ہستیٔ بے مثال ﷺ

حُسنِ یوسف، دمِ عیسی یدِ بیضاداری!
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری!

یہ شعر وصفِ نبی ﷺ کے بارے میں انتہائی بلیغ سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی مدحتِ رسول کا قرار واقعی حق ادا نہیں کرتا۔ کیونکہ رسالت مآب کی بہت سی خصوصیات ایسی ہیں جو کسی دوسرے نبی میں نہیں پائی جاتیں اسے آپ آنحضرت کی بے مثالیت کہہ لیں یا کچھ اور نام دے دیں۔ بہرحال یہ ہیں آپ کی ذات کے ساتھ ہی مخصوص۔ کہیں اور آپ کو یہ کیفیت نظر نہیں آتی۔ گویا فضیلت نبوت کی آپ معراج کمال ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے۔ ﴿تِلكَ الرُّ‌سُلُ فَضَّلنا بَعضَهُم عَلىٰ بَعضٍ﴾ یعنی رسولوں میں بھی ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ اس اعلان کا منطقی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ایک نبی ایسا بھی ہونا چاہئے کہ جس پر کسی کو فضیلت حاصل نہ ہو اور ایسے نبی محمد رسول اللہ ﷺ ہی ہیں۔ ہمارے اس دعوے کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ آپ خاتم الانبیاء بھی ہیں۔ آپ کے بعد کوئی دوسرا نبی نہیں آیا اور نہ قیامت تک آئے گا گویا آپ کی ذات میں تکمیل نبوت ہو گئی۔ ہر کمال کے بعد زوال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مصلحت نے نبوت کو زوال سے بچانے کے لئے اسے ابد الاباد تک کے لئے معدوم قرار دے دیا تاکہ زوال کے عیب سے بے نیاز ہو جائے۔ چنانچہ اس کمالِ دین اور منتہائے نبوت کے بارے میں ارشاد فرمایا ﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَ‌ضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا﴾ یعنی آج کے دن دینِ انسایت مکمل کر دیا گیا اور یہ نعمتِ عظمیٰ اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ ظاہر ہو گئی اور انسان کے لئے اسلام دین کے طور پر اللہ تعالیٰ نے پسند فرما لیا۔ کی ہم نبوت کی تاریخ میں کوئی ایسا نہیں پاتے ہیں جس کو ساری انسانیت کے لئے نبی بنا کر بھیجا گیا ہو اور جس پر نبوت کا خاتمہ کیا گیا ہو۔ اور جس کو خود اللہ تعالیٰ نے یہ سند دی ہو کہ آج دین کی نعمت کی تکمیل کر دی اور اب اس میں ابد تک کوئی اضافہ نہ کیا جائے گا۔ حضرت یعقوب یہود کے لئے مبعوث ہوئے۔ حضرت موسیٰ بھی یہود کے نبی مقرر ہوئے۔ حضرت عیسیٰ کی ملّت بھی مخصوص رہی۔ ایک خاص علاقے کے لئے تھے اور ایک مخصوص دور کے لئے۔ ان حضرات کی نبوت زمان و مکان کی حدود میں مقید تھی لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت قید زمان و مکان سے ماورا ہے۔ اب وہ ہر ملک، ہر ملت اور ہر دور کے لئے راہنما ہے، یہ نبی کریم ﷺکی عدیم المثالی ہے۔

اب دوسری مثال معجزے کی لے لیں۔ دوسرے تمام انبیاء کو جو معجزات دیئے گئے وہ وقتی تھے اور غالباً اس کی مصلحت یہ تھی کہ ان کا مشن بھی وقتی تھا اور خاص حلقے کے لئے تھا۔ ہر دَور اور ہر ملّت کے لئے نہیں تھا۔ چنانچہ حضرت موسیٰ کو ید بیضا کا معجزہ عطا ہوا یا ان کا عصا سانپ بن گیا یا دریائے نیل ان کے لئے دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ یہ سب وقتی چیزیں تھیں جن کا اثر وقوعے کے بعد ختم ہو گیا۔ یہی حال حضرت عیسیٰؑ کے معجزات کا تھا کہ اندھوں اور کوڑھیوں کو اچھا کر دینا، حضرت عیسیٰؑ کی زندگی تک تھا اور خاص حلقے تک محدود تھا ان کے بعد ان چیزوں کا اثر ختم ہو گیا۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ کو کتابیں بھی دی گئیں لیکن یہ کتابیں معجزہ بنا کر پیش نہیں کی لیکن نہ تو خود ان کتابوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ہماری حیثیت ایک معجزے کی ہے اور نہ ان انبیاء نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ہماری یہ کتابیں معجزے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لیکن نبی کریم ﷺ کو جو معجزہ عطا ہوا وہ قرآنِ کریم ہے ایک تو یہ ہ قرآن ابدی کتاب ہے خود خدا نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے، فرمایا ﴿إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ‌ وَإِنّا لَهُ لَحـٰفِظونَ ﴿٩﴾... سورة الحجر" یعنی ہم نے ہی یہ 'ذکر' نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔'' اس کے علاوہ بھی کئی دوسری آیات میں یہ ذمہ لیا گیا ہے اور اس کا یہ نتیجہ ہے کہ آج تک قرآن میں ایک لفظ کی بھی تبدیلی ممکن نہیں ہو سکی ہے اور دوست و دشمن سب اس قرآنی خصوصیّت کو تسلیم کرتے ہیں اور یہی اس بات کا بھی واضح ثبوت ہے کہ یہ کتاب آخری کتاب اور اس کی شریعت آخری شریعت اور اس کا حامل نبی آخری نبی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ خود قرآن نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ میں ایک معجزے کی حیثیت سے نازل ہوا ہوں اگر کسی میں ہمت ہے تو میری مثال پیدا کر کے دکھائے فرمایا:﴿فَأتوا بِسورَ‌ةٍ مِن مِثلِهِ وَادعوا شُهَداءَكُم مِن دونِ اللَّهِ إِن كُنتُم صـٰدِقينَ ﴿٢٣﴾... سورة البقرة" یعنی اگر تم خیال کرتے ہو کہ یہ خدا کا کلام نہیں ہے تو تم سب مل کر ایک سورت ہی ایسی لکھ لاؤ۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ قرآن کا یہ چیلنج آج بھی ڈیڑھ ہزار سال گزرنے کے بعد اسی طرح اپنی جگہ پر قائم ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مسیلمہ اور متنبی وغیرہ نے کوشش کی لیکن خود ان کے حامیوں نے ہی ان کی ہفوات کو حقارت سے ٹھکرا دیا اور آج ان کا کہیں نام بھی سننے میں نہیں آتا۔ صرف تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے۔ گویا معجزہ بھی آپ کو لاثانی ہی عطا فرمایا گیا۔

امت کے لحاظ سے اگر آپ نبی کریم ﷺ کی ذات پر نظر ڈالیں تو فوراً احساس ہوتا ہے کہ اس باب میں بھی کوئی آپ کا مد مقابل نہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس امت کا دین کامل اور اکمل ہے۔ دوسرے یہ کہ ابدی ہے اب اس میں کسی بنیادی تبدیلی کا امکان نہیں۔ یہ ایک بہت بڑا شرف ہے۔ اس کے علاوہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس امت کو دو بڑی خصوصیّات بیان کی ہیں ایک تو یہ ہے کہ یہ امت اپنی نوعیت اور کیفیت کے لحاظ سے 'امت وسط' ہے یعنی اس کی زندگی کے اصول و قوانین درمیان کا اراستہ اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور زندگی کے ہر شعبے میں افراط و تفریط سے بچاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں دنیا کے جتنے ادیان پر آپ نظر ڈالیں فوراً یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ اکثر معاملات میں وہاں افراط و تفریط کی قباحت نظر آتی ہے یعنی توازن و اعتدال غائب ہے مثلاً عیسائیت کہتی ہے کہ زندگی مردود ہے اسے ترک کرو اور رہبانیت اختیار کرو کیوں کہ اس کی ابتداء ہی گناہ سے ہوئی ہے لیکن اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ زندگی گناہ کا ثمر نہیں۔ حضرت آدمؑ و حواؑ کا گناہ اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیا تھا بلکہ رسول کریم ﷺ نے واضح طور پر فرما دیا «لَا رَحْبَانِیَّةَ فِیْ الْاِسْلَامِ» یعنی اسلام میں رہبانیت اور ترکِ دنیا کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ اگر ترکِ دنیا اور ترکِ حیات کا جواز ہوتا زندگی پیدا ہی کیوں ہوتی پھر تو تخلیقِ کائنات ایک عبث فعل ہو جاتا ہے۔ اسلام نے دین و دنیا میں توازن اور اعتدال قائم کیا ہے۔ دنیا کو مزرعۃ الآخرت کہا۔ خود کشی اور خود آزاری کو حرام قرار دیا۔ بلکہ قرآنِ کریم میں جو بہترین دعاشمار کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ:« رَبَّنَا اٰتِنَا فِيْ الدُّنْيَا حَسَنَةً وفي الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّار» یعنی اسے رب ہمارے ہمیں دنیا کا بھی حسن طا فرما اور دین کا بھی گویا حسنِ زندگی کے حصول کے بارے میں دین و دنیا کو ہم پلّہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ رسول کریم نے اپنی ایک حدیث میں اسی میانہ روی اور اعتدال کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔« خَیْرُ الْاُمُوْرِ اَوْسَطُھَا» یعنی کام میانہ روی اختیار کرنے سے بہترین طریقے پر انجام پاتے ہیں۔ اسی قسم کی سینکڑوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ اختصار کی خاطر نظر انداز کرتے ہیں دوسری خصوصیت اللہ تعالیٰ نے اس امت کی یہ بیان کی کہ یہ بہترین اُمت ہے اور اس کا سبب یہ بیان فرمایا کہ یہ دنیا میں نیکی کی علمبردار ہے اور لوگوں کو برائی سے روکتی ہے۔ ﴿كُنتُم خَيرَ‌ أُمَّةٍ أُخرِ‌جَت لِلنّاسِ تَأمُر‌ونَ بِالمَعر‌وفِ وَتَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ‌﴾ گويا امر باالمعروف وار نہی عن المنکر اس امت کا فرض قرار پایا۔ یہاں یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ بہترین اُمّت ہونا غیر مشروط نہیں اگر یہ اپنا فریضہ ادا کرے گی تو بہترین امت قرار پائے گی اور اس کی افادّیت سے سرفراز ہو گی لیکن اگر اپنا فریضہ انجام نہیں دیتی تو سنتِ خداوندی یہی ہے کہ ﴿وَأَن لَيسَ لِلإِنسـٰنِ إِلّا ما سَعىٰ ﴿٣٩﴾... سورة النجم" یعنی انسان کو وہی کچھ حاصل ہوتا ہے جس کے لئے وہ کوشش کرے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ امّت فرض سے روگردانی کرے۔ بد اعمال اور کم حوصلہ ہو۔ نہ اعلائے کلمۃ الحق کرے اور نہ امر بالمعروف کا فریضۃ انجام دے اور خدا کے نزدیک پھر بھی بہترین امت اور اس کی محبوب بنی رہے۔ یہ ممکن نہیں۔ یہ تصور یہودیوں کا تو ہے لیکن اسلام کا تصورِ امت یہ نہیں ہے۔ قرآنِ کریم نے صاف کہہ دیا ہے کہ تم بہترین اُمّت ضرور ہو لیکن صرف اس وقت تک جب کہ اپنے فرائض منصبی کو ادا کرتے رہو۔ اور فرائض انسان قرآن کریم نے بنیادی طور پر تین ہی مقرر فرمائے ہیں۔ یعنی عبادت، خلافت اور اعمالِ صالحہ ان سے بے نیازی تباہی کی علامت ہے۔

اب آخر چند جملے اس انقلاب کے بارے میں عرض کر دوں جو نبی کریم نے انسانی معاشرے میں برپا کر دیا تاکہ اندازہ ہو جائے کہ اب اس ضمن میں بھی لاثانی ہی قرار پاتے ہیں۔ انقلاب کا اندازہ کرنے کے لئے اس سے پہلے کے حالات زیرِ نظر ہونا ضروری ہیں۔ مختصراً یہ کہ دنیا میں ہر جگہ ہر مذہب میں شرک کا دور دورہ تھا۔ اخلاقی اقدار ختم ہو چکی تھیں۔ شراب، جوا، بدکاری، غارت گری شرافت کا معیار بن گئی تھیں۔ غلاموں کو ذبح کر دینا، بھوکے شیروں کے سامنے ڈال دینا، آپس میں لا کر مروا دینا ایک کھیل تماشہ تھا۔ لڑکیوں کو زندہ دفن کر دینا ایک عام رواج تھا۔ وحشیانہ جنگ و جدال۔ انتقام کا نہ ختم ہونے والا چکر روز مرہّ کا معمول تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی تلقین نے آناً فاناً ان تمام عیوب کو پہلے عرب معاشرے سے ختم کر دیا اور بعد میں یہ روشنی اسلام کے مجاہدوں اور جانبازوں نے تمام دنیا میں پھیلا دی۔ عرب سے کم از کم ان تمام برائیوں کا خاتمہ نبی کریم ﷺ کی زندگی میں ہی ہو گیا تھا۔ اس کے مقابلے میں آپ دوسرے انبیاء کی زندگی پر نظر ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ یہودی صدیوں تک اپنے انبیاء کو پریشان ہی کرتے رہے بلکہ اکثر کو قتل کر دیا اور ہمیشہ کتابوں میں تحریف کرتے رہے۔ اخلاقی اور معاشرتی قوانین سے بغاوت ہی کرتے رہے۔ حضرت عیسیٰؑ کے ساتھ ان کے قسیس اور رہبانوں نے جو کچھ کیا وہ سب کو معلوم ہے۔ یہاں تک ان کے ایک ایک حواری نے ہی ان کو گرفتار کرا دیا۔ اور عیسائیت کی تبلیغ بھی حضرت عیسیٰؑ کے صدیوں بعد ہی ممکن ہو سکی۔ چنانچہ یہ دعویٰ غلط نہیں کہ نبوت کے لحاظ سے آپ کی کوئی مثال نہیں۔
آفاقہا گردیدہ اُم مہرِ بتاں در زیدہ ام
بسیار خوباں دیدہ اُم لیکن تو چیزے دیگری