رسولِ اکرم ﷺ بحیثیت منصف اور قانون ساز

جب کسی جج کے پاس کوئی مقدمہ پیش ہو تو وہ پہلے یہ دیکھتا ہے کہ آیا کسی نافذ شدہ قانون کی بنا پر مقدمے کا فیصلہ ہو سکتا ہے۔ اگر کسی قانون کا اطلاق ہوتا ہو۔ تو وہ قانون پر فیصلہ کر دیتا ہے۔ لیکن اگر قانون اس مقدمے کا فیصلہ کرنے کے لئے کافی نہ ہو تو پھر جج انصاف کے اصول تلاش کرتا ہے یعنی قانون میں جو خلا ہو اس کو انصاف سے پُر کرتا ہے۔ اور کسی انصاف کے اصول کی بنا پر فیصلہ کر دیتا ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ کے پاس جب کوئی مقدمہ پیش ہوتا تو حضور ﷺ پہلے یہی دیکھتے کہ آیا قرآن کے کسی حکم سے مقدمہ کا فیصلہ ہو سکتا ہے اگر ہو سکتا تو حضور ﷺ قرآن کی بنا پر فیصلہ کرتے۔ اگرچہ ایسا بھی ہوتا کہ آپ ﷺ اپنے حکم کے ذریعے قرآن کے احکام کی تشریح یا تاویل کر دیتے۔ لیکن اگر اس معاملہ کے متعلق قرآن کی کوئی نصّ موجود نہ ہوتی تو حضور ﷺ خود اس پر حکم صادر فرماتے کیونکہ حضور ﷺ خود شارع تھے۔ یا جو کچھ حضور ﷺ کی رائے میں انصاف ہوتا، اس کے مطابق فیصلہ کرتے۔ چنانچہ جو تشریح یا تاویل حضور ﷺ نے نصِّ قرآن کی کی، یا جو حکم حضور ﷺ نے خود صادر فرمایا۔ یا جس انصاف کے اصول کو حضور ﷺ نے نافذ کر دیا، وہ ہمارے لئے قانون ہے۔ اسی طرح بجائے کسی مقدمے کے اگر کوئی معاملہ حضور ﷺ کے روبرو پیش ہوا جس میں احکام جاری کرنے کی ضرورت تھی۔ تو جیسی صورت مقدمہ کے فیصلہ کی تھی، ایسی ہی صورت اس معاملہ کے فیصلہ کی بھی ہوئی اور اسی طرح حضور ﷺ کی تشریح، (تاویل) احکام یا نافذ کردہ اصول ہمارے لئے قانون بن گئے۔ یہ ضروری نہیں کہ حضور ﷺ نے واضح الفاظ میں کوئی قانون نافذ کیا ہو۔ حضور ﷺ کے عمل سے جو لازمی نتیجہ پیدا ہوا ہو وہ بھی قانون ہے۔

ظاہر ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ کی قانون سازی کا موضوع بہت وسیع ہے۔ چند صفحات میں تو یہی ہو سکتا ہے کہ اس میں کے کچھ حصوں پر تبصرہ کر دیا جائے۔ حصوں کا انتخاب میں اس نقطۂ نگاہ سے کروں گا کہ موجودہ حالات میں کس قانون کی طرف توجہ مبذول کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔

1. سب سے پہلے میں اُن مشہور ہدایات کا ذِکر کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو دی تھیں۔ جب ان کو یمن کا حاکم مقرر کیا تھا۔ حضور ﷺ نے حضرت معاذ بن جبلؓ سے دریافت کیا کہ ''کوئی معاملہ پیش ہو گا تو کیسے فیصلہ کرو گے۔'' حضرت معاذ بن جبلؓ نے جواب دیا۔ ''کتاب اللہ کے مطابق۔'' حضور ﷺ نے سوال کیا ''اگر کتاب اللہ میں کوئی حکم موجود نہ ہو؟'' حضرت معاذ بن جبلؓ نے کہا ''تو سنتِ رسول اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔'' سوال ہوا ''اور اگر اس میں بھی کوئی حکم موجود نہ ہو۔'' جواب تھا ''تو میں اجتہاد کرں گا۔'' حضور ﷺ نے دعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے۔ اور فرمایا، تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں، جس نے اللہ کے رسول ﷺ کے قاصد کو ہدایت دی۔''

اس حدیث کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ اجتہاد کی بنیاد ہے۔ لیکن یہ صرف اجتہاد کی بنیاد ہی نہیں اس میں مسلمان اولی الامر کے متعلق مفصل ہدایت موجود ہے۔ اس حدیث کی رُو سے فیصلہ کیا جائے گا کہ کیا والیٔ امر اسلام پر قائم رہا؟ اس نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی یا نہیں؟ اس کا حکم شریعت کے مطابق ہے یا شریعت کے خلاف۔

میری رائے میں اس حدیث سے مندرجہ ذیل نتائج پیدا ہوئے:

(الف) کہ والیٔ امر کی نیت کیا ہونی چاہئے۔ جس وقت وہ کوئی حکم صادر کرے۔ یہ لازم ہے کہ اس کی نیت یہ ہو کہ وہ قرآن کا پابند ہے اور پہلے قرآن و سنت سے تلاش کرے کہ اس قضیہ میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا کیا حکم ہے اور اگر اس کو قرآن و سنت میں صاف حکم نہ ملے۔ تو وہ کوشش کرے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں صراطِ مستقیم دریافت کرے۔ والیٔ امر کے لئے لازم ہے کہ ایسی ہی اس کی نیت ہو۔ کیونکہ اعمال کا خیر و شر نیت سے متعین ہوتا ہے۔ اگر اولی الامر کا ارادہ ہی نہ ہو کہ قرآن و سنت کی پابندی کرے تو اگرچہ محض اتفاق سے اس کا عمل قرآن و سنت کے مطابق ہو جائے تاہم اس کی نافرمانی تو باقی ہی رہے گی۔ جب اللہ کی اطاعت کا ارادہ نہ ہو تو محض اس وجہ سے کوئی عمل درست نہیں ہو پاتا کہ نفسانی خواہشات کی بنا پر جو عمل کیا جا رہا ہے فی الواقع وہی ہے جس کا اللہ نے بھی حکم دیا ہے۔ جس عمل کا محرک اللہ کی اطاعت نہیں بلکہ نفسِ امارّہ ہے، وہ جہاں تک عذاب و ثواب کا تعلق ہے، درست عمل نہیں ہے۔ اگر آپ خیرات کریں اور نیت صاف اس سے کسی انسان کو راضی کر کے اس سے مالی فائدہ اُٹھانے کی ہو۔ تو خیرات، خیرات نہ رہے گی۔

(ب) یہ کہ عمل کا قرآنِ پاک کے مطابق ہونا لازم ہے۔ اور جہاں ایک نتیجہ اس کا یہ ہے کہ قرآن کے مخصوص احکام کی پابندی ہو گی دوسرا نتیجہ یہ بھی ہے کہ اس کے عام احکام کی پابندی بھی لازم ہو گی۔ قرآن پاک بار بار معروف کا حکم دیتا ہے۔ اولی الامر کو خاص طور پر ہدایت کرتا ہے کہ وہ معروف کا حکم دیں۔ ﴿الَّذينَ إِن مَكَّنّـٰهُم فِى الأَر‌ضِ أَقامُوا الصَّلو‌ٰةَ وَءاتَوُا الزَّكو‌ٰةَ وَأَمَر‌وا بِالمَعر‌وفِ وَنَهَوا عَنِ المُنكَرِ‌ ۗ وَلِلَّهِ عـٰقِبَةُ الأُمورِ‌ ﴿٤١﴾... سورة الحج" لہٰذا والیٔ امر خود بھی معروف کا پابند ہو گیا۔ اور اس امر کا بھی پابند ہوا کہ دوسروں کو معروف کا حکم دے۔ یعنی ایک محکمہ بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے قائم کرے۔ معروف وہ عمل ہے جس کو اسلامی ذہن رکھنے والا معاشرہ قبول کرے یعنی وہ عمل جو جمہور مسلمانوں کی رائے میں صحیح ہو جب کہ وہ اس عمل کے متعلق کوئی ذاتی خواہش نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کے ذاتی مفاد اس سے وابستہ ہیں۔ رسول اکرم ﷺ نے بھی فرمایا ہے ''جسے مسلمان اچھا سمجھیں اللہ کے نزدیک وہی اچھا ہے۔'' سو والیٔ امر معروف کا پابند ہو گا اور اس کا کوئی عمل جو معروف کے خلاف ہو، جائز نہ ہو گا اور لوگوں پر اس کے حکم کی پابندی لازم نہ ہو گی۔ کیونکہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا ہے «لَا طَاعَةَ لمخلوق في معصية الخالق» البتہ مسلمان اس کو بہانہ نافرمانی کا نہیں بنا سکتے۔ معروف ایسا عمل ہے جس کے متعلق کوئی شک و شبہ نہیں ہوتا اور کسی بحث کی اس میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ سوائے اس کے کہ کوئی انسان غلط نیت سے خواہ مخواہ ایک تنازعہ پیدا کرے۔

(ج) جہاں والیٔ امر سنت کا پابند ہوگا۔ وہاں اجماع بھی پابند ہو گا۔ کیونکہ رسولِ اکرم ﷺ کے ارشاد کے بموجب اجماع صحیح ہے۔ اور لہٰذا قابلِ پابندی۔

(د) والیٔ امر کا صاحب اجتہاد ہونا بھی لازم ہے۔ اگر وہ اجتہاد کی قابلیت نہیں رکھتا تو اللہ و رسول کا منشا تو پورا نہ ہوا۔

2. تنازعات کے فیصلے کے متعلق حضور ﷺ نے حکم دیا کہ جب تک دونوں فریقوں کو سن نہ لیا جائے۔ فیصلہ ادر نہ کیا جائے۔ یہ حکم حضور ﷺ نے حضرت علیؓ کو دیا تھا۔ جب ان کو یمن کا عامل بنا کر بھیجا۔ ایک اور موقع پر حضور ﷺ نے حکم دیا کہ مدعی اور مدعا علیہ حاکم کے سامنے بیٹھیں۔ اس حکم کا نتیجہ بھی یہی ہے کہ دونوں سے برابری کا سلوک ہو اور دونوں کو سنا جائے۔

یہ اصول کہ کسی کے خلاف فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک اس کو سن نہ لیا جائے، اُن اصولوں میں سے ہے، جن کو فی زمانہ قدرتی انصاف کے اصول کہا جاتا ہے۔ یہ اصول آپ کو پاکستان، ہندوستان، انگلستان کے فیصلہ میں ملے گا۔ اور عام طور پر تمام مہذب ممالک کے قوانین میں ہو گا۔ البتہ اشتراکی ملکوں کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ کیونکہ پاکستان کی موجودہ حکومت نے بہت سے سرکاری ملازموں کو بغیر نوٹس اظہارِ وجوہ موقوف کر دیا تو ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ریٹائر ججوں نے ایک قرار داد منظور کر کے حکومت کو بھیجی تھی جس میں لکھا گیا تھا کہ اسلامی انصاف کے اصولوں کے مطابق ان ملازمین کا حق ہے کہ ا ن کو موقع صفائی کا مہیا کیا جائے۔ اسلامی انصاف کا جب ذکر ججوں نے کیا تو ان کا اشارہ رسول اکرم ﷺ کی مندرجہ بالا حدیثوں کی جانب تھا۔ لیکن حکومت کے ایک وزیر نے بیان دیا کہ یہ اصول کہ ملزم کو صفائی کا موقع ملنا چاہئے ایک بورژوائی اصول ہے۔ اسی بیان کی وجہ سے میں کہتا ہوں کہ ممکن ہے اشتراکی ممالک اس اسلامی اصول کو قبول نہ کرتے ہوں۔

3. دوسرا اصول جو رسولِ اکرم ﷺ نے تنازعات کے فیصلہ کے متعلق قائم کیا وہ یہ تھا کہ تنازعہ کا فیصلہ ریکارڈ پر ہوتا ہے۔ یعنی اس مواد کی بنا پر ہوتا ہے۔ جو مواد حاکم یا قاضی کے سامنے بطور حاکم یا قاضی آئے۔ ادھر ادھر کی باتیں سن کر یا کسی ایسی شہادت سے متاثر ہو کر، جو حاکم کے سامنے بطور حاکم نہیں آئی، فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اصول بھی مہذب اقوام نے قبول کر لیا ہوا ہے (سوائے کمیونسٹ ممالک کے) اور یہ مسلمہ ہے۔ اس کی دو بنیادیں ہیں۔ اول یہ کہ قانونِ شہادت کی اقسام معین کر دیتا ہے اور ان اقسام کے علاوہ مواد کو قبول نہیں کرتا۔ دوسرے یہ کہ جو مواد حاکم کے پاس بطورِ حاکم پیش نہیں ہوا، اس کی تردید کا موقع فریقِ مخالف کو نہیں ملتا۔ اور یہ ناجائز ہے کہ تردید کا موقع فریقِ مخالف کو نہیں ملا۔ اور یہ ناجائز ہے کہ تردید کا موقع مہیا کیے بغیر کسی کے خلاف کوئی شہادت قبول کر لی جائے۔

یہاں رسولِ اکرم ﷺ کے اس فرمان کا ذکر کر دینا بھی مناسب ہو گا کہ اگر کسی نے غلط فیصلہ کرا لیا۔ تو اس نے صرف آگ کا ٹکڑا خریدا۔ جو چیز ایک فریق کے لئے حرام تھی، فیصلہ کے ذریعے حلال نہ ہو جائے گی۔ فیصلہ تو محدود مواد پر ہوتا ہے اور اس بحث پر ہوتا ہے جو حاکم کے سامنے کی جائے۔ اور یہ ہو سکتا ہے کہ جو فریق حق پر نہیں وہ اس وجہ سے مقدمہ جیت جائے کہ اس نے مواد بہتر پہنچایا یا اس کی بحث زیادہ اثر پیدا کرنے والی تھی۔

4. انسانی برابری کا عملی نمونہ اسلام نے دنیا کے روبرو پیش کیا۔ اسلام سے پہلے یورپ انسای برابری کا قائل ہی نہ تھا۔ یونانی تہذیب نے انسانوں کو چار طبقات میں تقسیم کیا ہوا تھا۔ اور رومن تہذیب نے تین طبقات میں۔ یہ دونوں تہذیبیں غلاموں کو شیروں کے آگے ڈالتی تھیں۔ عیسائیت نے بھی غلاموں کو قانوناً جائز تسلیم کیا۔ اور غلاموں کو ہدایات دیں کہ وہ اپنے مالکوں کی پوری اطاعت کریں۔ غلامی کا جواز یہ بتایا کہ انسان چونکہ گنہگار ہو گیا تھا اس لئے اس کو گناہ کی سزا مل رہی ہے۔ اسلام نے آکر انسانوں کو یکسر برابر کر دیا۔ برابری انصاف کا سب سے بڑا اصول ہے اور سچ یوں کہ انصاف کی عمارت کی بنیاد برابری ہی ہے۔ حضور ﷺ نے مسلمانوں کو قصاص اور دِیت میں بھی برابر کر دیا۔ قرآن پاک نے فرمایا کہ وجہِ تکریم تقویٰ ہے۔ نسل و رنگ وغیرہ کی بنا پر کوئی فوقیت کسی کو حاصل نہیں اور یہی حضور ﷺ نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں فرمایا۔ اسلام نے انسانوں کو حقوق میں برابر کر دیا، اس کے متعلق حضور ﷺ کا ایک مسلسل طرزِ عمل ہے۔ جب غزوۂ خندق کے موقع پر مسلمان خندق کھود رہے تھے تو حضور ﷺ خود اپنے سر پر ٹوکری اٹھاتے تھے۔ جب مسلمانوں نے اعتراض کیا تو فرمایا: ''کیا میں تمہارا بادشاہ بن کر بیکار رہوں؟'' ایک دفعہ حضور ﷺ مسلمانوں کی ایک قطار ٹھیک کر رہے تھے۔ چھڑی حضور ﷺ کے ہاتھ میں تھی، ایک مسلمان کی پیٹھ پر لگ گئی۔ اس نے کہا حضور ﷺ میں قصاص لوں گا۔ حضور ﷺ نے پیٹھ کو ننگا کیا اور فرمایا لے لو۔ اس نے بڑھ کر مہرِ نبوت چوم لی، لیکن حضور ﷺ نے تو پیٹھ پیش کر ہی دی تھی۔ اس سلسلے میں سب سے اہم رسولِ اکرم ﷺ کا چوری کے ایک مقدمہ کے متعلق ردِ عمل ہے۔ ایک اونچے گھرانے کی عورت نے چوری کی۔ جو لوگ اس کو حد سے بچانا چاہتے تھے انہوں نے حضرت اسامہ بن زیدؓ کو سفارشی بنا کر حضور ﷺ کے پاس بھیجا۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ اسامہؓ تو اللہ کی حدود میں سفارش کرتا ہے؟ اس پر حضرت اسامہؓ نے فوراً کہا ''یا رسول اللہ مجھے معاف فرمائیے مجھ سے خطا ہوئی۔'' پھر حضور نے خطبہ ارشاد فرمایا۔ اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا۔ ''لوگو تم سے پہلے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہوئے کہ جب ان میں سے کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو اس سے درگزر کرتے۔ اور جب کوئی کمزور آدمی ایسے فعل کا مرتکب ہوتا۔ تو اس کو سزا دیتے۔ قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اگر فاطمہؓ بنت محمد ﷺ پر بھی یہ جرم وارد ہوتا تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ ڈالتا۔''

برابری کی جو مثال حضور ﷺ نے قائم کی، اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اگر خدانخواستہ فی الواقع حضرت فاطمہؓ کسی چوری کی مرتکب ہوتیں۔ تو ساری امت کہتی کہ ان کو ایسی سزا نہ دی جائے بلکہ امت کے کسی فرد کی جرأت ہی نہ ہوتی کہ ایسی سزا کا ذکر کرے۔ لیکن حضور ﷺ جو کچھ فرما رہے تھے اس میں کوئی مبالغہ نہ تھا۔ اور حضور ﷺ وہی کرتے جو حضور ﷺ نے زبانِ مبارک سے فرمایا۔ یہ درست ہے کہ ایسا واقع ہونے کا کوئی احتمال نہ تھا لیکن حضور ﷺ نے ایک مثال بیان کر کے انسانوں کی قطعی برابری پر مہر ثبت کر دی۔ اسی طرزِ عمل کا نتیجہ وہ برابری تھ جس کا ہم نے بعد میں مشاہدہ کیا۔ ہمارے خلیفہ یا بادشاہ نے کبھی قاضی کے سامنے پیش ہونے پر اعتراض نہیں کیا۔ حضرت عمرؓ پیش ہوئے، حضرت علیؓ پیش ہوئے۔ خلیفہ مامون الرشید، سلطان مراد، محمد بن تغلق وغیرہ پیش ہوتے رہے۔ جہاں تک امیر کے سزا سے بچنے کا تعلق ہے، حضرت عمرؓ نے اپنے بیٹے کو بھی سزا دی حالانکہ یہ سزا مصر میں بھی، ان کو دی جا چکی تھی صرف وہ سزا لوگوں کے سامنے نہ دی گئی تھی۔ اس لئے حضرت عمرؓ کی رائے کے مطابق شریعت کا منشا پورا نہ ہوا تھا۔ اسی سزا کے نتیجہ میں حضرت عمرؓ کا بیٹا جاں بحق ہو گیا۔ اسی طرح حضرت عمرو بن العاصؓ کے بیٹے کو بھی مصر سے بلوایا جب ان کو معلوم ہوا کہ ان کو سزا نہیں دی گئی۔ حضرت عمرو بن العاصؓ کے بیٹے نے ایک قبطی کو مارا تھا۔ حضرت عمرؓ نے قبطی کو بلایا اور اپنے سامنے حضرت عمرو بن العاصؓ کے بیٹے کو اس سے مروایا۔ اور ساتھ ساتھ کہتے جاتے تھے۔ ''مار بڑوں کی اولاد کو۔''

ہمارے موجودہ آئین کے مطابق صدر اور گورنر کسی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہو سکتے۔ چاہے وہ جتنے انسانوں کو چاہیں قتل کر دیں۔ جس قدر روپیہ چاہیں غبن کر لیں۔ غرض کہ چاہے کیسا بھی جرم کریں۔ جب تک وہ صدر یا گورنر ہیں۔ ان سے کوئی باز پرس نہیں ہو سکتی۔ یہ ملحدانہ تصورات کا اثر ہے۔ ورنہ کہاں اسلام اور کہاں اس قسم کے امتیازات حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ، خلیفہ مامون الرشید، سلطان مراد سب عدالت میں پیش ہو سکتے ہیں لیکن پاکستان کے گورنر اور صدر نہیں ہو سکتے۔ حضرت عمرؓ کا محاسبہ تو قوم اتنے جرم پر بھی کر سکتی ہے کہ ان کی قمیص دوسروں سے تھوڑی سی لمبی تھی۔ اور خود حضرت عمرؓ نے جب سوال کیا کہ اگر میں نے فی الواقع قمیص کا کپڑا زیادہ لے لیا ہوتا تو تم کیا کرتے تو اس کا ان کو جواب ملا کہ یہ تلوار ہے اس سے تیرا سر قلم کرتے۔ اور حضرت عمرؓ نے اللہ کا شکر ادا کیا تھا کہ اگر وہ غلطی کریں تو ان کو قتل کرنے والے موجود ہیں۔ لیکن جہاں وہ اپنی قمیص کی لمبائی کے بھی جوابدہ تھے، ہمارے حاکم قتل کے بھی جوابدہ نہیں۔ اس موقع پر حضرت معاذ بن جبلؓ کی صلح کی گفتگو بھی یاد آگئی ہے، جو انہوں نے رومیوں سے کی تھی۔ رومیوں نے کہا ہمارا بادشاہ بڑی طاقت والا، بڑی شان و شوکت والا ہے۔ حضرت معاذ بن جبلؓ نے جواب دیا۔ تمہارا بادشاہ ایسا ہو گا۔ ہمارا بادشاہ ہم میں سے ایک ہے اگر وہ چوری کرے ہم اس کا ہاتھ کاٹ دیں۔ اگر وہ زنا کرے تو ہم اس کو سنگسار کر دیں۔ اور جب ہم اس کے پاس کسی کام کے لئے جاتے ہیں تو اس کا فرض ہے کہ ہماری سنے ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ عدالت کے روبرو پیش ہونے سے ہماری عزت کم نہیں ہوتی بلکہ بڑھتی ہے، اگر حضرت عمرؓ وغیرہ قاضی کے روبرو پیش ہوئے تو کیا ان کی عزت کم ہوئی۔ یا تاریخ میں انہوں نے اپنا مقام پیدا نہیں کیا؟ آج ہمیں اس امر کا احساس نہیں کہ ہم اس قسم کا قانون وضع کر کے اسلام پر دھبّہ لگا رہے ہیں۔ اس ملک کا بیان کردہ مذہب اسلام ہے تو کیا اسلام اس قسم کا امتیاز روا رکھتا ہے؟ آئین سے تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ روا رکھتا ہے۔

5. حجۃ الوداع کے موقع پر رسولِ اکرم ﷺ نے مسلمانوں کو ان کے حقوق کا پرواہ عطا فرمایا۔ حکم دیا کہ سب کی جان و مال، عزت اسی طرح حرام ہے جیسے اس ماہ کی حرمت، جس میں حج ہو رہا تھا۔ اس حکم کا نتیجہ ہے کہ کوئی فرد یا گروہ یا حکومت کسی مسلمان کی جان، مال یا عزت پر حملہ نہیں کر سکتے۔ اقوامِ متحدہ نے تو ۱۹۴۸ء میں انسانی حقوق کا اعلان کیا ہے اور رسول اکرم ﷺ نے آج سے چودہ سو سال پہلے انسانی حقوق کا اعلان کر دیا تھا۔ یہ اعلان فرد کے حقوق کو قبول کرتا ہے۔ اور حکومت کے اختیارات پر حد قائم کرتا ہے۔ اس معاملہ میں اسلام اور اشتراکیت ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اشتراکیت سرے سے انسان کا کوئی حق تسلیم ہی نہیں کرتی وہ تمام حقوق حکومت کو دیتی ہے۔ جس کا اختیار ہے کہ جس فرد کی چاہے جان لے لے اور جس فرد کا چاہے مال لے لے۔ اشتراکی ممالکت کی مقننہ کے قانون سازی کے اختیارات انسانی حقوق سے محدود نہیں ہوتے اور وہ جیسا چاہے قانون وضع کر سکتی ہے۔ اس کے خلاف جمہوری ممالک میں مقننہ کے اختیارات محدود ہیں۔ وہ مال لیں تو معاوضہ ادا کریں گی۔ وہ کسی کی جان نہیں لے سکتے سوائے اس کے کہ ایک قانون ہے جس کے ما تحت سوائے مستثنیات کے افراد معاشرہ فوجی خدمت پر مجبور ہوتے ہیں۔

6. قانون سازی کی ایک واضح مثال ہمیں رسولِ اکرم ﷺ کے ان احکام میں بھی ملتی ہے جس کے ذریعے انہوں نے حاکم یا قاضی کو نکاح کی تنسیخ کا اختیار دیا۔ قرآنِ پاک میں یہ وضاحت کسی جگہ نہیں کی گئی کہ حاکم یا قاضی کو اختیارِ تنسیخ نکاح حاصل ہے۔ قرآن پاک میں تو صرف نکاح اور طلاق کا ذِکر ہے۔ لیکن رسولِ اکرم ﷺ کی حدیثوں سے کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ حاکم یا قاضی کو یہ اختیار حاصل ہے اور اب تو شرعِ محمدی ﷺ کا یہ ایک مسلمہ اصول سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ اس وقت پاکستان کے قانون کے مطابق ایک نکاح متعدد وجوہات کی بنا پر منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر زوجہ کو گزارہ دو سال سے زائد مدت نہ دیا جائے یا خاوند عادتاً بے رحمی کا مرتکب ہو یا عورت کی جائیداد پر قبضہ کرے تو عدالت نکاح کو منسوخ کر سکتی ہے۔ ایک حدیث تو اس بارے میں رسول اکرم ﷺ کی یہ ہے کہ ''اگر نکاح قائم رکھیں اور اس سے بے انصافی ہوتی توہو تو نکاح منسوخ کر دیا جانا چاہئے۔'' اس کے علاوہ دو واقعات ہیں جن میں حضور ﷺ نے نکاح کے ختم کرنے کا خود حکم دیا۔ وہ دونوں واقعات ثابتؓ بن قیس سے تعلق رکھتے ہیں۔ ثابت بن قیسؓ کی بیوی جمیلہؓ نے صرف اس بنا پر نکاح سے خلاصی چاہی کہ اس کا خاوند بدشکل ہے اور وہ اس کے ہمراہ نہیں رہ سکتی۔ حضور ﷺ نے حکم دیا کہ ''جمیلہؓ وہ باغ، جو اسے ثابتؓ بن قیس نے دیا تھا، واپس کر دے اور ثابت اس کو طلاق دے دے۔'' دوسرا واقعہ ثابتؓ بن قیس کی دوسری بیوی حبیبہؓ کا ہے اس نے بھی اس بنا پر نکاح سے خلاصی طلب کی کہ وہ ثابتؓ کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ حضور ﷺ نے ثابتؓ کو جو اس نے دیا ہوا تھا واپس دلوا دیا وار ثابتؓ کو حکم دیا کہ حبیبہؓ کو طلاق دے دے۔

7. رسولِ اکرم ﷺ نے یہ حکم دے کر کہ متوفی اور میراث پانے والے کا دین ایک ہی ہونا چاہئے، دینی رشتہ کی اہمیت ثابت کی اور یہ واضح کر دیا کہ جو ہمارے دین پر نہیں اس کے اور ہمارے درمیان کس قسم کا رشتہ ہے۔ مسلمان کا وارث صرف مسلمان ہو سکتا ہے۔ اور مسلمان غیر مسلم کا وارث نہیں ہو سکتا۔ نیز حضور ﷺ نے یہ بھی حکم دیا کہ قاتل مقتول کا وارث نہیں ہو سکتا۔ تاکہ کوئی انسان اپنے جرم سے فائدہ نہ اُٹھائے اور اپنے ہر ناجائز فعل کا خمیازہ بھُگتے۔

میں نے چند امور کی وضاحت مثال کے طور پر کی ہے۔ اگر پوری تشریح حضور ﷺ کے احکام کی کی جائے تو بہت وقت درکار ہے۔


حاشیہ

اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ فیصلہ، حکم، تشریح و تاویل حضور کی اپنی طرف سے ہوتی تھی اور بس! لہٰذا آپ ﷺ شارع تھے، تو ٹھیک نہیں کیونکہ یہ (اِنِ الْحُكُمُ اِلَّا لِلهِ اور وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْي یُّوْحى وغیرہ) آیاتِ قرآنیہ کے خلاف ہے ہاں اگر آپ ﷺ اس حیثیت سے شارع تھے کہ بظاہر احکام آپ ﷺ کی طرف سے صادر ہوتے تھے جو در حقیقت اللہ کی طرف سے وحی کے بعد یا وحی کے تحفظ (عصمت) کے تحت صادر ہوتے تھے تو پھر آپﷺ کو شارع کہنا ٹھیک ہے لیکن یہ کہنا مجاز ہو گا حقیقی نہیں۔ (مدیر)