"طلوع اسلام" کا ا شتراکی نظریہ"
زکواۃ کا انکار؟
حدیث سے انحراف اور قرآن میں تحریف!
مسٹر غلام احمد صاحب پرویز کے نظریات کا پرچارک ماہنامہ"طلوع اسلام" جس کا مشن ہی اسلامی مسلمات کا انکار اور ان کی دوراز کارکیک تاویلات ہے۔آئے دن قرآن وحدیث کے خلاف عجیب عجیب شوشے چھوڑتا اورعلمائے اسلام کے خلاف جلے دل کے پھپھولے پھوڑتا رہتاہے۔علماء اس کو منہ اس لئے نہیں لگاتے کہ جہاں تک اس ٹولے کے نظریات کا تعلق ہے۔اس کی حد تک وہ مدلل تغلیط وتردید کرکے ان پر اتمام حجت کرچکے ہیں،اب وہ کہاں تک اس ٹولے کا تعاقب کریں جب کہ وہ بار بار انہی باتوں کی جگالی کردیا ہے۔جس کا وہ پوسٹ مارٹم متعدد مرتبہ کرچکے ہیں۔
جن مسلمات کا یہ ٹولہ انکار کرتا ہے ،ان میں ایک زکواۃ بھی ہے جو اسلام کی ایک مسلمہ عبادت اور اس کے ارکان خمسہ میں سے ایک رکن ہے اور ستم یہ ہے کہ اس متواتر عبادت کا انکار بھی "زکواۃ کا قرآنی مفہوم" کے خوشنما عنوان سے کیا گیا ہے حدیث کے ماخذ اسلام اور حجت شرعیہ تسلیم کرنے سے انکار کے پس پردہ اصل چیز اس ٹولے کے نزدیک ہے ہی یہ کہ اس کے بعد قرآن کے جس حکم ،قانون اور ہدایت کو جو معنی بھی پہنا دیئے جائیں اور اس کی کیسی ہی دوردراز کار کیک تاویل کرلی جائے،اس کی کچھ گنجائش نکل آئے۔کیونکہ قرآن کے ساتھ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حسب ارشاد الٰہی ۔۔۔
﴿وَأَنزَلنا إِلَيكَ الذِّكرَ لِتُبَيِّنَ لِلنّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيهِم... ﴿٤٤﴾... سورةالنحل
سامنے رکھاجائے تو پھر من مانی کرنے کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔حدیث شریف کی رو سے تو" صلواۃ" نماز کا مفہوم بھی متعین ہے اور زکواۃ کی صورت بھی مقرر ،جس کی پشت پر امت مسلمہ کا چودہ سو سالہ عملی تواتر بھی موجود ہے۔ان کا انکار کیوں کر کیا جاسکتا ہے؟چنانچہ اس کے بعد اسلام کو مسخ کرنے کا رستہ ان کے لئے کھل گیا۔
اب پرویزی قرآنی مفہوم کی رو سے نہ نماز کا مطلب وہ ہے جس پر چودہ سو سال سے مسلمان عمل کرتے آرہے ہیں اور نہ زکواۃ کا وہ مطلب ہے جو مسلمان انفاق مال کی ایک متعین صورت سمجھتے آئے ہیں۔اسی طرح دیگر عقائد اسلامیہ اور مسلمات(جیسے ،جنت ،دوزخ،ملائکہ اور معراج جسمانی وغیرہ) کا حال ہے۔ان کے نزدیک ان کی دو صورتیں غلط ہیں،جن پر مسلمان چودہ سال سے ایمان رکھتے اور ان پر عمل پیرا چلے آرہے ہیں اور نام ان سب خلاف عقائد اسلامیہ سرگرمیوں کا طلوع اسلام ہے ۔سبحان اللہ گویا :۔ع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ برعکس نہند نام زنگی کا فوروالا معاملہ ہے۔
بہرحال ہم یہ بیان کر رہے تھے کہ ماہ مئی (1979ء) کے طلوع اسلام میں زکواۃ کا قرآنی مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ:
"زکواۃ عربی زبان میں نشو نما کوکہتے ہیں لہذا ایتائے زکواۃ کے معنی ہوں گے سامان نشو ونما مہیا کرنا اور یہ اسلامی حکومت کا فریضہ ہے۔ کہ وہ افراد معاشرہ کی نشونما کا سامان فراہم کرے اور یہ سامان نشو نما صرف روٹی،کپڑا،مکان ہی کو شامل نہیں بلکہ اس میں وہ تمام اسباب وذرائع شامل ہیں جن سے انسانی صلاحیتوں کی نشو ونما(Devlopment) ہوتی ہے۔"
قرآن کی آیت:۔
﴿الَّذينَ إِن مَكَّنّـٰهُم فِى الأَرضِ أَقامُوا الصَّلوٰةَ وَءاتَوُا الزَّكوٰةَ...﴿٤١﴾... سورةالحج
کا بھی مفہوم یہی ہے ۔یعنی یہ نہیں کہا گیا کہ جب ان کی حکومت قائم ہوگی تو یہ لوگوں سے زکواۃ لیں گے کہا یہ گیا ہے کہ وہ زکواۃ دیں گے۔(افراد معاشرہ کی نشونما کاسامان فراہم کریں گے) ملخص
زکواۃ کا یہ خانہ ساز مفہوم جو چودہویں صدی کے غلام احمد صاحب پرویز کی ذہنی ایج کا شاہکار ہے،ظاہر ہے اس مفہوم سے قطعاً مختلف ہے جو قرآن کے شارح اول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا اور امت کو سمجھایا،اس کی رو سے آپ نے اس کا نصاب اسکی شرح اور اس کا وقت (ایک سال گزرنے کے بعد) بھی بتلایا۔تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین تابعینؒ وتبع تابعینؒ فقہاء ومحدثین نے اس کے مطابق عمل کیا اور اس وقت سے اب تک پوری امت مسلمہ ایتائے زکوۃ پر عمل کررہی ہے۔اب جب یہ کہا جائے گا کہ زکواۃ کا تو یہ مطلب ہی نہیں ہے کہ مال جمع ہو،اور اس پر ایک سال گزر جائے تو اس میں سے ڈھائی فیصد سال نکال دو بلکہ قرآن نے تو اس کا مطلب کچھ اور نکالا ہے۔تو ظاہر بات ہے کہ اس کے لئے ایک تو ان تمام احادیث کا انکار کرنا پڑے گا جن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زکواۃ کا نصاب اس کی شرح اس کاوقت اور دیگر تفصیلات بیان فرمائی ہیں۔دوسرے ذ اتی ملکیت کی نفی کرنی پڑے گی۔کیونکہ طلاع اسلام کی رو سے افراد معاشرہ کے ایک ایک چیز کی ذمہ دار حکومت ہے۔خود کسی فرد کو فاضل دولت اپنے پاس رکھنے کی اجازت ہی نہیں ہے۔
تیسرے ملکیت زمین کا بھی ا نکار کرنا پڑے گا۔کیونکہ ملکیت زمین کی صورت میں عشر نکالنے کامسئلہ پیدا ہوگا۔
چنانچہ "طلوع اسلام" کے اداریہ نوٹس نے پوری جرات سے اپنے مذکورہ اداریئے میں ان تمام چیزوں کا ا نکار کیا ہے۔احادیث کو رد کرنے کے لئے تو ان حضرات کو یہ آسان سا صدری نسخہ مل گیاہے کہ جس حدیث کو نہ ماننا ہو بغیر کسی ادنیٰ تامل کے کہہ دیا جائے کہ یہ حدیث وضعی(من گھڑت) ہے۔یہاں بھی یہی پیٹنٹ فارمولا استعمال کرکے ایسی تمام احادیث کو وضعی قرار دے دیاگیا ہے جن میں جمع شدہ مال پر زکواۃ نکالنے کا حکم ہے۔
بنا بریں ذاتی ملکیت اور زمین کی ملکیت کی نفی کے لئے قرآن کی متعدد آیات میں معنوی تحریف کی گئی ہے۔مثلاً
﴿وَأَن لَيسَ لِلإِنسـٰنِ إِلّا ما سَعىٰ ﴿٣٩﴾ وَأَنَّ سَعيَهُ سَوفَ يُرىٰ ﴿٤٠﴾ ثُمَّ يُجزىٰهُ الجَزاءَ الأَوفىٰ ﴿٤١﴾... سورةالنجم
نہ انسان کو وہی ملے گا جو اس کی سعی ہے اور اس کی سعی ضرور دیکھی جائے گی۔پھر اس کو بدلہ ملنا ہے اس کاپورا بدلہ ۔یہ آیت آخرت کے متعلق ہے کہ وہاں انسان کو وہی کچھ ملے گا جو اس نے کمایا ہوگا۔یہ نہیں ہوگا کہ کسی کا بوجھ دوسرے پر ڈالا جائے۔نیز ہر ایک کی سعی وکوشش اس کے سامنے رکھ دی جائےگی۔اوراس کے مطابق پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔
طلوع اسلام نے آیت﴿ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ﴾ کو معاشیات سے نتھی کرکے یہ اشتراکی نظریہ کشید کیا ہے کہ انسان صرف اسی کا حق دار ہے جس کے لئے وہ محنت کرے ۔یعنی اس نظام میں ہر فرد کا سب ہوگا محنت کش ہوگا کرم کرے گا۔(مئی 1979ءصفحہ 4) یہ وہی خالص کمیونسٹ اصول ہے جس کی رو سے کوئی شخص اپنی محنت کی کمائی (EARNED INCOME) کے سوا کسی چیز کا مالک نہیں ہوسکتا۔اگر اس آیت کا یہی مطلب ہو جیسا کہ اداریہ نویس نے لیاہے تو احادیث کو تھوڑی دیر کے لئے چھوڑ دیجئے(کہ یہ اس کی حجیت ہی کے منکر ہیں) خود قرآن کے کئی احکام سے یہ آیت ٹکرائے گی۔جیسے وراثت کا حکم ہے جس کی تفصیلات قرآن میں بھی ہیں کہ ایک شخص کے ترکے میں سے بہت سے افراد حصہ پاتے ہیں۔اور وہ اپنے حصے کے جائز مالک قرار پاتے ہیں۔حالانکہ یہ میراث ان کی اپنی محنت کی کمائی نہیں ہوتی۔حتیٰ کہ ایک شیر خوار بچہ بھی میراث کے مال کا مالک قرار پاتا ہے۔ جب کہ اس کی محنت کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔اسی طرح زکواۃ وصدقات کے احکام میں جن کی رو سے ایک آدمی کا مال دوسروں کو محض ان کے شرعی واخلاقی استحقاق کی بناء پر ملتا ہے۔اور وہ بھی اس کے جائز مالک سمجھتے جاتے ہیں(بلکہ کئی علماء زکواۃ کی ادائیگی کے لئے تملیک کو شرط قرار دیتے ہیں) حالانکہ اس مال کے پیدا کرنے میں ان کی محنت کا کوئی حصہ نہیں ہوتا اس لئے آیت کا ایسا مفہوم جو قرآن ہی کے دیگر احکام اور قوانین سے ٹکرائے کیونکر صحیح ہوسکتا ہے ؟اور یوں ذاتی وزمینی ملکیت کی نفی کا اثبات خود قرآن کے متعدد احکام کی نفی کئے بغیر نہیں ہوسکتا۔اسی لئے تو علماء کہتے ہیں کہ حدیث کاانکار قرآن کے انکار کو مستلزم ہے اور حجیت حدیث کا منکر ٹولہ قرآن کا بھی منکر ہے۔یہی حال دیگر آیات کا ہے جن سے دجل وتحریف کرکے ادارئیے میں کام لیا گیا ہے سب کا جائزہ لیا جائے تو مضمون بہت طویل ہوجائےگا۔ مذکور آیات کی وضاحت سے ہی اداریہ نگار کے مبلغ علم انداز استدلال اور قرآنی تحریف کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ مقصد اس کی اس ساری کاوش کا یہ ہے کہ نظام زکواۃ کے اس مفہوم سے ا نکار کردیا جائے جس پر قرآن وحدیث کی روشنی میں آج تک مسلمان عامل چلے آرہے ہیں۔اس لئے کہ اس مفہوم سے بہرحال ذاتی ملکیت ہی کا اثبات ہوتا ہے۔جسے اشتراکیت گوارا نہیں کرتی۔اور مفکر قرآن ہیں کہ قرآنی نظام ربوبیت کے عنوان سے اشتراکیت کو اسلامی معاشرے میں نافذ کرانے کے درپے ہیں۔اس لئے بے چارے مجبور ہیں کہ احادیث صحیحہ کا انکار کیا جائے،تعامل وتواتر امت کو نظر انداز کیا جائے۔اس سے بھی کام بنتا نظر نہ آئے تو آیات میں معنوی تحریف کرکے مطلب برآوری کرلی جائے۔اقبال مرحوم نے ایسے ہی "مفکرین" کے لئے مختلف موقعوں پر کہا تھا۔ع۔
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں کس درجہ ہوئے فقیھان حرم بے توفیق
احکام تیرے حق ہیں مگر اپنے مفسر تاویل سے قرآن کو بناسکتے پازند
قرآن کو بازیچہ اطفال بنا کر چاہے تو خود اک تازہ شریعت کرے ایجاد
در اصل پرویزی ٹولے کی تکنیک یہ ہے کہ جب بھی قرآن وحدیث پر مبنی فقہ اسلامی کے نفاذ کی بات ملک میں آتی ہے۔ اسی وقت مسلمانوں کے باہمی علمی اور عملی ذیلی اختلافات کو ہوا بنا کر ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیتے اور مغالطوں کا انبار لگا دیتے ہیں۔اور سادہ لوحوں کو متاثر کرنے کےلئے ڈاکٹر محمد اقبال مرحوم کی (غلط یاصحیح) آڑ لیتے ہیں اور نہیں سوچتے کہ مرحوم اپنی ساری خوبیوں کے باوجود قرآن فہمی کے لئے کوئی اتھارٹی ہیں نہ اسلام کے لئے۔وہ خود بھی فہم اسلام کے لئے قرآن وحدیث اورفقہ اسلامی کے ماہر علماء کی طرف ہی رجوع فرماتے تھے۔
ہم پرویز بٹالوی اور ان کے ہم نواؤں کو یقین دلاتے ہیں۔ کہ جمہور مسلمان ان کے افکار عالیہ کو ان شاء اللہ کبھی ہضم نہ کرسکیں گے جیسا کہ ان کے ہم نام ہم وطن غلام احمد قادیانی(متصل بٹالہ) کے "الہانات عالیہ" کو اس کے ہزار جتنوں کے باوجود ہضم نہیں کرپائے۔
"نورحدیث" ہے کفر ،کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
پیٹ کامسئلہ:۔
واقعہ یہ ہے کہ اشتراکی کوچہ گردوں (جس میں طلوع اسلام بھی شامل ہے) کی کاوشوں کی ساری تان پیٹ پر آکر ٹوٹتی ہے ۔جس طرح بھٹو نے روٹی ،کپڑا ۔مکان کانعرہ لگایا تھا اسی طرح "طلوع اسلام" کے نزدیک بھی سب سے زیادہ اہم مسئلہ معاش ہی کا ہے۔زکواۃ کے مفہوم میں تبدیلی کے پیچھے کارفرمابھی در اصل اس کا یہی ذہن ہے۔
روزگار(معاش) کا مسئلہ بلاشبہ اپنی جگہ اہم ہےاسلام اس سے ہرگز صرف نظر نہیں کرتا۔تاہم اسلام میں اس کی وہ حیثیت بھی نہیں جو حیثیت آج کل اسے معلوم وجوہ کی بناء پر دے دی گئی ہے۔مادی واشتراکی ذہن نے پیٹ کے مسئلے کو ہی سب کچھ بنا دیا ہے۔اور اسی بنیاد پر پورے نظام زندگی کا نفاذ کرتا ہے۔جب کہ اسلام کے نزدیک یہ مسائل حیات کا ایک جز ہے۔کل مسئلہ حیات نہیں وہ اسے مجرد معاشی نقطہء نظر سے حل نہیں کرتا بلکہ وہ ایمان واخلاق کے حوالے سے اس کی درستگی کا قائل ہے۔ اس لئے اسلام کی نظر میں سرفہرست مسئلہ معاش نہیں ،ایمان واخلاق کی پختگی ودرستگی ہے۔وہ کہتا ہے کہ افراد معاشرہ اگر ایمان سے بہر ور اور اخلاقی اوصاف سے متصف ہوں گے تو وہاں مسئلہ معاش ازخود آسان اور فطری طریقے سے حل ہوجائے گا۔اگرافراد معاشرہ ایمان واخلاق سے بے بہرہ ہوں گے تو وہاں کبھی بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت کا آغاذ روٹی،کپڑا،مکان کے نعرہ سے نہیں کیا۔حالانکہ امیر وغریب میں تفاوت اور معاشی ناہمواری اس دور میں بھی بدترین شکل میں موجود تھی۔بلکہ آپ نے اپنی د عوت کا آغاذ شرک کی واشگاف تردید اور توحید الوہیت کی تبلیغ سے کیا۔عقیدے کی پختگی اور درستگی کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تذکیہ نفس اور تطہیر اخلاق پرزور دیا اور دنیا نے دیکھ لیا کہ عقیدہ واخلاق کی درستگی نے پیٹ کے مسئلے کو پیدا ہی نہیں ہونے دیا از خود اس کے حل کی راہیں نکل آئیں۔بنا بریں آج بھی ہمارے معاشرہ کا سب سے اہم مسئلہ روزگار کا مسئلہ نہیں۔جس طرح کہ"طلوع اسلام" اوردیگر اشتراکی اور آج کل کے اکثر سیاسی لیڈروں کا خیال ہے بلکہ اصل ضرورت ایمان واخلاق کے درست کرنے کی ہے اور اسی پرمعاش کی درستگی کا انحصار ہے۔ایمان واخلاق کی تصیح کے بغیر مجرد معاشی اصلاح کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا (سوشلزم کے باواآدم "سوویت یونین" کی شکست وریخت سے بھی یہ بات واضح ہوگئی ہے)
آیت " قُلِ الْعَفْوَسے غلط استدلال؛۔
مسئلہ شکم کو سب کچھ سمجھنے والے سب قرآن کی یہ آیت پیش کرتے ہیں۔
﴿وَيَسـَٔلونَكَ ماذا يُنفِقونَ قُلِ العَفوَ ...﴿٢١٩﴾... سورة البقرة
"لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیاخرچ کریں؟آپ انہیں کہہ دیں جو زائد از ضرورت ہے"
﴿وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ﴾ کی طرح اس آیت سے بھی چونکہ عام طور پرغلط استدلال کیا جاتا ہے۔"طلوع اسلام" نے بھی اپنے مخصوص نظریات کی تائید میں اسے پیش کیا ہے اس لئے اس کا وہ مفہوم سمجھ لینا چاہیے جو مفسرین امت نے سمجھا اور بیان کیا ہے۔
اس آیت کی تفسیر وتشریح میں مفسرین کے درمیان گو قدرے اختلاف ہے تاہم مال سب کا ایک ہے۔دوسرے کسی مفسر نے اس آیت سے وہ مطلب اخذ نہیں کیا جو آجکل کے اشتراکی ذہن کے لوگ عام طور پر خام مطالعہ یامخصوص مقاصد ونظریات کے تحت لیتے ہیں۔
اس آیت کے متعلق بعض مفسرین کا خیال ہے کہ ابتدائے اسلام میں جب کہ نصاب زکواۃ کی تعین نہیں ہوئی تھی اس وقت یہ حکم دیاگیا تھاجو بعدمیں نصاب زکواۃ کے تعین کے ساتھ منسوخ ہوگیا۔
بعض کا خیال ہے کہ آیت مجمل ہے جس کی تفسیروتوضیح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نصاب زکواۃ بیان کرکے فرمادی اسطرح یہ آیت نہ منسوخ ہے نہ اس کا تعلق خارج از زکواۃ سے ہے۔
بعض مفسرین کے نزدیک سرے سے اس کا تعلق زکواۃ سے ہے ہی نہیں۔صدقات نافلہ سے اس کا تعلق ہے۔اور مطلب اس کا یہ ہے کہ زائد از ضرورت مال میں سے جتنا باسانی خرچ کرسکتا ہو۔اسے انسانیت کی فلاح وبہبود پرصرف کرنے میں دریغ نہیں کرنا چاہیے۔
ان میں سے جو مطلب بھی لیاجائے یہ بہرحال واضح ہے کہ اس سے وہ مفہوم کسی طرح بھی اخذ نہیں کیا جاسکتا جو آج کل اس سے کشید کرکے ذاتی ملکیت ہی کی نفی کے لئے اسے استعمال کیا جارہا ہے۔علاوہ ازیں پوری امت کاتعامل بھی اس آیت سے وہ مفہوم اخذ کرنے میں مانع ہے جو"طلوع اسلام" سمیت اشتراکی ذہن کے لوگ کررہے ہیں یاجیسے بعض حضرات نے شاعرانہ رنگ میں کیا ہے۔ علاوہ ازیں ضرورت کی تعین بھی کیوں کر ہوگی؟ہرشخص کی ضرورت دوسرے شخص کی ضرورت سے مختلف ہے پھر زائد ز ضرورت کا ایک متعین اور قابل عمل مفہوم کیاہوگا؟
شرح نصاب میں تبدیلی کامسئلہ:۔
آخر میں "طلوع اسلام" کے اداریہ نویس نے بعض حضرات کے نامکمل اقتباسات پیش کر کے یہ تاثر دیا ہے کہ یہ حضرات بھی جو نصاب زکواۃ کے قائل ہیں موجودہ حالات میں اس شرح زکواۃ پر مطمئن نہیں۔جو چودہ سو سال قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمائی تھی اور وہ اس میں حالات کے مطابق تبدیلی کے خواہاں ہیں۔گویا وہ یہ کہناچاہتا ہے کہ ہم تو زکواۃ کےاس مفہوم کے پہلے ہی قائل نہیں ہیں جس پرچودہ سو سال قبل امت مسلمہ عمل کرتی آرہی ہے۔(جیسا کہ گزشتہ کی بنا پر زکواۃ اور اس کے نصاب کے قائل ہیں وہ بھی اب اس میں تبدیلی چاہتے ہیں۔
حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے۔امت مسلمہ اس امر پر متفق ہے۔ کہ منصوص احکام میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں اور قرآن ہی کی طرح احادیث صحیحہ بھی اجماعاً حجت شرعیہ ہیں۔بنا بریں قرآنی احکام کی طرح وہ احکام بھی غیر متبدل ہیں۔ جو احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں۔زکواۃ کا وجود نص قرآنی سے ثابت ہے۔اور اس نصاب اوردیگر تفصیلات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے لہذا کسی مسلمان کے لئے نہ زکواۃ کا انکار ممکن ہے نہ اس کے نصاب سے تغافل واعراض کی کوئی گنجائش۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ چودہ سو سال کاعرصہ کوئی معمولی عرصہ نہیں۔کیا چودہ سو سال کے اس طویل عرصے میں انقلابات نہیں آئے؟حالات وظروف میں تبدیلیاں نہیں ہوئیں؟اور نت نئے تقاضوں نے سر نہیں ابھارا؟ اگر منصوص احکام میں تبدیلی کی ذرا بھی گنجائش ہوتی تو کیا آج تک ا سلام کا ہر حکم بدل نہ چکا ہوتا؟یا اب اگر اس کی اجازت دے دی جائے تو کیا پورے اسلام کاتیا پانچہ ہوکر نہیں رہ جائے گا؟اسلام اپنی اصلی حالت میں اب تک موجود صرف اسی لئے ہے کہ ایک طرف اس کے منصوص احکام غیر متبدل ہیں۔دوسری طرف اس میں اتنی جامعیت ہے کہ منصوص احکام میں تبدیلی کئے بغیر وہ ہردور کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہوسکتا ہے۔نصوص قرآن وحدیث کی یہی وہ ہمہ گیر وسعت ہے جو اس کو دوسرے مذاہب سے ممتاز کرتی ہے۔واقعہ یہ ہے کہ اسلام کےاحکام میں تشکیک پیدا کرنے والے اس میں قطع وبرید کا مشورہ دینے والے اسلام کے خیر خواہ نہیں اس کے دشمن ہیں۔وہ اس کے روئے آب دار کو مسخ کرنا چاہتے ہیں۔اور اس کی جامعیت وہمہ گیریت کو ختم کرکے درحقیقت اس کو اپنے نفسانی تقاضوں کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔
زکواۃ شرعاً عبادت ہے،ٹیکس نہیں:۔
در اصل ایسے لوگ جو زکوۃ کی شرعی حیثیت میں غلط فہمی یا مغالطے کا شکار ہیں وہ زکوۃ کو ایک قسم کا ٹیکس سمجھتے ہیں جس میں حکومت وقت کو ا پنی ضروریات اور حالات وظروف کے مطابق کم بیشی کا حق ہوتا ہے۔(طلو اسلام کے اداریہ نویس نے بھی زکوۃ کا خود ساختہ مفہوم اس کو ٹیکس سمجھتے ہوئے ہی بیان کیا ہے) حالانکہ زکواۃ ٹیکس نہیں عبادت ہے۔بنابریں اس مسئلے کو سمجھنے کے لئے زکواۃ کی تعبدی شان کا سمجھنا بڑا ضروری ہے۔
چند امور پرغور کرنے سے زکواۃ کی تعبدی حیثیت واضح ہوکر سامنے آجاتی ہے مختصراً وہ امور درج ذیل ہیں۔
1۔جن پانچ ارکان پر اسلام کی بنیاد رکھی گئی ہے۔بني الإسلام على خمس ان میں کلمہ توحید کے بعد حج،نماز،روزہ،اورزکواۃ ہے۔اور ان چاروں ارکان کی شرعی حیثیت عبادت کی ہے ان میں کسی قسم کی تفریق نہیں کی جاسکتی۔
2۔ قر آن میں بیشتر مقامات پر نماز کے ساتھ زکواۃ کا بھی ذکر ہے۔قرآن بار بار أَقِيمُوا الصَّلَاةَ کے ساتھ وَآتُوا الزَّكَاةَ کی بھی تلقین کرتا ہے جس سے صاف واضح ہے کہ اس کی نظر میں زکواۃ بھی اسی طرح عبادت ہے جس طرح نماز۔
3۔خلافت صدیقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا سب سے پہلا اجماع منکرین زکوۃ کے ارتداد اور واجب القتل ہونے پر ہوااور ان سے کافروں کی طرح جنگ کی گئی ان کےمردوں کو قتل اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنایا گیا ۔اگر زکوۃ کی حیثیت ٹیکس کی ہوتی تو ٹیکس کے انکار سے کوئی مسلمان کافر اور واجب القتل نہیں ہوتا۔دراں حالیکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے ان مانعین زکوۃ کو بالاجماع مرتد قرار دیا اور ان سے جنگ کی۔
4۔زکوۃ صرف مسلمانوں پر فرض ہے اسلامی قلمرو میں بسنے و الے کافروں پر نہیں حالانکہ اگر یہ ٹیکس ہوتا تو بلا تفریق مسلم وکافر اسلامی قلمرو میں بسنے والے ہر شخص پر یہ عائد ہوتا۔نہ کہ صرف مسلمانوں پر اس سے واضح ہے کہ زکواۃ عبادت ہے جس کا مکلف ہی مسلمان ہے۔
5۔قرآن نے زکوۃ کی وہ مدعات بھی بیان کردی ہیں جہاں ذکوۃ صرف کی جائے گی اور ہو آٹھ مصارف ہیں ان کے علاوہ کسی جگہ زکوۃ خرچ نہیں کی جاسکتی۔اور کسی حکومت کو بھی حتیٰ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس میں تبدیلی کا مجاز تسلیم نہیں کیا گیا۔حالانکہ یہ ٹیکس ہوتا تو اس کے مصارف متعین نہ ہوتے ہر حکومت کا حق حاصل ہوتا کہ وہ اپنی صوابدید اور ضروریات کے مطابق جس طرح چاہے خرچ کرے جس طرح عموماً ٹیکسوں میں ہوتا ہے۔
6۔علاوہ ازیں زکوۃ کے لئے جو شرعی الفاظ مستعمل ہیں۔وہ بجائے خود اس کی عبادتی شان کے مظہر ہیں۔زکوۃ تذکیہ سے ماخوذ ہے۔اس کا مطلب ہے کہ زکوۃ ۔زکوۃ ادا کرنے والے کے جان ومال کاتطہیر کاسبب ہے۔جس طرح کے احادیث میں اس کی وضاحت آتی ہے اس کے لئے دوسرا لفظ صدقہ ہے جو بکثرت زکوۃ کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔
﴿خُذ مِن أَموٰلِهِم صَدَقَةً تُطَهِّرُهُم وَتُزَكّيهِم بِها...﴿١٠٣﴾...سورة التوبة
"اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ ان کے مالوں سے صدقہ (زکوۃ) لے کر ان کے مالوں کو اور ان کے نفوس کا تذکیہ کردیں۔"ظاہر ہے کہ صدقہ اسی کو کہتے ہیں جو محض اللہ کے لئے اجر وثواب کی نیت سے ادا کیا جائے۔اور یہ اجر وثواب کی نیت ہی اس کی عبادت ہونے کی ایک بڑی دلیل ہے۔ٹیکس کو نہ کبھی کسی نے صدقے سے تعبیر کیا ہے نہ اس کی ادائیگی میں اجر وثواب کی نیت ہی ہوتی ہے۔پھر یہ بات بھی نہیں کہ ٹیکس کے لئے عربی زبان میں کوئی لفظ نہ آتا ہو۔اور الفاظ کی تنگ دامانی کی وجہ سے ٹیکس کو زکوۃ سے تعبیر کردیاگیا ہو۔بلکہ ٹیکس کے لئے عربی میں عام طور پر "ضربیہ" (جمع ضرائب9 بولا جاتاہے۔اس سے اجتناب ہی اس بات کی دلیل ہے کہ ٹیکس(ضربیہ) اور ہے اور زکوۃ اور ہے بہرحال مذکورہ امور سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ زکوۃ اسی طرح ایک عبادت ہے جس طرح روزہ،حج،نماز اوردیگر عبادات ہیں۔اور جسطرح عبادات کی ہیت (کیفیت وکمیت) میں تبدیلی کا کوئی مجاز نہیں اسی طرح شرح زکوۃ میں بھی کمی بیشی کا کسی کو اختیار نہیں ہے۔پھر ان سب سے بڑھ کر امت مسلمہ کا اجماع ہے۔چودہ سو سال سے امت مسلمہ زکوۃ ادا کرتی رہی ہے ۔بڑے بڑے انقلاب آئے،حالات وظروف بدلے،لیکن تغیر حالات سے کسی نے یہ استدلال نہیں کیا کہ زکوۃ کی شرح میں کوئی تبدیلی کردی جائے۔حالات صرف آج ہی نہیں بدلے یہ تو بدلتے ہی آئے ہیں۔
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
لیکن ان کے ساتھ ساتھ اگر اسلامی احکام کے بھی بدلنے کی اجازت ہوتی،جس طرح کہ آج کل کے متجددین کی سعی اور خواہش ہے تو مذہب اسلام میں وہ تبدیلیاں کبھی رونما ہوچکی ہوتیں جن کےلئے آج یہ متفکرین ومتجددین پیچ وتاب کھارہے ہیں۔
﴿يُريدونَ لِيُطفِـٔوا نورَ اللَّهِ بِأَفوٰهِهِم وَاللَّهُ مُتِمُّ نورِهِ وَلَو كَرِهَ الكـٰفِرونَ ﴿٨﴾... سورةالصف