مئی 2012ء

مصرکی سلفی جماعت'حزبُ النور' سے روزمره سوالات

دسمبر 2010ء سے شروع ہوالا عرب انقلاب 15 ماه کے قليل عرصے میں عظيم منازل طے کرچکاہے۔ برسوں سے منجمد عرب کے سمندر میں زندگی انگڑائی لیتی نظر آرہی ہے اور ملت ِمحمدیہ اسلام کی طرف لوٹ رہی ہے۔تیونس،مصر، اورلیبیا کے بعد اب کویت اور یمن میں بھی اسلامی جماعتوں کوسياسی ميدان میں غیرمعمولی کامیابیاں ملی ہیں۔جس طرح لیبیا کے انقلابیوں نے اسلامی شریعت میں پناہ لینے کا اعلان کرکے‎ مغرب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ، اسی طرح مصر میں اسلامی جماعتوں کو دوتہائی سے زیادہ ملنے والی اکثریت نے ملتِ کفر کے لئے اندیشوں و پریشانیوں کے سائے گہرے کردیے ہیں۔قومی اسمبلی کے بعد مصری سینٹ کے انتخابات میں بھی دینی جماعتوں کی کامیابیوں کا تناسب مزید نمایاں ہواہے۔فروری12ء کے مہینے میں کویت میں ہونے والے انتخابات میں بھی اسلامی جماعتوں کو نصف سے زیادہ نشستیں حاصل ہوچکی ہیں۔ تیونس میں اسلام کے نام پر انتخابات جیتنے والی 'حركت نہضت' بھی اپنا وزیر اعظم بھی لا چکي ہے۔ یمن میں تین دہائیوں کے بعد دینی جماعتوں کا متفقہ صدارتی اُمیدوارمنصور ہادی سابق صدر علی عبد اللہ کی جگہ لے رہا ہے۔ان عرب ممالک میں اخوان المسلمین کے ساتھ ساتھ سلفی اُمیدواروں نے بھی نماياں کامیابیاں حاصل کی ہیں اور آہستہ آہستہ یہ نظریہ پختہ ہورہا ہے کہ اخوان اور سلفی ، لادین قوتوں کے مقابلے میں متحد اور یکسو ہیں۔مصر میں اخوان کی نمائندہ سیاسی جماعت حركة الحرية والعدالة(جسٹس اینڈ فریڈم پارٹی) کے ساتھ ساتھ سلفی مکتبِ فکر کی نمائندہ 'حزب النور' نےقومی اسمبلی میں 24 فیصدنشستیں حاصل کی ہیں۔ مصر میں اس وقت اسلامی جماعتوں کے ایک ہی نمائندہ اُمیدوار حازم صلاح ابو اسمٰعیل ميدان میں ہیں جنہیں سلفی جماعت حزب النور نے اپنا صدارتی اُمیدوار نامزد كيا ہے۔ دینی جماعتوں کی اسمبلیوں اور سینٹ انتخابات میں نمایاں کامیابی کے بعد حازم صلاح کی مصر ى صدر كى طورپر کامیابی کے امکانات بہت بڑھ چکے ہیں،یاد رہے کہ مصر میں جون 12ء انتقالِ اقتدار کا مہینہ ہوگا۔ پاکستان کی اسلامی جماعتوں اور دینی تحریکوں کے لئے اس وقت یہ مطالعہ بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ عرب کی یہ جمہوری اور سلفی جماعتیں معاشرے کو اسلامی ثمرات سے مستفید کرنے کے لئے کیا لائحہ عمل اختیار کرتی ہیں۔ ان کے ہاں تبدیلی کا ایجنڈا اور ترجیحات کیا ہیں؟ اس حوالے سے حزب النور، مصر کی ویب سائٹ پر اُن کے سیاسی وژن اور منشور کے طورپر شائع کی جانے والے دستاویز بھی مطالعہ كے قابل ہے، تاہم فی الحال اس شمارے میں ہم 'حزب النور' سے آئے روز پوچھے جانے والے سوالات کے جوابات کا اُردو ترجمہ شائع کررہے ہیں۔ ح م

سوال:آپ کے خیال میں کیا یہ وقت تمام دینی جماعتوں کے اتحاد کا نہیں ؟

یقیناً ایسا ہی ہے، ہم تمام دینی جماعتوں کے اتحاد کے پرجوش حامی ہیں،یہ زاویۂ فکر درست نہیں کہ ایک سے زیادہ دینی جماعتوں کا وجود لا زمی طور پرفرقہ واریت پرہی منتج ہوتا ہے،ایسا ہر گزنہیں ہے بلکہ سیاسی میدان بہت وسیع ہے۔ایک سے زیادہ جماعتیں ہونے کے باوجود ہمارا کاز اور مقصد یکساں ہے ۔
سوال:کیا آپکے اخوان المسلمون اور دیگر دینی جماعتوں کے ساتھ تعاون کے امکانات ہیں؟
کیوں نہیں! یہ بدیہی امر ہے بلکہ آمدہ ایام میں ان شاء اللہ اس تعاون میں اضافہ ہو گا۔ کیونکہ ہمارا یقین محکم ہے کہ دیگر اسلامی جماعتوں کے ساتھ ہمارا تعاون مصر کے مستقبل کے لیے انتہائی مفید ہو گا۔
سوال:خواتین کے بارے میں حزب النور کا کیا نقطہ نظر ہے ،آپ لوگ خواتین کی ملازمت کو کس نظر سے دیکھتےہیں ؟
حزب النورخواتین کو انتہائی عزت و احترام کی نظر سے دیکھتی ہے ۔رہی بات خواتین کی ملازمت کی تو اس کے بارے میں بھی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بہت سارے میدانوں میں عورت کا کردار کلیدی ہے۔ جس کی معاشرے کو اشد ضرورت ہے لیکن اس کے ساتھ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ملازمت کے دوران تمام شرعی اُصول و ضوابط کا خیال رکھا جانابھی انتہائی ضروری ہےتاکہ خاتون کو جملہ پہلووں سے تحفظ حاصل ہو۔ حالیہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ30 فیصد مصری خاندانوں کی کفالت خواتین کر رہی ہیں ،اس صورت میں حزب النور کیسے خواتین کی ملازمت کے خلاف ہو سکتی ہے؟
پھر اسلامی تاریخ جو ہمارے لیے ضابطۂ حیات ہے،ہمیں خواتین کے بارے میں وضاحت سے بتاتی ہے کہ دورِ نبوی میں صحابیات نےمختلف میدانوں میں کیسے اپنا کردار ادا کیا؟وہ مسلمانوں کے ساتھ غزوات میں شامل ہوتیں،زخمی مجاہدین کی مرہم پٹی کرتیں،اُنہیں پانی پلاتیں اور ان کی مدد کے لیے جوبھی بن پاتا، پوری تندہی سے وہ کرتیں۔
سوال:حزب النور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ صرف مسلمانوں تک محدود ہے،کیا یہ صحیح ہے؟
جواب:یہ حزب کے خلاف پرپیگنڈہ ہے جو زمینی حقائق کےیکسر منافی ہے۔امر واقعہ یہ کہ حزب کی تاسیس میں ہی پہلے روز سے کئی گروہ شامل تھے جن میں مسلمانوں کے علاوہ عیسائی لوگ بھی شامل تھے۔
حزب نے تمام مصری لوگوں کے لیے اپنےدروازے کھلے رکھے ہوئے ہیں،اس کے اہداف و مقاصد واضح ہیں جو اُن کے بارے میں جاننا چاہے وہ ہمارے پاس تشریف لائے، ہم کھلے دل سے خوش آمدید کہیں گے۔
سوال :سلفیوں کے بارے میں آپ کا کیا نقطہ نظر ہے؟
جواب:سلفی مصر کی ایک بڑی تعداد کے لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ حزب کےبانیوں میں سے بھی ہیں لیکن یہ رائے درست نہیں کہ حزب النور صرف سلفیوں تک محدود ہے بلکہ ہمارے دروازے جیسا کہ ہم نے پہلے کہا ،تمام مصریوں کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔
سوال:کیا حزب کی طرف سے یہ اعلان کہ ہم تمام معاملات شریعتِ اسلامیہ کےتحت ہی سرانجام دیں گے، اس سے مصری قبطی حزب میں شمولیت سے گریز نہیں کریں گے؟
جواب:نہیں بالکل نہیں ،اس لیے کہ شریعتِ اسلامیہ کے نفاذ سے مراد نیکی اور عدل وانصاف کی بات ہے۔ اور عدل وانصاف ہی قبطیوں کا ہدف ومقصود ہے جیسا کہ 6 مارچ 1985ء کو روزنامہ اہرام میں شائع ہونے والا 'باباے اقباط' بابا شنودہ کا یہ بیان اس کی تصدیق کرتا ہے کہ
''قبطی لوگ شریعت ِاسلامیہ کے حاکمیت تلے بہترین کیفیت اور انتہائی پرامن حالات سے محظوظ ہوئے۔ جب قبطیوں نے حکم خداوندی کو خود پہ اجتماعی طور نافذ کر لیا تو کیسے وہ معاشی طور پر مضبوط ہوئے اور کیسے ان کے ہاں مثالی امن قائم ہوا؟ اور ماضی میں بھی جب جب شریعت اسلامیہ اپنی اصل روح کے ساتھ نافذ کی گئی تو قبطی اس طرح مسرور ومطمئن زندگی گزارتے تھے۔ غیروں سے درآمدہ قوانین جب بھی ہم پر لاگو کئے گئے ہیں تو ہماری حالت بدتر ہوئی۔ ماضی کے ان تجربات سے ہم نے سیکھا ہے کہ غیروں کے قوانین کی بہ نسبت اسلام کے پرچم تلے ہمارا رہنا زیادہ امن وسکون کا باعث اور بدرجہا بہتر ہے۔ہم میں سے ہر باشعور شخص کویہ حقیقت جان لینی چاہئے۔کیونکہ مصر میں غیر ملکی قوانین ہی درآمد کیے گئے ہیں اور وہی قوانین اب تک ہم پر مسلط رہے ہیں۔حالانکہ ہمارے پاس اسلام کی صورت میں تفصیلی قوانین موجود ہیں تو کیونکر ہم اسلام کو چھوڑ کر غیر ملکی قوانین کو اپنانے پر راضی ہو جائیں؟''1
سوال:بعض لوگ اس پر تعجّب کرتے ہیں کہ حزب النوراچانک کہاں سے آگئی ہے، انقلاب سے پہلے یہ لوگ کہاں تھے؟
جواب:ہم لوگ انقلاب سے پہلے بھی لوگوں کے درمیان اِنہی شہروں اور محلوں میں رہائش پذیر تھے۔ ان دنوں ہم دعوتِ دین،لوگوں کی تربیت اور دیگر رفاہِ عامہ کے کاموں میں مشغول تھے۔نہ صرف انقلاب سےپہلے بلکہ یہ کام ہم دورانِ انقلاب بھی سر انجام دیتے رہے۔اس کے علاوہ انقلاب کےآغاز سے لے کر اختتام تک سلفی نوجوانوں نے اس جدو جہد میں فعّال کردار ادا کیا ۔خصوصاً لوگوں کو سیکورٹی اور تحفظ فرہم کرنے اورشرکاے انقلاب کو کھانے پینے کی اشیا مہیا کرنے میں اُن کا کردار مثالی تھا۔
سوال :آپ لوگ تو عمل سیاست کو ایک جرم خیال کرتے تھے ، اب پوری طاقت سے اس میں کیوں مشغول ہو گئے؟
جواب: سیاست کے میدان میں دراصل نظریہ اور اُس کا اطلاق دونوں پہلو پائے جاتے ہیں۔اُصولی اور نظریاتی طورپر ہم ہمیشہ سے بہترین منہج(سیاست شرعیہ )کے ہی حامل ہیں جو کہ آپ ﷺ کی سیرت اور دورِ خلافت سے لیا گیا ہے ،تاہم تر جیحی مفاسد و درپیش مصالح کے مطابق اجتہاد کا میدان کافی وسیع ہے۔
سوال:عوامی مجالس اکثر کی نظر میں کفریہ مجالس تھیں کیونکہ وہ شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتی تھیں، اب اُن میں کیا تبدیلی ہوئی ہے؟
جواب: 1996 ء میں عدالت کی طرف سے ایک مشہور فیصلہ سامنے آیا جس میں قرار دیا گیا تھا کہ مصری آئین کا آرٹیکل نمبر 2 تمام قوانین پر غالب ہو گایعنی وہ تمام قوانین جو شریعتِ اسلامیہ کے خلاف ہیں، کالعدم سمجھے جائیں گے۔ اب اس کلیدی تبدیلی کے بعد میدانِ سیاست میں سرگرم ہونا ہمارے لئے اُصولاًممکن ہوگیا ہے۔
سوال :منکرات کے خاتمے کے حوالے سے لوگ بہت بے چین ہیں، اُن کے خاتمے میں حزب النور کیا حکمتِ عملی اختیار کرے گی؟
جواب: جب تک کوئی متبا دل حکمت عملی سامنے نہیں آ جاتی، حزب النور منکرات کے خاتمے کے لیے'تدریج 'کی حکمتِ عملی سے آگے بڑھے گی۔ ۔وہ کسی ایسی حکمتِ عملی پر عمل پیرا نہیں ہو گی جس میں تشدد یا خوف کا پہلو پایا جاتا ہو ۔ ہم ہر طرح کی برائیوں کے انسداد کےلیے مصریوں کے مزاج کا خیال رکھیں گے ، اس لیے کہ شریعت اس دورانیہ میں اُن سے اوجھل نہیں ہوئی ہے ۔بہر صورت اصلاحات کرنے میں حزبُ النو ر کی حکمتِ عملی کا اصل الاصول 'تدریج ' ہو گا۔
اهل علم کے لئے خوش خبری
شیخ الحدیث مولانا عبدالمنان نورپوری کے سوانح حیات او رکارہاے نمایاں جاننے کے لئے جامعہ اسلامیہ سلفیہ (مسجد مکرم) ماڈل ٹاؤن، گوجرانوالہ سے شائع ہونے والے موقر مجلّہ 'المکرم' کی ایک ضخیم اشاعت شائع کی گئی ہے جس میں اس موضوع پر علماے کرام اور طلبہ علم کے متعدد مضامین شائع کئے گئے ہیں۔ المکرم کا شمارہ نمبر 13، بابت اپریل، مئی اور جون 2012ء اس حوالے سے تشنگی دور کرنے اور اُن کے محبان کی طرف سے ایک فرضِ کفایہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ جزاہم اللہ احسن الجزاء اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے ۔ آمین! ادارہ 'محدث'
اس حوالے سے مزيد تفصيلات كے لئے ملاحظہ کیجیے: ڈاکٹر عمر عبدالعزیز کی کتاب 'سماحۃ الاسلام'


 

حوالہ جات

1. اس حوالے سے مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ کیجیے: ڈاکٹر عمر عبدالعزیز کی کتاب’ سماحۃ الاسلام‘