كارنامۂ سيرت، بے رحم تاریخ کی کسوٹی پر

ترجمان القرآن میں مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم و مغفور نے سورۂ انبیا کی آیت (107)﴿وَما أَر‌سَلنـٰكَ إِلّا رَ‌حمَةً لِلعـٰلَمينَ ﴿١٠٧﴾... سورة الانبياء کے حواشی میں یہ حقیقت واضح فرمائی ہے کہ آنحضرت محمد ﷺ کے ظہور کو دنیا کے لئے رحمت قرار دے کر قرآن نے ایک کسوٹی ہمارے حوالے کر دی ہے جس پر اس ظہور کی ساری صداقتیں ہم پرکھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی فرمایا کہ مقدمہ تفسیر کے ایک باب کا موضوع یہی مسئلہ ہے جس میں مذہبی خوش اعتقادی سے الگ رہ کر صرف تاریخ کی بے لاگ اور بے رحم روشنی میں اس حقیقت کا جائزہ لیا گیا ہے۔

مقدمۂ تفسیر 1915ء میں چھپنا شروع ہو گیا تھا اور مارچ 1916ء میں جب مولانا کو کلکتہ سے اخراج کا حکم ملا تو اس کے کم از کم بارہ ابواب ضرور چھپ چکے تھے لیکن اب نہ ان مطبوعہ ابواب کا دنیا میں کوئی وجود ہے نہ اس کے مسودے کا کچھ پتا ہے۔ اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ مقدمۂ تفسیر میں مولانا کے قلم سے جو مقالہ تھا،وہ علم و تحقیق میں کس معیار کا تھا اور زبان و اسلوبِ بیان کے لحاظ سے وہ کس پائے کا ادب پارہ تھا لیکن 14 و 21 جنوری 1951ء کے البلاغ میں مولانا مرحوم کا ایک مقالہ سیرت پر شائع ہوا تھا۔ جس میں مولانا نے اسلام کی رحمتِ عامہ کا ایک سرسری مطالعہ پیش کیا ہے اور مقالے کے آخر میں تحریر فرمایا ہے کہ اس کے بعد اصلی سوال ہمارے سامنے یہ آتا ہے کہ یعنی اس پیدائش نے دنیا کی حقیقی اور عالم گیر مصیبت کے لئے کیا کیا؟ اور انسانیت کی سعادت و ارتقائے فطری کی کیوں کر تکمیل کی؟ اس مبحثِ عظیم کا احاطہ و استقصاء تو ممکن نہیں لیکن چند سرسری اشارات آئندہ نمبر میں ملیں گے۔'' لیکن اس مقالے کا دوسرا حصہ چھپنے کی نوبت نہیں آسکی اور اس طرح ہم اس 'اصلی سوال' کے جواب میں مولانا مرحوم کے افکارِ عالیہ کے مطالعہ و استفادہ سے محروم رہ گئے۔ مولانا غلام رسول مہر مرحوم نے 'رسولِ رحمت' کے نام سے سیرتِ نبوی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام پر مولانا کی تمام تحریریں اور تقریریں مرتّب فرما دی ہیں۔ رسولِ رحمت کا باب 97 اور 98 البلاغ کا یہی مقالہ ہے۔ مولانا مہر صاحب نے اپنے ابتدائی نوٹ میں یہ تمام رودادِ الم بیان فرما دی ہے اور اس پر حسرت و افسوس کا اظہار کیا ہے۔ مولانا مہر سے رسولِ رحمت کی ترتیب میں مولانا مرحوم کی ایک تقریر نظر انداز ہو گئی جو خاص اسی موضوع پر ہے۔ اس میں مولانا آزاد نے نہایت تفصیل کے ساتھ بتایا ہے کہ بعثتِ نبوی (صلعم) نے دنیا کی حقیقی اور عالم گیر مصیبت کے لئے کیا کیا اور انسانیت کی سعادت و ارتقائے فطری کی کیوں کر تکمیل کی؟ یہ اگرچہ ایک تقریر ہے اور اس میں مقدمۂ تفسیر کا معیار یا البلاغ کی زبان و اسلوبِ تحریر تلاش نہیں کرنا چاہئے لیکن جہاں تک اس عظیم مبحث کے احاطہ و استقصاء کا تعلق ہے تو یہ صرف سرسری اشارات ہی نہیں' اس سے زیادہ ہے۔

مولانا آزاد نے یہ تقریر 27 نومبر 1935ء کی شب کو مسلم انسٹی ٹیوٹ کلکتہ میں کی تھی اور مولانا کے خطبات و تقاریرِ دینی کے ایک مختصر اور غیر معروف سے مجموعے (مطبوعہ دلّی) میں شامل ہے۔ تقریر میں آیات کی طرف صرف اشارات تھے۔ ترتیب و کتابت کی بے شمار غلطیاں تھیں۔ راقم نے آیات اور ترجمان القرآن سے ان کا ترجمہ شامل کر دیا ہے۔ اغلاطِ کتابت کی درستگی کی کوشش بھی حتی المقدور کی ہے اور تفہیم و تیسیرِ مطالب کے لئے ذیلی عنوانات کا اضافہ بھی کر دیا ہے۔ (ابو سلمان شاہجہانپوری)

-------------------------

برادرانِ عزیز! مجالس کی عام تقریروں کا یہ قاعدہ بن گیا ہے کہ ابتداء میں کچھ باتیں بطور سمی تمہید کے ضرور کہی جاتی ہیں لیکن میں اس وقت بالکل پسند نہ کروں گا کہ تھوڑا سا یہ وقت جو ایک مفید مقصد کے لئے میسر آیا ہے اصل موضوع کے علاوہ، غیر ضروری باتوں میں صرف کیا جائے۔

وجودِ مقدس کی لا انتہائیت:

آپ کو معلوم ہے کہ اس موضوع کی اہمیت۔ اہمیت کا لفظ کافی نہیں۔ لا انتہائیت کا کیا حال ہے؟ جس وجودِ مقدس کے تذکار کے لئے ہم جمع ہوئے ہیں، تاریخِ انسانیت کی کامل تیرہ صدیاں اس پر گزر چکی ہیں اور شاید کوئی انسانی ہستی اس ذاتِ گرامی کے سوا ایسی نہیں گزری، جس کے تمام گوشہ ہائے زندگی کا عقلِ انسانی نے اس قدر سراغ لگایا ہو، جس قدر اس مقدس و عظیم الشان ہستی کے لئے لگایا جا رہا ہے۔ مگر داستانِ حیات اس ذاتِ گرامی کی ہنوز نا مکمل ہے۔ وجودِ مقدس کی حقیقت کا پتا لگانے کے لئے سمندر کی موجوں کو ایک کوزہ میں اور دریاؤں کی روانی کو اگر قطرے میں بند کیا جا سکتا ہے تو شاید ہی کوئی اس کا کھوج لگا سکے۔ میں کوشش کروں گا کہ اسی ایک قطرے کے حسن و وصف کے تذکارِ اقدس میں یہ وقت گزارا جائے۔

مطالعۂ سیرت کے طریقے:

میں آپ کو جس رُخ پر لے جانا چاہتا ہوں، وہ ُخ کون سا ہے؟ سیرت پاک پر نظر ڈالنے کے لئے، ایک نہیں بے شمار دروازے ہیں۔ جن کے ذریعے سے اس کی کبریائی کی سراغ رسانی کی جا سکتی ہے لیکن میں کوشش کروں گا کہ کم سے کم اور قریب ترین راستے سے اس کی عظمتوں کا مطالعہ کراسکوں۔ میں اس امر کی کوشش کروں گا کہ وہ تمام اوصاف و واقعات جو سینکڑوں بار دہرائے جا چکے ہیں اور جن کو صدہا بار آپ کے کانوں نے سنا ہو گا انہیں نظر انداز کر دوں۔ میں کوشش کروں گا کہ کوئی ایسا نقطہ نگاہ آپ کے سامنے پیش کروں کہ اس کے اعمالِ عظیمہ کو یقینی معیار پر رکھ کر آسانی سے جانچ سکے۔ ایسا معیار ہم اپنی طرف سے بنانا نہیں چاہتے۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ قرآنِ حکیم نے کیا کوئی ایسا معیار بیان کیا ہے۔ اگر بیان کیا ہے تو اس کے ما تحت، اس کے اعمالِ حسنہ کا کیا حال ہے؟

قرآنی معیار:

جب ہم قرآنِ حکیم کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس وجودِ گرامی اور زندگیٔ مقدس کے لئے بے شمار معیار ملتے ہیں، جس کو خود آپ نے بھی بارہا سنا ہو گا۔ ہاں! سنا ہو ا لیکن اس کی گہرائیوں تک غور نہ کیا ہو ا۔

اچھا سنو، ان میں سے ایک معیار وہ ہے جو سورۂ انبیاء میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے:

﴿وَلَقَد كَتَبنا فِى الزَّبورِ‌ مِن بَعدِ الذِّكرِ‌ أَنَّ الأَر‌ضَ يَرِ‌ثُها عِبادِىَ الصّـٰلِحونَ ١٠٥ إِنَّ فى هـٰذا لَبَلـٰغًا لِقَومٍ عـٰبِدينَ ١٠٦ وَما أَر‌سَلنـٰكَ إِلّا رَ‌حمَةً لِلعـٰلَمينَ ١٠٧﴾... سورة الانبياء

اور (دیکھو) ہم نے زبور میں تذکیر و نصیحت کے بعد یہ بات لکھ دی تھی کہ زمین کی وراثت انہی بندوں کے حصے میں آئے گی جو نیک ہوں گے، اس بات میں ان لوگوں کے لئے جو عبادت گزار ہیں۔ یہ ایک بڑا ہی پیام ہے۔ اور (اے پیغمبر ﷺ!) ہم نے تجھے نہیں بھیجا ہے مگر اس لئے کہ تمام دنیا کے لئے رحمت کا ظہور ہو۔

اس آیت میں ایک معیار بتایا گیا ہے، ہر معتقد کے لئے جو دیکھ لینا چاہے اور ہر منکر کے لئے جو پرکھنا چاہے۔

رحمۃٌ للّعالمین:

اب دیکھنا یہ ہے کہ اس وجودِ گرامی کا ظہور کس ماحول میں ہوا؟ اور اس نے کیا نتائج نکالے؟ میں ابھی آپ کے سامنے چند کارنامے اس وجودِ مقدس کے پیش کروں گا فیصلہ خود آپ کے سامنے آجائے گا۔ ﴿وَما أَر‌سَلنـٰكَ إِلّا رَ‌حمَةً لِلعـٰلَمينَ ١٠٧﴾... سورة الانبياء اس کا ظہور اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ رحمۃٌ لّلعالمین۔ تمام نوعِ انسانی کے لئے رحمت، کسی ایک ٹکڑے، کسی ایک گوشے کے لئے نہیں تمام نوعِ انسانی کے لئے، مشرق و مغرب کے لئے، اسود و احمر کے لئے، کسی ایک خاص قوم کے لئے نہیں۔ اقوامِ عالم کے لئے اللہ کا یہ اعلانِ حق ہے' قرآن کے اس اعلانِ حق سے آج تک کوئی منکر بھی انکار نہیں کر سکا، بلکہ تاریخ کے جتنے ابواب و اوراق الٹے گئے' اس اعلان کی صداقت و حقانیت واضح' بلکہ واضح تر ہوتی گئی اور اس وجودِ گرامی کا رحمۃٌ للّعالمین ہونا ہر اعتبار سے اور ہر نوعیت سے ثابت و درست ہوتا گیا۔ کسی محققّ کی بھی خواہ وہ کتنا ہی مخالف ہو، یہ مجال نہیں ہوئی کہ قرآنِ کریم کے اس معیار کو غلط ثابت کر سکے اور اس وجودِ اقدس کے اعمالِ حسنہ پر خوف رکھ سکے' اس کا ہر عمل بجائے خود دلیل بن کر پکارا کہ ہاں میں رحمت ہوں!

اگر کسی نوعیت سے یہ رحمت نہ ہو تو پھر رحمت کون اور ہے کیا؟ تاریخ کو کون جھٹلا سکتا ہے کوئی بھی تاریخ اُٹھاؤ تو دیکھو گے کہ ہر امتیاز، ہر پرکھ ایک اُبھری ہوئی نشانی ہے۔ ہر عمل عملِ خیر اور معیارِ رحمت ہے' ایسا کہ ہر نظر، ہر نگاہ، ہر دل، ہر دماغ، اعتراف و تسلیم کرے گا کہ بلا شک و شبہ یہی وجودِ گرامی رحمتِ الٰہی ہے۔

بے کس اور مجبور انسان:

دوسرا معیار، اس ذاتِ اقدس کے رحمۃٌ للّعالمین ہونے کا قرآنِ حکیم کی ایک دوسری آیت سے ثابت ہے جو سورۂ اعراف میں ملتی ہے' وہاں فرمایا:﴿وَيَضَعُ عَنهُم إِصرَ‌هُم وَالأَغلـٰلَ الَّتى كانَت عَلَيهِم...١٥٧﴾... سورة الاعراف" اس آیت کا مقصد و نتیجہ کیا ہے؟ پہلے تم کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ 'اصر' کے معنی کیا ہیں عربی میں 'اصر' کے معنی بوجھ کے ہیں۔ معمولی قسم کا بوجھ نہیں بلکہ ایسا ناقابلِ برداشت بارِ شدید جو کسی کو تہہ کر دے' اکثر آپ نے دیکھا ہو گا کہ کوئی شخص سر پر بوجھ اُٹھائے چلا جا رہا ہے لیکن شدّتِ بار سے اس کی کمر جھکی چلی جا رہی ہے۔ خم ہوئی جاتی ہے پھر اس طرح کی حالت کو عربی زبان میں اصر کہتے ہیں۔ 'اغلال' اغلال کے معنی ہیں، محنت و مشقت میں مبتلا، مفہومِ عام میں جکڑ بند رہنا۔ طرح طرح کے شدائد اور سختیوں میں مصائب و آلام میں محصور اور قسم قسم کے دام، بیڑیاں، پھندے، جن میں انسان قید و بند میں مبتلا رہے۔

غور کرو! قبل ظہورِ اسلام کیا اقوامِ عالم کی بالکل یہی حالت نہ تھی؟ تاریخ کے اوراق سے پوچھو۔ کیا وہ انہی آلام و مصائب کا علی الاعلان ثبوت پیش نہیں کر رہے؟ قبلِ بعثت کیا انسانی گردنوں میں طرح طرح کے پھندے، ان کے پاؤں میں قسم قسم کی بیڑیاں نہیں پڑی ہوئی تھیں؟ نسلِ انسانی کیا رنگ رنگ کی جکڑ بندیوں میں جکڑی ہوئی نہ تھی، ایسی کہ ان کی کمریں دو تہہ ہوئی جاتی تھیں اور اس وقت انسانی کاندھوں پر جو بوجھ لدے ہوئے تھے کیا انہوں نے ان کی زندگی کو تلخ نہیں بنا ڈالا تھا؟ قانون کے جو پھندے ان کی گردنوں میں، مذہبی آستانوں کے جو حلقے انکی گردنوں میں، مذہبی آستانوں کے جو حلقے ان کے جسموں میں لپٹے ہوئے تھے، کیا ان سے ان کی جسمانی و روحانی تسکین پا مال نہیں ہو رہی تھی؟ ہاں ایسا ہی تھا اس وقت کی صدہا اقسام کی مذہبی و قانونی جکڑ بندیاں ایک لعنت بن کر نسلِ انسانی و نوعِ بشری کے ساتھ چپک گئی تھیں اور انسانوں کے ساتھ انسانیت کا بھی خون ہو رہا تھا اور یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا، مستشرقین یورپ کی تحقیقی رپورٹ اور تاریخ کے اوراق بھی یہی کہتے ہیں۔

ظہورِ نبوی ﷺ اور نوید امن:

عین اسی عالمِ یاس و آہ میں سر زمینِ مکہ سے ایک آواز بلند ہوتی ہے جو طالبانِ نجات کے لئے وجۂ نجات ثابت ہوتی ہے۔ یہ اعلان کوئی معمولی اعلان نہیں تھا۔ کیا اعلان؟ اعلان کہ ایک ہستی آئی ہے، کیوں آئی ہے؟ کرۂ ارضی پر بسنے والی نوعِ انسانی کے لئے پیامِ رحمت لے کر، زمین کی پیٹھ پر، اس طبقہ انسانی کے لئے، جس کی گردنوں میں ظالمانہ قانون کے پھندے اور پاؤں میں بے رحمانہ احکام کی بیڑیاں، کندھوں پر مصائب و آلام کے اور مشقت و مصیبت کے ناقابل برداشت بوجھ لدے ہوئے ہیں، پیغامِ آزادی لے کر، ہر اس کمر کے لئے جو بوجھ سے و تہہ اور ہر اس گردن کے لئے جو طرح طرح کے ظالمانہ جکڑ بندیوں میں کڑی ہوئی ہے، نویدِ امن لے کر آئی ہے۔

تاریخ کی شہادت:

یہ دو معیارِ تفتیش ہیں، جن کو لے کر میں بحث و نظر کے میدان میں آتا ہوں۔ حسن و اعتقاد کے ساتھ نہیں، تحقیق و تدقیق کے اصول پر' اپنا نظریہ نہیں، تاریخ کا بے رحمانہ فیصلہ، بے لاگ فیصلہ، وہ تاریخ جو کبھی کسی کے سامنے نہ جھک سکے۔ جس کو دنیا کی کوئی قوّت متاثر نہ کر سکے، جس کو دنیا کی کوئی دولت نہ خرید سکے، جسکو دنیا کی کوئی طاقت مٹا نہ سکے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اس تاریخ کا فیصلہ کیا ہے؟ وہ فیصلہ جو حقیقت و تفصیل کی بنیاد پر ہو، وہ فیصلہ نہیں جو اعتقاد و تاویل کی بنا پر۔۔۔۔ پس اس سلسلے میں تمہارے سامنے دو معیاری چیزیں آئی ہیں:

1. ایک تمام کرۂ ارض کے لئے رحمت۔

2. دوسرے وہ تمام بوجھ جن سے نوع انسانی کو جکڑ بند کر دیا گیا تھا، اس سے نجات۔

یہ دو بنیادیں، یا قرآن کی بولی میں دو معیار ہاتھ آگئے، دو کسوٹیاں مل گئیں، ہم دیکھیں گے کہ بے رحم تاریخ کا اس معیار و کسوٹی کے مطابق فیصلہ کیا ہے؟

سیلاب ہستی میں چند حبابوں سے زیادہ حقیقت نہیں اگر ہم اپنے جذبات، اعتبار، پرستش و اعتقاد کو کام میں لائیں، بلکہ ہمیں حقیقت اور صرف حقیقت کی رو سے معاملے کی چھان بین کرنی ہے، تاریخ کا ایک کھلا ہوا باب اور عریاں حقیقت ہے کہ قرآن حکیم نے چند لفظوں میں جو نقشہ کھینچ دیا ہے، ساتویں صدی عیسوی میں نسلِ انسانی کا ہُو بہُو وہی نقشہ، وہی فوٹو اور وہی حالتِ زار تھی۔ شاہانہ اقتدار بے جا اور قانونِ وقت نے نوعِ انسانی کو بے طرح جکڑ بند کر دیا تھا، میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ اس کے ثبوت کے لئے، تمہیں بہت دور اور تاویلات میں جانے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ صرف تاریخ کے چند اوراق کی ورق گردانی کے بعد ہی تہار سامنے اس وقت کا پورا نقشہ آجائے گا۔ اور ان جگر خراش واقعات کی صورت پر بھروسہ کرتے ہوئے حیاتِ جنابِ محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس کا مقابلہ کرو تو تمہارے سامنے امن و راحت کی جو تصویر آئے گی کیا اس پر رحمت کے سوا کسی دوسری چیز کا اطلاق ہو سکتا ہے؟ نوعِ انسانی کی دونوں حالتیں جب موازنے کے لئے ترازو کے دو پلڑوں یں رکھی جائیں، پھر ہم تاریخ کا دروازہ کھٹکھٹائیں، اس سے پوچھیں حقیقت کیا ہے؟ انصاف کیا کہتا ہے؟ اس وقت اقوامِ الم کا کیا حال ہے؟ ظہورِ اسلام کے بعد صورتِ معاملہ کیا ہے؟

دورِ شہنشاہیّت:

تاریخ کا ناطق فیصلہ خود حقیقت بتلا دے گا۔ یہ کوئی پیچیدہ راز نہیں، ابھری ہوئی خصوصیت ہے۔ جب دعوتِ اسلام کا نمود ہوا' اس وقت امم عالم کا کیا حال تھا؟ انہوں نے تمدّن کی جو بنیاد اقوامِ عالم پر چھایا ہوا تھا۔ روما تمدّن ترقی پر تھا، قدیم یونانی ضوابط و قوانین، رسم و رواج، تمدن و معاشرت کا دور دورہ تھا اور ان تمام اقوام کا یہ حال تھا کہ آسمانی حکومت کا خاکہ تک برباد کر رہا تھا۔ نام نہاد قیصر تو تھا مگر حقیقت میں قیصر کا سایہ تک نہ تھا، مسیحی مذہب انتہائی عروج پر پہنچ چکا تھا، بجائے اس کے کہ غریبوں کی حکومت حق و صداقت کی سلطنت ہوتی، شہنشاہی مذہب ہو چکا تھا، ساتویں صدی عیسوی میں جب کہ عیسوی مصلحین کا ظہور ہوا تھا، اخوّت، ایثارِ نفس، ہمدردی کے بجائے تمام و کمال جابرانہ نظام نافذ تھا، عقل و فہم اور ادراک کا نام لینا ان کی مجلسِ ملّی کے سامنے کفر تھا، بلکہ صرف مختلف آسیب زدہ روحوں کی شہادت پر تمام معاملاتِ ملّی و مذہبی کا فیصلہ کیا جاتا اور جب یہ فیصلہ کرنا ہوتا تھا کہ سچائی کیا ہے، تو تمام تحقیقات کا دار و مدار آسیب زدہ انسان کی شہادت پر تھا۔ وہ اعلان کرتا تھا کہ فلاں گروہ کے ساتھ سچائی ہے، بس وہی فیصلہ، فیصلۂ ناطق تھا جو ان کی مجلسِ ملّی کے اعلان کی صورت میں نافذ ہوجاتا تھا۔

پاپائیت اور عقلِ انسانی کی مہجوری:

پھر جب قیصریت کا مرتبہ پوپ کو حاصل ہوا تو اس وقت سچائی کی شناخت کا معیار کیا قرار پایا؟ مختلف قسم کی جسمانی سزائیں، عقوبتیں اور اذیتیں، اگر کسی فرد یا جماعت نے سچائی کا دعویٰ کیا، پارلیمنٹ نے آزمائش کا معیار کیا منتخب کیا؟ کبھی لوہے کو آگ میں تپایا گیا اور ان کے جسم داغے گئے اس شدید عذابِ اذیت سے اکثر جاں بحق ہوں گئے۔ اگر کوئی بچ رہا تو قید کی کڑیاں جھیلنے کو، جیلوں کی کوٹھریاں آباد کرنے کو مسیحی معیار اور کیا تھا؟ دریا میں ڈبویا جاتا تھا، ہاتھ پاؤں باندھ کر کبھی بند بکسوں اور بوروں میں تنہا، کبھی وزن کے لئے پتھروں کے ساتھ، یہ اور اسی قسم کے اور صدہا اور ہزارہا ظالمانہ طریقے تھے ان کے معیارِ شناخت کے۔ بہرحال جس نے اقانیمِ ثلاثہ سے انکار کیا یا توحید کی دعوت دی' فیصلہ ہوا کہ سچائی کے عوے کو جانچا جائے اور کس طرح جانچا اور پرکھا جائے؟ آگ اور پانی کے ذریعے۔ نہ عقل، نہ فہم، نہ ادراک، نہ بصیرت، بس آگ اور پانی۔ یہ تھے آسیب زدہ انسان کے فیصلے کے مطابق سچائی کے معیار، ان میں سے جو نہ جلتا یا کم جلتا یا نہ وبتا یا ڈوب کر اُبھر آتا اس کے حق پر ہونے کی مہر لگ جاتی۔ عقلِ انسانی کسی گوشے میں بھی کارگر نہ تھی۔

سرچشمۂ ضلالت:

پس بتاؤ کی کیا خدا کی مخلوق، اسی شدائد و مصائب کے لئے پیدا ہوئی تھی، کیا کوئی عقل ایک لمحے کے لئے تسلیم کر سکتی ہے کہ کسی مذہب اور توحید کی سچائی کی جانچ کے لئے یہ معیار صحیح ہے؟ اگر نہیں اور ہرگز نہیں تو پھر کیا قرآن کی بولی میں یہ عذابِ الیم اور محن و مصائب، زنجیریں اور بوجھ نہ تھے، جو مسیحی نظامِ حکومت نے نوعِ انسانی کے پاؤں میں اور گردنوں پر ال رکھے تھے؟ تاریخ کے اوراق پر ایک اچٹتی ہوئی نظر ڈالو، ساتویں صدی عیسوی کے مسیحی نظامِ سلطنت کو پڑھ جاؤ، تمہیں ان کے مذہبی اعمال و عقائد کی کیفیت، ان کے اوہام و ظنون کی داستان، ان کی وحشت و بربریّت، درشتگی و درندگی کا حال معلوم ہو جاے گا۔ میں نے تو صرف ایک اشارہ کر دیا ہے۔ کتاب اللہ، انا جیل جس کی بنیاد وحیٔ الٰہی پر تھی، باقی نہ رکھی گئی، بلکہ چند انسانوں کے ہاتھ کی ایک تصنیف و تالیف ہو کر رہ گئی جو ہر وقت و ہر لمحہ ذاتی و نفسانی ضروریات کے لئے تبدیل و تحریف کی جا سکتی تھی۔ پوپ جو پطرس کا جانشین تسلیم کر لیا گیا تھا، چرچ اور تختِ روما کا مالک تھا اور انا جیلِ مقس کی کتربیونت کا باختیار حاکم۔

ضلالتِ عیسائیت کا سرچشمہ کون تھا، کیا کتاب اللہ؟ نہیں! کیا عقل و فہم؟ نہیں! پھر کیا تھا؟ چند انسانوں کا غلط فیصلہ، وہ فیصلہ جو نفس و جنون کے زیرِ اثر نافذ ہوتا تھا۔ دلیل و اجتہاد سے معرّا فیصلہ۔ یہ بات سننے میں اتنی ہلکی معلوم ہوتی ہے اور آپ کے چہروں کے مشاہدے سے میں اس نتیجے پر پہنچ رہا ہوں کہ آپ نے بھی اس کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ غور کرو! میں نے کتنی عظیم حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جس کا آپ پر کوئی اثر نہیں ہوا۔

وہ انسان جن کی عقل کے دروازے پر قفل لگ گیا اور جن کی قوّتِ ادراک نابود ہو گئی، طرح طرح کے توہماتِ نفسانی کا شکار ہو گئے۔ آسیب زدگی ان کے ہر ہر قدم، ہر ہر فعل و قول سے واضح ہے۔ کیا وہ اس قابل ہیں کہ عقولِ انسانی ان کے سامنے جھک جائیں؟ اور اگر عقلیں ان کے سامنے جھک جائیں تو کیا۔ یہ ممکن ہے کہ عقولِ انسانی ایک لمحے کے لئے ترقی و نشوونما پا سکتی ہیں؟ ہرگز نہیں۔۔۔۔ یہی حال تھا جب کہ قوانینِ الٰہی و شریعتِ نبوی مٹا ڈالی گئی تھی، اغراض و ہوائے نفس کا دور دورہ تھا۔ پس غور کرو، جب عقل بالکل بیکار کر دی جائے، جب کتاب اللہ میں تحریف کر کے انصاف کے دروازے بند کر دیئے جائیں' جب معیارِ حق و صداقت ، چند آسیب زدہ انسانوں کے نفس پرورانہ احکام، فیصلے ہوں، تو نتیجہ کیا ہو گا؟ یہی حقیقت تھی، چرچ روما کی، ایک آسیب زدہ انسان کے ہاتھ میں سر رشتۂ حکم آگیا تھا اور نظامِ سلطنت فطری آزادیوں پر نہیں، ظالمانہ قوانین پر تھا۔ جب تم نے یہ اصل تسلیم کر لی تو نتیجہ نکال لو گے کہ ہر قسم کے ذہنی ارتقا، عقلی نشوونما، یکسر و یک قلم رگ گئی تھی۔ یقیناً افرادِ انسا ن کی ترقی رک گئی تھی، کیوں؟ تمام دینی و دنیوی معاملات کا دار و مدار چند انسانو اور پوپ، ماؤف الدماغ پوپ پر تھا۔ یہود و نصاریٰ سب کے سب یکساں گمراہی میں مبتلا تھے۔ یہ تھا مسیحی نظامِ مذہب کا حال، جس نے نسلِ انسانی کی عقل ترقی، رشد و ہدایت کو یکسر روک دیا تھا، ضروری نہ رہا تھا کہ یہ دیکھا جائے کہ انجیل کا کیا مطلب ہے۔ اس کے سمجھنے اور اس کے فیصلے کا اختیار پوپ یا اس کی مجلس کو تھا اپنی عقل کو تج کر، کتاب اللہ سے منہ موڑ کر! انسان، چند انسانوں کے ہاتھ میں جکڑ بند ہو گیا تھا۔ پوپ کی طرف سے احکام نافذ ہوا کرتے تھے کہ ہر انسان بطورِ خود معاملاتِ شرع میں غور و فکر کرنے کے لئے نہیں ہے، بلکہ یہ کام چرچ کا ہے، عوام کو اسی کے تابع رہنا چاہئے۔ اور یہی ہے وہ حقیقت جو آج بھی یورپ میں بطورِ اصل کام کر رہی ہے، عقولِ انسانی کو معطل کر کے اس کا فرمان یہ تھا کہ جس کو میں حلال کروں وہ حلال اور جس کو میں حرام کروں وہ حرام۔ یہی تھی اور ہے وہ بنیادی خرابی جو نسلِ انسانی کی ترقیات ذہن و عقل کو کھائے جا رہی تھی، اور ان کے نشو و ارتقا کی جڑوں کو کھوکھلی کر چکی تھی اور اس کی طرف قرآنِ حکیم نے ''اَرْبَابًا مِنْ دُوْنِ اللہِ '' والی آیت میں اشارہ کیا ہے۔ یہ اعجاز و بلاغتِ قرآن ہے کہ بڑے بڑے اہم واقعات و حالات کو مختصر و جامع الفاظ میں بیان کر کے وقت کا نقشہ کھینچ دیتا ہے۔

مسیحی دنیا کے نام اسلام کا پیام:

کوئی غیر طرف دار مورخ ہو، آئے اور جانچے، کیا سورۂ اعراف میں اللہ تعالیٰ کا وہ ارشاد جو اس وقت کی حالت کا نقشہ کھینچ رہا ہے:﴿وَيَضَعُ عَنهُم إِصرَ‌هُم وَالأَغلـٰلَ الَّتى كانَت عَلَيهِم...١٥٧﴾... سورة الاعراف" کی صداقت سے انکار کر سکے گا؟ اسی قدر نہیں قرآن نے جابجا اس طرف اشارہ کیا ہے۔ یمن کے بشپ و بطریق کی معرفت مسیحی دنیا کو جو پیام دیا تھا، کیا تھا؟ تم نے اگر کبھی قرآن کھول کر پڑھا ہو گا اور ساتھ ہی غور کرنے کی تکلیف بھی کی ہو گی تو سورۂ آلِ عمران میں اس پیام کو پایا ہو گا:

﴿قُل يـٰأَهلَ الكِتـٰبِ تَعالَوا إِلىٰ كَلِمَةٍ سَواءٍ بَينَنا وَبَينَكُم أَلّا نَعبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلا نُشرِ‌كَ بِهِ شَيـًٔا وَلا يَتَّخِذَ بَعضُنا بَعضًا أَر‌بابًا مِن دونِ اللَّهِ...٦٤﴾... سورة آل عمران

''(اے پیغمبرؐ! تم (یہود اور نصاریٰ سے) کہہ دو کہ اے اہلِ کتاب! (اختلاف ونزاع کی ساری باتیں چھوڑ دو اور) اس بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے دونوں کے لئے یکساں طور پر مسلم ہے۔ یعنی اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ کسی کی ہستی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں۔

ہم میں سے ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ ایسا برتاؤ نہ کرے گویا خدا کو چھڑ کر اسے اپنا پروردگار بنا لیا ہے۔

یہود و نصاریٰ دونوں جماعتوں سے خطاب ہے، طلب کسی اور چیز کی نہیں ہے، دنیا کی امداد، نہ ذات کے لئے فائدہ کی، بلکہ مطالبہ ہے۔

اشتراکِ عقیدہ کے لئے، توحید پر اتفاق کے لئے، یعنی اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ، خدا کی چوکھٹ کے سوا کسی انسانی بارگاہ پر خواہ وہ ظاہری ٹھاٹھ میں کتنی ہی عظیم کیوں نہ ہو، عبادت کی پیشانی نہ جھکائیں۔

دوسرے ''لَا نُشْرِكَ بِه شَيئًا'' عقیدتاً بھی، باطن میں بھی اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گویا ظاہر ہو تب، باطن ہو تب، دونوں حالتوں میں اسی کی عظمت، اسی کی کبریائی، اسی کی الوہیت کے سامنے، نیاز کا سر یا اعتراف کا قلب جھکے، اور تمام باطل و خود ساختہ معبودوں اور مدعیانِ جبروت طاقتوں کو ٹھکرا دیا جائے، خواہ یہ آواز چرچوں سے بلند کی جائے، یا تخت ہائے شہنشاہی سے۔ اور یہ کہ اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا معبود نہ بنائیں ﴿وَلا يَتَّخِذَ بَعضُنا بَعضًا أَر‌بابًا مِن دونِ اللَّهِ﴾

اربابٌ مّن دون اللہ کی تفسیر:

قرآن کی بولی میں رب بنا لینے کا کیا مطلب ہے؟ میں خود نہیں بلکہ اللہ کے رسول ﷺ نے اس کا جو مطلب بیان بیان فرمایا ہے اور اس سے جو مراد لی ہے، میں وہی تمہیں بتاؤں گا۔ عدیؓ بن حاتم کی روایت ہے جو پہلے عیسائی تھے، فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ شام کے عیسائیوں کے وفد کے ساتھ میں بھی حاضرِ خدمت ہوا۔ حضور ﷺ کے اعتراض پر میں نے عرض کیا کہ یہ بات تو ٹھیک نہیں ہے کہ باہم پادریوں اور راہبوں کو رب بنا لیتے ہیں۔ فرمایا کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ جس چیز کو اللہ نے تم پر حلال کیا تھا، تمہارے احبار و رہبان نے اپنے نفس کی خاطر اس کو حرام کر دیا ہے اور جس چیز کو اللہ نے تم پر حرام ٹھہرایا تھا، انہوں نے اپنی لذتِ چشم و جسم کے لئے اسے حلال کر لیا ہے اور اللہ کے ٹھہرائے ہوئے قانونِ حلال و حرام کو بالکل بدل ڈالا ہے؟ عدی نے کہا، ہاں یہ تو ٹھیک ہے۔ فرمایا، بس یہی مطلب رب بنا لینے کا ہے۔ ناقص کو کامل سمجھ کر اختیار کر لیا ہے اور یہ اس لئے کہ جو اوصاف ہمیں اللہ کے لئے خاص رکھنے چاہئیں گے انسانی عقل کے ہاتھ میں تسلیم کر لیے گئے۔ ذرا غور تو کرو کیا یہ چیز خود نیچر کے بھی صاف و صریح خلاف نہیں ہے؟ اچھا یہ تمام تصرفات جو تم نے دینِ الٰہی میں کر لیے ہیں، کیا اس کی دلیل بھی تمہارے پاس ہے؟ اللہ کے کسی کلام میں، کسی نوشتۂ وحی میں، کسی پیغمبر کی تعلیم میں، رسولوں کی کسی تبلیغ میں، کہیں سے بھی کوئی دلیل ہمیں دکھاؤ کہ چرچ کے اربابِ اختیار نے احکامِ الٰہی کو نہیں بدلا، اور وہ اس کی بے چون و چرا تعمیل کر رہے ہیں۔ مگر تم نہیں دکھا سکتے، بلکہ اس کے برخلاف ہزار ہا سند و دلیل بتائی جا سکتی ہیں کہ پوپ اور دوسرے احبار و رہبان اربابٌ مّن دون اللہ کے زعمِ باطل میں نت نیا قانون، فطرت و نیچر و حکمِ الٰہی کے خلاف وضع کرتے اور امت پر مسلط کرتے رہے ہیں۔ مگر سرِ دست میں ان گوشوں میں نہ جاؤں گا۔

یورپ کا دورہ نشأۃِ ثانیہ:

بہرحال، چند قدم اور آگے بڑھیے، نتیجہ بہت جلد سامنے آجائے گا، مؤرخین ازمنۂ وسطیٰ کہتے ہیں کہ سولہویں صدی عیسوی، اصلاحاتِ چرچ کا اور امنِ عالم و تغیرِ معتقدات کا زمانہ ہے، جس میں پوپ، شاہ اور عوام کے لئے قوانین نافذ ہوئے اور اس دور کو نشأۃِ ثانیہ کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسے موجود دور سے بہتر کہتے ہیں۔ لیکن یہ تاریخ کی دہرائی ہوئی اور پامال حقیقت ہے اور جسے میں واقعات و تفاصیل کے ساتھ دہرانے کی ضرورت نہیں سمجھتا، تم کالج کے طالب علم ہو تمہارے سامنے لائبریری کی کتابیں موجود رہتی ہیں کسی ایک تاریخ کو اُٹھا کر دیکھ لو کیا اس میں مندرج واقعات و حقائق اس کی تائید کرتے ہیں؟ ہرگز نہیں، بلکہ خونریزی کے حوادث، ظلم کی کہانیوں اور ستم رانیوں کے احوال سے ہر تاریخ بھری پڑی ہے، پوپ اور چرچ نے جتنے ستم یہودیوں اور عام باشندگانِ ملک پر اس وقت توڑے، شاید ہی کسی زمانے میں ایسا ظلم ہوا ہو، اور یہ سب مذہب و اصلاحِ عقیدہ کے نام پر ہوا اور میں بے سند و بے دلیل نہیں کہتا، بلکہ یہ مؤرخینِ یورپ کے قلم کے بکھرے ہوئے حقائق ہیں۔

کلیسا کا مصلح:

غور کرو، سب سے پہلی دستک کون سی تھی جو یورپ کے سامنے علم و عقل نے اصلاحِ کلیسہ یا چرچ ریفارم کے نام سے دی؟ سولہویں صدی عیسوی میں، اس بارے میں، لوتھر کی پہلی آوز تھی جو راس راہ میں اُٹھی، تمام مؤرخ متفق ہیں کہ عمل و علم کی راہ میں لوتھر کی آواز پہلی روشنی تھی جو کلیسا کی سیہ کاریوں، ستم رانیوں کے بالمقابل عوام کے سامنے آئی، لیکن دیکھو کہ اس تعلیم کا ما حصل کیا ہے؟ لوتھر نے للکارا، دین کی تعلیم کے بارے میں چرچ کا رویہ غلط ہے! اس کو خلش پیدا ہوئی کہ حق کا معیار اور سچائی کا راستہ کون سا ہو سکتا ہے، کتاب اللہ یا پوپ کی ذاتی رائے اور اس کے احکام؟

دراصل اس کی ابتداء یوں ہوتی ہے کہ پوپ نے مغفرت کے پروانے دینے شروع کئے، یعنی جتنی معصیت کریں، کوئی فکر نہیں، جتنا بھی کوئی فسق و فجور، عیش پرستی، نفس پروری کرنا چاہے کرے، پوپ سے مغفرت کے پروانے نقد قیمت دے کر خرید لے، اور فکرِ عقبیٰ سے آزاد ہو جائے، مغفرت کی یہ نقد تجارت، اتنی بری اور بڑھی ہوئی تھی اور یہ کہنا قطعاً مبالغہ نہیں بلکہ امرِ واقع ہے کہ تمام گوشہ ہائے ملک میں باقاعدہ ایجنٹ پوپ کے پھیل گئے تھے اور انہیں پوپ کے پروانے کے ما تحت ہر قسم کے سفید و سیاہ کا اختیار تھا۔

نظامِ عالم یکسر درہم برہم ہو گیا تھا۔ احکام و قوانینِ الٰہی پسِ پشت ڈال دیئے گئے تھے، کلیسا کے اربابِ حل و عقد، بست و کشاد اپنی من مانی کارروائیوں کا ایک جال تمام ملک میں بچھائے ہوئے تھے اور دادِ عیش دے رہے تھے۔ ان کے خود ساختہ قوانین نے ایک اصولی شکل اختیار کر لی تھی، جس کی پابندی ہر متنفس کے لئے لازمی تھی۔ لوتھر نے اسی کے خلافِ علم بغاوت بلند کیا، بحث و مناظرہ کی نوبت پہنچی، اربابِ کلیسا کے شکنجے میں تنگ آئے ہوئے لوگوں نے جن کی تعداد قلیل تھی، لوتھر کا ساتھ دیا، مگر اس طرح کہ خوف و ہراس سے ان کا برا حال تھا۔ خوف بھی ان کا جو زمین پر مظہرِ خدا ہونے کے مدعی تھے، اختیارِ مکمل کے مالک تھے۔ پھر ان کے کار پردازوں کا، پھر ان کے متبعین کا، بدقسمتی سے جن کی تعداد شمار سے خارج تھی۔

بہرحال بحث یہ تھی کہ احکام کس کے قابلِ قبول ہیں؟ چرچ کے یا انجیل کے؟ لوتھر نے کہا نہیں ہم اللہ، اس کی کتاب اس کے رسول کے فرمان کی فرمانبرداری کے مکلف ہیں، ایمان یہی ہے۔ خدا اور اس کے رسول کے مان لینے کے معنی یہی ہیں، کسی انسانی رائے کو، خواہ وہ انسان کتنا ہی عظیم المرتبت کیوں نہ ہو، اگر صاحبِ وحی نہیں ہے تو اس کا کوئی درجہ ماننے کے لئے تیار نہیں، ہمارا اعتقاد اللہ اور اللہ کی کتاب پر ہے، اور عقلاً ہونا بھی چاہئے۔ کلیسا اور کلیسا پرستوں میں ایک جلسۂ عام کے اندر لوتھر کی یہ تقریر آگ کا کام کر گئی، طے کر لیا گیا کہ اس نئی دعوت و اصلاح کو پامال کرنا چاہئے، خون بہا اور بے شمار کلیسائی تلواریں کھنچ گئیں اور ادنیٰ اشتباہ پر لوگوں کی زندگی موت سے تبدیل ہو گئی۔ سر قلم ہوئے۔ گھر کے گھر برباد کر دیئے گئے۔ بستیاں کی بستیاں ویران۔۔۔۔ کر دی گئیں۔ تاہم تاریخ کی حقیقت سے نکار نہیں کیا جا سکتا۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اربابِ کلیسا کے ظلم و جبر کے باوجود مصلح لوتھر کی دعوت پائمال نہ کی جا سکی، مخالفت و شرارت کے باوجود یہ صدا اُٹھی، بلند ہوئی اور پھیلی تا آنکہ تقریباً نصف مسیحی دنیا پر چھا گئی۔

ساتویں صدی عیسوی کا عہدِ سعادت:

لیکن سوال سولہویں صدی عیسوی کا نہیں۔۔۔ ساتویں صدی عیسو ی کا ہے جبکہ یہ اصلاح و دعوت ہی فنا ہو گئی تھی، شہنشاہ لوئی اور ایڈرین (Adrian) نے کلیسا کے اختیار میں سب کچھ دے دیا تھا، اور ہر طرف پوپ و چرچ کا دور دورہ تھا، ظلم و شرارت، طغیانی و سرکشی اپنی ہولناکیوں اور ہوسناکیوں کے ساتھ پھیل پڑی تھی، کہ ناگاہ صحرائے عرب کے دامن سے ایک مصلح ﷺ کی آواز بلند ہوتی ہے، یہ پکار محمد بن عبد اللہ ﷺ کی صدا تھی، یا ''اهل الكتاب تعالو إلى كلمة سواء بيننا وبينكم أن لّا نعبد إلا الله۔'' دراصل محمد رسول اللہ ﷺ کی یہ صدا جو اللہ تعالیٰ کی آوازاس کی تائید و نصرت کے ساتھ بلند ہوئی تھی، رافتِ نبوی ﷺ اور رحمتِ الٰہی کا ایک عام اعلان تھا۔ بے چین و مضطر دنیا کے لئے ایک پیامِ امن تھا، اشرار کے لئے ایک طبلِ جنگ تھا، مسیحی دنیا میں ایک برگزیدہ کی دعااور دوسرے مقرّب کی بشارت کے ظہور کی نشانی تھی۔ قبولِ عام بڑھ بڑھ کر قدم لیتی ہے، حقانیت و سچائی کے متلاشی جوق در جوق آتے ہیں، تسکین و تشفّی ہوتی ہے، خیالات میں، اعتقادات میں تبدیلی ہوتی ہے، سعید ارواح پرچم نبوی ﷺ کے نیچے جمع ہوتی چلی جاتی ہیں۔ ''يدخلون في دين اللہ أفواجاً'' کی شان متشکل ہوتی ہے۔ ذاتِ نبوی کا ظہور، قرآن کا نزول، اپنے جلووں کی تابانی سے مشرق سے مغرب، شمال سے جنوب، کوہ صحرا، ودشت و جبل منور ہو رہے ہیں۔ عجب ساعت ہے، عجب عہدِ سعادت ہے، عجب خیر و برکت اور امن و امان کا دور دورہ ہے، جان محفوظ، مال محفوظ، عزت محفوظ، آبرو محفوظ۔

تاریخِ عالم کی مسلمہ حقیقت:

خونخوار و باطل پرست، یا سایۂ رحمت میں آگئے یا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حرفِ غلط کی طرح مٹ گئے۔ امن و آسائش کی بسائی ہوئی یہ نئی دنیا جس ذات کی رہینِ منت ہے، اس کا نام محمد رسول اللہ ہے۔ اور تنہا میں نہیں کہتا۔ اپنی طرف سے میں نہیں کہتا، تاریخِ عالم کی اور بے مہر تاریخِ عالم کی مسلمہ و مصدقہ حقیقت بیان کرتا ہوں جس کو بے گانوں اور اغیار نے بھی مانا اور تسلیم کیا ہے۔

ایک گوشہ اس سلسلہ میں تاریخ کا اور آپ کے سامنے بے نقاب کر دوں کہ موجودہ مسیحی دنیا انجیل کو، اور موسائی تورات کو ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ سبب ہے نوع انسانی کی تہذیب و تمدن اور امن و امان سے آشنا بنانے کا، حالانکہ ان کے اپنوں تک کی تاریخ ان کے اس قول کی تصدیق نہیں کرتی، جس کا ایک نمونہ میں اوپر بیان کر آیا ہوں، مزید توضیح کا نہ جلسہ حامل ہے، نہ وقت مقتضی، نہ میری صحت کی اجازت اور حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کے افق پر بجز دستِ محمدی کے کوئی دوسرا ہاتھ نہیں۔

قدیم ہندوستان:

جہاں تک تاریخ کا تعلق ہے ہندوستان ایک قدیم تمدن کا گہوارہ ملک ہے۔ اس کی تمدّن و تہذیب کی اولیت و عروج تاریخِ عالم کے نزدیک تمام ممالکِ آباد و سطح ارضی سے ممتاز اور سابقون الاوّلون میں شمار ہوتا ہے۔ تاریخ نے اس کے حالات کو جب سے احاطہ کیا ہے، اس کے دورِ اوّل پر جو روشنی پڑتی ہے اس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ برہمنی رسم و رواج وہ طریق حکمرانی تھا کہ جس کا نظم و نسق اور غزل و نسخ برہمن مدبّرین اور پیشواؤں کے ہاتھوں رہا۔ اس تہذیب و تمدّن کے آثار اب بھی بعض مقامات سے ظاہر ہیں۔ بعض کتابوں میں درج ہیں اور متعدد زبانوں پر جاری برہمنی تہذیب کو جب زوال آیا تو گوتم بدھ کی تعلیمات اور اس کا مذہب ملک و مذہب پر غالب آیا اور تمام ہندوستان میں پھیل گیا۔ ابھی یہ تہذیب و تعلیم اپنے پاؤں اور اس کا مذہب ملک و مذہب پر غالب آیا اور تمام ہندوستان میں پھیل گیا۔ ابھی یہ تہذیب و تعلیم اپنے پاؤں مضبوط نہ کر سکی تھی کہ پھر انقلاب ہوا، کشت و خون کا بازار گرم، اور دار و گیر، رسن و زنجیر کی ہنگامہ آرائی مدت تک رہی، بالآخر یہ بلوہ ایک نئے مذہب و نئی تہذیب کے جنم پر منتج ہوا جو برہمنی دور کی ایک ترقی یافتہ تحریک و تعلیم تھی۔ یہ تحریک شنکر اچاریہ کی تحریک تھی اور اس کا ظہور دکن میں ساتویں صدی عیسوی میں ٹھیک اس وقت ہوا جو اسلام کے ظہور کا زمانہ تھا۔

اس تعلیم نے بھی برہمنی قوانین کے مطابق تقسیمِ ذات کو تسلیم کر لیا۔ نوعِ انسانی کی اس تقسیم پر، جو بالکل غیر فطری و غیر قدرتی تقسیم تھی، اقوام میں برتری و فوّق کا مُردہ تخیل پھر عود کر آیا، نسلی امتیاز اصلی اور عملی اعزاز بے اصل و بے قدر ہو گیا۔ حالانکہ شرف و خصوصیت، عمل پر موقوف ہے، نسل و غرورِ نسل کوئی چیز نہیں، بخلاف اس کے اسلام نے اعلان کیا ہے کہ جسمانی و روحانی اوج و عروج عمل پر منحصر ہے نسل کی کوئی گنتی نہیں۔ عمل میں جو شخص یا جماعت جتنی پاکباز ہے اس کا درجہ بھی اتنا ہی بلند و بالا ہے ﴿اعمَلوا ءالَ داوۥدَ﴾ میں اس کی طرف اشارہ ہے۔ اور ﴿إِنَّ أَكرَ‌مَكُم عِندَ اللَّهِ أَتقىٰكُم﴾ اس پر ایک مہر تصدیق۔

بہرحال فطری حقیقت کے خلاف اس تعلیم نے ذات پات (Caste System) کو اپنے یہاں جائز تسلیم کیا اور بنیادی عقیدہ کے طور پر اسے داخلِ مذہب کیا۔ تفریقِ نسل و تقسیمِ ذات کے اس منظر کو سامنے لاؤ، اور اس کا خلاصہ نکالو۔ خلاصہ یہ نکلا کہ تقسیمِ ذات جس نے اب غلو کر کے عصبیت کا درجہ لے لیا ہے، غرورِ نسل کے نتیجہ، افتراق و انشقاق پر منتج ہوئی ہے۔ وہ ابتداءً پیشوں کی تقسیم اور عمل کی بنا پر ممکن ہے کہ پیدا ہوئی ہو۔ ایک عمل لڑائی کا، ایک عمل تجارت کا، ایک عمل نچلے کاموں کا، یہ تقسیم گویا ایک بہت زیادہ گہری اعتقادی نیت پر تھی، حالاں کہ دنیا نے کہیں اپنے اصول و دنیاوی امور کے لئے بھی نہیں وضع کئے مذہب تو ایک بالاتر اعتقادی اور روحانی چیز تھی۔ پھر ان کی ایک ایسی بھی جماعت پیدا ہوئی جس نے معاشرتی و دینی اصلاح کے سلسلے میں تناسخ کا عقیدہ قائم کیا۔

عقیدۂ تناسخ:

تناسخ کیا ہے؟ بار بار آنے کا عقیدہ، کیوں اور کس طرح؟ اپنے کرم کے اعتبار سے عذاب کے طور پر انسان مختلف جسموں میں، جن میں حیوانات اور نجس و ناپاک جانور بھی شامل ہیں، مرنے کے بعد اس کی روح جنم لیتی رہے، عذاب و ثواب کے بارے میں یہ ان کی بنیادی اینٹ تھی۔ کرم اچھے ہوتے ہیں تو کسی اچھے جنم کے لئے اچھا جانور منتخب ہوتا ہے، بلحاظ عہدہ جو خاندان اونچا ہے۔ اس میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ راجہ ہو سکتا ہے، برہمن ہو جا سکتا ہے۔ یہ اس کی معراج اور حدِّ کمال ہے، اگر اس کی ساری عمر پاپوں میں بسر ہوئی ہے تو اسے شودر اور نیچی قوم میں جنم ملے گا اور اگر معصیت اس سے زیادہ ہے تو نجس جانوروں تک میں اس کو داخل ہونا پڑے گا۔ ان کا یہ اعتقادی اصول اور جزا و سزا کا تصور کسی بہت ہی گہرے لیکن گمراہ و خود غرض نے ایجاد کیا۔ مزید جسارت بھی اس درجہ کی کہ کہہ دیا کہ یہ خدائی اصول ہیں اور فطرت نے ان پر مہر لگا دی ہے۔

یہی وہ ناقابلِ فہم اور ناقابلِ تسلیم اصول و ضوابط مذہب تھے۔ جن کے خلاف حال میں ڈاکٹر امبید کار نے آواز بلند کی ہے۔ ڈاکٹر امبید ایک تعلیم یافتہ اور روشن دماغ مدبّر و مفکر ہے۔ اس نے سمجھ لیا کہ جو اصول اور اصول بھی وہ جو مذہب کے نام پر وضع کئے گئے ہوں، ہرگز مذہبی بنیادی اصول ہو ہی نہیں سکتے، نہ فطرت کی ایسی تعلیم ہو سکتی ہے، نہ فطرت کا یہی منشا ہے، یہ یقیناً انسانی تقسیم ہے اور خود غرض انسانوں کا وضع کردہ غلط اور غلط ضابطۂ تفوّق پسندی و قانونِ حکمرانی، ڈاکٹر امبید کار کے اس اعلان عام نے ہندو دنیا میں جو کرب و اضطراب پیدا کر دیا ہے، وہ کسی پر پوشیدہ نہیں اور نفس و غرض کے بندوں کو اس اعلان پر حواس باختہ ہونا بھی چاہئے۔ مدتِ مدید سے جس قوم نے ایک طبقۂ انسانی کو غلام اور بندۂ بے اختیار بنا رکھا ہو ان میں بیداری پیدا کر کے ان میں اپنی قیمت و قدر کا احساس پیدا کرنا، جرم ہی ایسا ہے جسے کبھی معاف نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن بحیثیت قائدِ قوم و پست اقوام کے نمائندے کے ڈاکٹر امبید کار کا یہ اعلان رنگ لائے بغیر بھی نہیں رہ سکتا۔ ہندوستان میں تاریخِ انسانیت کا یہ انقلاب یقیناً اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک اہم انقلاب ہو گا، اگر ڈاکٹر ابید کار کے استقلال نے نوعِ انسانی کے پاؤں سے غلامی و پستی کی ان بوجھل زنجیروں کو کاٹ ڈالا۔

بیسویں صدی کا یہ اعلان کہ ہر انسان، انسان ہے اور خدا نے ترقی کا دروازہ ہر شخص پر برابر کھول دیا ہے، تقریباً نصف صدی یعنی گذشتہ پچاس برس سے یہ آواز جو مختلف گوشوں، مختلف پلیٹ فارموں سے وقتاً فوقتاً اُٹھتی رہی ہے، بلاشبہ اصلاحِ عقیدہ میں یہ کوشش نہایت قیمتی ہے لیکن شودر کے لئے عام مجرمانہ خاموشی بدستور قائم ہے۔ پس اس لحاظ سے یہ کوشش بھی بے سود ہے، اس سے کیا ہوتا ہے؟ بنیاد پر جو مہر ہو چکی ہے، اس کو کوئی مٹائے۔

ہندوستان کا عہدِ سعادت:

ہندوستان کا یہ اعتقاد کہ ہمارے مذہبی اصول پر فطری مہر لگ چکی ہے۔ اصل زمانہ اس کی نشوونما کا کیا ہے؟ ٹھیک وہی جو ظہورِ اسلام کا زمانہ ہے۔ پیروانِ بدھ بھی تناسخ کے قائل ہیں۔ پس مسئلہ متناسخ جب تک بایں بال و پر موجود ہے، وہ نہیں مٹ سکتی۔ نہ ان کی اصلاحی کوئی کوشش کامیاب ہو سکتی ہے تا آنکہ انسان کا درجہ بحیثیت ایک انسان کے آزاد اور برابر کا نہ تسلیم کر لیا جائے اور نوعِ انسانی میں پستی و بلندی، اونچ نیچ کی تقسیم کو اُٹھا نہ دیا جائے اور ترقی کی راہوں کو ہر شخص پر کھلی ہوئی تسلیم نہ کر لیا جائے۔ پس گویا اسلام کی نمود کے وقت ہندوستان بھی گوناگوں سختیوں اور جکڑ بندیوں میں مبتلا تھا، اپنی ساری سختیوں کے ساتھ ہندوستان میں تاریخ کی اُبھری ہوئی حقیقت کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں، ظلم و تعصب، تنگدلی و مذہبی گمراہی کی وجہ سے نوعِ انسانی پر سب سے گہری ضرب کون سی لگائی گئی؟ تاریخ انسایت پر زبردست انقلابی و اصلاحی کیفیت کب ثبت ہوئی؟ ایک انسان کا درجہ بحیثیت انسان کے دوسرے انسان کے برابر تسلیم کب کیا گیا؟ تب جب کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے اعلان فرمایا:

﴿يـٰأَيُّهَا النّاسُ إِنّا خَلَقنـٰكُم مِن ذَكَرٍ‌ وَأُنثىٰ وَجَعَلنـٰكُم شُعوبًا وَقَبائِلَ لِتَعارَ‌فوا ۚ إِنَّ أَكرَ‌مَكُم عِندَ اللَّهِ أَتقىٰكُم ۚ إِنَّ اللَّهَ عَليمٌ خَبيرٌ‌ ﴿١٣﴾... سورة الحجرات

''اے لوگو! ہم نے دنیا میں تمہاری خلقت کا وسیلہ مرد اور عورت کا اتحاد رکھا اور نسلوں اور قبیلوں میں تقسیم کر دیا، اس لئے کہ باہم پہچانے جاؤ (ورنہ دراصل یہ تفریق و انشعاب کوئی ذریعہ امتیاز نہیں) اور امتیااز و شرف اس کے لئے ہے جو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ متقی ہے بلاشبہ اللہ علیم و خبیر ہے۔

اپنی پیدائش و خلقت کے اعتبار سے نسلِ انسانی ایک ہے، کسی کو کسی قسم کی کوئی ترجیح نہیں۔ البتہ شعوب و قبائل میں تقسیم اس لئے کر دیئے گئے ہو کہ تمہاری شناخت ہو سکے۔ کیسی شناخت، صرف یہ کہ یہ شخص ہندی ہے، یہ مصری ہے، یہ یورپین ہے، باقی رہا یہ کہ کسی انسان کو اپنی نسل پر دوسرے انسانوں کے مقابلے میں فخر و غرور ہو تو یہ منشائے فطرت نہیں، گمراہی ہے، ضلالت ہے، اس کی تردید بھی فرما دی۔

﴿إِنَّ أَكرَ‌مَكُم عِندَ اللَّهِ أَتقىٰكُم﴾ ذاتی وجاہت و نسلی غرور کوئی چیز نہیں، تم میں سب سے زیادہ معزز و مکرم وہ ہے جو اللہ کے نزدیک سب س زیادہ راست باز و پاک باز ہے۔ کوئی قید نہیں، کوئی تخصیص نہیں کہ کون خصوصیت کے ساتھ اعازاز و اکرام کا مستحق ہو گا۔ مگر وہ جو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ راست باز، اور اپنے عمل میں پاک باز ہے۔

پس جتھوں اور گروہوں کی تقسیم اس بنا پر ہے، لعارفوا۔ کس ملک و خطہ کا باشندہ ہے؟ اس لئے نہیں کہ شودر و برہمن کا امتیاز ہو، اس پہچان کے واسطے کہ اس کی نسل فلاں ہے، اس کی نسل فلاں پس ذاتی امتیاز کیوں ہو۔ کیا اس امتیاز کی بناپر کسی کو حقیقت مل جاتی ہے؟ نہیں، ایک منٹ کے لئے نہیں۔ بزرگی اور امتیاز کس انسان کے حصہ میں آیا؟ ایک اور صرف ایک، اس انسان کے حصے میں جو ''عند اللہ اتقاکم'' کے ماتحت آگیا ہو۔

عرب کا عہدِ جاہلیت:

اب ہمیں وہ گہرائیاں دیکھنی چاہئیں جو اس حکم و حقیقی فطری تقسیم میں مضمر ہیں، خود عرب کا ظہورِ اسلام کے وقت کیا حال تھا؟ عرب کی سرزمین، عرب جاہلیت کا اتنا گھمنڈ تھا کہ ایک ایک بچے کو دعویٰ فضیلت و تمکنتِ خاندان تھا کہ ہم شراوفت بسالت کے پیکر اور اصیل ترین نسل و خاندان کے افراد ہیں، انہیں غرورِ نسلی میں اس درجہ غلو تھا کہ اظہارِ حال و بیانِ حقیقت کے لئے گڑے ہوئے مردے قبروں سے اکھاڑ کر فخریہ بوسیدہ ہڈیوں کی نمود و تشہیر سے بھی باز نہ رہتے تھے۔ اسی قسم کی اور صدہا نسلی غرور کی مثالیں مستند تواریخ کے اوراق میں آج بھی موجود و محفوظ ہیں۔ وقت نہیں ہے، ورنہ میں ان پر زیادہ تفصیل سے روشنی ڈالتا۔ عقلی و نسلی فخر و غرور کا یہ عالم تھا کہ ایک معمولی بات پر پچیس برس تک خونریزی و خونخواری کا میدان گرم رہا۔ مرتے وقت لوگ اس بارے میں وصیت تک کر جاتے۔

قرآن کے اس اعلان پر ان کی ذہنیت، ان کے نسلی غرور، ان کے طبعی نقائص اور وحشت و درندگی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اور ان کی تمدنی، معاشرتی و مذہبی ہر قسم کی زندگی بآسانی سمجھ لی جا سکتی ہے جب ان کے اعمال کے پیشِ نظر وحیٔ الٰہی نے کہا:

﴿وَاذكُر‌وا نِعمَتَ اللَّهِ عَلَيكُم إِذ كُنتُم أَعداءً فَأَلَّفَ بَينَ قُلوبِكُم فَأَصبَحتُم بِنِعمَتِهِ إِخو‌ٰنًا وَكُنتُم عَلىٰ شَفا حُفرَ‌ةٍ مِنَ النّارِ‌ فَأَنقَذَكُم مِنها...١٠٣﴾... سورة آل عمران

''الله نے تمہیں جو نعت عطا فرمائی ہے اس کی یاد سے غافل نہ ہو، تمہارا حال یہ تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو رہے تھے لیکن اس کے فضل و کرم سے ایسا ہوا کہ بھائی بھائی بن گئے۔ (دشمنی کی وجہ سے) تمہارا حال یہ تھا کہ آگ سے بھری ہوئی خندق ہے اور اس کے کنارے کھڑے ہوں ذرا پاؤں پھسلا اور شعلوں میں جا گرے) لیکن اللہ نے تمہیں ان حالات سے نکال لیا۔''

قرآن ، تاریخ یا قصہ کی کتاب نہیں، وہ واقعہ بیان کرتا ہے مگر اشارۃً۔ اس لئے بھی کہ عرب کا ہر فرد تاریخِ عرب کی ایک مجلّد کتاب تھا۔ ذرا سا اشارہ انہیں حالات و معاملات معلوم کرانے کے لئے کافی تھا۔ جنہیں فہمِ قرآن بخشا گیا ہے ان کے لئے بھی اتنا اشارہ عرب کی پوری تاریخ پیش کر دیتا ہے۔

عرب کا عظیم الشّان انقلاب:

لیکن بعثتِ محمد رسول اللہ و نزولِ قرآن کے بعد انہی اہل عرب کا کیا حال تھا؟ قلب بدل گئے تھے، ماہیت بدل گئی تھی ذہنیت بدل گئی تھی، یکسر انقلاب ہو گیا تھا۔ یکسر انسان بن گئے تھے اور اس تبدیلی و انقلاب کے بارے میں اکابرِ عرب کے اقوال مختلف تاریخی کتابوں میں آج بھی محفوظ ہیں، دیکھے جاتے ہیں اور دیکھے جا سکتے ہیں، غصب و قزاقی کے خوگر عرب انقلاب کے بعد ایسے انسان و نمونہ' انسانیت بن گئے تھے کہ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں، غلاموں اور غلام زادوں کے نام اپنے ترکے کی وصیت کرتے تھے، یا اپنی اولاد کے ساتھ ساتھ انہیں بھی ترکے میں حصہ دیتے تھے۔

ابو بکر صدیقؓ، ان کی شرافت ونجابت میں کس کو کلام ہو سکتا ہے، اشرافِ عرب، اصیل قریش، نسلی غرور کر سکتے تھے، ایک منٹ کے لئے بھی یہ خیال ہیں ہو سکتا کہ یہ کس کی رکاب پکڑ کر چلنے والے لوگ ہیں مگر یہ تاریخ کی ایک دہرائی ہوئی حقیقت ہے اور تہذیبِ جدید بھی جس سے انکار نہ کر سکی کہ حضرت اسامہؓ سالارِ لشکر بن کر جب احاطہ شہر سے نکلتے ہیں تو دور تک آپ ان کے گھوڑے کی رکاب تھامے ہوئے انہیں سمجھاتے چلے گئے اور وہ بار بار معذرت کرتے رہے، لیکن آپ کا ضمیر اور حقیقی صحبتِ نبوی سے مجلیّٰ قلب آمادہ نہ ہو سکا کہ ان کی معزرت قبول کی جائے۔

سلمانؓ بن اسلام کی کیفیت موّرخین نے جو کچھ تاریخ میں قلم بند کر کے خلف کے لئے چھوڑی ہے، دیدۂ عبرت کے لئے ہمیشہ سبق آموز رہے گی۔ بلالِ حبشیؓ سے اکنافِ عالم میں بسنے والوں سے کون واقف نہیں، کیا ان کا حال و مقام ہمارے درسِ عبرت کے لئے کافی نہیں؟ ایک حبشی اسود، سیاہ فام لیکن مقام کیا تھا؟ صحابۂ کرام خوشامد کے ساتھ ان سے عرض کرتے تھے کہ اذان دے کر ہمارے دلوں کو خوش کرو۔

حضرت عمرؓ جیسا جلالی خلیفہ اور محترم ترین صحابی رسول اللہ، جن کے عدل، دانش اور تدبّر نے اقوامِ عالم سے خراجِ تحسین حاصل کیا۔ ان کی ذات پر فخر کرتے تھے اور انہیں ''سیدنا'' کے لقب سے یاد کر کے خوش ہوتے۔ اور فخر کرتے تھے۔ حضرت صہیب رومی كا حال كس نے نہیں سنا؟

بہرحال،ہر ولایت و ملک کے لوگ جو معلّمِ اخلاق و انسانیت کے دربارمیں پہنچے، انسان بن گئے، ہے کوئی انسان تاریخِ انسانیت میں موجود؟ جس کو مثال کے طور پر بھی، اس انسانیتِ کبریٰ کے مقام پر فائز انسانِ کامل کے سامنے لایا جا سکے؟ تاریخ اس کے جواب و مثال سے آج تک قاصر ہے اور قاصر رہے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخ نے ہیبت و دبدبہ، رعب و جلال والی سینکڑوں ہستیاں اور ان کے کارنامے اپنے صفحات میں محفوظ رکھے ہیں، مگر انسانِ کامل، جو ایک طرف شہنشاہتو دوسری طرف بوریہ نشین مسکین، ایک طرف فوجی جنرل و قائد تو دوسری طرف داعیٔ امن و سلامتیٔ انسنا، صفحۂ ہستی پر ہویدا نہیں کیا، نہ زمانے نے پیدا کیا ہے۔

نسلی عصبیت کا پیکرِ خاکی، دوسروں کے جان و مال، عزت و آبرو کا پاسبان بن جائے، وہ، یا ظلم و استبداد سے اقوام کے گلے میں غلامی کا طوق، اور ان کی پیٹھ پر پابندیوں کا بوجھ ڈال کر سر غرور فخر سے بلند کرنے والا، دونوں میں کون افضل ہے؟ تاریخ کا فیصلہ موجود ہے میرے کہنے کی ضرورت نہیں، جس قوم کا وطیرہ قتل و غارت ہو، فخر و غرور ہو اس میں یہ انقلاب ایّام ہو جائے کہ قریشی ہاتھ باندھ کر پیچھے کھڑا ہو، اور غلام قوم کا ایک فرد ان کا امام ہو۔ اُم المومنین عائشہ صدیقہؓ کی روایت ہے اگر زید زندہ ہوتے تو خلافت میرے باپ کی بجائے انہیں ملتی۔ مسلم کی حدیث میں رسول اللہ کی ایک دعا ضبط تحریر میں آئی ہے۔ آپ ﷺ کی زبان مبارک پر جو رات کو پچھلے پہر اکثر جاری رہتی تھی کہ: «اَللّٰھُمَّ إِنَّا نَسْئَلُکَ الخ»

نہ تفرقہ ہے، نہ پارٹی اور جتھہ بندی ہے، نہ گروہ پسندی۔ بس اسلام ملت ہے، اللہ کی بندگی ہے اور رسول کی اطاعت۔ ہر مسلمان بلکہ ہر انسان بھائی بھائی ہے، إن العباد لّھم إخوان۔ کوئی انسان بحیثیت انسان کے اچھوت نہیں ہے، اعمال کیسے ہوں، عقیدے کیسے ہوں، بحث یہ ہے ناپاکی جسم میں نہیں ہے، عقیدے میں ہوتی ہے جسم ہر انسان کا پاک ہے۔

تاریخ و اقوامِ عالم کی اجماعی کیفیت اور ساتویں صدی تک کے وہ تمام بوجھ جو نوعِ انسانی کی پیٹھ پر ڈال دیئے گئے تھے اور ظہورِ اسلام کے بعد کی دنیا کا حال مختصراً آپ نے سن لیا۔ نتیجہ کیا نکلا؟ نتیجہ یہ نکلا کہ آپ ﷺ رحمت تھے، نشانِ رحمتِ الٰہی اور سبب رحمتِ ایزدی تھے۔

ساتویں صدی میں نوعِ انسانی کی حالت آپ سن چکے، تہذیب و سلطنت کا حال معلوم کر چکے، کلیسائی احکام، پاپائی نظام، رومہ کی سعادت، ہندی احکام و قوانین، رسم و رواج، پابندی و جکڑ بندی دیکھ لی۔ فیصلہ یہ ہو گا کہ نسلِ انسانی یکسر گرفتارِ بلا و معذب تھی۔ عقل گرفتار، جسم گرفتار، غاصبانہ ذہنیت، غلامانہ عقیدت جسم میں ظالمانہ شرارت، روح میں بزدلانہ خباثت، بادشاہتوں اور مذہبی مسندوں نے طرح طرح کی عقوبتیں ڈال رکھی تھیں۔ بس بحالات ایں، تاریخ کا بے لاگ، اٹل بے پناہ فیصلہ یہی ہو گا اور ہے کہ نوعِ انسان عذاب و ذلّت کے عذاب میں گرفتار تھی۔

غیرتِ خداوندی جوش میں آتی ہے آیۂ رحمت بن کر محمد رسول اللہ کا ظہور ہوتا ہے۔ عیسائی و موسائی، سب کو پیامِ رحمت ملتا ہے، انقلاب ہوتا ہے، دنیا بدلتی ہے۔ کل جو سورج نسلِ انسانی پر ایک نئے ظلم کی خبر لاتا تھا، آج اس کی ہر شعاع دامنِ انسان کو امن و راحت، رأفت و رحمت سے مالا مال کر رہی ہے، غلامی کی بیڑیاں کٹ جاتی ہیں۔ پیٹھ کا بوجھ گر جاتا ہے، ذہنی بندشیں اور فکری بندھن ٹوٹ جاتے ہیں۔ نسلِ انسانی ہر قسم کے ظلم و عذاب سے نجات پاتی ہے اور ہر قسم کی جتھہ بندی۔ نسلی غرور و ذاتی وجاہت کی جکڑ بندیوں سے نجات پا کر بھائی بھائی بن جاتی ہے۔ مشرق و مغرب میں بجز اس نعرہ کے اور کچھ نہیں سنا جاتا کہ:

وَما أَر‌سَلنـٰكَ إِلّا رَ‌حمَةً لِلعـٰلَمينَ ﴿١٠٧﴾﴿حَر‌يصٌ عَلَيكُم بِالمُؤمِنينَ رَ‌ءوفٌ رَ‌حيمٌ ﴿١٢٨﴾فَبَشِّر‌ عِبادِ ﴿١٧﴾ الَّذينَ يَستَمِعونَ القَولَ فَيَتَّبِعونَ أَحسَنَهُ...١٨
حاشیہ

سورہ اعراف کی آیت 157 جس کا ترجمہ یہ ہے: جو الرسول کی پیروی کریں گے کہ نبی امی ہو گا اور اس کے ظہور کی خبر اپنے تورات اور انجیل میں لکھی پائیں گے۔ وہ انہیں نیکی کا حکم دے گا، برائی سے روکے گا،پسندیدہ چیزیں حلال کرے گا، گندی چیزیں حرام ٹھہرائے گا۔ اس بوجھ سے نجات دلائے گا جس کے تلے دبے ہوں گے اور ان پھندوں سے نکالے گا جس میں وہ گرفتار ہوں گے۔

سورۂ توبہ کی آیت نمبر ۳۱ کا ابتدائی حصہ۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: ''ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اپنے علماء و مشائخ کو پروردگار بنا لیا۔''

سورۂ اعراف کی آیت نمبر 157، جس کا ترجمہ صفحہ 10 پر پیش کیا گیا۔

ساتویں صدی عیسوی بؑعثتِ نبوی کے لحاظ سے ہوئی وگرنہ ولادات با سعادت تو چھٹی صدی عیسوی (یعنی ۵۷ء کا عظیم الشّان واقعہ ہے)

آیت اور اس کا ترجمہ یہ ہے: اِعْمَلُوْا اٰلَ دَاودَ شُكرًا وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُوْرِ (۳۴۔۱۲) اے آل داود شکر گزاری کے کام کرو اور میرے بندوں میں سے بہت کم شکر گزار ہیں۔

اسامہؓ حضور ﷺ کے غلام حضرت زیدؓ کے صاحبزادے تھے۔ حضرت زیدؓ کو حضور ﷺ نے آزاد فرما دیا تھا اور انہیں اپنے عزیزوں کے ساتھ گھر چلے جانے کی اجازت عطا فرما دی تھی لیکن انہوں نے حضور ﷺ کے قدموں سے جدائی گوارا نہ فرمائی۔ حضرت اسامہؓ کی والدہ اُم ایم ایمن برکتہ تھیں جو حضور کے والد ماجد حضرت عبد اللہ بن عبد المطلب کی لنوڈی تھیں گویا اسامہؓ والد اور والدہ دونوں کی جانب سے غلام زادے تھے۔ حضور ﷺ ان سے بہت محبت فرماتے تھے۔ قبیلہ مخزوم کی ایک عورت چوری کے الزام میں پکڑی گئی اور بعض صحابہ نے حضور کی خدمت میں اس کی سفارش کرنی چاہی تو انہوں نے حضرت اسامہؓ کو سفارشی بنایا تھا۔ حضور ﷺ کے وصال کے بعد وادی القریٰ میں رہنے لگے تھے۔ ابن عبد اللہ کی رائے کے مطابق ۵۴ ہجری میں انتقال فرمایا۔ صحابہ و تابعین کی ایک جماعت نے ان سے روایت کی ہے۔

حضرت سلمانؓ اصفہان کے مضافات کے رہنے والے تھے۔ سلمان فارسی کے نام سے مشہور ہوئے۔ تلاشِ حق میں گھر بار چھوڑا، عیسائی مذہب اختیار کیا لیکن طبیعت مطمئن نہ ہوئی۔ بالآخر نصیبے کی یاوری نے حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچایا اور جمالِ جہاں فدا دیکھتے ہی اسلام قبول کر لیا۔ عربوں نے انہیں پکڑ کر ایک یہودی کے ہاتھ فروخت کر دیا تھا اور تقریباً دس بار خرید و فروخت کا عمل دہرایا گیا۔ بالآخر حضور ﷺ کی توجہ دامداد سے غلامی سے نجات پائی۔ حضور ﷺ سے ان کی تعریف میں متعدد حدیثیں مروی ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ سلمان ہمارے اہل بیت سے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ تقریباً ڈھائی سو برس کی عمر پائی۔ ۳۵ ہجری میں مدائن میں انتقال فرمایا۔ حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت انسؓ ان سے روایت کرتے ہیں۔

بلال بن رباح جو بلالِؓ حبشی اور رسول اللہ ﷺ کے مؤذّن کی حیثیت سے مشہور ہوئے، اُمیّہ بن خلف حجمی کے غلام تھے۔ یہ پہلے شخص تھے جنہوں نے مکہ میں اپنے اسلام کو ظاہر کیا۔ قریش نے ان پر سخت ستم توڑے۔ خود ان کے مالک نے طرح طرح کی اذیتیں پہچائیں۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے انہیں خرید کر آزاد کر دیا تھا۔ حضور ﷺ کی جدائی آپ پر بہت شاق تھی۔ آپ کے وصال کے بعد مدینہ چھوڑ کر شام چلے گئے تھے۔ ۲۰ ہجری میں وہیں انتقال فرمایا۔ صحابہ و تابعین کی ایک جماعت نے ان سے روایت کی۔

صہیبؓ کے والد کا نام سنان تھا۔ آبائی وطن موصل تھا، رومیوں نے ان کی آبادی پر حملہ کیا یہ بھی قیدی بنا لئے گئے یہ اس وقت بچے تھے۔ نشوونما روم میں ہوئی اس لئے صہیب رومی کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کے مالک نے مکہ کے ایک سردار کلب کے ہاتھ فروخت کر دیا، کلب نے عبد اللہ بن جدمان تیمی کے ہاتھ بیچ ڈالا، انہوں نے آزاد کر دیا۔ مکہ میں شروع دور میں اسلام قبول کیا۔ کفارِ مکہ کے ہاتھوں سخت تکالیف برداشت کیں۔ قرآن کی آیت ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِيْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللهِ﴾ (۲۰۷:۲) (کچھ آدمی ایسے بھی ہیں جو اللہ کی خوشنودی کی طلب میں اپنی جانیں تک بیچ ڈالتے ہیں) انہیں کے بارے میں ہے۔ ۸۰ھ میں مدینہ میں انتقال فرمایا۔

مسلم میں متعدد دعائیں مروی ہیں۔ میں نے سرسری طور پر نظر ڈالی لیکن دماغ فیصلہ نہیں کر سکا کہ مولاناؒ کا اشارہ کس حدیث کی طرف ہے خصوصاً ایسی جس کے ابتدائی الفاظ اللّٰھم إنا نسئلك ہوں۔