فہرست مضامین

تطلیق ثلاثہ

قاری عبدالحفیظ صاحب ریسرچ اسسٹنٹ ادارہ "منہاج" کے تعاقب کے جواب میں

3۔تطلیقات ثلاثہ پراجماع

اجماع کا دعویٰ:

قاری صاحب فرماتے ہیں:۔

ایک آیت اور دو حدیثوں سے ثابت ہوگیا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی رہی ہیں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی،اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے زمانہ میں بھی اور اس کے بعد اس پر اجماع ہوگیا اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں رہا،سوائے چند حضرات کے جن میں شیعہ حضرات بھی شامل ہیں۔فقہ جعفریہ میں اس بات کی تصریح ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی ہیں۔صاحب جواہر نے کہا ہے یہ مسئلہ اجماعی اور ضروریات شیعہ میں سے ہے،"صحیح زرارہ" میں یہ روایت ہے کہ امام جعفر صادق سے اس مرد کے بارے میں سوال کیا گیا کہ جس نے حالت طہر میں ایک ہی مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہوں۔تو آپ نے فرمایا"طلاق ایک ہی واقع ہوگی۔"(منہاج:ص306۔307ملخصاً)

اب دیکھئے قاری صاحب نے ایک آیت اور دو حدیثوں سے اس مسئلہ کو جس قدر ثابت فرمایا اس کی وضاحت ہم پیش کرچکے ہیں۔باقی اقتباس میں بھی آپ کئی خلاف واقعہ باتیں ارشاد فرماگئے۔مثلاً آپ فرمارہے ہیں کہ "آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے زمانہ میں بھی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی تھیں اور اس کے بعد اس پر اجماع ہوگیا۔"

اب سوال یہ ہے کہ اجماع کی بات تو تب ہی فٹ بیٹھتی ہے۔جب پہلے اختلاف کی بات چل رہی ہو۔ہمارے قاری صاحب محترم اختلاف کی بات تو کرتے نہیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی فرما رہے ہیں کہ"اس کے بعد اس پر اجماع ہوگیا" کیا یہ اجماع ایک ایسی بات پر ہوا تھا جو پہلے سے ہی مسلم چلی آرہی تھی؟

پھر یہ بھی سوچنے کی بات ہے اگر دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی تین طلاقوں کاتین ہی واقع ہونا مسلم چلا آرہا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیافرمان نافذ کیاتھا؟

اجماع یا اختلاف؟

حقیقت میں یہ بات یوں ہے کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر دور فاروقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ابتدائی دو تین سالوں تک حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مرویات کے مصداق پوری امت کا اس بات پر اجماع تھا کہ ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا۔پھر جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ہی نافذ کردیا تو امت میں اختلاف واقع ہوگیا۔(جس کی پوری تفصیل آگے آرہی ہے)لیکن قاری صاحب نے بالکل الٹی گنگا بہانا شروع کردی ہے۔

اجماع کے معنی ؟

پھر فرماتے ہیں "اس کے بعد اس پر اجماع ہوگیا۔اس میں کسی کا اختلاف نہیں رہا سوائے چند حضرات کے جن میں شیعہ حضرات بھی شامل ہیں۔"

ایسا معلوم ہوتا ہے یاتو قاری صاحب اجماع کے معنی نہیں سمجھتے یا پھر تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں۔ورنہ ایک ہی فقرے میں متضاد باتیں نہ لکھ جاتے۔اجماع کا معنی یہ ہے کہ اگر کل آدمی دس ہیں اور وہ سب کے سب ایک بات پر متفق ہوجاتے ہیں۔تو یہ اجماع ہے۔اوراگر دس آدمیوں میں سے ایک نے بھی اختلاف رائے کیا تو یہ اجماع نہ رہا باقی نو آ دمیوں کو جمہور یا اکثریت کی بات تو کہا جاسکتا ہے۔اجماع نہیں کہا جاسکتا اور حجت شرعیہ اگر ہے تو اجماع سے نہ کہ جمہور۔اب قاری صاحب کا کمال یہ ہے کہ ایک طرف تو فرمارہے ہیں کہ اجماع ہوگیا ۔ساتھ ہی ساتھ یہ بھی فرمادیا کہ ماسوائے چند حضرات کے جن میں شعیہ حضرات بھی شامل ہیں۔گویا قاری صاحب کے"چند حضرات" بھی اتنے زیادہ ہیں کہ ان میں سارے شیعہ،سارے اہل حدیث اورسارے ظاہری سما جاتے ہیں۔پھر بھی وہ چند ہی رہتے ہیں۔اب اتنے زیادہ چند کے باوجود باقی اصحاب پر قاری صاحب"اجماع" کااطلاق فرمائیں تو یہ ان کا کمال ہی سمجھنا چاہیے۔

پھر طرفہ تماشا یہ کہ ادھر قاری صاحب اجماع کادعویٰ فرمارہے ہیں۔ادھر صاحب جواہر شیعہ حضرت بھی فرمارہے ہیں کہ یہ مسئلہ اجماعی اور ضروریات شیعہ میں سے ہے۔"(منہاج مذکور 307) جبکہ حقیقت یہی ہے کہ یہ دونوں ہی باتیں ہی غلط ہیں۔ان میں سے کسی کا بھی "دعوائے اجماع" حقیقت پر مبنی نہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاکارنامہ:۔

آگے چل کر قاری صاحب نے فرمایا:۔

"حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صرف اتنا ہی کیا تھا کہ عام طور پرلوگ جب اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیتے تو حاکم یاقاضی کے سامنے آکرکہتے کہ میں نے تین طلاق کی نیت نہیں کی تھی بلکہ آخری الفاظ تاکید کے لئے استعمال کئے تھے اور یہ حیلہ کرکے ا پنی بیوی کو اپنے پاس ہی رکھتے توحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ ہم فیصلے پرنیت نہیں کریں گے بلکہ ظاہر الفاظ پر کریں گے۔جس نے مجلس واحد میں تین طلاقیں دیں تو ہم وہ تین ہی شمار کریں گے۔"(ایضاً ص307)

اب دیکھئے! قاری صاحب پہلے یہ فرما چکے ہیں کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور دور صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی تھیں۔یہ کام تو پہلے ہی پورا تھا۔پھرحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا کارنامہ سر انجام دیا اور کیا قانون نافذ فرمایا تھا؟ قاری صاحب کے ان دونوں بیانوں میں مطابقت کی صورت تو یہ ہوسکتی ہے۔کہ درمیان میں حاکم یا قاضی کا رابطہ جب قائم ہوا تو وہ لوگوں کی حیلہ بازی پراعتماد کرتے ہوئے دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور دور صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فیصلہ کے علی الرغم ان کی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کرنے کی چھوٹ دے دیا کر تے تھے۔اورجو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرنے کا قانون نافذ کیا تھا تو یہ عوام کی اصلاح کے لئے نہیں بلکہ ایسے ترس کھانے والے حاکم یا قاضیوں کی تنبیہ کے لئے بنایا گیا جو لوگوں کی نیت پر یا حیلہ بازی پر اعتماد کرکے تین طلاق کو ایک بنادیاکرتے تھے۔جو کچھ بھی تھا۔یہ بات بہرحال قاضی صاحب نے تسلیم فرمالی کہ لوگ تو تین طلاق ہی دیا کرتے تھے۔مگر حاکم یا قاضی ان کو ایک بنا دیا کرتے تھے۔

اب ا گر ہم یہی بات کہیں جو قاری صاحب نے تسلیم فرمائی ہے ۔تو قاری صاحب برا منا جاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ نہیں ایسا کب ہوتاتھا۔وہ تو دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی اور دور صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں بھی ایک مجلس کی تین طلاق تین ہی شمار کرتے ہیں یہ بھی غنیمت ہے کہ آخر میں آپ نے وہی بات کہہ دی جو ہم کہتے ہیں۔صبح کابھولا شام کو گھر آجائے تو بھی اسے بھولا نہیں کہتے۔

اجماع کی حقیقت


تطلیق ثلاثہ سے متعلق چار گروہ:۔

تطلیق ثلاثہ پر اجماع کی حقیقت کا اندازہ تو صرف اس ایک بات سے ہی ہوجاتا ہے۔کہ تطلیق ثلاثہ کے وقوع کے بارے میں مندرجہ ذیل چار قسم کے گروہ پائے جاتے ہیں۔

1۔پہلاگروہ تو وہ ہے جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فیصلہ کو وقتی اور تعزیری سمجھتا ہے۔اور سنت نبوی کو ہر زمانہ کے لئے معمول جانتا ہے ا س کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی شمار ہوتی ہے۔اس گروہ میں ظاہری ،اہل حدیث اور شیعہ شامل ہیں۔نیز ائمہ اربعہ کے مقلدین میں سے بعض وسیع النظر علماء بھی اس گروہ میں شامل ہیں۔اور بعض"اشد ضرورت کے تحت" اس کے قائل ہیں۔

2۔دوسرا گروہ مقلد حضرات کا ہے۔یہ گروہ حضرت عمر کے فیصلے کو تقریری یا وقتی تسلیم نہیں کرتا۔ بلکہ اسے مشروع اور دائمی سمجھتا ہے۔پس گروہ میں اکثریت مقلدین کی ہے۔ پھرمقلدین میں سے بھی کچھ بالغ نظر علماء اس مسلک سے اختلاف رکھتے ہیں۔

3۔تیسرا گروہ وہ ہے کہ جو دوسری انتہا کو چلاگیا ہے۔ان کے نزدیک ایک مجلس میں ایک طلاق تو جائز ہے لیکن اگر دو یا تین یازیادہ دی جائیں تو ایک بھی واقع نہیں ہوتی۔وہ کہتے ہیں کہ ایک وقت میں ایک سے زیادہ طلاق دینا کار معصیت اور خلاف سنت یعنی بدعت ہے جس کے متعلق ارشاد ہے کہ:

من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد

"جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی بات پیدا کی جو اس میں نہ تھی تو وہ بات مردود ہے۔"

تو اس لحاظ سے ایسی بدعتی طلاقیں سب مردود ہیں۔لغو ہیں،باطل ہیں۔لہذا ایک طلاق بھی نہ ہوگی۔اس گروہ میں شیعہ حضرات میں سے کچھ لوگ شامل ہیں۔حجاج بن ارطاۃ اور محمد بن مقاتل(حنفی ) بھی اس کے قائل ہیں۔(شرح مسلم للنوویؒ ۔ج1 ص478)

4۔اور ایک قلیل تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو ایک مجلس کی تین طلاق کو غیر مدخولہ کے لئے ایک ہی شمار کرتے ہیں اور مدخولہ کے لئے تین(زاد المعارج ج4 ص67)

غور فرمائیے کہ جس مسلک میں اتنا اختلاف ہو کہ اس کے بارے میں چار گروہ پائے جاتے ہوں اسے"اجماعی" کہاجاسکتا ہے؟

تطلیق ثلاثہ میں اختلاف کرنے والے اور اختلاف کو تسلیم کرنے والے علماء

جو حضرات ایک مجلس کو تین طلاق کے تین واقع ہونے کے قائل ہیں ان کا سب سے بڑا سہارا یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس فیصلہ کے بعد پوری امت کا اس فیصلہ پراجماع ہوگیا تھا۔اس اجماع پر مجملاً تبصرہ تو پہلے گزر چکا ہے۔اب ہم ذرا تفصیل کے ساتھ اور ترتیب زمانی کا لحاظ رکھتے ہوئے اس دعویٰ کاجائزہ لینا چاہتے ہیں۔اور بتلانا چاہتے ہیں کہ درج ذیل اصحاب نے اس فیصلہ سےاختلاف کیا یا کم از کم اختلاف کو تسلیم کرکے بالفاظ دیگر اجماع کا انکار کردیا ہے۔

1۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ :۔

اس ضمن میں پہلا نام تو خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہی آتا ہے۔موطا امام مالکؒ کی روایت کے مطابق آپ طلاق بتہ کو ایک ہی طلاق قرار دیتے تھے۔(موطاکتاب طلاق باب ماجاء فی البتہ)

طلاق بتہ کیاہوتی ہے؟اگرچہ ا س کی مختلف تعریفیں بیان کی گئی ہیں۔تاہم ان سب سے بہتر تعریف وہ ہے جو حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے بیان فرمائی کہ"اگر طلاق ایک ہزار تک درست ہوتی تو بتہ اس میں کچھ باقی نہ رکھتا۔جس نے بتہ کہا تو وہ انتہا کو پہنچ گیا(موطا امام مالک)اب چونکہ طلاقیں تین ہی ہیں۔لہذا بتہ(لفظی معنی کاٹنے والی۔زوجیت کے معاملے کو قطع کردینے والی) کا وہی معنی ہوا جو طلاق مغلظہ کا ہے۔طلاق بتہ یا توتیسری طلاق ہوگی یا ایک مجلس کی ایسی تین طلاقیں جنھیں تین ہی شمار کیا گیاہو ۔تیسری طلاق کے بتہ یا مغلظہ ہونے میں تو کسی کوشک ہوہی نہیں سکتا رہا ایک مجلس کی تین طلاق کا مسئلہ تو اگر اختلاف ہے تو صرف اسی میں ہے ۔موطا کی پوری عبارت یوں ہے کہ"طلاق بتہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک ایک ہی طلاق پڑے گی۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک تین پڑیں گی۔امام مالک ؒ کا یہی مذہب ہے۔سفیان ثوری اور اہل کوفہ کے نزدیک جو نیت ہوگی وہی واقع ہوگی مگربائن پڑے گی۔شافعی کے نزدیک رجع ہوگی۔مروان بن الحکم حاکم مدینہ طلاق بتہ میں تین طلاق کاحکم کرتا تھا۔" (موطا ایضاً)

موطا امام مالک ؒ کی اس روایت سے واضح ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ذاتی طور پر ایک مجلس کی تین طلاق کے ایک ہی واقع ہونے کے قائل تھے۔اور جو قانون آپ نے نافذکیا وہ غیر محتاط لوگوں کو سزا کے طورپرنافذ کیا تھا۔

2۔امام بخاری(م 286ھ) امام بخاریؒ اپنی صحیح میں ایک باب کا عنوان تجویز فرماتے ہیں۔باب من اجاز طلاق الثلاث

اس عنوان سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ایک صراحتہ ً د وسری کنایۃً ۔صراحتًہ یہ کہ امام بخاریؒ کے نزدیک یہ مسئلہ اجماعی نہیں بلکہ اختلافی ہے۔اورکنایۃ کہ امام بخاریؒ کااپنا رخ بھی مزعومہ اجماع کی طرف نہیں ہے۔ورنہ وہ ایسا عنوان تجویز ہی نہ فرماتے۔اس باب میں امام بخاریؒ صرف دو واقعات پر مشتمل تین احادیث لائے ہیں۔ایک واقعہ عویمر عجلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے متعلق ہے۔اور دوسرا رفاعہ قرظی سے متعلق گویا امام بخاری ؒ کے نزدیک یہی تین احادیث ایسی ہیں جن سے قائلین تطلیق ثلاثہ استدلال فرماسکتے ہیں۔اور ان پر ہم پہلے بھر پور تبصرہ کرچکے ہیں۔

3۔امام طحاوی :۔امام بخاری ؒ کے ہم عصر اور ممتاز حنفی عالم اپنی تالیف "معانی ج2 ص32 پر فرماتے ہیں کہ:

فذهب قوم إلى أن الرجل إذا طلق امرأته ثلاثا معا، فقد وقعت عليها واحدة

ایک قوم اس طرف گئی ہے کہ اگر اکھٹی تین طلاقیں دی جائیں تو ایک ہی واقع ہوتی ہے۔(بحوالہ مقالات ص21)

گویا آپ کے نزدیک اختلاف کرنے والے چند حضرات نہیں بلکہ ایک قوم ہے۔لہذا اجماع کا دعویٰ غلط ہے۔

4۔امام فخر الدین رازی شافعی اشعری(م606)

اپنی تفسیر کبیرج2 ص 248 پر فرماتے ہیں۔

وهو اختيار كثير من علماء الدين، أنه لو طلقها اثنين أو ثلاثا لا يقع إلا الواحدة، وهذا القول اقرب ا لي القياس لان النهي عن شيئ يدل علي اشتمال المنهي عنه علي مفسدة راجحة والقول بالوقوع في ادخال تلك المفسدة في الوجود وانه غير جائر فوجب ان يحکم بعدة الوقوع

بہت سے علمائے دین کاپسندیدہ مسلک یہ ہے کہ جو شخص بیک وقت دو یا تین طلاقیں دیتا ہے تو صرف ایک طلاق واقع ہوتی ہے۔اور یہی قول قیاس کے سب سے زیادہ موافق ہے۔کیونکہ کسی چیز سے منع کرنا اس پر دلالت کرتا ہے کہ وہ چیز کسی بڑے مفسدہ اور خرابی پر مشتمل ہے ۔اور وقوع طلاق کا قائل ہونا اس مفسدہ اور خرابی کو وجود میں لانے کا سبب ہے۔اور یہ بات جائز نہیں لہذا عدم وقوع کاحکم لگانا واجب ہے۔(بحوالہ مقالات ص25)

5۔امام ابن تیمیہؒ (م728)

آپ فرماتے ہیں:۔

ترجمہ:۔اگر کوئی شخص ایک اطہر میں ایک کلمہ میں یا تین کلموں میں طلاق دے تو جمہور علماء کے نزدیک حرام ہے۔لیکن ان کے واقع ہونے کامسئلہ مختلف فیہ ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ تین واقع ہوں گی۔اور ایک یہ ہے کہ ایک ہی واقع ہوگی اور یہی بات زیادہ صحیح ہے۔جس پر کتاب وسنت دلالت کرتے ہیں"(فتاویٰ ابن تیمیہؒ ج2 ص87 بحوالہ مقالات ص 66)

ایک دوسرے مقامات پر فرماتے ہیں:۔

"سلف اور خلف میں مالک ،احمد بن حنبل ؒ اور داؤد ؒ کے اصحاب میں سے ایسے حضرات تھے جو تطلیق ثلاثہ کو یا تو لغو قرا ر دیتے تھے یا پھر اس سے ایک طلاق رجعی واقع کرتے تھے اور یہی صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین ؒسے بھی منقول ہے"(فتاویٰ امام ابن تیمیہؒ ج4 ص 151 بحوالہ مقالات ص 81۔)

امام ابن قیم ؒ

ابن تیمیہؒ کے شاگردرشید حافظ ابن قیمؒ نے اپنی تالیف "اعلام الموقعین" میں تطلیق ثلاثہ کو ایک قرار دینے والوں کی جوفہرست دی ہے وہ اس طرح ہے۔

1۔صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین سے حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،اورحضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،

2۔حضرت اب عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،اورابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دونوں طرح کے فتوے منقول ہیں۔

3۔بعد کے ادوار میں حضرت عکرمہ ،طاؤس،محمد بن اسحاق،خلاص بن عمرو،حارث عکلی ،داؤد بن علی اور ان کے اکثر ساتھی بعض مالکی ،بعض حنفی جیساکہ ابو بکر رازی اسے محمد بن مقاتل سے روایت کرتے ہیں۔بعض حنبلی ،شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ اور ان کے دادا عبدالسلام حرانی (اعلام الموقعین اردو ص 799 اور 803)

اور ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:۔

"امام ابو حنیفہ ؒ سے اس مسئلہ میں دو روایتیں منقول ہیں۔ایک تو وہی جو مشہور ہے۔دوسری یہ کہ ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی رجع ہوتی ہے۔جیسا کہ محمد بن مقاتل رازی نے اما م ابوحنیفہ سے نقل کیا ہے۔(اغاثہ اللہفان ص 157 مطبوعہ مصر بحوالہ مقالات ص112)

7۔اامام ابن حجر عسقلانی ؒ (م852ھ)

آپ نے فتح الباری شرح صحیح بخاری ج9کے ص 29 پر تطلیق ثلاثہ کو ایک طلاق قرار دینے والوں کی جو فہرست دی ہے وہ درج ذیل ہے۔

"حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس طرح کی بات منقول ہے۔اسے ابن مغیث نے کتا ب الوثائق میں نقل کیا ہے۔اور غنویٰؒ نے اس مسلک کو قرطبہ کے مشائخ کے ایک گروہ مثلاً محمد بن تقی بن مخلد ؒ اور محمد بن عبدالسلام خشنیؒ وغیرہ سے نقل کیا ہے۔اور ابن المنذر نے اسے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اصحاب مثلا عطاءؒ طاؤس،ؒ اورعمرو بن دینار سے نقل کیا ہے۔(بحوالہ مقالات ص157)

علامہ بدر الدین عینی ؒ(م755)

آپ بھی شارح بخاری ہیں جس کا نام عمدۃ القاری ہے۔مسلکاً حنفی ہیں۔آپ عمدۃ القاری ج9 ص 537 پر فرماتے ہیں:۔"طاؤس،ابن اسحاق، حجاج بن ارطاۃ،نخعیؒ ،ابن مقاتل ؒ اور ظاہریہ اس طرف گئے ہیں کہ اگر شوہر بیوی کو تین طلاق دےدے تو ایک واقع ہوگی"(بحوالہ مقالات ص20)

مندرجہ بالا اصحاب میں سے طاؤس ،حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مایہ نازشاگرد ہیں اور زبردست فقیہ تھے۔محمد بن اسحاق امام المغاذی اورحجاج بن ارطاۃ کوفہ کے مشہور فقیہ تھے۔

ابراہیم نخعی امام ابو حنیفہ کے استاد کے استاد اور محمد بن مقاتل امام ابو حنیفہ اور امام محمدکے شاگرد رشید ہیں۔(حوالہ ایضاً)

9۔امام طحاوی:۔

مشہور حنفی امام اپنی تصنیف "در مختار" ج2 ص 105 کے حاشیہ پر فرماتے ہیں کہ :۔

ﻟﺼﺪﺭ ﺍﻻﻭﻝ ﺍﺫﺍ ﺍﺭﺳﻞ ﺍﻟﺜﻼﺙ ﺟﻤﻠﺔ ﻟﻢ ﻳﺤﻜﻢ ﺍﻻ ﺑﻮﻗﻮﻉ ﻭﺍﺣﺪﺓ ﺍﻟﻰ ﺯﻣﻦ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﺛﻢ ﺣﻜﻢ ﺑﻮﻗﻮﻉ ﺍﻟﺜﻼﺙ ﺳﻴﺎﺳﺔ ﻟﻜﺜﺮﺗﻪ ﺑﻴﻦ ﺍﻟﻨﺎﺱ-

صدر اول میں سے جب کوئی شخص اکھٹی تین طلاقیں دیتا تو اس کے ہونے کا فیصلہ دیا جاتا تاآنکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کازمانہ آگیا۔لوگ چونکہ کثرت سے اکھٹی تین طلاقیں دینے لگے تھے لہذا آپ نے سیاسی طور پر تینوں کے تین ہی واقع ہونے کا فیصلہ کردیا۔(مقالات ص24)

10۔امام شوکانی ؒ(م1255ھ)

اپنی تصنیف نیل الاوطار میں فرماتے ہیں کہ:

"اور اہل علم کا ایک گروہ اس طرف گیا ہے کہ طلاق طلاق کے پیچھے واقع نہیں ہوتی بلکہ صرف ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے۔"صاحب بحر نے اس کو ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور ایک روایت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے۔طاؤس ،عطاء،صابر بن یزید ہادی،قاسم ناصر احمد بن عیسیٰ،عبداللہ بن موسیٰ بن عبداللہ اور ایک روایت زید بن علی سے نقل کی ہے۔اسی طرف متاخرین کی ایک جماعت گئ ہے۔جس میں علامہ ابن تیمیہؒ ،علامہ ابن قیم ؒ اور محققین کی ایک جماعت شامل ہے۔ابن مغیث نے اپنی کتاب الوثائق میں محمد بن رضاح سے نقل کیا اور مشائخ قرطبہ کی ایک جماعت جیسے محمد بن مقاتل،ومحمد بن عبدالسلام وغیرہ نے ایسا ہی فتویٰ نقل کیا ہے۔اور ابن المنذر نے اس کو اصحاب بن عباس یعنی عطاء اور طاؤس اور عمر بن دینار سے نقل کیا ہے۔نیز ابن مغیث نے اسی کتاب میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور زبیر سے نقل کیا ہے اور امامیہ سے بعض لوگ اس طرف گئے ہیں۔کہ اکھٹی تین طلاق سے کچھ بھی واقع نہیں ہوتا نہ ایک طلاق اور نہ زیادہ (یعنی تین) بعض تابعین ؒ نے بھی ایسا کیا ہے۔ابن عطیہ اور ہشام بن حکم سے روایت ہے کہ ابو عبیدہ اور بعض اہل ظاہر نے بھی ایسا ہی کہاہے۔یہ سب لوگ کہتے ہیں کہ یہ طلاق بدعی ہے اور بدعی طلاق خواہ ۔تین طلاق،یاطلاق طلاق طلاق کہاجائے واقع نہیں ہوتی۔باقر،صادق اور جعفر کا یہی مذہب ہے۔اور اصحاب عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اسحاق بن راہویہ سے ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہاگر عورت مدخولہ ہ تو تین اور اگر غیر مدخولہ ہے تو ایک طلاق پڑےگی۔(نیل الاوطار ج7 ص 16)

11۔عبدالحئی لکھنوی (فرنگی محلی) م1302ھ) ہندوستان کے مایہ ناز حنفی عالم ۔آپ اپنی تصنیف عمدۃ الرعایۃ ج4 ص 71 پرفرماتے ہیں۔"اور دوسرا قول یہ ہے کہ شوہراگر تین طلاق دےدے تو تب ہی ایک ہی پڑے گی۔ اور یہ وہ قول ہے جو بعض صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین سے منقول ہے۔داؤد ظاہری اور ان کے متبعین اس کے قائل ہیں۔امام مالک ؒ کا بھی ایک قول یہی ہے اور امام احمد ؒ کے بعض اصحاب کا بھی یہی قول ہے۔"(بحوالہ مقالات 22،37)

12۔نواب صدیق حسن خاں(م1307ھ) اپنی تصنیف الروضہ الندیہۃ ص 142پرفرماتے ہیں۔

وهذا مذهب ابن عباس على الأصح وابن اسحق وعطاء وعكرمة وأكثر أهل البيت وهذا اصح الاقول

اور یہ مذہب (یعنی تطلیق ثلاثہ کو ایک قرار دینا) ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابن اسحاقؒ،عطاء، عکرمہ اور اکثر اہل بیت کا ہے۔اور تمام اقوال میں یہی سب سے زیادہ صحیح ہے۔(ایک مجلس کی تین طلاق ص6)

13۔شبلی نعمانی (م1322ھ) مشہور حنفی محقق اور مورخ۔آپ نے اپنی تصنیف الفاروق میں تطلیقات ثلاثہ کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولیات میں شمار کرکے یہ واضح کردیاکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس فیصلہ سے پہلے طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتاتھا۔آپ فرماتے ہیں ۔"لیکن بہت سے مسائل ایسے بھی ہیں جن میں دیگر صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اختلاف کیا اور وہی حق پر ہیں۔مثلاً تیمم ،جنابت،منع تمتع،طلقات ثلاث وغیرہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اجتہاد سےدوسرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کا اجتہاد زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔"(الفاروق ص 351)

شبلی نعمانی کے اس اقتباس سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ یہ مسئلہ اجماعی نہیں بلکہ اختلافی ہے۔دوسرا یہ کہ اختلاف کرنے والے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کا موقف زیادہ صحیح ہے اور وہی حق پر ہیں۔

ان اقتباسات کی روشنی میں اب آپ خود فیصلہ کرلیجئے کہ قاری عبدالحفیظ صاحب اس مسئلہ کواجماعی کہنے میں کہاں تک حق بجانب ہیں۔

فیصلہ فاروقی سے اختلاف رکھنے والوں کا اجمالی ذکر

اب ہم مندرجہ بالا اقتباسات کا خلاصہ ایک نئے انداز سے پیش کریں گے۔

1۔صحابہ کرام میں سے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فیصلہ فاروقی سے اختلاف رکھتے تھے۔اورحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دونوں طرح کے فتوے منقول ہیں۔(اعلام الموقعین۔ص 803)

2۔تابعینؒ اور تبع تابعین ؒ میں سے:۔

عکرمہ ؒ،طاوس،(دونوں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد اور نامورفقیہ) محمد بن اسحاق (امام المغاذی) حجاج بن ارطاۃ (کوفہ کے نامور فقیہ) ابراہیم نخعی (امام ابو حنیفہ کے استاد) محمد بن مقاتل( امام ابو حنیفہ اور امام محمد کے مایہ ناز شاگرد) جابر بن زید۔عطاء بن رباح (حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد رشید) عمرو بن دینار،احمد بن عیسیٰ عبداللہ بن موسیٰ افلاس اور اہل بیت ،زید بن علی،داؤد بن علی اور ان کے اکثر ساتھی۔قاسم،ناصر،امام باقر اور جعفر صادق۔

3۔ائمہ اربعہ:۔

اما م ابوحنیفہ سے ا س مسئلے میں دو روایتیں مذکور ہیں۔ایک تو وہی جو مشہور ہے۔دوسری یہ کہ ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی رجعی ہوتی ہے۔(اغاثۃ اللھفان ص 157طبع مصر بحوالہ مقالات علمیہ ص 112)

امام مالک ؒ اما م احمد بن حنبلؒ بعض مالکی اور بعض حنفی بھی ایک مجلس کے تین طلاقوں کوایک ہی شمار کرتے ہیں۔امام احمد بن حنبل ؒ کا اپنا بھی ایک قول یہی ہے ۔(مازری نے اپنی کتاب میں امام محمد بن مقاتل (حنفی) سے یہ روایت نقل کی ہے۔(مقالات ص91)

4۔متاخرین میں سے:۔

امام ابن تیمیہؒ اور ان کے ساتھی۔آپ کے دادا احمد بن عبدالسلام حرانی بھی یہی فتویٰ دیا کرتے تھے۔

امام ابن قیم ؒ اور ان کے ساتھی:۔

اما م شوکانی ؒ۔نواب صدیق حسن خاںؒ۔علامہ رشید رضا مصنف تفسیر المنارج ج9 ص 183 (بحوالہ مقالات علمیہ) علامہ شیخ محمد شتوت۔جامعہ ازہر مصر (الفتاویٰ ص 306)

5۔موجودہ دور کے علمائے احناف:۔

شبلی نعمانی جنھوں نے الفاروق میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فیصلہ سے اختلاف رکھنے والے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کی اجتہاد کو زیادہ صحیح قرار دیا ہے(تفصیل پہلے گزر چکی ہے)

مولانا محفوظ الرحمٰن صاحب قاسمی فاضل دیوبند،مولانا شمس صاحب۔(سیکرٹری جماعت اسلامی ملتان شہر) مولانا سعید احمد صاحب اکبرآبادی (مدیر ماہنامہ "برہان" دہلی) سید حامد علی صاحب (سیکرٹری جماعت اسلامی ہند) مفتی عتیق الرحمٰن صاحب۔(صدر آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت) شرکائے سیمینار بمقام احمد آباد مطابق نومبر 1973ء بموضع ایک مجلس کی تین طلاق۔" ان سب حضرات نے ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک شمار کرنے کی سفارش کی اورنہایت بالغ نظری سے اس موضوع پر مقالات لکھے اور پڑھے یہ مقالات "مجموعہ مقالات علمیہ۔ایک مجلس کی تین طلاق" کے نام سے نعمانی کتب خانہ اردو بازار لاہور نے شائع کئے۔پیرکرم شاہ صاحب ازھری کامقالہ بعنوان دعوت فکر ونظر میں انہی مقالات کے آخر میں شائع کیا گیا ہے۔

مولانا عبدالحلیم صاحب قاسمی مہتمم مدرسہ جامعہ حنفیہ قاسمیہ لاہور وصدر علمائے احناف پاکستان۔آپ علی الاطلاق ایک مجلس کی تین طلاق کے ایک ہی واقع ہونے کے قائل ہیں۔

("ایک مجلس کی تین طلاق ۔علمائے احناف کی نظر میں " ص 6 مطبوعہ دارالاحدیث محمدیہ عام خاص ملتان شہر)

موجودہ دور میں تطلیق ثلاثہ کی قانوی حیثیت:۔

مندرجہ ذیل مسلمان ممالک میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی رجعی طلاق شمار کرنے کاقانون نافذ کردیا گیا ہے۔

1۔مصر 1929ء میں۔2۔سوڈان 1935ء میں ۔3۔اردن 1951ء میں

4۔مراکش 1958ءمیں ۔5۔عراق 1959ء میں۔6۔پاکستان 1962ء میں

ان تصریحات کی روشنی میں آپ خود ملاحظہ فرمالیجئے کہ مسئلہ میں "امت کے اجماع کے دعویٰ میں حقیقت کاعنصر کس قدر ہے۔

4۔متفرقات


سنت اور جائز کا مسئلہ:۔

قاری صاحب فرماتے ہیں:۔

"نیز جس طرح متفرق طور پر دی گئی تین طلاقوں کے وقوع پرکسی کو اعتراض نہیں ہے۔اسی طرح ایک ہی مجلس میں دی گئی تین طلاقوں کے وقوع پر بھی کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے۔بلکہ یہ بھی سنت اور جائز ہیں۔"(منہاج مذکور ص304)

اب دیکھئے جن لوگوں کو ایک مجلس کی تین طلاق کے بصورت تین واقع ہونے میں اعتراض ہے۔ان کی تعداد کثیر ہے جسے ہم"اجماع کی حقیقت" کے تحت تفصیل سے بیان کر آئے ہیں۔جس سے حقیقت حال کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے۔البتہ یہ بات ضرور ہے کہ عملی میدان میں بعض مقامات پرمتعصب قسم کے حنفی حضرات اس "اجماع" کو انتشار قطع رحمی اور بائیکاٹ کے ذریعے زبردستی مسلمانوں پر ثابت کرنا اور ٹھونسنا چاہتے ہیں۔اسی اجماع کی آڑ میں اہل حدیثوں کو کافر قرار دینا ان سے مقاطعہ کرنا اور انہیں مساجد سے نکال دینا تک روا رکھاجاتا ہے۔ ایسے واقعات کے وقوع کے باوجود احناف کو اس مسئلے میں کوئی اختلاف نظر نہیں آتا اور وہ بدستور ابھی تک اجماع کے د عوے کی رٹ لگارہے ہیں۔

رہی یہ بات کہ ایک مجلس کی تین طلاق بھی سنت اور جائز ہیں تو اس سلسلہ میں ہماری گزارشات یہ ہیں کہ:

1۔قاری صاحب خود حافظ بدرالدین عینی کے حوالے سے فرمارہے ہیں کہ"جس شخص نے اپنی بیوی کو"ایک مجلس میں تین طلاقیں دیں تو تینوں واقع ہوجائیں گی لیکن طلاق دینے والا گناہ گار ہوگا۔"(رسالہ مذکور ص 313)

کیا یہ ممکن ہے کہ سنت اور جائز کام کرنے والا گناہگار ہو؟بالفاظ دیگر اگر ایک مجلس میں تین طلاق د ینا گناہ کا کام ہے تو یہ سنت اور جائز کیسے ہوسکتا ہے؟

2۔اگر ایک مجلس میں تین طلاق دینا بھی سنت اور جائز ہے تو علماء وفقہائے احناف نے ایسی طلاق کو بدعی کا نام کیوں دیا ہے؟(ملاحظہ ہو ہدایہ اولین۔کتاب الطلاق۔باب طلاق السنہ) کیا یہ ممکن ہے کہ ایک ہی چیز بیک وقت سنت اور جائز بھی ہو اور ب بدعت اور کار معصیت بھی؟

مسلک کی حمایت:۔

قاری صاحب موصوف ارشاد فرماتے ہیں کہ:

"فاضل مقالہ نگار مولانا عبدالرحمٰن کیلانی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر پرویز اور جعفر شاہ صاحب پھلواری کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات کے جوابات دینے ہوئے جب تطلیق ثلاثہ کے موضوع پرپہنچے تو چونکہ یہ مسئلہ ان کے اپنے نظریہ اور عقیدہ نیز مسلک اہل حدیث کے خلاف تھا ۔لہذا کیلانی صاحب نے اپنے مسلک کی حمایت کو مقدم سمجھایا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پربر س پڑے۔اور بیک جنبش قلم انہیں مخالف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرار دینے میں کوئی باک محسوس نہیں کیا۔چنانچہ لکھتے ہیں"ہمیں یہ تسلیم کرلینے میں کوئی بات نہیں کہ آپ کا یہ فیصلہ براہ راست کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تھا۔"(منھاج مذکور ص 302)

اس سلسلے میں جو مجھ سے تسامح ہوا اس کا بھی اور جو قاری صاحب موصوف سے لغزش ہوئی اس کا بھی میں پہلے ذکر کر آیا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو معاف فرمائے۔آمین ۔رہی مسلک کی حمایت کی بات چونکہ ہمارا مسلک کتاب و سنت کی حمایت اور دفاع ہےلہذا میں قاری صاحب کے اس طعنہ حمایت کو خوش آمدید کہتا ہوں۔اللہ تعالیٰ مجھے اس کی زیادہ سے زیادہ توفیق بخشے۔آمین ۔میرا اصل مضمون بعنوان "خلفائے راشدین کی شرعی تبدیلیاں" در اصل میری اس مطبوعہ کتاب کا باب ہے جس کا نام "دفاع حدیث" ہے جو آئینہ پرویزیت کا پانچواں حصہ ہے۔پھر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اگر حج تمتع کے مسئلے پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سنت کی حمایت کرتے ہوئے اپنے باپ سے اختلاف کرسکتے ہیں اور سائل کو یوں جواب دے سکتے ہیں۔کہ قابل قبول بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔نہ کہ میرے باپ کی(ترمذی ابواب الحج باب ماجاء فی التمتمع) کوئی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ کردار ہمارے لئے راہنمائی کا کام نہیں دے سکتا؟اگر میں نے بیس بائیس معاملات میں پرویز صاحب اور پھلواری صاحب کی اعتراضات سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دامن کو پاک کیا ہے۔تو اگر مجھے کچھ راہ نظر آتی تو کیا میرے لئے یہ بات باعث سعادت نہ تھی کہ اس اعتراض کو بھی آپ سے دور کردیتا۔

پرویز صاحب اور پھلواری صاحب کا اعتراض یہ تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تطلیق ثلاثہ کو نافذ کرکے دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور صدیقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تعامل امت میں تبدیلی پیدا کردی۔اب قاری صاحب کے " یہ بھی سنت اور جائز اور وہ بھی سنت اور جائز" کہنے سے تو کام نہیں چلتا جبکہ شبلی نعمانی جیسے حنفی محقق اسے اولیات عمر میں شمار کرکے اس تبدیلی کو تسلیم فرمارہے ہیں۔اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےاس اجتہاد کو اختلاف رکھنے والے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے اجتہاد سے"کم صحیح" قرار دے رہے ہیں۔اور پیر کرم شاہ ازہری صاحب نے تحریر میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کمال احترام کو ملحوظ رکھنے کے باوجود کہ انہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس تبدیلی کی کوئی شرعی بنیاد نظر نہیں آتی اس طرح کے کئی دوسرے علماء کے اقتباس بھی ہم پہلے درج کرچکے ہیں۔پھر میں نے اگر اس تبدیلی کو"اجتہادی غلطی" کے تحت لا کر اگر کتاب وسنت کی منشا کے خلاف لکھ دیا تو کونسی نئی بات کہہ ڈالی ہے جسے حنفی علماء تسلیم نہیں کرتے؟

مذید برآں اگر ہم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس تبدیلی کو درست قرار دینے کے درپے ہوجائیں تو اس سے ایک ایسے مفسدہ کی طرف راہ کھلتی ہے۔جس کی طرف یہ حضرات ہمیں لے جانا چاہتے ہیں۔یعنی ہمیں بھی یہ حق ہونا چاہیے کہ زمانہ کے تقاضوں کے مطابق سنت رسول میں حسب ضرورت تبدیلیاں کرلیا کریں۔لہذا راہ صواب یہی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس تبدیلی کو کم صحیح یاکتاب وسنت کی منشا کے خلاف قرار دے کر آئندہ کے لئے اس مفسدہ کی راہ بند کردی جائے۔

اب مسلک کی حمایت کا دوسرا رخ بھی ملاحظہ فرمایئے اور وہ یہ ہے کہ قاری صاحب موصوف جس بات کا مجھے طعنہ دے رہے ہیں کیا ان کا ا پنا دامن اس سے بچا ہوا ہے؟ہمارا خیال ہے کہ قاری صاحب ایک مجلس کی تین طلاق کے تین واقع ہونے کو اس لئے تسلیم نہیں کرتے کہ یہ حضر ت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فیصلہ ہے بلکہ اس لئے کرتے ہیں کہ یہ امام ابو حنیفہ ؒ کا قیاس ہے ۔ہمارے اس دعویٰ کی دلیل یہ ہے کہ جب کبھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فیصلے یامسلک اور امام ابو حنیفہ ؒ کے مسلک میں اختلاف ہو گا۔تو احناف حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فیصلے کو کبھی در خور اعتنا نہ سمجھتے ہوئے ہمیشہ امام ابو حنیفہ ؒ کے مسلک کو قبول کریں گے۔اور ایسی کی تایئد کریں گے۔مثلاً حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے دور خلافت میں مسلمانوں کو حج تمتع سے روکتے تھے۔(مسلم کتاب الحج) جبکہ احناف حج تمتع کو جائز ہی نہیں بلکہ بہتر سمجھتے ہیں۔اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جہری نمازوں میں دعائے استفتاح نمازوں کو بلند آواز سے پڑھنے کے قائل تھے۔اور کبھی کبھی پڑھا بھی کرتے تھے۔(مسلم کتاب الصلواۃ باب من قال لا يجهر بالسنة) مگر احناف اسے درست نہیں سمجھتے۔ان مثالوں سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ قاری صاحب موصوف حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حمایت کی آڑ میں حقیقتاً اپنے ہی مسلک کی حمایت فرمارہے ہیں۔

تقلید کی برکات:۔

حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلہ میں آج تک جو اختلاف چلا آرہاہے اور یہ اختلاف آج بھی ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔تو اس کی اصل وجہ محض تقلید ہے۔یہ تقلید ہی کہ کرشمے ہیں کہ کتاب وسنت کے اتنے واضح اور صحیح دلائل کے باوجود آج تک یہ مسئلہ اختلافی ہی بنا ہوا ہے۔اور اگر کوئی صاحب ذرا بالغ نظری سے کام لیں تو انھیں تقلید چھوڑنے کاطعنہ دیا جاتا ہے۔اور "تمسک بالتقلید" کی تلقین کی جاتی ہے۔

تطلیق ثلاثہ کے موضوع پر احمد نگر میں جو سیمینار منعقد ہوا،اس میں مولانا سید احمد صاحب عروج قادری مدیر ماہنامہ"زندگی"(رام پور) نے اس مسئلہ میں صرف اتنی لچک دیکھائی کہ "جو شخص تین طلاقیں ایک ہی دفعہ دےدے مگر بعد میں یہ کہہ دے کہ اس کی نیت صرف ایک کی تھی اور باقی الفاظ تاکیدی تھے یا وہ شخص یہ کہے کہ میں سمجھ رہا تھا کہ جب تک تین طلاق کا لفظ استعمال نہ کیا جائے۔طلاق واقع ہی نہیں ہوتی تو ان صورتوں میں طلاق ایک ہی شمار کی جانی چاہیے۔اوراگر اس کی نیت بھی فی الواقعہ تین کی ہی تھی تو پھر تین طلاقوں کو ا یک ہی قرار دینا میرے نزدیک صحیح نہیں "اور یہ ایسی بات تھی جس کے لئے فقہ حنفی میں گنجائش بھی موجود ہے۔لیکن اس کے باوجود جناب عامر عثمانی صاحب مدیر (ماہنامہ "تجلی"دیوبند) نے عروج صاحب پر شدید گرفت کی اور فرمایا کہ"لوگوں کا جہل کسی فعل کی تاثیر میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔جیسے اگر کوئی شخص بھولے سے بھری ہوئی بندوق داغ دے اور گولی کسی انسان کےسینے میں لگ جائے تو وہ زخمی ہو ہی جائے گا بھولے سے داغی ہوئی گولی بے اثر نہیں رہے گی۔"(مقالات ص187)

طلاق یا بندوق کی گولی:۔

اس کے جواب میں عروج قادری صاحب نے جو مضمون لکھا اس کا عنوان "طلاق بندوق کی گولی نہیں ہے" تجویز فرمایا اور کئی مثالوں سے اس بات کی وضاحت فرمائی کہ فی الواقعہ طلاق بندوق کی گولی نہیں۔ اس مضمون کا آخری پیرا قابل ملاحظہ ہے۔ عروج قادری صاحب عامر عثمانی سے فرماتے ہیں۔

تواصوا بالتقلید

"جب آپ نے مجھے تقلید کو د انتوں سے پکڑنے کا مشورہ دیاتھا اور اپنی تقلید پسندی کا اقرار کیا تھا تو میں نے ہنستے ہوئے عرض کیا تھا کہ آپ کسی مسئلے م میں تو مقلد جامد بن جاتے ہیں۔ اور کسی میں مجتہد مطلق۔اب مذید عرض کرتا ہوں اگر میں تقلید کو دانتوں سے پکڑے رہتا تو مسلم شریف کی روایت پر وہ مقالہ کبھی تیار نہ ہوتا جس کو آپ نے ابھی "بہت اچھا" کہا ہے۔ اور اگر آپ خود تقلید کو دانتوں سے نہ چھوڑتے تو طلاق نمبر مرتب نہ ہوتا۔"(مقالات صفحہ 163)

ان اقتباسات سے معلوم ہوتا ہےکہ اہل علم حضرات کو اگرچہ کسی اشد ضرورت کے تحت تقلید کے سلسلہ میں نرمی اختیار کرنا پڑتی ہے لیکن اس کے باوجود"علیکم بالتقلید" کی تلقین کا فریضہ ادا کرتے رہتے ہیں۔ اور لچک پیدا کرنے پر ارباب تقلید کی طرف سے محاسبہ بھی کیا جاتا ہے۔ جہاں تقلیدی تعصب کا یہ حال ہو کہ صحیح احادیث کو تسلیم کرلینے کی بجائے اس کی تاویلات اور جوابات تلاش کرنے میں اپنی صلاحیتوں کو کھپایا جارہا ہو وہاں کبھی مسائل کااختلاف ختم ہوسکتا ہے؟

کچھ آپس کی باتیں


1۔اختلاف کا اعتراف:۔

جناب عامر عثمانی مدیر"تجلی" دیو بند جناب مولانا سید احمد عروج قادری مدیر"زندگی" رام پور سے مخاطب ہیں۔مدیر"زندگی" کااجماع پر شبہ ظاہر کرنا معقولیت کے خلاف نہیں ہے کیونکہ وہ بجا طور پر یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ سینکڑوں سال سے اہل علم اپنی کتابوں میں اس اختلاف کا ذکر کرتے ہی آرہے ہیں اور علمائے خلف کی کتابیں بھی اس ذکر سے خالی نہیں۔واقعی ایسی صورت میں یہ سمجھنا ہی چاہیے کہ یہ مسئلہ کسی درجے میں اختلافی ہے۔لیکن ہم نے انہیں یعنی عوام الناس کو(مولف) بتایا کہ یہ فتنے اور اختلاف کابیج دراصل خوارج اور روافض کا بویاہوا ہے۔دس بارہ نام جو بعض کتابوں میں اختلاف کرنے والوں کے درج ہوگئے ہیں وہ سب دھوکے کی ٹٹی ہیں۔جہاں تک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا تعلق ان میں تو کسی ایک کی طرف بھی اختلاف کی نسبت کذب وافترا کے سوا کچھ نہیں۔سفید جھوٹ ہے۔باقی ناموں میں اکثریت ان کی ہے جو اجتہاد اور فقہ کے بازار میں پھوٹی کوڑی کی بھی قیمت نہیں رکھتے رہے ایک دو وہ نام جن کی کوئی اہمیت ہے تو ان کی طرف اختلاف کی نسبت ہی درست نہیں قوی سندوں سے نقل کا کہیں پتہ نہیں۔البتہ اجماع ثابت کرنے والی نقلیں قوی تر ہیں اور کثیر سندوں سے مروی ہیں جنھیں جھٹلانا کسی واقف فن کے لئے ممکن ہی نہیں ہے"(مقالات ص193)

یہ تحریر جناب عامرعثمانی صاحب کی ہے جو نہایت متعصب حنفی ہیں لہذا مدعی! لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری کے مصداق اس تحریر سے درج ذیل امور کھل کرسامنے آگئے ہیں۔

1۔اس مسئلے کے اختلافی ہونے کا ٹھیک ٹھاک علم احناف کو بھی ہے اورابتداء سے ہے اس کے باوجود مسلک کی حمایت کے خاطر اجماع کا ڈھونگ رچایا گیا ہے اور اس اجماع کو ثابت کرنے کے لئے ہر طرح کے حربے استعمال کئے گئے ہیں۔

2۔ہمارے قاری صاحب نے بھی فرمایا تھا کہ یہ مسئلہ ضروریات شیعہ سے ہے۔عامر صاحب نے یہ بھانڈا پھوڑ دیا اور یوں وضاحت فرمائی کہ"ہم نے انہیں بتایا کہ یہ فتنے اور اختلاف کا بیج در اصل خوارج اورروافض کا بویا ہواہے۔"

3۔اس اقتباس سے عامر صاحب نے یہ اعتراف بھی فرما لیا کہ بعض صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی اس فیصلہ سے ا ختلاف رکھتے تھے لیکن ہماری پالیسی یہ رہی ہے کہ جہاں تک اس حقیقت پر مٹی ڈالی جاسکتی ہے ڈالی جائے۔

4۔قاری صاحب یہ بھی فرما رہے تھے کہ اہل حدیثوں نے یہ مسئلہ شیعہ حضرات سے لیا ہے۔اب عامر صاحب یہ فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی اختیار کئے ہوئے تھے تو کیا ان صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی یہ مسئلہ شیعہ حضرات سے ہی لیاتھا؟جو اب اہل حدیثوں پر یہ الزام لگاناضروری ہے۔

2۔طلاقوں کے درمیان وقفہ:۔

جناب محفوظ الرحمٰن صاحب قاسمی فاضل دیو بند ،جناب عامر عثمانی مدیر"تجلی" دیو بند سے مخاطب ہیں:۔

"یہی باتیں(یعنی متفرق طور پر طلاق دینا منشائے خداوندی ومقتضائے قرآن کریم ہے) سینکڑوں برس سے احناف کے چوٹی کے علماء لکھتے آرہے ہیں اور ان میں یہ بات مسلمہ تھی کیونکہ مقصد امام شافعیؒ کا رد تھا۔اب جبکہ یہی استدلال ان لوگوں کے حق میں جارہا ہے جو تین کو الگ الگ رکھتے ہیں۔اور کہتے ہیں کہ بیک کلمہ تین طلاقیں کم سے کم تین نہیں سمجھی جائیں گی کیونکہ یہ تین مرتبہ واقع نہیں کی گئی ہیں۔تو اب مولانا عامر عثمانی صاحب احناف کی ان متفقہ تصریحوں کےخلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اصرار کررہے ہیں کہ ان بزرگوں نے جو سمجھا،غلط سمجھا۔یہاں بھی یہ "اثنین" ہی کے معنی میں ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر اس کا احتمال تھا کہ"مزتان" یہاں "اثنین" کے معنی میں بھی ہوسکتاہے تو آخر "إذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال، " کے باوجود محققین احناف کیوں کہتے چلے آرہے ہیں کہ مرتان"اثنین" کے معنی میں نہیں ہے"(مقالات ص196)

یہ اقتباس احناف کے سلف وخلف دونوں کے طریق کار طرز استدلال اور مسلکی تعصب پر پوری طرح روشنی ڈال ر ہا ہے یعنی ان حضرات کو حقیقت تک پہنچنے اور اسے قبول کرنے سے غرض نہیں ہوتی،بلکہ ان کا اصل ہدف اپنے مخالف کے خلاف محاذ آرائی قائم کرنا ہوتا ہے۔اور ان کے نزدیک حالات کی تبدیلی کے ساتھ طرز استدلال کے بدل لینے میں بھی کچھ حرج نہیں ہے۔

دوسرے مسلک پرعمل:۔

میں نے لکھا تھا چونکہ یہ فتویٰ(یک بارگی تین طلاق کو تین ہی شمار کرنا) انسانی فطرت کے خلاف ہے اور اس کے مفاسد بے شمار ہیں لہذا احناف کا ایک کثیر طبقہ امام صاحب کے اس فتوے سے متفق نہیں ہے۔وہ فقہ مالکیہ کے مطابق اسے ایک ہی طلاق قرار دیتے ہیں"اس پر قاری صاحب فرماتے ہیں کہ"فاضل مولف کی یہ دونوں باتیں غلط ہیں یعنی احناف کا کثیر طبقہ امام صاحب کے اس فتوے سے متفق ہے اور امام مالک تین طلاق کو ایک قرار دیتے نہیں"

اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ اگر میں اکثر کا لفظ استعمال کرتا تو واقعی اس سے یہ مفہوم پیدا ہوسکتا تھا۔کہ تھوڑے حنفی ہیں جو امام صاحب کے اس فتوے سے اتفاق رکھتے ہیں اور زیادہ مخالف ہیں۔لیکن فی الواقعہ یہ صورت نہیں۔قلت اور کثرت تعداد کا لحاظ رکھاجائے تو فی الواقعہ اکثریت امام صاحب کے فتوی سے اتفاق رکھتی ہے۔میں نے کثیر کالفظ "بہت" یا "بہت سے" کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔اور میرے خیال میں جس قدر نام میں نے "اجماع کی حقیقت" میں حنفی علماء کے گنوادیئے ہیں ان پر بھی"ایک کثیر طبقہ" کا اطلاق ہوسکتاہے۔کیونکہ یہ علماء عام انسان نہیں بلکہ ان کا اپنا بھی وسیع حلقہ اثر ہے۔

رہا فقہ مالکی کے مطابق فتویٰ دینے کامعاملہ تو علمائے احناف سفارش یہ کرتے ہیں کہ جس طرح احناف مفقود الخبر اور عدت ممتدۃ الطہر کے مسائل میں فقہ مالکیہ کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں،اسی طرح اگر وہ اس تطلیق ثلاثہ کے مسئلے میں بھی امام صاحب کی تقلید سے ہٹ کر کسی دوسرے مسلک کے مطابق فتویٰ دے دیں تو حنفی مذہب میں اتنا توسع موجود ہے ایسا مشورہ دینے والے حضرات مندرجہ ذیل ہیں:۔

مولانا اشرف علی تھانوی صاحب اور مولانا عبدالحئی صاحب لکھنوی فرنگی محلی،اس مسئلہ میں ترک تقلید امام اعظم کی رخصت دیتے ہیں۔جیسا کہ مفقود الخبر اورعدت ممتدہ الطہر کے مسائل میں احناف فقہ مالکیہ کے مطابق فتوی دیناجائز قرار دیتے ہیں۔(مجموعہ فتاویٰ ص 337)

1۔مفتی اعظم مولانا کفایت اللہ دہلوی ۔(2) مولانا محمد عبدالحلیم قاسمی صدر علمائے احناف پاکستان (3) مفتی حبیب المرسلین مدرسہ امینہ دہلی (4) مولانا محفوظ الرحمٰن صاحب قاسمی فاضل دیو بند(5) پیرکرم شاہ صاحب ازہری(مدیر "ضیائے حرم" بھیرہ) رکن اسلامی نظریاتی کونسل اور رویت ہلال کمیٹی اور احمد نگر میں منعقد شدہ سیمینار میں شرکت کرنے والے اکثر مقالہ نگار حضرات۔

البتہ قاری صاحب کی یہ بات درست ہے۔کہ امام مالک ؒ بھی تین طلاق کو ایک قرار نہیں دیتے۔میں درا صل یہ کہنا چاہتا تھا کہ جس طرح بعض مسائل میں احناف مالکیہ کے مطابق فتوی دینے کو درست کہتے ہیں۔اسی طرح بعض احناف اس مسئلہ میں بھی ایک طلاق شمار کرنے والے مسلک کی سفارش کرتے ہیں۔

افسوس ناک پہلو:۔

جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تطلیق ثلاثہ کاقانون نافذ فرمایاتھا تو اس سے آ پ کامقصد عوام الناس کی اصلاح تھی۔اس قانون کا ایک یہ بھی نتیجہ سامنے آیا کہ لوگ حلالہ کے متعلق سوچ وبچار کرنے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دوسرا قانون یہ رائج فرمایا کہ محلل اور محلل لہ،دونوں کو محض زانی قرار دے کر ان کو سنگسار کردینے کی سزا مقرر کی۔اس فاروقی درہ سے بہت حد تک لوگوں کی اصلاح ہوگئی۔مگر بعد کے ادوار میں جب فاروقی درہ نہ رہا تو پھر حلالہ کی طرف رجحان بڑھنے لگا۔آئمہ اربعہ کے اکثریتی اجتہاد نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس تعزیری قانون کو ایک شرعی مسئلہ بنا دیا اورتقلید کی روش نے اسے شہرت دوام عطا کی۔

دوسری طرف امت کا ایک ایسا طبقہ بھی تھا جو ابتداء ہی سے اکھٹی تین طلاق کو طلاق دینے والے کی حماقت ،جلد بازی،اورعصیان پرمحمول کرنے کے باوجود اسے ایک ہی رجعی طلاق قرار دیتا رہا۔ہمارے ہاں یہ دونوں گروہ موجود ہیں۔اگرچہ اکثریت احناف کی ہے جو تطلیق ثلاثہ کے بڑی شدت سے قائل ہیں۔اوراس مسئلہ میں خاصی کشیدگی بھی موجود ہے۔اب یہ بات بھی تقلید ہی کے ثمرات میں شمار کیجئے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے کر بعد میں پشیمان ہوتا ہے۔ تو علمائے احناف اسے خود حلالہ کا راستہ دیکھاتے ہیں۔وہی حلالہ جس کے کرنے اور کرانے والے پر د ونوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی تھی۔(1) وہی حلالہ نکالنے والا شخص جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیس مستعار(2) کرائے کے سانڈ سے تعبیر فرمایا تھا۔وہی حلالہ جس کے لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رجم کی سزا (3)مقرر کی تھی۔ وہی حلالہ جو کسی بھی غیرت مند مسلمان کی غیرت کا جنازہ نکال دیتاہے۔اور وہی حلالہ جس کی زد میں آکر کئی عورتیں ہمیشہ کے لیے حیا باختہ ہوجاتی ہیں۔اسی حلالہ کو ہمارے مقلد بھائیوں نے نہ صرف برداشت کیا بلکہ هنئيا مريئاسمجھ کر اور اس کے فتوے دے دے کر عنداللہ ماجور بھی ہونے لگے۔حتیٰ کہ اس کار حرام کو حلال بنانے کے شرعی حیلے بھی بتلانے لگے۔(4) اور یہ سب کچھ اس لئے کیا جاتا رہا کہ کہیں تقلید کی روش پر آنچ نہ آنے پائے۔یا کسی حنفی کو کسی اہل حدیث کی طرف رجوع کرنے کی احتیاج باقی نہ رہے۔اور انتہائی شرمناک پہلو یہ ہے کہ بعض مقامات پر ایسے کرائے کے سانڈوں کا مذہبی سطح پر بندوبست بھی کیاجانے لگا اور یہ بھی نہ سوچا کہ خود علمائے احناف اگر تطلیق ثلاثہ کے قائل ہیں تو بالکل اسی طرح وہ نکاح حلالہ کی حرمت کے بھی قائل ہیں۔پھر یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اگر حلالہ کانکاح ہی حرام اور باطل ہوتو حلالہ کے بعد عورت زواج اول کے لئے حلال کیسے ہوجاتی ہے؟اور اگر وہ ایسا کر بھی لیتے ہیں تو کیا یہ سب کچھ حرام کاری یا زنا ہ نہ ہوگا؟ پھر کیا اس حرام کاری سے وہ حرام کاری بہتر نہیں جس میں حلالہ کے بغیر ہی عورت اور زواج اول آپس میں مل بیٹھیں اس طرح دو حرام کاموں میں سے کم از کم ایک سے نجات مل ہی جاتی ہے۔علاوہ ازیں زوجین کی غیرت بھی مجروح نہیں ہوتی۔یہ ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس تعزیری اور وقتی قانون کو تقلید کی پاسداری کے لئے شرعی قانون بنا کر پیش کرنے کے نتائج۔

اختلاف ختم نہ ہونے کی وجہ محض تقلیدہے:۔

تطلیق ثلاثہ کے سلسلے میں کسی بھی دوسرے امام سے فتویٰ لینے سے متعلق چند ممتاز حنفی علمائے دین کے فتوے ملاحظہ فرمایئے۔

1۔مولانا عبدالحئی لکھنو (فرنگی محل) کا فتویٰ:

"اس صورت میں حنفیہ کے مطابق تین طلاق ہوں گی اور بغیر تحلیل نکاح درست نہ ہوگا۔مگر بوقت ضرورت کے اس عورت کا علیحدہ ہونا اس سے دشوار ہوتو کسی اور امام کی تقلید کرے تو کچھ مضائقہ نہیں۔نظیر اس کی نکاح "زوج مفقود الخبر" موجود ہے۔حنفیہ عندالضرورت قول امام مالک پر عمل کرلینے کو درست سمجھتے ہیں۔جیسا کہ"رد المختار میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے"

2۔مفتی اعظم مولانا کفایت اللہ دہلوی کافتویٰ:۔

"ایک مجلس میں تین طلاق دینے سے تینوں پڑ جانے کا مذہب جمہور علماء کا ہے۔اورائمہ اربعہ اس پر متفق ہیں۔ائمہ اربعہ کے علاوہ بعض علماء اس بات کےضرور قائل ہیں کہ اس طرح ایک رجعی طلاق ہوتی ہے۔یہ مذہب اہل حدیث حضرات بھی اختیار کیا ہے۔اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ طاوس ،عکرمہ،اورابن اسحاق سے منقول ہے۔پس کسی اہل حدیث عالم کو اس حکم کی وجہ سے کافر کہنا درست نہیں اور نہ ہی وہ مستحق اخراج از مسجد ہے۔ہاں حنفی کا اہلحدیث سے فتویٰ حاصل کرنا اور اس پر عمل کرنا بہ اعتبار تقویٰ ناجائز تھا۔لیکن وہ بھی اگر مجبوری اور اضطرار کی حالت میں اس کامرتکب ہوتو قابل درگزر ہے۔"

3۔مفتی حبیب المرسلین مدرسہ امینیہ دہلی کافتویٰ:۔

"بعض سلف صالحین اور علمائے متقدمین میں سے اس کے بھی قائل ہیں۔اگرچہ ائمہ اربعہ میں یہ بعض نہیں ہیں۔لہذا جس مولوی صاحب نے مفتی اہل حدیث پر جو فتویٰ دیا یہ غلط ہے۔اس اختلاف کی بناء پر کفر ومقاطعہ اور اخراج از مسجد کا فتویٰ صحیح نہیں ہے۔بوجہ شدید ضرورت اور خوف مفاسد اگر طلاق دینے والا ابن بعض علماء کے قول پر عمل کرے گا جن کے نزدیک طلاق ایک ہی واقع ہوتی ہے تو وہ خارج از حنفی مذہب نہ ہوگا۔کیونکہ فقہاء حنفیہ نے جو شدت ضرورت کے وقت دوسرے امام کے قول پر عمل کرلینے کو جائز لکھا ہے"(مقالات ص30،31)

مندرجہ بالا فتاویٰ سے درج ذیل نتائج سامنے آتے ہیں۔

1۔یہ سب حضرات حنفی مذہب سے خارج ہونے کو اسلام سے خارج ہونے کے مترادف سمجھتے ہیں۔

2۔چونکہ رد المختار میں "اشد ضرورت" مفاسد زائدہ" وغیرہ کے الفاظ موجود ہیں لہذا ہر مفتی صاحب ان الفاظ کی تاکید کے ساتھ ہی کسی د وسرے عالم سے فتویٰ لینے کی اجازت دیتا ہے۔

3۔اس خاص مسئلے میں کسی دوسرے عالم سے مراد کم از کم ائمہ اربعہ کے مقلدین نہیں ہوسکتے جن سے فتویٰ لینے اور ان پر عمل کرنے یعنی طلاق ثلاثہ کو رجعی طلاق قرار دینے کی اجازت دی جارہی ہے۔

اب سوا ل یہ ہے کہ آیا یہ حضرات تطلیق ثلاثہ کو ایک قرار دینے کے عمل کو شرعی سمجھتے ہیں یاغیر شرعی؟ اگر وہ ایک رجعی طلاق قرار دینے کو فی الواقعہ اور بصدق قلب غیر شرعی ہی سمجھتے ہیں۔تو کیا وہ اشد ضرورت یا مفاسد زائدہ سے بچنے کے لئے نعوذ باللہ زنا کی اجازت دیتے ہیں۔مفاسد زائدہ تو زیادہ سے زیادہ زنا ہی ہوسکتا ہے۔زنا سے بچنے کے لئے زنا کی اجازت کا مطلب؟اور اگر وہ اسے شرعی ہی سمجھتے ہیں خواہ وہ اسے راحج نہ سمجھیں مرجوح ہی سمجھیں تو پھر اس قدر چیں بہ چیں کیوں ہوجاتے ہیں؟اگر غور کیا جائے تو وہ کونسی چیز ہے جو ان حضرات کو یہ بات تسلیم کرلینے میں آڑے آرہی ہے۔تو جواب بالکل واضح ہے کہ یہ چیز تقلید ہےی جو یہ جاننے کے باوجود کہ:

1۔بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا یہی موقف تھا۔

ب۔قرآن کا انداز بیان اسی چیز کاموید ہے کہ طلاق یا طلاقوں کے بعد فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُ‌وفٍ کی گنجائش باقی رہے۔

ج۔صحیح احادیث سے تین طلاقوں کوایک بنا دینے کی پوری وضاحت موجود ہے اور دور فاروقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ابتدائی دو تین سال تک تعامل امت اس طرح کاتھا۔

د۔معاشرتی لحاظ سے بھی اور اخلاقی لحاظ سے بھی مسلمانوں کی بھلائی اسی میں ہے۔لہذا فقہی اصول استحسان اور مصالح مرسلہ کی رو سے بھی تین طلاق کو ایک ہی قرار دینا زیادہ مناسب ہے۔مقلدین حضرات کو بہتر ر ستہ قبول کرنے میں یہی تقلید روگ بنی ہوئی ہے۔

بلکہ ان حضرات نے تطلیق ثلاثہ کے مخالفین کو اپنا دشمن اور کافر سمجھ کر اس مسئلہ کو یوں الجھا رکھا ہے کہ یہ اختلاف ختم ہونا نا ممکن سی بات بن گئی ہے۔

ایک مجلس میں تین طلاق دینے والے کو سزا:۔

ایک مجلس میں تین طلاق دینا اتنا بڑا جرم ہے کہ ایسے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غضب کے مارے اٹھ کھڑے ہوگئے اور فرمایا"میری موجودگی میں کتاب اللہ سے یہ مذاق؟ آپ کی یہ کیفیت دیکھ کر ایک شخص اجازت مانگنے لگاکہ"میں اس مجرم کو قتل نہ کردوں۔"آپ نے ازراہ شفقت اس مجرم کو قتل کرنے کی اجازت نہ دی۔تاہم اس واقعہ سے یہ اندازہ ہوجاتا ہے۔کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینا شرعی نطقہ نظر سے کتناگناہ اور مکروہ فعل ہے۔مگر دور جاہلیت کی یہ عادت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جلد ہی پھر عود کر آئی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمانوں سے اس بدعادت کو چھوڑانے کے لئے تین طرح کے اقدامات کئے۔

1۔وہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے والوں کو بدنی سزا بھی دیتے تھے۔

ب۔ایک مجلس کی تین طلاق کو انھوں نے تین ہی شمار کرنے کا قانون نافذ کردیا۔

ج۔اور جب لوگوں نے اپنی عادت پر کنٹرول کی بجائے حلالہ کی باتیں شروع کردیں تو آپ نے حلالہ نکالنے اور نکلوانے والے د ونوں کے لئے رجم کی سزا مقرر کردی۔اس طرح یہ فتنہ کچھ مدت کے لئے دب گیا۔گویا دور فاروقی میں بھی اس کارمعصیت کی صرف اس صورت میں ہوئی کہ حلالہ کے دروازہ کو سختی سے بند کردیا گیا تھا۔

مگرآج صورت حال بہت مختلف ہے۔آج کا المیہ یہ ہے کہ مقلد حضرات ہوں یا غیر مقلد کوئی بھی اکھٹی تین طلاق کوجرم سمجھتا ہی نہیں بلکہ جہالت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ عوام تو درکنار خاص بھی یہ سمجھتے ہیں کہ جدائی کے لئے تین طلاقیں دینا ضروری ہے۔حالانکہ طلاق کی بہترین اور مسنون صورت یہی ہے کہ صرف ایک ہی طلاق دے کر عدت گزر جانے دی جائے تاکہ عدت گزرنے کے بعد اگر زوجین کی پھر خواہش ہوتو تجدید نکاح سے مسئلہ حل ہوجائے۔تاہم اگر بیوی سے اس قدر نفرت اور بیگاڑ پیدا ہوچکا ہوتو وہ تازیست اپنی بیوی کو رشتہ زوجیت میں نہ لینے کا فیصلہ کرچکا ہو تو پھر تین کا عد پورا کرکے اپنی حسرت مٹا لے اور وہ بھی اس طرح کے ہر طھر میں ایک ایک طلاق دیتاجائے تیسری طلاق کے بعد ان کے آئندہ ملاپ کی حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَ‌هُ ۗکے علاوہ کوئی صورت باقی نہ رہے گی۔

ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ آج کا المیہ یہ ہے کہ یکبارگی تین طلاق کو نہ مقلدین جرم اور کار معصیت سمجھتے ہیں اور نہ غیر مقلد،غیر مقلد ایسےشخص اگر طلاق رجعی کی راہ دکھادیں تو اسے یہ کیونکر معلوم ہوا کہ اس نے کسی جرم کا ارتکاب کیا ہے؟اور مقلدحضرات اگر محض اس خطرے سے بچنے کے لئے کہ کہیں یہ کسی اہل حدیث ک ے ہتھے نہ چڑھ جائے اسے حلالہ کی راہ دیکھا دیں۔تو بھی اس کا الو تو سیدھا ہوہی جائےگا۔آخراسے اپنے جرم کی کیا سزا ملی؟حالانکہ ہمارے نزدیک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اصل سنت یہ ہے کہ بیک وقت تین طلاق دینے والے کو سزا ضروری دی جانی چاہیے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس سنت کو نہ مقلدحضرات در خوراعتنا سمجھتے ہیں نہ اہل حدیث حضرات البتہ یہ فرق ضرور ہے کہ علماء کی اس بے حسی کے بعد اہل حدیث تو مجرم کو سنت کی راہ دکھلاتے ہیں جبکہ حنفی حضرات کار حرام کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔

سزا کا مستوجب کون؟

اس معاملہ کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ بیک مجلس تین طلاق دینے کاجرم تو مرد کرتا ہے۔لیکن اس کے جرم کی سزا نکاح حلالہ کی صورت میں عورت کو دی جاتی ہے مرد کو تو اہل علم وفتویٰ سرزنش تک کرنے کے روادار نہیں ہوتے مگر بیوی کو کسی کرایہ کے سانڈ کے ہاں شب بسری کی راہ دکھلائی جاتی ہے۔کرے کوئی اور بھرے کوئی کی اس سے زیادہ واضح اور کوئی مثال ہوسکتی ہے؟اس بے بس عورت نے اس ظلم وزیادتی کا اپنے خاوند سے اور اپنے رشتہ داروں سے یوں انتقام لیا کہ رات ہی رات میں حلالہ نکالنے والے مرد سے سیٹ ہوگئی اور اس نئے جوڑے نے عہد وپیمان کے ذریعے اپنی رات کے نکاح کو پائیدار کرلیا۔اور حلالہ نکلوانے والوں کی سب امیدیں خاک میں ملادیں۔ایسے واقعات آئے دن اخبارات ورسائل میں چھپتے رہتے ہیں۔ایک ایسا واقعہ میں ذاتی طور پر بھی جانتاہوں ہوا یہ کہ کسی تاجر کی لڑکی کو اس کے خاوند نے تین طلاق دے دیں۔اب حلالہ کی ضرورت پیش آئی تو تاجر اور اس کے د اماد(لڑکی کے طلاقیں دینے والے خاوند) نے حلالہ کے لئے تاجر کے ایک بااعتماد نوکر کا انتخاب کیا اور نکاح کردیا۔لڑکی کی غیرت اس گھناؤنے فعل کو برداشت نہ کرسکی ۔جب رات اکھٹے ہوئے تو اس نے اپنے ملازم کا حوصلہ بڑھایا اور اس بات پر قائم کردیا کہ اب وہ طلاق نہ دے گا۔جب صبح ہوئی تو وہی شخص جو کل تک ان کا بااعتماد نوکر تھا ان کا داماد اور شریک بن کرسامنے آگیا۔ اور اس کی بیوی اس کی حمایت میں تھی خاوند اور باپ کو بہرحال یہ سب کچھ برداشت کرنا پڑا اندریں صورت ہمارے خیال میں تین طلاق دینے والے شخص کے لئے کچھ نہ کچھ سزا ضرور تجویز کی جانی چاہیے۔

سزا کیا ہو؟

میرے خیال میں بارگی تین طلاق کی سزا کو ظہار کی سزا یاکفارہ پر قیاس کیا جاسکتاہے۔دورجاہلیت میں ظہار جدائی کی تمام اقسام میں سے سخت تر قسم سمجھی جاتی تھی۔پھر جب عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا اور میاں بیوی دونوں کی جان پر بن گئی۔ اور وہ عورت شکوہ کناں آپ کے پاس آکر اس مصیبت سے نجات کی راہ پانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جھگڑا کرنے لگی تو اللہ تعالیٰ نے زوجین کی مشکلات کا حل فرمادیاتھا جو یہ تھا کہ اپنی بیوی کو ماں کہہ دینے سے چونکہ فی الحقیقت وہ ماں نہیں بن جاتی لہذا اس بات کو اللہ تعالیٰ نے منكرا من القول وزورا (ناپسندیدہ اورانہونی بات) قرار دے کر اس کا کفارہ مقرر فرمادیا۔اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے ضمناًیہ نتیجہ بھی نکلتا ہے۔کہ فی نفسہ الفاظ میں کچھ تاثیر نہیں ہوتی۔الفاظ میں تاثیر شرعی احکام سے ہی پیدا ہوتی ہے او شرعی احکام سے ہی یہ تاثیر خارج یاختم بھی ہوجاتی ہے۔لہذا طلاق کے لفظ یا تین طلاق کے الفاظ کی تاثیر کا پتہ چلانے کے لئے شرعی حکم یا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا لحاظ ر کھنا پڑے گا۔فی نفسہ تین طلاق کے الفاظ بندوق کی گولی نہیں ہوتے۔

ہاں تو بات یہ چل رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک منکر اور زور بات کا کفارہ مقرر کرکے زوجین میں رشتہ زوجیت کو بحال رہنے دیا ۔اور یہ کفارہ مرد ہی کو اداکرنا ہوتاہے۔بالکل اسی طرح ایک مجلس کی تین طلاق بھی ایک منکر اور زور بات ہے عملاً۔اور دونوں کا نتیجہ زوجین میں جدائی ہے۔پھر کیا زوجین کے تعلقات کو شرعی حکم یادور نبوی کے تعامل کے مطابق بدستور بحال رکھنے (یعنی سے ایک ر جعی طلاق قرا ر دینے پرکفارہ کی ضرورت نہ ہوگی؟ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ جرم چونکہ محدود پیمانہ پر تھا لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازراہ شفقت اس کا کوئی کفارہ مقرر نہ فرمایا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں یہ جرم بکثرت وقوع پزیر ہونے لگا تو آپ اسے شخص کی تین طلاق شمار کرنے کے علاوہ اسے بدنی سزا بھی دیتے اور حلالہ کی راہ بھی مسدود کردیتے تھے۔آج جبکہ لوگوں کا مبلغ علم ہی یہ ہے کہ جب تک تین طلاق نہ دی جائیں طلاق واقع ہی نہیں ہوتی۔اور بالعموم لکھ کر اکھٹی تین طلاقیں سپردڈا ک کردی جا تی ہیں۔تو اس پھیلے ہوئے جرم کی روک تھام کے لئے اگر ہمارے مفتی حضرات بدنی سزا نہیں دے سکتے یا قانونا ً حلالہ کو رجم قرار دے کر اس کی سزا نہیں دے سکتے تو کم از کم کفارہ تو تجویز فرماسکتے ہیں۔

علاوہ ازیں ان دونوں اقسام جدائی(یعنی بذریعہ ظہار اور بذریعہ ایک مجلس کی تین طلاق) میں کئی باتوں میں مشابہت پائی جاتی ہے۔لہذا اس کا کفارہ ظہار کے مطابق ہوناچاہیے یعنی غلام آزاد کرنا یامتواتر دو ماہ کے روزے یا ساٹھ مسکینوں کو کھاناکھلانا۔آج کل غلامی کا دور بیت چکا۔لہذا یہ شق خارج از بحث ہے۔پھر آج کل افراط زر کی وجہ سے اکثر لوگوں کے لئے ساٹھ مسیکنوں کو کھانا کھلانے کی سزا کوئی سزا ہی قرار نہیں دی جاسکتی۔اندریں صورت میں میرےخیال میں متواتر دو ماہ روزے فی الحقیقت ایسا کفارہ ہے جس سے مجرم کو بھی اور دوسروں کو بھی عبرت حاصل ہوسکتی ہے۔اگر ایک آدمی کو بھی ایسی سزا مل جائے تو عوام الناس کویقیناً اس بات کا فوری علم ہوجائے گاس کہ بیک وقت تین طلاق دینا حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ لوگ شرعی طریقہ طلاق سیکھ کر اسے اپنا لیں گے اور نکاح حلالہ کی از خود ہی حوصلہ شکنی ہوتی جائے گی۔

معصیت کوقائم رکھنا بھی معصیت ہے:۔

اگر ایک مجلس کی تین طلاق کا کفارہ متواتر دو ماہ کے روزے دشوار سمجھے جائیں تو پھر کمتر درجہ کی سزایہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس جرم کو غیر شرعی نذ ر پرمحمول کرکے قسم کے کفارہ پراکتفاء کرلیاجائے جو ظہار کے مقابلے میں بہت ہلکے درجے کی سزا ہے۔ بہرحال جو بھی صورت ہو ایسی طلاقیں دینے والے کے لئے کچھ سزا ہونی ضرور چاہیے۔اگر سزا مقرر نہ کیجائے گی تو عوام میں یہ احساس کبھی پیدا نہ ہوسکے گا کہ ایسی طلاقیں دینا کار معصیت ہے۔لہذا علماء اور مفتی حضرات کو اس طرف خصوصی توجہ دینا چاہیے۔اور یہ بات ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ خاموشی اور بے حسی کے ذریعہ معصیت کا قائم رکھنا یا رہنے دینا بھی کار معصیت ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ندامت ؟ اپنے مضمون کے آخر میں میں نے انماثۃ للہفان کے حوالہ سے لکھا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آخر عمر میں اس تعزیری فیصلے پر ندامت بھی ہوئی۔جس کے جواب میں قاری صاحب موصوف فرمارہے ہیں کہ اس روایت میں ایک راوی خالد بن یزید کذاب ہے لہذا یہ روایت ناقابل احتجاج ہے ۔قاری صاحب کی یہ تحقیق سر آنکھوں پر ہمیں اس روایت کو درست ثابت کرنے کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ مسئلہ زیر بحث کے اثبات کے لئے کتاب وسنت میں بہت کافی مواد موجود ہے۔جیسا کہ واضح کیاجاچکا ہے۔

کتابیات

1۔قرآن کریم،تفاسیر وغیرہ حسب ضرورت ۔

2۔کتب احادیث حسب ضرورت

3۔زاد المعاد ابن القیم الجوزی دارالاحیاء التراث العربی (بیروت)

4۔اعلام الموقعین(اردو) (ایضاً) شیخ محمد اشرف تا جر کتب کشمیری بازار لاہور

5۔نیل الاوطار امام شوکانیؒ المملکۃ العربیہ السعودیہ ریاض

6۔ہدایہ اولین مرغینانی مکتبہ شرکت علمیہ ملتان

7۔الفاروق شبلی نعمانی مکتبہ نعمانیہ ۔اردوبازار (لاہور)

8۔مقالات علمیہ ۔۔۔نعمانی کتب خانہ

9۔تین طلاق ۔۔۔محمد قاسم خواجہ۔۔۔۔ مکتبہ نعمانیہ۔۔۔اردوبازار گوجرانوالہ

10۔ایک مجلس کی تین طلاق دارالحدیث محمدیہ عام خاص

(علمائے احناف کی نظر میں ) باغ(ملتان شہر)

11۔دائرہ المعارف الاسلامیہ پنجاب یونیورسٹی لاہور

12۔انسائیکلو پیڈیا (اردو) فیروز سنز لمیٹڈ (لاہور)