آغازِ وحی سے ہجرت تک
یہ مقالہ اپنے عنوان سے بظاہر آنحضرت ﷺکے دورِ نبوت کے ابتدائی ۱۳ برس کی تاریخی جھلک ہے۔ دراصل دعوت و اصلاح کی اسلامی تحریک کے ارتقاء کا ایک مکمل نقشہ بھی پیش کر رہا ہے جسے آج کی زبان میں ''تاریخِ انسانیت کے ایک عظیم انقلاب'' سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہی وہ دورِ عزیمت و استقلالی تھا جس نے دنیائے انسانیت کے سامنے کٹھن سے کٹھن حالات میں حق پرستی اور پامردی کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں اور تجدید احیائے دین کی راہوں پر چلنے والوں کے لئے سنگِ میل لگائے ہیں۔
دعوتِ اسلامی کا یہ ابتدائی دور ہمیں بتاتا ہے کہ صحیح تحریک اگرچہ اعلیٰ نصب العین، بلند فکری اور دوسرے تمام نظریات پر علمی برتری کی حامل ہوتی ہے لیکن وہ اپنی جامعیت اور نتیجہ خیزی کی بنا پر فکر و نظر تک محدود نہیں ہوتی بلکہ اس کا اصل مقصود فرد و معاشرہ میں حق کی قوتوں کی انگیخت ہوتی ہے۔ جو عملِ خیر کا موجب بنتی ہیں۔ اس میں علم و معرفت کی اہمیت اسی اعتبار سے ہوتی ہے کہ وہ حق و خیر کے راستوں کی نشاندہی اور باطل سے تمیز کا سبب بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کا ان علاقوں میں مبعوث ہونا ضروری نہیں ہوتا جو علم و فکر کی بالاتوی کی وجہ سے سیادت پر فائز ہوں اور نہ ہی انبیاء کی دعوت میں صرف صاحبِ علم و فضل لوگ ہی ملحوظ ہوتے ہیں نیز یہ دورِ محن یہ عقدہ کشائی بھی کرتا ہے کہ انبیاء اگرچہ وحی و عصمت کی بدولت عام انسانوں سے ممتاز ہوتے ہیں جس کی وجہ سے صرف ہی مطاع قرار پاتے ہیں لیکن تبلیغ و دعوت کے میدانوں میں وہ عام لوگوں ہی کی طرح مشکلات سے دو چار ہوتے ہیں اور اعلیٰ فطرت انسان کی حیثیت سے ابتلاء و امتحان میں سرفراز نکلتے ہیں۔ اگر نورِ نبوت کے ساتھ ان کی یہ بشریت نظر انداز کر دی جائے تو پھر ان کا دوسروں کے لئے قابل اتباع اور نمونہ ہونے کا کوئی معنی ہی نہیں رہتا۔
یہ مقالہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی مدظلہ العالی کی تحریروں کی تلخیص ہے اور اسے موجودہ شکل میں ادارہ مطالعہ و تحقیق سے مرتب کیا ہے۔ (ادارہ)
تاریکیوں میں بھٹکنے والی انسانیت کی رہنمائی اور ہدایت کے لئے اللہ نے اپنے ایک برگزیدہ بندے کو منتخب فرمایا اور اسے انسانیت کا امام مقرر کیا۔ یہ ذمہ داری آپ ﷺ کو یکایک سونپی گئی اور آپ ﷺ اس کے کسی درجہ میں خواہش مند نہ تھے۔ یہ انتخابِ خداوندی تھا کہ آپ ﷺ کو نبوت سے سرفراز کیا گیا اور عالمگیر دعوت کی ذمہ داریاں آپ کو سونپ دی گئیں۔ آپ ﷺ کے حاشیۂ خیال میں بھی اس کا ارادہ یا خواہش تو درکنار اس کی توقع تک کبھی نہ گزری تھی، بس یکایک راہ چلتے انہی کھینچ بلایا گیا اور نبی بنا کر وہ حیرت انگیز کام ان سے لیا گیا جس کا کوئی نقش آپ ﷺ کی سابق زندگی میں نظر نہیں آتا۔ مکہ کے لوگ خود جانتے تھے کہ غارِ حرا سے جس روز آپ نبوت کا پیغام لے کر اُترے اِ سے ایک دن پہلے تک آپ ﷺ کی زندگی کیا تھی، آپ ﷺ کے مشاغل کیا تھے، آپ کی بات چیت کیا تھی، آپ ﷺ کی بات چیت کے موضوعات کیا تھے۔ آپ ﷺ کی دلچسپیاں اور سرگرمیاں کس نوعیت کی تھیں۔ یہ پوری زندگی صداقت، دیانت، امانت اور پاک بازی سے لبریز ضروری تھی۔ اس میں انتہائی شرافت، امن پسندی، پاسِ عہد، اوائے حقوق اور خدمتِ خلق کا رنگ بھی غیر معمولی شان کے ساتھ نمایاں تھا۔ مگر اس میں کوئی چیز ایسی موجود نہ تھی، جس کی بنا پر کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ خیال گزر سکتا ہو کہ یہ نیک بندہ کل نبوت کا دعویٰ لے کر اُٹھنے والا ہے۔ آپ ﷺ سے قریب ترین ربط و ضبط رکھنے والوں میں آپ ﷺ کے رشتہ داروں اور ہمسایوں اور دوستوں میں کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ آپ ﷺ پہلے سے نبی بننے کی تیاری کر رہے تھے۔ کسی نے ان مضامین اور مسائل اور موضوعات کے متعلق کبھی ایک حرف تک آپ ﷺ کی زبان سے نہ سنا جو غارِ حرا کی اس انقلابی ساعت کے بعد یکایک آپ ﷺ کی زبان پر جاری ہونے شروع ہو گئے۔ کسی نے آپ کو وہ مخصوص زبان اور وہ الفاظ اور اصطلاحات استعمال کرتے نہ سنا تھا جو اچانک قرآنِ پاک کی صورت میں لوگ آپ ﷺ سے سننے لگے۔ کبھی آپ وعظ کہنے کھڑے نہ ہوئے تھے۔ کبھی کوئی دعوت اور تحریک لے کر نہ اُٹھے تھے، بلکہ کبھی آپ ﷺ کی سرگرمی سے گمان تک نہ ہو سکتا تھا کہ آپ ﷺ اجتماعی مسائل کے حل یا مذہبی اصلاح یا اخلاقی اصلاح کے لئے کوئی کام کرنے کی فکر میں ہیں اس انقلابی سباعت سے ایک دن پہلے تک آپ ﷺ کی زندگی ایک ایسے تاجر کی زندگی نظر آتی تھی جو سیدھے سادھے جائز طریقوں سے اپنی روزی کماتا ہے۔ اپنے بال بچوں کے ساتھ رہتا ہے۔ مہمانوں کی تواضع، غریبوں کی مدد اور رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کرتا ہے اور کبھی کبھی عبادت کرنے کے لئے خلوت میں جا بیٹھتا ہے۔ ایسے شخص کا ایک عالمگیر زلزلہ ڈال دینے والی خطابت کے ساتھ اُٹھنا، ایک انقلاب انگیز دعوت شروع کر دینا، ایک نرالا لٹریچر پیدا کر دینا، ایک مستقل فلسفۂ حیات اور نظامِ فکر و اخلاق و تمدن لے کر سامنے آجانا کتنا بڑا تغیر ہے جو انسانی نفسیات کے لحاظ سے کسی بناوٹ اور تیاری اور ارادی کوشش کے نتیجہ میں قطعاً رونما نہیں ہو سکتا۔ اس لئے کہ ایسی ہر کوشش اور تیاری بہرحال تدریجی ارتقاء کے مراحل سے گزرتی ہے اور یہ مراحل ان لوگوں سے کبھی مخفی نہیں رہ سکتے جن کے درمیان آدمی شب و روز زندگی گزارتا ہو۔ اگر آنحضرت ﷺ کی زندگی ان مراحل سے گزری ہوتی تو مکہ میں سینکڑوں زبانیں یہ کہنے والی ہوتیں کہ ہم نہ کہتے تے کہ یہ شخص ایک بڑا دعویٰ لے کر اُٹھنے والا ہے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ کفار مکہ نے آپ ﷺ پر ہر طرح کے اعتراضات کیے مگر یہ اعتراض کرنے والا ان میں کوئی ایک بھی نہ تھا۔
اُتر کر حرا سے سوئے قوم آیا:
پھر یہ بات کہ آپ ﷺ خود بھی نبوت کے خواہشمند، یا اس کے لئے متوقع اور منتظر نہ تھے بلکہ پوری بے خبری کی حالت میں اچانک آپ ﷺ کو اس معاملہ سے سابقہ پڑا، اس کا ثبوت اس واقعہ سے ملتا ہے جو احادیث میں آغازِ وحی کی کیفیت کے متعلق منقول ہوا ہے، جبریلؑ سے پہلی ملاقات اور سورۂ علق کی ابتدائی آیات کے نزول کے بعد آپ ﷺ غارِ حرا سے کانپتے اور لرزتے ہوئے گھر پہنچتے ہیں، گھر والوں سے کہتے ہیں کہ ''مجھے اُڑھاؤ، مجھے اُڑھاؤ'' کچھ دیر کے بد جب خوف زدگی کی کیفیت دُور ہوتی ہے تو اپنی رفیقِ زندگی کو سارا ماجرا سنا کر کہتے ہیں کہ ''مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔'' وہ فوراً جواب دیتی ہیں۔ ''ہرگز نہیں۔ آپ ﷺ کو اللہ کبھی رنج میں نہ ڈالے گا۔ آپ تو قرابت داروں کے حق ادا کرتے ہیں، بے بس کو سہارا دیتے ہیں، بے زر کی دستگیری کرتے ہیں۔ مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں۔ ہر کارِ خیر میں مدد کے لئے تیار رہتے ہیں۔'' پھر وہ آپ ﷺ کو لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس جاتی ہیں جو ان کے چچازاد بھائی اور اہلِ کتاب میں سے ایک ذی علم اور راستباز آدمی تھے۔ وہ آپ ﷺ سے سارا واقعہ سننے کے بعد بلا تامل کہتے ہیں کہ ''یہ جو آپ ﷺ کے پاس آیا تھا۔ وحی ناموس (کارِ خاص پر مامور فرشتہ) ہے جو موسیٰؑ کے پاس آیا تھا۔ کاش میں جوان ہوتا اور اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی۔'' آپ ﷺ پوچھتے ہیں۔ ''کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟'' وہ جواب دیتے ہیں ''ہاں، کوئی شخص ایسا نہیں گزرا کہ وہ چیز لے کر آیا ہو، جو آپ لے کر آئے ہیں اور لوگ اس کے دشمن نہ ہو گئے ہوں۔''
یہ پورا واقعہ اس حالت کی تصویر پیش کر دیتا ہے جو بالکل فطری طور پر یکایک خلافِ توقع ایک انتہائی غیر معمولی تجربہ پیش آجانے سے کسی سیدھے سادھے انسان پر طاری ہو سکتی ہے۔ اگر آنحضرت ﷺ پہلے سے نبی بننے کی فکر میں ہوتے اور اپنے متعلق یہ سوچ رہے ہوتے کہ مجھ جیسے آدمی کو نبی ہونا چاہئے اور اس انتظار میں مراقبے کر کر کے اپنے ذہن پر زور ڈال رہے ہوتے کہ کب کوئی فرشتہ آتا ہے اور میرے پاس پیغام لاتا ہے تو غارِ حرا والا معاملہ پیش آتے ہی آپ ﷺ خوشی سے اچھل پڑتے اور بڑے دم دعویٰ کے ساتھ پہاڑ سے اُتر کر سیدھے اپنی قوم کے پاس پہنچتے اور اپنی نبوت کا اعلان کر دیتے۔ لیکن اس کے برعکس یہاں حالت یہ ہے کہ جو کچھ دیکھا تھا اس پر ششدر رہ جاتے ہیں۔ کانپتے اور لرزتے گھر پہنچتے ہیں۔ لحاف اوڑھ کر لیٹ جاتے ہیں۔ ذرا دل ٹھہرتا ہے تو چپکے سے بیوی کو بتاتے ہیں کہ آج غار کی تنہائی میں مجھ پر یہ حادثہ گزرا ہے، مجھے اپنی جان کی خیر نظر نہیں آتی۔ یہ کیفیت نبوت کے کسی امیدوار کی کیفیت سے کس قدر مختلف ہے؟
پھر بیوی سے بڑھ کر شوہر کی زندگی، اس کے حالات اور اس کے خیالات کو کون جان سکتا ہے، اگر ان کے تجربے میں پہلے سے یہ بات آئی ہوتی کہ میاں نبوت کے امیدوار ہیں اور ہر وقت فرشتے کے آنے کا انتظار کر رہے ہیں، تو ان کا جواب ہرگز وہ نہ ہوتا۔ جو حضرت خدیجہؓ نے دیا۔ وہ کہتیں 'میاں گھبراتے کیوں ہو، جس چیز کی مدت سے تمنا تھی وہ مل گئی، چلو اب پیری کی دکان چمکاؤ، میں بھی نذرانے سنبھالنے کی تیاری کرتی ہوں۔'' مگر وہ پندرہ برس کی رفاقت میں آپ ﷺ کی زندگی کا جو رنگ دیکھ چکی تھیں اس کی بنا پر انہیں یہ بات سمجھنے میں ایک لمحہ کی بھی دیر نہ لگی کہ ایسے نیک اور بے لوث انسان کے پاس شیطان نہیں آسکتا نہ اللہ اس کو بری آزمائش میں ڈال سکتا ہے، اس نے جو کچھ دیکھا ہے وہ سراسر حقیقت ہے۔
اور یہی معاملہ ورقہ بن نوفل کا بھی ہے۔ وہ کوئی باہر کے آدمی نہ تھے بلکہ حضور کی اپنی برادری کے آدمی تھے اور قریب کے رشتے سے برادرِ نسبتی تھے۔ پھر ایک ذی علم عیسائی ہونے کی حیثیت سے نبوت اور کتاب اور وحی کو بناوٹ اور تصنّع سے ممیّز کر سکتے تھے۔ عمر میں بڑے ہونے کی وجہ سے آپ ﷺ کی پوری زندگی بچپن سے اس وقت تک ان کے سامنے تھی۔ انہوں نے بھی آپ ﷺ کی زبانِ سے حرا کی سرگزشت سنی تو فوراً کہہ دیا کہ یہ آنے والا یقیناً وہی فرشتہ ہے جو موسیٰؑ پر وحی لاتا تھا کیونکہ یہاں بھی وہی صورت پیش آئی تھی جو حضرت موسیٰؑ کے ساتھ پیش آئی تھی کہ ایک انتہائی پاکیزہ سیرت کا سیدھا سادھا انسان بالکل خالی الذہن ہے۔ نبوت کی فکر میں رہنا تو درکنار، اس کے حصول کا تصور بھی اس کے حاشیۂ خیال میں کبھی نہیں آیا ہے اور اچاک وہ پورے ہش و حواس کی حالت میں علانیہ اس تجربے سے دو چار ہوتا ہے۔ اسی چیز نے ان کو دو اور دو چار کی طرح بلا ادنیٰ تاملّ اس نتیجہ تک پہنچا دیا کہ یہاں کوئی فریب نفس یا کوئی شیطانی کرشمہ نہیں ہے، بلکہ اس سچے انسان نے اپنے کسی ارادے اور خواہش کے بغیر جو کچھ دیکھا ہے وہ دراصل حقیقت ہی کا مشاہدہ ہے۔
یہ محمد ﷺ کی نبوت کا ایک ایسا بین ثبوت ہے کہ ایک حقیقت پسند انسان مشکل ہی سے اس کا انکار کر سکتا ہے۔ اسی لئے قرآن میں متعدد و مقامات پر اس کو دلیل نبوت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ یونسؑ میں فرمایا ہے:
''اے نبی ﷺ ان سے کہو کہ اگر اللہ نے یہ نہ چاہا ہوتا تو میں کبھی یہ قرآن تمہیں نہ سناتا۔ بلکہ اس کی خبر تک تم کو نہ دیتا۔ آخر میں اس سے پہلے ایک عمر تمہارے درمیان گزار چکا ہوں، کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے۔'' (رکوع۔۲)
اور سورۂ شوریٰ میں فرمایا:
''اے نبی ﷺ، تم جانتے تک نہ تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے مگر ہم نے اس وحی کو ایک نور بنا دیا جس سے ہم رہنمائی کرتے ہیں۔ اپنے بندوں میں سے جس کی چاہتے ہیں۔''
آغازِ دعوت:
جب آیت ﴿وَأَنذِر عَشيرَتَكَ الأَقرَبينَ ﴿٢١٤﴾... سورة الشعراء'' نازل ہوئی تو نبی ﷺ نے سب سے پہلے اپنے دادا کی اولاد کو خطاب فرمایا اور ایک ایک کو پکار کر صاف صاف کہہ دیا کہ یا بنی عبد المطلب؟ یا عباس، یا صفیتہ عمتہ رسول اللہ، یا فاطمہ بنت محمد ﷺ،«أنقذوا أنفسکم من النار فإني لا أملك لکم من اللہ شیئاً فسئلوا من ما لي ما شئتم» اے بنی عبد المطلب، اب عباس، اے صفیہ رسول اللہ کی پھوپھی، اے فاطمہ محمد ﷺ کی بیٹی تم لوگ آگ کے عذاب سے اپنے آپ کو بچانے کی فکر کر لو، میں خدا کی پکڑ سے تم کو نہیں بچا سکتا۔ البتہ میرے مال میں سے تم لوگ جو چاہو مانگ سکت ہو۔
پھر آپ ﷺ نے صبح سویرے صفا کے سب سے اونچے مقام پر کھڑے ہو کر پکارا۔ ''یا صفاحا (ہائے صبح کا خطرہ) اےقریش کے لوگو، اے بنی کعب بن لُوی، اے بنی مرہ، اے آلِ قصّی، اے بنی عبدِ مناف، اے بنی عبد الشمس، اے بنی ہاشم، اے آلِ عبد المطلب'' اس طرح قریش کے ایک ایک قبیلے اور خاندان کا نام لے لے کر آپ نے آواز دی۔
عرب میں قاعدہ تھا کہ جب صبح تڑکے کسی اچانک حملے کا خطرہ ہوتا تو جس شخص کو بھی اس کا پتہ چل جاتا وہ اسی طرح پکارنا شروع کرتا اور لوگ اس کی آواز سنتے ہی ہر طرف سے دوڑ دوڑ پڑتے۔ چنانچہ حضور ﷺ کی اس آواز پر سب لوگ گھروں سے نکل آئے اور جو خود نہ آسکا، اس نے اپنی طرف سے کسی کو خبر لانے کے لئے بھیج دیا۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا ''لوگو، اگر میں تمہیں بتاؤں کہ اس پہاڑ کے دوسری طرف ایک بھاری لشکر ہے جو تم پر ٹوٹ پڑنا چاہتا ہے تو تم میری بات سچ مانو گے؟'' سب نے کہا ہاں، ہمارے تجربے میں تم جھوٹ بولنے والے نہیں ہو۔'' آپ ﷺ نے فرمایا۔ ''اچھا تو میں خدا کا سخت عذاب آنے سے پہلے تم کو خبردار کرتا ہوں۔ اپنی جانوں کو اس کی پکڑ سے بچانے کی فکر کرو، میں خدا کے مقابلے میں تمہارے کسی کا م نہیں آسکتا۔ قیامت میں میرے رشتہ دار صرف متقی ہوں گے۔ ایسا نہ ہو کہ دوسرے لوگ نیک اعمال لے کر آئیں اور تم لوگ دنیا کا وبال سر پر اٹھائے ہوئے آؤ۔ اس وقت تم پکارو گے یا محمدﷺ، مگر میں مجبور ہوں گا کہ تمہاری طرف سے منہ پھیر لوں۔ البتہ دنیا میں میرا اور تمہارا خون کا رشتہ ہے۔ اور یہاں میں تمہارے ساتھ ہر طرح کی صلۂ رحمی کروں گا۔''
مکی زندگی کے اہم دور:
پہلا دور:
آغازِ بعثت سے لے کر اعلانِ نبوت تک تقریباً تین سال، جس میں دعوت خفیہ طریقہ سے خاص خاص آدمیوں کو دی جا رہی تھی اور عام اہلِ مکہ کو اس کا علم نہ تھا۔
دوسرا دور:
اعلانِ نبوت سے لے کر ظلم و ستم اور فتنہ کے آغاز تک تقریباً دو سال جس میں پہلے مخالفت شروع ہوئی، پھر تضحیک، استہزاء، الزامات، سب و شتم، جھوٹے پروپیگنڈا اور مخالفانہ جتھ بندی تک نوبت پہنچی اور بالآخر ان مسلمانوں پر زیادتیاں شروع ہو گئیں، جو نسبتاً زیادہ غریب اور بے یار و مددگار تھے۔
تیسرا دور:
آغازِ فتنہ (۵ نبوی) سے لے کر ابو طالب اور حضرت خدیجہؓ کی وفات (۱۰ نبوی) تک تقریباً ۵، ۶ سال، اس میں مخالفت انتہائی شدت اختیار کرتی چلی گئی۔ بہت سے مسلمان کفارِ مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آکر حبش کی طرف ہجرت کر گئے۔ نبی ﷺ اور آپ ﷺ کے خاندان اور باقی ماندہ مسلمانوں کا معاشی اور معاشرتی مقاطعہ کیا گیا اور اپنے حامیوں اور ساتھیوں سمیت شعبِ ابی طالب میں محصور کر دیئے گئے۔
چوتھا دور:
۱۰نبوی سے لے کر ۱۳ نبوی تک تقریباً ۳ سال۔ یہ نبی ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کے لئے انتہائی سختی اور مصیبت کا زمانہ تھا۔ مکہ میں آپ ﷺ کے لئے زندگی دو بھر کر دی گئی تھی۔ طائف گئے تو وہاں بھی پناہ نہ ملی۔ حج کے موقعہ پر عرب کے ایک ایک قبیلے سے آپ ﷺ اپیل کرتے رہے کہ وہ آپ ﷺ کی دعوت قبول کرے اور آپ ﷺ کا ساتھ دے مگر ہر طرف سے کورا جواب ہی ملتا رہا اور ادھر اہلِ مکہ بار بار یہ مشورہ کرتے رہے کہ آپ ﷺ کو قتل کر دیں یا قید کر دیں یا اپنی بستی سے نکال دی۔ آخر اللہ کے فضل سے انصار کے دل آپ ﷺ کے لئے کھل گئے اور ان کی دعوت پر آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔
ہجرتِ حبشہ:
قریش کے سردار جب تضحیک، استہزا، اطماع، تخویف اور جھوٹے الزامات کی تشہیر سے تحریکِ اسلامی کو دبانے میں ناکام ہو گئے تو انہوں نے ظلم و ستم، مار پیٹ اور معاشیدباؤ کے ہتھیار استعمال کرنے شروع کر دیئے۔ ہر قبیلے کے لوگوں نے اپنے اپنے قبیلے کے نو مسلموں کو طرح طرح سے ستا کر، قید کر کے، بھوک پیاس کی تکلیفیں دے دے کر حتیٰ کہ سخت جسمانی اذیتیں دے کر انہیں اسلام چھوڑنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں خصوصیت کے ساتھ غریب لوگ اور وہ غلام اور موالی جو قریش والوں کے زیردست کی حیثیت رکھتے تھے، بری طرح پیسے گئے۔ مثلاً بلالؓ، عامر بن فہیدہؓ، ام عبیسؓ، زنیرہؓ، عمار بن یاسرؓ اور ان کے والدین وغیرہم۔ ان لوگوں کو مار مار کر ادھ موا کر دیا جاتا، بھوکا پیاسا بند رکھا جاتا، مکہ کی تپتی ریت پر، چلچلاتی دھوپ میں لٹا دیا جاتا اور سینے پر بھاری پتھر رکھ کر گھنٹوں تڑپایا جاتا، جو لوگ پیشہ ور تھے۔ ان سے کام لیا جاتا اور اجرت ادا کرنے میں پریشان کیا جاتا۔ چنانچہ صحیحین میں حضرت خبابؓ بن ارت کی یہ روایت موجود ہے کہ:
'میں مکے میں لوہار کا کام کرتا تھا۔ مجھ سے عاص بن وائل نے کام لیا، پھر جب میں اس سے اجرت لینے گیا تو اس نے کہا کہ میں تیری اجرت نہ دوں گا جب تک تو محمد ﷺ کا انکار نہ کرے۔''
اسی طرح جو لوگ تجارت کرتے تھے ان کے کاروبار کو برباد کرنے کی کوششیں کی جاتیں اور جو معاشرے میں کچھ عزت کا مقام رکھتے تھے انہیں ہر طریقہ سے ذلیل و رسوا کیا جاتا۔ اسی زمانے کا حال بیان کرتے تھے۔
حضرت خبابؓ کہتے ہیں کہ ایک روز نبی ﷺ کعبے کے سائے میں تشریف فرما تھے۔ میں نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا ' یا رسول اللہ اب تو ظلم کی حد ہو گئی ہے آپ ﷺ خدا سے دعا نہیں فرماتے یہ سن کر آپ ﷺ کا چہرہ تمتما اُٹھا اور آپ نے فرمایا:''تم سے پہلے جو اہلِ ایمان تھے ان پر اس سے زیادہ مظالم ہو چکے ہیں۔ ان کی ہڈیوں پر لوہے کی کنگھیاں گھسی جاتی تھیں۔ ان کے سروں پر رکھ کر آرے چلائے جاتے تھے، پھر بھی وہ اپنے دین سے نہ پھرتے تھے۔ یقین جانو کہ اللہ اس کام کو پورا کر کے رہے گا۔ یہاں تک کہ وہ وقت آئے گا کہ ایک آدمی صنعا سے حضرت موت تک بے کھٹکے سفر کرے گا اور اللہ کے سوا اس کو کسی کا خوف نہ ہو گا۔ مگر تم لوگ جلد بازی کرتے ہو۔'' (بخاری)
یہ حالات جب ناقابلِ برداشت حد کو پہنچ گئے تو (رجب ۴۵ عام الفیل ۵ نبوی) حضور ﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ: ''اچھا ہو کہ تم لوگ نکل کر حبش چلے جاؤ۔ وہاں ایک ایسا بادشاہ ہے جس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا اور وہ بھلائی کی سرزمین ہے۔ جب تک اللہ تمہاری اس مصیبت کو رفع کرنے کی کوئی صورت پیدا کرے تو لوگ وہاں ٹھہرے رہو۔''
اس ارشاد کی بنا پر پہلے گیارہ مردوں اور چار خواتین نے حبش کی راہ لی۔ قریش کے لوگوں نے ساحل تک ان کا پیچھا کیا مگر خوش قسمتی سے شعیبیہ کی بندرگاہ پر ان کو بروقت کشتی مل گئی اور وہ گرفتار ہونے سے بچ گئے۔
پھر چند مہینوں کے اندر مزید لوگوں نے ہجرت کی۔ یہاں تک کہ ۸۳ مرد، گیارہ عورتیں اور غیر قریشی مسلمان حبش میں جمع ہو گئے اور مکے میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ صرف ۴۰ آدمی رہ گئے۔
ردِ عمل:
اس ہجرت سے مکے کے گھر گھر میں کہرام مچ گیا۔ کیونکہ قریش کے بڑے اور چھوٹے خاندانوں میں سے کوئی ایسا نہ تھا جس کے چشم و چراغ ان مہاجرین میں شامل نہ ہوں، کسی کا بیٹا گیا تو کسی کا داماد، کسی کی بیٹی گئی تو کسی کا بھائی اور کسی کی بہن۔ ابو جہل کے بھائی سلمےٰ بن ہشام اس کے چچازاد بھائی ہشام بن ابی حذیفہ اور عیاش بن ابی ربیعہ، اور اس کی چچا زاد بہن حضرت ام سلمیٰ، ابو سفیان کی بیٹی ام حبیبہ، عتبہ کے بیٹے اور ہندۂ جگر خور کے سگے بھائی ابو حذیفہ، سہیل بن عمرو کی بیٹی سہلہ اور اسی طرح دوسرے سردارانِ قریش اور مشہور شمنانِ اسلام کے اپنے جگر گوشے دین کی خاطر گھر بار چھوڑ کر نکل کھڑے ہوے تھے۔
اسی لئے کوئی گھر نہ تھا جو اس واقعہ سے متاثر نہ ہوا ہو۔ بض لوگ اس کی وجہ سے اسلام دشمنی میں سخت ہو گئے اور بعض کے دلوں میں اس کا ایسا اثر ہوا کہ آخر کار وہ مسلمان ہو کر رہے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کی اسلام دشمنی پر سب سے پہلی چوٹ اسی واقعہ سے لگی۔ ان کی ایک قریبی عزیزہ لیلیٰ بنت ابی حشمہ بیان کرتی ہیں کہ میں ہجرت کے لئے سامان باندھ رہی تھی اور میرے شوہر عامر بن ربیعہ کام سے باہر گئے ہوئے تھے۔ اتنے میں عمرؓ آئے اور میری مشغولیت دیکھتے رہے، کچھ دیر کے بعد کہنے لگے ''عبد اللہ کی ماں جا رہی ہو؟'' میں نے کہا ''ہاں! خدا کی قسم تم لوگوں نے ہمیں بہت ستایا ہے۔ خدا کی زمین بڑی کھلی پڑی ہے۔ اب ہم کسی ایسی جگہ چلے جائیں گے جہاں خدا ہمیں چین دے۔'' یہ سن کر عمرؓ کے چہرے پر رقّت کے ایسے آثار طاری ہوئے جو میں نے کبھی ان پر نہ دیکھے تھے اور بس یہ کہہ کر نکل گئے کہ 'خدا تمہارے ساتھ ہو۔'
ہجرت کے بعد قریش کے سردار سر جوڑ کر بیٹھے اور انہوں نے عبد اللہ بن ابی ربیعہ (ابو جہل کے ماں جائے بھائی) اور عمرو بن العاص کو بہت سے قیمتی تحائف کے ساتھ حبش بھیجا تاکہ یہ لوگ کسی نہ کسی طرح نجاشی کو اس بات پر راضی کریں کہ وہ ان مہاجرین کو مکہ واپس بھیج دے۔ اُمُ المومنین حضرت اُمِ سلمیٰؓ جو خود مہاجرینِ حبشہ میں شامل تھیں) یہ واقعہ بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ قریش کے یہ دونوں ماہرِ سیاسیات سفیر ہمارے تعاقب میں حبش پہنچے۔ پہلے انہوں نے نجاشی کے اعیانِ سلطنت میں خود ہیرے تقسیم کیے۔ سب کو اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ مہاجرینِ مکہ کو واپس کرنے کے لئے نجاشی پر بالاتفاق زور دیں گے۔ پھر نجاشی سے ملے اور اسے بیش قیمت نذرانے دینے کے بعد کہا کہ ''ہمارے شہر کے چند نادان لونڈے بھاگ کر آپ کے ہاں آگئے ہیں اور قوم کے اشراف نے ہمیں آپ کے پاس ان کی واپسی کی درخواست کرنے کے لئے بھیجا ہے یہ لڑکے ہمارے دن سے نکل گئے ہیں اور آپ کے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے ہیں بلکہ انہوں نے ایک نرالا دین نکال لیا ہے۔' ان کا کلام ختم ہوتے ہی درباری ہر طرف سے بولنے لگے کہ ایسے لوگوں کو ضرور واپس کر دینا چاہئے ان کی قوم کے لوگ زیادہ جانتے ہیں کہ ان میں عیب کیا ہے۔ْانہیں رکھنا ٹھیک نہیں ہے۔ مگر نجاشی نے بگڑ کر کہا کہ 'اس طرح تو میں انہیں حوالے نہیں کروں گا، جن لوگوں نے دوسرے ملکوں کو چھوڑ کر میرے ملک پر اعتماد کیا اور یہاں پناہ لینے کے لئے آئے۔ اُن سے بے وفائی نہیں کر سکتا۔ پہلے میں انہیں بلا کر تحقیق کروں گا کہ یہ لوگ ان کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے۔'' چنانچہ نجاشی نے اصحابِ رسول اللہ ۔ﷺ کو اپنے دربار میں بلا بھیجا۔
نجاشی کے دربار میں:
نجاشی کا پیغام پا کر سب مہاجرین یکجا ہوئے اور انہوں نے باہم مشورہ کیا کہ بادشاہ کے سامنے کیا کہنا ہے۔ آخر سب نے بالاتفاق یہ فیصلہ کیا کہ نبی ﷺ نے جو تعلیم ہمیں دی ہے ہم تو وہی بے کم و کاست پیش کریں گے۔ خواہ نجاشی ہمیں نکال دے یا رکھے۔ دربار میں پہنچے تو چھوٹتے ہی نجاشی نے سوال کیا کہ ''تم لوگوں نے کیا کیا کہ اپنی قوم کا دین بھی چھوڑا اور میرے دین میں بھی داخل نہ ہوئے نہ دنیا کے دوسرے ادیان ہی میں سے کسی کو اختیار کیا؟ آخر یہ تمہارا اپنا دین ہے کیا؟'' اس پر مہاجرین کی طرف سے جعفرؓ بن ابی طالب نے ایک برجستہ تقریر کی جس میں عرب کی دینی، اخلاقی و معاشرتی خرابیوں کو بیان کیا پھر نبی ﷺ کی بعثت کا ذکر کر کے بتایا کہ آپ کیا تعلیمات پیش فرماتے ہیں، پھر ان مظالم کا ذِکر کیا جو آنحضور ﷺ کی پیروی کرنے والوں پر قریش کے لوگ ڈھا رہے ہیں۔ اور اپنا کلام اس بات پر ختم کیا کہ دوسرے ملکوں کی بجائے ہم نے آپ کے ملک کا رُخ اس امید پر کیا ہے کہ یہاں ہم پر ظلم نہ ہو گا۔''
نجاشی نے تقریر سن کر کہا کہ ذرا مجھے وہ کلام سناؤ، جو تم کہتے ہو کہ خدا کی طرف سے تمہارے نبی پر اُترا ہے۔ حضرت جعفرؓ نے جواب میں سورہ مریم کا وہ ابتدائی حصہ سنایا جو حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام سے متعلق ہے۔ نجاشی اس کو سنتا رہا او روتا رہا۔ یہاں تک کہ اس کی داڑھی تر ہو گئی۔ جب حضرت جعفرؓ نے تلاوت ختم کی تو اس نے کہا۔ 'یقیناً یہ کلام اور جو کچھ عیسیٰ علیہالسلام لائے تھے دونوں ایک ہی سر چشمے سے نکلے ہیں۔ خدا کی قسم میں تمہیں ان لوگوں کے حوالے نہیں کروں گا۔'
دوسرے روز عمرو بن العاص نے نجاشی سے کہا کہ ذرا ان لوگوں کو بلا کر یہ تو پوچھیے کہ عیسیٰؑ بن مریمؑ کے بارے میں ان کا عقیدہ کیا ہے' یہ لوگ ان کے متعلق ایک بری بات کہتے ہیں۔ نجاشی نے پھر مہاجرین کو بلا بھیجا۔ مہاجرین کو پہلے عمرو کی چال کا علم ہو چکا تھا۔ انہوں نے جمع ہو کر پھر مشورہ کیا کہ اگر نجاشی نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا تو کیا جواب دو گے؟ موقع بڑا نازک تھا اور سب پریشان تھے مگر پھر اصحابِ رسول اللہ ﷺ نے یہی فیصلہ کیا کہ جو کچھ ہوتا ہے ہو جائے ہم تو وہی بات کہیں گے جو اللہ نے فرمائی اور اللہ کے رسول ﷺ نے سکھائی۔ چنانچہ جب یہ لوگ دربار میں گئے تو نجاشی نے عمرو بن العاص کا پیش کردہ سوال اُن کے سامنے دوہرایا تو جعفر بن ابی طالب نے اٹھ کر بلا تامّل کہا کہ ''ھُوَ عَبْدُ اللهِ ورسوله وروحه وكلمته ألقاھا إلٰى مريم العذرا البتول''''وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس کی طرف سے ایک روح اور ایک کلمہ ہیں جسے اللہ نے کنواری مریم پر القا کیا۔'' نجاشی نے سن کر ایک تنکا زمین سے اُٹھایا اور کہا 'خدا کی قسم جو کچھ تم کہتے ہو عیسیٰؑ اس سے ایک تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں تھے۔' اس کے بعد نجاشی نے قریش کے بھیجے ہوئے تمام ہدیے یہ کہہ کر واپس کر دیئے کہ میں رشوت نہیں لیتا اور مہاجرین سے کہا کہ تم بالکل اطمینان سے رہو۔
ہے ترکِ وطن سنتِ محبوبِ الٰہی ﷺ:
مخالفینِ دعوت کی طرف سے مزاحمت پوری شدت اختیار کر چکی ہے۔ وہ نبی اور پیروانِ نبی کو اپنے درمیان برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ان سے اب یہ امید باقی نہیں رہی ہے کہ تفہیم و تلقین سے راہِ راست پر آجائیں گے اب انہیں انجام سے خبر دار کرنے کا موقع آگیا ہے جو نبیؑ کو آخری اور قطعی طور پر رد کر دینے کی صورت میں انہیں لازماً دیکھنا ہو گا۔
اس انجام کا آغاز ہجرت سے ہوا۔ جس میں نبی ؑ نے اس زمین کو چھوڑ دیا، جو دعوتِ حق کے لئے بنجر ہو گئی تھی اور پھر آٹھ سال بعد اس میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے۔
مکی دور کے آخری تین چار سالوں میں یثرب میں اسلام کی شعاعیں مسلسل پہنچ رہی تھیں اور وہاں کے لوگ متعدد وجوہ سے عرب کے دوسرے قبیلوں کی بہ نسبت زیادہ آسانی کے ساتھ اس روشنی کو قبول کرتے جا رہے تھے۔ آخر کار نبوت کے بارہویں سال حج کے موقع پر ۷۵ نفوس کا ایک وفد نبی ﷺ سے رات کی تاریکی میں ملا اور اس نے نہ صرف یہ کہ اسلام قبول کیا بلکہ آپ ﷺ اور آپﷺ کے پیرووں کو اپنے شہر میں جگہ دینے پر بھی آمادگی ظاہر کی۔ یہ اسلام کی تاریخ میں ایک انقلابی موقع تھا، جسے خدا نے اپنی عنایت سے فراہم کیا اور نبی ﷺ نے ہات بڑھا کر پکڑ لیا۔ اہلِ یثرب نبی ﷺ کو محض ایک پناہ گزین کی حیثیت سے نہیں بلکہ خدا کے نائب اور اپنے امام و فرمانروا کی حیثیت سے بلا رہے تھے اور اسلام کے پیروؤں کو ان کا بلاوا اس لئے نہ تھا کہ وہ ایک اجنبی سرزمین میں محض مہاجر ہونے کی حیثیت سے جگہ پا لیں بلکہ مقصد یہ تھا کہ عرب کے مختلف قبائل اور خطوں میں جو مسلمان منتشر ہیں۔ وہ یثرب میں جمع ہو کر اور یثربی مسلمانوں سے مل کر ایک منظم معاشرہ بنا لیں۔ اس طرح یثرب نے دراصل خود اپنے آپ کو مدینۃ الاسلام کی حیثیت سے پیش کیا اور نبی ﷺ نے اسے قبول کر کے عرب میں پہلا دار السلام بنا لیا۔
عرب کو چیلنج:
اس پیش کش کے معنی جو کچھ تھے اس سے اہلِ مدینہ ناواقف نہ تھے۔ اس کے صاف معنی یہ تھے کہ ایک چھوٹا سا قصبہ اپنے آپ کو پورے ملک کی تلواروں اور معاشی و تمدنی بائیکاٹ کے مقابلہ میں پیش کر رہا تھا۔ چنانچہ بیعتِ عقبہ کے موقع پر رات کی اس مجلس میں اسلام کے ان مددگاروں (انصار) نے اس نتیجہ کو خوب اچھی طرح جان بوجھ کر نبی ﷺ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا تھا۔ عین اس وقت جب کہ بیعت ہو رہی تھی یثربی وفد کے ایک نوجوان رکن اسد بن زرارہؓ نے جو پورے وفد میں سب سے کم سن شخص تھا اُٹھ کر کہا:
'ٹھہرو اے اہل یثرب! ہم لوگ ان کے پاس آئے ہیں تو یہ سمجھتے ہوئے آئے ہیں کہ یہ اللہ کے رسول ﷺ ہیں اور انہیں یہاں سے نکال کر لے جانا عرب سے دشمنی مول لینا ہے اس کے نتیجہ میں تمہارے نونہال قتل ہوں گے اور تلواریں تم پر برسیں گی۔ لہٰذا اگر تم اس کو برداشت کرنے کی طاقت اپنے اندر پاتے ہو تو ان کا ہاتھ پکڑو اور اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے اور اگر تمہیں اپنی جانیں عزیز ہیں تو پھر چھوڑ دو اور صاف صاف عذر کر دو۔ کیونکہ اس وقت عذر کر دینا خدا کے نزدیک زیادہ قابلِ قبول ہو سکتا ہے۔''
اس بات کو وفد کے ایک دوسرے شخص عباس بن عبادہ بن نضلہ نے دہرایا:
''جانتے ہو اس شخص سے کس چیز پر بیعت کر رہے ہو؟'' (آوازیں) ''ہاں ہم جانتے ہیں'' ''تم اس کے ہاتھ پر بیعت کر کے دنیا بھر سے لڑائی مول لے رہے ہو۔ پس اگر تمہارا خیال یہ ہو کہ جب تمہارا مال تباہی کے اور تمہارے اشراف ہلاکت کے خطرے میں پڑ جائیں تو تم اسے دشمنوں کے حوالے کر دو گے تو بہتر ہے آج ہی اسے چھوڑ دو۔ کیونکہ خدا کی قسم یہ دنیا اور آخرت کی رسوائی ہے اور اگر تمہارا ارادہ یہ ہے کہ جو بلاوا تم اس شخص کو دے رہے ہو اس کو اپنے اموال کی تباہی اور اپنے اشراف کی ہلاکت کے باوجود تباہ کر سکو گے تو بیشک اس کا ہاتھ تھام لو کہ خدا کی قسم یہ دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔''
اس پر تمام وفد نے بالاتفاق کہا (ترجمہ) ''ہم اسے لے کر اپنے اموال کی تباہی اور اپنے اشراف کو ہلاکت میں ڈالنے کے لئے تیار ہیں۔'' تب وہ مشہور بیعت واقع ہوئی جسے تاریخ میں بیعتِ عقبہ ثانیہ کہتے ہیں۔
قریش کے لئے ہجرت کے نتائج:
دوسری طرف اہلِ مکہ کے لئے یہ معاملہ، جو معنی رکھتا تھا۔ وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہ تھا۔ دراصل اس طرح محمد ﷺ کو جن کی زبردست شخصیت اور غیر معمولی قابلیت سے قریش کے لوگ واقف ہو چکے تھے، ایک ٹھکانا میسر آرہا تھا اور ان کی قیادت و رہنمائی میں پیروانِ اسلام، جن کی عزیمت و استقامات اور فدائیت کو بھی قریش ایک حد تک آزما چکے تھے، ایک منظم جتھے کی صورت میں جمع ہوئے جاتے تھے۔ یہ پرانے نظام کے لئے موت کا پیغام تھا۔ نیز مدینہ جیسے مقام پر مسلمانوں کی اس طاقت کو مجتمع ہوتے دیکھ کر قریش کو مزید خطرہ یہ تھا کہ یمن سے شام کی طرف جو تجارتی شاہراہ ساحلِ بحرِ احمر کے کنارے کنارے جاتی تھی اور جس کے محفوظ رہنے پر قریش اور دوسرے بڑے بڑے مشرک قبائل کی معاشی زندگی کا انحصار تھا وہ مسلمانوں کی زد میں آجاتی تھی اور اس شہ رگ پر ہاتھ ڈال کر مسلمان نظامِ جاہلی کی زندگی دشوار کر سکتے تھے۔ صرف اہلِ مکہ کی وہ تجارت جو اس شاہ راہ کے بل پر چلتی تھی، ڈھائی لاکھ اشرفی سالانہ تک پہنچتی تھی۔ طائف اور دوسرے مقامات کی تجارت اس کے ما سوا تھی۔ قریش ان نتائج کو خوب سمجھتے تھے۔ جس رات بیعتِ عقبہ واقع ہوئی اسی رات اس معاملہ کی بھنک اہلِ مکہ کے کانوں میں پڑی اور پڑتے ہی کھلبلی مچ گئی۔ پہلے تو انہوں نے اہلِ مدینہ کو نبی ﷺ سے توڑنے کی کوشش کی۔ پھر جب مسلمان ایک ایک دو و کر کے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے لگ تو قریش کو یقین ہو گیا کہ اب محمد ﷺ بھی وہاں منتقل ہو جائیں گے۔ اور وہ اس خطرے کو روکنے کے لئے آخری چارۂ کار اختیار کرنے پر آمادہ ہو گئے۔
قتل کا منصوبہ:
یہ اس موقعے کا ذِکر ہے جب کہ قریش کا یہ اندیشہ یقین کی حد کو پہنچ چکا تھا کہ اب محمد ﷺ بھی مدینے چلے جائیں گے۔ اس وقت وہ آپس میں کہنے لگے کہ اگر یہ شخص مکہ سے نکل گیا تو پھر خطرہ ہمارے قابو سے باہر ہو جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے آپ ﷺ کے معاملہ میں آخری فیصلہ کرنے کے لئے دار النّدوہ میں تمام رؤسائے قوم کا ایک اجتماع کیا اور اس پر باہم مشاورت کی کہ اس خطرے کا سدِّ باب کس طرح کیا جائے۔ ایک فریق کی رائے یہ تھی کہ اس شخص کو بیڑیاں پہنا کر ایک جگہ قید کر دیا جائے اور جیتے جی رہا نہ کیا جائے، لیکن اس رائے کو قبول نہ کیا گیا۔ کیونکہ کہنے والوں نے کہا کہ اگر ہم نے اسے قید کر دیا تو اس کے ساتھی قید خانے سے باہر ہوں گے وہ برابر اپنا کام کرتے رہیں گے اور جب ذرا بھی قوت پکڑ لیں گے تو اسے چھڑانے کے لئے جان کی بازی لگانے میں بھی دریغ نہیں کریں گے۔ دوسرے فریق کی رائے یہ تھی کہ اسے اپنے ہاں سے نکال دو پھر جب یہ ہمارے درمیان نہ رہے تو ہمیں اسے سے کچھ بحث نہیں کہ کہاں رہتا ہے اور کیا کرتا ہے۔ بہرحال اس کے وجود سے ہمارے نظامِ زندگی میں خلل پڑنا تو بند ہو جائے گا۔ لیکن اسے بھی یہ کہہ کر رد کر دیا گیا کہ یہ شخص جادو بیان آدمی ہے۔ دلوں کو موہ لینے میں اسے بلا کا کمال حاصل ہے۔ اگر یہ یہاں سے نکل گیا تو نامعلوم عرب کے کن کن قبیلوں کو اپنا پیرو بنا لے گا اور پھر کتنی قوت حاصل کر کے قلبِ عرب کو اپنے اقتدار میں لانے کے لئے حملہ آور ہو گا۔ آخر کار ابو جہل نے یہ رائے پیش کی کہ ہم اپنے تمام قبیلوں میں سے ایک ایک عالی نسب تیز دست جوان منتخب کریں اور یہ سب مل کر یکبارگی محمد ﷺ پر ٹوٹ پڑیں اور اسے قتل کر دیں۔ اس طرح محمد ﷺ کا خون تمام قبیلوں پر تقسیم ہو جائے گا اور بنی عبد مناف کے لئے ناممکن ہو جائے گا کہ یہ سب سے لڑ سکیں۔ اس لئے مجبوراً خوں بہا پر فیصلہ کرنے کے لئے راضی ہو جائیں گے۔ اس رائے کو سب نے پسند کیا۔ قتل کے لئے آدمی بھی نامزد ہو گئے اور قتل کا وقت بھی مقرر کر دیا گیا۔ حتیٰ کہ جو رات اس کام کے لئے تجویز کی گئی تھی اس میں ٹھیک وقت پر قاتلوں کا گروہ اپنی ڈیوٹی پر پہنچ بھی گیا لیکن۔۔۔
ہجرت:
آپ ﷺ عین اس وقت رات کو، جو قتل کے لئے مقرر کی گئی تھی، مکہ سے نکل کر مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد دو دو چار چار کر کے پہلے ہی مدینہ میں جا چکی تھی۔ مکہ میں صرف وہی مسلمان رہ گئے تھے جو بالکل بے بس تھے یا جو صرف دل میں ایمان چھپائے ہوئے تھے اور ان پر کوئی بھروسہ نہ کیا جا سکتا تھا۔ اس حالت میں جب آپ ﷺ کو معلوم ہوا کہ آپ کو قتل کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے تو آپ ﷺ صرف ایک رفیق حضرت ابو بکرؓ کو ساتھ لے کر مکہ سے نکلے اور اس خیال سے کہ آپ ﷺ کا تعاقب ضرور کیا جائے گا۔ آپ ﷺ نے مدینہ کی راہ چھوڑ کر جو شمال کی جانب تھی، جنوب کی راہ اختیار کی۔ یہاں تین دن تک آپ ﷺ غارِ ثور میں چھپے رہے۔ خون کے پیاسے دشمن آپ ﷺ کو ہر طرف ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ اطرافِ مکہ کی وادیوں کا کوئی گوشہ انہوں نے نہ چھوڑا جہاں آپ ﷺ کو تلاش نہ کیا ہو۔ اسی سلسلہ میں ایک مرتبہ ان میں سے چند لوگ عین اس غار کے دہانے پر بھی پہنچ گئے جس میں آپ ﷺ چھپے ہوئے تھے۔ حضرت ابو بکرؓ کو سخت خوف لاحق ہوا کہ اگر ان لوگوں میں سے کسی نے ذرا آگے بڑھ کر جھانک لیا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا۔ لیکن نبی ﷺ کے اطمینان میں ذرا فرق نہ آیا اور آپ ﷺ نے ابو بکرؓ کو یہ کہہ کر تسکین دی کہ 'غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔'
ہجرت مسلمانوں کا شعار ہے اور خداوند تعالیٰ کی جانب سے اپنے ماننے والوں کی صداقت اور عزم و ہمت جانچنے کا طریقہ۔ جب نبی ﷺ نے مدینہ ہجرت فرمائی تو سب مسلمان آہستہ آہستہ مکہ چھوڑ کر مدینہ آئے اس مرحلہ پر مومنین کو جس سخت آزمائش سے گزرنا پڑا اور اس آزمائش سے جس جرأت و ہمت سے وہ گزر گئے وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔
جس ظلم کے ساتھ یہ لوگ نکالے گئے اس کا اندازہ کرنے کے لئے ذیل کے چند واقعات ملاحظہ ہوں۔
حضرت صہیبؓ رومی جب ہجرت کرنے لگے تو کفارِ قریش نے ان سے کہا کہ تم یہاں خالی ہاتھ آئے تھے اور اب خوب مالدار ہ گئے ہو۔ تم جانا چاہو تو خالی ہاتھ ہی جا سکتے ہو، اپنا مال نہیں لے جا سکتے۔ حالانکہ انہوں نے جو کچھ کمایا تھا اپنے ہاتھ کی محنت سے کمایا تھا۔ کسی کا دیا نہیں کھاتے تھے۔ آخر وہ غریب دامن جھاڑ کر کھڑے ہو گئے اور سب کچھ ظالموں کے حوالے کر کے اس حال میں مدینے پہنچے کہ تن کے کپڑوں کے سوا ان کے پاس کچھ نہ تھا۔
حضرت اُمِ سلمہؓ اور ان کے شوہر ابو سلمہؓ اپنے دودھ پیت بچے کو لے کر ہجرت کے لئے نکلے۔ بنی مغیرہ ام سلمہ کے خاندان) نے راستہ روک لیا اور ابو سلمہ سے کہا کہ تمہارا جہاں جی چاہے پھرتے رہو مگر ہماری لڑکی لے کر نہیں جا سکتے۔ مجبوراً بیچارے بیوی کو چھوڑ کر چلے گئے پھر بنی عبد الاسد (ابو سلمہؓ کے خاندان والے) آگے بڑھے اور انہوں نے کہا کہ بچہ ہمارے قبیلہ کا ہے، اس ہمارے حوالے کرو اس طرح بچہ بھی ماں اور باپ دونوں سے چھین لیا گیا۔ تقریباً ایک سال تک حضرت ام سلمہؓ بچے اور شوہر کے غم میں تڑپتی رہیں اور آخر بڑی مصیبت سے بچے کو حاصل کر کے مکہ سے اس حال میں نکلیں کہ اکیلی عورت گود میں بچہ لئے اونٹ پر سوار تھی اور ان راستوں پر جا رہی تھی جن سے مسلح قافلے بھی گزرتے ہوئے ڈرتے تھے۔
عیاشؓ بن ربیعہ ابو جہل کے ماں جائے بھائی تھے۔ حضرت عمرؓ کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ پہنچ گے۔ پیچھے پیچھے ابو جہل اپنے ایک بھائی کو ساتھ لے کر جا پہنچا اور بات بنائی کہ اماں جان نے قسم کھا لی ہے کہ جب تک عیاش کی شکل نہ دیکھ لوں گی نہ دھوپ سے سائے میں جاؤں گی اور نہ سر میں کنگھی کروں گی۔ اس لئے تم بس چل کر انہیں صورت دکھا دو، پھر واپس آجانا۔ وہ بے چارے ماں کی محبت میں ساتھ ہو لیے۔ راستے میں دونوں بھائیوں نے ان کو قید کر لیا اور مکے میں انہیں لے کر اس طرح داخل ہوئے کہ وہ رسیوں میں جکڑے ہوئے تھے اور دونوں بھائی پکارے جا رہے تھے کہ 'اے اہلِ مکہ! اپنے ان نالائق لونڈوں کو یوں سیدھا کرو، جس طرح ہم نے کیا ہے۔'' کافی مدت یہ بیچارے قید رہے اور آخر کار ایک جانباز مسلمان انہیں نکال لانے میں کامیاب ہوا۔
مسلمانوں کا یہ عمل اس بے مثال اخلاقی تربیت کا براہِ راست نتیجہ تھا جو مکی زندگی کے پورے دور میں قرآن کی راہنمائی میں نبی کریم ﷺ نے ان کو دی۔ ان کو بایا گیا تھا کہ ہجرت کرنے میں فکرِ جان کی طرح فکر روزگار کےلئے بھی پریشان نہ ہونا چاہئے۔ آخر یہ بے شمار چرند و پرند اور آبی حیوانات جو تمہاری آنکھوں کے سامنے ہوا، خشکی اور پانی میں پھر رہے ہیں، ان میں سے کون اپنا رزق اُٹھائے پھرتا ہے، اللہ ہی تو ان سب کو پال رہا ہے، جہاں جاتے ہو اللہ کے فضل سے کسی نہ کسی طرح رزق مل ہی جاتا ہے۔ لہٰذا تم یہ سوچ کر ہمت نہ ہارو کہ اگر ایمان کی خاطر گھر بار چھوڑ کر نکل گئے تو کھائیں گے کہاں سے۔ اللہ جہاں سے اپنی جاندار مخلوق کو رزق دے رہا ہے، تمہیں بھی دے گا۔ ٹھیک یہی بات ہے جو سیدنا مسیح علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے فرمائی تھی۔ انہوں نے فرمایا:
''کوئی آدمی دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سکتا کیونکہ یا تو ایک سے عداوت رکھے گا اور دوسرے سے محبت یا ایک سے ملا رہے گا اور دوسرے کو ناچیز جانے لگا۔ تم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کر سکتے۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے اور نہ اپنے بدن کی کہ کیا پہنیں گے۔ کیا جان، خوراک سے اور بدن، پوشاک سے بڑھ کر نہیں؟''