فہرست مضامین

مسلمانوں کا انداز تحقیق

تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے۔جس کا مادہ"ح ،ق،ق"ہےوالحق صدق الحديث1۔اور حق کسی بات کا سچ ہونا۔(وحقق قوله وظنه تحقيقا أي صدق)۔2۔یعنی اس کے قول کو سچا قرار دیا۔

ڈاکٹر سید عبداللہ تحقیق کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔

"یہ ایک ایسے طرز مطالعہ کانام ہے جس میں"موجود مواد" کے صحیح یاغلط کو بعض مسلمات کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے۔"(3)

انگریزی زبان میں تحقیق کو ریسرچ کہاجاتاہے۔جس کی تعریف آکسفورڈ ڈکشنری میں یوں کی گئی ہے۔

" Endearour to discover new or collage old facts etc. By seientific study of a subject"(4)

"کسی مضمون کے سائنسی مطالعہ سے نئے حقائق کو دریافت کرنا یا پرانے حقائق کو پرکھنے کی کوشش کرنا۔"

تحقیق سچائی کی تلاش کانام ہے۔بعض مسلمہ اصولوں کی روشنی میں نئے حقائق کا کھوج لگانا اور معلوم حقائق کو ان کی اصل شکل میں دیکھنے اور پیش کرنے کی کوشش کرنا تحقیق کا مقصد ہے۔تحقیق کسی امر میں پائے جانے والے شک کو دور کرتی ہے۔انسان کسی بات پر یقین کرنے کے لئے ثبوت چاہتاہے۔اورتحقیق یہ ثبوت مہیا کرتی ہے۔ تحقیق کا وجود کسی تہذیب کی زندگی کی ایک علامت ہوتاہے۔کسی بات کو بغیر تحقیق کے مان لینا یا کہہ دینا ایک ایسی غلطی ہے جس سے متعدد غلطیاں جنم لیتی ہیں۔ اور جو آنے والی نسلوں کو بھی کسی امر کی حقیقت اور سچائی سے بہت دور لے جاتی ہے۔ بسا اوقات چھوٹی سی بات کو بلاتحقیق کے مان لینے کا خمیازہ بہت بڑا بھگتنا پڑتا ہے۔

مسلمانوں کو اصولی طور پر اس بات کا پابند بنا دیا گیا ہے کہ جب کوئی خبر ان تک پہنچے تو وہ اس کی صحت کے متعلق اچھی طرح سے تحقیق کرلیا کریں۔تاکہ بعد میں انہیں کسی قسم کی شرمندگی یا نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑے۔قرآن مجید میں حکم خداوندی ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِن جاءَكُم فاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنوا أَن تُصيبوا قَومًا بِجَهـٰلَةٍ فَتُصبِحوا عَلىٰ ما فَعَلتُم نـٰدِمينَ ﴿٦﴾... سورةالحجرات

"اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ"

مندرجہ بالا قرآنی آیت میں کسی خبر یا واقعہ کی صحت کے بارے میں تحقیق کرنے اور اس کی ا صل حقیقت کو معلوم کرنے کو کہا گیاہے۔یہاں اس بات کی تنبیہ بھی کی گئی ہے۔کہ سنی سنائی باتوں کا تحقیق وتصدیق کے بغیر مان لینے کانتیجہ پشیمانی اور ندامت بھی ہوسکتا ہے۔بلکہ سنی سنائی بات کو بغیر تصدیق کے آگے بیان کرنے والا آدمی جھوٹا ہوتاہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قول مبارک ہے جسے حفص بن عاصم نے روایت کیا ہے:

كَفَى بالمَرْءِ كَذِباً أنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ ما سَمِعَ "(6)

"آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ جو سنے اسے بیان کردے"

تحقیق کے میدانوں میں مسلمانوں نے آج سے ایک ہزار سال سے بھی زائدعرصہ قبل جو اصول وضع کئے تھے وہ ا پنے زمانے میں بالکل نئے اور منفرد تھے۔جن سے اس وقت کوئی دوسری قوم آگاہ نہ تھی۔یہ اصول تحقیق اس قدرجامع اور ٹھوس تھے۔اورآج بھی ہیں کہ ان کے اعلیٰ معیار اور جامعیت کو تسلیم کرتےہوئے دیگر اقوام نے ان اصولوں کو اپنایا اور آج تک وہ مسلمانوں کے انداز تحقیق سے استفادہ کررہی ہیں۔سچ یہ ہے کہ غیر مسلم اقوام اور مغربی محققین کا ان اصولوں سے استفادہ مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ ترفکری اور نظری حد تک ہی رہا۔اس لئے کہ ان کے سامنے کوئی ایسی عظیم شخصیت ہی نہ تھی۔جس سے منسوب اقوال و واقعات کی وہ جامع سطح پر عملی تحقیق کرتے جس کا مظاہرہ مسلمانوں نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال،افعال اور آپ کی پسند وناپسند سے متعلق روایات اور ان کے راویوں کی تحقیق میں کیا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی صحت کو جانچنے اور راویوں کی ثقات کو پرکھنے کا جو علم یعنی علم حدیث مسلمانوں کے پاس ہے۔اس کے مماثل کوئی اور علم دوسری اقوام ومذاہب میں نظر نہیں آتا۔

اگرچہ آج کے مغربی محققین علم حدیث کے اصول اپنائے ہوئے ہیں۔لیکن ان اصولوں کی عملی تطبیق میں مغربی محققین کے ہاں وہ حزم واحتیاط نہیں برتی جاتی اورنہ برتی جاسکتی ہے۔جس کو قرون اولیٰ کے مسلم محققین یعنی محدثین نے احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو جمع کرنے میں ملحوظ خاطرر کھکا تھا۔مسلمانوں کی اس تحقیق کا مقصد اپنے دین کی حفاظت تھا۔انہوں نے اس کام کو دینی فریضہ اور اخروی زندگی کی نجات کا ایک ذریعہ سمجھتے ہوئے کیا اور اپنی ذات کو کسی قسم کی دنیاوی غرض ومنفعت سے علیحدہ رکھا۔

آئندہ سطور میں تدوین حدیث کے ضمن میں حدیث اورراوی کو پرکھنے کے لئے کی جانے والی مسلم محققین کی کوششوں کا ایک جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔پھر آج کل مغرب کے محققین کے ہاں پائے جانے والے انداز تحقیق کا ذکر کیا جائے گاجس کے موازنہ سے یہ بات نکھر کر سامنے آجائے گی۔کہ مغربی انداز تحقیق در اصل اسلامی انداز تحقیق سے ہی ماخوذ ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے متعلق واقعات آپ کی وفات (11ھ) کے تقریباً 90 سال بعد باقاعدہ طور پر مدون ہوناشروع ہوئے۔

اموی خلیفہ راشد بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ (عہد حکومت 99ھتا101ھ)(7) نے سرکاری طور پر تدوین حدیث کے کام کو تحریک دی۔اور اپنے نائب ابو بکر بن حزم کو لکھا:

انْظُرْ مَا كَانَ مِنْ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاكْتُبْهُ ، فَإِنِّي خِفْتُ دُرُوسَ الْعِلْمِ وَذَهَابَ الْعُلَمَاءِ وَلَا تَقْبَلْ إِلَّا حَدِيثَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَلْتُفْشُوا الْعِلْمَ وَلْتَجْلِسُوا حَتَّى يُعَلَّمَ مَنْ لَا يَعْلَمُ ، فَإِنَّ الْعِلْمَ لَا يَهْلِكُ حَتَّى يَكُونَ سِرًّا حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، بِذَلِكَ يَعْنِي حَدِيثَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ إِلَى قَوْلِهِ ذَهَابَ الْعُلَمَاءِ.

"دیکھو تمہارے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جتنی احادیث ہیں انہیں لکھ لو اس لئے کہ مجھے علم کے مٹ جانے اور علماء کے فوت ہوجانے کاڈر ہے اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوچھ قبول نہ کرو۔اور چاہیے کہ لوگ علم کو پھیلائیں اور بیٹھیں تاکہ نہ جاننے والا جان لے کیونکہ علم اس وقت تک ہلاک نہیں ہوتا جب تک اسے چھپایا نہ جائے۔"

جب تدوین حدیث کا کام شروع ہواتو احادیث جمع کرنے والوں کا ذریعہ اور ماخذ اکثر لوگوں کی زبانی روایات تھیں۔محدثین نے احادیث کو جمع کرنے میں جس جوش وخروش کا مظاہرہ کیا اس سے کہیں زیادہ حزم واحتیاط کا مظاہرہ ان احادیث کو قبول یا رد کرنے میں کیا اور وہ اس لئے کہ یہ تمام احادیث اس ذات صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب تھیں جن کا ہر قول وفعل احکامات دین کا باقاعدہ حصہ ہے۔کوئی واقعہ یا بات جس درجہ کی اہمیت کی حامل ہوگی اس کا ثبوت اور شہادت بھی اسی درجہ کی اہم ہوگی۔اسی اہمیت کے پیش نظر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب روایات کو تحقیق کے کڑے اصولوں کی کسوٹی پر پرکھا گیا۔

خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر یہ تنبیہ فرمادی تھی کہ جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی جھوٹ منسوب کیا۔اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ

ترجمہ:۔"جو شخص جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں ڈھونڈھے۔"

ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک ایسی ہی روایت صحیح بخاری میں بھی درج ہے۔(10)

اس طرح لوگوں کو اخروی عذاب کا خود دلا کر جھوٹی اور من گھڑت روایات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے منسوب کرنے سے منع کیاگیا۔

اگرچہ باقاعدہ تدوین حدیث کا آغاذ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے تقریباً نوے سال بعد ہوا لیکن اس سے قبل کے زمانے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سےمنسوب کسی روایت کو یونہی قبول نہیں کرلیا جاتاتھا۔ بلکہ پوری تحقیق اور یقین کے بعد اسے بطور حدیث قبول کیا جاتا اور اس پر عمل کیا جاتا۔اصول روایت کو قرآن مجید نے ہی درج ذیل آیت میں ہی متعین کردیاتھا۔

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِن جاءَكُم فاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنوا أَن تُصيبوا قَومًا بِجَهـٰلَةٍ فَتُصبِحوا عَلىٰ ما فَعَلتُم نـٰدِمينَ ﴿٦﴾... سورةالحجرات

"اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ"

صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے سامنے اگر کوئی ثقہ آدمی بھی حدیث بیان کرتا تو وہ اسے بغیر گواہی کے قبول نہ کرتے تھے۔گواہی کےبعد اس حدیث کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہونا قطعی ہوجاتا۔تو پھر اس پر سختی سے عمل کرتے۔

خلیفہ اول ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلے ہی شخص ہیں جنھوں نے روایت حدیث کو قبول یا رد کرنے میں احتیاط وتصدیق کو اپنایا۔ایک دادی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ورثہ سے اپنا حق دلوانے کا مطالبہ کیا۔آپ نے فرمایا کتاب اللہ میں تمہارا کوئی حق بیان نہیں ہوا۔ اور میرے علم میں بھی نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نے دادی کو ک چھ دلوایا ہے یا نہیں۔پھر اس کے متعلق لوگوں سے استفسار کیا تو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوکر بولے:میری موجودگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دادی کا چھٹا حصہ دلوایا تھا۔فرمایا:تمہارے ساتھ اس واقعہ کا کوئی اور گواہ بھی ہے؟اس پر محمد بن مسلمہ نے مغیرہ کے بیان کی تائید میں شہادت دی۔اس طرح دو شہادتیں آنے پر آپ نے دادی کو چھٹا حصہ دلوایا۔(12)

اسی طرح خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اگر کسی حدیث کی صحت کے بارے میں تردد ہوتاتو جب تک آپ کو اطمینان نہ ہوجاتا اس حدیث کو قبول نہ کرتے۔صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ ابو سعید خدری روایت کرتے ہیں کہ میں انصار کی جماعت میں حاضر تھا تو ابو موسیٰ گھبرائے ہوئے آئے اور کہا میں نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تین بار اجازت مانگی مگر اجازت نہیں ملی تو میں واپس آگیا۔پھر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تمھیں اندر آنے سے کس چیز نے روکا۔میں نے کہا میں نے اجازت مانگی لیکن آپ نے اجازت نہ دی۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:

إِذَا اسْتَأْذَنَ أَحَدُكُمْ ثَلاثًا فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ فَلْيَرْجِعْ "

یعنی"جب تم میں سے کوئی شخص تین بار اجازت مانگے اور اس کو اجازت نہ ملے تو اس کو واپس چلا جانا چاہیے۔"

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہاتم کو اس پر گواہ پیش کرناہوگا۔ابو موسیٰ نے کہا تم میں سے کسی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو سنا ہے۔ابی ابن کعب نے کہا بخدا تیری گواہی کے لئے قوم کاکم عمر شخص کھڑا ہوگا۔راوی کا بیان ہے کہ میں اس وقت سب سے کم عمرتھا۔میں ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کھڑا ہوا۔اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خبر دی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا(13)

چوتھے خلیفہ راشدحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے۔کہ جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنتا توحسب توفیق الٰہی میں اس سے فائدہ اٹھاتا تھا اور جب کوئی دوسرا آدمی حدیث سنتا تو پہلے اس سے قسم لیتا اور اگر وہ قسم اٹھا لیتا تو میں اس حدیث کو سچا سمجھتا تھا۔(14)

یوں روایت حدیث کے بالکل ابتداء زمانہ میں ہی خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کسی حدیث کو قبول کرنے کےلئے گواہی یا قسم کی شرط عائدکردی تھی۔اس وقت حدیث کے راوی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہوتے تھے۔

جنھوں نے براہ راست نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سنی ہوتی تھی۔ یا کسی واقعے کے براہ ر است شاہد ہوتےتھے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور راوی کے درمیان کوئی تیسری کڑی نہیں ہوتی تھی۔اس لئے اس زمانے میں حدیث کی تحقیق کے لئے سب سے محتاط طرز عمل یہی اختیار کیا گیا کہ کسی حدیث کی صحت جاننے کے لئے راوی کے علاوہ کسی اور کی گواہی طلب کی جاتی کہ اس نے بھی وہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔یا پھر راوی سے قسم لیجاتی کہ وہ جو حدیث روایت کرتا ہے اس نے اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔

مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور راوی کے درمیان افراد کا سلسلہ بڑھتا گیا توحدیث اورراویوں کی جانچ پرکھ میں شدت برتی جانے لگی۔اب حدیث کی تحقیق کے لئے صرف گواہی یا قسم کی شرط کافی نہ تھی۔لہذا عقل انسانی کے دائرہ اختیار کے اعتبار سے جتنےاحتمالات ممکن ہوسکتے تھے۔محدثین نے ان سب کو بروئے کار لاکر خبردار مخبر یعنی روایت اور راوی دونوں کی تحقیق وتنقید کے خاص فنی اصول وضع کئے۔اس طرح ایک خاص علم وجود میں آیا جسے علم مصطلح الحدیث کہتے ہیں جو ا پنی نوعیت کے اعتبار سے دنیائے تحقیق میں بالکل نیاعلم تھا۔اس علم کی اصطلاحی تعریف یہ ہے:

علم بأصول وقواعد يعرف بها أحوال السند والمتن من حيث القبول والرد"

اس سے مراد اصول وقواعد کا وہ علم ہے جس کے ذریعے کسی حدیث کی سند اور متن کو قبول یا رد کرنے کے بارے میں جاناجاتا ہے۔

اصول روایت میں کسی حدیث کی سند کو اور اصول روایت میں اس کے متن کو قبول یا رد کرنے کے بارے میں تحقیق کی جاتی ہے۔

سند سے مراد راویوں کا وہ سلسلہ ہے۔ جو کسی حدیث کو روایت کرتے ہیں۔اصول روایت کے ذریعے سلسلہ روایت کے تسلسل کو جاننے اور اس میں اتصال کو پرکھنے کا ایک ایسا بہترین اور نہایت اعلیٰ معیار قائم کردیاگیا ہے۔جس سے بڑھ کر کوئی اور معیار قائم کرنا شاید انسانی کاوش کے بس میں نہ ہو۔اصول روایت کے تحت یہ شرط عائد کی گئی کہ جو واقعہ یا روایت بیا ن کی جائے اس شخص کی زبان سے بیان ہو جس نے خود وہ بات سنی ہو یا وہ خود شریک واقعہ تھا۔اگر اس نے وہ بات خود نہیں سنی یا وہ خود شریک واقعہ نہیں تھا۔تو خود بات سننے والے یا شریک واقعہ تک تمام راویوں کے نام بالترتیب بتائے جائیں۔محدثین کا پہلا اصول یہ تھا کہ روایت کا سلسلہ اصل واقعہ تک کہیں منقطع نہ ہونے پائے(16)اس طرح حدیث کے راوی کو یہ بتلانے کا پابند کیا گیا کہ وہ جو بات یا واقعہ روایت کررہا ہے۔خود اس نے کس سے سنا اور لیا۔یوں کسی حدیث کے سلسلہ اسناد کی تحقیق کرناضروری قرار دیاگیا ۔

عبداللہ بن مبارک کاقول ہے:

الإسناد من الدين، ولولا الإسناد لقال من شاء ما شاء.

اسناد دین کے لوازم میں سے ہے۔اگر اسناد نہ ہوتی تو جس شخص کے جی میں آتا کہہ دیتا۔

محمد بن سیرین جو کہ مشہور تابعی ہوگزرے ہیں احادیث کے علم میں اسناد کی اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں:

إن هذا العلم دين، فانظروا عمن تأخذون دينكم

"یہ علم دین ہے تو دیکھو کہ کس شخص سے تم دین حاصل کرتے ہو"

امام ثوریؒ نے فرمایا کہ اسناد مومن کا ہتھیار ہے مطلب یہ ہے کہ وہ ایک ایسی قوت ہے جس کے ذریعے محدث حق میں ملائے ہوئے باطل کو چھانٹ کر علیحدہ کردیتا ہے۔(19)

اگر تحقیق کے دوران یہ ثابت ہوجائے کہ کسی حدیث کے سلسلہ اسناد میں اتصال نہیں پایا جاتا بلکہ کہیں کوئی راوی ساقط ہے۔اس صورت میں محدثین نے اسقاط اسناد کے کے اعتبار سے احادیث کی مختلف درجہ بندیاں کیں۔مثلاً معلق یعنی جس کے اسناد کے شروع میں ایک یا زیادہ راوی چھوٹ جائیں۔مرسل یعنی اسناد کے آخر میں کوئی راوی چھوٹ جائے مثلاً کوئی تابعی صحابی کاذکر کئے بغیر روایت کرے۔معضل یعنی جس کی سند میں دو یا دو سے زیادہ راوی چھوٹ گئے ہوں اور منقطع۔یعنی جس کی اسناد متصل نہ ہوں وغیرہ وغیرہ پھرمراتب کے لحاظ سے احادیث کی درجہ بندی کی گئی مثلا صحیح یعنی جس کی سند راوی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک متصل ہو۔راوی ہر لحاظ سے ثقہ ہوں جھوٹ کی تہمت سے متہم نہ ہوں۔حسن یعنی جس کی سند تو متصل ہو۔راوی بھی مہتم بالکذب نہ ہو لیکن یہ حدیث دوسری سند سے بھی مروی ہو۔اس کا رتبہ صحیح سے کم ہے اور غریب یعنی وہ حدیث صحیح جس جی روایت میں کسی جگہ ایک راوی اکیلا ہو اور اگر ہر زمانے میں اکیلا ہو تو وہ فرو کہلاتی ہے۔اور اگر ہر جگہ دو ہوں اس کو عزیز کہتے ہیں۔

ایسی علامات متعین کی گئی ہیں۔ جن میں سے کئی ایک اگر سلسلہ اسناد میں پائی جائیں تو اس حدیث کا من گھڑت ہونا ثابت ہوجائے گا چند اہم علامتیں درج ذیل ہیں:

أن يكون راويه كذابا معروفا بالكذب ولا يرويه ثقة غيره

أن يروي الراوي عن شيخ لم يثبت لقياه له أو ولد بعد وفاته، أو لم يدخل المكان الذي ادَّعَى سماعه فيه

وقد يستفاد الوضع مع حال الراوي وبواعثه النفسية

اگر اس حدیث کا راوی جھوٹا ہونے میں مشہور ہے اور وہ حدیث کسی اور ثقہ راوی سے مروی نہیں ہے۔یا راوی خود اس کے من گھڑت ہونے کا اعتراف کرلے یا وہ ایسے شخص کی وفات کے بعد پیدا ہوا ہو یااس کا اس مکان میں داخل ہونا ثابت نہ ہو جس میں حدیث کی سماعت کا وہ د عویٰ کرتا ہے۔اور با اوقات راوی کے حالات اور اس کے نفسانی محرکات سے بھی حدیث کے من گھڑت ہونے کا پتہ چل جاتاہے۔

محدثین نے سلسلہ اسناد میں اتصال واسقاط کی تحقیق کو ہی کافی نہ سمجھا بلکہ اس سے آگے بڑھتے ہوئے سلسلہ اسناد میں پائے جانے والے تمام راویوں کی ذات وزندگی کو بھی تحقیق وتنقید کا ہدف بنایا۔وہ لوگ کون تھے کس علاقے اور خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔کردارکیسا تھا،مشاغل کیاتھے،حافظہ اور سمجھ بوجھ کس سطح کی تھی؟عالم تھے یاجاہل،اپنے زمانے میں معتبر تھے یا غیر معتبر وغیرہ وغیرہ۔غرض تما م راویوں کے کردار کی اچھی طرح چھان بین کی گئی۔یہ انداز تحقیق علم حدیث میں جرح وتعدیل کا علم کہلا تا ہے۔

جرح عربی زبان کا لفظ ہے۔جس کا مادہ"ج ر ح" ہے۔جس کا لغوی معنی یہ بیان کیا گیا ہے۔اثر فیہ بالسلاح(21) کسی ہتھیار سے متاثر کرنا لفظ جرح کی مذید وضاحت کرتے ہوئے صاحب السان العرب لکھتے ہیں۔

ويقال : جرح الحاكم وغيره الشاهد على ما تسقط به عدالته من كذب وغيره.

اور کہا جاتا ہے کہ حاکم نے گواہ پر جرح کی جب حاکم کو اس کے متعلق کوئی اطلاع ملی۔تاکہ جرح سے گواہ کے جھوٹ و غیرہ سے برات ثابت ہو۔

تعدیل بھی عربی زبان کالفظ ہے۔

وتعديلُ الشُهُودِ: أنْ تقولَ إِنَّهم عُدُولٌ. (23)

گواہوں کی تعدیل سے مراد انہیں عادل قرار دینا ہے۔اس ضمن میں نہ صرف حتیٰ المقدورتحقیق کا الزام کیا بلکہ اس کی درجہ بندی بھی کردی تعدیل کا اعلیٰ ترین درجہ اور جرح کا ا دنیٰ درجہ بھی واضح کیاان علوم کی کتب کے بغور مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ محدثین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک بات کو منسوب کرنے میں کسقدر محتاط تھے۔ان کے بنائے ہوئے اصول وقوانین کا یہ عالم ہے کہ ایک پہلی مرتبہ پڑھنے والا ان کو انسانی طاقت سے ماورا اور مافوق الفطرت ہی سمجھتا ہے۔ اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدائے عزوجل نے اپنے دین کی حفاظت کے لئے ایسے ایسے انسان اس جہان فانی میں پیدا فرمائے جن کے حافظے کو دیکھ کر عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔انسانی تاریخ ایسی خداداد عقل کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ان کے حافظہ کی بے مثال قوت موجودہ مشینی دور میں کمپیوٹر کو بھی مات کرنے کے قابل ہے۔احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ محدثین احادیث کی نقل میں احتیاط کی انتہائی حدود تک جانے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔دو ہم معنی الفاظ میں بھی روایت کرتے ہوئے باریک سے باریک فرق کرنا انہی کا خاصہ ہے۔اور اس شے کو واضح کرنے والا ہے کہ انہوں نے پوری قوم کی پوری زندگیاں صرف آئندہ آنے والے مسلمانوں کی فلاح کے لئے وقف کردیئے۔

علم وجرح وتعدیل کی اصطلاحی تعریف یہ ہے:

وهو: علْم يُبحث فيه عن أحوال الرّواة وأمانتهم، وثقتهم وعدالتهم وضبْطهم، أو عكس ذلك مِن كذب أو غفلة أو نسيان.

یہ وہ علم ہے جس میں راویوں کے احوال،انی امانت،ثقاہت،عدالت ضبط یا اس کے برعکس ان کے کذب،غفلت،یا نسیان سے متعلق تحقیق کی جاتی ہے۔

جرح اور تعدیل فنی اعتبارسے دو علیحدہ علیحدہ فن ہیں۔جرح میں راوی کے حافظہ وکردار پر تنقید واعتراض کیاجاتا ہے۔

بيان الطعون الموجهة إلى عدالة بعض الرواة أو إلى ضبطهم وحفظهم كذلك منقوله عن الأئمة غيرمتصبين

رایوں کی قوتی حفظ یا ان کے کردار پر غیر متعصب ماہرین فن کا طعن واعتراض جرح کہلاتاہے۔

جب کہ تعدیل میں کسی راوی کو حافظہ وکردار کے اعتبار سے عادل قرار دیا جاتا ہے:۔

عدالة الرواة وضبطهم منقولة عن الأئمة المعدلين الموثوقين،

عدل اور ثقہ ماہری کی طرف سے راویوں کو عادل اور حافظہ کے اعتبارسے قوی قرار دینا تعدیل کہلاتاہے۔

مندرجہ بالا آخری دو تعریفوں کی روشنی میں یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ راویوں پر جرح وتعدیل کرناہر شخص کا کام نہیں بلکہ جارح اور معدل کے لئے بھی یہ لازمی ہے کہ وہ متقی اور عالم ہوں۔غیر متعصب ہوں خود ان کا کردار جرح کی زد میں نہ آتا ہو۔یعنی عادل و ثقہ ہوں صاحب کردار ہوں اور جرح وتعدیل کا علم فنی اعتبار سے بھی جانتے ہوں۔تدوین و تحقیق احادیث کی تاریخ میں یہ بات بہت نماہاں نظر آتی ہے کہ محدثین خود ذاتی کردار کے لحاظ سے بہترین انسان تھے۔اور بری شہرت نہیں رکھتے تھے۔

کسی روایت کو قبول کرنے کےلئے اس کے راوی میں چار شرطیں مقرر کی گئیں۔1۔عقل۔2۔ضبط۔3۔عدالت اور 4۔اسلام(27) بعض کے نزدیک دوشرطیں ہیں عدالت اور ضبط(28)عدالت میں اسلام اور ضبط میں عقل کی شرط کو شامل کردیا گیا ہے۔

عقل سے یہ مراد ہے کہ راوی میں تمیز وشعور ہو۔ضبط کے معنی یہ ہیں کہ اس میں روایت کے الفاظ کو سننے اور سمجھنے کی اچھی طرح سے صلاحیت ہو۔سنی ہوئی بات کو یاد رکھ سکے۔اور اس کا حافظہ کسی قسم کے شک تردد یا وہم سے پاک ہو۔عدالت کا مطلب یہ ہے کہ راوی مسلمان ہو۔دین امور میں استقامت پر گامزن ہو۔غیر شرعی امور سے کنارہ کش ہو متقی وپرہیز گار ہو اور فسق وفجور میں مبتلا نہ ہو۔

ضبط کے ضمن میں یہ با ت اہم ہے کہ صحابہ کرامرضوان اللہ عنھم اجمعین حدیث کو روایت کرتے وقت خود اپنے حافظہ کا بھی بڑا خیال رکھتے تھے۔اور حفظ ویاد کے معاملے میں کسی قسم کی کمزوری پاتے ہوئے حدیث کو روایت کرنے میں معذوری کا اظہار کردیتے تھے۔

عبدالرحمٰن بن ابی الیلیٰ سے روایت ہے کہ زید بن ارقم سے کہا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کریں تو انہوں نےکہا:

كبرنا ونسينا والحديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم شديد

ہم بوڑھے ہوگئے ہیں اور نسیان ہم پر غالب آگیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرنا سخت بات ہے یعنی مشکل ہے اس کے لئے بڑا حفظ واتقان ضروری ہے۔

جرح وتعدیل کے ذریعے تمام راویوں کی ذات وکردار کی خوب چھان بین کی گئی۔حاکم نیشاپوری کہتے ہیں:۔

کیا راوی شریعت پر اعتقاد رکھتاہے۔کیا وہ انبیاؑ ورسلؑ اور جو کچھ ان پر نازل کیا گیا اور جو شریعت انھوں نے دی ان کی اطاعت کرتاہے۔پھر راوی کے احوال کو دیکھاجائے گا کہ وہ خواہشات کی پیروی کرنے والا اور لوگوں کو خواہشات کی طرف بلانے والا تو نہیں ہے۔کیونکہ مسلمان کا اس بات پر اجماع ہے۔کہ بدعت کی طرف بلائے جانے والے کوئی حدیث نہیں لکھی جائے گی۔پھر ا س کی عمر کے بارے میں دریافت کیاجائےگا۔کیا اس کی عمر اتنی ہے کہ جس شخص سے وہ حدیث روایت کررہا ہےاس سے حدیث کی سماعت ممکن ہو۔اب ابی حاتم الرازی راویوں کے کردار کے بارے میں لکھتے ہیں:

وہ ذاتی طور پر امانت دار ہوں ،دین کا علم جاننے والے ہوں۔پرہیز گار ومتقی ہوں۔حدیث کو یاد رکھنے اور اس پر مضبوطی کے ساتھ یقین رکھنے والے ہوں۔عقل وتمیز والے ہوں کثرت سے غفلت میں مبتلا ہونے والے نہ ہوں اور نہ ہی یاد کی گئی باتوں کے بارے میں وہم میں مبتلا ہونے والے ہوں۔امام مسلم بن الحجاج مقدمہ صحیح مسلم میں لکھتے ہیں:۔

ان لا يروفي منها ما عرف صحتناومخارجه وسنادة في ناقليه وان بتقي منها ما كان منها من اهد الهم والمعاندين من اهل البديع

مگر اس حدیث کو جس کی صحت معلوم ہو اور ا س کو نقل کرنے والے وہ لوگ ہوں جن کا عیب فاش نہ ہو۔اور ان لوگوں کی روایت سے بچے جن پر تمہت لگائی ہو۔یاجو عناد رکھتے ہوں بدعیوں سے۔

اس طرح احادیث کی تحقیق میں راویوں کے کردار اورذاتی زندگی کو جرح وتعدیل کے کٹہرے میں لا کھڑے کیا گیا۔کسی راوی کے سماجی ر تبہ اور ذاتی حیثیت کی قطعاً کوئی پرواہ نہ کی گئی۔ایک دفعہ امام بخاری ؒ سے کیا گیا کہ کچھ حضرات آپ سے اس بناء پرخفا ہیں کہ آپ نے متعدد رجال کی کوتاہیوں کو برملا بیان کیا ہے۔امام بخاریؒ کا یہ جواب تھا کہ یہ طرز عمل اہوائے نفس کی بناء پر اختیار نہیں کیاگیا بلکہ ہم نے جو کچھ کیا ہے نقل ورایت کے بل پر کیا ہے۔اور اس سے مقصد سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع اور تحفظ ہے۔(33)

رجال کی توثیق وعدم کا کام صغار صحابہ مثلا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،اور انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور ہی سے شروع ہوچکا تھا۔(34) ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ 69ھ کو(35)اورانس بن مالک مختلف اقوال کی روشنی میں 90 تا 93ھ میں کسی ایک سال کو فوت ہوئے تھے۔(26)بحیثیت ایک مکمل فن کے جرح وتعدیل کا استعمال دوسری صدی ہجری کے وسط میں تابعین ؒ کے دور میں شروع ہوا۔اور راویوں پر تنقید وتحقیق کا یہ سلسلہ نویں صدی ہجری تک چلتارہا۔مسلمانوں نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو محفوظ کرنے کے لئے تقریبا ً ایک لاکھ افراد کے حالات زندگی اور ان کے ذاتی کردار پر نقد وجرح کی(37) جس کے نتیجے میں بے شمار لوگوں کی زندگی کے بارے میں معلومات کا ایک عظیم ذخیرہ تیار ہوگیا جو اسماء الرجال کے نام سے مشہور ہے۔مشہور جرمن مستشرق سپرنگسر () کا تو یہ کہنا ہے کہ علم اسماء الرجال کے ذریعے مسلمانوں نے کم از کم پانچ لاکھ راویوں کے حالات زندگی محفوظ کئے ہیں۔جن کا مقصد صرف ایک ذات گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات معلوم کرنا اور محفوظ کرنا ہے۔(38)

اس طرح مسلمانوں نے اسماء الرجال کے ذریعے احادیث کے بے شمار رایوں کے بارے میں معلومات ایک جگہ جمع کردیں کہ وہ لوگ کون تھے،کہاں پیدا ہوئے ان کاکس خاندان اور قبیلے سے تعلق تھا وہ کب پیدا ہوئے کس سال اور کہاں وفات پائی کس کے ہم عصر تھے۔مشاغل اورچال چلن کیسا رکھتے تھے۔انہوں نے حافظہ کیسا پایاتھا۔دوسروں سے تعلقات اور معاملات میں ان کا ر ویہ کیسا تھا۔ان معلومات کو جمع کرنے میں سینکڑوں محدثین نے اپنی عمریں صرف کردیں۔اس کام کےلئے انہوں نے دور دراز کے علاقوں کی صعوبتیں برداشت کیں۔وہ ہزاروں لوگوں سے ملے اور اپنی نجی مصروفیات کو ترک کیا۔یہ سب کچھ محدثین نے اسی لیے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی حفاظت کی جائے اور باطل کو سچ سے چھانٹ کرعلیحدہ کردیاجائے۔کیا کوئی اور قوم اپنے کسی نبی یا لیڈر کے اقوال کو جمع کرنے میں مسلمانوں کے علم اسماء الرجال جیسی کوئی نظیر پیش کرسکتی ہے؟اس سوال کا جواب یقینا ً نفی میں ہے۔

احادیث کی تحقیق میں محدثین نے اصول روایت اور جرح وتعدیل کے ساتھ ساتھ اصول وروایت بھی وضع کیا۔جس کے تحت حدیث کے متن کو عقلی حیثیت سے پرکھا گیا یہ دیکھا گیا کہ جو بات یا واقعہ کسی حدیث میں بیان کیاگیا ہے۔وہ بدیہی نظر درست بھی ہے یا نہیں۔اصول وروایت میں حدیث کی عبارت،الفاظ معنی اور طرز بیان وغیرہ پر تنقید کی گئی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ امر ناممکن ہے۔کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک سے کوئی انوکھی بات یا عربی زبان کے مسلمہ قواعد اور بلاغت کے اصولوں کے خلاف کوئی بات نکلے۔اصول وروایت سے یہ بات جاننے میں بھی مدد ملی۔کہ کسی روایت کا کتناحصہ نبی کا قول ہے۔اور کتنا حصہ وضع کیا اورگھڑا گیا ہے۔اس لئے کہ جو عبارت اصول وروایت کی ذد میں آجائے وہ نبی کا قول نہیں ہوسکتی۔

اصول روایت کی طرح درایت کے اصول کا تعین بھی قرآن مجید نے کردیا تھا ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر جب بعض منافقین نے تہمت لگائی اور اس تہمت کا اتنا چرچا کیا کہ بعض مسلمان بھی تذبذب کی کیفیت میں مبتلا ہوگئے ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے یہ وحی نازل کی:۔

﴿وَلَولا إِذ سَمِعتُموهُ قُلتُم ما يَكونُ لَنا أَن نَتَكَلَّمَ بِهـٰذا سُبحـٰنَكَ هـٰذا بُهتـٰنٌ عَظيمٌ ﴿١٦﴾... سورةالنور

"تم نے ایسی بات کو سنتے ہی کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات منھ سے نکالنی بھی لائق نہیں۔ یا اللہ! تو پاک ہے، یہ تو بہت بڑا بہتان ہے"

مندرجہ بالا آیت میں اس طرف اشارہ ہے۔کے منافقین کی بے بنیاد خبر سن کر تمھیں اس کا ذکر بھی نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ یہ بات سراسر بہتان ،نامعقول اور خلاف قیاس ہونے کی وجہ سے درایتاً قطعی طور پر ناقابل اعتبار تھی۔لہذا جو بات نامعقول اور خلاف قیاس ہو۔اس کو غلط سمجھنا چاہیے۔

اس اصول درایت پر عمل صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے دور میں ہی شروع ہوچکا تھا ایسے کوئی واقعات رونما ہوئے جن میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بعض احادیث کو درایتاً ماننے سے انکار کردیا تھا۔عروہ بنت عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سامنے یہ بیان کیا گیا کہ عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ لوگوں کے رونے کی وجہ سے مردہ کو عذاب دیا جاتا ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ حدیث تسلیم کرنے سے انکار کردیا اورفرمایا:

يغفر الله لأبي عبد الرحمن، أما إنه لم يكذب، ولكنه نسي أو أخطأ، إنما مر رسول الله صلى الله ... وقد جمع كثير من أهل العلم بين حديثي عمر وعائشة بضروب من الجمع : أولها طريقة ..... وَسَلَّمَ عَلَى يَهُودِيَّةٍ يَبْكِي عَلَيْهَا أَهْلُهَا فَقَالَ إِنَّهُمْ لَيَبْكُونَ عَلَيْهَا وَإِنَّهَا لَتُعَذَّبُ فِي قَبْرِهَا.

"خدا بخشے ابا عبدالرحمٰن کو کہ انہوں نےجھوٹ نہیں بولا لیکن وہ بھول گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن یہودی عورت پر گزرے جو مرگئی تھی اور لوگو اس پر رورہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ اس پر رو رہے ہیں اور اس پر قبر میں عذاب ہورہاہے۔"

پھر یہ حدیث کہ لوگوں کے رونے کی وجہ سے مردہ کو عذاب دیاجاتا ہے۔قرآن مجید کے خلاف ہے۔قرآن مجید کا موقف تو یہ ہے:۔

﴿وَلا تَكسِبُ كُلُّ نَفسٍ إِلّا عَلَيها وَلا تَزِرُ‌ وازِرَ‌ةٌ وِزرَ‌ أُخر‌ىٰ...﴿١٦٤﴾... سورةالانعام

"ہر شخص جو کماتاہے اس کا ذمہ دار وہ خود ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کابوجھ نہیں اٹھائے گا۔

﴿وَأَن لَيسَ لِلإِنسـٰنِ إِلّا ما سَعىٰ ﴿٣٩﴾... سورةالنجم

"اوریہ کہ انسان کے لئے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے کوشش کی۔"

لہذا قرآن کی مذکورہ بالا قطعی نصوص کی موجودگی میں کسی ایسی روایت کااعتبار نہیں کی جاسکتا کہ دوسروں کے رونے سے میت پر عذاب ہوتا ہے۔

علامہ شاطبی لکھتے ہیں:۔

مخالفة الظني لأصل قطعي يسقط اعتبار الظني على الإطلاق ، وهو مما لا يختلف فيه (43)

جو ظنی بات اصل قطعی کی عین مخالفت کرے اس کا قطعاً کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔اور اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

اسی طرح ابو ہریرۃ کی ایک روایت پر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے درایتاً تنقید کی تھی۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «تَوَضَّئُوا مِمَّا مَسَّتِ النَّارُ وَلَوْ مِنْ ثَوْرِ أَقِطٍ» ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، وَإِنَّا نَتَوَضَّأُ بِالْحَمِيمِ وَقَدْ أُغْلِيَ عَلَى النَّارِ، وَإِنَّا نَدَّهِنُ بِالدُّهْنِ وَقَدْ أُغْلِيَ عَلَى النَّارِ قَالَ: فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، إِذَا سَمِعْتَ الْحَدِيثَ يُحَدَّثُ بِهِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا تَضْرِبْ لَهُ الْأَمْثَالَ

(44)حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وضو کرو اس چیز کے استعمال سے جس کو آگ نے (پکا کر) بدل دیا ہو۔تو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کیا ہم گرم پانی کے چھونے سے بھی وضو کریں۔تو ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اے میرے بھتیجے جب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنو تو اس پر باتیں مت بناؤ۔"

اس کے علاوہ اگر کوئی حدیث متفقہ طبی قواعد کے خلاف ہو،تاریخی واقعات یا کائنات وانسان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی سنت کےخلاف ہو یا وہ حدیث راوی کے مسلک کے مخالف ہو اور وہ ا پنے مسلک میں غالی متعصب ہو۔(45) یہ سب حدیث کے درایتاً من گھڑت ہونے کی علامات ہیں۔

الغرض یہ وہ عظیم تحقیقی اصول تھے جو مسلمانوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی چھان بین کے لئے آج سے ایک ہزار سال سے بھی زائد عرصہ قبل ایجاد کئے تھے۔جن پر عمل کرکے آج کی زبان میں سائنسی انداز سے احادیث کی تحقیق کی اور جھوٹی روایات اور من گھڑت احادیث کو رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی وصحیح احادیث کے مجموعے سے نکال باہر کیا۔مسلمانوں کے اسلاف نے احادیث کی تدوین وحفاظت کے ساتھ ساتھ تحقیق کے اعلیٰ اور ٹھوس اصول مرتب کئے۔کسی واقعہ یا صحت کی خبر کی صحت وسقم کو جاننے کے لئے اس کے راوی یامخبر کو بھی شامل تفتیش کرنا،راویوں کے سلسلہ اسناد میں اتصال واسقاط کی تحقیق،راویوں کے کردار وذات کی صحیح تصویر حاصل کرنے کے لئے جرح وتعدیل کا علم اور متن یا مواد کو پرکھنے کے لئے درایت جیسے ٹھوس اصول مسلمان محققین کے عطا کردہ ہیں۔

آج مغرب کی کتب میں جو تحقیقی اصول پائے جاتے ہیں۔اور جن پر آج کے مغربی محققین عمل پیرا ہیں۔ان کے مطالعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ تمام اصول ہی مسلم محققین کے مرتب کردہ اصولوں سے ماخوذ ہیں۔اس د عویٰ کی ایک دلیل کے طور پر مغربی مصنف Carter V,Good کی ایک کتابMethods of Research کے چند اقتباسات نقل کیے جاتے ہیں۔کسی بیان کے سچا ہونے اور اس کی قدر وقیمت کا تعین کرنے کے بارے میں وہ لکھتا ہے کہ درج ذیل باتوں کا جاننا ضروری ہے:

مصنف یا راوی کون تھا؟صر ف نام کا جاننا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی شخصیت کردار اور مقام وغیرہ کے بارے میں جاننا بھی ضروری ہے۔ایک راوی کی حیثیت سے اس کی عام خوبیاں،کردار،رجحان،ومیلان وغیرہ کیساتھا،اس کی خاص خوبیاںوخامیاں کیاتھیں۔وہ متعلقہ واقعہ میں کسی دلچسپی لیتا تھا۔اس نے واقعہ کا مشاہدہ کیسے کیا،کیا واقعہ نگاری اورروایت کے بارے میں وہ ضروری علم وفنی علم رکھتا تھا۔کسی واقعہ کے کتنے عرصے بعد اسے لکھاگیا بعض اوقات کسی تحریر میں ایک صدی کا عرصہ کافی ہوتا ہے۔اور بعض اوقات ہر لمحہ اہم ہوتاہے۔پھر واقعہ نگاری کیسے کی گئی۔محض حافظے کی بناء پر یا دوسرے راویوں سے اس کی تصدیق اور تحقیق کرنے کے بعد کوئی بات ضبط تحریرلائی گئی۔یہ تحریر دوسری روایتوں سے کتنی ملتی ہے۔کیا یہ مکمل طور پر اصل ہے یاجزوی طور پر بعد والی صورت میں یہ دیکھناہوگا کہ اصل متن کتنا ہے۔اور اس میں اضافہ کب اور کس حد تک کیاگیا؟اضافی مواد کس حد تک قابل یقین ہے اور اس میں کتنی تبدیلی واقع ہوئی ہے؟

مصنف مذید لکھتا ہے:

کس واقعہ کامشاہدہ کرنے والا خود کس نسل،قوم،جماعت،علاقہ،اور مسلک سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی سماجی ومعاشی حیثیت کیا ہے۔یہ سب اس کے میلان وتعصب کے عناصر کو متعارف کراسکتے ہیں۔

جب یہ معلوم ہوا کہ راوی واقعہ کا خود مشاہد نہیں ہے۔تو پھر اس کی معلومات کے ذرائع کی عین صحت اور سچائی کا تعین کرناضروری ہے۔

تاریخ نگار اپنے ذرائع کو خارجی وداخلی تنقید کے ماتحت کرتاہے۔خارجی تنقید کسی دستاویز کی اصلیت سے متعلق ہوتی ہے۔جبکہ داخلی تنقید عبارت کے معنی اور اس کی سچائی سے متعلق ہوتی ہے۔

بطور مثال پیش کئے گئے مندرجہ بالا اقتباسات جس مغربی انداز تحقیق کی تصویر کشی کرتے ہیں وہ اسلامی انداز تحقیق سے متاثر وماخوذ ہے یہ اصول جو آج کل مغرب کی کتب میں ملتے ہیں۔مغرب کے ہاں ان اصولوں کی عمر بہت کم ہے جبکہ مسلم محققین نے آج سے ایک ہزار سال سے بھی زائد عرصہ قبل ان اصولوں کو وضع کرکے احادیث کی حفاظت کے ساتھ ساتھ آنے والی انسانیت پر بہت بڑا علمی احسان کیا۔۔اسلامی انداز تحقیق کے اصو ل اتنے اعلیٰ اور پختہ ہیں کہ ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد آج تک ان میں کوئی اضافہ نہیں کیا جاسکا اور نہ کسی ایک اصول میں کوئی سقم تلاش کیا جاسکا ہے۔وہ تمام احادیث جنھیں محدثین نے ان اصولوں پر پرکھ کر صحیح قراردیا آ ج بھی کسی صاحب ہمت کے لئے چیلنج ہیں اور دعوت تحقیق دیتی ہیں۔کہ اگر ان اصولوں سے بہتر کوئی اور اصول وضع کیاجاسکتاہے تو صحیح احادیث کی صحت کو اس کی کسوٹی پر پرکھ لے۔لیکن آج تک ایسا نہ ہوسکتا جہاں محدثین کی تحقیق کے اعلیٰ ترین معیار کو ثابت کرتاہے وہیں اسلامی انداز تحقیق کی جامعیت اور پختگی پر بھی دلالت کرتا ہے۔


حواشی

1۔ابن منظور۔لسان العرب،المبطعہ المنیریۃ ببولاق مصر المعزیۃ 1301ھ ج11 ص 337۔

2۔ ابن منظور۔لسان العرب،المبطعہ المنیریۃ ببولاق مصر المعزیۃ 1301ھ ج11 ص 337۔

3۔سلطانہ بخش ،ڈاکٹر ایم،اردو میں اصول تحقیق،مقالہ تحقیق وتنقید از ڈاکٹر سید عبداللہ مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد ج1ص29۔

4۔Oxford Distionary oxford university press bombay 1982,ed,7th p,8844.

5۔مسلم بن حجاج القشیری،صحیح مسلم بشرح النووی،باب النہی عن الحدیث بکل ماسمع دارالفکر ج1ص 73۔

6۔اطبری،ابو جعفر جریر،تاریخ طبری مترجم سید محمد ابراہیم نفیس اکیڈمی کراچی 1971ء ج6 ص 27ص42۔

7۔بخاری محمد بن اسماعیل صحیح بخاری کتاب العلم،مترجم محمد عادل خاں،محمد فاضل قریشی،مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور 1979ء ج1ص130۔

8۔ابن ماجہ ،محمد بن یزید،سنن ابن ماجہ باب اتباع السنۃ،مترجم وحید الزمان ،اہل حدیث اکادمی لاہور ج1 ص36۔

9۔بخاری محمد بن اسماعیل صحیح بخاری کتاب العلم محلو بالا ایڈیشن ج1ص133۔

10۔الذہبی ابو عبداللہ شمس الدین محمد تذکرۃ الحفاظ مترجم محمد اسحاق اسلامک پبلشنگ ہاؤس لاہور 1981ء ج1 ص27۔

11۔بخاری محمد بن اسماعیل صحیح بخاری کتاب الاستعذان محولہ بالا ایڈیشن ج3 ص442۔

12۔الذہبی ابو عبداللہ شمس الدین محمد تذکرۃ الحفاظ محولہ بالا ایڈیشن ج1 ص442۔

13۔الطحان الدکتور محمود،تیسر مصطلح الحدیث نشر السنۃ ملتان پاکستان ص14۔

14۔شبلی نعمانی سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور ج1 ص76۔

15۔مسلم بن حجاج القشیری صحیح مسلم بشری النووی محولہ بالا ایڈیشن ج1 ص87۔

16۔ مسلم بن حجاج القشیری صحیح مسلم بشری النووی محولہ بالا ایڈیشن ج1 ص87۔

17۔الطباخ راغب تاریخ افکار علوم اسلامی ،مترجم افتخار احمد بلخی،اسلامک پبلیکشنر لاہور 1976ھ ج1 ۔

18۔السباعی الدکتور مصطفیٰ السنہ ومکانتھا فی الشریع السلامی مکتبۃ دار العروبۃ قاہرہ مصر 1380ھ۔1961م ص114۔115۔

19۔ابن منظور لسان العرب محولہ بالا ایڈیشن ج3 ص245۔

20۔ ابن منظور لسان العرب محولہ بالا ایڈیشن ج3 ص246۔

21۔ ابن منظور لسان العرب محولہ بالا ایڈیشن ج3 1ص458۔

22۔ السباعی الدکتور مصطفیٰ السنہ ومکانتھا فی الشریع السلامی محلہ بالا ایڈیشن ص128۔

23۔الطحان،الدکتور محمود،تیسر مصطلح الحدیث محولہ بالا ایڈیشن ص149۔

24۔ الطحان،الدکتور محمود،تیسر مصطلح الحدیث محولہ بالا ایڈیشن ص149۔

25۔صبح صالح،علوم الحدیث مترجم غلام احمد حریری،ملک سنز پبلیشرز فیصل آباد،1978ءص 163۔

26۔ الطحان،الدکتور محمود،تیسر مصطلح الحدیث محولہ بالا ایڈیشن ص145۔

27۔ابن ماجہ،محمد بن یزید،سنن ابن ماجہ،باب التباع السنہ محولہ بالا ایڈیشن ج1 ص34۔

28۔حاکم ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ نیشا پوری،معرفۃ علوم الحدیث مطبعۃ دار الکتب المصریۃ 1938م ص15۔

29۔الرازی ابو محمد عبدالرحمٰن بن ابی حاتم کتاب الجرح والتعدیل دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان،1271ھ 1952م ج 1 ص5۔

30۔مسلم بن حجاج القشیری صحیح مسلم بشرح النووی محولہ بالا ایڈیشن ج1 ص60۔

31۔حنیف ندوی مولانا محمد مطالعہ حدیث ،ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور 1979ء ص69۔

32۔ حنیف ندوی مولانا محمد مطالعہ حدیث ،ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور 1979ء ص69۔

33۔الذہبی ،ابو عبداللہ شمس الدین ،تذکرۃ الحافظ محولا بالا ایڈیشن ج1 ص54۔

34۔ الذہبی ،ابو عبداللہ شمس الدین ،تذکرۃ الحافظ محولا بالا ایڈیشن ج1 ص54۔

35۔شبلی نعمانی سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم محولہ بالا ایڈیشن ج1 ص64۔

36۔سیزگین،ڈاکٹر فواد،مقدمہ تاریخ وتدوین حدیث مترجم سعید احمد ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد ،ص13۔

37۔مالک بن انس ،الامام،موطاامام مالک،باب النہی عن الکاء علی المیت،مترجم وحید الزمان،اسلامی اکادمی لاہورص198۔

38۔الشاطبی ،ابو اسحاق الموافقات ،المکتبۃ التجاریۃ الکبری بادل شارع محمد علی بمصر 1395ھ/1975م ج 3 ص18۔

39۔ابن ماجہ ،محمد بن یزید،سنن ابن ماجہ ابواب الطھارۃ وسنتھا محولہ بالا ایڈیشن ج1 س216۔

40۔السباعی الدکتور مصطفیٰ السنہ ومکانتھا فی الشریع الاسلامی محولہ بالا ایڈیشن ص115۔119۔

41۔Carter v.good appletion_ century_crofts inc,new york 1954.p.189_190 .

42۔ Carter v.good appletion_ century_crofts inc,new york 1954.p.203 .

43۔ Carter v.good appletion_ century_crofts inc,new york 1954.p.200 .

44۔ Carter v.good appletion_ century_crofts inc,new york 1954.p.188 .