مئی 2012ء

علامہ ڈاکٹر حافظ عبد الرشید اظہر رحمہ اللہ

جو بھلائے نہ جاسکیں گے!!
17؍ مارچ 2012ء کی شام میں بچوں کے ہمراہ اسلام آباد کے معروف کا روباری مرکز کراچی کمپنی میں داخل ہی ہوا تھا کہ موبائل فون پر ایک دوست نے اطلاع دی کہ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر﷫کو شہید کر دیا گیا۔ ........بلا اختیار پاؤں بریک پر جالگا اور میں ڈاکٹر صاحب کے موبائل پر فون کرنے لگا مگر ان کا موبائل پہلی بار بند پایا.....سفر و حضر میں ڈاکٹر صاحب کا فون بند نہ ہوتا تھا، میں نے فوراً گھر کے PTCLنمبر پر رابطہ کیا تو ان کے بیٹے سعد کے منہ سے روتے ہوئے صرف یہ الفاظ نکل پائے :
''خالد بھائی، کوئی ابّو کو شہید کر گیا ہے۔''
میں سعد بھائی کو صرف اتنا کہہ پایا کہ میں آ رہا ہوں اور پھر آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا، کچھ سجھائی نہ دے رہا تھا..... میں نے بچوں کو گھر چھوڑا اور ڈاکٹر صاحب کے گھر پہنچ گیا ۔ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر﷫ اپنے ڈرائنگ روم میں ابدی نیند سو رہے تھے ، بخاری شریف اُن کے بستر پر ہی تھی..... یوں لگ رہا تھا وہ گہری نیند سوئے ہیں اور ابھی اُٹھ جائیں گے۔ وہ سب غموں ، سب مصیبتوں اور سب دُکھوں سے آزاد ہو چکے تھے ، وہ خود مطمئن اور مسرور دکھائی دے رہے تھے مگر ان کے چاہنے والے دکھوں، غموں اور پریشانیوں میں گھر چکے تھے .....دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں افراد ڈاکٹر صاحب کی رہائش گاہ کے باہر جمع ہو گئے۔ اکثر کی آنکھیں اشک بار اور دِل غم گسار تھے......مِری آنکھیں ڈاکٹر صاحب کے چہرے پر جمی تھیں اور ذہن ماضی میں کھو گیا۔
یہ1988ء کی ایک سرد رات تھی....وفاقی دارالحکومت کے پوش سیکٹر ایف 7کے ایک بڑے مکان کی بالائی منزل کے ایک کمرے میں ، میں اپنے ایک دوست حافظ رضا ء اللہ جو آج کل ایک بڑے سرکاری عہدے پر فائز ہیں، کے پاس بیٹھا تھا کہ اچانک کمرے کا دروازہ کُھلا اور ایک دراز قامت نوجوان اندر داخل ہوئے جن کے نورانی چہرے پر سیاہ داڑھی بڑی خوبصورت لگ رہی تھی....''یہ ہیں حافظ عبدالرشید اظہر﷫، معروف عالم دین ہیں ، مدینہ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل اور بڑے زندہ دل انسان ہیں اور حافظ صاحب یہ ہیں میرے دوست خالد سیال۔'' حافظ رضاء اللہ نے ایک ہی سانس میں ہم دونوں کا تعارف کروا کر ہمیں آمنے سامنے کر دیا اور خود قہوہ پیالیوں میں اُنڈیلنے لگے ۔
''کیا حال ہے خالد صاحب''! ......یہ تھا وہ پہلا جملہ جو حافظ صاحب نے مجھے مخاطب کر کے کہا اور وہ اتنے مستقل مزاج تھے کہ جب ان سے ملاقات یا ٹیلیفون پر گفتگو ہوتی تو ادھر سے پہلا جملہ یہی سنائی دیتا کہ ''کیا حال ہے خالد صاحب'' !
اس پہلی ملاقات میں حافظ عبدالرشید اظہر ﷫کی شخصیت کا جو تاثر قائم ہوا، وہ آخر تک نہ صرف قائم رہا بلکہ ان کی شخصیت اور کردار کی خوبیاں ہر ملاقات کے بعد کھلتی چلی گئیں۔ ایف 7 کے اس کمرے میں حافظ رضاء اللہ کی وساطت سے ڈاکٹر صاحب سے کئی ملاقاتیں ہوئیں ، اُن کے ساتھ طویل بحث مباحثے ہوئے ،دینی، معاشرتی اور سیاسی موضوعات پر اکثر اُن سے تبادلہ خیال ہوتا رہتا، وہ ہر موضوع پر بڑی صائب اور نپی تُلی رائے رکھتے تھے ۔ حافظ صاحب بہت خوش خوراک اور ہنس مکھ تھے..... متعدد بار ایسا ہوا کہ ہم ایف 7سے پیدل نکلتے، بلیو ایریا میں عثمانیہ یا کسی دوسرے ریسٹورنٹ میں کھانا کھاتے اور پھر پیدل ہی واپس چل دیتے۔ راستے میں حافظ صاحب کبھی لطیفے سنا کر ہنساتے اور کبھی لا حول ولا قوة إلا بالله کہتے ہوئے آخرت کی یاد دلاتے..... لاحول ولا قوة إلا بالله کے جملہ سے حافظ صاحب کی زبان اکثر تر رہتی تھی۔ نجی ملاقاتوں کے دوران تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد لاحول ولا قوة إلا بالله پڑھنا اُن کی عادت سی بن گئی تھی۔
حافظ عبدالرشید اظہر ﷫بلا شبہ علم کا سمندر تھے ۔آپ پی ایچ ڈی ڈگری لے کر ڈاکٹر بھی بن گئے تھے لیکن درحقیقت وہ کسی ڈگری کے محتاج نہ تھے ۔ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر ﷫عالم دین بھی تھے ،ادیب بھی، خطیب بھی، صاحبِ قلم بھی اور دعوت و تبلیغ کا علَم بھی تھامے ہوئے تھے ۔پورے ملک میں ہی نہیں بیرون ملک بھی ان کے چاہنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔اور یہ سب کچھ اُنہیں اللہ کے دین کی خدمت کے صلے میں حاصل ہوا۔تحصیل علم کےلئے حافظ صاحب جب گھر سے نکلے تھے تو خالی ہاتھ تھے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو علم، شہرت، دولت، ہر چیز سے نوازا۔ ایک اَن پڑھ خاندان کا یہ چشم و چراغ اب ہزاروں لوگوں کو علم کی روشنی پہنچا رہا تھا، اُن کی زندگیاں سنوار رہا تھا۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب بہت موڈی تھے، کم آمیز اور زود رنج تھے کہ جب ان کا موڈ ہوتاکسی سے بات کرتے ، ورنہ طرح دے جاتے تھے۔میں ڈاکٹر صاحب کو پچیس برس سے دیکھ رہا ہوں ، اُن کے سینکڑوں دروس میں حاضری دی، ان کے ساتھ طویل نشستیں کیں ، اُن کو حضر میں بھی دیکھا اور سفر میں بھی۔حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک منکسر المزاج شخص ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی خوددار بھی تھے اور خود دار انسان استغنا پسند بھی ہوتا ہے جسے بعض لوگ 'موڈی' سمجھنے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں۔خود دار ہونے کے ساتھ ساتھ حافظ صاحب مصلحت پسندی کی 'صفت'سے نا آشنا تھے۔ وہ جسے حق سمجھتے تھے ، دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیتے اور یہ نہیں سوچتے تھے کہ سننے والے کے نازک مزاج پر یہ حق کتنا گراں گزرے گا یا ا س کے ماتھے پر کتنی شکنیں پڑیں گی۔
یہ غالباً سعودی عرب کے تاریخی شہر جدہ کا واقعہ ہے۔حافظ صاحب اپنے بچوں سمیت وہاں مقیم تھے ،وہاں کے ایک دولت مند پاکستانی کو سعودی عرب میں آپ کی موجودگی کا علم ہوا تو آپ سے رابطہ کر کے اپنے گھر میں ناشتے کی دعوت دی۔اُن کے بے حد اصرار کے باعث ڈاکٹر صاحب نے یہ پیشکش قبول کر لی ۔ اگلے روز ناشتے پر انواع و اقسام کے ماکولات اور مشروبات جمع تھے ۔ ناشتہ شروع ہوا تو میزبان نے انشورنس کے مسئلے پر ڈاکٹر صاحب کی رائے معلوم کرنا شروع کر دی۔ ڈاکٹر صاحب نے قرآن و حدیث کی روشنی میں اُن کو بتایا کہ انشورنس کی موجودہ صورت جائز نہیں ........ میزبان نے چونکہ چنانچہ کا سہارا لے کر پھر دریافت کیا تاکہ اس کے جواز کی کوئی صورت نکل سکے ۔ ڈاکٹر صاحب نے اُن کو متعدد بار بتایا کہ میرے علم کے مطابق یہ جائز نہیں مگر صاحب ِدسترخوان پینترے بدل بدل کر سوالات اُٹھاتے رہے۔ جب حافظ صاحب نے یہ محسوس کیا کہ میزبان مجھ سے انشورنس کے جواز کا فتویٰ لینا چاہتے ہیں تو ڈاکٹر صاحب یہ کہتے ہوئے دسترخوان سے اُٹھ کھڑے ہوئے کہ گگآپ نے دسترخوان پر جو اہتمام کیا ہے ، میں اس کا خرچ آپ کو ادا کر سکتا ہوں ،یہاں سعودی عرب میں میرے رہنے کی جگہ بھی ہے مگر میں آپ کو انشورنس کے جواز کا فتویٰ نہیں دے سکتا۔''ایسے متعدد واقعات کئی مقامات پر پیش آئے جن کے عینی شاہد موجود ہیں۔اس طرح کی حق گوئی اور ایسی صفات بہت کم لوگوں میں ہوتی ہیں ،ورنہ بڑے بڑے صاحب ِعلم وعرفان کھانے کے کشادہ دسترخوان پر شہید ہو جاتے ہیں اور مصلحت کی چادر اوڑھ کر خود بدلتے نہیں، قرآن کو بدل دیتے ہیں۔
میں ایسے کئی واقعات کا عینی شاہد ہوں ، سو یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب جیسے باہرسے نظر آتے تھے: صاف شفاف، ایسے ہی اندر سے بھی تھے۔ ان میں پیشہ ور واعظوں والے نخرے نہیں تھے لیکن بہرحال وہ بھی ایک انسان تھے اور انبیاء﷩کے سوا ہر انسان میں جہاں خوبیاں ہوتی ہیں، وہاں کچھ کمزوریاں بھی ہوتی ہیں اور یہ کوئی خوبی نہیں ہوتی کہ انسان دوسرے کی کمزوریاں ہی تلاش کرتا رہے ۔
ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر﷫ آج ہم میں نہیں ، وہ شہادت کے عظیم مرتبہ پر فائز ہو کر ان شاء اللہ اَبدی کامیابی حاصل کر چکے ہیں مگر ان کی باتیں ہمیشہ یاد رہیں گی۔ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر ﷫جب سے شہید ہوئے ہیں ، کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب اُنہیں یاد کر کے دِل غمگین نہ ہوتا ہو.....متعدد بار ایسے ہوا کہ گھر میں ، دفتر میں بیٹھے بیٹھے ، بازار میں چلتے پھرتے، راستے میں گاڑی چلاتے ڈاکٹر صاحب یاد آنے لگے اور آنکھوں نے بلا اختیار برسنا شروع کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب ایک ہمہ جہت شخصیت تھے، افسوس کہ ان کی وہ قدر نہ کی گئی جس کے وہ مستحق تھے اور اُن سے وہ فائدہ نہ اٹھا یا گیا جس کے وہ اہل تھے اور جس کی ہمیں ضرورت تھی۔
حافظ صاحب کےسوانح حیات
ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر ﷫یکم فروری 1953ء کو بہاولپور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد صاحب ہندوستان کے ضلع فیروز پور، تحصیل زیرہ کے ایک گاؤں امین والا سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ وہاں ان کی کچھ زرعی زمین تھی اور کھیتی باڑی ہی ان کا مشغلہ تھا۔قیامِ پاکستان کے بعد وہ ہجرت کر کے پاکستان آئے توپراپرٹی کے انتقال کے لئے ابھی حکومتی کاروائیاں مکمل ہونا باقی تھیں ،اس لیے وہ ہجرت کے بعد بہاولپور میں ڈاکٹر صاحب کے ننھیال میں کچھ عرصہ ٹھہرے رہے۔ اسی دوران ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر پیدا ہوئے۔ بعد میں ان کے والد صاحب کو چیچہ وطنی کے قریب ایک گاؤں 170؍9 ایل ،میں زرعی زمین الاٹ ہو گئی تو وہ وہاں منتقل ہو گئے۔اسی گاؤں کے حافظ عبدالغنی جو کہ بصارت سے محروم تھے مگر صاحبِ بصیرت تھے ، سے ننھے عبدالرشید نے قرآن پاک حفظ کیا۔ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر بتایا کرتے تھے کہ حفظ کرتے کرتے ہی میں نے اُردو لکھنا اور پڑھنا سیکھ لیا تھا اور مجھے اُردو لکھنے اور پڑھنے میں کوئی دشواری نہ ہوتی تھی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اُردو لکھنے اور پڑھنے میں میرا کوئی استاد نہیں ۔ ڈاکٹر صاحب یہ بھی بتایا کرتے تھے کہ حافظ عبدالغنی میرے اُستاد بھی تھے اور شاگرد بھی ۔ شاگرد یوں کہ اُنہوں نے پوری مشکوٰۃ شریف مجھ سے حفظ کی ۔ وہ مجھ سے روزانہ دو تین احادیث سنتے تھے اور پھر اُن کو یاد کر لیتے تھے ، ان کا حافظہ بہت تیز تھا، اُنہوں نے پوری مشکوٰۃ شریف مجھ سے سن سن کرحفظ کر لی تھی۔ قرآن پاک کے ساتھ شغف بھی اُن ہی کی وجہ سے ہوا، وہ روزانہ مجھ سے مختلف تفاسیر سنا کرتے تھے ۔ شاہ عبدالقادر محدث دہلوی کا ترجمہ اور تفسیر موضح القرآن اور مولانا محمود الحسن دیوبندی ﷫ اور علامہ شبیر احمد عثمانی﷫ کی تفسیر عثمانی، از اوّل تا آخر میں نے اُنہیں پڑھ کر سنائی۔ وہیں سے قرآنِ پاک کے ساتھ تعلق کی ابتدا ہوئی۔
حفظِ قرآن کے بعد آپ کو جامعہ سعیدیہ خانیوال میں داخل کروا دیا گیا۔ چار سال کے بعد وہ جامعہ سلفیہ فیصل آباد چلے گئے اور وہیں سے سند ِفراغت حاصل کی۔ جہاں مولانا عبداللہ بڈھیمالوی اور مولانا حافظ بنیامین طور جیسے اساتذہ سے وہ از حد متاثر ہوئے ۔ جامعہ سلفیہ سے درس نظامی مکمل کرنے کے بعد حافظ عبدالرشید اظہر ﷫جامعہ سعیدیہ خانیوال سمیت مختلف مدارس میں پڑھاتے پڑھاتے آخر کار جامعہ سلفیہ میں پڑھانے لگے، جہاں اُنہوں نے تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ جامعہ کے شعبہ تصنیف و تالیف کی بنیاد رکھی اور کئی کتب بھی شائع کیں۔شعبان سن 1400ھ بمطابق1978 ء میں اُن کا داخلہ عالم اسلام کی معروف یونیورسٹی جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ میں ہو گیا جہاں وہ اگست 1984ء تک علم کی اعلیٰ منازل طے کرتے رہے۔ وہ تعلیم مکمل کر کے واپس پاکستان آئے تو30ستمبر1984ء کو اُنہیں مکتب الدعوۃ میں داعی کی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں ، تب مکتب کا دفتر لا ہور میں تھا۔ یکم ستمبر1987ء کو مکتب الدعوۃ کا دفتر لا ہور سے اسلام آباد منتقل ہوا تو ڈاکٹر صاحب نے بھی اسلام آباد کواپنا مسکن بنا لیا مگراپنے آبائی علاقے سے اُنہوں نے اپنا ناطہ ٹوٹنے نہ دیا اور وہاں بھی دعوت و تبلیغ اور اشاعتِ دین کا کا م پورے شد و مد کے ساتھ جاری رکھا۔
ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر ﷫کے حالاتِ زندگی، اُن کی تعلیم و تعلّم کے دوران کے دلچسپ احوال و واقعات، دعوت و تبلیغ کے میدان میں اُن کے طویل تجربات اور سعودی عرب کے علما اور زعما کے ساتھ اُن کے گہرے تعلقات و مراسم کی تفصیلات کا احاطہ کسی ایک مضمون میں کرنا ممکن نہیں ، یہ ایک ضخیم کتاب کا موضوع ہے اور ان شاء اللہ یہ قرض جلد چکانے کی کوشش کی جائے گی۔
ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں جن پر تفصیلی گفتگو کی ضرورت ہے۔ اُن کا شمار عالمِ اسلام کے جید علمائے کرام میں ہوتا تھا۔ وہ بیک وقت جید عالم دین، بہترین خطیب، صاحبِ طرز ادیب،شعلہ نوا مقرر، دلوں میں اُتر جانے والے واعظ، ہمدرد و غمگسار دوست اور ہر ایک کے لئے شفیق انسان تھے ،یہی وجہ ہے کہ ان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ میری یاد اللہ کم و بیش پچیس برسوں پر محیط ہے۔ ان سے چند روز ملاقات نہ ہوتی تو خود فون کر کے بُلا لیتے ۔ یہ راقم جب بھی ان سے ملاقات کے لئے گیا، اُن کے ہاں ملاقاتیوں کا تانتا بندھا رہتا تھاجن میں ہر مکتب فکر کے افراد شامل ہوتے، وہ سب کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے ، سب کی خاطر مدارت کرتے اور مقدور بھر ہر ایک کے کام آنے کی کوشش کرتے۔
ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر﷫ بڑی نفیس طبیعت کے مالک تھے، اُن کے کھانے پینے کا ذوق بھی بڑا اعلیٰ تھا، اچھے اچھے ریستوران اور ہوٹل اُن کے علم میں ہوتے تھے، کئی بار انہوں نے دریافت کیا کہ فلاں ہوٹل نیا بنا ہے، آپ نے وہاں کھانا کھایا، اگر جواب نفی میں ہوتا تو گاڑی نکالتے اور چل پڑتے اور کئی کھانوں کا آرڈر دے دیتے، یوں لگتا جیسے اپنے مہمانوں ، دوستوں اور علماے کرام کو کھانا کھلانا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہو، ان کی نظریں دوسروں کی جیب پر نہیں ہوتی تھیں بلکہ دوسروں کی دعوت کا بل بھی وہ خود دینے پر اصرار کرتے۔ اسلام آباد کے معروف ہوٹل بیسٹ ویسٹرن کے کھانے ان کو بہت پسند تھے۔ ایک بار فرمانے لگے کہ آج Best Westernچلتے ہیں، میں نے کہا شرط یہ ہے کہ بل میں دوں گا۔اُنہوں نے زور دار قہقہہ لگایا مگر معلوم نہیں کہ اُنہوں نے کب بِل ادا کر دیا۔ میں نے ویٹر کو بل لانے کےلئے کہا تو فرمانے لگے: آپ لیٹ ہو گئے ہیں ۔ بیس پچیس برس کے دوران تین چار مواقع کے علاوہ شاید ہی اُنہوں نے کبھی مجھے بِل ادا کرنے دیا ہو۔
علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید﷫ کے بعد ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر﷫ کے اندر یہ خوبی دیکھی کہ انہیں اپنے احباب اور کارکنان کے مسائل کا ادراک بھی ہوتا تھا اور احساس بھی۔ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر﷫ کے روابط اور تعلقات مختلف جماعتوں کے قائدین کے ساتھ بھی تھے اور عام لوگوں کے ساتھ بھی ۔ بڑے بڑے عہدیدار اور سرمایہ دار اُن کے پیچھے پیچھے پھرتےمگرحافظ صاحب کوچین غریب اور نادار لوگوں کے درمیان محسوس ہوتا۔وہ غریب و نادار لوگوں کی چھپ چھپ کر مدد بھی کرتے اور ان کے کام آنے کی کوشش بھی کرتے۔علماے کرام کے ساتھ اُنہیں خصوصی لگاؤ اور محبت تھی اور وہ کسی عالم دین کے خلاف کوئی بات سننا پسند نہ کرتے تے۔ تمام مکاتبِ فکر کے بڑے بڑے علماء ڈاکٹر صاحب کے پاس تشریف لاتے اور بڑے پیچیدہ مسائل پر اُن سے گفتگو کرتے ۔ ڈاکٹر صاحب چند ہی منٹو ں میں اُنہیں کافی و شافی جواب دے دیتے۔ڈاکٹر صاحب نے ایک بار مجھ سے فرمایا کہ میں نے آج تک کوئی تقریر دوبارہ نہیں کی ۔ واقعہ یہی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا ہر خطاب، ہر درس اور ہر وعظ پہلے سے مختلف ہوتا۔ ایک ہی موضوع پر ان کے بیسیوں خطبات سن لیں۔ ہر ایک میں ایک نیا انداز، ایک نئی دلیل اور ایک نئی چاشنی ہو گی ۔
ڈاکٹر صاحب بلاشبہ خطابت کے بادشاہ تھے، وہ کسی بھی موضوع پر گھنٹوں فی البدیہ بول سکتے تھے اور دلائل کے انبار لگاتے چلے جاتے تھے، وہ قرآن پاک کی آیات اس روانی کے ساتھ پڑھتے جیسے اوراق اُن کے سامنے کھلتے جا رہے ہوں اور وہ پڑھتے چلے جا رہے ہوں ۔ ڈاکٹر صاحب کے خطبات اور دروس بلاشبہ بے مثال تھے لیکن ميرے خیال میں ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر﷫کے ساتھ سوال و جواب کی نشست اُن کے خطابات سے بھی بڑھ کر علم و حکمت پر مبنی ہوا کرتی تھی۔ وہ بڑے بڑے پیچیدہ مسائل کا اتنا سہل اور عام فہم انداز میں جواب دے دیتے کہ سائل لاجواب ہو جاتا۔ ان کے ساتھ سوال و جواب کی نشستیں علم وحکمت کا خزینہ بھی ہیں اور نئے خطبا، علما اور مقررین کے لئے مشعل راہ بھی۔
ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر﷫ نے مکتب الدعوۃ میں کم و بیش ستائیس برس کام کیا اور بڑے اعلیٰ مناصب پر فائز رہے ۔ اُنہوں نے مکتب الدعوۃ کے کئی مدیروں کے ساتھ کام کیا لیکن مکتب الدعوۃ کے موجودہ مدیر شیخ محمد بن سعد الدوسری کے تقویٰ اور سادگی کے وہ بہت مداح تھے اور اکثر اُن کا ذکر کرتے رہتے تھے ۔ شیخ دَوسری بھی ان کی بڑی عزت کرتے تھے اور دونوں کے درمیان اعتماد اور محبت کا رشتہ بہت گہرا تھا۔ڈاکٹر صاحب کی نمازِ جنازہ کے موقع پر شیخ دوسری کے چہرے سے اندازہ لگا یا جاسکتا تھا کہ وہ غم کی کس کیفیت سے دو چار ہیں۔ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر ﷫پاکستان میں سعودی عرب کے غیر سرکاری سفیر تھے۔ دین اسلام کی اشاعت، اُمتِ مسلمہ کی فلاح و بہبود اوربطورِ خاص حجاج کرام اور معتمرین کے لئے سعودی حکومت کی خدمات کا ڈاکٹر صاحب اکثر تذکرہ کیا کرتے تھے ۔
ایک دور تھا جب علماے کرام اور بزرگانِ سلف جماعتی اور حکومتی عہدے قبول کرنے سے بھاگتے تھے۔وہ اِن عہدوں کو ذمہ داری تصور کرتے تھے اور یوم آخرت کی جوابدہی کے احساس کے پیش نظر اُنہیں قبول نہیں کرتے تھے مگر آج بڑے بڑے صاحبانِ علم و تقویٰ اور موحد ہونے کے دعویداران بتوں کے سامنے نہ صرف سجدہ ریز ہیں بلکہ اُنہیں حاصل کرنے کےلئے باقاعدہ جو ڑتوڑاور سازشیں کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔میرے علم اور معلومات کی حد تک ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر ﷫نے جماعتی عہدوں کے حصول کے لئے کبھی کوئی بھاگ دوڑنہیں کی بلکہ وہ اُن سے گریزاں نظر آتے تھے ۔ ان کا تو یہ حال تھا کہ اگر کسی مسجد میں کوئی ایک نمازی اُن کے پیچھے نماز نہ پڑھنا چاہتا تو وہ وہاں خطابت بھی چھوڑکر الگ ہو جاتے اور ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں۔
مجھے معلوم ہے کہ ان کو متعدد بار مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان میں مرکزی عہدوں کی پیشکش کی گئی مگر وہ مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے امیر سینیٹر پروفیسر ساجد میر کو ہر بار طرح دے جاتے کیونکہ ان کے خیال میں ان عہدوں کو برقرار رکھنے کے لئے جس جوڑتوڑکی ضرورت ہوتی ہے ، وہ اس 'خوبی' سے محروم تھے ۔
ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر ﷫بہت ذہین اور فطین شخص تھے ،وہ ہر چیز کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لیتے۔ میں نے ایک بار اُن سے کہا کہ اگر آپ عالم دین نہ ہوتے تو بہت بڑے نقاد ہوتے، ا س پر وہ کھل کھلا کر ہنسے اور میری تائید کی ۔ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر ﷫کے علمی مقام، ان کے اندازِ تحریر، اُن کی خطابت، ان کی تحقیق اور بطورِ مفسر و محدث اُن کے مقام کا جائزہ لینے کا یہ محل نہیں اور نہ ہی اس مختصر مضمون میں ایسا ممکن ہے ۔
ڈاکٹر صاحب کا سانحۂ شہادت اور سفر آخرت
علامہ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر ﷫عالمِ اسلام کا ایک قیمتی اثاثہ تھے،جنہیں سترہ مارچ کو وفاقی دارالحکومت میں دن دیہاڑے شہید کر دیا گیا اور سفاک قاتل اُن کی گاڑی، موبائل فون اور دیگر قیمتی اشیا لے کر فرار ہو گئے۔
ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر ﷫گذشتہ تقریباً تین عشروں سے سعودی سفارتخانے کے ایک ذیلی ادارے مکتب الدعوۃ کے ساتھ وابستہ تھے اور ریسرچ سکالر ذمہ داریاں ادا کررہے تھے۔ وہ ساری زندگی مرکزی جمعیت اہلحدیث کے ساتھ وابستہ رہے تاہم پاکستان کے تمام مکاتبِ فکر اور دینی و علمی حلقوں میں اُنہیں انتہائی عزت و احترام کی نگا ہوں سے دیکھا جاتا تھا کیونکہ وہ ہمیشہ اتحاد بین المسلمین کے داعی رہے، یہی وجہ ہے کہ ان کے مداحوں اور چاہنے والوں کا حلقہ تمام مکاتبِ فکر اور پوری دنیا میں پھیلا ہوا تھا۔
17؍ مارچ2012ء کوجب ڈاکٹر صاحب کو شہید کیا گیا، ہفتے کا دن تھا، دفتر میں چھٹی تھی، ڈاکٹر صاحب گھر پر ہی تھے کہ تقریباً دوپہر اڑھائی بجے کے قریب گھر کی گھنٹی بجی۔ حافظ عبدالرشید اظہر ﷫کی اہلیہ کے بقول ڈاکٹر صاحب نے خود دروازہ کھولا، مہمانوں کے رُوپ میں آنے والے قاتلوں کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور اہلیہ سے چائے بنانے کو کہا اور دو انگلیوں سے اشارہ کیا، اہلیہ نے دو مہمانوں کے لئے چائے بنا کر دی۔ تھوڑی ہی دیر بعد ڈاکٹر صاحب واپس آئے اور اہلیہ سے کہا کہ بے چارے مسکین ہیں، کھانے کے لئے کچھ دے دیں، اہلیہ نے کھانا بنانا چاہا تو کہا: جو کچھ موجود ہے ،وہی دے دیں چنانچہ ڈاکٹر صاحب کے لئے میتھی سے پکائی گئی دو روٹیاں 'مہمانوں ' کو دے دی گئیں ۔ ڈاکٹر صاحب برتن لے کر آئے تو پھلوں کی ٹوکری لے جا کر سفّاک مہمانوں کے پاس جا کر بیٹھ گئے۔ واضح رہے کہ اس وقت ڈاکٹر صاحب اور اُن کی اہلیہ کے سوا گھر میں کوئی نہ تھا، ان کا بیٹا سعد یونیورسٹی گیا ہوا تھا ..... ڈاکٹر صاحب کی عادت تھی کہ دیر تک مہمانوں کے پاس بیٹھے رہتے ، اُن کے ساتھ گفتگو کرتے، ان کے مسائل سنتے ،قرآن و حدیث کے مطابق آنے والوں کی رہنمائی کرتے ، یوں اکثر اوقات مہمان گھنٹو ں بیٹھے رہتے۔ ڈاکٹر صاحب انتہائی ہمدرد اور شفیق شخصیت کے مالک تھے ، ان کی ایک عادت یہ بھی تھی کہ بسا اوقات مہمانوں کو اپنی گاڑی پر چھوڑنے بھی چلے جاتے تھے ..... سہ پہر چار بجے نماز عصر کےلئے الارم نے بجنا شروع کیا تو ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ نے نمازِ عصر ادا کی، اسی دوران گاڑی کے سٹارٹ ہونے کی آواز آئی، اہلیہ یہ سمجھیں کہ ڈاکٹر صاحب مہمانوں کو چھوڑنے گئے ہیں مگر وہ دیر تک واپس نہ لوٹے تو اہلیہ نے موبائل پر فون کیا مگر موبائل بند تھا۔ ڈاکٹر صاحب کبھی اپنا موبائل بند نہ کرتے تھے ،اہلیہ کو تشویش ہوئی توSMSکیا مگر کوئی جواب نہ آیا۔ اسی دوران اُن کا بیٹا سعد یونیورسٹی سے واپس آیا تو ماں بیٹے نے ڈرائنگ روم میں دیکھنا چاہا مگر وہ اندر سے لاک تھا اور ڈرائنگ روم کے پردے گرے ہوئے تھے ۔ بیٹے سعد نے سوراخوں سے جھانک کر دیکھا تو اُنہیں شک گزرا کہ ڈرائنگ روم میں پڑے بیڈ پر کوئی لیٹا ہے،سعد ڈاکٹر صاحب کے بیڈ روم سے ملحق ڈرائنگ روم کا دروازہ توڑکر اندر داخل ہوئے تو اس خوف سے تھوڑی دیر رک گئے کہ ابو دروازہ توڑکر اندر داخل ہونے پر ڈانٹیں گے مگر اب پیار و محبت سے ڈانٹنے والے ابو میٹھی نیند سو چکے تھے، اُن کے اوپر کمبل اوڑھا ہوا تھا اور ان کا ایک ہاتھ باہر نکلا ہوا تھا۔ سعد بیٹے نے اپنے ابّو کو یوں بے خبر سوتے کبھی نہ دیکھا تھا۔اُس نے آگے بڑھ کر کمبل ہٹایا تو اس کی چیخیں نکل گئی، اس کے ابو کا جسم ازار بندوں سے جکڑا ہوا تھا اور وہ ابدی نیند سو رہے تھے ۔کچھ دیر دونوں ماں بیٹا سکتے کی سی کیفیت سے دوچار ہو رہے ،پھر سعد نے ہمت کر کے اپنے بڑے بھائی حافظ مسعود اظہر کو خانیوال فون کیا مگر اس کے منہ سے رونے کے سوا کوئی آواز نہ نکل رہی تھی ۔ بڑے بھائی نے ڈانٹ کر پوچھا: بتاؤ کیا بات ہے تو اُس کے منہ سے بمشکل یہ الفاظ نکل پائے کہ'' کوئی ابو کو شہید کر گیا ہے۔ '' ..... حافظ مسعود اظہر کے بقول یہ نمازِ مغرب کے بعد کا وقت تھا اور اس وقت اندھیرا چھار ہا تھا۔
علامہ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر ﷫کی شہادت کی یہ خبر آناًفاناً نہ صرف پورے ملک بلکہ پوری دنیا میں پھیل گئی اور چند ہی لمحوں بعد ہزاروں افراد ان کی رہائش گاہ واقع آئی ٹین ون پہنچ گئے۔ ہر چہرے پر آنسو تھے ،سسکیاں اورآہیں تھیں ، افسردگی تھی، سوالات تھے کہ قاتل کون تھے ، ان کے مقاصد کیا تھے اور وہ کس کو،کیا پیغام دینا چاہتے تھے ؟ .....
ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر ﷫نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی، ان کے والد صاحب کے پاس سات آٹھ ایکڑزرعی زمین تھی اور اسی پر خاندان کی گزر بسر تھی، والد صاحب مذہبی مزاج رکھتے تھے ،اُنہوں نے اپنے بیٹے عبدالرشید کو ایک دینی مدرسے میں داخل کرایا اور پھر عبدالرشیدجامعہ سعیدیہ خانیوال، جامعہ سلفیہ فیصل آباد اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے اپنے آپ کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر کے واپس لوٹے تو حافظ عبدالرشید اظہر﷫ کے لقب سے ان کا نام پورے ملک میں گونجنے لگا اور جب وہ علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر کے ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر بنے تو وہ دنیا کے متعدد ملکوں میں سینکڑوں اجتماعات سے اپنے پر اثر خطابات کے ذریعے اور اپنے دلنشیں انداز سے لاکھوں دلوں میں گھر کر چکے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نمازِ جنازہ نہ صرف پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں ادا کی گئی بلکہ مسجد ِنبویﷺ، مدینہ منورہ، کویت، قطر، امریکہ، برطانیہ اور جنوبی افریقہ سمیت متعدد ممالک میں اُن کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔
ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر﷫ کی نمازِ جنازہ کے موقع پر بڑے رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔ اٹھارہ مارچ کو صبح ساڑھے نو بجے جامعہ سلفیہ اسلام آباد میں اُن کی نمازِ جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور ان کا جسد ِخاکی ان کے آبائی شہر خانیوال کی طرف روانہ ہوا۔ دوپہر تقریباً دو بجے جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں اُن کی نمازجنازہ ادا کی گئی تو فیصل آباد اور گردو نواح سے ہزاروں افراد اُمڈ آئے اور اُن کی نمازِ جنازہ فیصل آباد کی تاریخ کے چند بڑے جنازوں میں شمار ہونے لگی۔معروف عالم دین مولانا مسعود عالم ﷾جب نمازِ جنازہ کے دوران میں اللہ کے حضور گڑگڑا کر دعائیں کر رہے تھے تو اُن سمیت ہزاروں شرکا کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور اُن کی ہچکیوں سے پتہ چل رہا تھا کہ ایک بڑے عالم دین اس جہاں سے رخصت ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی نمازِ جنازہ کا سب سے بڑا اور تیسرا اجتماع خانیوال میں ہوا جہاں عشا کی نماز کے بعد نمازِجنازہ ادا کی گئی اور آزاد ذرائع ابلاغ کے مطابق 35سے چالیس ہزار کے لگ بھگ افراد نمازِ جنازہ میں شریک ہوئے ۔اسلام آباد، فیصل آباد اور خانیوال میں ڈاکٹر صاحب کے چہرے کا دیدار کرنے والے دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے اور سفاک قاتلوں کے خلاف ان کے دل سے دعائیں نکل رہی تھی۔لاکھوں مسلمانوں ، ہزاروں علماے کرام اور اولیا کی یہ دعائیں قاتلوں کو اللہ کی زمین پر سکون سے کیسے چلنے دیں گی، وہ دن دور نہیں کہ اللہ کی زمین اُن پر تنگ ہوتی جائے گی اور وہ اسی زندگی میں ذلیل و رسوا ہو کر عبرتناک انجام سے دو چار ہونگے ۔ ان شاء اللہ
ابتدائی میڈیکل رپوٹس اور شواہد کے مطابق مہمانوں کے رُوپ میں آنے والے درندہ صفت قاتلوں نے ڈاکٹر صاحب کے منہ اور ناک پر کپڑا ڈال کر، اُن کا سانس بند کر کے انہیں شہید کیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اُنہیں شہید کرنے سے قبل بے ہوش کیا گیا کیونکہ ڈاکٹر صاحب کی بارعب شخصیت اور طویل قدو قامت کے باعث دو افراد کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ اُنہیں آسانی کے ساتھ دبوچ لیتے۔تاہم یہ بات یقینی ہے کہ قاتل انتہائی تجربہ کار اور تربیت یافتہ تھے، ان ظالموں نے یہ واردات اس قدر مہارت کے ساتھ کی کہ گھر میں موجود ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ اور پڑوس میں کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی، قاتل جب گاڑی لے کر فرار ہوئے تو محلے کے بعض افراد نے اُنہیں گاڑی لے جاتے دیکھا مگر وہ اس خیال سے خاموش رہے کہ ڈاکٹر صاحب کے ہاں اکثر ملاقاتی آتے رہتے تھے ۔اور کیا معلوم کے یہ ان کے کوئی جاننے والے ہوں !!
علامہ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر ﷫کو شہید کیوں کیا گیا، اُن کا کیا جرم تھا، قاتلوں کے پیچھے خفیہ ہاتھ کس کا ہے ، وہ کس کو کیا پیغام دینا چاہتے تھے ؟ ۔ یہ سب کچھ ابھی پردہ راز میں ہے ۔ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر ﷫ کا کسی کے ساتھ کوئی جھگڑا نہ تھا، وہ جھگڑوں اور تنازعوں میں پڑنے والے شخص تھے ہی نہیں، وہ تو اکثر اپنے جائز حقوق سے بھی دوسروں کے حق میں دستبردار ہو جایا کرتے تھے ۔ وہ ایک سیلف میڈ انسان تھے ،ا ن کا کوئی جائیداد وغیرہ کا تنازعہ بھی کسی کے ساتھ نہ تھا، اُنہوں نے جو کچھ کمایا اور بنایا، وہ اپنی محنت سے اور اللہ کے فضل و کرم سے۔ ان کے پاس کوئی لمبی چوڑی جائیداد اور پراپرٹی بھی نہ تھی کہ کوئی ان کی جان کا دشمن بن جاتا۔ وہ اپنے خاندان کے بزرگ تھے اور سب انہیں اَز حد احترام کی نظروں سے دیکھتے تھے ، وہ ایسے دور اندیش تھے کہ عام لوگ بھی ان سے اپنے خاندانی اور ذاتی معاملات حل کرواتے تھے ۔مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ انتہا پسندی کے وہ سخت خلاف تھے ،وہ خود ہمیشہ مثبت انداز میں قرآن وسنت کی دعوت پیش کرتے رہے اور اسی کی طرف سب کو دعوت دیتے اور اسی راستے کی ہدایت کرتے تھے ۔اندریں حالات کوئی فرقہ وارانہ انتہا پسند اُن کی جان کا دشمن نہ ہو سکتا تھا۔
تاہم ایک بات ان کے حاسدین کو بہت کھٹکتی تھی اور وہ تھا، مکتب دعوۃ میں ایک بڑے عہدے پر اُن کا فائز ہونا اور سعودی عرب کے علما اور زعما کی نظروں میں اُن کی عزت و احترام۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر﷫کو شہید کر کے ان کی شہادت کے پیچھے خفیہ ہاتھ سعودی عرب کو کچھ پیغام دینا چاہتے ہیں۔ یہ حلقے ڈاکٹر صاحب کی شہادت کو بھی کراچی اور ڈھاکہ میں سعودی عرب کے سفارتی عملہ پر حملے کی ایک کڑی قرار دے رہے ہیں ،اُن کا خیال ہے کہ اس شہادت کے پیچھے کچھ غیر ملکی خفیہ ہاتھوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اسلام آباد میں ڈاکٹر صاحب کی نماز جنازہ سے قبل مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے سینئر نائب امیر علامہ عبدالعزیز حنیف نے خطاب کرتے ہوئے حکومت پاکستان کو الٹی میٹم دیا تھا کہ وہ سات روز کے اندر اندر ڈاکٹر صاحب کے قاتلوں کو گرفتار کرے اور ان کی گاڑی و مسروقہ اشیا کو برآمد کرائے ، بصورتِ دیگر ملک بھر میں احتجاجی تحریک چلائی جائے گی۔ ڈاکٹر صاحب کی شہادت کے اگلے روز راولپنڈی اسلام آباد میں اہل حدیث مکتبِ فکر کے علماے کرام، زعما، سرکردہ افراد اور ذیلی تنظیموں کا ایک بڑا اجلاس مرکز اہلحدیث، جی 6 میں منعقعد ہوا، جس میں ڈاکٹر صاحب کی شہادت اور آنے والے مراحل سے نپٹنے کے لئے سید عتیق الرحمٰن شاہ صاحب کی قیادت میں ایک ایکشن کمیٹی تشکیل دی گئی، جس نے شب و روز ایک کر کے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر مسلسل دباؤ رکھا۔ جمعہ23مارچ کو پاکستان کے بڑے شہروں اور قصبوں میں پر امن احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کیا گیا اور ڈاکٹر صاحب کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اُدھر مرکزی جمعیت اہلحدیث نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے ایک بڑے احتجاجی پروگرام کا بھی اعلان کر دیا جس کے مطابق 30مارچ کوراولپنڈی اور اسلام آباد میں اہل حدیث مکتبہ فکر کے تمام افراد نے اجتماعی نماز جمعہ پارلیمنٹ کے سامنے ادا کرنا تھی۔ اسلام آباد میں ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر ﷫کے قاتلوں کی گرفتاری کے لئے اجتماعی نمازِ جمعہ کو حتمی شکل دے دی گئی تھی اور اس حوالے سے تمام تیاریاں بھی مکمل کی جا چکی تھیں کہ 29مارچ کو دونوں قاتلوں کو پولیس نے گرفتار کر لیا اور الحمدللہ اب دونوں قاتل قانون کے شکنجے میں آ چکے ہیں اور ان شاء اللہ اپنے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر ﷫کی شہادت نے دینی جماعتوں کو بالعموم اور اہلحدیث مکتبہ فکر کو بالخصوص بیدار کر دیا ہے ۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر ﷫کی شہادت کے تقریباً پچیس برس بعد ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر ﷫کی شہادت پر اہل حدیث علماے کرام، کارکنان اور اہلحدیث یوتھ فور س کے نوجوان پُرعزم ہیں کہ اس خون کو رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا اور جب تک قاتل اپنے انجام کو نہیں پہنچ جاتے تب تک ان کی تحریک جاری رہے گی۔
کیا ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر ﷫کی شہادت کو بھی مصلحت کی دبیز تہوں کے نیچے دبا دیا جائے گا اور کیا ان کے سفاک اور درندہ صفت قاتل بھی قانون کا مذاق اُڑاتے ہوئے دندناتے رہیں گے اور کسی دوسرے عالم دین، کسی راہنما اور کسی قائد کو شکار کرنے کی حکمتِ عملی اور منصوبہ سازی کرتے رہیں گے ؟ .... یہ وہ سوالات ہیں جو محب وطن حلقوں کو دن رات بے چین کیے ہوئے ہیں۔دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر ﷫کی الم ناک شہادت کا ان کا بہترین صلہ دے،اُن کی بشری لغزشیں اور کمزوریاں معاف فرمائے اور اُنہیں کروٹ کروٹ جنت الفردوس عطا فرمائے ۔ آمین!

مولانا ڈاکٹر حافظ عبد الرشید اظہرکی شخصیت و خدمات پر لکھے جانے والے مضامین
جامعہ لاہور اسلامیہ کے شیخ الحدیث اُستا ذ الاساتذہ حافظ ثناء اللہ مدنی ﷾، حافظ عبدالرشید اظہر مرحوم کے خصوصی مہربان اور محسن تھے۔ دونوں کا علمی اور دینی تعلق مثالی تھا۔ اسی تعلق کا ایک اظہار یوں ہواکہ حافظ صاحب کے ’فتاویٰ ثنائیہ‘ پر افتا کے موضوع پر ایک تفصیلی اور شاندار مقدمہ اظہر صاحب نے تحریر فرمایا ۔ حافظ ثناء اللہ مدنی ﷾ اُن کے حالاتِ زندگی اور اپنے ساتھ گزری یادیں تفصیلاً قلم بند فرما رہے ہیں لیکن صحت کی خرابی کی بنا پر یہ تحریر فی الوقت مکمل نہیں ہوسکی۔مزید برآں ہم نے حافظ اظہر صاحب کے ہم راز وہم دم مولانا عبد الحمید ازہر ﷾ سے بھی اپنی یادیں قلم بند کرنے کی گزارش کی ہے۔
اسی طرح بہت سی تحریریں جو حافظ عبد الرشید اظہر صاحب کے بارے میں مختلف اہل علم نے لکھی ہیں، ان کی اشاعت مذکورہ بالا تحریروں کے ساتھ ہی مؤخر کی جاتی ہے۔
مولانا حافظ عبد الرشید اظہر رحمۃ اللہ کے احوال وآثار کے لئے اُن کے فرزندِ گرامی حافظ مسعود اظہر کا تفصیلی مضمون اور مولانا یوسف انور صاحب کی مختصر تحریرموقر معاصر ’الاعتصام ‘ میں شائع ہوچکی ہیں جبکہ مجلّہ ’البیان ‘کراچی کے تازہ شمارہ میں بھی جناب ہاشم یزمانی نے ان کے بارے میں ایک تاثراتی مضمون رقم کیا ہے۔
مزید برآں حافظ ثناء اللہ مدنی﷾ کے برادرِ خورد جناب رضاء اللہ صاحب (سول جج، اسلام آباد)، ماہ نامہ’التوحید‘اسلام آباد کے مدیر معاون ڈاکٹر حافظ محمد شہباز حسن، گوجرانوالہ کے معروف محقق حافظ شاہد محمود کی یادداشتیں اور حافظ اظہر صاحب کے بھتیجوں ، نواسوں کی تحریرات وغیرہ بھی ہمیں موصول ہوچکی ہیں۔
اللہ تعالیٰ حافظ صاحب کے مبارک تذکروں کو اُن کی بلندی درجات اور مغفرت کا سبب بنائے اور ان کی وفات سے پیدا ہوجانے والا خلا کو پورا فرمائے۔ وما ذلک علیٰ اللہ بعزیز                                                                                                                                                                         ادارہ ’محدث
٭٭٭٭٭