حضرت محمد ﷺ اور معجزات
اللہ تعالیٰ اپنے انبیائے کرام کو نوعِ انسانی کی ہدایت و رہنمائی کے لئے مختلف زمانوں کے اندر اور مختلف قوموں کے درمیان مبعوث فرماتا ہے اور ان کی نبوّت کی حقانیت پر بہت سی باطنی اور ظاہری شہادتیں فراہم کر دیتا ہے تاکہ حقیقت شناس انسان ان کی باطنی شہادتوں کا مشاہدہ کر کے ان کو برحق تسلیم کر لیں اور سطح بین لوگ انکی ظاہری دلیلوں کو دیکھ کر اُن پر ایمان لے آئیں اور جو کج فہم ہوں ان پر حُجت تمام کر دی جائے۔
چنانچہ انبیاء علیہم السلام کی صداقت و عصمت، امانت و دیانت، ارشاد و دعوت، تعلیم و ہدایت اور تزکیۂ حکمت ہی اُن کی باطنی نشانیاں اور علامتیں ہوتی ہیں جنہیں اہل بصیرت کی نظریں دیکھ لیتی ہیں اور ان کی نبوت پر گواہی دے دیتی ہیں۔
فی الحقیقت انبیاء کا سرتاپا وجود ہی ان کی نبوت کی اصل شہادت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی دعوت پر سب سے پہلے لبّیک کہنے والوں نے کبھی ان سے ظاہری نشانیوں، معجزات کا مطالبہ نہیں کیا ہے! سابقون الاوّلون کے ایمان نے کسی معجزے کی طلب سے اپنا دامن داغدار نہیں کیا۔ ان کی دیکھنے والی آنکھ کے لئے نبی کا سراپا وجود، ان کے سننے والے کان کے لئے اس کی آواز، اور ان کے سمجھنے والے دل کے لئے اس کا پیغام ہی اپنے اندر وہ اعجاز رکھتا تھا کہ اُن کی گردنیں بے اختیار اس کے آگے جھک جاتی ہیں ؎
در دل ہر کس کہ دانش رامزہ است روئے و آوازِ پیمبر معجزہ است
یعنی ''نبی کی آواز اور چہرہ ہر جاننے والے دل کے لئے معجزہ ہوتا ہے۔'' مولانا رومؒ
حضرت ہارونؑ اور حضرت یوشعؑ کا موسیٰ علیہ السلام کو پیغمبر مان لینا کسی معجزے کا رہین منّت نہیں تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے ''اعجازِ مسیحائی'' کے مشاہدے کے بعد آسمانی دولت سے بہرہ حاصل نہیں کیا تھا۔ حضرت خدیجہؓ، حضرت ابو بکرؓ، حضرت علیؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عبد الرحمٰن ؓ بن عوف اور ابو عبیدہ بن جراحؓ نے فرشتوں کو آسمان سے اترتے ہوئے دیکھ کر یا چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا نظارہ کر کے ایمان قبول نہیں کیا تھا۔
لیکن دنیا میں کوتاہ فہموں اور ظواہر پرستوں کا اک بہت بڑا گروہ ایسا بھی بستا ہے جسے مشاہدۂ معجزات کے بغیر اطمینان نصیب نہیں ہوتا۔ اس گروہ کے لوگوں کے غنچہ ہائے دل کے کھلنے کے لئے کسی معجزے کی بادِ صبا کا خرام ضروری ہوتا ہے تاکہ اس سے یہ غنچے کھِل کر یوں گویا ہوں کہ
﴿ءامَنّا بِرَبِّ العـٰلَمينَ ١٢١ رَبِّ موسىٰ وَهـٰرونَ ١٢٢﴾... سورة الاعراف" یا پھر ایسے لوگ جب کبھی دائرۂِ اسلام میں داخل ہوں اور کوئی معرکۂ حق و باطل برپا ہو تو فرشتوں کی قطار اندر قطار فوجوں کی نصرت و تائید سے ان کے مضطرب دلوں کو دولتِ سکون و اطمینان سے مالا مال کر دیا جائے۔
بایں ہمہ ایک گروہ ایسا بھی ہوتا ہے جو اگرچہ طلبِ معجزات میں سب سے آگے ہوتا ہے لیکن اس گروہ کے نمرود اور ابوجہل اپنے کفر و حجود کی وجہ سے آگ کو گلستان ہوتے دیکھ لینے کے باوجود اور چاند کے دو ٹکڑے ہوتے دیکھنے کے باوصف، نعمت ایمان سے محروم ہی رہتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے قرآنِ حکیم کا ارشاد یہ ہے:
﴿وَما تُغنِى الءايـٰتُ وَالنُّذُرُ عَن قَومٍ لا يُؤمِنونَ ﴿١٠١﴾... سورة يونسمتکلمین کی اصلاح میں معجزے کی تعریف یہ ہے کہ ''کسی نبی سے کسی ایسے واقعے کا ظہور ہونا جو عام حالات میں انسانی دسترس سے باہر ہو اور جس کی توجیہہ سے عقلِ انسانی عاجز ہو۔''
محدّثین نے اس کے لئے (علامت) اور 'دلیل' کے الفاظ استعمال کیے ہیں اور قرآن نے اسے 'آیت' اور 'برہان' سے تعبیر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو خالق اور حاکم تسلیم کر لینے کے بعد معجزے کی حیثیت سے قانونِ فطرت کے ایک خارق کی نہیں رہتی بلکہ قانونِ فطرت کے عین مطابق ہو جاتی ہے کیونکہ جو ارادۂ الٰہی فطرت کے سلسلۂ اسباب و علل کا خالق ہے وہی اس کے عمل سے مانع ہو جاتا ہے۔ اس طرح اس کی وجیہہ بھی ارادۂ الٰہی کے ایک عمل سے کی جا سکتی ہے۔
خالقِ کائنات نے مختلف انبیائے کرام کو مختلف حالات و مقتضیات کے تحت مختلف معجزوں سے نوازا تھا۔ کسی کی بددعا نے اس عالم پر طوفان بن کر قیامتِ صغریٰ بپا کر دی تھی۔ کسی کے وجودِ مسعود سے آتشِ نمرود کا الاؤ یکایک گلزار میں تبدیل ہو گیا تھا۔ کسی کی تیز قوّتِ شاّمہ نے سینکڑوں میل دور سے پیراہنِ یوسفؑ کی خوشبو محسوس کر لی تھی۔ کسی کو 'تاویل الاحادیث' کے مخصوص علم سے وافر حصہ ملا تھا۔ کسی کے ہاتھوں میں سخت لوہا موم ہو جاتا تھا۔ کسی کا تختِ سلطنت ہواؤں میں اڑتا پھرتا تھا۔ کسی کے عصا کی ایک ہی ضرب سے پتھروں سے چشمے ابلنے لگتے اور کبھی دریاؤں میں شاہراہیں بن جاتی تھیں۔ کسی کے 'نفسِ مسیحائی' سے اندھوں کو بینائی، گونگوں کو گویائی، کوڑھیوں کو صحت اور مردوں کو زندگی مل جاتی تھی لیکن نبی آخر الزمان، مکمل الشرائع و الادیان، حضرت محمد ﷺ کو درگاہِ حق سے سے دوسرے تمام انبیاء سے بڑھ کر معجزات عطا ہوئے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ:
لِکُلِّ نَبِيٍّ فِي الْأنَامِ فَضِيْلَةٌ وَجُمْلَتُھَا مَجْمُوْعَةٌ لِمُحَمَّد
معجزۂ قرآن:حضور ﷺ کا سب سے بڑا معجزۂ قرآن' ہے۔ سابقہ انبیاء کرام کے معجزوں کی نوعیت، حیثیت اور تاثیر عارضی اور وقتی تھی مگر آپ کا یہ معجزۂ قرآن اپنی نوعیت و حیثیت کے لحاظ سے دائمی اور تاقیامت باقی رہنے والا ہے۔ اس کی قوتِ تاثیر بنی نوع انسان کے قلوب و اذہان کو قیامت تک مسخر کرتی رہے گی۔ یہ کتاب ہر لحاظ سے معجزہ ہے۔ اس کے الفاظ و معانی، اس کی فصاحت و بلاغت، اس کی تعلیم و ہدایت، اس کا زورِ استدلال اور اس کی قوّتِ نفوذ و تاثیر سب معجزہ ہیں۔ دنیا اس کے مثل کلام لانے سے بے بس ہے۔ اس کی یہی صفتِ اعجاز تھی جس سے عرب و عجم کے بڑے بڑے فصحاء و بلغاء اور شعراء و ادباء تک کی زبانیں گنگ ہو گئی تھیں جب اُن کے سامنے اس نے اپنا یہ چیلنج رکھ دیا تھا کہ
﴿وَإِن كُنتُم فى رَيبٍ مِمّا نَزَّلنا عَلىٰ عَبدِنا فَأتوا بِسورَةٍ مِن مِثلِهِ وَادعوا شُهَداءَكُم مِن دونِ اللَّهِ إِن كُنتُم صـٰدِقينَ ﴿٢٣﴾... سورة البقرةاور اس چیلنج کا جواب دینے سے دنیا ہمیشہ قاصر رہی ہے اور قیامت تک قاصر رہے گی۔
﴿فَإِن لَم تَفعَلوا وَلَن تَفعَلوا﴾پھر یہ 'کتابِ ہدایت' روز اوّل سے محفوظ و مصئون ہے۔ اس میں آج تک کسی ایک نقطے اور کسی ایک شوشے تک کی تحریف نہیں ہوئی اور نہ ہی کبھی ہو سکتی ہے۔ اس کی حفاظت و صیانت کا ذمہ خود پروردگار عالم نے لے رکھا ہے۔
﴿إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ وَإِنّا لَهُ لَحـٰفِظونَ ﴿٩﴾... سورة الحجر" اس سے بڑھ کر یہ کہ اس ''نسخۂ کیمیا'' کو دنیا کے سامنے لانے والی شخصیت ایک اُمّی کی شخصیت تھی جس نے کسی سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا تھا۔ جس نے کسی کے آگے زانوئے تلمّذ تہہ نہیں کیا تھا، اس نے سب کے سامنے علم و حکمت اور موعظت و معرفت کا وہ عظیم الشان دفتر پیش کر دیا جس نے دل و دماغ بدل ڈالے، ذہنیتیں بدل ڈالیں، رواج بدل ڈالے، رسوم بدل ڈالیں، افراد بدل ڈالے، اقوام بدل ڈالیں، تمدّن بدل ڈالے اور تہذیبیں بدل ڈالیں۔ جس نے عرب کے ریگستانوں میں رہنے والے خانہ بدوش شتر بانوں کو اصولِ جہانبانی سکھائے اور وقت کے قیصر و کسریٰ کے تخت پر بٹھا دیا۔ جس نے درماندگانِ عقل و خرد کو کائنات کے ذرّے ذرے کی حقیقت سے آشنا کر دیا۔
شقِّ قمر:کفارِ مکہ نے ایک بار رات کے وقت مقامِ منیٰ میں حضور ﷺ سے معجزہ طلب کیا تو آپ ﷺ نے انگلی کے اشارے سے چاند کو دو ٹکڑے کر دکھایا۔ ایک ٹکڑا کوہِ حرا کے اس طرف نظر آیا اور دوسرا اُس طرف ۔ یہ دیکھ کر کفارِ مکہ نے کہا کہ محمد ﷺ نے ہم پر جادو کر دیا ہے۔ بعض کہنے لگے کہ اگر ہم پر جادو کر دیا ہے تو تم تمام دنیا پر تو وہ جادو نہیں کر سکتے۔ چنانچہ دیگر مقامات سے آئے ہوئے مسافروں سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے بھی یہی مشاہدہ بیان کر دیا ۔
ستون کا رونا:مسجد نبوی میں منبر تیار ہونے سے قبل حضور ﷺ مسجد میں کھجور کے تنے کے ایک ستون سے ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے خطبہ دیا کرتے تھے۔ جب منبر تیار ہوا تو آپ ﷺ نے منبر پر کھڑے ہو کر جمعہ کا خطبہ دینا شروع کیا تو اچانک اس ستون سے زار و قطار رونے کی آواز آئی۔ تمام حاضرینِ مسجد نے اس کے رونے کی آواز سنی۔ آپ ﷺ منبر سے اتر کر اس ستون کے پاس گئے اور سینے سے لگا کر اسے تسلی دی تو اس کے رونے کی آواز بند ہو گئی۔ آپ ﷺ نے صحابہؓ سے فرمایا 'اس کے رونے کا سبب یہ تھا کہ یہ پہلے خدا کا ذکر سنا کرتا تھا ۔''
کھجوروں کے ڈھیر کا بڑھ جانا:ایک دفعہ حضرت جابرؓ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضور ﷺ میرے والد کے ذمے یہودیوں کا قرض تھا اور وہ خود فوت ہو گئے ہیں۔ میرے پاس سوائے کھجوروں کے اور کچھ نہیں ہے اور صرف کھجوروں سے میں کئی برس تک قرض ادا نہیں کر سکتا۔ آپ میرے نخلستان میں تشریف لے چلیں تاکہ آپ ﷺ کی تعظیم سے قرض خواہ مجھ پر سختی نہ کریں۔ آپ ﷺ ان کے ساتھ تشریف لے گئے اور کھجورں کے ڈھیر کے ارد گرد چر لگا کر دعا کی اور وہیں بیٹھ کر فرمایا ''قرض خواہ اپنا اپنا قرض لیتے جائیں۔'' آپ کی دعا کی برکت سے ان کھجوروں کے ڈھیر سے سارا قرض ادا ہو گیا اور کھجوروں کا ایک بڑا ڈھیر پھر بھی باقی بچ رہا۔
انگلیوں سے پانی کا چشمہ بہنا:صلح حدیبیہ کے روز صحابہ کرامؓ کو سخت پیاس لگی۔ حضور ﷺ کے سامنے چمڑے کے ایک برتن میں کچھ پانی تھا۔ آپ ﷺ نے اس سے وضو کرنا شروع کیا تو تمام صحابہؓ آپ ﷺ کی طرف تیزی سے بڑھے۔ آپ ﷺ نے پوچھا ''کیا بات ہے؟'' عرض کرنے لگے۔ ''ہماری ضروریات کے لئے صرف یہی پانی تھا۔'' آپ ﷺ نے اس کے اندر ہاتھ ڈال دیا اور آپ ﷺ کی انگلیوں کے درمیان سے چشمے کی طرح پانی جاری ہو گیا۔ ڈیڑھ ہزار کے قریب صحابہؓ نے اس پانی سے وضو کیا اور سیر ہو کر پانی بھی پیا۔
نام بنام مقتولینِ بدر کی خبر:معرکۂ بدر سے کچھ دیر قبل حضور ﷺ میدانِ بدر میں صحابہؓ کو ساتھ لے گئے اور فرمایا۔ ''یہاں فلاں کافر ہلاک ہو گا اور وہاں فلاں مشرک مارا جائے گا اور قریش کے سردار ابو جہل کی قتل گاہ یہ ہے۔'' صحابہؓ کے قلیل اور کم مسلّح لشکر کے لئے یہ پیشین گوئی بڑے اطمینان کا سبب بنی اور انہوں نے جنگ کے بعد دیکھا کہ حضور نے ﷺ جس مقتول کے لئے جو جگہ متعین فرمائی تھی وہ وہیں ڈھیر تھا۔
سلطنتِ کسریٰ کی تباہی:جب آنحضرت ﷺ نے دعوتِ اسلام کے لئے ایران کے شہنشاہ کسریٰ کے نام خط بھیجا تو اس نے وہ خط پھاڑ کر پھینک دیا۔ آپﷺ نے اس کے لئے بد دعا فرمائی۔ ''خدایا! اس کے بھی پُرزے پُرزے اڑ جائیں۔'' چنانچہ اسی بددعا کے نتیجہ میں وہ بیٹے کے ہاتھوں قتل ہوا۔ آخر کار دورِ فاروقی میں اس کی سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ۔
یہ چند معجزاتِ نبوی، مُشتے از خردارے، کے طور پر ذکر کئے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ ﷺ کی پوری حیاتِ مبارک معجزات سے عبارت ہے۔ ؎
حسنِ یوسفؑ، دمِ عیسیٰ یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
حوالہ جاتہم پروردگارِ عالم پر ایمان لائے، جو موسیٰؑ اور ہارونؑ کا رب ہے۔ (الشعراء ۴۷،۴۸)
کفر کا راستہ اختیار کرنے والوں کے لئے اللہ کی نشانیاں اور تنبیہات بے سود ہیں (یونس ۱۰۱)
ديگر مخلوقات پر ہر نبی کو ایک نہ ایک فضیلت حاصل ہے لیکن تمام فضائل کا مجموعہ ذاتِ محمد ﷺ ہے۔
اور اگر تم کو اس (کتاب) میں کچھ شک ہو تو اسی طرح کی ایک سورت تم بھی بنا لاؤ اور خدا کے سوا جو تمہارے مددگار ہوں ان کو بھی بلا لاؤ اگر تم سچے ہو (البقرہ: ۲۳)
لیکن اگر تم ایسا نہ کر سکو اور تم ہرگز نہیں کر سکو گے۔ (البقرۃ: ۲۴)
بیشک یہ (کتاب) نصیحت ہے جو ہم نے اتاری ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔ (الحجر:۹)
البخاری و مسلم عن انس بن مالکؓ۔
مسند ابی داؤد للطیالسی والبیہقی عن عبد اللہ بن مسعودؓ۔
البخاری عن جابرؓ بن عبد اللہ
البخاری عن جابرؓ بن عبد اللہ
صحیح البخاری
الصحیح المسلم۔ غزوہ بدر
الصحیح البخاری۔ کتاب الجہاد
تیرے پاس حسنِ یوسف ہے، دم عیسیٰ ہے اور ید بیضا ہے۔ دوسرے خوبروؤں کے پاس جو کچھ بھی ہے تجھے حاصل ہے۔