مطالعہ و تالیفِ سیرت کے چند پہلو

مطالعۂ سیرت کی متعدد ضرورتیں، مختلف نقطۂ نظر اور ان کی اہمیتیں ہیں۔

سب سے پہلی ضرورت تو مسلمانوں کی تعلیم و اصلاح کے نقطۂ نظر سے ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی زندگی مسلمانوں کے لئے اسوہ حسنہ ہے۔

﴿لَقَد كانَ لَكُم فى رَ‌سولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ...٢١﴾... سورة الاحزاب

(مسلمانو!) تمہارے لئے رسول اللہ (ﷺ کی ذاتِ گرامی) میں بہترین نمونہ ہے۔

اور

﴿قُل إِن كُنتُم تُحِبّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعونى...٣١﴾... سورة آل عمران

(اے نبی ﷺ!) آپ مسلمانوں سے فرما دیجئے کہ اگر تمہیں اللہ سے محبت ہے تو میری اتباع کرو۔

کوئی مسلمان مسلمان کی حیثیت سے اسوۂ حسنہ سے صرفِ نظر اور اتباعِ نبوی کی فکر سے اپنے قلب و دماغ کو بے نیاز نہیں کر سکتا۔ قرآنِ حکیم کے بعد آپ ﷺ کی سیرت مسلمانوں کے آئینِ حکمرانی، دستورِ مملکت اور لائحہ اعمالِ حیات کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ آپ ﷺ کا وجودِ گرامی مجسم قرآن تھا جو مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، طائف وغیرہ کے کوچہ و بازار میں کامل تئیس سال تک سیر و گردش اور نقل و حرکت میں رہا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے آپ ﷺ کے اخلاقِ کریمانہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے سائل سے پوچھا کہ کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا اس نے جواب دیا، ضرور پڑھا ہے، انہوں نے فرمایا« کان خلقه القراٰن» جان لینا چاہئے کہ آنحضرت ﷺ کے اخلاق کریمانہ وہی سب کچھ ہیں جو قرآن میں ہے۔ اخلاق یا لق کا لفظ آجانے سے کسی کو اس محدود دائرے میں سوچنا نہیں شروع کر دینا چاہئے جو اردو میں اس لفظ کے معنی کے بارے میں بنتا ہے۔ اخلاق کا تعیّن بول چال یا تواضع یا استقبال یا نشست و برخاست کے چند معلوم ضابطوں تک محدود نہیں۔ اخلاق کا مفہوم انسان کی پوری زندگی اور اس کے تمام اعمال پر محیط ہے۔ آنحضرت ﷺ کے جوامع الکلم میں سے ایک جامع کلمہ وہ ہے جس میں بعثتِ نبوی کا مقصد ہی اخلاق کی تکمیل و اتمام بتایا گیا ہے۔ «أنا بعثتُ لأتمم مکارم الأخلاق» میری بعثت کا مقصد تو مکارم الاخلاق کا اتمام اور تکمیل ہے۔

اس لئے مسلمانوں کے لئے سیرتِ طیبہ کے مطالعے کی ضرورت اور تعلیم و اصلاح کے نقطہ نظر سے اس کی اہمیت محتاجِ بیان نہیں۔ سیرتِ طیّبہ سے زیادہ موثر کوئی ذریعۂ ہدایت نہیں۔ یہ ہزاروں شکوک و ادہام کے مہلک زہر کا ایک تریاق ہے۔ حکمائے اُمّت نے ایسے اذہان و قلوب کے لئے جن کا اطمینان و سکون، شکوک و اوہام کے ہاتھوں تباہ ہو چکا ہو یا فلسفہ و کلام کے انہماک نے برباد کر دیا ہو دار الشفائے نبوت سے رجوع اور سیرتِ نبویہ کے نسخۂ شافیہ الٰہیہ کے استعمال کا ہمیشہ مشورہ دیا ہے۔

شیخ عماد الدین واسطی کے انقلابِ حالات کی روداد اب اردو جاننے والوں کے لئے راز نہیں رہی۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے ''تذکرہ'' میں اس سے پردہ اُٹھا کر اردو زبان کا قابلِ فخر سرمایہ بنا دیا ہے۔ مولانا نے نہایت تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے کہ فقہاء و متکلمین اور عامہ متصوفین کی صحبتوں میں رہ کر کس طرح ان کے دل کا سرمایۂ یقین و طمانیت برباد ہو گیا تھا لیکن حضرت شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کی ایک ہی صحبت اور مطالعہؓ سیرت کے ایک ہی عملِ صالح نے کس طرح ان کی کایا پلٹ کر دی۔

بعثت نبوی تاریخِ اسلام کا ایک عظیم الشان واقعہ تھا۔ آپ ﷺ کی بعثت ایک دعوت کا ظہور اور ایک امت کے قیام کا اعلان تھا۔ آپ ﷺ کی ولادت اگرچہ ایک خاص خاندان میں ہوئی، آپ ﷺ کی دعوت کے اوّلین مخاطب اگرچہ ایک خاص خاندان میں ہوئی، آپ ﷺ کی دعوت کے اوّلین مخاطب اگرچہ ایک خاص قوم کے لوگ تھے اور آپ ﷺ کی پیغمبرانہ تعلیم و تربیت کا شرف بھی اگرچہ سب سے پہلے ایک خاص خطے کے بسنے والوں کے حصے میں آیا لیکن آپ ﷺ کی بعثت نہ تو کسی خاص خاندان کے عز و شرف کا اعلان تھا، نہ آپ ﷺ کی دعوت کسی ایک قوم کے لئے مخصوص اور کسی خاص ملک تک محدود تھی۔ آپ ﷺ کی دعوت اس لئے نہ تھی کہ کوئی خاص خاندان اپنی سیادت کا نظام قائم کر کے لوگوں کی عقیدتوں اور ارادوں کا استحصال کرے آپ ﷺ کی دعوت اس قسم کے تمام نظاموں اور فلسفوں کو مٹانے اور تمام کائنات پر صرف انسانیت کے مجدد شرف کے قیام کی دعوت تی۔ آپ ﷺ کی دعوت نے تاریخ مذاہب، تاریخ تہذیب و تمدّن اور تاریخِ علوم و تصنیف و تالیف میں سیرت نگاری کے ایک مستقل فن کا اضافہ ہوا اور پھر اس فن کی متعدد فروع ہیں۔ مثلاً شمائل نگاری اور نعت گوئی، ان کے اصول و آدابِ نگارش الگ الگ ہیں۔ پھر سیرت و شمائل نگاری اور نعت گوئی نے ادب و شعر کی مختلف اصناف کو کس کس طرح متاثر کیا۔ یہ تحقیق و مطالعہ کا ایک الگ موضوع ہے۔

(2)

سیرتِ طیبہ کے مطالعے کے یہ تین خاص نقطۂ نظر ہیں۔ جہاں تک پہلے نقطۂ نظر کا تعلق ہے، وہ مسلمانوں کے ساتھ مخصوص ہے لیکن دوسرے نقطہ ہائے نظر یعنی تاریخی و علمی اور ادبی، ایسے ہیں جس میں ہر مذہب اور ہر ملت کے اصحاب علم اور اہل قلم شامل ہیں اور انہوں نے سیرت و نعت کے لٹریچر میں بیش بہا اضافہ کیا ہے۔ اب ہم سرسری طور پر اس امر پر بحث کریں گے کہ مختلف نقطہ ہائے نظر سے سیرت میں کس قسم کے لٹریچر کی موجودہ دور میں ضرورت ہے۔

انسان مختلف زبانیں بولتا ہے، مختلف نسلوں سے تعلق رکھتا ہے، مختلف طبقوں میں بٹا ہوا ہے، زمین کے مختلف ٹکڑوں اور جغرافیائی دائروں میں رہتا بستا ہے، وہ مختلف پیشے اختیار کرنے پر مجبور ہوا ہے، اس میں اصناف کے لحاظ سے تقسیمیں ہیں یعنی مرد، عورت، عمروں کے لحاظ سے تفاوت ہیں۔ یعنی بچے، جوان اور بوڑھے۔ پھر یہ تمام لوگ نہ علم میں یکساں ہوتے ہیں اور نہ ذہنی و فکری سطح سب کی ایک ہوتی ہے۔ ان واقعی، غیر واقعی، حقیقی یا مصنوعی تقسیموں اور تفریقوں نے ان کے مزاج، ان کے شوق، ان کے ذوق، ان کے میلان اور ان کی نفسیات میں زمین و آسمان کا فرق پیدا کر دیا ہے۔

پھر یہ بھی ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ ہر زمانے کے لوگوں کی ذہنی استعداد اور اخذ و قبول کی صلاحیت یکساں نہیں ہوتی، حالات کی تبدیلی کے ساتھ لوگوں کا ذوق و رجحان تبدیل بھی ہوتا رہتا ہے اور ذہنی و فکری استعداد میں بھی تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔ نئے نئے مسائل سامنے آت ہیں اور اندازِ فکر تبدیل کر دیتے ہیں۔

ان تغیرات و تبدّلات اور اختلافات و تنوعات میں وہی لٹریچر کامیاب ہوتا ہے جس میں وقت کے رجحان و ذوق کی تسکین کا خیال رکھا گیا ہو۔ وہ لٹریچر جس سے قاری کے ذوق و رجحان کی تسکین اور اس کی زندگی کے حل میں جس سے مد نہ ملتی ہو، اس کے ا۔ثرات دل کی گہرائیوں میں نہیں اُتر سکتے۔ پہلے ادوار میں انقلابات و تغیرات کی رفتار بہت سست ہوتی تھی، اس لئے ہمارے اسلاف نے اپنے اپنے وقتوں میں تصنیف و تالیف کے میدان میں جو کارنامے انجام دیئے، انہوں نے صدیوں تک لوگوں کے ذہن و فکر کو مسحور رکھا لیکن موجودہ سائنسی دور میں دنیا ایک ایسے مقام پر پہنچ گئی ہے جہاں ماضی سے اس کا رشتہ صرف تاریخی باقی رہ گیا ہے اور مزاج، نفسیات، ذوق، رجحان اور زندگی کے مسائل اور ان کے حل کے طریق، انداز فکر غرضیکہ ہر لحاظ سے یہ ایک بالکل نئی دنیا ہے اور چونکہ انقلابات و تغیرات کی رفتار بھی تیز ہو گئی اس لئے ذہن و فکر اور رجحان و طبائع میں تبدیلیاں بھی جلد جلد ہونے لگی ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ تعلیم و اصلاح کا کوئی ایک اسلوب سب کے لئے اور ہمیشہ کے لئے مفید نہیں ہو سکتا اگر ہم تعلیم و اصلاح کے مقاصد میں مخلص ہیں تو ہمیں سوچنا پڑے گا کہ آج کے دور میں ہم کیا اسلوب اختیار کریں کہ ہماری کوششیں بے نتیجہ ثابت نہ ہوں۔

مسلمان اللہ تعالیٰ کو ایک مانتے ہیں، محمد ﷺ ابن عبد اللہ کو اللہ کا رسول مانتے ہیں (ﷺ) اور انہیں یہ عقیدہ رکھنے کا ہر طرح حق ہے لیکن جب وہ اپنے اس عقیدے کا اظہار کرتے ہیں کہ اسلام کی دعوت تمام ملکوں اور تمام قوموں کے لئے اور ہمیشہ کے لئے ہے اور جب وہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ رحمۃ للّعالمین ہیں تو گویا وہ دنیا کو چیلنج کرتے ہیں اور دنیا کو یہ حق دیتے ہیں کہ وہ اسلام کے داعی اور اسلام کی تعلیمات کو حقیقت و تاریخ کی کسوٹی پر پرکھے اور دیکھے کہ وہ اپنے عقیدے اور دعوے میں کتنے سچے ہیں؟ لیکن جب ہم دنیا کو اس طرح چیلنج کرتے ہیں تو کیا ہمارے اوپر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ ہم دنیا کے مختلف لوگوں کے لئے، مختلف زبانوں کے جاننے والوں کے لئے ان کی زبانوں میں وقت کے تحقیقی و تصنیفی معیار کے مطابق، علمی انداز میں، زبان و بیان کے معیاری اسالیب میں، عقیدت و ارادت کے رسمی و روایتی اسلوب سے مختلف انداز میں حقائق کو پیش کریں اور سیرت کے مطالعے میں غیر مسلم محققین کی رہنمائی کریں اور ان کے سامنے نظر و بصیرت اور ادب و تحقیق کا اتنا بڑا سرمایہ فراہم کر دیں کہ ان کی آنکھیں خیرہ اور عقلیں مبہوت ہو کر رہ جائیں۔ اردو زبان کا دامن سیرتِ نبوی پر محققانہ سرمائے سے تہی ہرگز نہیں بعض چھوٹے چھوٹے رسائل اس پائے کے ہیں کہ دوسری زبانوں میں ان کی نظیر و مثیل نہیں اور ان کی علمی و تحقیقی حیثیت بڑی بڑی تصنیفات پر بھاری ہے، لیکن یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ:

1. برِّصغیر پاک و ہند کی مخصوص آبادیوں اور خطوں میں تبلیغ و اشاعت اور مسلمانوں کی اصلاح و تربیت میں اردو زبان کی اہمیت سے انکار نہیں تاہم

a. برصغیر کے تمام دیار و امصار اور تمام قوموں میں تبلیغ و اشاعت اور اصلاح و تعلیم و تربیت کے لئے صرف اردو ہی کافی نہیں۔

b. دنیا کی علمی اور بین الاقوامی زبان اردو نہیں، انگریزی، جرمنی اور فرنچ وغیرہ ہیں۔

2. مستشرقین اور مناظرین کے جواب میں نہایت بلند پایہ سرمایہ جمع ہو چکا ہے لیکن یہ مثبت علمی و تحقیقی انداز میں نہیں ہے، مناظرانہ جوابی اور مدافعانہ انداز بیان میں ہے۔

3. ہر زمانے میں علم و تحقیق اور تصنیف و تالیف کا ایک خاص معیار ہوتا ہے اردو میں سیرت کا لٹریچر عام طور پر موجودہ زمانے کے علمی معیار پر پورا نہیں اترتا۔

(3)

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی تعلیم و اصلاح اور غیر مسلموں میں دعوت و تبلیغ کے لحاظ سے کون سے اسالیب و معیار اختیار کیے جائیں جو وقت کے تقاضوں کے مطابق بھی ہوں اور نتیجہ خیز بھی۔ میرا خیال ہے کہ موجودہ زمانے میں سیرت کے موضوع پر تصنیف و تالیف میں مسلمانوں کی تعلیم و اصلاح یا دنیا میں سیرت کی عوت و تبلیغ ہر دو مقاصد کے لحاظ سے چند امور کا خاص طور پر خیال رکھا جائے۔

چنانچہ دعوت و تبلیغ کے مقاصد کے نقطۂ نظر سے ضروری ہے کہ:

1. سیرت کے جب مباحث میں مستشرقین نے کوئی ایسی بات کہی ہے جو حقائق کے خلاف ہے یا وہ جہاں کسی بات کی کُنہ تک نہیں پہنچ سے ہیں، وہاں ان کے اعتراض یا عدم رسائی کے ایک ایک پہلو کو ملحوظ رکھا جائے لیکن اندازِ بیان مدافعانہ کے بجائے مثبت اور دعوتی ہو۔ مناظرانہ، جوابی اور تنقیدی و الزامی اندازِ بیان اختیار نہ کیا جائے۔

2. آج کی علمی دنیا میں تحقیق اور تصنیف و تالیف کا جو انداز و معیار ہے ہماری ہر پیشکش اس معیار کے مطابق ہو۔

3. ہماری تمام تصانیف و تحاریر وقت کی معیاری اور ٹکسالی زبان (جو زبان بھی ہو) اور معروف و مستند اسلوب میں ہو۔

4. جو کچھ پیش کیا جائے قیدت کے اسلوب کے بجائے علم و فن کی زبان میں ہو۔ ہمارے نزدیک عقیدت کا یہ معیار ہرگز نہیں کہ زبان کا ایک خاص لب و لہجہ اختیار کر لیا جائے، بلکہ نہایت زور اور قوت کے ساتھ یہ ثابت کر دینا اصل عقیدت ہے کہ ہمارے قبول و اختیار کی بنیاد حقیقت اور صرف حقیقت ہے، رسوم و روایات اور محض آباد پرستی نہیں۔

مسلمانوں کی تعلیم و اصلاح اور تعمیر سیرت کے نقطۂ نظر سے ان امور کو خاص خیال پر ملحوظ رکھا جائے۔

1. مختلف طبقات کی سیاسی، سماجی اور کاروباری زندگی کے پیشِ نظر ان کی نسیات، ان کی ذہنی استعداد کے مطابق سیرت کا لٹریچر چھوٹی و بڑی کتابوں کے مختلف سلسلوں میں ہو۔

2. بہت ہی آسان، شستہ اور معیاری زبان میں ہو۔

3. ادب کے معروف اسالیب و اصناف میں ہو۔

4. اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تواتر و تسلسل کے ساتھ ہو۔

ان تبدیلیوں کے بغیر کوئی ذہنی، فکری اور دیرپا انقلاب پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ درحقیقت ہمارے پیشِ نظر نقصد، سیرت پڑھا دینے اور چند معروف و مشہور باتوں کو رٹا دینے کے بجائے سیرت کی تعمیر ہونی چاہئے اور سیرت کی تعمیر اس وقت ہو سکتی ہے جب تبدیلی کا جوش اندر سے پیدا ہو نہ کہ بیروی دباؤ سے۔

(4)

یہاں ہم ایک غلط فہمی کے امکان کو بھی رفع کر دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ آج مسلمانوں کی تعلیم و اصلاح، غیر مسلموں میں اسلام اور سیرتِ نبوی کی عوت اور مقاصدِ دینی و ملّی کی تبلیغ و اشاعت کے لئے وقت کے معیاری اور معروف اسالیب بیان کی ضرورت ہے تو ہمارے سامنے ادب کے وہ دلچسپ اور محبوبِ عوام لٹریچر نہیں ہوتا جو عشقیہ ناولوں، فحش افسانوں، عریاں ڈراموں، ہیجان اور فلمی گانوں اور جنسی مناظر کی عکاسی پر مشتمل ہوتا ہے اور گلی کوچوں میں بُک اسٹالوں اور کرائے کی لائبریریوں میں ملتا ہے۔ بلکہ سب سے پہلے سامنے وہ اسالیبِ ادب آتے ہیں جن کی طرف قرآن حکیم نے ہمارے رہنمائی کی ہے۔ قرآن حکیم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی تعلیم و اصلاح کے لئے کوئی ایک ہی اختیار نہیں کیا بلکہ مختلف طبقات، ذہن و فکر ی مختلف سطح اور اخذ و قبول کی مختلف استعداد رکھنے کے لئے مختلف اسالیب کو اختیار کیا گیا ہے مثلاً:

• عام طور پر سیدھا سادا صاف بیانیہ انداز اختیار کیا گیا ہے اور دعوت پوری تفصیل و وضاحت کے ساتھ پیش کر دینے کے بعد انسانی ذہنوں اور دماغوں سے توقع کی ہے کہ وہ اسے حق سمجھ کر قبول کر لیں۔

• لیکن جن کی ذہنی و فکری سطح بلند تھی ان کے لئے ہر جگہ وہ عام اور متعارف اسلوب ہی نہیں بلکہ اشارت و اجمالی انداز بیان سے بھی کام لیا گیا ہے۔

• کہیں انعام و اکرام کے تذکرے اور اجر و ثواب کے بیان سے عملِ صالح کا شوق دل میں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔

• جہاں اخذ و قبولِ حق کی استعداد کم تھی وہاں ان کو ان کے برے اعمال کے نتائجِ بد اور عذابِ آخرت سے ڈرایا گیا ہے۔

• کسی کو سمجھانے کے لئے تمثیلی پیرایہ بیان اپنایا۔

• متعدد مقامات پر لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لئے کہانی (قصہ) کا اسلوب بھی اختیار کیا۔

• کہیں تذکیر بایام اللہ سے کام لیا اور گزشتہ قوموں کے واقعات کی طرف توجہ دلائی۔

• کہیں سیر فی الارض کو سبق آموزی کا ذریعہ بنایا۔

• اصحابِ نظر و تدبر کو غور و فکر کرنے اور عقل و بصیرت سے کام لینے کی دعوت دی اور عقلی و منطقی انداز میں اعمال کے عواقب و نتائج کی طرف توجہ دلائی ہے۔

قرآنِ حکیم کی اس رہنمائی کے ساتھ بلاشبہ ہمارے سامنے مختلف زبانوں کے اس اعلیٰ پائے کے لٹریچر کی مثالیں بھی موجود ہیں، جن سے اس زبان کے بولنے والوں کے ذہنوں میں انقلاب پیدا ہو گیا ہے، جن سے لوگوں کی قسمتیں بدل گئی ہیں، جن سے قومی سیرت کی تعمیر کا کام لیا گیا ہے، جن سے قوموں کی غلامی کی زنجیریں توڑنے اور آذادی کے حصول اور قوموں اور ملکوں کی تعمیر و ترقی میں ایک قوّتِ محرکہ کا کام لیا گیا ہے۔

اور پھر نظم و نثر کے جن اسالیب کو اپنانے اور اختیار کرنے کی ہم دعوت دیتے ہیں وہ کوئی ایجاد و اختراع نہ ہو گی بلکہ اردو میں ہی اس کی مثالیں موجود ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ انہیں زیادہ خوش اسلوبی کے ساتھ اور سائنٹیفک طریقے پر اپنایا جائے۔