تبلیغی جماعت کے ساتھ نماز کا ثواب
1۔تبلیغی جماعت کے ساتھ ایک نماز کا ثواب انچاس کروڑ گنا
2۔فضائل اعمال میں ضعیف روایت پر عمل
3۔تشہد میں محل رفع سبابہ
تبلیغی حضرات اپنی پوری صلاحیتیں اور اپنی پوری توانائیاں صرف اور صرف فضائل اعمال کی تبلیغ میں خرچ کردیتے ہیں۔اسی پر بس نہیں بلکہ آیات واحادیث وعید سنانا ان کے ہاں ایک بڑا جرم ہے۔
فضائل اعمال میں ضعیف ،منکر اور موضوع احادیث ذکر کرنے سے یہ لوگ ذرہ بھر بھی نہیں ہچکچاتے،ان کی کتاب تبلیغی نصاب(جس کانام اب فضائل اعمال رکھ دیا گیا ہے) کا تقریبا ً نصف حصہ اسی قسم کی احادیث اور خرافات وبدعات سے لبریز ہے۔اس کے مصنف نے جی بھر کر منکر وموضوع احادیث کی کثرت وبہتات کردی ہے۔ان سے بات کی جائے بڑی بے باکی سے گویا ہوتے ہیں کہ"فضائل اعمال سے تعلق رکھنے والی ضعیف احادیث کو بیان کرنا اوران پر عمل کرنا جائز ہے"
ہم ان کے اصول کا مناقشہ تو بعد میں کریں گے،پہلے آئیے یہ دیکھیں کہ تبلیغی بھائیوں کے ہاں یہ جو زبان زدعام وخاص ہے کہ"اللہ کے راستے میں(تبلیغی جماعت کے ساتھ) نکل کرایک نماز کاثواب انچاس کروڑ نمازوں کے ثواب کے برابر ہے"کہاں سے ثابت ہے اور ان کے پیش کردہ ثبوت کی کیا حقیقت ہے؟
میرے سامنے اس وقت انہیں بھائیوں کی ایک کتاب مسمی "قرآن وحدیث کی روشنی میں اللہ کے راستے میں نکل کر نماز اداکرنے کاانچاس کروڑ گنا ثواب" ہے جس میں دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے ایک مفتی صاحب کافتوی بایں الفاظ منقول ہے(مختصراً)
تبلیغی حضرات کے قول کے مطابق اس راستے میں ایک نماز کا انچاس کروڑ نمازوں جتنا ثواب در اصل دو حدیثوں کے مجموعے کا حاصل ہے۔
1۔متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"جس شخص نے گھر بیٹھے اللہ کی راہ میں نفقہ بھیجااسے ایک درہم کے بدلے سات سو درہموں کا ثواب اور جو خودجنگ کرنے کے لئے نکلے اور پھر اس راستے میں خرچ کرے اسے ایک درہم کے بدلے میں سات لاکھ درہموں کا ثواب ملے گا،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی۔﴿ وَاللَّـهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ ۗ﴾
اس حدیث کا لفظی ترجمہ پیش کردیا گیاہے ورنہ مفتی صاحب نے تو «ومن غزا بنفسه في سبيل الله وأنفق في وجه ذلك» کا ترجمہ یوں کیاہے اور جو اللہ کی راہ میں نکل کر خرچ کرے گا حالانکہ (غزا) کا ترجمہ کسی بھی لغت کی کتاب میں خرچ کرنا نہیں ہے ۔یہ من مانی ہے حدیث کی معنوی تحریف ہے اوراسے اپنے مقاصد کے مطابق ڈھالنے کی ناکام کوشش ہے۔
2۔حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ تعالیٰ کی راہ میں نکل کر نماز،روزہ،اور ذکر کا ثواب انفاق فی سبیل اللہ کی نسبت سات سو گنا زیادہ ہے۔"
اب پہلی حدیث میں ایک روپے کا سات لاکھ ہے اور دوسری حدیث میں اللہ کی راہ میں نماز کا ثواب اس سے سات سوگنا زیادہ ہے،چنانچہ سات لاکھ کو سات سوسے ضرب دی جائے تو نتیجہ انچاس کروڑ آتاہے۔
مفتی صاحب! آپ نے کتنے تکلف وتضع سے کام لیا!!! بات کا بتنگڑ بنانے کا ط طریقہ آپ نے خوب آزمایا" قارئین کو دھوکہ دینے کی بھر پور کوشش وکاوش کی،آپ کے اس فتوے پرہماری چند گزارشات ہیں۔
1۔دونوں احادیث کو ذکر کرتے ہوئے آپ نے اپنی پوری صلاحتیں یہ ثابت کرنے میں صرف کردیں کہ ان کا تعلق اللہ کے راستے(یعنی تبلیغی جماعت کے ساتھ) میں نکلنے والوں کے ساتھ ہے۔حالانکہ پہلی حدیث کے الفاظ(ومن غزا بنفسه في سبيل الله) واضح طور پر آپ کے موقف کی تردید کررہے ہیں۔
2۔آپ نے یہ نہ سوچا کہ ان احادیث کو کتاب الجہاد میں روایت کیا گیا ہے اور ان کے سیاق وسباق اورائمہ کے تصرف سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان کا تعلق میدان جنگ سے ہے۔
3۔پہلی حدیث کے آخر میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تو ﴿وَاللَّـهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ ۗ﴾ پڑھ کر اللہ کے خزانوں کے بے بہا ہونے کی طرف اشارہ کررہے ہیں اور مفتی صاحب! آپ اس کے فضل کی انچاس کروڑ سے تحدید کررہے ہیں۔اور وہ بھی ایچ پیچ ڈال کر،چکر د ے کر اور مکروفریب کے انوکھے طریقے کے ساتھ؟شریعت بالکل سیدھی سادہ ہے۔تضع وتکلف کی قائل نہیں ہے۔اس طرح پیچ وتاب کھانے اور نصوص کومروڑنے کی کیا ضرورت تھی؟صرف اتنی بات ہی کافی ہوتی کہ اللہ جس کو چاہیں کئی گنا زیادہ دیتے ہیں۔
4۔مفتی صاحب!آپ نے اپنےفتوی کے آخر میں انچاس کروڑ کی دلیل قرآن سے مذکورہ بالا آیات ﴿وَاللَّـهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ﴾ پیش کی ہے۔حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو اسے﴿لِمَن يَشَاءُ﴾ کےساتھ مقید کردیا ہے۔اور نہ جانے آپ کو وحی ہوگئی ہے کہ یہ مضافعت انچاس کروڑ گنا ہے۔اور اس کے مستحق بھی آپ تبلیغی ہیں!
5۔آپ نے اس انچاس کر وڑ والی موجوع فضیلت کی طرف لوگوں کو ترغیب دے کر انہیں جہادبالسیف سے غافل کردیا ہے۔ آج جبکہ پوری دنیا میں مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے۔ماؤں بہنوں کی عصمتیں لوٹی جارہی ہیں۔اور آگ اور خون کا کھیل کھیلاجارہا ہے آپ انچاس کروڑ کی طرف دعوت دے رہے ہیں؟اس انچاس کروڑ کو پانے کے لئے میدان جہاد میں کیوں نہیں جاتے ،تلوار کیوں نہیں اٹھاتے؟بے گناہوں کے خون کا بدلہ کیوں نہیں لیتے؟ماؤں بہنوں کی عصمتیں کیوں نہیں بچاتے؟ان گزارشات کے بعد آیئے آپ یہ دیکھیں کہ احادیث مذکورہ محدثین کے اس میزان وترازو میں کیا وزن ر کھتی ہیں۔جس کےذریعے وہ صحیح وضعیف کے درمیان امتیاز کرتے ہیں۔
پہلی حدیث سنن ابن ماجہ کتاب الجہاد باب فضل التفقہ فی سبیل اللہ میں متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مرفوعاً مروی ہے،اس کی سند میں "الخلیل بن عبداللہ" نامی ایک راوی ہے۔جو بالاتفاق مجہول ہے۔اور مجہول کی روایت ضعیف جدا یا منکر کے درجہ تک پہنچتی ہے۔ابن عبدالھادی اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:۔
"الخلیل بن عبداللہ نے یہ حدیث الحسن البصری کے واسطے سے کئی صحابہ سے روایت کی ہے اور یہ حدیث"منکر" ہے اورالخلیل بن عبداللہ مجہول ہے"
امام دارقطنی ؒ امام ذہبی،ؒ امام المنذریؒ،اورالحافظ ابن حجر ؒبھی اسے مجہول کہتے ہیں۔دیکھئے تہذیب (3/167) تقریب 1/227)
متقدمین میں سے ابن عبدالہادی کا فیصلہ آپ پڑھ چکے کہ وہ اس حدیث کو "منکر" کہتے ہیں معاصرین میں سےشیخ البانی ؒ بھی اسے "ضعیف" کہتے ہیں دیکھئے:ضعیف الجمامع الصغیر (5398) ضعیف سنن ابن ماجہ صفحہ 222۔
دوسری حدیث درج ذیل کتب حدیث میں مروی ہے۔
سنن ابی داؤد کتاب الجہاد باب فی تضعیف الذکر فی سبیل اللہ عزوجل (2/316 عون) مستدرک حاکم کتا الجہاد (2/78) حاکم کہتے ہیں۔صحیح الاسناد اوراامام ذہبیؒ نے ان کی موافقت کی ہے۔
السنن الکبریٰ للبیہقی (9/172) کتاب السیر۔اس حدیث میں دو راوی "زبان بن فائد" اور اس کااستاد"سھل بن معاذ بن انس الجہنیؒ" ہیں۔ان میں سے اول الذکر شدید قسم کاضعیف ہے اور ثانی الذکر بھی ضعیف الحدیث ہے۔
"زبان بن فائد" کے بارے میں علماء جرح وتعدیل کےاقوال درج ذیل ہیں۔امام احمد :احادیث ،مناکیر
ابن معین :شیخ ضعیف ۔تہذیب (3/308)
ابن حبان:منکر الحدیث جدا اور یہ سھل سے ایک ایسا نسخہ روایت کرتا ہے جو تقریباً موضوع ہے،اس لئے ناقابال احتجاج ہے۔المجروحین (1/313)
حافظ بن حجر ؒ بھی اسے "ضعیف الحدیث" کہتے ہیں تقریب (1/257) اور نہ جانے امام ذہبی ؒ نے حدیث کی تصحیح میں حاکم کی موافقت کسطرح کردی ہے؟ حالانکہ خود ذہبی ؒ نے "زبان بن فائد" کو اپنی کتاب المنغنی فی الضعفاء (1/342) اور دیوان الضعفاء والمتروکین صفحہ 106 میں ذکر کرکے اس کی تضعیف پرجزم ظاہر کردیا ہے۔
دوسرے راوی (سھل بن معاذ9 کے بارے میں ان معین "ضعیف " کہتے ہیں،ابن حبانؒ نےاسے "الثقات" میں ذکر کرنے کے بعد کہا ہے۔
لا يعتبر حديثه ما كان من رواية زبان بن فائد عنه
یعنی اس کی وہ حدیث ناقابل اعتبار ہے جو اس زبان بن فائد نے روایت کی ہوگی۔(یاد رہے کہ اس سے یہ حدیث زبان نے ہی روایت کی ہے) بالکل یہی بات حافظ ابن حجرؒ نے بھی تقریب(1/331) میں کہی ہے۔بنا بریں ثابت یہ ہواکہ "زبان بن فائد" نے "سھل بن معاذ" سے جتنی روایات کی ہیں وہ سب ناقابل اعتبار اورضعیف ہیں۔
دیکھیئے:تہذیب (4/258) المغنی فی الضعفاء (1/288) دیوان الضعفاء (صفحہ 127) ان دونوں راویوں کے "ضعیف"بلکہ اول الذکر کے منکر الحدیث ہونے کی بناء پر کہا جاسکتاہے کہ یہ حدیث ضعیف جدا یا منکر کےدرجہ تک پہنچتی ہے۔اسی لئے حافظ المنذریؒ صاحب بذل المجہود (جو کہ خالص حنفی ہیں) اور شیخ البانیؒ اسے ضعیف کہتے ہیں دیکھئے۔الترغیب والترہیب (2/267) بذل الممجہود 11/404) ضعیف الجامع الصغیر 1493)
اب ہم ان کے اس اصول کا مناقشہ کرتے ہیں کہ فضائل اعمال میں ضعیف احادیث قابل بیان وعمل وہوتی ہیں۔
یہ ایک ناقابل انکارحقیقت ہے کہ اسی اصول کی بناء پر جمہور عموماً اور یہ تبلیغی خصوصا ً جویہ چاہتے ہیں۔ بلا خوف وخطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیتے ہیں۔ضعیف ومنکر اور موضوع احادیث کی روایت کےساتھ ساتھ خود بھی احادیث گھڑتے ہیں۔ہر تبلیغی رائے ونڈ سے جب بھی واپس روانہ ہوتا ہے اسے بیسیوں احادیث ایسی حفظ ہوتی ہیں جو سنداً ومتناً منکر ہوتی ہیں۔گھر جا کر وہ انھیں آگے پہنچاتاہے۔اور پھر وزبان زد عام وخاص ہوکر پھیلتی چلی جاتی ہیں،یہ عظیم ترین فتنہ ہے ضعیف ومنکر موضوع احادیث کے انتشار کاجس میں امت محمدیہ اس وقت مبتلاہے۔(واللہ المستعان)
حالانکہ یہ اصول محققین علماء کے ہان علی الاطلاق غیر مسلم ہے خود احناف علماء اس کی مشروط اجازت دیتے ہیں علی الاطلاق نہیں۔
علامہ ظفراحمد عثمانی تھانوی نے قواعد فی علوم الحدیث (صفحہ94) میں "الدر المختار"(جو کہ حنفیہ کی انتہائی معتمد کتاب ہے) کے حوالے سے ضعیف حدیث پر عمل کرنے کی تین شرائط نقل کی ہیں۔
1۔شروط العمل بالحدیث الضعیف۔2۔عدم شده ضعفه۔3۔ان یدخل تحت اصل عام ۔3۔وان لایعتقد سنية ذالک الحدیث۔
1۔اس حدیث کاضعف شدید قسم کا نہ ہوواضح رہے کہ جن احادیث سے"انچاس کروڑ گنا" ثابت کیاگیا ہے۔ وہ شدید ضعف کا شکار ہیں۔ پہلی حدیث میں ایک مجہول راوی ہے۔ اور دوسری میں ایک"منکر الحدیث" اور دوسرا "ضعیف الحدیث" ہے۔لہذاس انہیں احناف کی لگائی ہوئی شروط میں سے پہلی شرط پر ہی یہ احادیث پوری نہیں اترتی ہیں۔
2۔دوسری شرط یہ ہے کہ وہ ضعیف حدیث کسی اصل عام کے تحت مندرج ہوتی ہو اس شرط کی تفصیل شیخ البانی ؒ ان الفاظ میں کر تے ہیں:اس حدیث میں جس عمل کی فضیلت ہے۔اس کی شرعیت کسی اور صحیح حدیث سے ثابت ہو۔اور آپ بتائیے مفتی صاحب! کہ کیا یہ"انچاس کروڑ" کسی اور صحیح دلیل سے ثابت ہے؟یا یہ صرف تضع وتکلف ہے؟
3۔اس حدیث پر عمل کرتے وقت اس کے ثبوت کااعتقاد نہ ہو۔بلکہ احتیاط کی نیت ہو،تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیطرف وہ چیز منسوب نہ ہو جو آپ نے نہ کہی اور نہ کی۔
جبکہ آپ تو مفتی صاحب! بڑے دھڑلے سے فتوی میں لکھتے ہیں کہ یہ انچاس کروڑ گناتو اب قرآن وحدیث سے ثابت ہے ۔اور یہی عقیدہ ہے تمام تبلیغیوں کا۔
مذکورہ بالاتینوں بڑی کڑی شروط ہیں۔اورکتب مصلطح الحدیث میں موجود ہیں۔ان پر پوری اترنے والی احادیث پر عمل کی اجازت تو علماء دیتے ہیں لیکن تبلیغیوں سے ایک سوال پھر بھی باقی رہتاہے کہ آپ میں سے کس کی استطاعت میں ہے کہ وہ ضعف شدید اور ضعف خفیف میں فرق کرسکے؟جب یہ استطاعت نہیں ہے تو بہتر یہی ہے کہ آپ ضعیف احادیث کو بیان کرنا اور ان پر عمل کر نا علی الاطلاق چھوڑ دیں۔کیونکہ ان شروط کو سامنے رکھتے ہوئے ضعیف احادیث کو جانچنا آپ کے بس سے باہر ہے۔یہ متقین علماء کاکام ہے آپ کا نہیں۔
امام شاطبیؒ نے الاعتصام اور شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے مجموع الفتاویٰ (1/215) میں اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے۔
1۔ضعیف حدیث کے ذ ریعے کسی عمل کا "استحباب" ثبات کیا جاتا ہے،حالانکہ "استحباب" حکم شرعی کی اقسام میں سے ایک قسم ہے۔اور حکم شرعی صحیح شرعی دلائل سے ہی ثابت ہوتا ہے،گویاضعیف حدیث پرعمل کرنا اور اس کی ترویج کرنا تشریح(شریعت سازی) کےمترادف ہے جو کہ قطعاً حرام ہے۔
2۔کسی عبادت کے ثواب کی مقدر کی تحدید کرنے کا اختیار خود شارع علیہ السلام کو ہے نہ کسی امتی کو۔یہ تحدید اگرصحیح دلائل سے ثابت ہو تو قابل قبول ہے ورنہ نہیں۔
آخر میں ایک گزارش کہ آپ جس راستے کو اللہ کا راستہ قراردیتے ہیں پہلے اسے اللہ کا راستہ ثابت تو کریں۔
1۔کیا لوگوں کو گھروں سے نکالنا،انہیں حقوق والدین،حقوق زوجیت اورحقوق اولاد کی ادائیگی سے ر وکنا اللہ کا راستہ ہے؟ کیا قرآن میں اپنے گھر والوں کو سنبھالنے کا حکم نہیں ہے۔
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا قوا أَنفُسَكُم وَأَهليكُم...﴿٦﴾... سورة التحريم
2۔لوگوں کو وعد والی آیات واحادیث سنانا اور آیات واحادیث وعید نہ سنانا اللہ کا راستہ ہے؟کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشیر تھے تو نزیر نہ تھے؟
﴿إِنّا أَرسَلنـٰكَ شـٰهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذيرًا ﴿٨﴾... سورةالفتح
3۔لوگوں کو صرف چھ باتوں کا پابند کرنا۔۔۔جن میں روزہ،حج،زکواۃ،جیسی اساسی چیزوں کا ذ کر تک نہیں ہے۔اللہ کا راستہ ہے؟معاملات کے بارے میں لوگوں کو کورارکھنا اللہ کا راستہ ہے؟حالانکہ معاملات نصف دین ہیں۔
﴿أَفَتُؤمِنونَ بِبَعضِ الكِتـٰبِ وَتَكفُرونَ بِبَعضٍ...﴿٨٥﴾ ... سورةالبقرة
4۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف احادیث موضوعہ منسوب کرنا یامنسوب کردہ احادیث کی ترویج واشاعت کرنا اللہ کا راستہ ہے؟
5۔لوگوں کواتباع سنت صحیحہ کی طرف دعوت دینے کی بجائے حنفیت (جو کہ تقریباً عقل ورائے کا نچوڑ ہے) کی طرف دعوت دینا اللہ کا راستہ ہے؟کیا حنفیت کے بارے میں ہی اللہ نے کہا ہے:
﴿قُل هـٰذِهِ سَبيلى أَدعوا إِلَى اللَّهِ...﴿١٠٨﴾... سورةيوسف
قرآن وحدیث کی اہمیت لوگوں کے ذہنوں میں مرکوز کرنے کی بجائے انہیں بزرگوں کے اقوال وافعال کا پابند کرنا اللہ کا راستہ ہے؟ کہیں یہ:
﴿اتَّخَذوا أَحبارَهُم وَرُهبـٰنَهُم أَربابًا مِن دونِ اللَّهِ...﴿٣١﴾... سورة التوبة کے مترادف تو نہیں۔
یہ منہج جو دعوت وتبلیغ کے لئے آپ نے اپنایا ہے اس کے مطابق آ پ کا (تبلیغی جماعت کا) راستہ ہرگز اللہ کا راستہ نہیں ہے۔جب یہ اللہ کا راستہ قرار نہیں پاسکتا۔تو آپ کس منہ سے یہ کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ چلنے والے کو ایک نماز کے بدلے انچاس کروڑ نمازوں کا ثواب ملےگا؟
آپ ہی اپنی اداؤں پرذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے توشکایت ہوگی
تشہد میں سبابہ(انگشت شہادت) کو اٹھانے اور اس کے ساتھ اشارہ کرنے کے سنت ہونے پر علماء تقریباً نظرآتے ہیں۔جس کی وجہ غالباًیہ ہے کہ اس موضوع میں مروی تقریباً تمام احادیث وآثار کم از کم اتنی بات ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں بیٹھتے تو اپنی انگلی شہادت کواٹھاتے اور اس کے ساتھ اشارہ کیا کرتے تھے۔بلکہ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دوانگلیوں کے ساتھ دعا (اشارہ) کرتے د یکھا تو فرمایا:احداحد یعنی ایک ہی انگلی سے اشارہ کرو۔
گویہ صیغہ امر وجوب کے لئے نہیں ہے لیکن اگر اسے :
كان النبي صلي الله عليه وسلم يشير باصبعه كان رسول الله صلي الله عليه وسلم اذا قعده في التشهد اشار باصبعه كان رسول الله صلي الله عليه وسلم اذا جلس في الصلاة
جیسے ہمیشگی پر دلالت کرنے والے الفاظ کے ساتھ ملایاجائے تو اس سے استحباب موکد ضرور ثابت ہوتا ہے،اوراس کی تاکید مذید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ کے ساتھ فرمادی :
لهي أشد على الشيطان من الحديد
یعنی" یہ انگشت شہادت شیطان پر لوہے سے بھی سخت ہے"
رفع سبابہ کی یہ عظیم حکمت اور فضیلت بیان فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو جہاں اس عمل کی طرف ترغیب دلائی اور شیطان کے انتہائی خطرناک حملوں سے بچنے کا ایک نسخہ کیمیا بھی تجویزفرمایا۔تاہم اس میں اخلاص وخشوع وخضوع اوراللہ تعالیٰ کی طرف مکمل توجہ شرط ہے۔
محل رفع سبابہ میں اختلاف مذاہب:۔
کم از کم اتنی بات پر تو اتفاق ہے کہ رفع سبابہ اور اس کے ساتھ اشارہ کرنا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔لیکن اس کے محل ومقام میں علماء کا اختلاف ہے۔کیا یہ "لا الٰہ الا اللہ" کے ساتھ خاص ہے،یا ابتدائے تشہد سے لے کر انتہائے تشہد تک انگلی کے اشارے اور اس کی حرکت کو جاری رکھنا چاہے؟
حنفیہ اورشافعیہ اس کی "لاالٰہ الا اللہ" کے ساتھ تخصیص کےقائل ہیں،دونوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ حنفیہ "لاالٰہ" کے ساتھ نفی کرتے ہوئے انگلی کو اٹھانے اور "الااللہ" کے ساتھ اثبات کرتے ہوئے انگلی کو دبانے کے قائل ہیں۔جبکہ شافعیہ ؒ کہتے ہیں کہ "الا اللہ" کہتے ہوئے صرف ایک مرتبہ انگلی اٹھانی اور پھر دہلالینی چاہیے۔
حنابلہ کے نزدیک یہ ہے کہ تشہد میں جہاں بھی لفظ جلالہ "اللہ" کا ذکر آئے،اشارہ کیا جائے۔
مالکیہ کا مذہب یہ ہے کہ شروع تشہد سے لے کر آخر تشہد تک دائیں بائیں انگلی کو حرکت دینی چاہیے۔
تخصیص بلا الہ الا اللہ کی دلیل اور اس کا مناقشہ:۔
رفع سبابہ کی"لاالٰہ الا اللہ" یالفظ جلالہ "اللہ" کے ساتھ تخصیص کی محض عقلی دلیل پیش کی جاتی ہے کہ جب انسان "لا الٰہ الا اللہ" کہتے ہوئے اپنی زبان سے اللہ جل شانہ کی توحید کااقرار کرتا ہے تو مناسب ہے کہ وہ اپنے فعل سے بھی توحید الٰہی کی طرف اشارہ کرے،چنانچہ قول وفعل میں مطابقت پیدا کرنے کےلئے لاالٰہ الا اللہ کہتے ہوئے یہ اشارہ بالسبابہ کرنا چاہیے۔حنابلہ کہتے ہیں کہ جب اس اشارے سے مقصود توحید الٰہی کی طرف اشارہ کرنا ہے تو پھر جہاں بھی لفظ "اللہ" کا ذکر آئے وہاں یہ اشارہ کیا جائے تاکہ ظاہر ہو کہ اللہ ایک ہے۔
ہمارے علم کے مطابق اس تخصیص کے لئے فی الوقت کوئی واضح اورصریح نص نہیں ہے،ہاں مسند احمد اورسنن بیہقی کی ایک روایت سےاستدلال کیا جاتا ہے جو کہ مرجوح اور ناقابل اعتبار ہے۔
الامیر الصعانی(صاحب سبل السلام ) کہتے ہیں۔
موضع الإشارة عند قوله: لا إله إلا الله، لما رواه البيهقي من فعل النبي صلى الله عليه وسلم
یعنی اشارہ بالسبابہ کا محل وقوع(شہادتیں میں ) لا الٰہ الا اللہ کہنے کے وقت ہے، یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ہے،جیسے بیہقی ؒ نے روایت کیا ہے"(سبل السلام)
مولانا عبداللہ مبارک پوری (صاحب مرعاۃ المفاتیح) اس کے رد میں کہتے ہیں۔
ترجمہ:۔"امام بیہقیؒ وغیرہ نے جس چیز کوروایت کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ انگشت شہادت کے ساتھ توحید کی طرف اشارہ کیا کرتے یا اس کے ساتھ توحید کا اردہ کرتے یااس کے ساتھ اپنے رب کی توحید بیان کرتے اس میں جس طرح کے آپ دیکھ رہے ہیں۔لاالٰہ الااللہ کہتے وقت اشارہ کرنے کی صراحت ہے نہ اس سے ابتدائے جلوس سے اشارہ کرنے کی نفی ہے۔صحابی کا اس اسے مقصود اشارہ کرنے کی حکمت بیان کرنا ہے نہ کہ محل اشارہ اور اس کے وقت کا بیان۔(مرعاۃ المفاتیح 1/662)
ترجیح:۔
کسی بھی مسئلے میں علماء کے مختلف اقوال کا موازنہ کرتےہوئے ترجیح اس قوک کو دینی چاہے جو اقرب الی النصوص ہونہ کہ اسے جو اقرب الی العقل والرای ہو،چنانچہ زیر بحث مسئلہ میں جو بات نصوص صحیحہ سے مستنبط ہوتی ہے۔وہ یہ ہے کہ نمازی ابتداء تشہد سے انتہائے تشھد تک۔
1۔دائیں ہاتھ کی تین انگلیاں(خنصر،بنصر،وسطی) دبائے رکھے۔
2۔اپنے انگوٹھے کو یا تو سبابہ کی جڑ سے ملا لے یا درمیانی انگلی پر رکھ کر گول دائرہ بنالے۔
3۔اور پھر سبابہ کے ساتھ اشارہ اور اس کی حرکت کو جاری رکھے۔
جن سے نصوس سے یہ بات ماخوذ ہے۔وہ درج ذیل ہیں،۔
ان رسول الله عليه وسلم- كان إذا جلس في الصلاة وضع يديه على ركبتيه، ورفع أصبعه اليمنى التي تلي الإبهام، فدعا بها، ويده اليسرى على ركبته اليسرى باسطها عليها (رواہ مسلم)
"ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ان دونوں روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں بیٹھتے ہی اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھ لیتے۔پھر(دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے) ترپن(53) کی گرہ باندھتے۔(یعنی تین انگلیوں کو دبا کر سبابہ کو کھلا چھوڑ دیتے اور انگوٹھے کو سبابہ کی جڑ سے ملالیتے)۔۔۔پھر انگشت شہادت کو اٹھاتے،اس کے ساتھ اشارہ کرتے اور تشہد پڑھتے۔
یعنی"اور بائیں ہواتھ کو اپنے(بائیں) گھٹنے پر پھیلا کر رکھتے"ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ دائیں ہاتھ کی یہ کیفیت نہ تھی اور اسے آپ پھیلا کر نہیں رکھتے تھے۔
یہ دو روایات جن میں قبض اصابع(انگلیوں کو دبانے) کا ذکر نہیں ہے۔وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اب عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ان روایات پر محمول ہیں۔جن میں قبض اصابع کا ذکر موجود ہے۔ کیونکہ یہ روایات مطلق ہیں۔جبکہ وائل اور ابن عمر رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دیگر روایات مقید ہیں۔اور مطلق کو مقید محمول کرنے کا اصول مسلم ہے۔
"کان اذا قعد" اور کان اذا جلس" کے الفاظ واضح طور پر دلالت کرتے ہیں کہ:
1۔آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم جونہی تشہد میں بیٹھتے،اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھ لیتے اور(دائیں ہاتھ کی تین انگلیاں دبانے کے بعد) انگلی شہادت کے ساتھ اشارہ ودعا کرتے۔
2۔پھر جس طرح بائیں گھٹنے پرہاتھ رکھنے کی کیفیت آخر تشہد تک جاری رہتی اسی طرح یہ اشارہ بھی جاری رہتا۔
محدث العصر شیخ البانیؒ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پہلی روایت کے تحت کہتے ہیں:
والظاهر من الحديث أن الاشارة والرفع عقب الجلوس
یعنی"حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ انگلی کو ا ٹھانا اور اس کے ساتھ اشارہ کرنا جلوس کے فوراً بعد ہے۔"اور ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دوسری روایت کے تحت کہتے ہیں۔
وفيه اشارہ ابی استمرار الرفع ابی اخر التشهد قبل السلام حیث الدعا
یعنی"اس میں سلام پہلے آخر تشہد دعا تک استمرار رفع سبابہ کی طرف اشارہ ہے" پھر کہتے ہیں کہ"بل ظاہر الحدیث۔۔۔استمرار تحریکھا الی السلام"یعنی ،ظاہر حدیث سلام تک تحریک سبابہ پر دلالت کرتا ہے"(تحقیق مشکاۃ المصابیح 1/285)
3۔وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک حدیث میں آتا ہے"آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم (تشہد کے لئے) بیٹھے تو اپنا بایاں پاؤں بچھایا،اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر اور اپنی دائیں کہنی کا کنارہ دائیں ران پر رکھا(جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دایاں بازو ران سے اوپر ا ٹھا کر نہیں رکھنا چاہیے)پھر دو انگلیوں کو دبا لیا،گول دائرہ بنایا اور اپنی انگلی ۔سبابہ کو اٹھایا۔میں نے دیکھا کہ آپ اسے حرکت دےرہے تھے۔اور اس کے ساتھ تشہد پڑھ رہے تھے"(ابو داؤد ۔نسائی۔اور دارمی بسند صحیح)
اس حدیث کے الفاظ "فرأيته يحركها يدعو بها اشارہ اور تحریک سبابہ کے استمرار پر واضح طور سے دلالت کرتے ہیں۔
شیخ البانی ؒ کہتے ہیں:
يفيد استمرار التحريك وعليه المالكية وهو الحق
یعنی" یہ حدیث استمرار تحریک کا فائدہ دیتی ہے یہی مذہب مالکیہ ہے اور یہی حق ہے"
4۔عبداللہ بن الزبیر سے روایت ہے:۔
ابْنِ الزُّبَيْرِ , رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمَا ، قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , إِذَا قَعَدَ يَدْعُو وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى ، وَيَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى ، وَأَشَارَ بِأُصْبُعِهِ السَّبَّابَةِ ، وَوَضَعَ إِبْهَامَهُ عَلَى أُصْبُعِهِ الْوُسْطَى ، وَيُلْقِمُ كَفَّهُ الْيُسْرَى رُكْبَتَهُ .
یعنی"آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جونہی تشہد کے لئے بیٹھتے اپنا دایاں ہاتھ اپنی دائیں ران اور بایاں ہاتھ بائیں ران پر رکھ لیتے،(تین انگلیاں دبانے کے بعد) اپنی انگلی شہادت کے ساتھ اشارہ کرتے ،اپنے انگوٹھے کو درمیانی انگلی پر رکھ لیتے اور بائیں ہتھیلی سے بائیں گھٹنے کو لقمہ بنا لیتے"
یہ حدیث بھی اپنے اندر واضح دلالت رکھتی ہے کہ اشارہ اول قعود سے تھا نہ کہ"لاالٰہ الا اللہ" کہنے کے وقت۔
صاحب مرعاۃ المفاتیح کہتے ہیں۔
ظاهر الأحاديث يدل على الإشارة من ابتداء الجلوس ولم أر حديثا صحيحا يدل على كون الاشارة عند قوله لا اله الاالله خاصة
یعنی"ظاہراحادیث اس بات پہ دلالت کرتاہے کہ اشارہ ابتدائے جلوس سے ہوگا، اور میں نے ایسی کوئی صحیح حدیث نہیں دیکھی ہے جو اس بات پر دلالت کرے کہ اشارہ لا الٰہ الا اللہ کے ساتھ خاص ہے"
پھر کہتے ہیں:۔
فالراجح عندنا ان يقعد من اول القعود مشيرا بالمسبحة مستمرا علي ذلك حتي بسلم
یعنی" ہمارے نزدیک راحج یہ ہے کہ ابتدائے جلوس سے (53) کی گرہ باندھی جائے ،سبابہ کے ساتھ اشارہ کرتے ہوئے اس پر مستمر رہتے ہوئے تاآنکہ وہ سلام پھیر لے"
ایک اشکال اور اس کا جواب:۔
بعض علماء( جن میں شیخ ملا علی قاری بھی شامل ہیں) کہتے ہیں کہ وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث جس میں فرأيته يحركها يدعو بها کےالفاظ ہیں ،معارض ہے عبداللہ ابن الزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک حدیث کے جس میں آتا ہے۔ أن النبيَّ -صلى الله عليه وسلم- كان يشير بإِصبعه إذا دعا، ولا يحركها.
یعنی"آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد پڑھتے تو ا پنی انگلی کے ساتھ اشارہ کرتے اور اسے حرکت نہیں دیتے تھے۔(ابو داؤد۔نسائی)
شیخ البانی ؒ کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن درجے کی ہے لیکن یہ معارضہ دو وجوہات کی بناء پر مرجوح ہے۔
1۔وائل کی حدیث ابن الزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کی نسبت اصح ہے۔(اور دو بظاہر متعارض احادیث کے درمیان جب تطبیق ناممکن ہوتو ان میں سے کسی ایک کو ترجیح دیتے وقت ترجیحی قرائن کااعتبار کیا جاتا ہے۔ان قرائن میں سے یہ بھی ایک قرینہ ہے کہ ایک حدیث اصح ہو بنسبت دوسری کے تواضح کو ترجیح دے دی جاتی ہے)
2۔وائل کی حدیث مثبت اور ابن الزبیر کی حدیث نافی ہے۔اور مثبت کو نافی پر مقدم کرنے کا اصول مسلم ہے۔نیز اس کے الفاظ ولا سحر کھا شاذ یا منکر ہیں کیونکہ محمد بن عجلان نے بعض روایات میں اس الفاظ کو ذکر کیا ہے۔اور بعض میں نہیں،اور جس راوی نے اس کی متابعت کی ہے وہ بھی اس لفظ کے عدم ذکر میں متابع ہے۔
لہذا ثابت ہوا کہ یہ حدیث ابن الذبیر وائل کی حدیث کے معارض نہیں ہوسکتی۔"واللہ اعلم
مذید تفصیلات کے لئے:
نیل الاوطار 2/283 فقہ السنہ سید سابق 1/170
ذاد المعاد 1/255 تحقیق البانی للشمکاۃ 1/285۔
مرعاۃ المفاتیح 1/661۔672۔
1۔سنن الترمذی۔حسن صحیح غریب ،النسائیؒ۔حاکمؒ اور ذھبی ؒ نے اسے صحیح اور شیخ البانی ؒ نے اسے حسن کہا ہے۔
2۔مسند احمد۔شیخ البانی اسے حسن کہتے ہیں۔