فتاویٰ جات
(الف)قبرستان میں جاکر دعا مانگنا؟
(ب)عورت کےلئے گھر میں اعتکاف کا حکم؟
(ج)تراویح کے دوران تسبیحات کے لئے وقفے کا حکم؟
واجب الاحترام حضرت مولانا حافظ صاحب۔
سلام مسنون کے بعد چندسوالات کے جوابات درکار ہیں۔کتاب وسنت کی روشنی میں جواب سے نواز کر عنداللہ ماجور ہوں۔
1۔قبرستان میں جا کر ہاتھ اٹھا کردعا مانگنا کیسا ہے؟
2۔میت کی تدفین کے بعد اجتماعی دعا مانگنا؟
3۔موت شدہ آدمی کے گھر تین دن کے بعدبطور تعزیت جانے کاکیا حکم ہے؟
4۔نکاح پڑھنے سے پہلے دلہن کے پاس تین آدمیوں کو گواہ بنا کر بھیجا جاتا ہے کیا یہ درست ہے؟
5۔عورت کے ا عتکاف کےلئے کیا حکم ہے گھر میں اعتکاف بیٹھے یا نہ؟
6۔چار رکعت نوافل کے آخری دو رکعتوں میں فاتحہ کے ساتھ سورتیں ملانے کاحکم؟
7۔تسبیح کس ہاتھ پر پڑھی جائے نیز کس انگلی سے ابتداء کی جائے؟
8۔وتر میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی جاسکتی ہے؟
نماز تروایح کے دوران تسبیحات کے لئے وقفے کا اہتمام درست ہے یا نہیں؟(سائل :۔ثناء اللہ محمد (سندھ)
1۔قبرستان میں ہاتھ اٹھا کردعاکرنا؟
الجواب بعون الوہاب:۔قبرستان میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرناجائز ہے چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے۔
'حتى جاء البقيع فقام فأطال القيام ثمّ رفع يديه ثلاث مرات ثمّ انحرف فإنحرفت
(مسلم ج1،ص313،سنن النسائی ج1ص 286،تا289 "الامر بالاستغفار للمومنین")
2۔دفن میت کے بعد قبر پر اجتماعی دعا کا حکم ؟
بعد از تدفین میت کے لئے دعا ومغفرت کرنا اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے عمل سے ثابت ہے۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔
عن عفان رضي الله عنه قَالَ : كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَيِّتِ وَقَفَ عَلَيْهِ فَقَالَ : ( اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيكُمْ وَسَلُوا لَهُ بِالتَّثْبِيتِ فَإِنَّهُ الْآنَ يُسْأَلُ
(روای ابو داود وقال العزیزی اسنادہ حسن)
یعنی"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دفن میت سے فارغ ہوکر قبر پر کھڑے ہوتے اور فرماتے"اپنے بھائی کے لئے دعائے بخشش کرو،پھر اس کے لئے اللہ کے حضور ثابت قدمی کی دعا کرو کیونکہ اس سے اس وقت سوال کیا جارہا ہے"حدیث ہذا محتمل ہے کہ دعاء استغفار انفرادی یا اجتماعی ،ہاتھ اٹھا کر ہو یا بلا ہاتھ اٹھانے کے۔
البتہ احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ انفرادی طریقہ کو اپنایا جائے اور ہاتھ اٹھانا بھی ضروری نہیں اس کے بغیر بھی د عا ہوسکتی ہے اگرچہ ہاتھ اٹھانا جائز ہے۔کما سبق
3۔تین دن کے بعد تعزیت کا حکم ؟
تعزیت کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں۔ممکنہ حد تک قریب ترین فرصت میں اظہار تعزیت ہوناچاہیے۔جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی کےبچے کی وفات پر بایں الفاظ تعزیت فرمائی۔
إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَلَهُ مَا أَعْطَى وَكُلُّ شَىْءٍ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى
مذید علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں۔(زاد المعاد:الجزء الاول ص146)
یعنی تعزیت کے لئے اہل میت کے ہاں جمع ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نہیں تھا۔اور نہ میت کے لئے قرآن خوانی کرنا قبر کے پاس اور نہ اس کے علاوہ،یہ جملہ امور خود ساختہ بدعات مکروہ میں شامل ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کار یہ تھا کہ ایسے موقعہ پر خاموشی اختیار فرماتے اور اللہ کی قضا ء اور قدر کے ساتھ رضاء کا اظہار فرماتے،اللہ کی حمدو ثنا کرتے ،انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتے،اور جو آدمی مصیبت کے وقت کپڑے پھاڑتا یا نوحہ کرتا یا سر منڈاتا اس سے بیزاری کا اظہار کرتے اور آپ کی سنت یہ بھی ہے کہ اہل میت لوگوں کو کھاناکھلانے کی تکلیف نہ کریں بلکہ لوگ کھاناتیار کرکے ان کے پاس بھیجیں۔یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم اخلاق کی نشاندہی کرتی ہے۔کہ اہل میت کی پریشانی کی بناء پر لوگوں کو کھانا کھلانے کا بوجھ ان سے ہلکا کردیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ بھی تھا کہ کسی کی میت پر واویلا اورتشھیر عام کرنے سے روکتے۔فرماتے یہ جاہلیت کے امور سے ہے۔حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکروہ سمجھا کہ ان کے اہل ان کی وفات کے موقعہ پر کسی کو اطلاع کریں اور کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ بھی نفی میں شمار نہ ہو۔
4۔تین گواہوں کا دلہن کے پاس جانا؟
شریعت مطھرہ میں بسلسلہ عقد نکاح صرف دو گواہ یا پھر حاضرین مجلس بطور شاہد کافی ہیں۔دلہن کے پاس گواہ بھیجنے کی ضرورت نہیں۔بلکہ اس کی آگاہی اوررضاء(ورغبت ہی کافی ہے۔)
نیز دولہا،دولہن کو کلمے پڑھانا بھی جملہ محدث امور سے ہے جس کا شرع میں کوئی ثبوت نہیں۔
5۔کیا عورت گھر اعتکاف بیٹھ سکتی ہے؟
بلاتفریق مرد وزن اعتکاف کا محل صرف مسجد میں ہے قرآن مجید میں ہے۔
﴿وَأَنتُم عـٰكِفونَ فِى المَسـٰجِدِ﴾
نیز ازواج مطہرات کا اعتکاف مسجد میں ہواکر تاتھا۔(ملاحظہ ہو کتاب الاعتکاف صحیح بخاری)
6۔چار رکعت نوافل کی آخری دو رکعت میں فاتحہ کے ساتھ سورتیں ملانے کا حکم؟
چار رکعت نوافل اور سنن کی صورت میں پچھلی دو ر کعتوں میں سورہ فاتحہ کے علاوہ بھی سورتوں کی قراءت کا جواز ہے۔چنانچہ صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے۔
یصلی أربعا فلاتسأل عن حسنهن و طولهن، ثم یصلی أربعا فلاتسأل عن حسنهن وطولهن
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے چار رکعت پڑھتے ان کی کیفیت کے متعلق پوچھو کہ کتنی اچھی اور کتنی لمبی ہوتی تھیں۔پھر اسی کیفیت کے ساتھ چار رکعات مذید پڑھتے۔ظاہر ہے چار رکعات لمبی تب ہی ہوں گی جب فاتحہ کے ساتھ مذید صورتوں کو ملایاجائے۔
7۔تسبیح صرف داہنے ہاتھ پر پڑھنی چاہیے۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔
رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يعقد التسبيح ) قال ابن قدامة : ( بيمينه )
"یعنی میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ تسبیح کی گرہ لگاتے تھے راوی حدیث ابن قدامہ نے کہا کہ داھنے ہاتھ پر لگاتے تھے۔
نیز حدیث کان یعجبه التیمن کے پیش نظر آغاذ چھوٹی انگلی سے ہونا چاہیے۔(واللہ اعلم)
8۔قنوت وتر میں ہاتھ ا ٹھانے کامسئلہ؟
بعض سلف قنوت و تر میں ہاتھ اٹھاتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبہ وقیام الیل للمروزی) اور بعض علماء قنوت نازلہ پرقیاس کرتے ہوئے بھی رفی الایدی کے قائل ہیں۔کیونکہ قنوت نازلہ میں ہاتھ اٹھانا مرفوعا! صحیح مسلم وغیرہ میں ثابت ہے۔تاہم وتر میں مرفوعاً ہاتھ ا ٹھانا ثابت نہیں لہذا راحج عدم رفع ہے۔
9۔دوران تراویح تسبیحات کے لئے وقفے کا اہتمام؟
نماز تراویح کے دوران تسبیحات پڑھنے کے لئے وقفے کا اہتمام کرناکسی بھی مرفوع متصل روایت سے ثابت نہیں۔البتہ امام ابن قیم ؒ نے"بدائع الفوائد" میں امام احمدؒ سے نقل کیا ہے کہ وہ وقفوں میں درج ذیل کلمات پڑھا کرتے تھے۔
لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ أستغفر الله العظيم الذي لاأله الا هو (ج 4 ص110)