رسولِ رحمت ﷺ

﴿وَما أَر‌سَلنـٰكَ إِلّا رَ‌حمَةً لِلعـٰلَمينَ ﴿١٠٧﴾... سورة الانبياء

اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہتر زندگی گزارنے کے لئے عقل و فکر اور فطری شعور بخشنے کے ساتھ ساتھ اس کے لئے خارجی رہنمائی کا بھی مکمل انتظام کیا ہے۔ اس نے انسانی رہنمائی کے لئے وقتاً فوقتاً ایسے منفرد انسان بھیجے جو اس کا پیغام بندوں تک پہنچاتے رہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔ ہر قسم کے بگاڑ کی اصلاح ان کی ذمہ داری تھی۔ انسانوں کی کوئی بستی ایسے مقدس اشخاص سے محروم نہیں رہی۔ اور کوئی زمانہ ان نیک انسانوں سے خالی نہیں رہا۔ قرآن پاک میں ہے:

1. ﴿وَإِن مِن أُمَّةٍ إِلّا خَلا فيها نَذيرٌ‌ ﴿٢٤﴾... سورة فاطر" اور كوئی قوم نہيں مگر اس ميں ڈرانے والا گزر چكا۔

2. ﴿وَلِكُلِّ قَومٍ هادٍ ﴿٧﴾... سورة الرعد" اور ہر قوم کے لئے ایک راہ دکھانے والا ہے۔

انسان گمراہ ہوتا رہا۔ اور اس کی ہدایت کا انتظام بھی ہوتا رہا۔ وہ ذہنی، شعوری اور تمدنی طور پر جوں جوں ترقی کرتا رہا اس کے لئے طریقِ ہدایت و تبلیغ میں بھی فرق آتا رہا۔ تا آنکہ انسانیت شعور و احساس کی منزلیں طے کرتے کرتے ایک خاص مقام پر پہنچی۔ پختگی کے اس مقام پر اسے ایسی ہدایت کی ضرورت تھی کہ جامع اور کامل بھی ہو اور سہل اور واضح بھی۔ خالقِ کائنات نے اسی امر کے پیش نظر ہدایت کا آخری اور انوکھا انتظام فرمایا۔ جسے قرآن کہا جاتا ہے۔ اس قرآن کی تشریح و تعبیر اور احکامِ الٰہی کے نفاذ کے لئے ایسی شخصیت مبعوث کی جسے جامع کمالات بنایا۔ جس طرح یہ دین و ہدایت جامع اور مکمل تھی۔ اسی طرح اس شخصیت کو بھی جامع و کامل بنایا۔ چونکہ نبی ﷺ کو آخری نبی بنا کر بھیجا اس لئے آپ ﷺ کی ذات میں سابقہ انبیاء کی خصوصیات جمع کرنے کے ساتھ کچھ ایسی انفرادی خصوصیات بھی عطا فرمائیں اور کسی نبی میں نہیں پائی گئیں۔ اس طرح حضور ﷺ جامع کمالات انبیاء بھی ہیں اور تمام انبیاء میں منفرد بھی۔ آپ ﷺ کی نبوت عالمی نبوت ہے اور آپ ﷺ کا دین عالمگیر اور قیامت تک رہنے والا ہے۔ اس لئے اس انفرادیت کی خاص ضرورت تھی جسے اللہ تعالیٰ نے پورا فرمایا۔ مسلمانوں نے اپنے عظیم رہنما کے ساتھ عقیدت کے پیش نظر آپ ﷺ کی تمام خصوصیات کو شمار کرنے اور تفصیل سے قلم بند کرنے کی سعی کی ہے۔ اس سلسلے میں قاضی عیاض کی ''الشفاء'' ابو سعید نیشا پوری کی ''شرف المصطفیٰ'' سیوطی کی 'خصائص النبوت' اور شیخ عبد الحق کی 'مدارج النبوۃ' خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ہمارے دور میں سید سلیمان ندوی اور مولانا مودودی نے بھی اختصار کے ساتھ خصائص مصطفیٰ بیان کئے ہیں۔ لیکن قاضی سلیمان منصور پوری نے تو اپنی مشہور تصنیف 'رحمۃٌ للعالمین' کی جلد سوم کا پورا ایک حصہ اس کے لئے وقف کیا ہے۔ قاضی صاحب نے قرآنِ پاک کی رو سے حضور ﷺ کے چھبیس خصائص یان کئے ہیں۔ احادیث میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ اس کے علاوہ ہے۔ سید سلیمان ندوی فرماتے ہیں ۔ کہ عقیدت کی وجہ سے بعض عام چیزوں کو بھی خصوصیت قرار دیا گیا ہے لیکن اگر ان کو نکال دیا جائے تو بھی آپ ﷺ کے بے شمار خصائص باقی رہتے ہیں۔

مولانا مودودی کے نزدیک آپ ﷺ کی خصوصیات میں تکمیلِ دین، ختم نبوت، نسخ ادیانِ سابقہ، عالمگیریت یا دعوتِ عام شامل ہیں ۔ سید سلیمان ندوی نے آپ کی خصوصیات کی دو قسمیں قرار دی ہیں ۔

1. ذاتی خصائص۔

2. نبوی خصائ۔

3. آنجناب ﷺ نے خود اپنی خصوصیات کا ذکر فرمایا ہے۔ جسے بخاری و مسلم نے نقل کیا ہے۔

«عن جابر قال قال رسول اللہ ﷺ أعطیت خمسا لم یطعھن أحد قبلي نصرت بالرعب مسیرة شھر وجعلت لي الأرض مسجدًا وطھورًا فأینما رجل من أمتي أدركته الصلوٰة فليصل وأحلت لي الغنائم ولا تحصل لأحد من قبلي وأعطيت الشفاعة وكان النبي يبعث إلي قوم خاصة وبعثت إلي الناس عامة» (متفق عليه)

حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا۔ مجھے پانچ ایسی چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں ملیں (۱) ابھی ایک ماہ کی مسافت ہو کہ دشمن پر میرا رعب طاری ہو جاتا ہے (ساری زمین میرے لئے مسجد اور پاکیزہ بنا دی گئی ہے جو جہاں چاہے نماز پڑھے (۳) غنیمت کا مال میرے لئے حلال کر دیا گیا جو پہلے کسی کے لئے حلال نہ تھا (۴) مجھے شفاعت کا حق دیا گیا ہے۔ (۵) پہلے نبی اپنی قوم کے لئے خاص ہوا کرتے تھے مگر میں ساری دنیا کے لئے نبی ہو کر آیا ہوں۔

مسلم شریف کی ایک حدیث میں چھ چیزیں فرمائی گئی ہیں۔ سب روایات کو جمع کرنے سے مندرجہ ذیل امور حاصل ہوتے ہیں۔

1. نصرت بالرعب۔

2. روئے زمین کا مسجدد طاہر ہونا۔

3. حلّتِ غنائم۔

4. عطائے منصب و شفاعت۔

5. بعثتِ عامہ۔

6. جوامع الکلم ہونا۔

7. ختمِ نبوت۔

8. خزائن الارض۔

رحمۃٌ للّعالمین:

آنجناب ﷺ کی ذات با برکات کی سب خصوصیات اپنی جگہ مسلّم ہیں اور ان کا ہر پہلو بے نظیر اور بے مثال ہے۔ ہمارا مقصود ان سب خصوصیات کو بیان کرنا نہیں ہے۔ ہمیں حضور ﷺ کے جس پہلو کو آج زیر بحث لانا ہے وہ آپ کی ذات کا رحمت ہونا ہے۔ قرآنِ پاک نے آپ ﷺ کی اس خصوصیت کا ذکر بڑی اہمیت کے ساتھ کیا ہے۔ ارشادِ باری ہے:

﴿وَما أَر‌سَلنـٰكَ إِلّا رَ‌حمَةً لِلعـٰلَمينَ ﴿١٠٧﴾... سورة الانبياء" ہم نے آپ ﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

آیت کی ترکیب پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ﷺ کی ذات رحمت ہی رحمت ہے۔ یعنی آپ ﷺ کی بعثت سے رحمت کے سوا کچھ مقصود نہیں۔ آپ ﷺ کو پوری کائنات کے لئے رحمت قرار دیا۔ قبل اس کے کہ ہم بیان کریں کہ آپ ﷺ کس طرح رحمۃً للعالمین تھے یہ ضروری ہے کہ رحمت کے مفہوم کی توضیح کر دیں۔

رحمت کا مفہوم:

رحمت رَحِمَ یَرْحَمُ کا مصدر ہے جس کے معنی بخشش و مہربانی کے ہیں۔ امام راغب لکھتے ہیں کہ رحمت وہ رقّت ہے جو مرحوم کی طرف (یعنی جس پر رحم کیا جائے) احسان کی مقتضی ہو۔ اور کبھی اس کا استعمال مجرد رقّت کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنیٰ میں جو رقّت سے خالی ہو جیسے رحم اللہ فلانا جب اس کی نسبت اللہ کی طرف ہو تو احسان مراد ہو گا اور جب بندے کی طرف ہو تو رقّت مراد ہو گی۔ مولانا ابو الکلام آزادؔ ترجمان القرآن میں رحمت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ 'عربی میں رحمت عواطف کی ایسی رقت اور نرمی کو کہتے ہیں جس سے کسی دوسری ہستی کے لئے احسان اور شفقت ارادۃً جوش میں آجائے۔ پس رحمت میں محبت، شفقت، فضل و احسان سب کا مفہوم داخل ہے۔ اور مجردّ محبت، لطف اور فضل سے زیادہ وسیع اور حاوی ہے۔

رقت کے اس مفہوم میں تو رحمت کے معنیٰ میں پیار، ہمدردی، غمگساری،محبت اور خیر خواہی سب شامل ہوں گے۔ عالم سے مراد ہر وجود پذیر شے کا ایک طبقہ ہے۔ اس طرح اس کائنات میں کئی عالم ہیں اور چونکہ آپ ﷺ رحمۃٌ للعالمین ہیں اس لئے آپ کائنات کے ہر طبقہ کے لئے رحمت ہیں۔ رحمۃٌ للعالمین ﷺ وہ ذات ہے جسے کائنات کی ہر شے سے ہمدردی اور محبت ہے ہر ایک پر ترس کھاتی ہے اور ہر ایک کی غم گسار ہے۔

آنحضور ﷺ رحمت ہیں:

حضور ﷺ کا رحمت ہونا دو اعتبار سے ہے۔

1. ذاتی اعتبار سے۔

2. نبوت کے اعتبار سے۔

ذاتی رحمت:

آپ ﷺ اپنی ذات کے اعتبار سے مجسم رحمت تھے۔ خالص انفرادی اور ذاتی معاملات میں بھی آپ ﷺ کی یہ خصوصیات نمایاں رہی۔ مثلاً انسانیت سے ہمدردی اور دکھی اور مظلوم لوگوں کا خیال۔ یہ کیفیت آپ کے دل پر اس طرح راسخ تھی کہ آپ ﷺ کسی لمحے بھی اس سے غافل نہ رہے۔ اعلانِ نبوت سے پہلے کی زندگی میں آپ ﷺ کا محبوب مشغلہ ہی انسانیت کی ہمدردی، خصوصاً مظلوم اور دکھی انسانوں کی ہمدردی تھی۔

جناب ابو طالب نے شاید اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا:

وأبیض یستقي الغمام بوجھه
ثمال اليتامى عصمة للأرامل

آپ ﷺ کی طبیعت کی رحیمی نے حرب الفجار سے خصوصی اثر لیا ۔ اور اس سے مظلومیت کی حمایت کا احساس اور زیادہ مستحکم ہوا اور مکہ کی وہ انجمن جس کا مقصد مظلوموں کی حمایت تھا۔ آپ ﷺ کی کوششوں سے اور زیادہ مضبوط ہو گئی ۔ قدرت نے آپ ﷺ کی ذات میں رحمت کی یہ خصوصیت راسخ کی تھی اور یہی 'ملکہ راسخہ' آگے چل کر نبوت اور فرائضِ نبوت کی انجام دہی میں ممد ثابت ہوا۔ قرآنِ پاک نے اسے یوں بیان کیا:

﴿فَبِما رَ‌حمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُم ۖ وَلَو كُنتَ فَظًّا غَليظَ القَلبِ لَانفَضّوا مِن حَولِكَ...١٥٩﴾... سورة آل عمران

''و اللہ کی رحمت سے تو ان کے لئے نرم ہے اور اگر تو سخت کلام، سخت دل ہوتا تو یہ تیرے ارد گرد سے بکھر جاتے۔''

خالقِ کائنات نے حضور ﷺ کو اس لقب سے نوازا۔ رحمت کی بنیادی خصوصیات کو آپ ﷺ کے دل میں قائم کیا۔ اور اس کے بعد تربیت، ہدایت اور آگاہی سے اسے مستحکم کیا۔ کئی مقامات میں جہاں نبی ﷺ کو فرمایا گیا کہ آپ ﷺ رحمت کا یہ طریق کار اختیار کریں۔ مصائب و آلام میں صبر کریں۔ مشکلات کا بدلہ استقامت سے کریں۔ اور ایذاء رسانی کے مقابلے میں عفو و درگز سے کام لیں۔ ایک مقام پر طریقِ تبلیغ سمجھاتے ہوئے فرمایا:

﴿ادعُ إِلىٰ سَبيلِ رَ‌بِّكَ بِالحِكمَةِ وَالمَوعِظَةِ الحَسَنَةِ ۖ وَجـٰدِلهُم بِالَّتى هِىَ أَحسَنُ...١٢٥﴾... سورة النحل

''اپنے رب كے رستے كی طرف حكمت اور اچھے وعظ سے بلا اور ان كے ساتھ اس طريق پر بحث كر جو نہايت عمده ہو۔ ''

دوسری جگہ رحیمانہ طرزِ عمل یوں سکھایا گیا:

﴿ادفَع بِالَّتى هِىَ أَحسَنُ فَإِذَا الَّذى بَينَكَ وَبَينَهُ عَد‌ٰوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِىٌّ حَميمٌ ﴿٣٤﴾... سورة فصلت

''(بدی کو) بہت اچھے طریق سے دور کر، پھر تو دیکھے گا کہ وہ شخص کہ تجھ میں اور اس میں دشمنی ہے، گویا وہ دل سوز دوست ہے۔ ''

اس ودیعت اور تربیت کا اثر آنجناب ﷺ کی ذات گرامی پر کامل طور پر ظاہر تھا۔ طائف کے تبلیغی سفر میں جو سلوک آپ ﷺ کے ساتھ ہوا ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے اور اس کے جواب میں رحمۃٌ للّعالمینی کا ظہور ہے۔ پتھر کھا کر اور گالیاں سن کر فرمایا:

«اللھم اھد قومي فإنھم لا یعلمون» اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے بلاشبہ وہ نہیں جانتے۔

یہ کہنا دراصل اس خصوصیت کا اثر ہے، جسے رحمت کہتے ہیں۔ رحمت کی یہ خصوصیت آپ ﷺ کی پوری زندگی پر محیط ہے۔ مکّی زندگی میں غلاموں کی آزادی میں آپ کی کوشش اور مدنی زندگی میں رئیس المنافقین کے جنازے میں چلے جانا اور اسے اپنا کر تہ پہنا دینا ، مدینہ کے یہودیوں اور نجران کے عیسائیوں کے ساتھ آپ کا حسنِ سلوک نیز فتح مکہ کے موقع پر سنگ دل قریشیوں کو

﴿لا تَثر‌يبَ عَلَيكُمُ اليَومَ﴾ آج تم پر کوئی الزام نہیں۔

مژدہ سنایا صفتِ رحمت ہی کا عمل اظہار ہے۔ آپ کی ذات رحمت ہے، آپ کا انفرادی طرزِ عمل رحمت ہے بلکہ آپ ﷺ مجسمّ رحمت ہیں۔

رحمتِ نبوی:

'رحمت لّلعالمینی' کا ظہور جس طرح آپ ﷺ کی ذاتی زندگی میں ہوتا ہے اسی طرح پیغام اور تحریک میں بھی ہوتا ہے۔ جو اسلام کے نام سے شروع کی گئی۔ گویا یہ تحریک اور پیغام ایک رحمت ہے جو اس کائنات میں آنجناب ﷺ کی وساطت سے متعارف ہوا۔ حضور ﷺ یوں تو جملہ مخلوقِ خدا کے لئے رحمت ہیں لیکن بالخصوص آپ ﷺ انسانوں کے لئے رحمت ہیں۔ کیونکہ یہ اشرف المخلوقات ہیں۔

احادیث و سیرت کی کتابوں میں وہ تفصیلات موجود ہیں، جہاں نبی کریم ﷺ نے حیوانوں سے حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے۔ اور آدابِ زندگی میں یہ بات بتائی کہ کائنات کی ہر شے مصروفِ تسبیح ہے۔ تمہیں اس خیال کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے۔ ہم یہاں رحمت کے صرف اسی پہلو کا ذِکر کریں گے جس کا تعلق انسانوں سے ہے۔ کیونکہ بات کو مختصر کرنا ہے ورنہ مضمون پھیل جائے گا۔ آپ ﷺ کی ذات کی طرح آپ ﷺ کا پیغام انسانوں کے لئے خصوصی رحمت ہے۔ کیونکہ پیغامِ ربانی سے مسلسل انحراف اور خود ساختہ خداؤں کی بندگی نے عقل و فکر اور آزادی و آدمیت کی صحیح روح کو ختم کر دیا تھا۔ کہیں کہیں روشنی کی کرن دکھائی دیتی تھی لیکن وہ بھی اتنی مدھم کہ اس سے رہنمائی کا کام نہیں لیا جا سکتا تھا۔ مذہبی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی لحاظ سے دھاندلی کا بازار گرم تھا۔ آنحضرت ﷺ نے اپنے رحیمانہ طرزِ عمل سے ایک عظیم انقلاب بپا کیا اور انسان کو اس کے حقیقی مقام سے روشناس کرایا۔ صفت رحمت کی رحمۃٌ للّعالمینی کا ظہور پوری انسانی زندگی کو محیط کرتا ہے۔ لیکن ہم سہولت کے لئے انسانی زندگی کو چار بڑے حصوں میں تقسیم کرتے ہیں اور پھر دیکھتے ہیں کہ ان حصوں میں آنجناب ﷺ کی ذات اور آپ ﷺ کے پیغام کے کیا اثرات مرتب ہوئے۔ یہ چار حصے صرف تعارف کے لئے ہیں ورنہ آپ ﷺ کو کسی ایک جگہ محدود کرنا درست نہیں۔ وہ چار حصے یہ ہیں:

1. مذہبی

2. معاشرتی

3. معاشی

4. سیاسی

مذہبی زندگی:

مذہبی زندگی سے وہ امور مراد ہیں جو عبودیت اور پرستش سے تعلق رکھتے ہیں۔ انسانی زندگی کا وہ حصہ جس قدر اہم تھا اسی قدر مجروح تھا۔ شرک اور مذہبی جاگیر داری نے خود ساختہ شریعت کے ذریعے عوام کو مفلوج کر رکھا تھا۔ عقل و فکر کے استعمال پر قدغنیں تھیں۔ انسانی ذہن خرقِ عادت کی بازی گری سے آگے نہیں جا سکتا تھا۔ مذہبی خداؤں نے حلال و حرام کے لئے اپنے پیمانوں سے انسانی زندگی کو بوجھل بنا دیا تھا۔ جہاں کہیں پیغام ربّانی کی روشنی تھی اسے دو راز کار تاویلات اور تحریفات سے تاریک تر کر دیا گیا تھا۔ انسان اسی تاریک ماحول میں آنکھ کھولتا اور تاریکی کے انہی دبیز پردوں کے اندر ابدی نیند سو جاتا۔ رحمتِ نبوی نے انسان کو اس تاریکی سے نجات دلانے کی سعی فرمائی۔ اس کے لئے آپ ﷺ نے مندرجہ ذیل امور اختیار فرمائے۔

1. دعوتِ فکر و تدبیر

2. مذہبی خداؤں کی نفی

3. خود ساختہ قوانین کی تردید

معجزات اور خرقِ عادات کے عادی انسان کو پہلی مرتبہ یہ بات سمجھائی کہ پختہ کردار اور درست سیرت سب سے بڑا معجزہ ہے۔ عقل و فکر کی قوتوں سے کام لے کر خود کو، اور خالقِ کائنات کی حکمتوں کو سمجھنا ہی سب سے بڑا کام ہے۔ قرآنِ پاک میں اس پہلو پر بڑے بلیغ انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ مثلاً

1.﴿أَفَلا يَتَدَبَّر‌ونَ القُر‌ءانَ ۚ وَلَو كانَ مِن عِندِ غَيرِ‌ اللَّهِ لَوَجَدوا فيهِ اختِلـٰفًا كَثيرً‌ا ﴿٨٢﴾... سورة النساء

کیا پھر قرآن میں تدبّر نہیں کتے اور اگر یہ غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت اختلاف پاتے۔

2. ﴿أَفَلا يَتَدَبَّر‌ونَ القُر‌ءانَ أَم عَلىٰ قُلوبٍ أَقفالُها ﴿٢٤﴾... سورة محمد

تو کیا قرآن پر غور نہیں کرتے، یا دلوں پر ان کے تالے لگے ہوئے ہیں۔

3.﴿يَتَفَكَّر‌ونَ فى خَلقِ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَر‌ضِ رَ‌بَّنا ما خَلَقتَ هـٰذا بـٰطِلًا سُبحـٰنَكَ فَقِنا عَذابَ النّارِ‌ ١٩١﴾... سورة آل عمران

آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں فکر کرتے رہتے ہیں، ہمارے رب نے تو اسے بے فائدہ پیدا نہیں کیا۔ تو پاک ہے پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔

4. ﴿وَلَقَد ذَرَ‌أنا لِجَهَنَّمَ كَثيرً‌ا مِنَ الجِنِّ وَالإِنسِ ۖ لَهُم قُلوبٌ لا يَفقَهونَ بِها وَلَهُم أَعيُنٌ لا يُبصِر‌ونَ بِها وَلَهُم ءاذانٌ لا يَسمَعونَ بِها ۚ أُولـٰئِكَ كَالأَنعـٰمِ بَل هُم أَضَلُّ ۚ أُولـٰئِكَ هُمُ الغـٰفِلونَ ﴿١٧٩﴾... سورة الاعراف

اور یقیناً ہم نے بہت سے جنوں اور انسانوں کو دوزخ کے لئے پیدا کیا ہے۔ ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں۔ وہ چارپایوں کی طرح ہیں بلکہ زیادہ (گمراہ) یہی بے خبر ہیں۔

ان آیات میں تفکر و تدبر کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ مومن کی صفتِ تفکر اور کافر کی محرومی کو واضح کیا گیا ہے۔ معجزات کے جواب میں بڑاصاف انداز ہے کہ معجزہ پیام ہے، طرزِ عمل او زندگی ہے تم یوں ہی بھٹک رہے ہو۔

1. ﴿وَقالوا لَولا أُنزِلَ عَلَيهِ ءايـٰتٌ مِن رَ‌بِّهِ ۖ قُل إِنَّمَا الءايـٰتُ عِندَ اللَّهِ وَإِنَّما أَنا۠ نَذيرٌ‌ مُبينٌ ﴿٥٠﴾... سورة العنكبوت

اور كهتے ہيں اس پر اپنے رب كی طرف سے نشان كيوں نہ اتارے گئے، کہ نشان صرف الله كے پاس ہيں اور ميں صرف کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں۔

2. ﴿وَيَقولُ الَّذينَ كَفَر‌وا لَولا أُنزِلَ عَلَيهِ ءايَةٌ مِن رَ‌بِّهِ...٢٧﴾... سورة الرعد

اور جنہوں نے کفر کیا کہتے ہیں اس پر اس کے رب کی طرف سے نشان کیوں نہیں اتار دیا جاتا۔

3.﴿وَقالوا لَن نُؤمِنَ لَكَ حَتّىٰ تَفجُرَ‌ لَنا مِنَ الأَر‌ضِ يَنبوعًا ٩٠ أَو تَكونَ لَكَ جَنَّةٌ مِن نَخيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ‌ الأَنهـٰرَ‌ خِلـٰلَها تَفجيرً‌ا ٩١ أَو تُسقِطَ السَّماءَ كَما زَعَمتَ عَلَينا كِسَفًا أَو تَأتِىَ بِاللَّهِ وَالمَلـٰئِكَةِ قَبيلًا ٩٢ أَو يَكونَ لَكَ بَيتٌ مِن زُخرُ‌فٍ أَو تَر‌قىٰ فِى السَّماءِ وَلَن نُؤمِنَ لِرُ‌قِيِّكَ حَتّىٰ تُنَزِّلَ عَلَينا كِتـٰبًا نَقرَ‌ؤُهُ ۗ قُل سُبحانَ رَ‌بّى هَل كُنتُ إِلّا بَشَرً‌ا رَ‌سولًا ٩٣﴾... سورة الاسراء

اور کہتے ہیں ہم تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ تو ہمارے لئے اس زمین سے چشمہ بہا دے یا تیرا کھجورں اور انگوروں کا باغ ہو۔ پھر تو اس کے اندر خوب نہریں بہا نکالے۔ یا تو آسمان کو جیسا کہا کرتا ہے، ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہم پر گرا دے یا تو اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آئے۔ یا تیرا سونے کا گھر ہو یا تو آسمان میں چڑھ جائے اور ہم تیرے چڑھنے کو بھی نہیں مانیں گے، جب تک کہ تو ہم پر کتاب نہ اتارے جسے ہم پڑھ لیں۔ کہہ تیرا رب پاک ہے میں صرف ایک بشر رسول ہوں۔

اس دعوتِ فکر کے ساتھ شرک اور مذہبی خداؤں کی خدائی کی نفی اس انداز سے کی کہ انسان خدا سے تعلق قائم کرنے لگا۔ بھولی ہوئی خدائی تک پہنچنے کا جذبہ پھر تازہ ہوا۔ اور خدا سے باغی انسان اطاعتِ الٰہی سے سرشار ہو گیا۔ اس کے لئے بھی عقلی اور فکری انداز ملاحظہ فرمائیں:

1. ﴿لَو كانَ فيهِما ءالِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتا...٢٢﴾... سورة الانبياء

اگر ان دونوں میں اللہ کے سوائے (کوئی اور) معبود ہوتا تو دونوں بگڑ جاتے۔

2. ﴿إِنَّ الَّذينَ تَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ لَن يَخلُقوا ذُبابًا وَلَوِ اجتَمَعوا لَهُ ۖ وَإِن يَسلُبهُمُ الذُّبابُ شَيـًٔا لا يَستَنقِذوهُ مِنهُ ۚ ضَعُفَ الطّالِبُ وَالمَطلوبُ ﴿٧٣﴾... سورة الحج

وہ جنہیں تم اللہ کے سوائے پکارتے ہو ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے، گو وہ سب اس کے لئے اکٹھے ہو جائیں اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چین لے جائے تو اسے چھڑا نہیں سکتے۔ طالب اور مطلوب (دونوں) کمزور ہیں۔

3.﴿اتَّخَذوا أَحبارَ‌هُم وَرُ‌هبـٰنَهُم أَر‌بابًا مِن دونِ اللَّهِ...٣١﴾... سورة التوبة

انهوں نے اپنے عالموں اور راہبوں كو الله کے سوائے رب بنا لیا ہے۔

اس کے علاوہ خود ساختہ شریعت کی نفی کی جو رسومات مذہبی تقدس کے طور پر اختیار کی گئیں ان کی تردید بڑے زور سے کی گئی۔

1. ﴿ما جَعَلَ اللَّهُ مِن بَحيرَ‌ةٍ وَلا سائِبَةٍ وَلا وَصيلَةٍ وَلا حامٍ ۙ وَلـٰكِنَّ الَّذينَ كَفَر‌وا يَفتَر‌ونَ عَلَى اللَّهِ الكَذِبَ ۖ وَأَكثَرُ‌هُم لا يَعقِلونَ ﴿١٠٣﴾... سورة المائدة

اللہ نے نہ کوئی بحیرہؔ بنایا ہے اور نہ صائبہؔ اور نہ حامؔ لیکن جو کافر ہوئے وہ اللہ پر جھوٹ افترا کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر عقل سے کام نہیں لیتے۔

2. ﴿إِنَّمَا النَّسىءُ زِيادَةٌ فِى الكُفرِ‌...٣٧﴾... سورة التوبة

مہینوں کا پیچھے کر دینا کفر کی ایک زیادتی ہے۔

3.﴿وَرَ‌هبانِيَّةً ابتَدَعوها ما كَتَبنـٰها عَلَيهِم إِلَّا ابتِغاءَ رِ‌ضو‌ٰنِ اللَّهِ...٢٧﴾... سورة الحديد

اور رہبانیت انہوں نے خود نکالی ہم نے اسے ان پر لازم نہیں کیا، مگر اللہ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے (نکالی)

نبی ﷺ نے انسانیت کو حرام و حلال اور جائز و ناجائز کے ان خود ساختہ قوانین سے نجات دلا کر فطری زندگی کی طرف رہنمائی کی۔ قرآنِ پاک نے اسی انداز سے حضور ﷺ کا تعارف کرایا۔

﴿الَّذينَ يَتَّبِعونَ الرَّ‌سولَ النَّبِىَّ الأُمِّىَّ الَّذى يَجِدونَهُ مَكتوبًا عِندَهُم فِى التَّور‌ىٰةِ وَالإِنجيلِ يَأمُرُ‌هُم بِالمَعر‌وفِ وَيَنهىٰهُم عَنِ المُنكَرِ‌ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبـٰتِ وَيُحَرِّ‌مُ عَلَيهِمُ الخَبـٰئِثَ وَيَضَعُ عَنهُم إِصرَ‌هُم وَالأَغلـٰلَ الَّتى كانَت عَلَيهِم ۚ فَالَّذينَ ءامَنوا بِهِ وَعَزَّر‌وهُ وَنَصَر‌وهُ وَاتَّبَعُوا النّورَ‌ الَّذى أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولـٰئِكَ هُمُ المُفلِحونَ ١٥٧﴾... سورة الاعراف

اور جو رسول نبی امی ﷺ کی پیروی کرتے ہیں، جسے وہ اپنے پاس توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، وہ ان بھلی باتوں کا حکم دیتا اور ان کو بری باتوں سے روکتا اور ان کے لئے ستھری چیزیں حلال کرتا اور ان پر ناپاک چیزیں حرام کرتا اور ان سے ان کا بوجھ اتارتا ہے۔ اور وہ طوق بھی جو ان پر تھے۔ سو جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اس کو مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی کامیاب ہوں گے۔

رحمتِ نبوی نے مذہبی زندگی کے باطل تصورات کو مٹایا۔ انسانوں کو اس بارِ گراں سے نجات دلائی۔ جو از خود انہوں نے اُٹھایا تھا۔ یا انہیں اٹھوایا گیا تھا۔ یہودیت، مسیحیت او مشرکانہ مذاہب کے پھیلائے ہوئے جال سے انسان کو نجات دلانے کی سعی فرمائی اور یہ رحمت کا سب سے بڑا ہور تھا۔

معاشرتی زندگی:

معاشرتی زندگی کا حال مذہبی زندگی سے کچھ اچھا نہ تھا۔ نسلی امتیاز،غلامی و آقائی عورت کی زبوں حالی اور غلط معاشرتی رسوم، معاشرتی زندگی کے وہ تاریک پہلو ہیں جن کے تصور سے روح کانپ اُٹھتی ہے۔ رحمتِ نبوی نے نسلی امتیاز کے پردے کو چاک کیا اور سب انسانوں کو برابری کا درجہ دیا۔ مساواتِ نسلِ انسانی کا درس دیا۔ رنگ و خون اور وطن کی بنیادوں پر ہر قسم کے جاہلی امتیازات کو ختم کیا۔ غلاموں کو اپنے ساتھ بٹھایا۔ ان کی آزادی کا انتظام کیا بلکہ ان کی آزادی کو مذہبی وجوب اور اخلاقی عظمت کی دلیل قرار دیا۔ ان سے حسنِ سلوک، اور ان کی اچھی تربیت کو ذریعۂ نجات قرار دیا۔ عورت کو ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کی حیثیت سے بلند مقام دیا۔ اس کے حقوق کا تعین کیا اور ان کا تحفظ کیا۔ حیاء، عفت اور غیرت کو دین کی بنیادی قدریں بتایا اور معاشرے میں اس کی ترویج و اشاعت پر زور دیا۔ قتلِ اولاد اور دیگر غلط معاشرتی رسوم کا قلع قمع کیا اور اس کی جگہ پر فطری اور صالح نظامِ معاشرت جاری کیا جس میں حسن ظنی، تعاون، ہمدردی اور مساوات کا دور دورہ تھا۔ قرآن و سنت کی مندرجہ ذیل نصوص سے ان امور پر روشنی پڑتی ہے۔ آنجناب ﷺ کا احسان ہے کہ آپ ﷺ نے انسانیت کو حدتِ نسل انسانی کا احساس دلایا۔

1. ﴿وَلَقَد كَرَّ‌منا بَنى ءادَمَ وَحَمَلنـٰهُم فِى البَرِّ‌ وَالبَحرِ‌ وَرَ‌زَقنـٰهُم مِنَ الطَّيِّبـٰتِ...٧٠﴾... سورة الاسراء

اور یقیناً ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری میں سواری دی اور ان کو اچھی چیزوں سے رزق دیا۔

2. ﴿لَقَد خَلَقنَا الإِنسـٰنَ فى أَحسَنِ تَقويمٍ ﴿٤﴾... سورة التين

یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت پر پیدا کیا۔

3.﴿يـٰأَيُّهَا النّاسُ اتَّقوا رَ‌بَّكُمُ الَّذى خَلَقَكُم مِن نَفسٍ و‌ٰحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنها زَوجَها وَبَثَّ مِنهُما رِ‌جالًا كَثيرً‌ا وَنِساءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذى تَساءَلونَ بِهِ وَالأَر‌حامَ...١﴾... سورة النساء

اے لوگو! اپنے رب كا تقويٰ اختيار كرو جس نے تم کو ایک ہی اصل سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان ونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں اور اللہ کے (حقوق کی) جس کے ذریعے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے رہو اور رحموں کی نگہداشت کرو۔

4. ﴿شُعوبًا وَقَبائِلَ لِتَعارَ‌فوا ۚ إِنَّ أَكرَ‌مَكُم عِندَ اللَّهِ أَتقىٰكُم...١٣﴾... سورة الحجرات

اور تمہاری شاخیں اور قبیلے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ تم میں سے اللہ کے نزدیک سب سے شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔

آنجناب ﷺ نے ارشاد فرمایا:

1.« یَا مَعْشَرَ قریش إن اللہ قد أذھب عنکم نخوة الجاھلية وتعظیمھا بالآباء۔ الناس من اٰدم واٰدم من تراب»

اے گروہِ قریش! اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کے غرور اور آباء پر فخر کرنے کو دور کر دیا ہے، لوگ آدم سے ہیں اور آدم مٹی سے تھے۔

2.«لا فضل لعربي علی أعجمي ولا لأسود علی أحمر إلّا بالتقویٰ»

کسی عربی کو عجمی پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ سے۔

نسلی و لسانی امتیازات کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ان مظالم اور ناروالفریقات کو بھی ختم کر دیا جو طبقۂ نسواں کے سلسلہ میں انسانوں نے روا رکھا تھا۔ آپ ؑ نے حجۃ الوداع کے موقع پر خصوصی طور پر عورتوں کے حقوق کا ذکر کیا۔ عورتوں کے ضمن میں چند ایک ارشادات یہ ہیں:

1. ﴿وَلَهُنَّ مِثلُ الَّذى عَلَيهِنَّ بِالمَعر‌وفِ﴾

اور ان کے لئے پسندیدہ طور پر (حقوق) ہیں جیسے ان پر (حقوق) ہیں۔

2.﴿لِلرِّ‌جالِ نَصيبٌ مِمَّا اكتَسَبوا ۖ وَلِلنِّساءِ نَصيبٌ مِمَّا اكتَسَبنَ...٣٢﴾... سورة النساء

مردوں کا حصہ ہے جو وہ کمائیں اور عورتوں کا حصہ ہے جو وہ کمائیں۔

3. ﴿مَن عَمِلَ صـٰلِحًا مِن ذَكَرٍ‌ أَو أُنثىٰ وَهُوَ مُؤمِنٌ فَلَنُحيِيَنَّهُ حَيو‌ٰةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجزِيَنَّهُم أَجرَ‌هُم بِأَحسَنِ ما كانوا يَعمَلونَ ﴿٩٧﴾... سورة النحل

جو کوئی اچھا کام کرتا ہے مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہے ہم یقیناً اسے ایک پاک زندگی میں زندگی رکھیں گے اور ہم انہیں بہترین اعمال کا، جو وہ کرتے ہیں، اجر دیں گے۔

احاديث:

1.« فاّتقوا الله في النساء» (البيان والتبين جلد ۱ ص ۳۴) عورتوں كے سلسلہ ميں الله سے ڈرو۔

2. «النّساء شقائق الرّجال» عورتیں مردوں کی نظیر و مثیل ہیں۔

3. «عن عبد اللہ بن عمر قال كنا نتقي الكلام والانبساط إلى النساء عرنا على عھد النبي ﷺ أن ينزل فينا شيءٌ فلما توفي رسول الله ﷺ تكلمنا وانبسطنا »(بخاري: كتاب النكاح باب الوصاة بالنساء ج ۳ ص ۱۸۳ ابن ماجہ باب ذکر وفات النبی صلعم ودفنہ ج ۱ ص ۵۲۳ )

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ ہم لوگ نبی ﷺ کے عہد میں اپنی عورتوں سے کھلی باتیں کرتے ہوئے ڈرتے تھے، اس اندیشے کے پیش نظر کہ کہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم نازل نہ ہو جائے۔ جب رسول اللہ ﷺ کا انتقال ہوا تو ہم جی کھول کر باتیں کرنے لگے۔

4. «قال رسول اللہ ﷺ حبب إلی من الدنیا النساء والطیب وجعلت قرة عیني في الصلوٰة» (النسائی: کتاب عشرۃ النساء باب حب النساء ج ۷ ص ۶۲ مع شرح سیوطی)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دنیا میں سے مجھے عورتیں اور خوشبو عزیز ہیں اور نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔

عورت کے حقوق کا تحفظ، اس کی صحیح تربیت اور اس کے صحیح معاشرتی مقام کے لئے نبیٔ رحمت ﷺ نے خصوصی انتظام فرمایا۔ اسلام سے پہلے کی جاہلیت اور دورِ جدید کی جاہلیت میں عورت کو جس طرح حرص و ہوا کا نشانہ بنایا گیا وہ بالکل واضح ہے۔ یہ نبی ﷺ کی رحمۃ للعالمینی ہے کہ آپ ﷺ نے عظمتِ انسان بیان کرتے ہوئے عورت کو انسانیت کا ایک لازمی حصہ قرار دیا۔ نکاح و طلاق کے قوانین کی اصلاح فرما کر آپ نے عورت کو ظلم و ستم سے نجات دلائی۔ اس کے لئے دائرۂ عمل متعین فرمایا تاکہ اس کا تحفظ ہو سکے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے:

«المرأةراعیهٌ علی أھلِ بیتھا وھي مسئولة» (صحیح بخاری: کتاب النکاح باب: ۸، مشکوٰۃ کتاب الامارۃ، ص ۲۳۰)

عورت اپنے اہل بیت کی نگران ہے اور اس کے لئے جوابدہ ہے۔

اسلام میں پہلی مرتبہ عورت نے بحیثیت ماں، بیٹی، بیوی اور بہن کے اپنا صحیح مقام حاصل کیا۔ انسانی معاشرت کے سکون کو برباد کرنے کے لئے چند ایسے امور راہ پا گئے تھے جنہوں نے اجتماعی زندگی کو بھی مستحکم نہ ہونے دیا اور آج بھی انسانی معاشرت انہی سے پریشان ہے۔ ان میں باہمی بے اعتمادی و منافرت اور دوسرے احساسِ ہمدردی و ایثار کی کمی ہے۔ آپ ﷺ نے دو امور کی طرف خصوصی توجہ دلائی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کبائر، بدگمانی، تجسس، حسد و بغض، ناجائز حمایت، غیبت وار جھوٹی گواہی وغیرہ سے منع فرمایا۔

1. «عن أبي ھریرة قال قال رسول الله ﷺ اجتنبوا السبع المويقات قالوا يا رسول الله صلعم ما ھن قال الشرك با الله والسحر وقتل النفس التي حرم الله إلا بالحق وأكل الرباء وأكل مال اليتيم والتولي يوم الترجف وقذف المؤمنات الغافلات» (مشكوٰة كتاب الإيمان باب الكبائر: ص ۷)

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ سات ہلاک کر دینے والی باتوں سے بچو۔ لوگوں نے پوچھا، یا رسول اللہ ﷺ وہ کون سی باتیں ہیں، فرمایا، کسی کو خدا کا شریک ٹھہرانا، جادو کرنا اس جان کو مارنا جس کو مار ڈالناخدا نے حرام قرار دیا ہو سوائے حق شرعی کے، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، لڑائی کے روز پشت دکھانا، پاک دامن مومن اور بے خبر عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا۔

2. «عن أبي ھریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ إیاکم والظن فإن الظن أکذب الحدیث ولا تجسسوا ولا تحسسوا ولا تناجشوا ولا تحاسدوا ولا تباغضوا ولا تدابروا وکونوا عباد اللہ إخوانا» (مشکوٰۃ الاَداب باب ما ینھیٰ عنہ من التھاجر والتقاطع ص ۴۲۴)

ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ نے فرمایا بد گمانی سے بچ کر رہو۔ کیونکہ بد گمانی سب سے بڑھ کر جھوٹ بات ہے اور نہ کسی کی راز جوئی کرو اور نہ کسی کی جاسوسی کرو اور نہ قیمت بڑھانے کی بولی دو اور نہ ایک دوسرے سے بغض رکھو اور نہ باہم روگردانی کرو اور اے اللہ کے بندو! بھائی بھائی ہو جاؤ۔

3. «عن أوس بن شرجیل أنه سمع رسول الله صلعم يقول من مشى مع ظالم ليقويه وھو يعلم أنه ظالم فقد خرج من الإسلام» (أيضاً باب الظلم)

اوس بن شرجیل سے (روایت ہے) انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا جس نے ظالم کے ساتھ اس کی تقویت کی خاطر قدم اٹھایا اور وہ اسے جانا ہے کہ وہ ظالم ہے تو وہ اسلام سے نکل گیا۔

معاشرتی زندگی کا ایک اور اہم اصول:

﴿وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ‌ وَالتَّقوىٰ ۖ وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدو‌ٰنِ...٢﴾... سورة المائدة

نيكی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور زیادتی میں باہم کسی کی مدد نہ کرو۔

ہمدردی اور ایثار:

ہمدردی و خیر خواہی اور ایثار و قربانی کا جذبہ دراصل انسانی بے غرضی اور بے لوثی کی دلیل ہے۔ حدیث کی کتابوں میں ''الحب فی اللہ'' کے عنوان سے یک مستقل باب ہے۔ اس جذبہ کے بغیر معاشرہ، معاشرہ نہیں ایک بھیڑ ہے۔ آپ نے فرمایا:

1. «عن أبي أمامة قال قال رسول اللہ صلعم من أحب لِلہ وأبغض للہ وأعطیٰ للہ ومنع للہ فقد استکمل الإیمان» (مشکوٰۃ۔ کتاب الایمان ص ۱۴)

حضرت ابو امامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے محبت کی خدا کے واسطے اور بغض رکھا خدا کے واسطے اور (کسی کو کچھ) دیا خدا کے واسطے اور منع کیا خدا کے واسطے اس نے اپنے دین کو کامل کر لیا۔

2. «عن أبي ذر قال قال رسول اللہ صلعم أفضل الأعمال الحب في اللہ والبغض للہ» (مشکوٰۃ۔ کتاب الایمان ص ۱۴)

حضرت ابو ذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خدا کے لئے محبت کرنا اور خدا کی راہ میں بعض رکھنا بہترین اعمال میں سے ہے۔

3. «عن أنس قال قال رسول اللہ ﷺ والذي نفسي بیده لا یؤمن أحدکم حتی یحب لأخیه ما یحب لنفسه» (نضرة النور شرح مختارات الاحاديث ج ۲ ص ۴۹ حديث ۱۵۰)

حضرت انسؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ نے فرمایا قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کوئی بندہ اس وقت تک کامل ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے وہ (بھلائی) نہ چاہے جو اپنے لئے چاہتا ہے۔

ان کے علاوہ بعض اہم اصول مثلاً احساسِ ذمہ داری، نظافت و طہارت، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، اخوت اور مساوات نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔

معاشی زندگی:

جاہلیت کی معاشرتی زندگی کی طبقاتی تقسیم نے معاشی جدوجہد کو بھی متاثر کیا تھا۔ لوٹ کھسوٹ اور بد نظمی، معاشی زندگی کی خصوصیت تھی۔ سرمایہ دار طبقہ نے سود جیسی لعنت مسلط کر رکھی تھی۔ جس سے غریب کا خون نچڑ رہا تھا۔ معاشرتی زندگی کی برائی شراب نے جوئے کے ساتھ مل کر معاشی جدوجہد کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔ ذرائع آمدنی پر مخصوص لوگوں کا قبضہ تھا۔ طریق صرف میں کسی اخلاقی اصول کا لحاظ نہیں رکھا جاتا تھا۔ اور ہر معاشی جدوجہد خود غرضی اور سنگدلی پر مبنی تھی۔

رحمة لّلعالمین نے اس میدان میں بھی انسانیت کے لئے بہترین اصول و طرزِ عمل عطا کیا۔ سود، کو ختم کیا اور سب سے پہلے اپنے چچا کے سود کو باطل قرار دیا ۔ آئندہ کے لئے سودی کاروبار کرنے والوں کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا باغی قرار دیا۔ بیع و شرائع کے تمام باطل طریقے ختم کیے ۔ اور رزقِ حلال کی دعوت دی۔ جوئے اور شراب کو بند کیا اور اس کے ذریعے پیدا ہونے والی فضول خرچی کو شیطانی فعل سے تعبیر کیا۔ اقتصاد اور اعتدال کو معاشی زندگی کی روح قرار دیا۔ تمام غیر اخلاقی اور ظالمانہ طریقے بند کیے۔ تاکہ انسانوں کا کوئی طبقہ بھی ظلم کا شکار نہ ہو۔ رحمتِ نبوی نے مظلوم انسانیت کو سہارا دیا۔ قرآن و سنت نے آپ کا رحیمانہ طرزِ عمل بیان کیا۔ شراب اور جوئے کے بارے میں فرمایا۔

1.﴿يَسـَٔلونَكَ عَنِ الخَمرِ‌ وَالمَيسِرِ‌ ۖ قُل فيهِما إِثمٌ كَبيرٌ‌ وَمَنـٰفِعُ لِلنّاسِ وَإِثمُهُما أَكبَرُ‌ مِن نَفعِهِما...٢١٩﴾... سورة البقرة

تجھ سے شراب اور جوئے کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ ان دونوں میں بڑی برائی ہے اور لوگوں کے لئے فائدے بھی ہیں اور ان کی برائی ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے۔

2. ﴿إِنَّمَا الخَمرُ‌ وَالمَيسِرُ‌ وَالأَنصابُ وَالأَزلـٰمُ رِ‌جسٌ مِن عَمَلِ الشَّيطـٰنِ فَاجتَنِبوهُ...٩٠﴾... سورة المائدة

شراب اور جوا اور بت اور پاسے ناپاك كام صرف شيطان كے عمل سے ہيں۔ سو اس سے بچو۔

3.﴿يَمحَقُ اللَّهُ الرِّ‌بو‌ٰاوَيُر‌بِى الصَّدَقـٰتِ...٢٧٦﴾... سورة البقرة

اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔

4.﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَر‌وا ما بَقِىَ مِنَ الرِّ‌بو‌ٰا إِن كُنتُم مُؤمِنينَ ﴿٢٧٨﴾ فَإِن لَم تَفعَلوا فَأذَنوا بِحَر‌بٍ مِنَ اللَّهِ وَرَ‌سولِهِ...٢٧٩﴾... سورة البقرة

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کا تقویٰ کرو اور جو کچھ سود سے باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو۔ پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ لڑائی کے لئے خبردار ہو جاؤ۔

5.﴿وَلا تَأكُلوا أَمو‌ٰلَكُم بَينَكُم بِالبـٰطِلِ وَتُدلوا بِها إِلَى الحُكّامِ لِتَأكُلوا فَر‌يقًا مِن أَمو‌ٰلِ النّاسِ بِالإِثمِ...١٨٨﴾... سورة البقرة

اور اپنے مالوں کو آپس میں ناجائز طور پر نہ کھاؤ اور (نہ) ان کے ذریعے حاکموں تک پہنچو، تاکہ لوگوں کے مال کا ایک حصہ گناہ کے ساتھ کھا جاؤ۔

6. ﴿إِنَّ المُبَذِّر‌ينَ كانوا إِخو‌ٰنَ الشَّيـٰطينِ ۖ وَكانَ الشَّيطـٰنُ لِرَ‌بِّهِ كَفورً‌ا ﴿٢٧﴾... سورة الاسراء

مال اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکر گزار ہے۔

7.﴿وَلا تَجعَل يَدَكَ مَغلولَةً إِلىٰ عُنُقِكَ وَلا تَبسُطها كُلَّ البَسطِ فَتَقعُدَ مَلومًا مَحسورً‌ا ﴿٢٩﴾... سورة الاسراء

اور اپنے ہاتھ كو اپنی گردن سے بندھا ہو ا نہ ركھ اور نہ اسے حد سے زياده کھول ورنہ تو ملامت کیا ہوا درماندہ ہو کر بیٹھ رہے ا۔

احادیث:

1. «عن جابر قال لعن رسول اللہ ﷺ آكل الربوا وموكله وكاتبه وشاھديه وقال ھم سواءٌ» (صحيح مسلم جلد ۵، ص ۵۰ کتاب البیوع باب لعن آکل الربا وموکلہ)

جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے سود خوار، سود دینے والے، سودی دستاویر لکھنے والے اور گواہی دینے والوں پر لعنت کی ہے اور فرمایا کہ خدا کی پھٹکار میں یہ سب برابر ہیں۔

2. «عن فضالة بن عبيد أنه قال كل قرضٍ جر منفعة فھو وجه من وجوه الربوا» (بيہقی كتاب البيوع ج ۵، ص ۴۵)

فضالہ بن عبیدؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو قرض بھی نفع کھینچتا ہے وہ سود ہی کے اقسام میں سے ہے۔

آپ نے معاشی زندگی کے استحکام کی خاطر چند زریں اصول دیئے ہیں۔ ان کو اپنانے سے وہ تمام ناہمواریاں ختم ہو جاتی ہیں جو انسانوں کے ظالمانہ نظاموں نے پیدا کر رکھی ہیں۔

1. معاشی جدوجہد کی پاکیزگی:

آپ ﷺ نے معاشی جدوجہد کو پاکیزہ بنایا اور تمام ناجائز ذرائع کو خارج کر دیا۔ اسی طرح ہوسِ زر اور حُبِّ مال کی مذمت کی۔ اور مال کو جمع کرنے کی ممانعت کر دی۔ ارشادِ خداوندی ہے:

1.﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَأكُلوا أَمو‌ٰلَكُم بَينَكُم بِالبـٰطِلِ إِلّا أَن تَكونَ تِجـٰرَ‌ةً عَن تَر‌اضٍ مِنكُم ۚ وَلا تَقتُلوا أَنفُسَكُم ۚ إِنَّ اللَّهَ كانَ بِكُم رَ‌حيمًا ﴿٢٩﴾ وَمَن يَفعَل ذ‌ٰلِكَ عُدو‌ٰنًا وَظُلمًا فَسَوفَ نُصليهِ نارً‌ا...٣٠﴾... سورة النساء

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اپنے مالوں کو آپس میں ناحق مت کھاؤ سوائے اس کے کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے تجارت ہو اور اپنے لوگوں کو قتل نہ کرو۔ بیشک اللہ تم پر رحم کرنے والا ہے اور جو شخص حد سے نکل کر اور ظلم سے ایسا کرے گا ہم اسے آگ میں داخل کریں گی۔

2.﴿وَالَّذينَ يَكنِزونَ الذَّهَبَ وَالفِضَّةَ وَلا يُنفِقونَها فى سَبيلِ اللَّهِ فَبَشِّر‌هُم بِعَذابٍ أَليمٍ ﴿٣٤﴾... سورة التوبة

اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے اور اس کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو ان کو درد ناک عذاب کی خبر دے۔

3.﴿وَلا يَحسَبَنَّ الَّذينَ يَبخَلونَ بِما ءاتىٰهُمُ اللَّهُ مِن فَضلِهِ هُوَ خَيرً‌ا لَهُم ۖ بَل هُوَ شَرٌّ‌ لَهُم...١٨٠﴾... سورة آل عمران

اور وہ لوگ جو اس میں بخل کرتے ہیں، جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا ہے یہ خیال نہ کریں کہ یہ ان کے لئے اچھا ہے بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے۔

احادیث:

1.« عن عبد اللہ قال قال رسول اللہ ﷺ طلب کسب الحلال فریضة بعد الفریضة» (مشكوٰة كتاب البيوع ص ۱۴۱)

عبد اللہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، حلال معیشت کا طلب کرنا اللہ کے فریضۂ عبادت کے بعد سب سے بڑا فریضہ ہے۔

2. «عن أبي بکر أن رسول اللہ صلعم قال لا یدخل الجنة جسد غذي بالحرام» (أیضاً)

حضرت ابو بکرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جس بدن نے مالِ حرام سے پرورش حاصل کی ہو وہ جنت میں داخل نہ ہو گا۔

3. «عن ابن عمر قال قال رسول اللہ ﷺ من اشتریٰ ثوبًا لعشرة دراھم وفیه درھم حرام لم یقبل الله صلوته ما دام عليه»

حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ جو شخص (مثلاً) ایک کپڑا دس درہم میں خریدے اور ان میں ایک درم حرام مال ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی نماز اس وقت تک قبول نہیں کرے گا جب تک وہ کپڑا اس کے جسم پر ہو۔

4. «عن أبي ھريرة...... ثم ذكر الرجل يطيل السفر أشعت أغبر يمد يديه إلي السماء يا رب يا رب ومطعمه حرام ومشربه حرام وملبسه حرام وغذي بالحرام فأنّٰي يستجاب لذلك» (مشكوٰة كتاب البيوع ص ۲۴۱)

5. ابو ہریرہؓ سے روایت ہے ..... پھر آپ ﷺ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو طویل سفر کرتا ہے پراگندہ بال اور غبار آلودہ اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھاتا ہے اور کہتا ہے اے پروردگار (یہ دے اور وہ دے) حالانکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام اور حرام میں پرورش کیا گیا۔ پھر کیونکر اس کی دعا قبول کی جائے۔

فلاحِ عامہ کا احساس:

معاشی جدوجہد میں تمام افراد معاشرہ یکساں صلاحیت نہیں رکھتے۔ فطری، حادثانی اور طبقاتی معذوریوں کے پیشِ نظر ہر آدمی مطلوبہ نتائج نہیں پیدا کر سکتا۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسا معاشی نظم تجویز فرمایا جو ان مزاحمتوں کا علاج مہیا کرتا ہے اور تمام افراد کے لئے معاشی سہولتوں کی راہ کھول دیتا ہے۔ اس کے لئے آپ ﷺ نے کچھ امور تجویز فرمائے۔ مثلاً زکوٰۃ انفاق اور وراثت وغیرہ اس طرح آپ ﷺ نے دو مقاصد حاصل کئے۔ ایک یہ کہ دولت ایک جگہ پر مرتکز نہ ہونے پائے اور دوسرا یہ کہ کوئی فرد محروم المعیشت نہ رہے۔ اس سلسلہ میں چند نصوص ملاحظہ ہوں۔

1. ﴿وَأَقيمُوا الصَّلو‌ٰةَ وَءاتُوا الزَّكو‌ٰةَ...٤٣﴾... سورة البقرة" نماز قائم كرو اور زكوٰة دو۔

2.«عن ابن عباس أن رسول الله ﷺ بعث معاذا إلي اليمن، فقال: إنك تأتي قوماً أھل كتاب، فادعھم إلي شھادة أن لا إله إلا الله وأن محمداً رسول الله فإنھم أطاعوا لذلك فاعلمھم أن الله قد فرض عليھم خمس صلوة في اليوم والليلة فإنھم أطاعوا لذلك فاعلمھم أن الله قد فرض عليھم صدقة تؤخذ من أغنياءھم فترد علي فقراءھم فإن ھم أطاعوا لذلك فإياك وكرائم أموالھم واتق دعوة المظلوم فإنه ليس بينھا وبين الله حجاب» (مشكوٰة كتاب الزكوٰة جلد ۱ ص ۵۵۷)

حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے معاذؓ کو یمن کی طرف (حاکم بنا کر) بھیجا تو فرمایا کہ تو ایک ایسی قوم کی طرف جارہا ہے جو اہل کتاب ہے۔ پس تو ان کو اس امر کی شہادت کی طرف بلا کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد ﷺ خدا تعالیٰ کے رسول ہیں اگر وہ اس کو مان لیں یعنی اسلام قبول کر لیں تو ان کو بتلا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں رات اور دن میں۔ اگر وہ اس کو قبول کر لیں تو پھر ان کو بتلا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے جو دولت مندوں سے لی جائے گی اور غرباء پر تقسیم کی جائے گی اگر وہ اس کو بھی مان لیں تو پھر ان کا بہترین مال نہ لے۔ (زکوٰۃ وصول کرنے میں) مظلوم کی دعا سے اپنے آپ کو بچا اس لئے کہ مظلوم کی دعا اور خدا تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں۔

3.﴿وَيَسـَٔلونَكَ ماذا يُنفِقونَ قُلِ العَفوَ...٢١٩﴾... سورة البقرة

اور وہ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں تو آپ فرما دیں کہ جو کچھ (حاجت سے) بڑھ کر ہے۔

4. ﴿وَفى أَمو‌ٰلِهِم حَقٌّ لِلسّائِلِ وَالمَحر‌ومِ ﴿١٩﴾... سورة الذاريات

اور ان کے مالوں میں سوالی اور نہ مانگنے والے محتاج کا حق تھا۔

5. ﴿الشَّيطـٰنُ يَعِدُكُمُ الفَقرَ‌ وَيَأمُرُ‌كُم بِالفَحشاءِ ۖ وَاللَّهُ يَعِدُكُم مَغفِرَ‌ةً مِنهُ وَفَضلًا...٢٦٨﴾... سورة البقرة

شيطان تم كو تنگ دستی سے ڈراتا ہے اور تمہيں بخل كا حكم ديتا ہے اور الله تمہیں اپنی طرف سے مغفرت اور فضل کا وعدہ دیتا ہے۔

6.﴿وَأَنفَقوا مِمّا رَ‌زَقنـٰهُم سِرًّ‌ا وَعَلانِيَةً يَر‌جونَ تِجـٰرَ‌ةً لَن تَبورَ‌ ﴿٢٩﴾ لِيُوَفِّيَهُم أُجورَ‌هُم وَيَزيدَهُم مِن فَضلِهِ...٣٠﴾... سورة فاطر

اور اس سے جو ہم نے انہيں ديا چھپ كر اور ظاہر خرچ كرتے ہيں۔ وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو تباہ نہیں ہو گی تاکہ وہ انہیں ان کے اجر پورے دے اور اپنے فضل سے بڑھ کر دے۔

7.﴿خُذ مِن أَمو‌ٰلِهِم صَدَقَةً تُطَهِّرُ‌هُم وَتُزَكّيهِم بِها...١٠٣﴾... سورة التوبة

ان کے مالوں سے زکوٰۃ لے لے تاہ اس سے تو انہیں پاک اور صاف کرے۔

8. «عن أبي ھریرة قال رسول اللہ ﷺ من تصدق بعدل ثمرةمن کسب طیب ولا یقبل اللہ إلا الطیب فإن اللہ یتقبلھا بیمینه، ثم یربیھا لصاحبھا کما یربی أحدکم فلوہ حتی تکون مثل الجبل» (مشکوٰۃ کتاب الزکوٰۃ باب فضل الصدقۃ جلد ۱ ص ۵۹۴)

حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص پاک کمائی سے کھجور کے برابر خیرات کرے، اور خدا پاک حلال ہی کو قبول کرتا ہے، وہ اسے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے اور پھر پالتا، بڑھاتا ہے خیرات کرنے والے کے لئے جس طرح کوئی اپنے بچھیرے کو پالتا ہے حتیٰ کہ وہ پہاڑ کی مانند ہو جائے۔

9. «عن أنس قال قال رسول اللہ ﷺ ما من مسلم یغرس غرسًا أو يزرع زرعًا فيأكل منه انسان أو طير أو بھيمة إلا كانت له صدقة» (مشكوٰة کتاب الزکوٰۃ باب فضل الصدقۃ ص ۵۹۷)

حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی مسلمان درخت لگائے یا کھیتی بوئے اور اس میں سے انسان، پرند اور چرند کھائیں تو یہ بھی اس کے لئے صدقہ ہے۔

اس حدیث کے الفاظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے صرف انسانوں کا نہیں پرندوں کا بھی خیال فرمایا۔

3. اقتصاد:

نبی اکرم ﷺ نے گردشِ زر کے عمدہ اصولوں کے ساتھ دولت کے بارے میں ایک نقطۂ نظر دیا۔ اسراف اور بخل کے درمیان اعتدال کی راہ سکھائی۔ قرآن پاک میں ہے:

1.﴿وَلا تَجعَل يَدَكَ مَغلولَةً إِلىٰ عُنُقِكَ وَلا تَبسُطها كُلَّ البَسطِ فَتَقعُدَ مَلومًا مَحسورً‌ا ﴿٢٩﴾... سورة الاسراء

2. اور اپنے ہاتھ کو اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ اسے حد سے زیادہ کھول ورنہ تو ملامت کیا ہوا درماندہ ہو کر بیٹھ رہے گا۔

3. ﴿وَالَّذينَ إِذا أَنفَقوا لَم يُسرِ‌فوا وَلَم يَقتُر‌وا وَكانَ بَينَ ذ‌ٰلِكَ قَوامًا ﴿٦٧﴾... سورة الفرقان

اور وہ جو، جب خرچ کرتے ہیں، نہ بیجا خرچ کرتے ہیں اور نہ (موقع پر) تنگی کرتے ہیں اور (ان کا خرچ) ان (دو حالتوں) کے درمیان اعتدال پر ہے۔

4.﴿وَءاتِ ذَا القُر‌بىٰ حَقَّهُ وَالمِسكينَ وَابنَ السَّبيلِ وَلا تُبَذِّر‌ تَبذيرً‌ا ﴿٢٦﴾ إِنَّ المُبَذِّر‌ينَ كانوا إِخو‌ٰنَ الشَّيـٰطينِ ۖ وَكانَ الشَّيطـٰنُ لِرَ‌بِّهِ كَفورً‌ا ﴿٢٧﴾... سورة الاسراء

اور قریبی کو اس کا حق دے اور مسکین کو اور مسافر کو (بھی) اور بیجا خرچ کر کے (مال کو) نہ اُڑاؤ۔ مال اُڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکر گزار ہے۔

حضور ﷺ نے معیشت میں میانہ روی کو پسند فرمایا۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے:

«الاقتصاد نصف المعيشة»

حضرت کعبؓ بن مالک کہتے ہیں جب میں نے اپنے کل مال کو صدقہ کا ارادہ کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔

«قال رسول اللہ ﷺ أمسك علیك بعض ما لك فھو خیر لك قلت أمسك سھمي الذي بخیبر» (بخاری باب الصدقات)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنے مال میں سے کچھ بچا لو یہ تمہارے حق میں بہتر رہے گا۔ تب میں نے عرض کیا کہ خیبر کی زمین میں جو میرا حصہ ہے وہ میں نے بچا لیا ہے۔

ان اصلاحات کے ساتھ ساتھ قرضِ حسنہ اور ہمدردی و ایثار کے اصول عملی طور پر جاری کیے۔ جس سے معاشی طور پر خود کفیل ہو گیا۔ بلکہ ہر شخص عزتِ نفس کا پاس کرنے لگا۔ لوگ اپنے اپنے حقوق کے ساتھ دوسروں کے حقوق کا تحفظ کرنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ معاشی میدان میں بد دیانتی، رشوت، لوٹ کھسوٹ اور فریب دہی کی لعنتیں ختم ہو گئیں اسی طرح معاشی جدوجہد کو خالص اخلاقی بنیادوں پر استوار کیا تاکہ کوئی انسان خود غرضی کا شکار ہو کر ابنائے جنس پر ظلم نہ کرے۔

سیاسی زندگی:

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ انسان نے سب سے زیادہ ظلم اس وقت کیا ہے جب اسے سیاسی اقتدار ملا ہے۔ سیاسی اقتدار کے شر سے انسانوں کو تو متأثر ہونا ہی ہوتا ہے۔ زمین، فضا، حیوانات، نباتات اور جمادات تک بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ایک انسان جب دوسرے انسان کا گلا کاٹتا ہے فصلیں تباہ کرتا ہے۔ پانی میں زہر ملاتا ہے۔ زمین کو تہہ و بالا کرتا ہے اور فضا کو مکدّر کرتا ہے تو پوری کائنات اس سے پناہ مانگتی ہے۔ انسان کی مذہبی خدائی بھی بڑی خطرنکا ہے۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ خطرناک انسان کی سیاسی خدائی ہے۔ انسانیت کے سیاسی خداؤں کی فہرست بڑی طویل اور دلچسپ ہے لیکن ایک پہلو ان سب میں مشترک ہے کہ وہ اپنی ذات کے تحفظ میں ہر ظلم، ہر زیادتی اور ہر خرابی کو صحیح سمجھتا ہے۔ عام انسان ان کے بندھنوں میں جکڑے ہوتے ہیں۔

مظلوم انسانوں کا وجود ان کی نظرِ التفات کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔ حاکم و محکوم کی اس تقسیم نے ظلم و جور کے وہ کارنامے دکھائے ہیں کہ آدمی اس کا تصور نہیں کر سکتا۔ معاہدات، بد دیانتی، کمزوروں پردراز دستی اور صلح و امن کی خلاف ورزی کی داستان اتنی ہی طویل ہے جتنی انسان کی تاریخ۔ انسان نے سیاسی استحکام و تسلط کی جتنی صورتیں تصنیف کی ہیں۔ ظلم و جور کو بڑھانے والی ہی ثابت ہوئی ہیں۔ عام انسانیت کو اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا۔

رحمۃً للّعالمین ﷺ نے اس پہلو پر بھی توجہ فرمائی اور اصلاح و انقلاب سے اسے نیا رنگ دیا۔ انبیاء میں غالباً آپ ﷺ ہی ایک تنہا شخصیت ہیں۔ جنہوں نے سیاسی انصاف و استحکام میں نمایاں کام سر انجام دیئے۔ موسیٰؑ، داؤدؑ اور سلیمانؑ کی شخصیتیں بے شک اہم ہیں لیکن ان کا کام بھی اس نہج اور اس سطح کا نہیں جو حضور ﷺ کا ہے۔ آپ ﷺ نے سیاسی زندگی میں اصولوں کا نیا رنگ بھرا ان میں چند ایک یہ ہیں:

1. حاکمیتِ خداوندی:

آنجنابﷺ نے یہ بتایا کہ حاکم و محکوم کی تفریق غلط ہے۔ حاکم صرف اللہ کی ذات ہے اور انسان اس کا انتظامی نائب ہے۔ لہٰذا کسی انسان کو یہ حق نہیں کہ وہ دوسرے انسانوں کو محکوم بنا کر اپنا بندہ بنائے وہ مالک نہیں منتظم ہے۔ اسے خود بھی معصیتِ خداوندی سے اجتناب کرنا چاہئے اور دوسروں کو بھی معصیتِ الٰہی میں اپنی اطاعت نہیں کرانی چاہئے۔ کتاب و سنت میں اس کی وضاحت یوں کی گئی ہے:

1.﴿إِنِ الحُكمُ إِلّا لِلَّهِ...٦٧﴾... سورة يوسف" حکم صرف اللہ کا ہے۔

2.﴿مـٰلِكَ المُلكِ تُؤتِى المُلكَ مَن تَشاءُ وَتَنزِعُ المُلكَ مِمَّن تَشاءُ...٢٦﴾... سورة آل عمران

ملك كا مالك، تو جسے چاہتا ہے ملک دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ملک لے لیتا ہے۔

3. ﴿قُل مَن بِيَدِهِ مَلَكوتُ كُلِّ شَىءٍ...٨٨﴾... سورة المومنون" کہہ کون ہے جس کے ہات میں ہر چیز کی حکومت ہے۔

4.﴿فَسُبحـٰنَ الَّذى بِيَدِهِ مَلَكوتُ كُلِّ شَىءٍ...٨٣﴾... سورة يس٨٣"سو پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی حکومت ہے۔

5.﴿فَالحُكمُ لِلَّهِ العَلِىِّ الكَبيرِ‌ ﴿١٢﴾... سورة غافر" پس اللہ تعالیٰ کے لئے (جو) بلند (اور) بڑا (ہے)

6. ﴿أَلا لَهُ الحُكمُ...٦٢﴾... سورة الانعام" سن لو کہ حکم اسی کا ہے۔

احادیث:

1. «لا طاعة لمخلوق في معصية» (مشكوٰة۔ كتاب الامارة۔ فصل ثانی ص ۲۳۱) خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں۔

2. «قال رسول الله ﷺ ما من أمتي ولي عن أمر الناس شيئًا لم يحفظھم بما حفظ به نفسه وأھله إلا لم يجد رائحة الجنة» (طبرانی)

حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ میری امت میں کا جو شخص لوگوں کے معاملات میں سے کسی امر کا والی بنا پھر اس نے لوگوں کو ان امور سے نہ بچایا جن سے اپنے آپ کو حفاظت کرتا ہے، وہ جنت کی ہوا بھی نہیں پائے گا۔

2. شوریٰ:

دوسری اہم چیز شوریٰ ہے یہاں کسی امیر کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ اپنی مرضی اور خواہش سے احکام نافذ کرے۔ اسے احکامِ خداوندی کی پیروی کرنا ہو گی اور اجتہاد و استنباط اور اس کے نفاذ میں اسے مقتدر اور ذمہ دار افراد سے مشورہ کرنا ہو گا۔

1. ﴿وَأَمرُ‌هُم شور‌ىٰ بَينَهُم...٣٨﴾... سورة شورىٰ" اور ان کا کام آپس میں مشورے سے ہوتا ہے۔

2. ﴿وَشاوِر‌هُم فِى الأَمرِ‌ ۖ فَإِذا عَزَمتَ فَتَوَكَّل عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ المُتَوَكِّلينَ ﴿١٥٩﴾... سورة آل عمران

اور معاملات میں ان سے مشورہ لے۔ پھر جب پختہ ارادہ کر لے تو اللہ پر ہی بھروسہ کر۔ اللہ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

3. «عن علي رضي اللہ تعالٰی عنه قال سئل رسول اللہ ﷺ عن العزم قال مشاورة أهل الرأي ثم أتباعھم» (ابن کثیر جلد ۱ ص ۴۲۰)

حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے عزم کے بارے میں سوال کیا گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اہل الرائے سے مشورہ کرنا اور پھر ان کی پیروی کرنا۔

4. «عن عمر بن الخطاب قال لا خلافة إلا عن مشورة» (كنز العمال جلد ۵ حديث ۲۳۵۴ ص ۱۳۹)

مشورے کے بغیر کوئی خلافت نہیں۔

حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے۔

«من دعا إلی أمارة نفسه أو غيره من غير مشورة من المسلمين فلا يحل لكم أن لا تقتلوه» (ایضاً حدیث ۲۵۷۷)

جو شخص مسلمانوں کے مشورے کے بغیر اپنی یا کسی اور شخص کی امارت کے لئے دعوت دے تو تمہارے لئے حلال نہیں کہ اسے قتل نہ کرو۔

آنحضور ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا۔

«أجمعوا العابدین من أمتي واجعلوہ بینکم شوریٰ ولا تقضوا برأي خاصة» (روح المعانی جلد ۲۵ ص ۴۲)

میری امت کے عابد لوگوں کو جمع کر کے باہمی مشورہ کرو اور کسی ایک رائے پر فیصلہ نہ کرو۔

3. عدل و انصاف:

تیسری اہم چیز عدل و انصاف ہے۔ کسی دشمنی، کسی مفاد اور کسی خواہش کی وجہ سے اسے مجروح نہیں کیا جا سکتا۔

1.﴿تَعاوَنوا عَلَى البِرِّ‌ وَالتَّقوىٰ ۖ وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدو‌ٰنِ...٢﴾... سورة المائدة

نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور زیادتی میں باہم کسی کی مدد نہ کرو۔

2.﴿وَلا يَجرِ‌مَنَّكُم شَنَـٔانُ قَومٍ عَلىٰ أَلّا تَعدِلُوا ۚ اعدِلوا هُوَ أَقرَ‌بُ لِلتَّقوىٰ...٨﴾... سورة المائدة

اور کسی قوم کی دشمنی تم کو اس پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو' یہ تقویٰ سے قریب ترہے۔

3. ﴿وَليَعفوا وَليَصفَحوا ۗ أَلا تُحِبّونَ أَن يَغفِرَ‌ اللَّهُ لَكُم...٢٢﴾... سورة النور

اور چاہیے کہ معاف کریں اور درگزر کریں کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہاری مغفرت کرے۔

حضور ﷺ نے ہدایتِ ربانی کے تحت عظیم اصول عطا فرمائے۔

1. ﴿لَقَد أَر‌سَلنا رُ‌سُلَنا بِالبَيِّنـٰتِ وَأَنزَلنا مَعَهُمُ الكِتـٰبَ وَالميزانَ لِيَقومَ النّاسُ بِالقِسطِ ۖ وَأَنزَلنَا الحَديدَ فيهِ بَأسٌ شَديدٌ وَمَنـٰفِعُ لِلنّاسِ...٢٥﴾... سورة الحديد

ہم نے اپنے رسولوں کو دلائل کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان اُتاری تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں اور ہم نے لوہا اتارا۔ اس میں شدت کی سختی ہے اور لوگوں کے لئے فائدے بھی۔

2.﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا كونوا قَوّ‌ٰمينَ بِالقِسطِ شُهَداءَ لِلَّهِ وَلَو عَلىٰ أَنفُسِكُم أَوِ الو‌ٰلِدَينِ وَالأَقرَ‌بينَ ۚ إِن يَكُن غَنِيًّا أَو فَقيرً‌ا فَاللَّهُ أَولىٰ بِهِما ۖ فَلا تَتَّبِعُوا الهَوىٰ أَن تَعدِلوا ۚ وَإِن تَلوۥا أَو تُعرِ‌ضوا فَإِنَّ اللَّهَ كانَ بِما تَعمَلونَ خَبيرً‌ا ﴿١٣٥﴾... سورة النساء

3. اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، انصاف پر قائم ہونے والے، اللہ کے لئے گواہی دینے والے رہو۔ گو (معاملہ) تمہاری اپنی ذات یا ماں باپ اور قریبیوں کے خلاف ہو اگر کوئی امیر ہو یا غریب تو اللہ دونوں کا (تمہاری نسبت) زیادہ خیر خواہ ہے۔ سو تم خواہش کی پیروی نہ کرو تاکہ عدل کر سکو اور اگر تم پیچ دار بات کرو یا (حق سے) اعتراض کرو تو یقیناً جو تم کرتے ہو اللہ اس سے خبردار ہے۔

4. ﴿إِنَّ اللَّهَ يَأمُرُ‌كُم أَن تُؤَدُّوا الأَمـٰنـٰتِ إِلىٰ أَهلِها وَإِذا حَكَمتُم بَينَ النّاسِ أَن تَحكُموا بِالعَدلِ...٥٨﴾... سورة النساء

الله تم كو حكم ديتا ہے کہ امانتيں ان كے اہل کو ادا کر دو اور جب لوگوں میں فیصلہ کیا کرو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو۔

جناب رسالت مآب ﷺ نے فرمایا:

«إنما ھلك من کان قبلکم إنھم یقیمون الحد علٰی الوضیع ویترکون الشریف والذي نفسي بیدہ لو فاطمة (بنت محمد صلعم) فعلت ذلك لقطعت یدھا» (بخاری ج ۸ ص ۲۶۸)

تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں وہ اس لئے تباہ ہوئیں کہ وہ لوگ کم تر درجہ کے مجرموں کو قانون کے مطابق سزا دیتے اور اونچے درجے والوں کو چھوڑ دیتے تھے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر محمد ﷺ کی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو میں ضرور اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔

حقوقِ انسانی کا تحفظ:

انسانی تاریخ میں حضور ﷺ کا یہ کارنامہ بے مثیل ہے۔ کہ آپ ﷺ نے انسانی حقوق کا تحفظ کیا ہے۔ آج دورِ جدید میں جن بنیادی حقوق کی بات ہوتی ہے ان کی رحمۃ للعالمین نے بہت پہلے رہنمائی دے دی ہے۔ مثلاً

جان و مال کی حفاظت، عزت و ناموس کی حفاظت، شخصی آزادی کا تحفظ، عقیدے اور مسلک کی حفاظت، حقِ ملکیت کا تحفظ اور قانون کے سامنے تمام انسانوں کی مساوات وغیرہ۔

اس ضمن میں آپ ﷺ کے بعض ارشادات ملاحظہ ہوں۔

«قال رسول اللہ ﷺ من صلی صلوتنا واستقبل قبلتنا وأکل ذبیحتنا فذلك المسلم الذي له ذمه فلا تخضوفي ذمة الله» (بخاری باب فضل استقبال القبلۃ ج ۱ ص ۱۷۳)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے ہمارے طریقہ پر نماز پڑھی، ہمارے قبلہ کی طرف رُخ کیا اور ہمارا ذبیحہ کھایا تو وہ مسلم ہے جس کے لئے اللہ اور اس کے رسول، کا ذمہ قائم ہو چکا ہے تو اللہ کے ساتھ اس کی دی ہوئی ضمانت میں دغا بازی نہ کرو۔

حجّۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:

1.« فإن دماءکم وأموالکم وأعراضکم حرام إلی أن تلقوا ربکم كحرمة يومكم ھذا» (ابن ہشام جلد ۴ ص ۲۵۰)

بلاشبہ تمہاری جان و مال اور آبرو ایک دوسرے کے لئے اسی طرح محترم ہے جس طرح آج کا یہ دن۔ حتیٰ کہ تم اللہ سے جا ملو۔

2. «کل المسلم علی المسلم حرام دمه وماله وعرضه» (مسلم کتاب البر والصلة باب تحریم الظلم ج ۸ ص ۱۱۱، ابو داود ص ۳۷۲)

مسلمان کی ہر چیز مسلمان پر حرام ہے، اس کا خون بھی، اس کا مال بھی اور اس کی آبرو بھی۔

شخصی آزادی:

آپ ﷺ نے فرد کو ہر قسم کے حاکمانہ جبر و استیصال سے نجات دلائی اور فرمایا:

1. «عن مقدام بن معد یکرب وأبي أمامة عن النبي صلعم قال إن الأمير إذ ابتغي الريبة في الناس أفسدھم» (ابو داود کتاب الادب باب النهي عن التنجیس ج ۴ ص ۳۷۵)

مقدامؓ بن معد یکرب اور ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلعم نے فرمایا، امیر جب لوگوں کے اندر شبہات کی تلاش کرے تو ان کو بگاڑ دیتا ہے۔

آنحضور ﷺ کا یہی واقعہ شخصی آزادی کے تحفظ کے لئے کافی ہے:

«عن بهز بن حكيم عن أبيه أنه أي جده قام إلي النبي وھو جده قام إلي النبي وھو يخطب فقال جيراني بما أخذه؟ فأعرض عنه مرتين ثم ذكر ما شاء فقال النبي خلوا له عن جيرانه» (ابو داود كتاب الأقضية ج ۳ ص ۳۲۷)

بہر بن حكيم اپنے باپ سے اور وه اپنے دادا سے روايت كرتے ہيں کہ وه (ان كے دادا) حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے در آنحالیکہ آپ ﷺ خطبہ دے رہے تھے انہوں نے سوال کیا کہ میرے پڑوسیوں کو کس قصور میں گرفتار کیا گیا ہے۔ نبی ﷺ نے دو مرتبہ اس سے صرفِ نظر کیا تو اس شخص نے پھر کچھ کہا۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا اس کے پڑوسیوں کو چھوڑ دو۔

میثاقِ مدینہ رائے اور مسلکِ کی آزادی کا بہترین نمونہ ہے۔ اس کے علاوہ پورا خطبہ حجۃ الوداع انسانی حقوق کے تحفظ کا ایک چارٹر ہے۔

ہم نے زندگی کے چند پہلو گنوائے ہیں اور ان کے متعلق بھی محدود اور مختصر معلومات پیش کی ہیں۔ آنجناب ﷺ کی ذاتِ گرامی جامع الصفات اور پوری زندگی کے لئے رحمت ہے۔ بلکہ کائنات کی ہر شے کے لئے رحمت ہے۔ اسی طرح آپ ﷺ کا پیغام بھی رحمت ہے۔ حقیقت میں آپ اپنی ذات کے اعتبار سے بھی اور پیغام کے اعتبار سے بھی مجسمۂ رحمت ہیں۔ آپ ﷺ کی ذات، ذاتی اور نبوی رحمۃ للعالمینی کا کامل ظہور ہے۔ یہاں ایک بات خاص طور پر قابلِ ذکر معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ رحمۃ للعالمینی کا ظہور اس وقت ہوا جب انسان اس کامل شخصیت اور مکمل پیغام کے اہل ہو چکا تھا۔ اس سے پہلے اس کی ارتقائی منازل میں اس کے فہم کے مطابق کام کیا۔ جونہی وہ پختہ ہو گیا رحمۃٌ للّعالمین کو پیدا کیا۔

علامہ اقبال نے غالباً اسی جانب اشارہ کیا ہے ؎
خلق و تقدیر و ہدایت ابتدا است
رحمۃٌ للّعالمینی انتہا است

(تخلیق، تقدیر اور ہدایت سے ابتدا ہوتی ہے اور رحمتِ نبوی سے تکمیل)

رحمۃٌ للّعالمین ﷺ نے اپنی زندگی کو ایک نمونہ بنا کر پیش کیا جو مسلموں اور غیر مسلموں کے لئے رحمت ہے۔ آپ ﷺ نے تکمیلِ اخلاق کی، اور عمل کا اظہار اس طرح کیا جو حسنِ خلق، رحمت و شفقت اور ایثار و ہمدردی کے لئے ضرب المثل بن گیا۔ اپنی گزارشات کو حالی مرحوم کے اشعار پر ختم کرتا ہوں۔ ؎
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا     مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا      وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجاء ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی، غلاموں کا مولا
خطا کار سے درگزار کرنے والا       بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا
مفاسد کا زیر و زبر کرنے والا       قبائل کا شیر و شکر کرنے والا
اُتر کر جرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا

اللھم صلّ علی محمد واٰله وأصحابه أجمعين آمين!
حوالہ جات

فاطر: ۲۴

رعد: ۷

سیرۃ النبی ج ۳ ص ۸۳۱

اسلامی اصول اور اس کے مبادی ص

سیرۃ النبی ج ۳، ص ۳۸۲

صحيح بخاري، كتاب الصلوٰة باب قول النبي ﷺ جعلت لي الأرض مسجدًا وطھورًا جلد ۱ ص ۲۳۵۔ صحيح مسلم۔ كتاب الايمان۔ حديث نمبر ۳۲۲

الانبیاء: ۱۰۷

راغب: مفردات القرآن، رحمت ص ۳۴۲

ابو الکلا، ترجمان القرآن، جلد اول۔ زیرِ آیت 'الرّحمٰن الرحیم' ص ۶۲

مسند احمد ج ۸ ص ۶۲ حدیث ۵۶۷۳

ابن سعد ج ص ۱۲۶

ابن سعد ج ۱ ص ۱۲۸

آل عمران: ۱۵۸

النحل: ۱۲۵

حٰمٓ السجدۃ: ۳۴

ابن سعد جلد ۱ ص ۲۱۰

ابن ہشام جلد ۱ ص ۳۳۹-۳۴۳

ابن ہشام جلد ۲ ص ۳۷۸

بخاری باب الکسوہ للاساری ص ۴۲۳

بخاری جلد ۱ ص ۵۶۳ باب إتیان الیهود النبيﷺ عین قدم المدینة

ابن کثیر جلد ۲ ص ۳۷-۳۷۱

ابن سعد جلد ۲ ص ۱۴۲

النساء: ۸۲

محمد: ۲۴

اٰل عمران: ۱۹۱

الاعراف: ۱۷۹

العنکبوت: ۵

الرّعد: ۲۷

بنی اسرائیل ۹۰-۹۱

انبياء: ۲۲

الحج: ۷۳

التوبۃ: ۳۱

المائدۃ: ۱۰۳

التوبۃ: ۳۷

الحدید: ۲۷

الاعراف: ۱۵۷

بنی اسرائیل: ۲۷۰

التین: ۴

النساء:۱

الحجرات: ۳۱

ابن ہشام جلد ۴ ص ۵۴

مسند احمد جلد ۵ ص ۴۱۱

البقرة: ۲۲۸

النساء: ۳۲

النحل: ۹۷

ابن ہشام جلد ۴ ص ۲۵۱

بخاری۔ کتاب البیوع