ایک مشہور حدیث محدثین کی نظر میں
"اتقوا فراسة المؤمن، فإنه ينظر بنور الله,
"مومن کی فراست سے ڈرتے رہو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نور سے د یکھتا ہے"
نمبر 4۔حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مرفوع حدیث کاجائزہ:
یہ حدیث بطریق حماد بن خالد الخياط حدثنا أبو معاذ الصائغ عن الحسن عن ابي هريرة قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم یہ مروی ہے۔اس کی تخریج امام ابن الجوزیؒ نے"الموضوعات" میں ابو الشیخ عسکریؒ نے"الامثال" میں،اور ابن بشرانؒ نے"مجلسین من الامالی" میں کی ہے۔علامہ جلال الدین سیوطی ؒ نے"اللآلی المصنوعۃ" میں اورابن عراق الکنانی ؒ نے "تنزیعۃ الشریعۃ المرفوعۃ" وغیرہ میں اس کو وارد کیا ہے۔
امام ابن الجوزی ؒ اس حدیث کی نسبت فرماتے ہیں:
"یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔"
اس میں ابو معاذ جو سلیمان بن ارقم ہے،کے متعلق امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ:
"متروک ہے۔"
علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے اس حدیث کے متعلق امام موصوف کی تحقیق پرخلاف معمول کوئی تعقب نہ کرکے گویا اس کو تسلیم کیا ہے۔
علامہ ابن عراق الکنانیؒ نے بھی صرف امام ابن الجوزیؒ کے قول کو نقل کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے۔
اس حدیث ک مجروح راوی"سلیمان بن ارقم ابو معاذ الصائغ " کے متعلق امام نسائی ؒ فرماتے ہیں:
"ضعیف ہے۔"
امام بخاری ؒ نے اسے "ترک " کیا ہے۔
امام دارقطنیؒ نے اسے اپنی "الضعفاء والمتروکون" میں شمار کیا ہے۔
علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں کہ:
"ضعیف ہے"
امام عقیلیؒ فرماتے ہیں:
"امام احمد ؒ کا قول ہے کہ ایک دھیلہ کے برابر بھی نہیں ہے۔"
ابن حبان ؒ فرماتے ہیں:
"یہ ان افراد میں سے ہے جو اخبار کو از خود بناتے اور ثقات کی طرف سے موضوعات روایت کرتے ہیں۔"
امام ذہبی ؒ فرماتے ہیں:
"یہ حسن اور ذہری سے روایت کرتا ہے لیکن اس کو ترک کیا گیا ہے۔"
امام احمد ؒ اس سے روایت نہیں کرتے۔
ابن معین ؒ کا قول ہے کہ:
"کچھ بھی نہیں ہے۔"
جبکہ رجانی ؒ کا قول ہے کہ: "ساقط ہے۔"
ابو داؤد ؒ اور دارقطنیؒ نے اسے متروک بتایا ہے۔
ابو زرعہ ؒ اسے ذاھب الحدیث بتاتے ہیں۔
محمد بن عبداللہ انصاری ؒ فرماتے ہیں کہ:
"ہم سلیمان بن ارقم کی مجالست سے لوگوں کومنع کرتے تھے۔"
علامہ ہشیمیؒ نے بھی سلیمان بن ارقم کو "ضعیف"اور "متروک" بتایا ہے۔
(ابو معاذ الصائغ کے تفصیلی ترجمہ کے لئے"الضعفاء والمتروکون"للنسائیؒ،الضعفاء والمتروکون"دارقطنیؒ،الضعفاء الصغیر للبخاری ؒ،التاریخ الکبیر للبخاری ؒ،التاریخ الصغیر للبخاری ؒ، تاریخ یحییٰ بن معینؒ،علل لابن حنبل ؒ،المعرفۃ والتاریخ للبسویؒ،الضعفاء الکبیر للعقیلیؒ، الجرح والتعدیل " لابن ابی حاتمؒ،کتاب المجروحینؒ لابن حبانؒ، الکامل فی الضعفاءلابن عدی ؒ،میزان الاعتدال للذہبیؒ،تہذیب التہذیب لابن حجرؒ،تقریب التہذیب لابن حجرؒ،المجوع فی الضعفاء والمتروکین للسیروان،مجمع الزوائد للہثیمی ؒ،فہارس مجمع الزوائد للزغول ،سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ للبانی ،سلسلۃ احادیث الصحیحۃ للالبانی اور تحفہ لاحوذی للمبارک فوری ؒوغیرہ کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا۔)
4۔حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مرفوع حدیث کا جائزہ:۔
یہ حدیث:
احمد بن علي السكين حدثنا احمد بن محمد بن عمر اليمامي حدثنا عمارة بن عقبة حدثنا الفرات بن السائب عن ميمون بن مهران عن ابن عمر قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم
مروی ہے۔اس کی تخریج ابو نعیم اصبہانی ؒ نے "حلیۃ الاولیاء" میں کی ہے۔امام ابن الجوزیؒ نے اسے اپنی"الموضوعات " میں علامہ جلا الدین سیوطی ؒ نے اللآلی المصنوعۃ " میں علامہ سخاوی ؒ نے"المقاصد الحسنۃ" میں علامہ شوکانی ؒ نے "الفوائد المجموعۃ" میں اور علامہ ابن عراق الکنانی ؒ نے"تنزیعۃ الشریعۃ المرفوعۃ" میں وارد کیا ہے۔
اس حدیث کے متعلق ابو نعیم اصبہانی ؒ فرماتے ہیں:
"یہ حدیث میمون کے غرائب میں سے ہے۔ہم اس کو نہیں لکھتے مگر علي هذالوجه
امام ابن الجوزیؒ فرماتے ہیں:
"یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔"
اس میں فرات بن سائب ہے۔جس کےمتعلق یحییٰ ؒ کا قول ہے کہ:
"کچھ نہیں ہے۔"
بخاریؒ اور دارقطنی ؒ فرماتے ہیں کہ:"متروک ہے"
اس میں ایک دوسرا ر اوی احمد بن محمد بن الیمامی بھی ہے جس کے متعلق ابو حاتم ؒ الرازی فرماتے ہیں کہ:"کذاب تھا"
دارقطنی ؒ نے اسے متروک الحدیث قرار دیا ہے۔
علامہ جلال الدین سیوطی ؒ امام موصوف پر تعقب کر تے ہوئے رقم طراز ہیں:
ابن عمر کی حدیث کی تخریج ابن جریرؒ نے اپنی تفسیر میں بطریق حدثنا أحمد ابن محمد الطوسي حدثنا الحسن بن الفوات به کی ہے اور اس میں یمامی موجود نہیں ہے۔"
اور علامہ سیوطی ؒ کی تقلید میں علامہ ابن عراق الکنانی ؒ فرماتے ہیں:
"ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث صرف یمامی کے ساتھ منفرد نہیں ہے بلکہ اس کی تخریج ابن جریرؒ نے اپنی تفسیر میں عن الفرات دوسرے طریق سے بھی کی ہے جو یمامی سے بری ہے۔"
علامہ جلال الدین سیوطیؒ اور ان کی تقلید میں علامہ ابن عراق الکنانیؒ کا یہ اعتراض بھی قطعی بے وزن ہے کیونکہ ابن جریرؒ کا مذکور طریق "حسن بن محمد الفوات" سے اوپر اس طرح ہے:
عن عمرو ... بن السائب ، حدثنا ميمون بن مهران ، عن ابن عمر قال : قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم
ابن جریرؒ کا یہ طریق احمد بن محمد بن عمر الیمامی سے بے شک خالی ہے۔مگر فرات بن السائب سے پھر بھی پاک نہ ہوا۔جس کے متعلق امام نسائیؒ فرماتے ہیں کہ:
"متروک الحدیث ہے۔"
امام دارقطنیؒ نے اسے اپنی"الضعفاء والمتروکون " میں وارد کیا ہے۔
اما م بخاری ؒ نے اسے "ترک" کیا ہے۔
امام عقیلی ؒ فرماتے ہیں:
"کچھ بھی نہیں ہے۔"
امام ابن حبان ؒ فرماتے ہیں:
"یہ ان میں سے ایک ہے جو اثبات کی طرف سے موضوعات روایت کرتے اور ثقات کی طرف سے مغضلات لاتے ہیں۔اس کے ساتھ احتجاج کرنا یا اس سے روایت کرنا یا اس کی حدیث لکھنا جائز نہیں ہے۔"
امام ذہبی ؒ بیان کرتے ہیں کہ:
"امام بخاری ؒ نے اسے منکر الحدیث بتایا ہے۔"
ابن معین ؒ کا قول ہے کہ:"ہیچ ہے"
دارقطنی ؒ وغیرہ نے اسے متروک بتایا ہے۔
امام احمد بن حنبل ؒ فرماتے ہیں کہ:
"محمد بن زیاد الطحان کے قریب تر ہے اور میمون بھی اسی طرح مہتمم ہے۔جس طرح کہ وہ خود ہے۔"علامہ ہثیمیؒ فرماتے ہیں :
"متروک الحدیث ہے۔"
آں رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مقام پر فقط"متروک" اور دوسرے مقام پر "ضعیف" بھی لکھا ہے۔
(فرات بن السائب کے تفصیلی ترجمہ کے لئے ملاحظہ فرمائیں الضعفاء والمتروکون للدارقطنیؒ۔ الضعفاء والمتروکون للدارلنسائیؒ۔ الضعفاء الصغیر للبخاری ؒ، التاریخ الکبیر للبخاری ؒ، التاریخ الصغیر للبخاری ؒ، تاریخ یحییٰ بن معینؒ، الضعفاء الکبیر للعقیلیؒ، الجرح والتعدیل " لابن ابی حاتمؒ،کتاب المجروحینؒ لابن حبانؒ، میزان الاعتدال للذہبیؒ، لسان لامیزان لابن حجرؒ، المجوع فی الضعفاء والمتروکین للسیروان، کشف الحثیث للعجلی ؒ،مجمع الزوائد للہثیمیؒ فہارس مجمع الزوائد لذغلول،تنزیعۃ الشریعۃ المرفوعۃ لابن عراق،سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعۃ للالبانی اور سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ للالبانی وغیرہ۔
ابن جریرؒ کی محولہ بالاروایت میں "فرات بن سائب" کے علاوہ احمد بن محمد الطوسی بھی کوئی کم مجروح راوی نہیں ہے۔اس کے تفصیلی ترجمے کے لئے میزان الاعتدال لذہبیؒ،لسان المیزان لابن حجرؒ،اورکشف الحثیث للحجلیؒ وغیرہ کا مطالعہ فرمائیں۔
پس معلوم ہو اکہ ابن جریرؒ کی یہ روایت بھی ساقط الاعتبار ہے۔
5۔حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مرفوع:۔
یہ حدیث بطریق ابو شر جیل المحصی :۔
حدثنا سليمان بن سلمة ، حدثنا المؤمل بن سعيد بن يوسف الرحبي ، حدثنا أبو المعلى أسد بن وداعة الطائي ، حدثنا وهب بن منبه ، عن طاوس بن كيسان ، عن ثوبان قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم
یہ مروی ہے۔لیکن اس حدیث میں اتقوا فراسة المومن کے بجائے احذروا دعوة المسلم وفراسته اورحدیث کے آخر میں وينطق بتوفيق الله کے اضافی الفاظ موجود ہیں۔اس کی تخریج ابو الشیخ عسکری ؒ نے الامثال اورطبقات الصبہانین میں ابو نعیم نے حلیۃ الولیاء اوراربعین اصوفیہ میں ابن حبان ؒ نے کتاب المجروحین میں اور ابن جریری ؒ نے اپنی تفسیر میں کی ہے۔ان کے علاوہ علامہ سخاوی ؒ نے المقاصد الحسنیٰ میں علامہ عجلونی ؒ نے کشف الخفاء میں علامہ شوکانیؒ نے الفوائد المجموعۃ میں علامہ ابن عراق الکنانی ؒ نے تنزیعۃ الشریعۃ المرفوعۃ میں جلال الدین سیوطیؒ نے اللآلی المصنوعۃ میں اور امام ابن کثیرؒ نے اپنی تفسیر وغیرہ میں اس حدیث کو وارد کیا ہے۔
اس حدیث کو علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے اللآلی المصنوعۃ میں بطور استشہاد نقل کیا ہے۔علامہ سیوطیؒ کی تقلید میں علامہ شوکانیؒ نے الفوائد المجموعۃ میں اور علامہ ابن عراق نے تنزیۃ الشریعۃ المرفوعۃ میں بھی حضرت ثوبان ؒ کی اس حدیث کو ابن جریرؒ کے حوالہ سے استشہاد کے طور پر نقل کیا ہے۔لیکن ابو نعیم ؒ فرماتے ہیں:
"یہ حدیث وہب بن منبہ کی حدیث میں سے ایک غرائب روایت ہے اس میں مومل کا اسد کے ساتھ تفرد ہے۔"
اس حدیث میں مومل بن سعید الرجی کا اسد بن وداعہ الطائی کے ساتھ تفرد کے علاوہ اس کے ضعف بلکہ واہ ہونے کے کئی اور بھی علتیں موجود ہیں مثلاً اسد بن وداعہ کا ناصبی ہونا اورسلیمان بن سلمہ اور مومل کا منکر الحدیث ہونا۔ابو المعلی اسد بن وداعہ الطائی ،جو صغار تابعینؒ میں سے تھا کی نسبت امام ذہبیؒ فرماتے ہیں:
"ناصبی تھا اور سب وشتم کرتا تھا۔"
ابن معین ؒ فرماتے ہیں کہ:
"وہ ازہر الحزاری اوران کی جماعت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو برا بھلا کہتے تھے۔"
ابن الحجر ؒ لسان المیزان میں فرماتے ہیں کہ:
"نسائی نے اسے ثقہ کہا ہے۔"
ابو حاتم الرازی ؒ نے اسیر سکوت اختیار کیا ہے۔
(تفصیلی ترجمہ کے لئے میزان الاعتدال لذہبیؒ،الضعفا الکبیر للعقیلیؒ،لسان المیزان لابن حجر ؒ،التاریخ الکبیر للبخاریؒ،الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ؒ،الثقات لابن حبانؒ، اور سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعۃ للالبانی ؒ وغیرہ کی طرف رجوع فرمائیں۔
اس سند کا دوسرا راوی مو مل بن سعید بن یوسف الرجی ہے۔جس کی نسبت امام ذہبی ؒ فرماتے ہیں:
"ابو حاتم ؒ نے اسے منکر الحدیث بتایا ہے۔"
ابن حبان ؒ فرماتے ہیں کہ :
"بہت زیادہ منکر الحدیث ہے۔"
ابو حاتم الرازیؒ فرماتے ہیں کہ:
"وہ منکر الحدیث تھا۔"
ابن حبانؒ کتاب المجروحین میں فرماتے ہیں کہ:
"وہ ا پنے والد اور اسد بن وداعہ سے روایت کرتاہے اس سے سلیمان بن سلمہ الخبائری روایت کرتا ہے۔اور سلیمان بن سلمہ بہت زیادہ منکر الحدیث ہے۔پس مجھےعلم نہیں کہ اس کی روایت میں مناکیر اس کی طرف سے واقع ہوتی ہیں یا سلیمان کی طرف سے کیونکہ سلیمان اثبات کی طرف سے موضوعات لاتا ہے۔"
پھر ابن حبانؒ نے حضرت ثوبان ؒ کے طریق سے آنے والی اس حدیث کو مومل کے ترجمہ میں بطور نمونہ نقل کیا ہے لیکن اس کے آخر میں وينطق بتوحيد الله کے الفاظ موجود ہیں۔
مومل بن سعید کے تفصیلی ترجمہ کے لئے میزان الاعتدال للذہبیؒ ،کتاب المروحین لابن حبان ؒ، التاریخ الکبیر للبخاریؒ،الجرح والتعدیل لابن ابی حاتمؒ اور سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ للالبانی ؒ و غیرہ ملاحظہ فرمائیں۔
اس سند کا تیسرا مجروح راوی سلیمان بن سلمہ الخبائری ہے ۔جس کے متعلق امام نسائی ؒ فرماتے ہیں:
"کچھ بھی نہیں ہے۔"
امام ذہبی ؒ فرماتے ہیں:
"ابو حاتم ؒ کا قول ہے کہ متروک ہے اور اس کے ساتھ اشتعال نہیں ہے۔"
ابن جنید ؒ کا قول ہے کہ:
"وہ کذاب ہے ،میں اس سے کچھ روایت نہیں کرتا۔"
ابن عدیؒ فرماتے ہیں:
"اس کے پاس ایک سے زیادہ منکر حدیثیں ہیں۔"
خطیب ؒ کا قول ہے کہ:
"جنائری ضعف کے لئے مشہور ہے۔"
ابن حبان ؒ نے سلیمان بن سلمہ کی جوتضعیف فرمائی ہے وہ اوپر مومل بن سعید کے تذکرہ میں بیان ہوچکی ہے۔
علامہ ہثیمیؒ فرماتے ہیں:
"اس کے ضعف پر اجماع ہے۔"
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
"متروک ہے"
(تفصیلی ترجمہ کے لئے التاریخ الکبیر للبخاریؒ،میزان الاعتدال لذہبیؒ،کتاب المجروحین لابن حبان ؒ،الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ؒ الکامل فی الضعفاء لابن عدی ؒ،الضعفاء والمتروکون للنسائیؒ،المجوع فی الضعفاء والمتروکون للسیروان ،کشف الحثیث للحجلیؒ،مجمع الزوائد للہثیمی ؒ فہارس مجمع الزوائد للذغلول، تنزیعۃ الشریعۃ المرفوعۃ لابن عراق ؒ اور سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ للالبانی ؒ وغیرہ کی طرف رجوع فرمائیں۔ )
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مرفوع حدیث کا جائزہ:
یہ حدیث بطریق ابي بشر بكر بن الحكم المرلق عن ثابت عن أنس – رضي الله عنه – قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم :" إن لله عباداً يعرفون الناس بالتوسم "
مروی ہے۔لیکن اس حدیث میں واردالفاظ سابقہ احادیث سے قدرے مختلف یعنی اس طرح سے ہیں:
إن لله عباداً يعرفون الناس بالتوسم
"یعنی بے شک اللہ کے خاص بندے انسانوں کو ان کی علامات سے پہچان لیتے ہیں۔"
اس کی تخریج ابن جریرؒ نے اپنی تفسیر میں بزارؒ نے اپنی مسند میں ابن السنیؒ نے عمل الیوم واللیلۃ میں ابو نعیمؒ اصبہانی نے کتاب الطب میں ابن کثیرؒ نے اپنی تفسیر میں اور امام ذہبی ؒ نے میزان الاعتدال وغیرہ میں کی ہے۔
اس حدیث کو چونکہ اس سلسلہ کی سب سے قوی تر حدیث بیان کیا جاتاہے۔لہذا اس پر تبصرہ کرنے سے قبل ذیل میں شارحین حدیث میں سے چند مشاہیر کے اقوال نقل کئے جاتے ہیں۔
علامہ ہثیمیؒ فرماتے ہیں:
"اس کو بزار ؒ اور طبرانی ؒ نے اوسط میں روایت کیا ہے اور اس کی اسناد حسن ہیں۔"
علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے سابقہ احادیث کی شہادت کے طور پر اس حدیث کو اللآلی المصنوعۃ میں درج کیا ہے۔چنانچہ رقم طراز ہیں:
"اس کی معنوی شہادت کےلئے وہ حدیث بھی ہے۔جس کی تخریج ابو نعیم ؒ ،ابن جریرؒ۔بزارؒ۔ابن السنی،اور ابو نعیمؒ نے طب میں بطریق ابی بشر بن المرلق۔۔۔کی ہے۔الخ۔"
علامہ ابن العراق کنانیؒ بھی سیوطیؒ کی تقلید میں بطور استشہاد فرماتے ہیں:
"اس کے لئے حضر ت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث مرفوع بھی شاہد ہے،ان لله جس کی تخریج بزارؒ اور طبرانی ؒ وغیرہ نے کی ہے۔"
امام شوکانی ؒ فرماتے ہیں:۔
" اس حدیث کے شواہد میں ایک وہ حدیث بھی ہے۔جس کی تخریج ابن جریرؒ ،بزارؒ،ابن السنی ؒ اور ابو نعیمؒ نے اپنی طب میں حضرت انس ؒ کی حدیث سے کی ہے۔"
علامہ عبدالرحمان مبارک پوری ؒ فرماتے ہیں:
"اور ابن جریرؒ اور بزارؒ نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بلفظ ان لله عبادامرفوعاً تخریج کی ہے۔
علامہ شیخ محمد اسماعیل عجلونیؒ فرماتے ہیں:
"اسے طبرانی ؒ،بزارؒ،اور ابو نعیمؒ نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً بسند روایت کیا ہے۔"
اسی طرح علامہ شیخ عبداللہ محمد صدیق،استاذ حدیث بجامعۃ الازھر قاھرہ فرماتے ہیں:
"بزارؒ ،طبرانیؒ،اور ابو نعیم ؒ نے طب میں بسند حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً روایت کی ہے ۔"
لیکن اگر مشاہیر کے ان بڑے بڑے اقوال سے صرف نظرکرکے اس حدیث کاجائزہ لیاجائے تو پتہ چلے گا کہ یہ حدیث بھی حسن کے شرائط پر پوری نہیں اترتی،چنانچہ امام ذہبیؒ نے میزان الاعتدال میں اس حدیث کو منکر قرار دیا ہے۔
اور علامہ شیخ عبدالرحمٰن بن یحییٰ المعلمی الیمانی ؒ سے بھی اس حدیث کی تحسین سے اختلاف ظاہر کیا ہے۔
اس کے ضعف کی پہلی علت ابو بشر بکر ابن الحکم المزلق کا خود ضعیف ہوناہے اور دوسری علت اس کی سند میں ثابت کا حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تفرد ہے۔امام ذہبیؒ مزلق کی نسبت فرماتے ہیں:
"صدوق ہے"
لیکن ابو زرعہؒ کا قول ہے کہ:
"قوی نہیں ہے"
بتودکیؒ نے اسے ثقہ بتایا ہے۔
اما م ذہبی ؒ فرماتے ہیں کہ:
"اس سے ایک منکر خیر مروی ہے جسے ابو حاتم ؒ عن ثابت عن أنس – رضي الله عنه – عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ان الله عبادا بیان کیا ہے۔"
ابن حجرؒ عسقلانی فرماتے ہیں:
"صدوق ہے لیکن اس میں لچک ہے۔"
جن بعض حفاظ نے اس سے رویت لی ہے اور اسے ثقہ بتایا ہے ان سب کا شمار ائمہ الجرح والتعدیل میں نہیں ہوتا۔امام ذہبیؒ اور امام ابن حجرؒ وغیرہ کا اسے "صدوق" بتانے کا مقصد یہ ہے کہ وہ صالح بھلا اور فاضل شخص تھا لیکن کسی راوی کا صالح،بھلا،فاضل اور صدوق ہونا اس کے ضعف کو ختم نہیں کردیتا۔اس کے متعلق ابو زرعہؒ کا قول ہی حجت تسلیم کیا جائے گا۔کیونکہ آں ؒ کا شمار ائمہ جرح والتعدیل میں ہوتا ہے اور وہ اس کے متعلق کہتے ہی کہ:
"قوی نہیں ہے۔"
(تفصیلی ترجمہ کے لئے تقریب التہذیب لابن حجرؒ ،اور میزان الاعتدال للذہبی ؒ وغیرہ کی طرف رجو فرمائیں۔)
اس باب کی چند اور موقوف ومرسل رواایت جوکتب احادیث میں ملتی ہیں اس طرح بیان کی جاتی ہیں:
ابو الشیخ عسکری ؒ نے "الامشال" میں حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک موقوف حدیث بطریق عبد الرحمان بن يزيد بن جابر عن عمر بن هاني عنه من قوله اس طرح روایت کی ہے۔
اتَّقوا فِرَاسَة العلماء؛ فإنَّهم ينظرون بنور الله، إنَّه شيء يقذفه الله في قلوبهم، وعلى ألسنتهم
دیلمیؒ نے حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس موقوف حدیث کو ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے:
اتقوا فراسة العلماء فوالله إنه لحق يقذفه الله في قلوبهم ويجعله على أبصارهم
اما حاکم ؒ نے اپنی مستدرک علی الصحیحین میں حضرت عروہ سے مرسلاً روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن لكل قوم فراسة وإنما يعرفها الأشراف قيل والمراد بهم المؤمنون جمعا
اور شیخ برہان الدین الخمی شرح مثلثہ قطرب میں بلا سند روایت کرتے ہیں:
احذروا فراسة المؤمن فيكم فإنه ينظر بنور الله
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اول الذکر حدیث میں پہلی علت اس کا موقوفاً مروی ہوناہے۔اور دوسری علت اس کی سند میں عمر بن ھانی کی موجودگی ہے۔جس کے متعلق امام ذہبیؒ فرماتے ہیں:لا يعرف علامہ سخاویؒ اور علامہ عجلونی ؒ نے بھی ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ان دونوں احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے اور حاکم کی حضرت عروہ والی حدیث پر علامہ صنعائی نے موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے۔
اوپر زیر مطالعہ حدیث اور اس کے جملہ طرق کا بھر پور عملی جائزہ پیش کیاجاچکاہے۔ذیل میں اس حدیث کے متعلق اب چند مشاہیر کی آراء نقل کی جاتی ہیں،علامہ جلال الدین سیوطیؒ فرماتے ہیں:
"میں کہتا ہوں یہ حدیث حسن صحیح ہے۔"
علامہ شوکانیؒ فرماتے ہیں:
"صاحب اللآلی کا قول ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔۔۔لیکن میرے نزدیک یہ حدیث حسن تو ہوسکتی ہے لیکن صحیح ہرگز نہیں ہوسکتی۔"
علامہ حوت بیروقی فرماتے ہیں:
"ترمذی کاقول ہے کہ غریب ہے لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ ضعیف ہے۔ابن الجوزیؒ نے اس پر موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے اور طبرانیؒ نے اس کو باسناد حسن روایت کیا ہے۔"
علامہ شیخ عبدالرحمٰن مبارک پوریؒ ترمذیؒ کے قول وهذا حديث غريب کی شرح میں فرماتے ہیں:
اس کی تخریج بخاری ؒ نے اپنی تاریخ میں ،ابن جریرؒ،ابن ابی حاتمؒ،ابن السنی ؒ،ابو نعیم ؒ،ابن مردودیہ ؒ اور خطیبؒ نے کی ہے۔اسی طرح حکیم ترمذیؒ،طبرانیؒ اور ابن عدی ؒ نے اس کی تخریج ابو امامہ کی حدیث سے کی ہے۔ابن جریرؒ نے اپنی تفسیر میں اس کی تخریج ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی کی ہے۔اور ابن جریرؒ نے ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اس کی تخریج کی ہے۔"الخ
جامعہ ازہرقاہرہ کے استاذ حدیث علامہ شیخ عبداللہ محمد صدیق فرماتے ہیں:
"یہ حدیث حسن ہے جیسا حافظ ہشیمیؒ وغیرہ کا قول ہے۔"
اور علامہ مناویؒ نے بھی فیض القدیر میں اس کی تحسین کا زکر کیا ہے۔
لیکن زیر مطالعہ حدیث کی تحسین سے متعلق علمائے کرام کے ان تمام اقوال کے برخلاف علامہ سخاویؒ اور علامہ عجلونیؒ فرماتے ہیں:
"اس حدیث کے تمام طرق ضعیف ہیں۔ان میں سے بعض چونکہ متماسک ہیں۔اس لئے اس حدیث پر موضوع ہونے کا حکم لگانا مناسب نہیں ہے۔"
قرآن اور تحقیق کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس حدیث کو نہ"حسن" قرار دیا جائے اور نہ"موضوع" بلکہ فی الواقع یہ"ضعیف ہے" ہے۔علامہ شیخ محمد ناصر الدین البانیؒ نے بھی اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔
اس حدیث کی تحسین کےسلسلہ میں سب سے زیادہ قابل گرفت شخصیت جو نظر آتی ہے۔وہ علامہ جلال الدین سیوطیؒ کی ہے۔کیوں کہ آں رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ ابن الجوزیؒ کےحکم وضع پر تعقب کرتے ہوئے جو بھی روایات بطور استشہاد ا پنے موقف میں پیش کی ہیں ان میں سے ایک بھی صالح یا ایسی نہیں ہے جو علل سے خالی ہو،لیکن علامہ سیوطی ؒ نے ان روایات کو وارد کرنے کے بعد ان میں موجودہ علل پر اس انداز سے سکوت اور چشم پوشی اختیار کی ہے گویا آ ں رحمۃ اللہ علیہ کو ان علل کا علم ہی نہ ہو،فانااللہ وانا الیہ راجعون۔
پس معلوم اورثابت ہوا کہ پورے ذخیرہ احادیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی کوئی صحیح خبر ثابت نہیں ہے۔جو زیر مطالعہ حدیث کے ظاہری معانی پر دلالت کرتی ہو۔جو متفسرین دوسروں کے احوال اور پیش آنے والے واقعات حوادث قبل از وقت جان لیتے اور اس سے دوسروں کو باخبر کرتے ہیں وہ نہ تو کرامت کی کوئی قسم ہے اور نہ ہی ان کے سچے مومن ،ولی اللہ اور روشن ضمیر ہونے کی دلیل۔اگر اقوام عالم کا بغور مطالعہ کیا جائے تو بے شمار ایسے غیر مسلم مل جائیں گے جو اعلیٰ درجے کے متفرس ہوئے اوراب بھی موجود ہیں۔متفرسین کی اس فراست کو محض شعبدہ بازی بھی قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ فراست در اصل ایک سائنس ہے۔جسے سائنس دانوں اور ماہرین علوم نفسیات کی اصطلاح میں E.S.Pیا Extra Sensitivity P erception کہاجاتا ہے۔
یہ محض تجربات ،مخلوق واجزائے کائنات کےوسیع اور گہرے مشاہدے مطالعے ،اسباب وعلل 2وعوامل طبیعہ کے تجزئیے اور ان سے حاصل ہونے والے نتائج ودلائل سے عبارت ہے۔لیکن چونکہ متفرسین کی مردم شناسی اور پیش گوئی وغیرہ صرف ایک تخمینہ ہوتی ہے۔
اس لئے اس کے نتائج کو قطعی حجت تسلیم نہیں کیا جاتا۔ہمارے صوفیاء نے اس سائنسی حقیقت کو نہایت چابکدستی کے ساتھ اپنی دینداری چمکانے اور دیگر مقاصد فاسدہ کے حصول کے لئے اپنی روشن ضمیری ،کرامت اور تعلق باللہ کے نام پر استعمال کیا ہے۔فانا الله الخ۔
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین والصلواۃ والسلام علی رسوله الکریم
حوالہ جات
1۔الموضوعات لابن الجوزی ؒج3 ص147۔الامثال لابی الشیخ ؒ ص 126۔مجلسین من الامالی لابن بشرانؒ ص210۔211۔الآلی المصنوعۃ ؒ ج2ص329۔تنزیعۃ الشریعۃ المرفوعۃ لابن عراق ؒ ج2 ص305۔
2۔"الموضوعات" لابن الجوزی ؒ ج3 ص147۔
3۔ الضعفاء والمتروکون"للنسائیؒ، ص 246۔الضعفاء والمتروکون"دارقطنیؒ، س 248۔الضعفاء الصغیر للبخاری ؒ،ص 124۔التاریخ الکبیر للبخاری ؒ، ج 4ص 2۔التاریخ الصغیر للبخاری ؒ، ج 2 ص 197۔تاریخ یحییٰ بن معینؒ،ج 3 ص 277۔علل لابن حنبل ؒ، ج1 ص 236۔المعرفۃ والتاریخ للبسویؒ،ج 3 ص 35۔الضعفاء الکبیر للعقیلیؒ، ج 2 ص 121۔الجرح والتعدیل " لابن ابی حاتمؒ، ج 2 ص 100۔کتاب المجروحینؒ لابن حبانؒ،ج 1ص328۔الکامل فی الضعفاءلابن عدی ؒ،ج 3ص1100۔میزان الاعتدال للذہبیؒ،ج 2 ص 196۔تہذیب التہذیب لابن حجرؒ،ج 4 ص 169۔تقریب التہذیب لابن حجرؒ،ج 1 ص 321۔المجوع فی الضعفاء والمتروکین للسیروان،ص115۔ تحفۃ الاحوزی للمبارک فوری ج 1 ص 56۔مجمع الزوائد للہثیمی ؒ،ج 2 ص 69۔فہارس مجمع الزوائد للزغول ،ج 3 ص 301۔سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ للبانی ،ج 1 ص 253۔وغیرہ ۔سلسلۃ احادیث الصحیحۃ للالبانی ج1ص 793،820۔
4۔ ابو نعیم اصبہانی ؒ "حلیۃ الاولیاء" ج4 ص 94۔ امام ابن الجوزیؒ "الموضوعات "ج3ص146۔ علامہ جلا الدین سیوطی ؒ اللآلی المصنوعۃ " ج2 ص329۔ علامہ سخاوی ؒ "المقاصد الحسنۃ"ص19۔ علامہ شوکانی ؒ "الفوائد المجموعۃ"ص 243۔ علامہ ابن عراق الکنانی ؒ "تنزیعۃ الشریعۃ المرفوعۃ"ج 2ص305۔
5۔حلیۃ الاولیاء لابی نعیم ج4 ص94۔
6۔"الموضوعات" لابن الجوزیؒ ج3 ص147۔
7۔اللآلی المصنوعۃ لسیوطیؒ ج2 ص 320۔
8۔تنزیعۃ الشریعۃ المرفوعۃ لابن عراق ؒ ج2 ص 305۔306۔
9۔تفسیر ابن جریرؒ ج14 ص 32۔
10۔احمد بن محمد بن عمر بن یونس بن القاسم الیمامی کے متعلق "ائمہ الجرح والتعدیل می سے امام ابو حاتم الرازیؒ فرماتے ہیں کہ"کذاب ہے" ابن صاعدؒ نے بھی اسے کذاب بتایاہے۔دارقطنی ؒ نے ایک مرتبہ ضعیف اور دوسری مرتبہ متروک قرار دیا ہے۔ابن عدی ؒ فرماتے ہیں۔"ثقات کی طرف سے مناکیر بیان کرتا ہے۔"عبید الکشوری بیان کرتے ہیں کہ وہ تم میں واقدی جیسا ہے۔احم بن محمد بن عمر الیمامی کے تفصیلی ترجمہ کے لئے الضعفاء والمتروکون للدارقطنیؒ ص49۔المجموع فی الضعفاء والمتروکین للسروان،ص275۔الجرح والتعدیل لاب ابی حاتم ؒ ج1 ص 71۔کتاب المجروحین لابن حبان ج1 ص 143۔الکامل فی الضعفاء لابن عدیؒ ج1،میزان الاعتدال فی نقد الرجال لذہبیؒ ج1ص142۔المغنی فی الضعفاء " لذہبی ؒ ص 435۔اور لسان المیزان لابن حجر ؒ ج1 ص 282۔وغیرہ کی طرف رجوع فرمائیں۔
11۔امام احمد بن حنبل ؒ نے فرات بن السائب کو محمد بن زیادہ الطحان کے قریب تر یا ہم پلہ قرار دیا ہے اور محمد بن زیاد الطحان کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی فرماتے ہیں:"وہ کذاب اندھا حدیث وضع کرتا تھا۔"امام ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ ابن معین ؒ نے اسے کذاب بتایا ہے۔ابن المدینیؒ اسے بہت زیادہ ضعیف بتاتے ہیں۔جوکچھ آپ نے اس سے لکھا اسے اٹھا پھینکا تھا۔ابو زرعہؒ کا بھی قول ہے کہ کذب بیانی کرتا تھا۔دارقطنیؒ نے بھی اسے کذب قرار دیا ہے۔"عقیلی" فرماتے ہیں کہ"اما م بخاریؒ نے اسے متروک بتایا ہے۔عمروبن زرارہؒ کہتے ہیں کہ محمد بن زیاد کو وضع حدیث کے لئے مہتمم کیاگیا ہے۔یحییٰ کا قول ہے کہ کذاب خبیث تھا۔ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ اس کی تکذیب کی گئی ہے۔امام نسائی ؒ فرماتے ہیں ،"متروک الحدیث ہے۔امام بخاریؒ نے الضعفاالصغیر میں اسے متروک الحدیث لکھا ہے۔ابن حبان ؒفرماتے ہیں کہ یہ وہ شخص ہے جوثقات کی طرف سے احادیث وضع کرتا اور اثبات کی طرف سے اشیائے معضلات لاتاہے۔اس کا کتب میں ذکر جائز نہیں ہےمحمد بن زیاد الیشکری الطحان الاعور کے تفصیلی ترجمہ کے لئے ملاحظہ فرمائیں: الضعفاء والمتروکون للدارقطنیؒ۔ترجمہ 467۔ الضعفاء والمتروکون للدارلنسائیؒ۔ ترجمہ 547۔ الضعفاء الصغیر للبخاری ؒ،ترجمہ 317۔ التاریخ الکبیر للبخاری ؒ، ج 1 ص 83،التاریخ الصغیر للبخاری ؒ، ترجمہ 317۔تاریخ یحییٰ بن معینؒ، ج4 ص 392۔الضعفاء الکبیر للعقیلیؒ، ج 4 ص 67۔الجرح والتعدیل " لابن ابی حاتمؒ،ج 3 س 258۔کتاب المجروحینؒ لابن حبانؒ،ج 2 ص 250۔الکامل الضعفاء لابن عدی۔ج6 س214۔ میزان الاعتدال للذہبیؒ،ج3 ص553۔ تہذیب التہذیب لابن حجر۔ج 9 ص 179۔تقریب التہذیب لابن حجر ج 2 ص162۔المجوع فی الضعفاء والمتروکین للسیروان، صفحہ 212۔365۔482۔تحفۃ الاحوزی للمبارک فوری۔ج4 ص 324۔ الموضوعات علامہ ابن الجوزیؒ ج3 ص 11۔معرفۃ الثقات للعجلیؒ ج2 ص238۔کشف الحثیث للعجلیؒ ص372۔تنزیعۃ الشریعۃ لابن عراق ؒج1ص105۔سسلسلۃ الحادیث الضعیفہ والموضوعۃ للبانی ج1 س25۔وغیرہ۔سلسلۃ الاحادیث الصحیۃ للالبانی ج1 ص45۔52۔
12۔ الضعفاء والمتروکون للدارقطنیؒ۔ص 434۔ الضعفاء والمتروکون للدارلنسائیؒ۔ص 488۔ الضعفاء الصغیر للبخاری ؒ، ص 297۔التاریخ الکبیر للبخاری ؒ، ج 4 ص 130۔التاریخ الصغیر للبخاری ؒ، ج2 ص 142۔ تاریخ یحییٰ بن معینؒ، ج 4 ص421۔ الضعفاء الکبیر للعقیلیؒ،ج 3 ص 458۔ الجرح والتعدیل " لابن ابی حاتمؒ،ج 3 ص 80۔کتاب المجروحینؒ لابن حبانؒ، ج 2 س 207۔میزان الاعتدال للذہبیؒ، ج 3 ص 341۔لسان لامیزان لابن حجرؒ،ج 4ص431۔ المجوع فی الضعفاء والمتروکین للسیروان، ص 19 وغیرہ۔کشف الحثیث للعجلی ؒ،ص 324۔مجمع الزوائد للہثیمیؒج 1 ص 204۔ فہارس مجمع الزوائد لذغلول،ج 3 ص 369۔تنزیعۃ الشریعۃ المرفوعۃ لابن عراق،ج 1 ص 95۔سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعۃ للالبانی ج 1 ص 155 وغیرہ۔اور سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۔ج2 ص 477۔
13۔ میزان الاعتدال لذہبیؒ، ج1 ص 150۔لسان المیزان لابن حجرؒ،ج 1 ص 293۔کشف الحثیث للحجلیؒ ص 76۔
14۔ الامثال لابی الشیخؒ ص 128۔ طبقات الصبہانین لابی الشیخ ص223۔224۔ ابو نعیم حلیۃ الولیاء ج4۔ص 81۔ اربعین اصوفیہ لابی نعیم ج 1 س 62۔ابن حبان ؒ کتاب المجروحین ج 3 ص 32۔ ابن جریر ؒ ج 14 ص 32۔علامہ سخاوی ؒ المقاصد الحسنیٰ ص19۔ علامہ عجلونی ؒ کشف الخفاء ج 1 ص 42۔43۔علامہ شوکانیؒ الفوائد المجموعۃ ص244۔ علامہ ابن عراق الکنانی ؒ تنزیعۃ الشریعۃ المرفوعۃ ج2ص 304۔ جلال الدین سیوطیؒ نے اللآلی المصنوعۃ ج2 ص330۔ التفسیر لابن کثیرؒ ج3 پ 14۔
15۔حلیۃ الاولیاءلابی نعیم ج4 ص81۔
16۔ میزان الاعتدال لذہبیؒ،ج 1 ص 207۔الضعفا الکبیر للعقیلیؒ،ج 1 ص 26لسان المیزان لابن حجر ؒ، ج 1 ص 385۔التاریخ الکبیر للبخاریؒ،ج 1 ص 49۔الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ؒ،ج 1 ص 337،۔الثقات لابن حبانؒ، ج 4 ص 56۔اور سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعۃ للالبانی ؒ ج 4 ص301۔
17۔ میزان الاعتدال للذہبیؒ ج4 ص229۔،کتاب المروحین لابن حبان ؒ، ج 3 ص32۔التاریخ الکبیر للبخاریؒ،ج 8 ص 49۔الجرح والتعدیل لابن ابی حاتمؒ ج 4 ص 375 سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ للالبانی ؒ ج 2 ص 301۔
18۔ التاریخ الکبیر للبخاریؒ، ج 4 ص 19۔میزان الاعتدال لذہبیؒ،ج 2 ص 209۔کتاب المجروحین لابن حبان ؒ، ج 3 ص 32۔الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ؒ ج 4 ص 357۔الکامل فی الضعفاء لابن عدی ؒ،ج 3 ص 1140۔الضعفاء والمتروکون للنسائی ص 253۔المجوع فی الضعفاء والمتروکون للسیروان ص117۔،کشف الحثیث للحجلیؒ، ص 200۔مجمع الزوائد للہثیمی ؒ ج 1 ص 307،۔فہارس مجمع الزوائد للذغلول، ج 3 ص 302۔تنزیعۃ الشریعۃ المرفوعۃ لابن عراق ؒ ج 1 ص 65۔اور سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ للالبانیؒ ج2 ص55۔59۔194۔ج4ص 74۔284۔301۔
19۔مجمع الزوائد للہشیمیؒ ج10 ص268۔
20۔اللآلی المصنوعۃ للسیوطیؒ ج2ص 330۔
21۔تنزیعۃ الشریعۃ المرفوعۃ لابن عراق ؒ ج2 ص306۔
22۔الفوائد المجموعۃ للشوکانیؒ ص 244۔
23۔تحفۃ الاحوزیؒ للمبارک فوری ؒ ج4 ص133۔
24۔کشف الخفاء للحجلونی ؒ ج1 ص43۔
25۔حاشیہ برالمقاصد الحسنۃ للشیخ عبداللہ محمد صدیق ص 20۔
26۔میزان الاعتدال فی نقد الرجال للذہبیؒ ج1 ص344۔
27۔حاشیہ برالفوائد المجموعۃ للیمانی ؒ ص 245۔
28۔ تقریب التہذیب لابن حجرؒ ، ج 1 صفحہ 105۔ میزان الاعتدال للذہبی ؒ ج1 صفحہ 344۔
29۔المقاصد الحسنیٰ للسخاوی ل صفحہ 19 کشف الخفاء للعجلونی ج1 ص42۔
30۔اللآلی المصنوعۃ للسیوطیؒ ج2ص 330۔
31۔الفوائد المجموعۃ لشوکانی ؒ ص 233۔244۔
32۔اُسنی المطالب للحوت بیروقیؒ صفحہ 30۔
33۔تحفۃ الاحوزیؒ للمبارکفوری ؒ ج4 ص 132۔133۔
34۔حاشیہ برمقاصد الحسنہ للشیخ عبداللہ محمد صدیق۔
35۔فیض القدیر للمناویؒ ج1ص 142۔143۔
36۔المقاصد الحسنیٰ للسخاوی صفحہ 19 کشف الخفاء للعجلونیؒ ج1 ص42۔43۔
37۔سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ للالبانی ج4 ص 299 ،سلسلۃ الاحادیث الصحیۃ للالبانی ج4 ص268۔