اسلامی معاشرہ میں ذرائع ابلاغ کا کردار
انسانی فطرت ہے کہ اپنے خیالات ومحسوسات کو دوسروں تک پہنچایا جائے اور خوددوسروں کے حالات سے آگاہی حاصل کی جائے۔باخبر رہنا انسان کی بنیادی خواہش ہے۔چنانچہ نسل انسانی کی ابتداء سے ہی"ابلاغ" سے مراد دوسروں سے بات چیت،ان پر اپنا مطلب واضح کرنے اور اپنے خیالات وتصورات دوسروں تک پہنچانا ہے۔انسان نے ابلاغ کے عمل کو موثر بنانے کےلئے تہذیب کے مختلف ادوار میں ابلاغ کے مختلف ذرائع استعمال کئے ہیں۔زمانے کی ترقی کے ساتھ ابلاغ کے طریقوں اور ذریعوں میں بھی تبدیلی ہوتی رہی ہے۔انسان کی معاشرتی ضروریات نے ابلاغ کے طریقوں اور ابلاغ کے ذریعوں پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔دوسری طرف نئے نئے ذرائع ابلاغ کی ایجادات نے معاشرے کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ذرائع ابلاغ کی ترقی سے دنیا سمٹ کر ایک گاؤں کی حیثیت اختیار کرگئی ہے کہ ہم ہزاروں میل دور بیٹھے واقعات کے وقوع پزیر ہوتے ہی مطلع ہوجاتے ہیں۔
ابلاغ کے اثرات دنیاکے ہر معاشرہ کے لئے بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔اوراقوام عالم کی ثقافتی،تہذیبی،مذہبی،اورسیاسی ترقی کا دارومدار ہی موثر ابلاغ کامرہون منت ہے۔تاریخ کے مختلف ادوار میں ہر تہذیب اور معاشرہ میں معلومات اور اطلاعات کی روایات اور پالیسیاں بہت اہم رہی ہیں۔قدیم یونانی جمہوریتوں اور سلطنت روم کی ابلاغ کی اپنی روایات اور طریقے تھے۔اشوک اعظم کااطلاعات کا اپنا طریقہ تھا۔ہٹلر کے زمانے میں جرمنی میں فسطائی نظریئے کے تحت پروپیگنڈے کی مخصوص طرز اپنائی گئی تو مغربی جمہوریت اورروسی اشتراکیت نے اپنا اپنا نظریہ ابلاغ دنیا کے سامنے پیش کیا۔اسلام نے بھی اپنا "ابلاغی نظریہ" پیش کیا ہے۔اسلام میں ابلاغ عام کی اہمیت ابتداء ہی سے بہت زیادہ رہی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انبیاء علی السلام اورسردار انبیاء نبی آخر الزمان حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانیت تک اپنے پیغام کے"ابلاغ" کے لئے ہی مبعوث فرمایا۔جیسا کہ قرآن کریم میں موجود ہے:۔
"اے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) پہنچا دیجئے جو آپ پر نازل کیا گیا ہے اگر آپ نے ایسے نہ کیا تو یہ رسالت کے نا مکمل ہونے کے مترادف ہے۔"چنانچہ دین اسلام کو ایک بطور ضابطہ حیات متعارف کروانے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے پیغام کو تمام لوگوں تک اس طرح پہنچایا کہ وہ نہ صرف لوگوں کے لئے قابل قبول ہوا بلکہ وہ اپنے آباؤاجداد کے رسم ورواج اور طور طریقوں کو چھوڑ کر ایک نئے اور انقلابی نظریےکے قائل ہوگئے۔یہ عظیم کامیابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے "موثرابلاغ" کا ہی نتیجہ ہے۔
اسلام اپنی فطرت اوراصولوں کے لحاظ سے کلیتاً پسند نظریات کا حامل ہے۔یعنی ضابطہ حیات کے تحت انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو اس نظریئے کے تحت نہ آتا ہو۔انسان کی تمام معاشی،معاشرتی،سیاسی،اورمذہبی سرگرمیاں اس ضابطے کے مطابق ہونی چاہیں۔ایسی صورت میں"صحافت" جس کا مقصد ہی رائے عامہ کو ہموار کرنا اسی کی تشکیل کرنا، اور رائے عامہ کی ترجمانی وعکاسی کرنا ہے۔توصحافت اسلامی ضابطہ حیات کے تحت ایک اہم فریضہ بن جاتی ہے۔
جب صحافت کا مقصد رائے عامہ کی تشکیل اور ترجمانی ہو تو پھر اسلامی نظریئے کے مطابق صحافت کو ایسی ر ائے عامہ تشکیل دین کا فریضہ سر انجام دینا ہوگا جو اسلام کے ضابطہ حیات سے متصادم نہ ہو۔گویا صحافت کو رائے عامہ کی تشکیل اس طرح کرناہوگی کہ جس سے خیر اور صداقت کو فروغ حاصل ہوچناچہ اسلامی معاشرہ میں ایسی صحافت پر پابندی ہوگی جس سے بے راہ روی ،بےحیائی اور فواحش ومنکرات پھیلیں۔قرآن مجید نے ایسے عناصر کی مذمت کی ہے۔اور انہیں عذاب جہنم کی خبر دی ہے۔جو معاشرہ میں فحاشی وعریانی کے کاموں کو رواج دیناچاہتے ہیں۔چنانچہ فرمایا۔
﴿إِنَّ الَّذينَ يُحِبّونَ أَن تَشيعَ الفـٰحِشَةُ فِى الَّذينَ ءامَنوا لَهُم عَذابٌ أَليمٌ فِى الدُّنيا وَالءاخِرَةِ ...﴿١٩﴾... سورةالنور
یعنی"ان لوگوں کےلئے جو یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔"
دنیا میں ہر قوم کا ایک مخصوص فلسفہ حیات ہے۔ جس کے تابع رہ کر وہ اپنی زندگی گزارتی ہے۔کیونکہ اپنے مخصوص فلسفہ حیات کی ترویج واشاعت سے ہی کوئی قوم اپنے لئے مطلوبہ آئیڈیل معاشرہ تشکیل دے سکتی ہے۔چنانچہ اپنے فلسفہ حیات کی اخلاقی تعمیری اقدار کو پروان چڑھانا ہر قوم کا نصب العین ہوتا ہے۔اور کوئی بی معاشرہ ذرائع ابلا غ کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا ہے۔کہ وہ اپنے مقاصد کے خلاف کام کریں،یا ایسی سرگرمیاں اپنائیں جو قومی فلسفہ حیات کی اخلاقی اقدار کے احیاء میں رکاوٹ بنیں۔چنانچہ اسلامی معاشرہ میں یہ پابندی کسی طرح بھی آزادی اظہار پر قدغن نہیں ہے۔بلکہ اسلامی معاشرے کی تعمیر وترقی ،تشکیل اور فلاح کی ضامن ہے۔
اسلامی معاشرہ میں ذرائع ابلاغ کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ لوگوں کو صحیح معلومات بہم پہنچائیں۔لوگوں کی تعلیم اسلامی ابلاغی نظریئے کا طرہ امتیازہے۔بھلائی کو پھیلانے،شر کو ختم کرنے، اور تمام انسانوں کی برابری اور مساوات کا درس عظیم ہے۔سچی اور حق بات کے کہنے کو جہاد قرار دیا گیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:۔
الْجِهَادِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: كَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ»
"یعنی جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا سب سے بڑا جہاد ہے۔"
اس لئے حق اور سچ بات کو بغیر کسی ڈر،خوف یالالچ کے کھلے عام کہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔لیکن یہاں اسلامی نظریہ ابلاغ کی ایک امتیازی خصوصیت یہ بھی ہے کہ جوانسان جوکچھ کہتا ہے اس پر خود عمل کے ذریعے دوسروں کو عملی نمونہ بھی دیکھا رہا ہو۔یعنی اسلام میں قول وفعل کے تضاد کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اسی لئے قرآن نے کہا ہے کہ:۔
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لِمَ تَقولونَ ما لا تَفعَلونَ ﴿٢﴾ كَبُرَ مَقتًا عِندَ اللَّهِ أَن تَقولوا ما لا تَفعَلونَ ﴿٣﴾... سورةالصف
"اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر تم خود عمل نہیں کرتے۔اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے بیزار ہے جو قول وفعل کے تضاد میں مبتلا ہیں"
اسلامی نظریہ ابلاغ میں اطلاع اور ذریعے کی ساکھ ،ثقاہت یا CREADIBILITY کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت کے آغاذ پر لوگوں کے اپنے صادق امین ہونے کی گواہی لی تھی۔قرآن نے ذریعہ اور اطلاع کی ساکھ کو پرکھنے کا حکم دیا ہے۔:۔
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِن جاءَكُم فاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنوا أَن تُصيبوا قَومًا بِجَهـٰلَةٍ فَتُصبِحوا عَلىٰ ما فَعَلتُم نـٰدِمينَ ﴿٦﴾... سورة الحجرات
"اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ"
تجربات بتاتے ہیں کہ اکثر نزاعات اور مناقشات کی ابتداء جھوٹی خبروں سے ہوا کرتی ہے۔اس لیے اختلاف وتفریق کے اس سرچشم کو بند کرنے کی تعلیم دی یعنی کسی خبر کو یونہی بلا تحقیق قبول نہ کرو۔بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "تحقیق وتلاش ،بردباری اور دور بینی خدا کی طرف سے ہے ،عجلت اورجلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔چنانچہ غلط خبرکو عام کرنے پر پابندی لگادی گئی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:۔
(كَفَى بالمَرْءِ كَذِباً أنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ ما سَمِعَ "
"آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ جو سنے اسے بیان کردے"
اس لئے اسلام کے نظریہ ابلاغ میں صرف "سچ" کی اشاعت کی اجازت ہے۔قرآ ن کہتا ہے کہ:۔
وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ
کہ"ہمارے اوپر "پیغام صریح" کا پہنچانا فرض ہے۔"یعنی اطلاع دیناکافی نہیں ہے بلکہ درست اور واضح اطلاع دینا ضروری ہے۔تاکہ غلط اطلاعات سے لوگ گمراہ نہ ہوں اسی لئے قرآن نے کہا کہ:۔
﴿وَلا تَلبِسُوا الحَقَّ بِالبـٰطِلِ وَتَكتُمُوا الحَقَّ وَأَنتُم تَعلَمونَ ﴿٤٢﴾... سورةالبقرة
"اورحق کو باطل سے نہ ملاؤ اور نہ ہی حق کو چھپاؤ"
اسلام کا ابلاغی نظریہ انسانوں کو باہمی بدگمانی اور بدظنی سے منع کرتا ہے۔لوگوں کے ذاتی معاملات میں کرید ،ٹوہ اور تجسس پر پابندی لگا کردوسرے انسانوں کی زندگی میں زہر گھولنے سے روک دیاگیا ہے۔اسی لئے فرمایا:۔
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اجتَنِبوا كَثيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعضَ الظَّنِّ إِثمٌ وَلا تَجَسَّسوا وَلا يَغتَب بَعضُكُم بَعضًا ...﴿١٢﴾... سورةالحجرات
"اے ایمان والو! بہت بدگمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں گناه ہیں۔ اور بھید نہ ٹٹوﻻ کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔"
گویا ہمیں نیک گمان اور حسن ظن رکھنے اور بھلے لوگوں کی شان میں کوئی برائی کاحکم بے تحقیق ہر گز نہ نکالنے کا حکم دیا جارہا ہے۔دل میں اگر شیطانی وسوسہ پیدا ہوتو زبان سے نہ نکالیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ:۔"اللہ نے میری امت کے دلوں میں پیدا ہونے والے وسوسوں سے در گزر فرمایا ہے۔جب تک زبان سے نہ کہیں یا عمل میں نہ لائیں۔"اس لئے کسی شخص ادارہ یا حکمران کے خلاف کوئی بے بنیاد بات الزام یاتہمت پھیلانا حرام ہے۔اور اگر پھیلائی جائے تو دنیوی سزا یعنی حد بھی لگے گی۔اور اخروی سزا یعنی عذاب جہنم بھی ہوگا۔لیکن کسی شخص ،ادارہ یا حکمران کی غلطی یا جرم جس کے نتائج کے اثرات دوسرے انسانوں پر یا پوری قوم پر پڑ رہے ہوں اور جس سے معاشرتی بگاڑ کا اندیشہ ہو،اس پر خاموش رہنا بھی جرم ہے۔چنانچہ اس کا عیاں کرنا اور پھیلا دیناا ہی حق گوئی و بے باکی اور جہاد شمار ہوگا۔"
پاکستان کے لئئے ابلاغ کی اہمیت دوسرے ممالک کے مقابلے میں اس لئے زیادہ ہے کہ پاکستان کی تخلیق ایک نظریہ کوراہنما بنا کر رائے عامہ کی بدولت ہوئی تھی۔اور یہ حقیقت ہے۔ کہ رائے عامہ کی تشکیل اور الگ وطن کےلئے رائے عامہ کی ہمواری کے سلسلے میں صحافت نے تاریخی کردار ادا کیا تھا۔جس سے پاکستان کی منزل قریب تر ہوگئی تھی۔تاہم پاکستان کے وجود میں آجانے کے بعدآزاد قوم کی حیثیت سے قومی مقاصد کےحصول کےلئے سیاسی تنظیمیں اور ذرائع ابلاغ کو جس معیار اور جس انداز کا ابلاغ عوام سےکرنا چاہیےتھا وہ نہ ہوسکاہے۔نتیجتاً یہ ملک بہت سی سیاسی اور معاشرتی برائیوں کی آماجگاہ بن گیا ہے۔برصغیر میں صحافت کی ابتداء کا جائزہ لیں تو صحافت ایک مشن،ایک جزے اور ایک انقلابی سوچ کے طور پر سامنے آتی ہے۔اس میدان میں ایسی شخصیات نے خدمات سرانجام دیں جو اپنے کردار کے لحاظ سے مثالی حیثیت کی حامل تھیں۔ان میں مولانا ابوالکلام آزاد،مولانا ظفر علی خاں،مولانا محمد علی جوہر،آغاشورش اور حمید نظامی ایسی بلند پایہ نادر روزگارشخصیات نمایاں ہیں۔تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ ان حضرات نے ذاتی آرام وسکون اور مفادات کو نظر اندازکرتے ہوئے قومی وملی مفادات کا تحفظ بے پناہ مصائب وآلام اٹھا کر کیا۔انہوں نے صحافت کو معاشرتی اصلاح کا ذریعہ بنایا۔
صحافت کی ان اعلیٰ مشنری اقدار نے اس وقت کروٹ لی۔جب صحافت مشن کی بجائے صنعت کا درجہ اختیار کرگئی۔ستم یہ ہوا کہ صحافت کے کاروبار بن جانے سے مشن کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے مالی منفعت کو ہی مقصد قرار دے دیا گیا حالانکہ صحافت کےکاروبار بن جانے سے نظریہ اور جدوجہد کی کشمکش بھی زندہ ر ہنی چاہیےتھی۔اور تجارت کو ثانوی درج پر ضمناً آنا چاہیے تھا ۔افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا اور صحافتی ضابطہ اخلاق صرف کتابی آئیڈیا لوجی کی حیثیت اختیار کرگیا۔
یہ درست ہے کہ آج بھی ایسے حق گوئی وبے باکی کے پیکر صحافی موجود ہیں جو قلم کی حکومت پر سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں۔اور ضمیر کی آواز حق سے کسی لمحہ بھی غافل نہیں ہوتے ہیں۔یہی لوگ ہیں جو ہروقت"سچ"اور "حق" کو عام کرنے میں کوشاں ہیں۔
لیکن دوسری طرف سے اس سے بھی انکار ناممکن ہے۔کہ صحافت برادری میں ایک"استحصالی طبقہ" بھی موجود ہے۔جس نے مصلحت بینی اختیار کرتے ہوئے حالات سے سمجھوتہ کرلیا ہے اور وہ صحافت کی طاقت کا ناجائز فائدہ اٹھا کرلوگوں کو بلیک میل کرنے میں مصروف ہے یہ لوگ سچائی کے سوداگر اور جھوٹ کے امام ہیں۔یہ انہی کا کیادھرا ہے کہ صحافت نے وہ رنگینی ودلکشی اختیار کی کہ قوم کے مزاج کو ہی بگاڑ کررکھ دیا گیا ہے۔اس سے جہاں اطلاعات اورخبر کی CREADIBILITYیا صداقت سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔وہاں زرد صحافت اور فحاشی وعریانی نے بھی اپنے گل کلائے ہیں۔ٹی وی اور این ٹی ایم پر عشق ومحبت پر مبنی فلمیں اور ڈرامے پر ہروقت گیتوں کی صدائیں اوراخبارات میں انگڑائیاں لیتی ہوئی عورتوں کی رنگین تصاویر آج ہماری صحافت کی پہچان ہیں۔
کیا موجودہ صورت حال ہمارے لئے تشویش کا باعث نہیں ہے؟کہ وہ ذرائع جن کی بدولت ہم قومی کردار کی تعمیر کرسکتے تھے۔۔جن ذرائع سے ہم تعلیم عام کرکے جہالت اور ناخواندگی کا کاتمہ کرسکتے تھے۔جن ذرائع کے ذریعے ہم قوم کو سیاسی جمہوری شعور وآگہی بخش سکتے تھے،جن ذرائع سے ہم بلا شبہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کاعظیم فریضہ سر انجام دے سکتے تھے۔آج وہی ذ رائع بحیثیت مجموعی معاشرہ کے اسلامی تشخص کو مسخ کرنے میں سرگرم عمل ہیں۔سنسنی،بے چینی،اورافراتفری پھیلائی جارہی ہے چنانچہ یہ کہنا زیادتی نہ ہوگی کہ آج ہمارے ذرائع ابلاغ غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔
سرکاری تحویل میں کام کرنے والے ذرائع ابلاغ خصوصاً الیکٹرانک میڈیا نےہمیشہ برسر اقتدار حکومت کی پالیسیوں کو ہی آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے۔جس کی وجہ سے یہ ذرائع بڑی حد تک عوامی اعتماد کا درجہ کھوچکے ہیں۔جبکہ نجی شعبے کے تحت کام کرنے والے ذرائع یعنی اخبارات نے صنعت کا درجہ پاکر باہمی مقابلے ومسابقے کی دوڑ میں اعلیٰ صحافتی اخلاقی اقدار کو نظر اندا ز کررکھا ہے۔لہذا ضرورت ہے کہ آج صحافت کے قبلہ کو صحیح سمت دی جائے،اس شعبہ میں موجود ایسی کالی بھیڑوں کو نکال باہر کیاجائے،جنھوں نے ذاتی مفادات کی خاطرقومی مفادات کو داؤ پر لگا رکھا ہے۔آج صحافت کو اسلام کے ابلاغی نظریہ کے ذریں اصولوں کو اپنانے کی ضرورت ہے۔تاکہ ہم پھر سے ا پنی اس حقیقی منزل کی طرف رواں دواں ہوجائیں جس کا تعین ہم نے تحریک پاکستان کے وقت کیاتھا۔اور جس منزل کو پالینے کے لئے ہمارے آباؤاجداد نے بے پناہ قربانیاں دی تھیں۔
آج بھی ذرائع ابلاغ اپناموثر کردار ادا کرکے صوبائی عصبیت اور لسانی وعلاقائی تعصب کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔صوبوں کے درمیان پیدا ہونے والی غلط فہمیاں دور ہوسکتی ہیں۔اور چاروں صوبے کی عوام کو اخوت وبھائی چارے کی لڑی می پرویا جاسکتا ہے۔اس تلخ حقیقت سے انکار کیسے ممکن ہے۔ کہ سقوط مشرقی پاکستان کا سب سے بڑا سبب آپس میں رابطے کی کمی کے باعث ذہنی ہم آہنگی کا نہ ہوناتھا۔آج بھی حالات کا تقاضا ہے کہ چاروں صوبوں کی عوام کے درمیان ذرائع ابلاغ مضبوط ر ابطے کاکام دیں۔چاروں صوبوں کی ثقافت،رہن سہن اور حالات سے ایک دوسرے کو روشناس کروایا جائے۔تاکہ کسی بداندیش دشمن کو ہماری صفوں میں رخنہ ڈالنے کی جسارت نہ ہو۔گویا ملکی سلامتی تحفظ کے لئے ذرائع ابلاغ انتہائی اہم کردار اداکرسکتے ہیں۔
آج جہاں یہی ذرائع ابلاغ قوم میں بے چینی،تشدد اور ماردھاڑ کی سیاست کو جنم دے رہے ہیں۔اور لادینیت ان کے رگو وپے میں نفوذ کرچکی ہے۔اوراسلامی نظامہائے حیات سے نفرت ان کے اشاروں کنایوں سے ہویداہے۔ضرورت ا س امر کی ہے کہ قوم کو سیاسی انارکی سے نکال کر تعمیری وفلاحی تربیت پر توجہ دیجائے۔قوم میں اسلامی نظریات کو پختہ کیا جائے اور ان کی فکری تربیت کے لئے معقول انتظام،وانصرام ہوتو یہی ذرائع قوم کے لئے مفید اور ان کے لئے سکھ چین کی آماجگاہ بن سکتے ہیں۔اور ا نہی کے ذریعے ہی پاکستان میں نفاذ اسلام کو عملی شکل دینا ممکن ہے۔