اُمتِ اسلاميہ کو درپیش خطرات اور ہمارا فریضہ
روافض کے باطل نظریات کے خلاف مسجد ِنبویؐ سے بلند ہونے والی مجاہدانہ صدا
1979ء كے انقلابِ ايران كے بعد پہلی بار 1998ء میں ایران کے صدر ہاشمی رفسنجانی نے سعودی عرب کا تفصیلی دورہ کیا جس میں سعودی نظام حکومت سے لے کر، عرب معاشرے اور سعودی شہروں دیہاتوں کی مشاہدے وزیارتیں بھی شامل تھیں۔سعودی حکومت نے ایران سے مفاہمت ومقاربت کے لئے بازار سے شیعہ وروافض کے خلاف تمام لٹریچر اور کتب وکیسٹ غائب کروا دئیے۔ايرانی وفد جب مدینہ منورہ پہنچا تو اُمتِ اسلامیہ کے مایہ ناز فرزند اور سعودی خطبا ودعاة كے سرخیل، مسجدِ نبوی ؐ کے اما م وخطیب شیخ ڈاکٹر علی عبدالرحمن حذیفی، اُستاذ مدینہ یونیورسٹی نے دلائل وحقائق سے بھرپور ایمان افروز خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ یہ خطبہ جمعہ عین اس موقع پر ارشاد فرمایا گیا جب ایرانی صدر اپنے تمام رفقا کے ہمراہ مسجد نبوی میں موجود تھے۔ اس خطبہ میں ملتِ اسلامیہ کو درپیش عالمی سازشوں اور خطرات سے لے کر، مسلم حکمرانوں کے فرائض ،عوام کی ذمہ داریوں اور عالمی سیاست کے حساس پہلوؤں پر بڑے ہی بصیرت افروز انداز میں روشنی ڈالی گئی۔ اس خطبہ میں شیعہ کے باطل نظریات کو بھی کسی ملامت ومفاد کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے صراحت سے پیش کردیا گیا۔ اس مجاہدانہ خطبہ کی تاثیر دیکھتے ہوئے ایرانی صدر اور وفد نے دورانِ خطاب ہی مسجد نبوی سے نکلنا چاہا ،لیکن سیاسی مصالح کی بنا پر وہ صرف نمازِ جمعہ ہی علیحدہ پڑھنے پر قادر ہوسکے۔مسجدِ نبوی میں ہونے والے اس خطبہ کا دنیا بھر میں خوب چرچا ہوا، کچھ عرصہ کے لئے شیخ حذیفی﷾ کو خطابتِ مسجد نبویؐ کے باسعادت منصب سے بھی علیحدہ ہونا پڑا، لیکن ایک عالم باصفا نے اپنے دینی علم اورعمل کے تقاضوں کو بروئے کار لاتے ہوئے منبر نبویؐ کے فرض سے سرمو انحراف برداشت نہ کیا۔محدث کے اَوراق میں خطیب مسجد نبوی علیٰ صاحبہا افضل الصلوۃ والتسلیم کےدلیرانہ خطاب کا اُردو ترجمہ ہدیۂ قارئین ہے۔ ح م
الحمد ﷲ ربّ العالمین، والصلاة والسلام على المبعوث الأمین، سیدنا محمد وعلى آل بیته الطاهرین الطیبین، وعلىٰ صحابته الغر المیامین، ومن تبعهم بإ حسان إلى یوم الدین... أما بعد!
معزز مسلمانو! اﷲ کا تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ تقویٰ اختیار کرنے کا حق ہے اور اسلام کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور دل جمعی کے ساتھ اس پر ڈٹے رہو۔
فرزندانِ اسلام! انسان پر اﷲ کی عظیم الشان نعمتوں میں سے عظیم ترین نعمت دین حق سے سرشاری ہے۔ یہی وہ دین حق ہے جس کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے انسان کو کفر کے اندھیرے سے نجات دے کر ہدایت کے راستہ پر گامزن کیا ہے۔ ضلالت وگمراہی میں ٹامک ٹوئیاں مارنے سے بچا لیا ہے اور دین کی روشن اور تابناک راہ سے ہم کنار فرما کر حق کی بصیرت سے بہرہ ور فرمایا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿أَوَمَن كانَ مَيتًا فَأَحيَينـٰهُ وَجَعَلنا لَهُ نورًا يَمشى بِهِ فِى النّاسِ كَمَن مَثَلُهُ فِى الظُّلُمـٰتِ لَيسَ بِخارِجٍ مِنها....... ١٢٢ ﴾...... سورة الانعام
''اور کیا ایسا شخص جو پہلے مردہ تھا، پھر ہم نے اس کو زندہ کر دیا اور ہم نے اس کو ایسا نور دے دیا کہ وہ اس کو لیے ہوئے آدمیوں میں چلتا پھرتا ہے کیا اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے ؟جو تاریکیوں سے نکل ہی نہیں پاتا۔''
عظمتِ اسلام اور وحدتِ ادیان کا باطل نظریہ
اسلام ہی زمین وآسمان میں اﷲ کا پسندیدہ دین ہے اور یہی وہ دین ہے جسے اﷲ تعالیٰ نے اس دنیا کے اگلے اور پچھلے سب لوگوں کے لئے منتخب فرمایا۔لیکن ہر نبی کی شریعت اپنے سابق نبی سے جد ا گانہ حیثیت کی حامل ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ہر نبی کے لئے اس کی اُمت کے شایانِ شان شریعت عطا فرمائی ہے، جو اُس کی اُمت کے ماحول سے ہم آہنگ ہو ۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنی مشیت کے تحت جس شریعت کو چاہا منسوخ کردیا اور جس شریعت کو چاہا برقرا ر رکھا ۔ بالآخر سید البشر محمدﷺ کی بعثت کے بعد ساری شریعتوں کو اﷲ تعالیٰ نے منسوخ کر دیا ہے اوراﷲ تعالیٰ نے شریعتِ محمدی کے آجانے کے بعد تمام انسانوں اور جنوں کو اس کی اتباع کرنے اور اس پر ایمان لانے کا مکلّف ٹھہرا کر شریعتِ محمدی کو دوام بخش دیا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿قُل يـٰأَيُّهَا النّاسُ إِنّى رَسولُ اللَّهِ إِلَيكُم جَميعًا الَّذى لَهُ مُلكُ السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضِ لا إِلـٰهَ إِلّا هُوَ يُحيۦ وَيُميتُ فَـٔامِنوا بِاللَّهِ وَرَسولِهِ النَّبِىِّ الأُمِّىِّ الَّذى يُؤمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمـٰتِهِ وَاتَّبِعوهُ لَعَلَّكُم تَهتَدونَ ١٥٨ ﴾..... سورة الاعراف
''آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو!میں تم سب کی طرف اس اﷲ تعالیٰ کا بھیجا ہوا ہوں، جس کی بادشاہی تمام آسمانوں اور زمین میں ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہی زندگی اور موت دیتا ہے۔ سوا ﷲ تعالیٰ پر ایمان لاؤ اور اس کے نبی اُمّی پر جو اﷲ تعالیٰ پر اور اس کے احکام پر ایمان رکھتا ہے اور اس کی اتباع کرو تاکہ تم ہدایت پاؤ ۔''
حدیث نبویؐ ہے:
''قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر میرے بارے میں کسی یہودی یا کسی نصرانی کو پتہ چل جائے اور اس کے باوجود وہ مجھ پر ایمان نہ لائے تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔''
چنانچہ اب ہر شخص کے لئے شریعتِ محمدی پر ایمان لانا واجب ہے اور جو شخص محمدﷺ پر ایمان نہ لائے تو اس کا ٹھکانہ جہنم کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ کیونکہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام کے علاوہ کوئی اور دین قابل قبول نہیں۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّ الدّينَ عِندَ اللَّهِ الإِسلـٰمُ..... ١٩ ﴾.... سورة آل عمران
''بلاشبہ اﷲ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے۔''
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَن يَبتَغِ غَيرَ الإِسلـٰمِ دينًا فَلَن يُقبَلَ مِنهُ وَهُوَ فِى الءاخِرَةِ مِنَ الخـٰسِرينَ ٨٥ ﴾..... سورة آل عمران
'' اور جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے تو اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا۔''
اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی محمدﷺ کو افضل ترین شریعت اور کامل ترین دین دے کر مبعوث فرمایا۔ یہ دین تمام انبیاء ورسل علیہم السلام کی بعثت ورسالت کا لبِ لباب اور نچوڑ ہے۔ آپﷺسے پہلے جتنے انبیاء ورسل آئے، ان سب کی دعوت کا مقصد یہی تھا جس کی ذمہ داری دے کر آپﷺ کو مبعوث فرمایا گیا ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿اللَّهُ يَجتَبى إِلَيهِ مَن يَشاءُ وَيَهدى إِلَيهِ مَن يُنيبُ ١٣ ﴾..... سورة شورىٰ
''اﷲ تعالیٰ جسے چاہتا ہے، اپنا برگزیدہ بناتا ہے اور جو بھی اس کی طرف رجوع کرے اﷲ اسے ہدایت دیتا ہے۔''
یہودیوں اور نصرانیوں کے پادریوں کو بخوبی علم ہے کہ دین محمدی مبنی برحق دین ہے لیکن وہ لوگ محض حسد اور تکبر کی وجہ سے اس کی اتباع نہیں کرتے اور دنیا کی چاہت اور نفسانی شہوات بھی اُن کے لئے دین محمدی قبول کرنے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ یہود ونصاریٰ کا موجودہ دین اصل دین نہیں ہے بلکہ اُنہوں نے نبی کریمﷺکی بعثت سے پہلے ہی اپنی کتاب میں تحریف کرکے اپنے دین کو بدل ڈالا تھا۔ لہٰذا اس وقت وہ اپنے اصل دین پر قائم نہیں ہیں بلکہ گمراہی ، کجروی اور کفر و عناد پر قائم ودائم ہیں۔
آج ایک مسلمان اور کلمہ گوکی حیثیت سے ہمارے لئے بڑے ہی شرم اور انتہائی عار کی بات ہے کہ ہم تمام ادیان و فرق میں یکسانیت ویگانگ کا نعرہ لگائیں اور دوسری طرف اہل سنت والجماعت اور شیعوں(روافض)کے مابین قربت ویگانگ کا راستہ ہموار کرنے کا بہانہ تلاش کریں۔ اس مذموم فکر کے حامل بعض ایسے مفکر ین اور آزاد خیال لوگ ہیں جن کو عقیدہ دینیہ اور اساسیاتِ اسلامیہ سے دور دور تک کا واسطہ نہیں بلکہ وہ اس کے واقف بھی نہیں ہیں۔ عصر حاضر میں اس سے بھی خطر ناک بات یہ ہے کہ عقلی تکابازی نے دینی رنگ اختیار کر لیا ہے اور مصالح دنیویہ کو دینی رنگ دے دیا گیا ہے۔اسلام تو یہود و نصاریٰ کو علیٰ الاعلان اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچا لیں اور جنت میں داخل ہونے کے لئے تیار کریں، دین اسلام کو گلے لگا لیں اور باطل کا چولہ اُتار کر پھینک دیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿قُل يـٰأَهلَ الكِتـٰبِ تَعالَوا إِلىٰ كَلِمَةٍ سَواءٍ بَينَنا وَبَينَكُم أَلّا نَعبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلا نُشرِكَ بِهِ شَيـًٔا وَلا يَتَّخِذَ بَعضُنا بَعضًا أَربابًا مِن دونِ اللَّهِ فَإِن تَوَلَّوا فَقولُوا اشهَدوا بِأَنّا مُسلِمونَ ٦٤ ﴾ ...... سورة آل عمران
''آپ فرما دیجئے کہ اے اہل کتاب !ایسی انصاف والی بات کی طرف آؤ جو ہم میں اور تم میں برابر ہے کہ ہم اﷲ تعالیٰ کے سو ا کسی کی عبادت نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور نہ اﷲ تعالیٰ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ربّ بنائیں۔ پس اگر وہ منہ پھیر لیں تو تم ان سے کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلمان ہیں۔''
اسلام یہود ونصاریٰ کو امن کے سلسلے میں احکامات کے سلسلہ میں مجبور نہیں کرتا اور ان کو ان کے دین سے دست برداری کے لئے اُن کے ساتھ سختی کرتا ہے نہ ان کے اسلام قبول کرنے کے لئے کوئی جبری اقدام کرتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کے تشدد کا اسلام قائل ہے۔ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿لا إِكراهَ فِى الدّينِ قَد تَبَيَّنَ الرُّشدُ مِنَ الغَىِّ.... ٢٥٦﴾ ..... سورة البقرة
''دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں۔ بلاشبہ ہدایت کجروی سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہیں۔''
تو پتہ یہ چلا کہ دین اسلام ہی اصل دین ہے اور یہود و نصاریٰ کا دین باطل ہے ۔ اسلام نے اس بات کا اعلان اس لئے کیا ہے تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ دین محمدی ہی لوگوں کے لئے نجات کا ذریعہ ہے۔ یہ بات دین اسلام کی زندہ دلی، فیاضی اور انسانیت کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کی جیتی جاگتی تصویر ہے تاکہ جو ایمان لانا چاہے، وہ برضا ورغبت ایمان کے دائرے میں داخل ہوجائے اور جو ایمان نہ لانا چاہے، اسے کون دائرۂ ایمان میں داخل کرسکتا ہے؟
اگر یہود و نصاریٰ اور مشرکین اسلام قبول کر لیں تو اسلام کا دامن رحمت اور اس کی آغوش فطرت کی بے پناہ کشادگی اُن کے لئے کافی وشافی ہوجائے گی اور دین اسلام کے دائرے میں داخل ہوتے ہی وہ مسلمانوں کے بھائی بن کر ان کی ہمدردی اور بھائی چارگی کے مستحق قرار پاجائیں گے کیونکہ اسلام کے اندر تعصب اور عناد نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اﷲتعالیٰ نے مسلمانوں کے درمیان تعصب اور قومیت کی جڑ کاٹتے ہوئے دوٹوک انداز میں اعلان فرمادیا ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا النّاسُ إِنّا خَلَقنـٰكُم مِن ذَكَرٍ وَأُنثىٰ وَجَعَلنـٰكُم شُعوبًا وَقَبائِلَ لِتَعارَفوا إِنَّ أَكرَمَكُم عِندَ اللَّهِ أَتقىٰكُم ...... ١٣ ﴾ ......سورة الحجرات
''اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد وعورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو اقوام اور قبائل میں اس لئے تقسیم کر دیا ہے کہ تم لوگ آپ میں ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ اﷲ کے نزدیک تم سب میں باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہو۔''
تاریخ اسلام اس بات کی گواہ ہے کہ اسلام میں کسی قسم کا تعصّب اور تنگ نظری نہیں پائی جاتی اور جہاں تک تمام ادیان میں قربت اور ہم آہنگی کا معاملہ ہے تو یہ بات اسلام کے لئے کامل طور پر بعید از قیاس ہے کہ وہ یہودیت اور نصرانیت سے قربت اور نزدیکی کی بات کرے بلکہ اس بات کا تصور بھی محال ہے چہ جائیکہ وحدتِ ادیان کی بات کی جائے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَما يَستَوِى الأَعمىٰ وَالبَصيرُ ١٩ وَلَا الظُّلُمـٰتُ وَلَا النّورُ ٢٠ وَلَا الظِّلُّ وَلَا الحَرورُ ٢١ وَما يَستَوِى الأَحياءُ وَلَا الأَموٰتُ إِنَّ اللَّهَ يُسمِعُ مَن يَشاءُ وَما أَنتَ بِمُسمِعٍ مَن فِى القُبورِ ٢٢ ﴾ ...... سورة فاطر
''اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں اور نہ تاریکی اور روشنی ہی برابر ہو سکتی ہے اور نہ چھاؤں اور دھوپ میں کوئی تناسب ہے اور نہ ہی زندہ اور مردہ ایک جیسے ہو سکتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ جسے چاہتا ہے سنا دیتا ہے مگر آپ ان لوگوں کو سنا نہیں سکتے جو قبروں میں ہیں۔''
جہاں تک مسلمانوں کی یہودیوں اور نصرانیوں سے ہم آہنگی کی بات ہے، بایں طور کہ مسلمان اپنے بعض شعائر دینی اور کچھ احکاماتِ شرعی سے دستبردار ہوجائیں اور اپنے دین اسلام کی فرماں برداری میں تساہل سے کام لیں یا یہودیوں ونصرانیوں سے مودت و رحمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یا بعض احکاماتِ دینیہ کی فرمانبرداری اور اتباع سے گریز کرتے ہوئے چشم پوشی کی راہ اختیار کریں تو ہمارا دعویٰ ہے کہ ایک سچے اور پکے مسلمان کا ضمیر یہ بات گوارا کرنے کے لئے ہر گز ہرگز تیار نہ ہوگا اور ایسا شخص اس طرح کا اقدام کرنے سے پہلے اپنے نفس کی لعنت و ملامت کا شکار ہوجائے گا۔ ہاں ان تمام حقائق کے باوجود ایک مسلمان کو اس کا دین اس بات کی کسی صورت میں اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی دوسری قوم کے لوگوں پر ظلم روارکھے یا اُن پر بے جا زیادتی کرے بلکہ شریعتِ اسلامیہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی عدل وانصاف سے پیش آنے کا درس دیتی ہے۔ دین اسلام کی طرف سے مسلمانوں کو اس بات کا مکلّف قرار دیا گیا ہے کہ وہ حق کی حمایت کریں اور اس کی مدافعت وحمایت میں سینہ سپر ہو جائیں اور باطل کے خلاف خم ٹھونک کرمیدان میں اُترپڑیں اور اس کا قلع قمع کرکے ہی دم لیں اور جب تک باطل پسپا نہ ہوجائے، اس وقت تک چین کا سانس نہ لیں۔
جہاں تک تمام کے تمام ادیان ومذاہب میں ہم آہنگی ویکسانیت کا معاملہ ہے اس سلسلہ میں ہم بحیثیتِ مسلمان یہ بات کہنے کے حقدار ہیں کہ اس قسم کی تحریک ، دین اسلام اور تعلیماتِ اسلامیہ کے منافی عمل ہے جس کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس قسم کی دعوت فتنہ وفساد اور انسانیت کے زوال کا پیش خیمہ ہے ۔ اس سے بہت بڑے فتنہ کی رونمائی کا اندیشہ ہے اور ایسا اقدام عقیدۂ اسلامی میں بگاڑپیدا کرنے اور ایمان کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے مترادف ہے۔ اﷲ کے دشمنوں سے راہ ورسم ہموار کرنا اور ان کے لئے موالات ومساوات کی دعوت دینا ہے۔ حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے مؤمنین کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ وہ صرف آپس میں راہ ورسم اور اخوت ومحبت کا رشتہ بحال رکھیں۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَالمُؤمِنونَ وَالمُؤمِنـٰتُ بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ.... ٧١ ﴾..... سورة التوبة
''مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ومعاون اور دوست ہیں۔''
یہود کی حقیقت
اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس بات سے باخبر کردیا ہے کہ کفار آپس میں ایک دوسرے کے معاون اور مددگارہیں۔ چاہے وہ کسی بھی مذہب سے منسلک ہوں اور چاہے وہ کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہوں۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذُوا اليَهودَ وَالنَّصـٰرىٰ أَولِياءَ بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ ...... ٥١ ﴾...... سورة المائدة
'' اے ایمان والو! تم یہود ونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔یہ تو آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔''
اگر ہم یہ کہیں تو ہم حق بجانب ہوں گے کہ اسلام اور یہودیت کے درمیان کسی بنیاد پر بھی ہم آہنگی اور یکسانیت کی صورت پیدا نہیں ہو سکتی کیونکہ اسلام اپنی پاکیزگی، رعنائی، روشنی، انصاف پسندی، اپنے عفوودرگذر، فیاضی ، نرمی ، ہمہ گیری، اپنے اخلاق کی بلندی اور اِنس و جن میں سے ہر ایک کے لئے اپنی عمومیت اور آفاقیت میں اپنی مثال آپ ہے جب کہ یہود کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی قومیت پرستی، مذہبی تعصب، تنگ نظری، اور تمام انسانیت سے اپنے بغض وحسد، کینہ و کدورت، اخلاقی انحطاط، گمراہی ، کجروی ، اپنی بخیلی اور ہوس پرستی میں منفرد حیثیت کے مالک ہیں۔ چنانچہ ایک مسلمان مریم علیہا السلام جیسی صدیقہ ،عابدہ اور زاہدہ ،پاکیزہ اور ستودہ صفات عورت پر کس طرح تہمت طرازی کرنے کی جرات کرسکتا ہے؟ جبکہ یہودیوں کی بیباکی اور جرات کا اس بات سے اندازہ لگایا سکتا ہے کہ وہ حضرت مریم علیہا السلام پر (نعوذ باﷲ) زنا کی تہمت لگاتے ہیں۔یہی نہیں بلکہ یہود تو حضرت عیسیٰ کو ولد الزنا قرار دیتے ہیں۔ مسلمان اس قسم کی تہمت طرازی اور بہتان بازی کو کیوں کر برداشت کرسکتے ہیں؟
یہ بات کیوں کر ممکن ہو سکتی ہے کہ قرآن کریم جو کہ حقیقت میں کلام اﷲ ہے، اس میں اور شیطانی پٹارے تلمود میں برابری اور یکسانیت روا رکھتے ہوئے دونوں کو ہم پلّہ تصور کیا جائے۔ ایسا کسی صورت میں بھی ممکن نہیں اور ایسا ہرگز ہرگز نہیں ہو سکتا کہ تلمود اور قرآن میں فرق نہ کیا جائے۔مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان کس بنیاد پر ہم آہنگی اور قربت ہو سکتی ہے اور کیونکر یہ دونوں مذاہب یکسا ں اور یکجا ہو سکتے ہیں؟
عیسائیت کی حقیقت
اسلام تو دین توحید ہے اور نہایت ہی صاف وشفاف عقیدے کا حامل ہے۔ اس کی شریعت کا مل و مکمل ہے۔ دین اسلام رحم پروری، فیاضی ، عفودرگذر، عدل و انصاف روا رکھنے والا دین الٰہی ہے جب کہ عیسائیت ایسا دین ہے جس کے اُصول ومبادی میں سے یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ اﷲ کے بیٹے ہیں یا وہ خود اﷲ ہیں یا وہ باپ اور روح القدس میں سے ایک ہیں، یعنی ان تینوں میں سے ایک ہیں۔ کیا عقل سلیم اس بات کو قبول کرسکتی ہے کہ کسی معبود اور بندے کے درمیان رشتہ قرابت ہو؟
کیا یہ بات تصور کی جاسکتی ہے کہ کوئی معبود کھا تا پیتا ہو یا گدھے کی سواری کرکے سفر طے کرتا ہو اور سوتا ہو اور اسے بول وبراز کی بھی حاجت پیش آتی ہو؟ اگر ایسا ہے تو پھر وہ کس قسم کا معبود ہے؟ جس کو اس طرح کے عوارض لاحق ہوتے ہیں۔
لہٰذا کس بنیاد پر اسلام اور اس گمراہ قسم کی نصرانیت کے درمیان ہم آہنگی کی صورت نکالی جاسکتی ہے اور کس بنیاد پر دونوں کے درمیان یکسانیت اور مساوات کا نعرہ لگا یا جا سکتا ہے کیونکہ دین اسلام حضرت عیسیٰ کی عزت اور تعظیم کرتے ہوئے یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ حضرت عیسیٰ اﷲ کے بندے اور اس کے رسولوں میں سے برگزیدہ اور افضل ترین رسول ہیں۔ علیہ الصلاة واتم التسلیم!
شیعہ روافض کے ساتھ تقرب؟
ہم کہتے ہیں کہ اہل سنت والجماعت اور شیعوں میں کس بنیاد پر یکسانیت اور تقرب ہو سکتا ہے ؟ کہاں دین اسلام کا آفاقی نظامِ حیات اور کہاں شیعوں کا تنگ نظر اور تعصب وبد زبانی کی آلودگی میں ڈوبا ہوا نظام زندگی...؟
اہل سنت والجماعت سے منسلک وہ لوگ ہیں جو حاملین قرآن کریم اور متبعین سنتِ رسول مبین ہیں ، اﷲ تعالیٰ نے اُن کو اپنے دین اسلامی اور شریعتِ سماوی کا محافظ ونگہبان بنایا ہے لہٰذا اُنہوں نے دین کی بھر پور آبیاری کی ۔ یہی نہیں بلکہ دین کی حفاظت، ناموسِ رسالت کی پاسبانی اور اعلائے کلمتہ اﷲ کی خاطر اُنہوں نے جانوں کے نذرانے تک پیش کرنے سے دریغ نہیں کیا اور یوں اُنہوں نے تاریخ دعوت وعزیمت کے باب میں ایک سنہرے باب کا اضافہ کیا ہے۔
اس کے برعکس روافض وہ لوگ ہیں جو صحابہ کرام کو گالی دیتے ہیں، اُن پر لعنت ملامت روار رکھتے ہیں، ان کو برُا بھلا کہتے ہیں اور اسلام کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے پر بضد ہیں۔ یہ انہی صحابہ کرام پر لعن طعن کرتے ہیں اور اُن پر جملے کستے ہیں جنہوں نے اس دین کی بحسن وخوبی آبیاری کرکے اسے ہم لوگوں تک پہنچایا ہے۔ اگر کسی نے صحابہ کرام میں سے کسی ایک صحابی کی شخصیت کو داغدار کرنے کی کوشش کی تو گویا کہ اس نے پورے اسلامی سرمایہ کو نیست ونابود کرکے رکھ دیا اور اس کی وجہ سے عمارتِ اسلامیہ گویا کہ زمیں بوس ہوگئی۔
اسی لئے ہمارا سوال ہے کہ اہل سنت والجماعت اور رافضیوں کے درمیان کس بنیاد پریک جہتی اور پیار ومحبت کا معاملہ طے پاسکتا ہے؟کیونکہ روافض خلفاے ثلاثہ کو برا بھلا کہتے ہیں اُنہیں گالی گلوچ تک کرنے سے بھی باز نہیں رہتے۔ اگر وہ ذرا عقل وخرد سے کام لیں تو ان کو اس حرکت کے انجام کا پتہ چل جائے مگر وہ لوگ اس سلسلہ میں﴿صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْىٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ﴾ کا مصداق ہیں کہ ان کو عقل ودانش سے واسطہ ہی نہیں ہے، ورنہ ان کو ایسا کرتے ہوئے پس وپیش محسوس ہوتا کیونکہ صحابہ کرام کو برا بھلا کہنا اور اُن کو گالی گلوچ کا نشانہ بنانا گو یا رسول اللہﷺ پر براہ راست لعن طعن کرنا ہے، کیونکہ حضرت ابوبکر اور عمر رضی اﷲ عنہما سے رسول اللہﷺ کا رشتۂ قرابت ہے۔ دونوں نبی کریم ﷺ کے سسر ہیں ،دونوں آپ ﷺ کے لئے وزیر کی حیثیت رکھتے ہیں اور دونوں زندگی میں بھی آپﷺ کے لئے ممدومعاون تھے اور موت کے بعد بھی آپﷺکے جوار میں آرام فرما ہیں۔ گویا یہ حضرات موت و حیات دونوں میں آپ ﷺکی رفاقت اور مصاحبت سے مشرف ہیں۔ کون ہے جس کو یہ شرف اور مقام حاصل ہے؟ مزید برآں ان لوگوں نے نبی کریمﷺ کی مصاحبت میں تمام غزوات میں حصہ لیا ہے۔ ہمارے خیال میں عقیدۂ رفض کے بطلان کے لئے یہی ایک دلیل کافی ہے اور مزید دلائل پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔
حضرت عثمان رسول اﷲﷺکے چہیتے داماد ہیں۔ نبی کریمﷺ کی دوبیٹیاں آپ سے منسوب ہیں اور آپ کو پتہ ہونا چاہئے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب کی مصاحبت کے لئے افضل ترین لوگوں کا انتخاب ہی فرمایا تھا۔ اگر ایسا ہی ہے جیسا کہ رافضیوں کا عقیدہ ہے تو نبی کریمﷺ نے خلفائے ثلاثہ کے بارے میں اسلام دشمنی کا پردہ فاش کیوں نہیں کیا؟ اور اس قضیہ سے لوگوں کو متنبہ کیوں نہیں فرمایا؟ خلفائے ثلاثہ پر لعن طعن اور ان کو گالی گلوچ کا نشانہ بنانے سے سیدنا علی کی ذات بھی لعن طعن کی زد میں آتی ہے کیونکہ سیدناعلی نے ابوبکر صدیق کے ہاتھ پر پوری رضامندی سے مسجدِ نبوی میں بیعت خلافت کی، حضرت عمر کو حضرت علی نے اپنی بیٹی اُمّ کلثوم رضی اﷲ عنہا کا رشتہ دیا اور حضرت علی نے حضرت عثمان کے ہاتھوں پربیعتِ خلافت کی اور آپ دورِ خلافت میں ان کے وزیر و مشیر کی حیثیت سے ساتھ دیتے رہے۔
ہم کہتے ہیں کہ رافضیوں کے اعتقاد کے مطابق کیا حضرت علی کی ذات سے یہ اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کسی کا فر کو دیں؟ اور کیا یہ بات باور کی جاسکتی ہے کہ حضرت علی کسی مرتد اور کافر کے ہاتھ پر بر ضا ورغبت بیعت ِخلافت کریں؟ سبحانك هذا بهتا ن عظیم
سیدنا معاویہ کو لعنت وملامت کرنا، سیدنا حسن کی ذات کو داغ دار کرنا ہے جنہوں نے حضرت معاویہ کے لئے محض اﷲ کی رضا وخوشنودی کی خاطر خلافت سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا اور جس میں توفیق الٰہی آپ کی ہم رکاب تھی اور نبی کریم ﷺ نے اس بات کی پیشین گوئی فرما کر اپنی زندگی ہی میں آپ کی دل جوئی فرما دی تھی۔ کیا نواسۂ رسول کسی کافر کے لئے بیعت کا جواز فراہم کرتے ہوئے اپنی خلافت سے دست برداری کا اعلان کرے گا؟... سبحانك هذا بهتا ن عظیم!
مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ رافضی اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا پر کس منہ سے لعنت ملامت کرتے ہیں؟ حضرت عائشہ ؓ کی شخصیت تو وہ شخصیت ہے جس کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتابِ کریم میں اُمّ المؤمنین کے زندہ وجاوید خطاب سے نوازا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿النَّبِىُّ أَولىٰ بِالمُؤمِنينَ مِن أَنفُسِهِم وَأَزوٰجُهُ أُمَّهـٰتُهُم ....... ٦ ﴾....... سورة الاحزاب
''پیغمبر مؤمنوں پر خود ان کے نفسوں سے زیادہ حق رکھنے والے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں مؤمنوں کی مائیں ہیں۔''
میں حیرت اور استعجاب میں یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اہل سنت والجماعت اور رافضیوں کے درمیان کس طرح اتحاد ہو سکتا ہے؟ جبکہ رافضی لوگ امام خمینی کو معصوم قرار دیتے ہیں اور وہ لوگ اپنے باطل عقیدہ کے مطابق اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ان کے امام خمینی ، نائبِ امام مہدی ہیں اور آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ امام مہدی ان کے یہاں ایک خیالی شخصیت ہیں۔ امام مہدی کے بارے میں رافضیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ 'سامراء 'کی سرنگ میں روپوش ہوگئے ہیں۔ اب ان کے نائب موجود ہیں اور نائب اصل کے قائم مقام ہوتا ہے، لہٰذا اگر شیعہ کے زعم کے مطابق امام مہدی معصوم ہیں تو خمینی بھی معصوم ہوئے کیونکہ وہ اُن کے نائب ہیں اور نائب اصل کا قائم مقام ہوتا ہے۔
یہ کیسا تضاد ہے کہ رافضی اپنے فقیہ کی ولایت کا عقیدہ رکھتے ہیں؟ اگر ان کا عقیدہ یہ ہے تو اُنہوں نے اپنے اس قول کی وجہ سے اپنے مذہب کی گویا اینٹ سے اینٹ بجادی ہے اور اپنے مذہب کی دیوار گرا کر اسے غیر محفوظ کردیا ہے کیونکہ باطل ، باطل کوشہ دے کر اسے کیفر کردار تک پہنچا دیتا ہے۔ اور باطل ، باطل سے ہی پروان چڑھ کر برگ وبار لاتا ہے اور پھر اس سے بہت سے اشکالات رونما ہوتے ہیں۔ نتیجتاً ایک دوسرے کا ٹکراؤ ہونا شروع ہوجاتا ہے اور چنگاری سلگتے سلگتے دہکتا ہوا انگارہ بن جاتی ہے اور شعلہ بن کر پورے کے پورے خرمن کو نیست ونابود کر دیتی ہے۔لہٰذا ہم یہاں پر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اہل بیت شیعہ کی دروغ گوئیوں اور تہمت طرازیوں سے بری الذمہ ہیں اور روافض کے مذہبِ باطلہ کے بطلان میں شرعاً وعقلاًدلائل وبراہین کی بہتات ہے جن کو مختصر وقت میں گنوانا بڑا دشوار اور مشقت کن معاملہ ہے۔ اسلئے ہماری رافضیوں کی خدمت میں یہی دعوت ہے کہ وہ پورے کے پورے دین اسلام میں داخل ہو جائیں۔
اہل السنّۃ والجماعۃ کا جہاں تک تعلق ہے تو ہمار ا رافضیوں سے دور دور کا بھی کوئی رشتہ نہیں ہے اور ہم ان سے ذرہ برابر قریب بھی ہونا نہیں چاہتے بلکہ اگر اس سے بھی کم پیمانہ ہو تو ہم اس کے برابر بھی ان سے ہم آہنگی اور نزدیکی کے خواہاں نہیں ہیں کیونکہ رافضی یہود و نصاریٰ سے بھی بڑھ کر دین اسلام کے لئے ضرر رساں ہیں اور ہم بحیثیتِ مسلمان ان پر ذرہ برابر بھی بھروسہ نہیں کر سکتے اور مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ ان کو محتاط انداز میں دیکھا کریں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿هُمُ العَدُوُّ فَاحذَرهُم قـٰتَلَهُمُ اللَّهُ أَنّىٰ يُؤفَكونَ ٤ ﴾ ..... سورة المنافقون
''یہی حقیقی دشمن ہیں۔ ان سے بچو اور احتیاط بر تو، اﷲ تعالیٰ اُنہیں غارت کرے۔ یہ کہاں بہکائے جاتے ہیں۔''
شیعہ روافض کا نسب نامہ عبد اﷲ بن سبایہودی سے جا کر مل جاتا ہے اور ابولؤلؤ مجوسی کا ان کے بانیوں میں شمار ہوتا ہے۔لہٰذا مسلمانوں سے ہماری گزارش ہے کہ عقائد وسلوک کے میدان میں اُن کی امتیازی شان ہونی چاہئے کہ انہیں وہی بات پسند آئے جس میں اﷲ کی خوشنودی اوررضا پنہاں ہو اور اُنہیں وہی چیز مبغوض ہو جس سے اﷲ کی ناپسندیدگی اور ناراضی لازم آتی ہو،لہٰذا مسلمانوں کے مسلمان ممدومعاون بن جائیں اور باہم شیروشکر ہو کر متحد ومتفق ہوجائیں اور یدواحد کی طرح باہم مل جائیں کیونکہ مسلمانوں کے دشمن یا اعداے اسلام عصر قدیم اور عصر جدید دونوں میں اپنے عقائد اور دین کے معاملہ میں مسلمانوں سے دشمنی میں ید واحد کی طرح باہم متحد ومتفق تھے، ہیں اوررہیں گے،اگر چہ آپس میں ان کا کتنا ہی شدید اختلاف کیوں نہ ہو؟ مگر جب اسلام کے خلاف کوئی مہم چلانی ہوگی اس میں وہ اپنے شدید اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر یک آواز ہوجاتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَن تَرضىٰ عَنكَ اليَهودُ وَلَا النَّصـٰرىٰ حَتّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُم ..... ١٢٠ ﴾ ...... سورة البقرة
'' اور آپ سے یہود و نصاریٰ ہرگز ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ ان کے مذہب کے تابع نہ بن جائیں۔''
اسلام کے خلاف کفار کا حسد وبغض
فلسطین میں صیہونی(یہودی) حکومت کی داغ بیل ہی اسلام کے خلاف محاذ آرائی اور اس اسلامی خطہ میں امن وامان کو غیر مستحکم کرنے کی غرض سے ڈالی گئی ہے تاکہ اس علاقہ کا امن وامان غارت ہو کر بے چینی اور بدامنی کی فضا قائم ہو جائے۔ اس سے عالم اسلام پر مغرب کے استعمار یا اس کی نوآبادیاتی نظام نے براہ راست عقائد ونظریات پر اور مسلمانوں کے معاشرتی وسماجی ماحول پر منفی اثرات چھوڑے ہیں جس کی ضرور رسانی کا مسلمان ابھی تک مزہ چکھ رہے ہیں۔ ان ضرر رساں امراض میں سے ایک مرض یہ بھی ہے کہ عالم اسلامی سے اسلامی عدالتوں کا صفایا ہوگیا ہے اور انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین نے اس کی جگہ لے لی ہے اور اسلامی عدالتوں کی جگہ کورٹس اور ہائی کورٹس قائم کردئیے گئے ہیں۔ لیکن الحمد ﷲ مملکت سعودی عرب ابھی تک اس بری بلا سے محفوظ ومامون ہے یہی وہ واحدملک ہے جس میں اسلامی عدالتی نظام قائم ہے اور یہی وہ ملک ہے جہاں اسلامی قانون کو بالا دستی حاصل ہے ۔ جہاں شرعی اعتبار سے فیصلے صادر ہوتے ہیں اور یہی وہ ملک ہے جہاں عقیدۂ توحید کا پرچم لہرا رہا ہے اور قال اﷲ وقال الرسول کا فلک بوس نعرہ بلند ہو رہا ہے!!
عصر حاضر میں یہود ونصاریٰ نے مل کر اجتماعی طور پر اس اسلامی خطہ (جزیرہ عرب) کے لئے پیہم مشکلات اور مصائب پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور خلیجی اسلامی ممالک کو جنگی چھاؤنیوں میں تبدیل کرنا شروع کردیا ہے۔ اس کا سبب وہ فوجی انقلاب ہیں جس کے خطرے سے یہ علاقہ دوچار ہے جومختلف ناموں سے گاہے بگاہے رونما ہوتے رہتے ہیں کبھی تو یہ 'ذوالبعث ' کے نام سے جنم لیتا ہے اور کبھی قومیت ووطنیت کے نام سے تو کبھی ' اشتراکیت'کے نام سے اس کو منظر عام پر لایا جاتا ہے۔ ان پارٹیوں سے اسلام کا ذرہ برابر تعلق نہیں ہے بلکہ اس سے بھی کم کوئی پیمانہ ہو تو میں کہوں گا کہ اس کے برابر بھی اس کا اسلام سے واسطہ نہیں۔ صدام حسین بھی انہی باطل نظریات کی پیداوار ہے۔
اس طرح دین اسلام اور علوم نبویہ کی بیخ کنی کی گئی تاکہ اسلامی قوانین کی بالادستی کو ختم کرکے ان قوانین وضعیہ کو مسلمانوں کے سرتھوپ دیا جائے۔ مسلمانوں کا استحصال کیاگیا اور حق کی آواز کو دبانے اور اس کے نورانی چراغ کو ناتواں پھونکوں سے بجھانے کو کوشش کی گئی۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کا امیر طبقہ مغربی ممالک میں سکونت پذیر ہوگیا اور وہ ممالک کمزوری کا شکار ہو گئے جہاں انقلابات آئے اور فوجی چڑھائی ہوئی اور ان میں سے جو اُمت بھی تخت نشین ہوئی ، اس نے اپنے سلف پر خوب لعنت وملامت کی۔ اس نظام کی اثر پذیری کا ثمرہ ہے کہ ابھی تک بعض عرب ممالک جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کو ایسے سنگین جرم سے تعبیر کرتے ہیں جو قابل سرزنش اور لائق عقاب ہے۔فلاحول ولا قوة إلا باﷲ!
ہم کہتے ہیں کہ کہاں گئی باہمی ہمدردی اور دعوت و عزیمت کے بلند وبانگ دعوے اور کہاں رہ گئی عزت و کرامت کی قیمتی چادر؟
چنانچہ جب سپر پاور ملکوں کے لئے اسباب مہیا ہو گئے تو وہ ظاہری طور پر فوجی دخل اندازی کے لئے کوشاں نظر آنے لگے کیونکہ اقتصادی طور پر تو اُنہیں پہلے ہی سے بالا دستی حاصل تھی۔ اس لئے مغربی ممالک کی نیتیں خراب ہونے لگیں اور اُن کا فتور اپنی انتہا کو پہنچ گیا حتیٰ کہ وہ اپنی بدنیتی کی وجہ سے اس بات کے خواہاں نظر آنے لگے کہ پہلے تو ان خلیجی ممالک کے پورے خطہ کو بدامنی اور انتشار کی آماج گاہ بنادیا جائے پھر اُنہیں چھوٹے چھوٹے حصو ں میں تقسیم کرکے آپس میں دست و گریباں کر دیا جائے تاکہ یہ اپنی ساری توانائی اسی کشمکش کی نذر کردیں اور اسی دینی اور اعتقادی دشمنی کا نتیجہ ہے کہ سپر پاور ممالک حرمین شریفین کی محافظ سعودی حکومت کے خلاف کمر بستہ نظر آتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس ملک کو عزوشرف کا گہوارہ بنادے اور اس کی عظمت اور شان کو دوبالا کردے اور اس کی شہرت میں چار چاند لگا دے۔کیونکہ یہی وہ مملکت ہے جو موجودہ دور میں اسلام کا قلعہ اور مسلمانوں کے لئے جائے پناہ ہے۔
اس لئے مغربی ممالک میں سے امریکہ اور برطانیہ اور ان کے حواریوں کی کوشش ہے کہ اس عظیم ملک کو تباہ وبرباد کردیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ ممالک، اس ملک کی سلامتی کو ملیامیٹ کرنے کے لئے رات دن کوشاں ہیں اور نہ صرف اس ملک کوبرباد کرکے اس پر قابض ہونے کے درپے ہیں بلکہ تمام سپر پاور ممالک اور ساری کی ساری کافر دنیا، اسلام اور مسلمانوں کے کھلے دشمن ہیں اور اسلام کے خلاف بیک آواز صف بستہ کھڑے، اسلام اور مسلمانوں کو کھلم کھلا دعوتِ مبارزت دے رہے ہیں۔لہٰذا ان ممالک میں سے کسی ملک پر بھی کسی صورت میں بھی بھر وسہ اور اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ مملکتِ سعودی عرب کو ضرر رسانی اور نقصان دہی کی تمنا کا اظہار ، ان کے دھمکی آمیز اعلانات سے ہوتا ہے جو اُنہوں نے مملکتِ سعودی عرب کے حساس علاقوں کے سلسلہ میں کیے ہیں۔مملکت کی سرزمین کی سلامتی اور اس کی وحدت کو اپنے مقاصدِمذمومہ کا نشانہ بنانے کی غرض سے اُنہوں نے یہ حرکت کی ہے۔ ہمارا بھی کھلم کھلا اعلان ہے کہ امریکہ کو اس بات کا بخوبی پتہ ہونا چاہئے کہ دنیا کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کو نے تک کے مسلمان بلادِحر مین شریفین کے پاسبان اور نگہبان ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس ملک کو مزید عزوشرف سے نوازتا چلاجائے کیونکہ یہ مملکتِ سعودی عرب ہی ہے جس کو بلادِ حرمین ہونے کا شرف حاصل ہے اور یہی وہ مملکت ہے جو اسلام اور مسلمانوں کا آخری قلعہ اور پناہ گا ہ ہے۔
مسلمانوں کے خلاف عالم کفر کی سازشیں
مسلمانوں کے خلاف عالم کفر کی ان سازشوں کو چھ نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں:
1. یہودی ملک اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا
2. ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کے خواب کو عملی جامہ پہنانا
3. عرب ریاستوں کے درمیان یہود فوج کی بالا دستی اور سلامتی کو یقینی بنانا
4. عرب علاقوں کے قدرتی وسائل وذرائع اور اقتصادی اثاثہ جات پر قبضہ کرنا تاکہ اس سرزمین پر بسنے والے اصل باشندے غیر مسلموں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو جائیں اور صرف اُن کے ٹکڑوں پر گزر بسر کریں۔
5. دعوتِ اسلامیہ کا بلادِعرب سے جنازہ نکال دیا جائے تاکہ اسلام کا اور قال اﷲ وقال الرسول کا نام ونشان تک باقی نہ رہے۔
6. اسلام مخالف تحریکوں کو زہر افشانی کی کھلم کھلا چھوٹ مل جائے اور اسلامی روایات واقدار کا اس خطے سے مکمل صفایا ہوجائے۔ علاوہ ازیں اس خطہ کے تمام ممالک باہم دست وگریباں ہوجائیں اور ایسی دائمی خانہ جنگی چھڑ جائے جس کا خاتمہ ممکن نہ ہو۔
فر زندانِ اسلام!کیا تمہارے لئے ترکی حکومت باعثِ عبرت نہیں؟ یہ وہی ترکی حکومت ہے جس پر ہمیشہ اشتراکیت کا غلبہ رہا ہے۔ اس وقت سے اشتراکیت نے ترکی حکومت کو اپنے زیر نگیں کیا ہوا ہے جب سے کمال اتاترک نے اس حکومت کی باگ ڈور سنبھالی اور زبر دستی اس اسلامی ملک پر کفر و شرک کی نحوست کو مسلط کردیا، چنانچہ وہاں کے حکام نے شریعتِ اسلامیہ کی مخالفت شروع کردی اور تعلیماتِ اسلامیہ کو پس پشت ڈال دیا، اور اس کے اُصول ومبادی سے دور سے دور تر ہوتے چلے گئے ۔ اسلام کے ایک ایک اُصول کو اس ملک سے کھرچ کھرچ کر پھینک دیا گیا اور آج ابھی تک حکومتِ ترکیہ اسلام کی مخالفت پر کمر بستہ اور اس کے خلاف صف آرا ہے اور اس پر مستزادیہ کہ اُنہوں نے یہودیوں سے سمجھوتہ کرکے اسلام دشمنی کی پکی اور سچی دلیل پیش کردی ہے۔ حالانکہ یہودیوں نے انھیں اپنی آنکھوں پر بٹھانے کے بجائے اپنا مطیع اور فرمانبردار خادم بناکر دنیا کے سامنے اُن کی تذلیل کی، بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ یہودیوں نے ان کو اپنی خاص تنظیموں میں ابھی تک کوئی سیٹ تک مہیا نہیں کی ہے ۔ صرف اس لئے کہ ترک کسی زمانے میں اسلام کے حامی تھے اور کسی دور میں ترکوں نے عالم اسلام کی قیادت کی تھی۔ بس یہودیوں کی نظروں میں ان کا یہی گناہ کانٹے کی طرح کھٹکتا رہتا ہے ۔ جس کی وجہ سے وہ ترکی کو ابھی تک کسی بھی تنظیم میں شریک نہیں کرتے اور نہ ہی کسی اہم عہدے سے ان کو سرفرازہونے دیتے ہیں ۔ لہٰذا ان لوگوں کو ہماری یہی نصیحت ہے کہ تم چاہے یہودیوں کے لئے اپنے حقوق سے پوری طور پر سبکدوش ہوجاؤ مگر یہود یہود ہی رہیں گے، وہ تم سے کبھی بھی اپنی رضامندی اور خوشنودی کا اظہار نہیں کر سکتے ۔ اس لئے ہماری تمام مسلمانوں سے گزارش ہے کہ اپنے دین کے دفاع کے لئے سینہ سپر ہوجائیں اور اپنے حق خودار ادی کو برقرار رکھنے کے لئے بھر پور کوشش کریں اور اپنے اسلامی تشخص کی حفاظت کے لئے کوشاں ہوجائیں۔
اب ہم عراقی بھائیوں سے مخاطب ہوکر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میرے عزیز عراقی مسلمان بھائیو!مغرب کی تم سے یہ دشمنی ، دین کی دشمنی ہے، اس دشمنی کی اور کوئی دوسری وجہ نہیں ہے۔ ہمارا سوال ہے کہ عراقی عوام چھ سال سے حصار بندی کی زندگی کیوں گزار رہے ہیں؟ آخر ان کمزور ناتواں اور مسکین عوام کا کیا گناہ ہے اُنہیں اس کی قیمت کیوں چکانا پڑرہی ہے؟ اگر ان کا کوئی گناہ ہے تو یہ ہے کہ وہ لوگ مسلمان اور کلمہ گو ہیں!!
ہمیں اجازت دیں کہ اس موقعہ پرہم صراحت کے ساتھ یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ اس جنگی دوڑ میں صدام اور اس کی پارٹی کا کچھ نہیں بگڑے گا اور نہ ہی صدام اور اس کی پارٹی کو کسی نقصان کی کوئی پرواہ ہے، اُنہیں تو اپنا اُلّو سیدھا کرنے سے غرض ہے۔ مغربی اتحادی ممالک کا خیال بلکہ ان کا متفقہ طور پر پروپیگنڈا ہے کہ عراق اقوامِ متحدہ کی قرار داد پر عمل درآمد کرنا نہیں چاہتا ۔ حالانکہ جس قرار داد کی عراق نے خلاف ورزی کی ہے وہ تو صرف اور صرف ایک ہی قرار داد ہے، اس کے برعکس یہودیوں نے پچاس قرار دادوں کی خلاف ورزی کی ہے ۔ اس سلسلہ میں مغربی ممالک کے سربراہوں میں سے کسی کے کان پرجوں تک نہیں رینگی، اس سے بھی آگے بڑھ کردیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جب صہیونی حکومت نے معاہدے پر دستخط سے انکار کردیا، اس وقت یہودیوں کے خلاف معروف و مشہور سورماؤں میں سے کسی نے اپنی زبان سے ایک جملہ تک نہیں نکالا، حالانکہ یہ پورا خطہ آتش فشاں پہاڑ کی طرح پھٹنے کے لئے تیار ہے بس ایک چنگاری کو ہوا دینے کی ضرورت ہے اور پور ا خطہ اس کی آتش فشانی کی لپیٹ میں آجائے گا۔ اس پرُفتن ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کسی صورت میں بھی مناسب نہیں ہے مگر صہیونی ہیں کہ اپنی ہٹ دھرمی پر اترے ہوئے ہیں اور اپنے تکبر وعناد پر قائم ہیں ۔ اُنہیں کسی کی پرواہ نہیں ہے۔ اُنہیں صرف اپنے ذاتی مفاد سے مطلب ہے اور اُنہوں نے صدام کو اپنا ہتھکنڈہ اور ایجنٹ بنایا ہوا ہے لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اعدائے اسلام جو پلاننگ بنارہے ہیں، صدام حسین اسی کا نفاذ کرتا ہو ادکھائی دیتا ہے۔
ہماری امریکہ اور اس کے حلیف ممالک سے درخواست ہے کہ وہ خلیجی ممالک کے معاملات میں دخل اندازی سے گریز کریں کیونکہ اس عربی خطہ کے تمام خلیجی ممالک بذات خود اپنے اپنے ملکوں کے ذمہ دار ہیں ۔ ان میں سر فہر ست مملکتِ سعودی عرب ہے اور ان تمام خلیجی ممالک کو حق خودارادی حاصل ہے کسی دوسرے ملک کو ان کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ہم امریکہ کو بھی یہ پیغام دینا چاہیں گے کہ اسے اپنی طاقت وقوت پر کسی قسم کا غرورنہ ہو اور وہ اپنی بے پناہ ایٹمی صلاحیت پر نازاں نہ ہو کیونکہ یہ اﷲ تعالیٰ کی سنتِ تکوینی ہے کہ جب طاقت وقوت کسی قوم یا کسی حکمران وقت کو ظلم پر آمادہ کردیتی ہے تو سمجھ لوکہ اس کی شامت آگئی ہے اور اس کی تباہی وبربادی اس کے سر پر منڈ لا رہی ہے۔ یہ اﷲ تعالیٰ کا حتمی فیصلہ ہے اﷲ کے یہاں دیر ہے، اندھیر نہیں۔
ہوتا یہ ہے کہ وہی کمزور و ناتواں لوگ، جن پر ظلم کیاجاتا ہے، ایک دن اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اﷲ ربّ العالمین کی طرف سے اس سرکش اور کافر قوم کی تباہی و بربادی انہی مظلوموں کے ہاتھوں مقدر فرمادی جاتی ہے اور اﷲ کے حکم سے وہ سرکش قوم انہی مظلوموں کے ہاتھوں سے تباہ وبرباد ہوجاتی ہے کیونکہ ان ظالموں کی ہلاکت کے لئے اﷲ تعالیٰ اپنی کمک فراہم کرتا ہے اور مظلوموں کا خون رنگ لاتا ہے۔ ظالموں کا نام ونشان مٹ جاتا ہے ۔ امریکہ کو اپنی جدید ٹیکنالوجی اور بے پناہ ایٹمی صلاحیت پر ہرگز ہرگز ناز نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ٹیکنالوجی پر ہی فتح ونصرت کا دارومدار نہیں ہے بلکہ فتح ونصرت کا دارومدار ایمانِ خالص اور یقین صادق پر ہے ۔
اس خلیجی خطہ کا امن وامان ان عرب ممالک کے اربابِ حل وعقد کے ہاتھ میں ہے۔ وہی اس سر زمین پر امن وامان کے پاسبان اور محافظ ہیں۔یہاں غیروں کو قائم رکھنے کی ذمہ داری بھی انھی لوگوں کی ہے ۔ کسی دوسرے کو ان ممالک کے معاملات میں دخل اندازی کا کیا حق پہنچتا ہے ؟ ان مصیبت زدہ خلیجی ممالک میں مشکلات ومصائب کا سبب سپر پاور ممالک اور ان کے اتحادیوں کے علاوہ اور کوئی نہیں۔ان سپر پاور ممالک کا طریقۂ واردات یہ ہے کہ یہ خود ہی کسی علاقے میں فتنہ وفساد برپاکر واتے ہیں اور فسادات کے رونما ہوتے ہی سازوسامان سے لیس اپنی اپنی فوجیں وہاں پہنچا دیتے ہیں اور جب بھی کوئی فسادان کی وجہ سے رونما ہوتا ہے تو یہ ممالک اس فساد سے نبردآزمائی کے لئے فوراً تیار ہو جاتے ہیں اور دعویٰ کرنے لگتے ہیں کہ صور تحال کی سنگینی کا تقاضا ہے کہ اتحادی فوجیں اقوامِ متحدہ کی چھتری تلے اس ملک میں اُتاری جائیں۔ گویا اُنہیں کی فوجوں میں یہ صلاحیت ہے کہ صورتِ حال کنٹرول کر سکیں اور حالات کی سنگینی کا اندازہ لگا سکیں... آخر کیوں؟ یہ تو ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی بھیڑیے کو بکریوں کا محافظ اور نگہبان بنادیا جائے۔
میرے عزیز بھائیو!ہمارے اور ان کے درمیان اسلام اور غیر اسلام کی لڑائی ہے ، لہٰذا یہ دشمنی ، دینی دشمنی ہے اور امریکہ کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے بلکہ وہ تو یہودیوں کی شطرنج کا پانسہ ہے۔یہودی جیسے چاہتے ہیں، اسے اپنے سامنے ناک رگڑنے پر مجبور کر دیتے ہیں اور امریکہ کو ذلیل وخوار ہو کر یہودیوں کے سامنے ناک رگڑنی پڑتی ہے۔ مسلمان کسی حال میں خلیج کے اندر امریکہ کی فوجی موجودگی کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور نہ ہی اس خطہ میں امریکہ کے حلیف ممالک کی موجودگی مسلمانوں کو گوارہ ہے اور نہ ہی کسی کافر ملک کی اس خطہ میں بالادستی مسلمانوں کے شایان شان ہے کیونکہ ارشادِ نبوی ﷺ ہے: ''جزیرة العرب میں دو ادیان کا وجود باقی نہیں رہ سکتا۔'' نبی کریم ﷺ نے اپنی آخری وصیت میں فرما دیا ہے، ''یہود ونصاریٰ کو جزیرة العرب سے نکال بھگاؤ۔''
عامۃ المسلمین کو نصیحت
لہٰذا ہمیں اپنے حبیبﷺ کی وصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پر عمل درآمد کرنا چاہئے۔اب میں اپنے مسلمان بھائیوں سے مخاطب ہو کر ان سے براہِ راست یہ بات عرض کرنا چاہتا ہوں: مسلمانو!تمہارے سروں پر مصائب وآلام ،خوف ودہشت کے بادل منڈلارہے ہیں، لہٰذا ان حالات میں تو اﷲ کی طرف متوجہ ہونے کی کوشش کرو اور اﷲ کے سامنے گڑگڑا کر آہ و زاری کے ساتھ تو بہ کرو! کیونکہ گناہوں اور معصیتوں کی پاداش میں ہی بلاؤں اور آفتوں کا نزول ہوتا ہے اور مصائب وآلام کا توبہ واستغفار اور اﷲ کی طرف رجوع وانابت ہی سے ازالہ ہوتاہے۔
ہم اس شخص سے کہنا چاہتے ہیں جس نے شراب نوشی کے ذریعہ اﷲ کی نافرمانی کا سنگین ارتکاب کیا ہے کہ وہ اﷲ کے روبرو سچّی توبہ کرے کیونکہ اس شخص کے اس عمل کی وجہ سے اصلاحِ معاشرہ کا فریضہ انجام پذیر ہو گا۔ اس گھناؤنی حرکت سے توبہ کرکے گویا کہ وہ اپنے سماج کی اصلاحی خدمت کا فریضہ انجام دے گا۔
میں اس شخص سے براہ راست مخاطب ہونا چاہتا ہوں جس نے زنا کاری اور فحاشی یا اغلام بازی اور غیر فطری عمل کر کے اپنا منہ کالا کیا ہے۔ اسے اﷲ کی طرف فوراً رجوع کرنا چاہئے اور توبہ کرکے اپنے گناہوں کا ازالہ کرنا چاہئے۔ اپنے کیے پر ندامت کے آنسو بہانا چاہئیں اور اس کے بعد اس سنگین گناہ سے دور رہنے کا عزم کرنا چاہئے۔
میں اس شخص سے مخاطب ہو کر خصوصی نصیحت کرنا چاہتا ہوں جس نے مُنشّیات یا ہیروئن اور چرس نوشی کرکے اﷲ کی نافرمانی کا ارتکاب کیا ہے کہ تم توبہ کرو اور اپنے گناہوں پر ندامت کے آنسو بہا کر رب کریم سے یہ گناہ معاف کروالو!کیونکہ عنقریب تمہیں رب ذوالجلال کے سامنے حاضری دینی ہے اس وقت تم کس منہ سے ربّ کریم کا سامنا کرو گے؟
اسی طرح میں بے نمازکو مخاطب کرکے بطورِ نصیحت یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پہلی فرصت میں توبہ کر ڈالو! اور اﷲ کی طرف رجوع وانابت کرو!کیونکہ موت کا کوئی پتہ نہیں، کب آجائے گی۔
میں ان ظالموں اور جابروں سے مخاطب ہو کر یہ کہوں گا جنہوں نے کسی مسلمان کی عزت و آبرویامال و دولت غصب کرکے کسی کے خلاف ظلم جیسی گھناؤنی حرکت کا ارتکاب کیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے سامنے توبہ کرو اور اس ظالمانہ عمل سے دور رہنے کا عزم کرو تاکہ تمہارے غم غلط ہو جائیں، دور ہو جائیں اور مصائب وآلام کا فور ہوجائیں۔
اپنے مال ودولت اور اپنی جائدادو کاروبار کو سودی لین دین سے پاک صاف رکھو! کیونکہ سودی کاروبار ایسی منحوس بیماری ہے جو جنگ وجدال اور تباہی وبربادی کا پیش خیمہ ہے بلکہ سودی لین دین ہی ساری برائیوں کی جڑہے ۔ اگر اسے اُمّ الخبائث کہا جائے تو بے جانہ ہوگا، لہٰذا اپنے معاملات کو سودی لین دین کی آلودگی سے پاک وصاف رکھنے کی بھر پور کو شش کرو اور جو معاملات ملتِ اسلامیہ اور شریعتِ الٰہیہ کے منافی ہوں، ان کا بائیکاٹ کرو! تاکہ ساہوکار اسلامی احکامات کے تحت اپنے تمام بینکاری نظام کو ڈھالنے کے لئے مجبور ہوجائیں اور اﷲ کے روبرو گڑگڑا کر دعا کرو اور دعوتِ اسلامیہ کو پوری دنیا میں پھیلاؤ اور دین اسلام کی تبلیغ کے لئے تن من دھن کی بازی لگا دو تاکہ چار دانگ عالم میں اسلام کا پرچم لہرانے لگے۔
مسلمانوں کو تعلیمات اسلامیہ سے روشناس کرانا اپنا شعار بناؤ اور عالم اسلام کے ساز گار ماحول اور اس کی پرکیف فضا میں اسلامی نصابِ تعلیم کی طرف بھر پور تو جہ مرکوزکرنے کی کوشش کرو! تمہیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ دعوت الیٰ اﷲ کا فریضہ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ خصوصاً یہ ان علماے کرام کی ذمہ داری ہے جو اپنے عقیدہ اور علم وعمل کے اعتبار سے مستند ہوں جو اپنی استقامت کے اعتبار سے عوام وخواص میں مقبول ہوں اور جو تقویٰ وپاکیزگی کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہوں اور جو عوام کے لئے ان کے درپیش مسائل میں مرجع کی حیثیت رکھتے ہوں اور کتاب اﷲ اور سنت رسول اﷲ کے مطابق فیصلہ دیناان کا شیوہ ہو! اور گروہ بندی اور فرقہ پرستی سے احتیاط برتو! اور خواہشات کے پیچھے اور طرح طرح کی بیہودگی وعیاشی سے کنارہ کشی اختیار کرو! اﷲ کے عقاب، اس کے عذاب وعتاب سے ڈرو کیونکہ اﷲ کی پکڑ بڑی سخت ہے اس لئے کہ اﷲ جب گرفت کرنے پر آتا ہے تو اس کی گرفت سے کوئی چھٹکارا نہیں دلا سکتا ۔ بارك اﷲ لي ولکم في القرآن العظیم ، وبهدي سید المرسلین وبقوله القویم! أقول قولي هذا، وأستغفر اﷲ لي ولکم ولسائر المسلمین فاستغفروه إنه هو الغفور الرحیم
٭٭٭٭٭٭