"کیاحدیث کو محض غلطی کے امکان کی بنا پر رد کیا جاسکتا ہے"؟
بعض لوگ یہ تو مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی ضروری ہے۔لیکن بقول ان کے حدیث قرآن کریم کی طرح قطعی نہیں بلکہ ظنی ہے۔جس میں محدثین کی امکانی کوشش بھی داخل ہے۔جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک کسی بات کی نسبت کی تحقیق کرتے ہیں۔اور سلسلہ سند کے اشخاص نیز محدثین خطا سے پاک نہیں ہیں۔اور ہوسکتا ہے انہوں نے حدیث کا مفہوم سمجھنے میں غلطی کی ہو۔لہذا حدیث،قرآن مجید کی طرح قطعی نہیں ہوسکتی۔بنا بریں جو حدیث قرآن کریم کے مطابق ہو وہ قبول کی جائے گی اور جو حدیث اس کے موافق نہ ہو اسے چھوڑ دیا جائے گا۔ ان کے بقول حدیث کوقرآن پر پیش کیا جائے گا اور اس کے ردو قبول کا فیصلہ قرآن کرے گا۔ا وران لوگوں کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ حدیث کی تحقیق کے لئے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا اصول بھی یہی تھا۔
اس بارے میں سب سے پہلے سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ اگر وہی حدیث مانی جائے جو قرآن کریم کے مطابق ہو تو پھر آپ نے حدیث کو کیوں مانا؟پھر توصرف قرآن کو ہی تسلیم کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر قرآن کے موافق بات کہیں تب آپ مانیں دوسری بات کو نہ مانیں تو ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسرے لوگوں سے امتیازی حیثیت اور آپ کی فضیلت تو کچھ نہ رہی۔
ایک شخص امام شافعی ؒ کے پاس آکر کہنے لگا قرآن کریم تو قطعی ہے جس چیز کو وہ حرام کرے وہ قطعی حرام ہے۔اور جسے وہ حلال کہے حلال ہے۔لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا وہ مرتبہ نہیں جو قرآن مجید کا ہے۔وہ ظنی ہیں جو انسانوں کے ذریعے ہم تک پہنچی ہیں جس میں خطا کا امکان ہے لہذا ان کے ذریعے کسی چیز کو حرام یا حلال قرار نہیں دیا جاسکتا۔
امام شافعیؒ نے اس سے فرمایا بتاؤ یہ شخص جو تمہارے پاس بیٹھا ہوا ہے کیا اسے قتل کرنا یا اس کا مال چھین لینا تمہارے لئے جائز ہے؟اس نے کہا نہیں بلکہ مال چھیننا یا اس کا خوب بہانا حرام ہے۔آپ نے فرمایا! اچھا یہ بتاؤ اگر دو آدمی گواہی دیدیں کہ ہم نے اس کو فلاں کوقتل کرتے دیکھا ہے جبکہ اس نے مال بھی چھینا ہے تو پھر آپ کا فیصلہ کیا ہوگا؟تو اس نے جواب دیا پھر تو میں اسے قصاص میں قتل کردوں گا۔اور جو مال اس نے چھینا ہے واپس دلواؤ گا۔آپ نے فرمایا! اب یہ بتاؤ کہ یہاں گواہوں کی شہادت میں غلطی کا امکان نہیں ہے؟وہ گواہ بھی آخر انسان ہیں جنھیں غلطی لگ سکتی ہے اس نے جواب دیا کہ واقعی غلطی کا امکان تو اب بھی ہے تو آپ نے فرمایا جبکہ دو آدمیوں کی شہادت آپ کے ہاں ظنی ہے اور اس میں غلطی کا امکان ہے۔تو آپ نے ایسے دو آدمیوں کی گواہی سے اس آدمی کے مال اور جان کو کیونکر حلال کرلیا؟جبکہ قرآن کریم نے اس آدمی کے مال وجان کو حرام قرار دیا ہے حالانکہ ان کی گواہی قرآن کے مرتبے کی نہیں اور اس میں غلطی کا بھی امکان ہے۔تب اس نے کہا کہ اس کا تو کوئی جواب نہیں۔یہ بات تو ٹھیک ہے کہ جب تک غلطی ثابت نہیں ہوگی اس کو صرف امکان کی بناء پر رد نہیں کیا جاسکتا۔اور اس طرح حدیث کو صرف اس بنا پر نہیں چھوڑا جاسکتا کہ اسے نقل کرنے و الے انسان ہیں۔جن سے غلطی ہوناممکن ہے ہاں جب کسی راوی سے غلطی کا واقع ہونا ثابت ہوجائے تب اسے چھوڑا جائے گا۔
بعض لوگو کہتے ہیں کہ احادیث سے قطعی علم حا صل نہیں ہوتا۔وہ تو صرف ظن کا فائدہ دیتی ہیں۔جبکہ ظن کےمتعلق قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے۔:
﴿إِنَّ الظَّنَّ لا يُغنى مِنَ الحَقِّ شَيـًٔا ﴿٢٨﴾... سورةالنجم
ظن حق کا فائدہ نہیں ملتا۔جس کا مطلب یہ ہوا کہ احادیث ظنی ہیں اور ظنی احادیث سے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔لہذا احادیث کاکوئی اعتبار نہیں ہے۔
اس دعوے کے باوجود یہ لوگ یہ باور کراتے ہیں کہ ہم احادیث کو مانتے ہیں اور ہمیں منکر حدیث کہنا درست نہیں۔!!!۔۔۔حالانکہ ایک طرف یہ لوگ احادیث کو ظنی کہتے ہیں اور ظنی ہونے کا مفہوم ان کے ہاں یہ ہے۔کہ اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا کرتا،لہذا احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سرے سے غیر معتبر قرار پائیں جب یہ غیر معتبر ٹھریں تو انہیں قرآن کریم پر پیش کرنے کا کیا مطلب؟
در اصل ان لوگوں کو ظن کا مفہوم سمجھنے میں غلطی لگی ہے کیونکہ لفظ "ظن" عربی زبان میں کئی معانی میں استعمال ہوتا ہے۔کبھی یہ لفظ شک کے معنی میں آتا ہے جیسا کہ اس آیت میں ہے:۔
﴿إِن يَتَّبِعونَ إِلَّا الظَّنَّ وَما تَهوَى الأَنفُسُ ... ﴿٢٣﴾... سورةالنجم
یعنی" یہ لوگ وہم وگمان اورخواہشات نفس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں"
اس طرح دوسرے مقام پر ہے کہ :
﴿إِن يَتَّبِعونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنَّ الظَّنَّ لا يُغنى مِنَ الحَقِّ شَيـًٔا ﴿٢٨﴾... سورةالنجم
"یہ لوگ ظن ووہم کے پیچھے لگے ہوئے ہیں حالانکہ وہ حق سے کچھ کفایت نہیں کرتا۔"
اب جبکہ طن سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔اوراحادیث بھی ظنی ہیں تو ان سے بھی کوئی علمی فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا۔
امام راغب نے اپنی مفردات القرآن میں کہا ہے:
الظن: اسم لما يحصل عن أمارة، ومتى قويت أدت إلى العلم
یعنی ظن اس چیز کا نام ہے جو علاقوں اور دلائل سے حاصل ہو اور یہ دلائل جیسے مضبوط ہوتے جائیں ویسے ان سے علم یقین حاصل ہوتا جاتا ہے۔
آگے بڑھنے سے قبل چند کلمات بطور تمہید پیش خدمت ہیں کہ یہ یقین دو طرح کا ہوتا ہے۔ایک وہ جو مشاہدے سے حاصل ہو۔جیسے سورج کو آنکھوں سے دیکھ لے کہ وہ طلوع ہوچکاہے۔یہ ایسایقین ہے جس میں سوچنے سمجھنے اور غور وفکر سے حاصل ہوتا ہے۔ یا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا موجود ہونا ہے۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس سال تک کوئی غلط بیانی نہیں کی اور نہ ان سے کوئی خیانت سرزد ہوئی ایسی باتوں پر جب کوئی انسان غور کرتاہے تو اسے یقین ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے نبوت کے دعویٰ میں بھی سچے ہیں۔
اسی طرح جب ہم غور فکر کرتے ہیں کہ بعض لوگ ساری عمر دوسروں پرظلم وستم ڈھاتے رہتے ہیں۔اور کمزور لوگ ظلم سہتے مرجاتے ہیں اور ان مظلوموں کو اگر انصاف نہ ملے تو بڑی زیادتی کی بات ہے لہذا کوئی دن ایسا ہونا چاہیے جس میں مظلوم کو انصاف ملے اورظالم کو اپنی ذیادتی کی سزا ملے تو یقین ہوجاتاہے۔کہ قیامت کا بپا ہونا برحق ہے۔
لہذا غوروفکر اور دلائل سے حاصل ہونے والے علم ویقین کو بھی عربی زبان میں ظن کہتے ہیں جیسا کہ امام راغب نے فرمایا۔
الظن: اسم لما يحصل عن أمارة، ومتى قويت أدت إلى العلم، ومتى ضعفت جدا لم يتجاوز حد التوهم
یعنی ظن اس چیز کا نام ہےجو علاقوں اور دلائل کےذریعے سے حاصل ہو،یہ علاقے اوردلائل جیسے مضبوط ہوتے جائیں ویسے ان سے علم یقین حاصل ہوتا جاتا ہے اور اگر وہ کمزور ہوتے جائیں تو وہم حاصل ہوتا ہے(اسے بھی ظن کہتے ہیں)
الغرض"ظن" جیسے وہم پر بولا جاتا ہے اسی طرح یہ لفظ یقین کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور دونوں میں فرق یہ ہے کہ دلائل اور براہین اور علامات اگر قوی ہوں تو ایسا ظن یقین کا فائدہ دیتا ہے۔اور اگر وہ علامات کمزور ہوں تو وہم کے معنی میں ہوگا۔
قرآن مجید میں کئی مقامات پر لفظ ظن یقین کےمعنی میں وارد ہوا ہے خصوصاً جبکہ اسے بعد"ان میں آئے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
﴿وَإِنَّها لَكَبيرَةٌ إِلّا عَلَى الخـٰشِعينَ ﴿٤٥﴾ الَّذينَ يَظُنّونَ أَنَّهُم مُلـٰقوا رَبِّهِم ...﴿٤٦﴾... سورةالبقرة
یعنی نماز پڑھنا لوگوں پر بڑا گراں ہے۔لیکن اللہ سے ڈرنے والوں پر یہ مشکل نہیں ہے جو یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے ملاقات کرنے والے ہیں اب دیکھئے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے ملاقات یقینی چیز ہے اور اس کےلئے "ظن" کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جب قیامت پر یقین رکھنے کے لئے ظن کا لفظ کفایت کرجاتاہے۔تو احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے"ظن" کا لفظ آجائے گا تو یہ کونسی اچنبے کی بات ہے۔کیونکہ احادیث نبویہ کے ظنی ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ وہم ہیں یامشتبہ ہیں بلکہ مطلب یہ ہوتا ہےکہ یہ یقینی ہیں اور یہ یقین دلائل میں غور وفکر اور تحقیق کرنے کے بعد حاصل ہوا ہے۔جیسا کہ کوئی آدمی دوسرے کو کسی بات کی خبر دے تو اس کے چھوٹا جانے کا بھی احتمال ہے۔جیسا کہ وہ سچا بھی ہوسکتا ہے۔ اور اگر وہ خبر دینے والا آدمی صادق وامین ہوتو اس کی خبر کے سچا ہونے کا ہمیں یقین ہوجاتاہے خصوصاً جبکہ اس کی خبر کے ساتھ دیگر قرائن بھی مل جائیں جو اس کے صادق ہونے کی تائید کرتے ہوں لیکن اس خبر کو"ظن" اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ علم ہمیں مختلف دلائل اور قرائن سے حاصل ہوا ہے۔
اس طرح جب کوئی پیدا ہوتا ہے۔تو اس کے ہوش سنبھالنے کے بعد اسے اپنی والدہ سے پتہ چلتا ہے کہ میرا باپ فلاں ہے جس کا میں بیٹا ہوں ہوسکتا ہے کہ اس نے اپنی والدہ کے علاوہ دیگر بہت سے لوگوں سے سنا ہو کہ اس کا والد فلاں ہے لیکن اصل حقیقت کا علم تو اس کی والدہ کا ہے۔یا اس کے باپ کو اب اگرچہ اس خبر میں غلطی کا امکان ہے۔لیکن اس امکان کی بناء پر کوئی بھی اپنے باپ کی نفی نہیں کرتا۔اور اگر اس امکان کی بناء پر ہی خبر کی نفی کردی جائے۔تو کسی کا ا صل باپ ہی ثابت نہیں ہوسکے گا۔لیکن خبر دینے والی عورت اگر پاکدامن ہے تو اس کی خبرقبول کرلی جاتی ہے ۔بلکہ اس کا یقین کرلیاجاتا ہے۔ اگرچہ یہ یقین قرائن سے حاصل ہونے والا ہے۔اور دنیا کے تمام کاروبار اسی پر چل رہے ہیں۔جیسا کہ قاضی دو گواہوں کی شہادتیں لے کر فیصلہ کردیتا ہے۔اگرچہ گواہوں کی گواہی میں غلطی کا امکان ہوتاہے۔لیکن جب تک غلطی ثابت نہ ہوجائے ان کی گواہی قابل قبول ہوتی ہے۔
اورگواہوں کی گواہی میں غلطی کا ا مکان قرآن مجید سے ثابت ہے چنانچہ فرمایا اگر کوئی آدمی سفر میں فوت ہوجائے اور وہ کوئی وصیت کر گیا ہو تو عصر کے بعد دو آدمی شہادت دیں کہ مرنے والے نے یہ وصیت کی تھی بعد میں اگر معلوم ہوجائے کہ ان کی گواہی غلط ہے تو فوت ہونے والے کے وارثوں میں سے دو آدمی شہادت دیں کہ ان کی گواہی غلط ہے اوردرست ہماری شہادت ہے۔"
قرآن کریم کے اس بیان سے معلوم ہوا کہ گواہوں کی گواہی میں غلطی کا امکان ہوتا ہے۔لیکن اس غلطی کے امکان کو قبول اس وقت کیا جائے جبکہ وہ غلطی دلائل سے ثابت ہوجائے۔
اس طرح صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔آپ لوگ میرے پاس کوئی جھگڑا لے کرآتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ آپ میں سے ایک فریق اپنا موقف اچھے انداز میں پیش کردے اور میں اس پر اعتماد کرکے اس کے مطابق فیصلہ کردوں حالانکہ وہ غلطی پر ہو۔تو وہ یہ نہ سمجھ لے کہ یہ حق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیا ہے۔لہذا میرے لئے جائز ہوگیا ہے۔بلکہ وہ آگ کا انگارہ ہے۔جو میں نے اسے کلٹ کردیا ہے،۔۔۔اس سے معلوم ہوا کہ قاضی جو سنے گا اس کے مطابق فیصلہ کرے گا۔اور وہ دلوں کوکریدنے کا مکلف نہیں ہے۔۔۔اسی طرح تاجر بھی نفع کے امکان پر ہی تجارت کرتاہے وہ تجارت کرنا اس لئے نہیں چھوڑ دیتا کہ نفع کا یقین نہیں ہے ایک طالب علم کے پیش نظر بھی حصول علم کا امکان ہی ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اگر میاں بیوی میں جھگڑا ہوجائے تو ان میں صلح کرانے کے لئے ایک منصف خاوند کی طرف سے اور دوسرا بیوی کی طرف سے مقرر کیا جائے،اور فرمایا۔
﴿إِن يُريدا إِصلـٰحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَينَهُما...﴿٣٥﴾... سورةالنساء
یعنی اگر وہ میاں بیوی کے درمیان اصلاح کا ارادہ رکھتے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان میں موافقت پیدا کردے اس آیت کریمہ سے بھی معلوم ہوا کہ دونوں منصف اصلاح کا ارادہ کرسکتے ہیں اور ہوسکتا ہے دل سے وہ اصلاح کو نہ چاہتے ہوں لیکن ہم اس بات کےمکلف ہیں کہ طرفین سے ایک ایک منصف اصلاح کاارادہ نہ رکھتے ہوں۔
"محرم" اگر ایسا شکار کرے جسکی ممانعت تھی تو اس پر جزا واجب ہے جس کا فیصلہ منصف کریں گے اور وہ شکار کیے ہوئے جانور کے مساوی جانورکا فدیہ دے گا۔تاہم اس میں بھی غلطی کا امکان ہے اور ہوسکتاہے فدیہ میں دیئے جانےوالا جانور شکار سے بڑا ہویا چھوٹا،لیکن غلطی کے اس امکان کی بناء پر فدیہ ساقط نہیں ہوجائےگا،اسی طرح جو چیزیں ہم آنکھ سے دیکھتے ہیں اور یقین حاصل ہوجاتا ہے۔لیکن اکثر وبیشتر وہ بھی ظنی ہوجاتی ہیں۔حالانکہ آنکھ سے دیکھ لینا سننے سے کہیں بہتر ہے اور کسی چیز کو دیکھ لینے سے طبعیت زیادہ متاثر ہوتی ہے۔
دیکھئے حضرت موسیٰ علیہ اسلام کو اللہ تعالیٰ نے کوہ طور پر اطلاع دی کہ آپ کے آنے کے بعد سامری نے بنی اسرائیل کو گمراہ کردیا ہے،لیکن اس کو سننے سے آپ کی طبیعت پر زیادہ اثر نہیں ہوا بلکہ آپ تو ریت کی تختیاں اٹھاتے ہوئے جب واپس پہنچے تودیکھا کہ ان کی قوم واقعی بچھڑے کی پرستش میں مبتلا ہے۔ تو قوم کو شرک کرتے ہوئے دیکھ کر برداشت نہ کرسکے غصے میں آ کر تختیاں پھینک دیں اور اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کی سرزنش کی،معلوم ہوا کہ کسی چیز کو دیکھ لینے سے طبعیت پراثر سننے کی سے کہیں بڑھ کر ہوتا ہے۔۔۔۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی مسلم ہے کہ آنکھ بھی غلطی کرتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اسی ممکنہ غلطی کے ازالے کے لئے ارشاد فرمایا۔
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِن جاءَكُم فاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنوا...﴿٦﴾... سورةالحجرات
یعنی "اے ایمان والو!اگر کوئی فاسق تمھیں کوئی خبر دے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو"
لیکن اگر مخبر فاسق نہ ہو بلکہ ثقہ اور قابل اعتماد ہو تو اس کی خبر کی تحقیق کی بھی ضرورت نہیں اس کی ضرورت تب ہے جبکہ فاسق ہو۔غلط ثابت ہونے پر اس کی خبرکو رد کردیا جائے گا ورنہ قبول کرلیا جائے گا۔جیسا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میراایک ساتھی تھا ایک دن وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی کا علم حاصل کرے اور مجھے آکر بتادیتا اور ایک دن میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور وہ گھر میں رہتا تاکہ وحی کا علم حاصل کرکے میں اسے سکھاؤں دیکھئے یہاں ایک ہی آدمی کی بات حجت سمجھی جاتی تھی کیونکہ وہ عدالت سے متصف تھا۔ (جاری ہے)