خاتمُ النّبیّین ﷺ

محمد رسول اللہ ﷺ کا تعارف قرآن مجید ان الفاظ میں کراتا ہے۔

﴿ما كانَ مُحَمَّدٌ أَبا أَحَدٍ مِن رِ‌جالِكُم وَلـٰكِن رَ‌سولَ اللَّهِ وَخاتَمَ النَّبِيّـۧنَ ۗ وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَىءٍ عَليمًا ﴿٤٠﴾... سورة الاحزاب

(محمد ﷺ تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ رسول اللہ و خاتم النبیین ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتا ہے)

خاتم النبیین ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہو گا۔ لا نبي بعدي کا بھی یہی مطلب ہے اور آپ ﷺ کی غزوۂ بدر کی دعا بھی ختم نبوت کی ایک دلیل ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا تھا: ''یا اللہ اگر یہ لوگ ہلاک ہو گئے تو پھر کبھی بھی تیری عبادت نہیں ہو گی۔''

محمد رسول اللہ ﷺ کے واسطے سے قرآن مجید ہمیں پہنچا ہے۔ آپ ﷺ ہی کے واسطے سے انسان کمالِ علم و ہدایت پر فائز ہوا ہے۔ اس علم و ہدایت میں پوری نوعِ انسانی کے فلاح پانے کی ضمانت ہے۔

اللہ پاک فرماتا ہے:﴿وَما أَر‌سَلنـٰكَ إِلّا كافَّةً لِلنّاسِ بَشيرً‌ا وَنَذيرً‌ا...٢٨﴾... سورة سبا

کہ ہم نے آپ کو پوری نوعِ انسانی کے لئے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے۔﴿وَما أَر‌سَلنـٰكَ إِلّا رَ‌حمَةً لِلعـٰلَمينَ ﴿١٠٧﴾... سورة الانبياء" اور یہ کہ ہم نے آپ کو تمام اقوامِ عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

محمد رسول اللہ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نوعِ انسانی آپ ﷺ کی بعثت کے بعد ہر نئی بعثت کی احتیاج سے بے نیاز ہو گئی ہے اور آپ ﷺ ہی کے اتباع اور نفوذ سے غیر پیغمبرانہ قیادت کی رہ نمائی میں تمام پسندیدہ نتائج پیدا ہو سکتے ہیں۔

دراصل نئی بعثت کی احتیاج امم سابقہ میں صرف اسی وقت پیدا ہوتی تھی جب منزل من اللہ ہدایت محفوظ ہو یا بغیر پیغمبرانہ قیادت کے اصلاحِ احوال مؤثر نہ رہی ہو یا نئی بعثت کے ذریعہ کوئی اعلیٰ تر نصب العین اور اس کے حصول کے لئے اور زیاہ مؤثر طریق کارِ نوعِ انسانی کو پہنچانا باقی رہ گیا ہو۔

محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا مقصود ایک ایسا معاشرہ پیدا کر کے اس کے ذریعہ دین حق کو بین الاقوامی سطح پر غالب کرنا ہے جو نوعِ انسانی کی وحدت کے تصور پر مبنی ہو۔

﴿يـٰأَيُّهَا النّاسُ اتَّقوا رَ‌بَّكُمُ الَّذى خَلَقَكُم مِن نَفسٍ و‌ٰحِدَةٍ...١﴾... سورة النساء" اخلاقی جدوجہد کرنے والے اور روحانی الذہن افراد پر مشتمل ہو ﴿كُنتُم خَيرَ‌ أُمَّةٍ أُخرِ‌جَت لِلنّاسِ تَأمُر‌ونَ بِالمَعر‌وفِ وَتَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ‌ وَتُؤمِنونَ بِاللَّهِ...١١٠﴾... سورة آل عمران" جن کی جدوجہد کا رخ یہ ہو کہ فرد اور معاشرہ ہر قسم کے خوف و غم سے محفوظ رہیں کیونکہ یہی منزل من اللہ ہدایت کا مقصود تھا اور ہے ﴿فَإِمّا يَأتِيَنَّكُم مِنّى هُدًى فَمَن تَبِعَ هُداىَ فَلا خَوفٌ عَلَيهِم وَلا هُم يَحزَنونَ ﴿٣٨﴾... سورة البقرة" اور اس معاشرے میں محمد رسول اللہ ﷺ سے ایسی خالص وفا داری جس میں ''شرک في النبوۃ'' کا شائبہ پیدا نہ ہو سکے اس لئے ضروری ہے کہ کلمۂ طیبہ کے جزوِ اول لا الہ الا اللہ پر ایمان لانے سے فرد شرک سے پاک ہوتا ہے اور جزو ثانی محمد رسول اللہ پر ایمان لانے سے اس آیت پاک کے مطابق ﴿لِكُلِّ أُمَّةٍ رَ‌سولٌ﴾ رسول كے ساتھ غير منقسم وفاداری رکھنے ہی سے معاشرہ اختلال سے محفوظ رہ سکتا ہے اور جس طرح توحید پر ایمان کے بغیر ایک خدا، اس کی ایک طاقت، ایک نظام اور ایک قانون پر ایمان راسخ نہیں ہو سکتا اسی طرح صرف محمد رسول اللہ ﷺ ہی کو توحید و رسالت اور آخرت اور انبیائے سابقین کی اور قرآن مجید کے منزل من اللہ ہونے کی سند مانے بغیر اور معیارِ عمل اور نمونۂ کمال کی حیثیت سے قبول کیے بغیر معاشرہ اختلال سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔

علم سے عمل کا پیدا ہونا ضروری نہیں۔ عمل کے لئے مقصد کا شعور ہونا، حق و باطل کے درمیان تضاد اور تصادم کا محرک عمل ہونا اور معیار کا پیشِ نظر ہونا اور نمونۂِ کمال کا سند ہونا ضروری ہے۔ معاشرہ جن افراد پر مشتمل ہو ان کے پسندیدہ نمونے پر ڈھلنے کے لئے ما بعد الطبیعی اساس کی حیثیت سے ایمان باللہ، ایمان بالآخرت سے عمل کا صحیح رُخ اس وقت تک متعین نہیں ہو سکتا جب تک اس مقصد سے سازگاری کے اصول پر تخلیقِ کائنات متصور نہ ہو اور حق و باطل کے درمیان تضاد و تصادم محرکِ عمل نہ ہو۔ اس محرکِ عمل کے بغیر جاں سپاری اور سرفروشی کی امنگ اور حق کی خاطر اپنے آپ قربان کرنے کی امنگ پیدا نہیں ہو سکتی۔

محمد رسول الہ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کی ایک بنیاد قرآن مجید کا تکمیل دن کا دعویٰ بھی ہے جس کا مفہوم ہماری سمجھ میں اس لئے نہیں آتا کہ اپنے زوال سے سازگاری کی نفسیات کے تحت 'تکمیلِ دین' کا تصور مسخ ہو کر رہ گیا ہے۔ ہم چند ما بعد الطبیعی عقائد، چند اخلاقی اسباق، چند تمدنی ضوابط، چند عدالتی قوانین، چند معاشرتی اصولوں وار چند رسم و ظواہر کو تکمیلِ دین سمجھتے ہیں اور اپنی زوال پذیر مذہبیت کے تابع تکمیلِ دین کا مفہوم وضع کرتے ہیں۔

قرآن مجید تو خاتم الانبیاء علیہم وعلیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی بعثت کی غایت اور اس تک پہنچانے کا دعویٰ اس تحدی کے ساتھ کرتا ہے:﴿هُوَ الَّذى أَر‌سَلَ رَ‌سولَهُ بِالهُدىٰ وَدينِ الحَقِّ لِيُظهِرَ‌هُ عَلَى الدّينِ كُلِّهِ وَلَو كَرِ‌هَ المُشرِ‌كونَ ﴿٣٣﴾... سورة التوبة" کہ اللہ ہی وہ ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے غالب کر دے تمام ادیان پر اگرچہ یہ بات مشرکین کو ناپسند ہو'' اور جس طریق کار میں اس مقصد کو پانے کی اور چیلنج کے پورا ہونے کی ضمانت ہے۔ اسی کے پیش نظر قرآن مجید حجۃ الوداع کے روز نازل ہونے والی اس آیت میں تکمیلِ دین کا دعویٰ کرتا ہے۔

﴿اليَومَ يَئِسَ الَّذينَ كَفَر‌وا مِن دينِكُم فَلا تَخشَوهُم وَاخشَونِ ۚ اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَ‌ضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا...٣﴾... سورة المائدة" کہ آج کے دن وہ لوگ مایوس ہو گئے جنہوں نے تمہارے دین سے انکار کیا۔ پس ان سے نہ ڈرو مجھ سے ڈرو، آج کے دن میں نے تمہارا دین تمہارے لئے مکمل کر دیا۔ اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لئے دینِ اسلام پسند فرمایا۔

مگر جب تک ہماری سمجھ میں یہ بات نہ آئے کہ کفار کی مایوس کی وجہ کیا تھی ہم کبھی تکمیل دین کے مفہوم کو نہیں پا سکتے۔ کفار کو اس وجہ سے ہوئی کہ لِیُظْھِرَہ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّه وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ کا چیلنج پورا ہو گیا اور کافروں کو اس چیلنج کے پورا ہونے سے مایوسی یہ ہوئی کہ اب اسلام مغلوب نہیں ہو سکتا اور ہم غالب نہیں آسکتے۔ دینِ حق کا یہ غلبہ اور کفار کا اپنے غلبے سے مایوس ہونا جس ہدایت کا نتیجہ ہے وہ دو شرطوں پر مشتمل ہے۔ ایک تو غایتِ تخلیق کائنات، غایت بعثت اور غایتِ نزولِ قرآن کا ایک ہونا، دوسرے کائناتی سطح پر جس تکوینی قانون سے نتائج پیدا ہوتے ہیں اس قانون کا تاریخی سطح پر تاریخی کشمکش کے نتائج کو متعین کرنے والے قانون سے تعلق اور محمد رسول اللہ ﷺ کے عطا کردہ اس ما بعد الطبیعی قانونِ سعادت و شقاوت سے ربط جس پر قوموں اور تہذیبوں کی بقاء اور فنا کا انحصار ہے، ان تینوں قوانین کا باہم وگر مربوط ہونا۔ ان دو شرطوں پر اس چیلنج کے پورا ہونے کا انحصار ہے۔ اگر ہم قرآن مجید سے ان قوانین کو متعین کر سکیں تو کافروں کی مایوسی کے اعتبار سے ہر یوم ویسا ہی ''الیوم'' ہو گا جیسا حجۃ الوداع کا دن تھا۔

محمد رسول اللہ ﷺ کے حوالے سے ہمارا ان قوانین سے مشرف کیا جانا آپ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کی ایک اور اساس ہے۔ یہی وہ قوانین ہیں جن کی خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے۔

﴿لَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبديلًا ﴿٦٢﴾... سورة الاحزاب

وہ تین قوانین یہ ہیں۔

1. کائناتی قانونِ تضاد:    ﴿جَعَلنا لِكُلِّ نَبِىٍّ عَدُوًّا مِنَ المُجرِ‌مينَ...٣١﴾... سورة الفرقان

2. اصحابِ میمنہ اور اصحابِ مشئمہ کے درمیان تصادم کا قانون۔﴿ثُمَّ كانَ مِنَ الَّذينَ ءامَنوا وَتَواصَوا بِالصَّبرِ‌ وَتَواصَوا بِالمَر‌حَمَةِ ١٧ أُولـٰئِكَ أَصحـٰبُ المَيمَنَةِ ١٨ وَالَّذينَ كَفَر‌وا بِـٔايـٰتِنا هُم أَصحـٰبُ المَشـَٔمَةِ ١٩﴾... سورة البلد

3. وہ قانونِ سعادت و شقاوت جو اصحابِ میمنہ کے غلبے اور اصحابِ مشئمہ کی شکست کا ضامن ہے:﴿قَد أَفلَحَ مَن زَكّىٰها ٩ وَقَد خابَ مَن دَسّىٰها ١٠﴾... سورة الشمس

نفسِ انسانی حرص و لالچ سے پاک ہو تو نشوونما کی نفع بخشی کی اور فیض رسانی کی راہیں کھولتا ہے اور حرص و لالچ میں مبتلا رہے تو مزعومہ مفادات پیدا کر کے نفع بخشی اور قبض رسانی اور نشوونما کی راہیں بند کرتا ہے۔

مگر جب سے ہم ''استعمار'' سے مغلوب ہوئے ہیں ہمارے معاشرے کی اساس دین کے بجائے وطن پرستی کر دی گئی، معیشت حرام حلال کے امتیاز سے آزاد ہو گئی۔ سیاست بھی لا دینی ہو گئی اور نظام تعلیم بھی لا دینی ہو گیا جس کا مطلب یہ ہوا کہ عقیدے کا کوئی اثر نہ معاشرت پر رہا نہ معیشت پر، نہ سیاست پر نہ ثقافت پر نہ تعلیم پر۔ اس صورت حال نے عقیدے کو ایک وہم باطل (Myth) کر کے رکھ دیا اور عبادت کا اثر معاشرت، معیشت، سیاست، ثقافت اور تعلیم پر نہ رہنے سے عبادات رسوم و ظواہر میں تبدیل ہو گئیں۔ اور آج جسے ہم دینی تعلیم کہتے ہیں وہ بھی لا دینی نظام حیات سے اس معنی میں سازگاری پر قائم ہے کہ وہ مراسمِ دینی کے ادا کرنے کی تربیت پر مشتمل ہے اور مذہبی ذہن نے عملاً لا دینی نظام کے آگے سپر ڈال دی ہے۔ اور کسی گوشہ سے یہ دعویٰ نہیں کیا جا رہا کہ عقائد کو، جو اوہام بن چکے ہیں اور عبادات کو جو رسوم و ظواہر بن چکی ہیں کسی طرح عقائد راسخہ اور عباداتِ صحیحہ بنایا جا سکتا ہے۔

ان احوال میں ہمارا فرض ہے کہ اپنی 'دین پناہی' کا جائزہ لے کر ان مواثرات کا تدارک کریں جن کی بدولت جدید تعلیم یافتہ ذہن یقین و عمل سے محروم ہوا ہے۔

اس دور کے مسائل اس ماحول میں پیدا ہو رہے ہیں کہ فرد اور معاشرے کا تضاد ابھر رہا ہے شہری اور ریاست کے مفادات ٹکرا رہے ہیں، معاشی تخلیق کا عمل حقوق کے تصادم کی بنا پر اس تعاون سے محروم ہو چکا ہے جو تخلیقِ دولت کے لئے ضروری ہے۔ اخلاق اور معیشت میں تصادم اور اخلاق اور سیاست میں تضاد انتہاء کو پہنچ چکا ہے۔ اخلاقی فضیلت اور جمالیاتی مسرت میں ہم آہنگی کا اس دور میں تصور بھی نہیں کیا جا رہا۔ ایمان اور علم اور ایمان اور عمل کے درمیان تضاد ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے۔ دین و دنیا اور دنیا و آخرت کا تضاد انحراف کی راہ پر لے آیا ہے۔ کیا خاتم المرسلین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی تعلیمات سے ان مسائل کو حل کیے بغیر جو اس ماحول میں پیدا ہو رہے ہیں انحراف سے نہیں روکا جا سکتا۔

اگر اسلام یقین کو عمل پر مقدم رکھتا ہو تو کیا اس یقین کو مہیا کرنے کی تدبیر کے بغیر جو عمل سے پہلے ضروری ہے تکمیلِ دستورِ حیات کے نعرے سے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور اتحاد بین المسلمین کا وعظ کار آمد ہو سکتا ہے۔