہیں۔ مسلمان اپنے دین پر رہیں خواہ وہ موالی ہوں یا اصل البتہ جو لوگ ظلم اور جرم کے مرتکب ہوں گے وہ اپنی ذات یا گھرانے کے سوا کسی کو ہلاکت و فساد میں نہیں ڈالیں گے۔

(۲۷-۳۶) مندرجہ بالا حقوق دیگر یہودی قبائل کو حاصل ہوں گے۔

(۳۷) اور یہ کہ ان میں (یہود) سے کوئی بھی محمد ﷺ کی اجازت کے بغیر جنگ کے لئے نہیں نکلے گا۔

(۴۲) یہودی اس وقت تک مصارف برداشت کرتے رہیں گے جب تک وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر شریکِ جنگ رہیں گے۔

(۴۶) اس صحیفہ کو قبول کرنے والوں کے درمیان کوئی نیا معاملہ یا جھگڑا پیدا ہو جس پر فساد رونما ہونے کا خطرہ ہو تو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف اور اس کے رسول محمد ﷺ کی طرف لوٹایا جائے گا۔

(۴۷) نہ قریش کو پناہ دی جائے گی اور نہ اس شخص کو جو ان کا معاون ہو۔

(۴۸) اگر کوئی یثرب پر حملہ آور ہو تو ان معاہد فریقوں پر ایک دوسرے کی امداد و نصرت لازم ہو گی۔

(۵۲) اس معاہدہ کی خلاف ورزی ظالم اور مفسد کے سوا اور کوئی شخص نہیں کر سکتا۔ جو شخص مدینہ میں خلوص اور امن کے ساتھ سکونت رکھے یا خلوص اور امن کے ساتھ کسی دوسری جگہ منتقل ہونا چاہئے اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ لیکن فساد اور شرارت کرنے کے لئے قیامِ مدینہ اور یہاں سے ترکِ سکونت دونوں پر گرفت ہے۔

(۵) جو شخص متقی، بھلائی کا طلب گار اور عہد و اقرار میں وفا شعار ہے، اللہ اور محمد رسول اللہ ﷺ بھی اس کے حامی و خیر اندیش ہیں ۔

اس دستاویز کے مندرجات پر ایک سرسری نظر سے ہی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس کی بدولت آنحضور ﷺ نے اپنے لئے عدالتی، تشریعی، فوجی، تنفیذی اور دیگر سیاسی اختیارات محفوظ فرما لئے اور ایک شہری ریاست کی بنیاد رکھ دی۔

دورِ حاضر میں ریاست کے تین اہم شعبے یا اعضاء بیان کیے جاتے ہیں جن کو انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ اگر ریاست کی اس تقسیم کو سامنے رکھتے ہوئے سرورِ کائنات ﷺ کے مبارک عہد کا جائزہ لیا جائے تو مندرجہ ذیل امور کا پتہ چلتا ہے۔

انتظامیہ:

آنحضور ﷺ انتظامیہ کے سربراہ تھے۔ اور اس نصب العینی امامت و خلافت کو عملی شکل دینے والے تھے جس کا ذِکر خالقِ کائنات نے قرآنِ حکیم میں کیا ہے۔ آپ ﷺ کی شخصیت جملہ مذہبی و سیاسی اختیارات کی حامل تھی۔ اسلام کا تحفظ و نفاذ، اجرائے قوانینِ اسلامی، صلاح و فلاحِ عامہ، والیوں اور عمال کا تقرر، فوجوں کی تنظیم و قیادت، قبائل کی خانہ جنگی کا انسداد، اقتصادی انتظامات، اجرائے فرامین، امورِ خارجہ۔ دیگر اقوام و مصالحت و معاہدے، عہدہ داروں کی خبر گیری اور احتساب، نو مسلموں کے انتظامات، تبلیغی خطوط و وفود ارسال کرنا، تعلیم کا بندوبست اور دیگر اہم امور آپ ﷺ ہی کی نگرانی میں سر انجام پاتے تھے۔ عام ملکی قانون قرآنِ حکیم تھا یہ جوں جوں نازل ہوتا جاتا ہادیٔ برحق نبی کی حیثیت سے اس کا ابلاغ کرتے جاتے اور منتظم و سربراہِ ریاست و حکومت کی حیثیت سے اس کا نفاذ کرتے چلے جاتے تھے۔

ریاست کے جو معاملات دین (عبادات) سے تعلق نہیں رکھتے تھے ان میں مشورہ کے لئے باقاعدہ مجالس منعقد کی جاتی تھیں اور باہم تبادلۂ خیال کے بعد کسی نتیجہ پر پہنچا جاتا تھا۔ اہم امور میں باہمی مشاورت کا اصول بنیادی اور مستقل حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ قرآنِ حکیم نے﴿وَشاوِر‌هُم فِى الأَمرِ‌...١٥٩﴾... سورة آل عمران" اور ﴿وَأَمرُ‌هُم شور‌ىٰ بَينَهُم...٣٨﴾... سورة الشورىٰ" کے واضح ارشادات سے شوریٰ کو لازوال اور مستقل حیثیت دے دی تھی۔ اسی تعلیم اور آنحضرت ﷺ کے عمل نے اسلامی نظامِ سیاست میں اس اصول کو ایک مضبوط رکن کی حیثیت دے دی۔

مقنّنہ:

جیسا کہ پہلے بیان ہوا اس نوزائیدہ مملکت کا آئین و قانون اللہ تعالیٰ کی کتاب تھی جو نازل ہو رہی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے رسول اور نمائندے سرورِ کائنات ﷺ جو مہبطِ وحی و الہام تھے وہ موجود تھے اور یہ آئین و قانون لوگوں تک پہنچا رہے تھے اور اس کا نفاذ عمل میں لا رہے تھے۔ یوں آپ ﷺ کی ذاتِ واحد ہی مقننہ اور اس کی سربراہ تھی۔ مسائلِ شرعیہ میں افتاء کا کام اور معاملات و مذہب میں اجتہاد کا سلسلہ اگرچہ شروع ہو چکا تھا لیکن ابھی اس کا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی۔

قرآنِ حکیم کی تشریح، اس کے اجمال کی تفصیل، اسلامی روح کے مطابق مسائل کا حل اور قوانین و ضوابط کا وضع کرنا آنحضور ﷺ کے ہی دائرہ اختیار میں تھا۔ یہی تشریحات اور آپ ﷺ کا عمل بعد میں سنت کے نام سے موسوم ہوا اور قانونِ اسلامی کا دوسرا بنیادی ماخذ قرار پایا۔

عدلیہ:

آنحضور ﷺ نے عدل کا جو تور دیا اور اس پر عمل کی جو تصویر پیش کی وہ پوری تاریخِ انسانی میں لازوال حیثیت کی حامل ہے۔ وحیٔ الٰہی کی زبان میں آپ ﷺ نے نسلِ انسانی کو یہ بتایا کہ انصاف ہر قسم کی نفرت یا دشمنی، لالچ یا خوف اس میں حائل نہیں ہونے چاہئیں۔ قرآنِ حکیم کے یہ ارشادات:

(الف)﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا كونوا قَوّ‌ٰمينَ بِالقِسطِ شُهَداءَ لِلَّهِ وَلَو عَلىٰ أَنفُسِكُم أَوِ الو‌ٰلِدَينِ وَالأَقرَ‌بينَ...١٣٥﴾... سورة النساء

(ب) ﴿وَإِذا قُلتُم فَاعدِلوا وَلَو كانَ ذا قُر‌بىٰ ۖ وَبِعَهدِ اللَّهِ أَوفوا...١٥٢﴾... سورة الانعام

(ج) ﴿وَلا يَجرِ‌مَنَّكُم شَنَـٔانُ قَومٍ عَلىٰ أَلّا تَعدِلُوا ۚ اعدِلوا هُوَ أَقرَ‌بُ لِلتَّقوىٰ...٨﴾... سورة المائدة

اور اسی قسم کی دوسری تعلیمات اور آنحضور ﷺ کی احادیث اور اسوۂ حسنہ عدل و انصاف کی افادیت، حیثیت اور عظمت کو بیان کرتی ہیں اور عدل کے راستے میں جتی ممکن رکاوٹیں ہو سکتی ہیں ان کے سدِ باب کی تلقین کرتی ہیں۔ اسلام کی رو سے قانون و عدالت کے سامنے ایک عام اور معمولی شہری سے لے کر سربراہِ مملکت تک سبھی مساوی ہیں۔ اس میں ادنیٰ و اعلیٰ، امیر و غریب، خویش و بیگانہ، قریبی و غیر، دوست و دشمن، راعی و رعایا کی قطعاً کوئی تمیز نہیں ہے۔ سرورِکائنات نے عدل و انصاف کا جو عملی معیار قائم کیا اس کو سمجھنے کے لئے صرف ایک مثال ہی کافی ہے اور وہ یہ ہے کہ خاندانِ قریش کی ایک ذی اثر خاتون نے چوری کا ارتکاب کیا۔ اس کی رہائی کے لئے بڑی مؤثر اور عظیم سفارشیں آنحضور ﷺ کے پاس بھیجی گئیں۔ اس پر بھی آپ ﷺ نے یہ فیصلہ صادر کیا۔ 'تم سے پہلے ایسے لوگ ہلاک کر دیئے گئے اور وہ عذابِ الٰہی کے سزاوار بنے۔ کیونکہ جب ان میں سے کوئی سربر آوردہ شخص چوری کرتا تو وہ اس کو معاف کر دیتے لیکن اگر کوئی غریب اور کمزور ایسا کرتا تو اس پر حد جاری کرتے۔ خدا کی قسم! اگر فاطمہؓ محمد ﷺ چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کٹوا دیتا۔'

عہدِ نبوی میں عدلیہ کی سربراہ عدالتِ عالیہ خود آنحضور ﷺ کی ہی ذات تھی۔ قاضیوں کا تقرر اور انہیں عدالتی و اصولی ہدایات دنیا آپ ﷺ ہی کے فرائض میں داخل تھا۔ معاذؓ ابن جبل کا یمن کے قاضی اور والی کی حیثیت سے تقرر اس پہلو پر واضح روشی ڈالتا ہے۔

عسکری تنظیم:

مضمون کا یہ حصہ ڈاکٹر حمید اللہ کے مندرجہ ذیل الفاظ سے شروع کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

The Prophet's empire, which commenced with a few streets of a small city-state, expanded at the average rate of 274 square miles daily; and after ten years of political activity, when he breathed his last, he was ruling over a million square miles. This area, as big as Europe minus Russia, and inhabited certainly by millions of people at that time, was conquered at a cost of barely 150 men killed on the battlefields on the enemy side. Loss of Muslims was at the rate of one martyr a month for a period of ten years at an average. This respect of human blood is unequalled in the annals of man. Moreover, the firmness of occupation, the mental transformation of the conquered and their complete assimilation, and the production of such trained officers who in a bare fifteen years after the death of the leader delievered millions of square miles from bellum omnium contra omens to enjoy the pax Islamica and similar phenomena arouse in us an intense curiosity to study the wars of the time of prophet. These wars of the Prophet had nothing in common, except the name, with our mundane wars and we see in his wars the truth of his own saying: "I am the Prophet of Battle, I am the Prophet of Mercy"!

1. Dr. Hamidullah, The Battlfields of the Prophet Muhammad – (England, 1953), P.5.

کتاب و سنت کی رو سے اسلامی تصور جنگ کے بارے میں جن اہم باتوں کا پتہ چلتا ہے ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:

1. جنگ ظلم و استبداد کے انسداد کی خاطر، ظالم کو اس کے ظلم سے روکنے دینے یا اس کا پنجۂ ستم توڑ دینے کے لئے اور مظلوم، ضعیف و ناتوان افرادِ انسانیت کی حمایت کی خاطر لڑی جا سکتی ہے۔

2. فتنہ و فساد کے خاتمے کے لئے بھی جنگ کی اجازت ہے۔

3. ملت و ریاست کے تحفظ و دفاع کی خاطر کہ جب غنیم آپ پر حملہ آور ہو یا حملہ کی تیاری کر رہا ہو، دشمن سے جنگ چھیڑنے کی اجازت ہے۔

4. فریقِ مخالف پر زیادتی نہیں کی جائے گی اور صلح کو ہر حال میں ترجیح دی جائے گی۔

پیغمبرِ اسلام ﷺ نے مدینہ منورہ میں دس سال کے اندر کم و بیش انیس جنگی محاذوں پر امیر الافواج کے فرائض بذاتِ خود سر انجام دیئے اور پینتیس فوجی مہموں کے لئے امراءِ فوج کا تقرر فرمایا۔ طریقۂ جنگ میں مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی۔ فوجوں میں صف بندی کا طریقہ رائج کیا۔ محاذ کی تشکیل دینے کا اسلوب سمجھایا۔ فوجی علم دینے کا سلسلہ رائج کیا۔ پیدل فوج میں فولاد پوش دستوں کی تیاری پھر اسپ سوار دستوں کا تیار کرنا۔ سالارِ افواج کی حفاظت اور اطاعتِ امیر کے اصول اور دوسری ضروری باتیں مسلمانوں کو سمجھائی گئیں۔ احد کے معرکے میں آپ ﷺ نے پہلی مرتبہ سو سپاہیوں کی زرہ پوش پلٹن قائم کی اور اس کو اتی ترقی دی کہ فتح مکہ کے موقع پر آپ کی پوری فوج جس کی تعداد دس ہزار تھی زرہ پوش مجاہدین پر مشتمل تھی اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ آدمی لوہے کے سمندر یں تیر رہے ہیں۔

وہ امور جن کی بنا پر آنحضرت ﷺ دیا کے عظیم ترین سپہ سالاروں میں لاثانی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک فوجی ماہر کے نقطۂ نگاہ کے مطابق یہ تھے۔

1. شخصی اخلاق و کردار کے وہ تمام اوصاف و محاسن جو ایک سپہ سالار میں موجود ہونا ضروری ہیں اور جنہیں زمانۂ جدید کے دفاعی ماہرین اس کی شخصیت کا فکری منتہائے کمال سمجھتے ہیں، آنحضرت ﷺ کی ذات میں بہ تمام و کمال موجود تھے۔ قدیم و جدید فوجی ماہرین کی رائے میں سپہ سالار کو اعلیٰ خصائل کا حامل، شخصی طور پر قابلِ تعظیم اور حکومت کی اہلیت کا مالک ہونا چاہئے۔ اس کے دل و دماغ، عزم و اعتماد، عقل و شعور، استقلال و سلامت روی انصاف پروری اور اعتدال پسندی کی خوبیوں سے متصف ہوں۔ اسے زندہ دل، جفا کش بے خوف اور بے باک ہونا اہئے۔ اسی طرح مصائب کے مقابلے میں ثابت قدم رہنا، غور و خوض کا عادی ہونا، نیز مردم شناس ہونا تاکہ وہ اپنے آدمیوں اور دشمن کو صحیح طور پر سمجھ سکے۔

2. آنحضرت ﷺ نے قلیل ترین مدت میں مسلمانوں کے اندر اعلیٰ درجہ کا لشکری ضبط و نظم، بہترین حربی استعداد، عزم و حوصلہ، بے نفسی و خود اعتمادی، جفاکشی و ایثار، اطاعت شعاری و فرمانبرداری، اخوّت و مساوات کی بے مثال خوبیاں پیدا کر کے انہیں منظم و مرتب فوج بنا دیا تھا۔

3. آنحضرت ﷺ نے آنے والے حالات کا اندازہ کر کے مدینہ سے ینبوع اور ینبوع سے مکہ تک فوجی نقل و حرکت کر کے مجاہدین کر ہر نشیب و فراز کا مشاہدہ کرایا۔ تاکہ وہ اس کے دشوار گزار راستوں، پگڈنڈیوں، چشموں اور غاروں وغیرہ سے اچھی طرح واقف ہو جائیں اور جب لڑائی کا وقت آئے تو نقل و حرکت میں کسی قسم کی دشواری نہ ہو۔

4. آنحضرت ﷺ نے مجاہدین کو اسلحہ استعمال میں ماہر بنایا۔ انہیں بلا تکان رات ہو یا دن، منزلِ مقصود پر پہنچنے کی عادت ڈالی اور ان میں فوجی راز کو راز رکھنے کی قابلیت پیدا کی۔

5. فوجوں کو عَلم عطا فرما کر آپ ﷺ نے سارے عرب میں اپنی دفاعی فضیلت کا اعلان کیا۔ سیاسی طور پر یہ منافقین پر بہت کاری ضرب تھی۔ فوجوں میں صف بندی اور مہمات پر روانگی سے قبل ان کا معائنہ آپ ﷺ کی بہت اہم کارروائی تھی۔ جن سے سیاسی و فوجی نظم و استحکام میں بہت زیادہ مدد ملی۔

6. مکہ میں نامہ نگار متعین کیا۔ جو خفیہ طور پر آپ ﷺ کو وہاں کے حالات سے باخبر رکھتا۔ ایک طرف آپ ﷺ فوجی دستوں اور جاسوسوں کے ذریعے حالات معلوم فرماتے دوسری طرف خبر رسانی کا بھی انتظام رکھتے۔

7. اس کے ساتھ اپنے شہری باشندوں اور فوجی آدمیوں کو اپنی نقل و حرکت کے راز رکھنے کا پابند بنایا۔ فوجی دستوں کو قبل از وقت کبھی یہ معلوم نہ ہوتا تھا کہ وہ کتنے عرصے کے لئے اور ہاں جا رہے ہیں۔

8. فوج کی تکمیل و تربیت کے ساتھ آپ ﷺ نے سیاسی پہلوؤں کی تکمیل کا بھی پورا بندوبست فرمایا۔ مدینہ کے شہریوں کو منظم کیا جو قبائل ایک دوسرے کے خون کے پیاسے اور دشمن تھے اور مذہبی اختلافات اور ذاتی بعض و عداوت کی وجہ سے چھوٹی چھوٹی ٹولیوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے تھے، ان سب کو مجتمع کیا اور نہ صرف زمانۂ امن کے لئے باہمی اعتماد کا رشتہ قائم کیا بلکہ جنگ کے زمانہ کے لئے بھی عہد و پیمان کرائے۔ تمدّن و معاشرت کا معیار بدلا۔ حقوق و فرائض کا ایسا ضابطہ مرتب فرمایا کہ اتحاد و محبت کا دور دورہ ہو گیا۔ امن و اعتماد کی فضا سے تجارت نے فروغ پایا۔ معیشت کا نظام بلند ہوا۔ اندرونی اختلافات دور کرنے کے بعد آپ ﷺ نے خارجی سیاست پر توجہ فرمائی۔ تبلیغ کے لئے پہلے گرد و نواح کے علاقے میں پھر حجاز کے دور افتادہ قبائل کے پاس تشریف لے گئے۔ ان کو اس خوبی سے اپنے مشن کے مقاصد سمجھائے کہ وہ ہمدرد بن گئے اور اگر مسلمان نہ ہوئے تو غیر جانبداری اختیار کر لی۔ تبلیغ کے راستے ہموار ہو گئے۔ آپ ﷺ کے اخلاقِ حسنہ کا ان پر بہت زیادہ اثر ہوا۔

مدینہ کے اندر اتنا عمدہ نظام قائم ہو گیا کہ آپ ﷺ کی اور فوج کی غیر موجودگی میں بھی کامل امن و امان رہتا اور سب لوگ آپ کے نائب کے احکام کی اطاعت کرتے۔

9. فوجی اور شہری انتظامات کی تکمیل کے بعد آپ ﷺ نے خارجی سیاست کا حربہ استعمال کیا اور اہلِ مکہ کی تجارت ختم کرنے کے ذریعہ عمل میں لائے۔ ابتدا میں قریش نے اس خطرہ سے محفوظ رہنے کے لئے ساحل کے متوازی راستے اختیار کیے۔ مگر ان پر چل کر ان کے منافع کی مقدار بہت کم ہو گئی۔ اور سامانِ خوراک بڑی دقت سے اور گراں قیمت پر ملنے لگا۔ اس لئے انہوں نے جنگ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس طرح سے مشرکین کی عسکری حرکت کے لئے سازگار نہ تھے اور یہی وہ وجہ تھی جن کی بنا پر آپ نے کفار و مشرکین کے کئی کئی گنا بڑے لشکروں کو شکست فاش دی مشرکین کو جنگ میں سبقت بھی کرنی پڑی اور ہر دفعہ شکست کھا کر ہتھیار بھی ڈالنے پڑے۔

اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ:

آنحضور ﷺ نے دیگر مذاہب کے متعلق اور غیر مسلم اقلیتوں کے باے میں جو ضابطہ مرتب فرمایا وہ رواداری اور رحمت کے اصول پر مبنی تھا۔

اسلامی تعلیمات کی رو سے اسلامی معاشرے میں مذہب و عقیدہ کی پوری آزادی ہے۔ قرآنِ حکیم میں تمام انبیاء کا، خواہ ان کا نام لیا گیا ہے یا نہیں، ایک سا احترام کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اسلامی ریاست اس امر کی پابند ہے کہ وہ تمام اقلیتوں کی جان، مال، آبرو و دیگر بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کا مکمل اہتمام کرے۔ قرآنِ حکیم کی یہ تعلیم کہ﴿لا إِكر‌اهَ فِى الدّينِ﴾اور آنحضور ﷺ کو یہ تلقین ﴿أَفَأَنتَ تُكرِ‌هُ النّاسَ حَتّىٰ يَكونوا مُؤمِنينَ ٩٩﴾... سورة يونس"مذہب کے معاملے میں زبردستی اور جبر و اکراہ کو سختی سے روکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنے تئیں ربّ العالمین اور رحمان و رحیم ہونے کا اعلان کیا ہے وہاں رسول اکرم ﷺ کو رحمۃٌ للّعالمین کا خطاب دے کر پوری نسلِ انسانی سے مسلمانوں کے رحیمانہ سلوک کی نشان دہی کی ہے۔

اقلیتوں کے بارے میں سرورِ کائنات ﷺ کی واضح، رحیمانہ اور انصاف پر مبنی پالیسی کا پتہ میثاقِ مدینہ اور آپ ﷺ کے جاری کردہ فرامین و عہد ناموں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔آنحضور ﷺ کے اقلیتوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کے حقوق کے تحفظ کا اگر صرف ایک واقعہ بیان کرنا ہو تو وہ اہلِ نجران کے عیسائی پادریوں کا واقعہ ہے جو وفد کی صورت میں مدینہ آئے تھے۔ آنحضور ﷺ نے انہیں مسجدِ نبوی میں ٹھہرایا تھا۔ انہیں ان کے طریق کے مطابق عبادت کی اجازت دی تھی۔ مذہب پر ان کے ساتھ تبادلۂ خیال کیا تھا لیکن ان کے انکار پر انہیں حقوق کی ادائیگی کے بارے میں مکمل تحفظ کا یقین دلایا تھا۔ نجران کے پادریوں کے لئے ایک فرمان جو آپ ﷺ نے جاری فرمایا تھا اس کی عبارت کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے:

''بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ من جانب محمد نبی ﷺ بنام ابو حارث بشمول نجران کے دیگر پادری، راہب اور کاہن۔

1. سب اپنی اپنی جائیداد کے خود مالک ہیں۔

2. ان کے گرجے، عبادت خانے اور خانقاہوں کی حفاظت خدا کے ذمے ہے۔

3. ان کے پادری اور راہبوں کو ان کے طریقِ عبادت اور کاہنوں کو ان کے کام سے نہ ہٹایا جائے گا اور نہ ہی ان کے حقوق میں مداخلت کی جائے گی۔

ان امور پر ایفائے عہد کی ذمہ داری بھی خدا اور رسول پر ہے بشرطیکہ یہ لوگ ہمارے ساتھ کئے ہوئے معاہدے کی خود بھی پابندی کریں اور ہماری خیر طلبی پر قائم رہیں تب انہیں کسی قسم کی مزید زیر باری سے دوچار کیا جائے گا اور نہ ہی ان پر کسی کا ظلم روا رکھا جائے گا۔

شہریوں کے بنیادی حقوق کا تعین و تحفظ:

ہادیٔ برحق کا یہ طرۂّ امتیاز ہے کہ اس نے پوری نسلِ انسانی کو اس کے بنیادی انسانی حقوق سے نہ صرف یہ کہ آگاہ کیا بلکہ ایک ایسی ملت کی تشکیل کی جو ان حقوق کا تحفظ کرنے والی تھی۔ رنگ، خاندان، نسل، وطن اور لسان کی بنیاد پر برتری، فوقیت اور استحصال کو ختم کرتے ہوئے وحدت و مساواتِ نسلِ انسانی کا عملی سبق دیتے ہوئے عربی و عجمی، کالے، گورے، گندمی و زرد رنگ، حبشی و غیر حبشی، رومی و ایرانی، ترک و ہندی کا امتیاز ختم کر دیا اور وجہِ فضیلت فقط کردار کی مضبوطی اور اہلیت کو قرار دیا۔ جملہ انسانوں کو بحیثیت انسان محترم اور مساوی قرار دیا گیا۔ اور ان کے جان، مال اور آبرو کے تحفظ کی ضمانت دی گئی۔ مملکتِ اسلامیہ میں بسنے والے مسلمانوں کے حقوق و فرائض کی نشاندہی کرتے ہوئے ہی آنحضور ﷺ نے حجۃّ الوداع کے موقع پر کہا تھا: لوگو! تمہارے خون، تمہارا مال، اس دِن، اس ماہ اور اس شہر کی حرمت کی طرح حرام ہے تآنکہ تم اپنے رب سے جاملو۔ کیا میں نے بات پہنچا دی! اے اللہ گواہ رہنا۔ جس شخص کے پاس کوئی امانت ہو وہ جس کی امانت ہے اسے لوٹا دے۔ جاہلیت کا سود میرے پاؤں تلے ہے۔ پہلا سود جس سے میں اس حکم کا آغاز کرتا ہوں میرے چچا عباس بن عبد المطلب کا سود ہے۔ جاہلیت کا خون منسوخ ہے اور اس ضمن میں پہلا خون جسے ہم معاف کرتے ہیں۔ عامر بن ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کا ہے۔ جاہلیت کے اعزازت ختم کئے جاتے ہیں۔ بجز خدمتِ کعبہ اور حجاج کو پانی پلانے کے۔ قتلِ عمد میں قصاص ہو گا اور شبہ عمد کہ کسی کو لاٹھی یا پتھر سے مار ڈالا جائے اس میں سو اونٹ دینے ہوں گے۔ جو اس پر اضافہ کرے گا وہ اہلِ جاہلیت میں سے ہے۔ کیا میں نے بات پہنچا دی۔ اے اللہ گواہ رہنا۔ پھر فرمایا! اے لوگو تمہاری عورتوں کا تم پر حق ہے اور تمہارا ان پر حق ہے۔ تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی دوسرے کو نہ آنے دیں اور تمہاری اجازت کے بغیر کسی ایسے آدمی کو تمہارے گھر نہ آنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو۔ اور کوئی بے حیائی کا کام نہ کریں۔ .......................................

اللہ کی امانت کے طور پر تم نے انہیں حاصل کیا اور اللہ کے کلمہ سے تمہار لئے ان سے تمتع جائز ہوا۔ عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو اور ان کے ساتھ بھلائی کا سلوک کرو۔ کیا میں نے حقِ تبلیغ ادا کر دیا! اے اللہ! گواہ رہنا۔ پھر فرمایا جو شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے یا جو غلام اپنے موالی کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنا مولا قرار دے اس پر اللہ کی لعنت، فرشتوں کی اور سب انسانوں کی لعنت۔ اس سے کوئی بدلہ اور معاوضہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ والسلام علیکم۔

عورتوں کے حقوق:

معاشرے کی ترقی و استحکام کے لئے اسلام ضروری سمجھتا ہے کہ افراد کی گھریلو زندگی بھی پر سکون، با سلیقہ اور منظم ہو۔ اسی لئے قرآنِ حکیم اور رسولِ اکرم ﷺ کی احادیث میں ایک اعلیٰ درجہ کے نظامِ منزل کے قیام کی تعلیم دی گئی ہے۔ اور مرد، عورت اور بچوں کے حقوق و فرائض کی وضاحت کی گئی ہے۔ نکاح، مہر، نان و نفقہ، وراثت، طلاق وغیرہ سے متعلق مسائل پر اچھی طرح سے روشنی الی گئی ہے۔ اسلام نے مرد اور عورت کے باہمی رشتہ کو باعثِ سکون و مودّت اور رحمت قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ''وَمِنْ اٰیَاتِه اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْا اِلَيْھَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَّرَحْمَةً (۲۱:۳۰) (اور یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کر سکو اور تمہارے درمیان دوستی اور رحمت پیدا کی)

بنی نوعِ انسان پر اسلا م کا یہ خاص احسان ہے کہ اس نے عورت کو ایک بلند اور باعزت مقام عطا کیا ہے۔ عورت بحیثیت ماں، بہن، بیوی، یا بیٹی غرضیکہ ہر حالت میں قابلِ احترام ہے۔ اسلامی معاشرے میں جہاں ''اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَاءِ'' (مرد عورتوں کے قوام ہیں) القرآن (۳۴:۴) کی تعلیم کے تحت مرد کو منتظم اور مدبّر کی حیثیت حاصل ہے، وہاں﴿يـٰأَيُّهَا النّاسُ اتَّقوا رَ‌بَّكُمُ الَّذى خَلَقَكُم مِن نَفسٍ و‌ٰحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنها زَوجَها وَبَثَّ مِنهُما رِ‌جالًا كَثيرً‌ا وَنِساءً...١﴾... سورة النساء" (اے لوگو! اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کیے رہو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور پھر اس سے اس کا جوڑا بنایا اور ان سے مرد و عورت پھیلائے) کے تحت مرد و عورت حقوق میں برقرار دیئے گئے ہیں۔ اسلام نے ﴿وَلَهُنَّ مِثلُ الَّذى عَلَيهِنَّ بِالمَعر‌وفِ...٢٢٨﴾... سورة البقرة" (اور ان پر (عورتوں) کے حقوق ہیں ویسے ہی جیسے ان پر (مردوں) کے حقوق ہیں) کی تعلیم دے کر عورتوں کے حقوق اور ان کے منصب کی حفاظت کی ہے۔

منزلی زندگی کی استواری کے ضمن میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد «خیرکم خیرکم لإھله وأنا خيركم لأھلي» (تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لئے بہترین ہے اور میں اپنے عیال کے حق میں بہترین ہوں) (رواہ ترمذی و دارمی، مشکوٰۃ المصابیح کتاب النکاح) بھی بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اور ایک اسلامی گھرانے کا نقشہ کھینچ کر سامنے رکھ دیتا ہے۔

ناظمِ حکومت اور مدبّرِ ریاست کی حیثیت سے ہی آنحضور ﷺ نے ریاست کی اقتصادی تنظیم، تعلیمی تنظیم کا فریضہ سر انجام دیا اور خارجہ پالیسی کے اصول و ضوابط وضع کیے، طوالت کے خوف سے ان پہلوؤں کی تفصیل ان شاء اللہ کسی دوسری فرصت پر ملتوی کرتا ہوں۔


حوالہ جات

ڈاکٹر حمید اللہ، عہدِ نبوی میں نظامِ حکمرانی (حیدر آباد دکن، تاریخِ طباعت نا معلوم) صفحات 77-78)

ابن ہشام، السیرۃ النبویہ (اردو ترجمہ) از مولانا عبد الجلیل (لاہور) ج ۱ ص 516-524۔ نیز دیکھیے ڈاکٹر حمید اللہ، الوثائق السیاسیہ۔

حوالے کے لئے دیکھیے سیرت ابن ہشام ج ۲، صفحات 516 – 524، نیز الوثائق السیاسیہ۔

حوالے کے لئے دیکھیے: القرآن الحکیم ۲۲: ۳۹-۴۰، ۷۵:۴، ۱۸۶:۲۸-۱۸۹، ۱۹۰:۲، ۶۱:۸

مزید تفصیل کے لئے دیکھیے میجر جنرل محمد اکبر خاں، حدیث دفاع (لاہور ۱۹۵۴ء) صفحات ۱۳۹-۱۴۱، اسلامی طریقِ جنگ (لاہور ۱۹۵۹ء)

ڈاکٹر حمید اللہ، سیاسی وثیقہ جات (اردو ترجمہ) لاہور ۱۹۶۰ء، ص ۹۹

ابن ہشام، السیرۃ النبویہ ج ۴ ص ۲۵۰، جاحظ، البیان والتبیین ج ۲ ص ۲۴