فہرست مضامین

تبصرۂ کتب

نام کتاب۔"الصحیفہ الصححہ " موسوم بہ صحیفہ ھمام بن منبہؒ

مولفہ:حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ

زمانہ تالیف:58ہجری۔

دریافت واشاعت مع دیباچہ اور حواشی مشہور محقق ومتبحر عالم عصر ڈاکٹر محمد حمید اللہ،ناشر وطابع ثانی مع اضافی دیباچہ غلام احمد حریری،ملک سنز کارخانہ بازار۔فیصل آباد۔

تبصرہ سے پہلے:۔

عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ 58ہجری میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے جلیل القدر محدث نے اپنے ہم وطن شاگرد"ھمام بن منبہ" کے لئے الصحیفۃ الصحیہ موسوم بہ"صحیفہ ھمام بن منبہ"مختصر کتاب تالیف فرمائی۔جس سے متعارف ہونے کے بعد میرا فوری رد عمل یہ تھاکہ سب سے پہلے میرے دل ودماغ اقبال مرحوم کے دو شعر گونجے۔

حکومت کاتو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
دنیا دنیا کے آئین مسلم سے کوئی چارا
مگر وہ علم کے موتی،کتابیں اپنے آبادء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا


احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم جو قرآن حکیم کے بعد اسلامی د ستور حیات کا دوسرا مصدر ماخذ ہیں۔احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم جو قرآن مجید کے عنداللہ مفہوم کو سمجھنے کےلئے جزو لانیفک ہیں۔احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم جو ہماری دنیا وآخرت کی خیر وفلاح کی اساس ہیں۔احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ گراں قدر سرمایہ جسے بڑی مشقتیں اورمصیبتیں جھیل کر صحابہ کرامرضوان اللہ عنھم اجمعین نے ہمارے سپرد کیاتھا۔ان احادیث پر مشتمل مختصر مجموعہ صحیفہ ھمام بن منبہ غیر مسلم ملک جرمنی کی "برلن لائبریری" سے دریافت ہوا۔

جو ہمارے لئے اسلاف کی سونپی ہوئی اس عظیم امانت کی حفاظت میں انتہائی شرمناک حد تک تساہل برتنے پر تازیانہ عبرت ہے۔اور اللہ عزوجل کی عظمت وقدرت کا مظہر بھی۔وہ اپنے دین اسلام کے ماخذ قرآن حکیم اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت غیر مسلموں سے بھی کرواسکتا ہ ے۔

اہمیت و عظمت :۔

احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مشتمل اس مختصر سی کتاب کی اہمیت وعظمت کا اس سے بڑھ کرکیا ثبوت ہوسکتاہے کہ اس کے مولف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ ہیں۔جنھیں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر اور حضر میں رفاقت نصیب ہوئی۔مسجد نبوی میں اصحاب صفہ جن کا مسکن ٹھہرا۔کثرت مرویات میں جن کو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین پر برتری حاصل ہوئی آپ 5374احادیث کے مروی ہیں۔صرف صحیح بخاری میں ان کی روایت کردہ احادیث کی تعداد چار سو چھیالیس (446) ہے۔

ھمام بن منبہ انہیں کے تلامذہ میں سے تھے۔انہوں نے بھی ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ،ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کافی حدیثیں روایت کی ہیں۔

ابن حبان نے بھی اس کا تذکرہ اپنی کتاب الثقات میں کیا ہے۔

انہوں نے ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک سو چالیس حدیثیں روایت کیں،جو سب ایک ہی سند سے مروی ہیں۔

عہد رسالت میں تدوین حدیث کا ایک دستاویزی ثبوت:۔

عہد حاضر میں ایک گروہ بڑی شد و مد کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہےکہ احادیث کی تدوین وتحفیظ کا سلسلہ عہد رسالت میں سلسلہ ہی مفقود تھا۔اس کاآغاذ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تیسری اورچوتھی صدی میں ہوا۔یہ کتاب ان کی ا س فکری گمراہی کو فنا کا پیغام دیتے ہوئے اس حقیقت کا دستاویزی ثبوت ہے۔کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی احادیث کی تدوین کا سلسلہ جاری ہوچکا تھا۔چنانچہ زیر تبصرہ کتاب صحیفہ ھمام بن منبہ میں شامل ہر حدیث نہ صرف صحاح ستہ میں ابو ھریرۃ کے حوالے سے ملتی ہے۔بلکہ مماثل مفہوم دوسرے صحابہ سے بھی ان کتابوں میں تقابلی جائزہ سے ملتا ہے۔

غلام احمد حریری مرحوم کا اضافی دیباچہ:۔

اس عظیم کتاب صحیفہ ھمام بن منبہ کی دوسری اشاعت میں مرحوم غلام احمد حریری کا بہت ہی عالمانہ تبصرہ شامل ہے۔منکرین حدیث کے لئے اس صحیفہ کو اصلاح فکر کی شفا بخش پیغام قرار دیا گیا ہے۔ڈاکٹرحمید اللہ صاحب کی اس گراں قدر دریافت کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔لیکن موصوف کے ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں اظہار کردہ اس خیال پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ"موصوف کایہ کہنا کہ ابو ھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بحیثیت فقیہ اعلیٰ مقام حاصل نہیں تھا۔"

مرحوم غلام احمد نے ان کے خیال پر انتہائی عالمانہ تنقید کرتےہوئے ثابت کیا ہے کہ ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بحیثیت فقیہ دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے کسی طرح درجہ کم نہ تھا۔

محترم ڈاکٹرحمید اللہ کا دیباچہ اور حواشی:۔

محترم ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے اصل صحیفہ ھمام بن منبہ ؒ کے آغاذ سے پہلے جن حقائق پرسیر حاصل روشنی ڈالی ہے وہ انتہائی مدلل اورانتہائی واضح ہے۔انہوں نے اپنے دیباچہ کا آغاذ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تدوین وحفاظت حدیث کے بارے میں ٹھوس ثبوت مہیا کئے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ دوسرے علمی اور سیاسی عوامل کی معلومات بھی فراہم کی ہیں۔مثلاً

عہد نبوی میں تعلیمی سیاست کیسی تھی؟

صفہ کی درس کا تعارف

پڑھنے لکھنے کی عام ترویج کا انتطام کیسا تھا؟

تدوین حدیث میں کون کون سی شخصیتیں سرگرم عمل تھیں؟

مذید برآں اس میں آپ نے مملکت مدینہ کا تحریری دستور،مردم شماری کاریکارڈ اور دوسرے ممالک کے بادشاہوں کو بھیجے ہوئے فرامین مبارک کی تفصیلات مہیا کی ہیں۔

پھر اس کتاب میں صحیفہ ھمام بن منبہ ؒ کے متن کو عربی کے ساتھ اردو ترجمہ میں بھی زینت تحریر کیا ہے۔خصوصاً اس بیسوی صدی میں جب کہ علم احادیث کو لوگوں تک پہنچنے سے روکنے کی بڑی سازشیں ہورہی ہیں ہمیں اس کتاب کو خریدنا اور پڑھنا چاہیے۔

کتاب وطباعت:۔

لیکن اس کتاب کی علمی افادیت ،اہمیت اور عظمت کے باوجود اس کی کتابت اور طباعت سب کے سب اس بات کے غماز ہیں کہ ہم اپنے اسلاف کے عظیم تر ورثوں کی حفاظت میں انتہائی مجرمانہ غفلت برتتے ہیں۔

اس کتاب کا سائز 30+20 ہے۔سرورق بھی عام سا ہے۔

میرے خیال میں اس عظیم کتاب صحیفہ ھمام بن منبہ کا ایک ایک حرف احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم پہ جان نثاری کا دعویٰ کرنے والوں سے فریاد کررہا ہے کہ:اس دور میں جب کہ ہر چیز کے ظاہر پر عوام کی نگا ہ ہوتی ہے۔کیا تم میں سے کوئی بھی ایسا جانثار نہیں جو مجھے میری شان کے مطابق سنوارے،اور پھر حدیث دشمنوں کے سامنے احسن انداز میں پیش کرے۔تاکہ وہ اس سے اپنے مبلغ علم میں اضافہ کریں اور فکری گمراہیوں سے نکل کرحق کو بچا سکیں اور اللہ کے ہاں ثواب دارین کے مستحق ٹھریں۔والسلام۔