وزیر اعلیٰ پنجاب کی دینی و تعلیمی ہولناکیاں
نصابِِ اسلامیات سے قرآنی آیات اور احادیث کا اِخراج
تعلیم ودانش، زبان و ثقافت، دین و ایمان،نظریۂ پاکستان ،استقلال و آزادی کے احیا وتحفظ، ارتقا و تسلسل اور انضباط و استحکام کے میدان میں جناب شہباز شریف کے اقداما ت اپنے حال و مستقبل کے آئینہ میں کافی پریشان کن ہیں۔ اگر ان قدامات کا بر وقت محاکمہ اور محاسبہ نہ کیا گیا تو اندیشہ ہائے دورو دراز سے پناہ ممکن نہیں ۔ تاریخ اہل دانش کو بالآخر فیصلہ کن موڑ پر کھینچ لائی ہے ،کہ وہ اَب یا کبھی نہیں ، کی بنیاد پر اپنا قائدانہ رول ادا کریں اور ببانگِ دہل کریں۔ متذکرہ صدر عنوانات بالخصوص نظریہ پاکستان کے فروغ، آزادی کے تحفظ اور تعلیم ودانش کی جہتوں کے تعین کے ضمن میں موصوف کی تعلیمی کاوشوں کا ناقدانہ جائزہ ذیل میں پیش کیا گیا ہے:
اہلِ پنجاب سے اُن کی ماں بولی؍مادری زبان اور قومی زبان اُردو کو پنجاب بدر کرنے کی کاوشیں پوری تندہی سے جاری ہیں۔ سرکار کے زیر انتظام تمام پرائمری سکولوں میں بدیشی زبان 'انگریزی' کو لازمی کر دیا گیا ہے۔ جو کام تمام تر جبرو استبداد کے باوجود انگریز اپنے دورِ تسلط میں نہ کر پایا تھا۔ بزبانِ خود، قائداعظم کے سپاہی کے ہاتھوں یہ کارستانی وقوع پذیر ہو رہی اور ہمارے جیتے جی ہو رہی ہے۔
دوسری تبدیلی: پنجاب کی زبان و ثقافت کے حامل بچوں کو پنجاب کے اساتذہ کرام انگریزی میں پڑھا یاکریں گے، کلاس میں اپنے طلباء و طالبات سے انگریزی میں گفتگو کیا کریں گے، سوالوں کے جواب بھی انگریزی میں دیا کریں گے۔ ان کے احکام کے تحت سکول انتظامیہ مسلسل ہدایات جاری کر رہی ہے۔
موصوف ویسے تو بہت مذہبی پس منظر رکھتے ہیں، صوم و صلوٰة کے خوگر ہیں، اقبال کے شیدائی ہیں، قائداعظم کے مداح ہیں، پاکستان کو اسلامی فلاحی مملکت بنانے کے سپنے دیکھنے کے بھی عادی ہیں،لیکن دین وایمان سے ان کے قلبی تعلق اور لگاؤ کا اندازہ لگانے کے لئے وزیر اعلیٰ پنجاب کے'پروگرام برائے تعلیمی اصلاحات' کے تحت طبع شدہ کتابِ اسلامیات ومطالعہ پاکستان ایڈیشن(مارچ 2009 ء اور جنوری 2012ء) برائے جماعت نہم ودہم کا تقابلی جائزہ بالا ختصار ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:
1. نوآموز ایڈیشن سے جہاد و قتال، ثقافت و معاشرت، آدابِ نبوی ایمان و یقین کے مسلّمات و محکمات پر مبنی تینوں قرآنی سورتوں...... الانفال، الاحزاب اور الممتحنہ کو بیک جنبش زبان نصاب سے خارج کر دیا گیا ہے۔
2. قرآن مجید کی کل دس آیات کو شامل نصاب کیا گیا ہے۔
3. ان دس آیات میں سے ایک آیہ کریمہ سورۃ البقرہ سے اور بقیہ سورة النساء سے ہیں۔ آیات کے انتخاب میں خاص طور پر یہ خیال رکھا گیا ہے کہ ان کی تعلیم و تدریس سے انفرادی و اجتماعی زندگی کا کوئی زاویہ یا کوئی پہلو کسی طرح کی تبدیلی کو اپنے اندر انگیخت نہ کر سکے اور یوں کہنے کو تو قرآن کریم شامل نصاب رہے لیکن اس کی ہمہ پہلو برکات اور ہمہ نوع مقتضیات سے طالبِ علم تہی دامن رہے۔ نظریہ پاکستان، اساسِ پاکستان کے تحفظ و احیا کا یہ کیسا عجیب و غریب انتظام ہے جو خادِم اعلیٰ کے زیر نگرانی کام کرنے والے افسران کی محکومانہ اور مرعوب ذہنیت کے تحت تعلیمی اصلاحات کے عنوان سے سیاہ باب رقسم کر رہا ہے۔
4. متذکرہ صدر سورتوں کو خارج از نصاب کرانے میں اغلباً سکینڈ لارڈ میکالے جو اَب مائیکل باربر کے نام سے موصوف کے مشیربھی ہیں،کی منصوبہ بندی کا رنگ غالب دکھائی دیتا ہے۔
5. الحدیث کے عنوان سے جو حصہ مذکورہ کتاب میں موجود ہے، اصطلاحاتِ حدیث پر مشتمل ہے۔ حدیث کا تعارف تو خوب اقسامِ حدیث، درایت و روایت، کتب احدیث، حدیث و سنت کی اہمیت اور ان کے عملی زندگی پر اثرات کے عنوانات کے تحت چند صفحات تو کتاب میں شامل ہیں لیکن پہلے سے موجود بیس احادیث پر مشتمل ایک حسین گل دستہ خارج ازنصاب قرار پایا ہے۔ نظریہ پاکستان اور اسلام کا نام لینے والے خادمِ اعلیٰ پنجاب کو ضرور جائزہ لینا چاہئے کہ ان کے قلم یا ان کے نام سے مسلمانوں کی موجود اور موعود نسل پر کیا ظلم روا رکھا جا رہا ہے ۔
6. موضوعاتی مطالعہ کے باب میں ایمانیات کا ذکر چھیڑا تو ایمان بالمعاد ؍ آخرت کا تذکرہ تک محذوف قرار پایا۔ اُسوۂ حسنہ کا باب کُھلا تو بعثت کے مقصد کا تذکرہ خارج اَز بحث ٹھہرا، دعوتِ و تبلیغ اورہجرت مدینہ کے ادھورے اور بے روح تبصروں پر محدود رہا۔ اور بس یہی حال 'اَخلاق و آداب'اور ہدایت کے سر چشمے، کے عنوانات و ابواب کا ہے اور ؏ دیکھتا جا شر ماتا جا کے مصداق ہے!
تفصیلاتِ نصاب سے یہ بات ازخود واضح اور مبرہن ہے کہ مرتبین و مؤلفین حضرات وخواتین نے خود اپنے آپ کو، اپنے کاز کو اور اپنے مضمون کی مقصدیت کو چند ٹکوں کے عوض فروخت کیا ہے اور حمیتِ دین کے اَدنیٰ تقاضے کو بھی فراموش کر بیٹھے ہیں کہ اس مملکتِ خداداد کی کمان و عنان کو کسی طرح کے لوگوں کے سُپرد کرنے چلے ہیں۔
جہاں تک اس کتاب کے دوسرے حصے کا تعلق ہے جو'مطالعہ پاکستان' کہلاتا ہے یہ بھی خادمِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی ذاتی سوچ سے بہرحال متصادم دکھائی دیتا ہے۔ ملاحظہ فرمالیجئے:
پہلا عنوان تحریکِ پاکستان سےمتعلق ہے۔ یہ تحریک پاکستان کی غرض و غایت، مقصدیت، ماحولیاتی اَسباب و محرکات، مزاحم قوتوں کا رول، قائدین تحریکِ پاکستان اور ان کی سر توڑ کاوشیں ایسے لازمی و لابدی جائزوں سے با لعوم خالی ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جو کہ حب الوطنی، قدر دانی، اَسلاف اور اُن کی میراث سے محبت و وابستگی نیز ان کے ایثار و اخلاص سے اُلفت اور ؏ 'خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی' کی بنائے امتیاز و اِنفرادیت ایسے جذبات کو مہمیز دیتے اور تحریک بخشتے ہیں۔ مگر یہا ں تو حال یہ ہے کہ ؏
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
اس تبصرے اور تجزیئے کا حاصل یہ ہے کہ
اَساتذہ کرام والدین، طلباء وطالبات اور بالخصوص اہل فکر ودانش اس نصاب وکتاب کی ترویج سے قبل فوراً اپنے اپنے محاذ پر متحرک اور مستعد ہو جائیں اور ایک بھرپور احتجاجی تحریک برپا کریں اور منوائیں کہ
1. نصاب میں یہ بے مقصد تبدیلی ناقابل قبول ہے لہٰذا پرانا نصاب اسلامیات بحال وبرقرار رکھا جائے۔
2. فی الفور مجلس فکر ودانش تشکیل دیا جائے جو نصابِ تعلیم، ذریعہ تعلیم زبان وثقافت وغیرہ کی بابت حال ومستقبل کے مقتضیات کی روشنی میں تجاویز مرتب کرے۔
3. اساتذہ کرام اور اہل فکر ودانش، اہل صحافت ومیڈیا کی راہنمائی میں ایک مؤثر، محکم اور دور رَس تعلیمی پالیسی مرتب کی جائے جس کے نفاذ کی ذمہ داری صوبائی انتظامیہ پر ہو اور اس پر کسی عہدیدار کی ذاتی، وقتی اور سطحی جلوہ نمائی یا پبلسٹی کی اثرپذیری نہ ہو۔
4. اہل علم ودانش بالخصوص دینی طبقات وتنظیمات اپنے گردوپیش میں اثر ونفوذ حاصل کر کے ہمہ گیریت کا جوہر کامل اُجاگر کریں۔ اپنی چاردیواری کے ورے اور پرے دونوں پر گہری نظر رکھیں اور اپنے اوپر عائد دینی، ملی اور قومی وعلاقائی ذمہ داریوں سے بروقت عہدہ برآ ہو کر اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور ہم نشینوں کے روبروسرخرو ہوں۔
5. منصب حکمرانی وجہاں بانی ایک مقدس اَمانت ہے، ہر امانت کی جواب دہی اور محاسبہ ہے۔ ان سے اور بالخصوص خادمِ اعلیٰ سے گذارش ہے کہ وہ اپنے اوقات، استعدادات اور وسائل کو اس نہج پر استعمال میں لائیں کہ عوام اپنے ملک، آزادی اور ماحول پر فخر کر سکیں اور حکمرانی کرنے والے کل کو ذلّت، رسوائی اور شرمندگی سے بچ جائیں۔
6. قائد اعظم کے اس فرمان کہ پاکستان کی اَساس وبنیاد اسلام اور اس کی زبان 'اُردو' ہے کو تعلیمی، تربیتی ، قانونی، عدالتی سرکاری اور روز مرہ کی ہر سرگرمی میں جاری وساری کیا جائے اور اس کے لئے تمام تر توانائیاں وقف کی جائیں ۔یہی تو پاکستانیت ہےاور یہی اس کے ارتقا وتسلسل کا ضامن ہے۔
7. 'اُردو' کو گریجویشن تک لازمی مضمون کا درجہ دیا جائے اور ہر سطح کی تدریس وتعلیم اور ہر سطح کے امتحان کا ذریعہ بنایا جائے۔
8. دیگر بدیشی زبانوں کی طرح انگریزی کو اختیاری مضمون کا درجہ دیا جائے البتہ عربی اور فارسی دونوں زبانوں کی تحصیل کی حوصلہ اَفزائی کی جائے۔کیونکہ مآخذ دین کی زبان عربی اور کلامِ اقبال کا دوتہائی حصہ فارسی زبان میں ہے۔
٭٭٭٭٭