معراجِ نبوی ﷺ

شبے دیباچۂ، صبحِ سعادت           زدولت ہائے روز افزوں زیادت
سوادِ طُرہّ اَش خجلت دہِ نور          بیاضِ غرہّ اَش نورٌ علیٰ نور
مسیمش جعدِ سنبل شانہ کردہ          ہو ایش اشکِ شبنم وانہ کردہ
طرف راچوں سحر خنداں ازاں لب         گریزاں روزِ محنت زو شباشب
دریں شبِ آں چراغ اہلِ بینش        سزائے آفریں از آفرینش
چوں دولت شد زبد خواہاں نہانی        سوئے دولت سرائے امِّ ہانی
بہ پہلو تکیر بر مہرِ زمیں کرد          زمیں را مہرِ جانِ نازنین کرد
ولش بیدار و چشمش در شکر خواب        ندیدہ چشمِ بخت ایں خواب در خواب
درآمد ناگہاں ناموسِ اکبر       سبک روترا زیں طاؤس اخضر
برومالید پرکاری خواجہ برخیز             کہ ایں شب خوابت آمد و دولت انگیز
بروں بریک زماں زیں خوابگہ رفت         تو بخت عالمی بیدار بہ بخت
ازاں دولت سرا چوں خواجۂ دیں           خراماں شد بہ عزم خانۂ زیں
شد از سبو حیاں گردوں صدادہ
کہ سبحان الذی اسریٰ بعبدہ (جامی)

معراج رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مقدسہ ہی کا نہیں، پوری تاریخِ انسانیت کا ایک عظیم الشان واقعہ ہے۔ ایک ایسا عظیم الشان واقعہ۔ جس نے زمانے کے دھارے کا رُخ موڑ دیا اور شاہراہِ حیات پر اخلاق و تمدّن کا ایک ایسا بلند و بالا منارِ نور نصب کر دیا جس کی روشنی سے بے نیاز ہو کر انسانی قافلے ایک قدم بھی راہِ راست پر چل نہیں سکتے۔ لیکن یہ حیرت ناک بات ہے کہ انسان کی عملی زندگی کے لئے یہ مہتمم بالشان واقعہ جتنی اہمیت اپنے دامن میں رکھتا ہے، اتنا ہی اس کو عقل و دانش کی پیچیدگیوں اور افسانہ پسندیوں میں گم کر دیا گیا ہے۔ اغیار تو اغیار ہیں، وہ اگر اس عظیم واقعہ کے ظہور کا انکار کریں تو یہ انکار سمجھ میں آسکتا ہے کہ جو رولِ صادق و مصدوق ﷺ کی رسالت پر یقین و ایمان نہیں رکھتے، وہ شب اسریٰ میں رونما ہونے والے اس واقعہ کو کیوں کر تسلیم کر سکتے ہیں۔ کور بین آنکھ اگر روشنی کے وجود ہی سے انکار کرتی ہے تو وہ اس منبع پر کیسے ایمان لے آئے گی جس سے نور کی کریں پھوٹ پھوٹ کر ایک عالم کو منور کر رہی ہیں۔
گرنہ بیند بروز شپرّہ چشم
چشمۂ آفتاب راچہ گنا

مگر اپنوں نے کچھ خرد کی داماندگیوں اور کچھ غیروں سے ذہنی مرعوبیت کی بنا پر اس واقعہ کو جس طرح تاویلات کا گورکھ دھندا بنا ڈالا ہے،وہ زیادہ افسوسناک ہے۔

ایمان و صدیقیت کا ایک عالم وہ تھا کہ جب حضرت ابو بکرؓ سے قریشِ مکہ شب اسریٰ کی واردات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں ''لو تمہارے صاحب یہ تو کہتے ہی تھے کہ ان پر آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے، آج انہوں نے یہ خبر سنائی ہے کہ وہ راتوں رات بیت المقدس اور آسمان کی سیر کر آئے ہیں تو یہ مردِ مومن جو حقیقت حال سے بے خبر تھے، کسی تذبذب اور تامّل کے بغیر جواب دیتے ہیں کہ جو کچھ تم کہتے ہو اگر رسول اللہ ﷺ نے یہ بیان فرمایا ہے تو میں گواہی دیتا ہوں کہ حضور ﷺ سچ فرماتے ہیں۔ اور ایک حالت یہ ہے کہ مدتوں سے ذہنی و فکری موشگافیاں جاری ہیں، رسول اللہ ﷺ جسدِ عنصری کے ساتھ معراج پر تشریف لے گئے تھے یا یہ عالمِ خواب کا واقعہ تھا۔ آج جب کہ انسان سپوتنگ اور مصنوعی سیاروں کے ذریعے چاند اور مریخ پر پہنچا اور آسمان میں تھگلی لگایا چاہتا ہے شاید ان لوگوں کے لئے جن کی خرد معراج کی اصل حقیقت سے بہرہ یاب ہونے سے قاصر تھی، بصیرت افروزی کا کوئی سامان مل جائے۔ لیکن اس فکری موشگافی اور بحثہم بحثی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ امت کی نظر سے معراج کی اصل اہمیت اوجھل ہو گئی اس کے علماء ذہنی کشتی میں مصروف رہے اور اس کے عوام نے اسے اپنی خوش عقیدگی کا سرمایہ بنا لیا۔

معراج کا واقعہ جس وقت پیش آیا، رسول اللہ ﷺ کو دعوتِ حق دیتے ہوئے گیارہ برس گزر چکے تھے۔ مکہ میں جن سعید روحوں کو اس دعوت پر لبیک کہنی تھی، وہ کہہ چکی تھیں اور اب متمر دین اور شورہ پشتوں یا ایسے لوگوں کے سوا جن کے دل کی آنکھیں دعوتِ حق کی فتوحات اور کامرانیوں ہی سے کھل سکتی تھیں اور کوئی باقی نہ رہا تھا اور اب یہ دعوت نئے مرکز کو منتقل ہونے کو تھی جہاں اُسے ایک اسٹیٹ کی روح رواں بننا تھا۔ اب تک اس دعوت کا دائرہ عقائد و نظریات کو دلوں میں راسخ کرنے اور انفرادی اخلاق و کردار کی اصلاح تک محدود تھا۔ آئندہ اس کی بنیادوں پر ایک ایسی مملکت تعمیر کی جانے والی تھی جسے رہتی دنیا تک قوموں اور ملکوں کے لئے ہدایت و رہنمائی کا نمونہ بننا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے حضور بلا کر وہ اصول عطا کئے جن پر مدینہ کی اسلامی ریاست اور مسلم معاشرہ قائم کیا جانے والا تھا۔

یہ اصول سیاست، اخلاق، تمدن، معاشرت، معیشت، تجارت، تعلیم غرض ہر شعبۂ زندگی سے متعلق تھے۔ ان میں بتایا گیا تھا کہ ایک اسلامی ریاست میں اقتدار اعلیٰ کا مالک اللہ کی ذات ستودہ صفات ہے۔ اسی شاہنشاہ کی بندگی اور غلامی اس ریاست کا مقصودِ وجود ہونا چاہئے۔ تمدن میں خاندان کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور افراد خاندان کے باہمی خوشگوار تعلقات پر ہی اس تمدن کی مضبوطی اور قوت کا انحصار ہے۔ معاشرہ کے مختلف طبقات باہم ہمدرد، بہی خواہ اور مصائب و آلام میں مددگار بننے چاہئیں دولت کے ضیاع، بخل اور اسراف سے بچ کر معیشت کی بنیادیں استوار کرنی چاہئیں۔ وسائل رزق کا جو انتظام اللہ نے کر دیا ہے اس کو بعینہ برقرار رکھنا چاہئے۔ معاشی مشکلات اور رزق کی کمی کے خوف سے افزائشِ نسل کی روک تھام نہیں کرنی چاہئے کہ رزق کی کنجیاں اللہ کے ہات میں ہیں، جو تمہیں رزق دیتا ہے وہی آنے والی نسلوں کو بھی دے گا۔ نہ صرف فواحش اور بدکاری کے دروازے کلیۃً بند کر دینے چاہئیں بلکہ ایسا ماحول پیدا کرنا چاہئے جس سے یہ دروازے کھلنے ہی نہ پائیں۔ انسانی جان کا احترام کرنا چاہئے اور حق کے بغیر کسی انسان کا خون نہیں بہانا چاہئے، عہد و پیمان کا پاس کرنا چاہئے کہ اس کی اللہ کے ہاں جوابدہی کرنا ہو گی۔ تجارت، صدق و دیانت اور ٹھیک ٹھیک ناپ تول پر مبنی ہونی چاہئے۔ نظامِ تعلیم کی بنیاد وہم و گمان کے بجائے علم پر کھنی چاہئے۔ غرور و نخوت سے بچنا چاہئے۔

یہ تھے انسان کی حیاتِ اجتماعی کے وہ اصول جو معراج کی بابرکت اور عظیم رات میں رسول اللہ ﷺ کی وساطت سے نوعِ انسان کو دیئے گئے۔ ان اصولوں پر مدینہ کی جو اسلامی ریاست قائم ہوئی اور جو اسلامی معاشرہ وجود میں آیا تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ وہ ایک ایسا معاشرہ تھا جو ایک اللہ کے سوا کسی کے آگے سرنگوں نہ ہوتا تھا، جس کے افراد سگے بھائیوں سے زیادہ ایک دوسرے کے ہمدرد، بہی خواہ اور مددگار تھے، جو پاکیزگیٔ فکر و نظر اور طہارتِ اخلاق و کردار کاپیکر تھے، جو تجارت، معیشت، معاشرت اور سیاست غرض زندگی کی ہر کسوٹی پر کھرا سونا تھے۔ جن کے عہد و پیمان پر دشمن بھی اعتماد کرتا تھا اور جن کی زندگی سادگی، فیاضی، خوفِ خدا اور مسئولیتِ آخرت کے احساس سے عبادت تھی اور جو ریاست وجود میں آئی وہ امن و امان، نظم و ضبط، عدل و قسط، انسانی مساوات اور نر عمل کی ہم آہنگی کا ایک دل پذیر مرقع تھی۔ جہاں جاہلی امتیازات اور طبقاتی تفریقات ناپید تھیں اور حکمران اور عوام ایک ہی قانون کے تحت زندگی بسر کرتے تھے۔ جہاں اگر کوئی امتیاز تھا تو ان نظریات عقائد پر ایمان اور عمل کی بنیاد پر تھا جس پر یہ ریاست اور معاشرہ قائم تھا۔

شبِ معراج کی سب سے بڑی اہمیت یہی ہے اور آج بھی اس کے دامن میں کوئی پیغام مسلمانوں کے لئے ہے تو یہی کہ جو اصولِ اخلاق و تمدّن اللہ نے اپنے حبیب ﷺ کو اپنی بارگاہ میں بلاکر عطا کیے تھے ان پر وہ اپنے معاشرہ اور ریاست کی بنیادوں کو از سرِ نو استوار کریں۔ دنیا کو آج بھی ان اصولوں کی ویسی ہی ضرورت ہے، جیسی ضرورت اس وقت تھی جب رسول اللہ ﷺ کو سفرِ معراج پر بلایا گیا۔ بلکہ دنیا سے پہلے خود مسلمانوں کو ضرورت ہے۔ وہ جہاں آزاد ہیں وہاں اپنے نفس و خواہشات کی بندگی کر رہے ہیں اور جہاں محکوم ہیں وہاں اغیار کے آگے سرنگوں ہیں۔ ان کا معاشرہ پراگندگی اور عناد کا شکار ہے۔ ایک دوسرے کی ہمدردی، بہی خواہی اور دکھ سکھ میں موانست قصۂ ماضی بن چکا ہے۔ ان کا تمدن جن بنیادوں پر قائم تھا وہ ایک ایک کر کے ڈھے چکی ہیں۔ فواحش، بدکاری اور بے یائی کا ایک طوفان ہے جو اُمڈ آرہا ہے۔ بھائی بھائی کے خون کا پیاسا ہے۔ مسلمان کی جان بغیر کسی حق کے مباح قرار پا چکی ہے۔ بخل اور اسراف نے ان کی معیشت کو تہہ و بالا کر رکھا ہے۔ اللہ کی رزاقّیت پر سے ان کا ایمان اٹھ چکا ہے اور ہر جگہ وہ قتلِ اولاد کے منصوبے تیار کر رہے ہیں۔ بد دیانتی اور بد عہدی، جہالت اور وہم و گمان کی پیروی اور غرور و تکبر ان کی قومی خصوصیات بن چکی ہیں۔ اخلاقی قدریں ایک ایک کر کے دم توڑتی جا رہی ہیں۔ ان کی زندگی اسی پیغام کو اپنانے میں ہے، جو شبِ معراج ان کو دیتی ہے۔
سريتَ مِنْ حَرَمٍ لَيْلاً اِلٰي حرم           كما سري البدرني داج من الظلم
وبت ترتي الٰي ان قلت منزلة              من قاب قوسين لم تدرك ولم ترم
وانت تخرق السبع الطباق بھم              في مولبٍ كنت فيھم صاحب العلم
حتي اذا لم تدع شأواً ........            من الدنو ولا مرقا لمستنم
يا ربِّ صلّ وسلّم دائماً ابداً                علي حبيبك خير الخلق كلھم
(امام بصیریؒ)