مفکر ِ اسلام ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر

مولانا ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کے دینی، مذہبی اور علمی حلقوں میں ایک مقتدر علمی شخصیت کے حوالے سے معروف تھے۔ آپ بجا طور پر ایک مفکر ِاسلام، قرآن و سنت کے سچے داعی، امن کے علم بردار اور علوم شریعت کے ماہر اور حاذق تھے۔ آپ نے اندرون ملک کے علاوہ بیرونِ ملک میں بھی دعوتِ اسلام کے پھریرے لہرائے او رایک عالَم نے آپ کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔ کہنے والوں نے آپ جیسی سربرآورد علمی شخصیات ہی کے متعلق کہا ہے: موت العالم موت العالَم کہ ایک عالم کی موت درحقیقت پورے جہاں کی موت ہے۔ قدرت نے آپ کو بے پایاں قوت حافظہ سے نوازا تھا۔ قرآنِ کریم ماشاء اللہ خوب حفظ تھا او راکثر و بیشتر آپ کی زبان تلاوتِ قرآن سے تر رہتی تھی۔
آپ جو کتاب یا تحریر ایک دفعہ پڑھ لیتے، وہ آپ کی لوحِ حافظہ پر نقش ہوجاتی۔ کسی بھی محفل میں کسی بھی موضوع پر گفتگو ہوتی تو آپ قرآن وحدیث اور اقوالِ سلف کے انبار لگا دیتے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ  او رامام ابن قیم الجوزیہ کی تحقیقات و تصنیفات سے از حد متاثر تھے۔وعظ و درس اور خطبہ انتہائی سادہ انداز میں ارشاد فرماتے۔ اس میں علمی وجاہت اور عالمانہ رنگ غالب ہوتا۔ رطب و یابس اور قصہ گوئی سے یکسر گریز فرماتے ۔اس کے باوجود آپ کے بیان میں اس قدر شیرینی اور کشش ہوتی کہ خواص کے علاوہ عامۃ الناس بھی آپ کی محفل میں کشاں کشاں حاضر ہوتے۔
آپ خود صاحبِ علم اور اعلیٰ علمی اقدار پر فائز تھے، اسی لیے آپ اہل علم کے بھی از حد قدردان تھے کہ ؎ قدرِ زرزرگر بداندیا بداند جوہری
اپنے شاگردوں اور برخورداروں کی حوصلہ افزائی فرماتے۔ علمی منازل طے کرتے کرتے آپ نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کی تحریرات، معلومات کا خزانہ او رعلم و بلاغت کا سرچشمہ ہیں۔
راقم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ 1978ء میں جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں ایک سال ان کےزیر سایہ گزارنے کاموقعہ ملا۔ 1979ء میں مزید حصولِ علم کے لیے اللہ تعالیٰ نے دیارِ حبیب میں واقع جامعہ اسلامیہ مدینہ یونیورسٹی میں داخلے کی سعادت سے نوازا تو اس مرحلے پر محترم حافظ صاحب ہمارے قافلے کے نہ صرف میر کارواں ٹھہرے بلکہ وہاں چار سال مزید اُن کے ہمراہ گزارنے کا موقعہ ملا او رہم ایسوں نے اُن کی محفل میں بیٹھ کر ہمیشہ خوشہ چینی کی۔ آپ نے ایک عرصے تک جامعہ سلفیہ، فیصل آباد میں اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ بعدازاں کچھ عرصہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ عربی میں ایم اے،عربی کی کلاسز کو مہمان استاذ کی حیثیت سے پڑھایا۔ جامعہ لاہو ر اسلامیہ میں بھی چند سال آپ کو تدریس کا موقعہ ملا، جہاں متعدد ایسے طلبہ نے آپ سے کسبِ فیض کیا جو اپنے استاذِ محترم کی طرح آج دین کی اعلیٰ خدما ت انجام دے رہے ہیں۔
لاہور میں قیام کے دوران جب جامعہ کے مدیر حافظ عبد الرحمٰن مدنی﷾ کو نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن (نیپا) میں اعلیٰ عدلیہ کی تربیت کی بھاری ذمہ داری ملی، تو علم اُصولِ فقہ کی تدریس کے لئے مدنی صاحب کی نظرانتخاب حافظ عبد الرشید اظہر صاحب پر پڑی جس کے نتیجے میں حافظ صاحب نے 1987ء میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن (نیپا) میں ججز کی کلاسوں کو اُصولِ اجتہاد کے اہم موضوع پر کئی تدریسی لیکچر دیئے۔ یہ لیکچر اپنی علمیت ووقعت کے سبب جسٹس خلیل الرحمن خاں (سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ) نے ریکارڈنگ سے کاغذ پر منتقل کرا لئے۔
1997ء میں نیویارک (امریکہ) کی مسلم کمیونٹی کی دعوت پر وہاں 'عظمتِ اسلام کانفرنس' میں شرکت کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں دو ہفتے مزید قیام کے دوران اسلامی تعلیمات کے حوالے سے متعدد لیکچر دیئے۔
2000ء اور 2001ء میں برطانیہ میں منعقد ہونے والی اسلامی کانفرنس میں شرکت کی اور وقیع و پُرمغز مقالات و خطابات کئے۔
2002ء میں انڈونیشیا میں منعقدہ ایک بین الاقوامی سیمینار میں شرکت کی اور وہاں ایک مہینہ قیام کے دوران وہاں کے اہل علم کے سامنے حدیثِ رسولﷺ کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے اُن کے خطابات کا طویل سلسلہ جاری رہا۔
آپ ایک عرصے تک فیڈرل شریعت کورٹ اسلام آباد کے فقہی مشیر بھی رہے۔
آپ کے علمی، فقہی اور پُرمغز مقالات ہفت روزہ 'الاعتصام'، ہفت روزہ 'اہل حدیث'، ماہنامہ 'محدث'، سہ ماہی 'البیان'،ماہنامہ 'شہادت'اور دیگر مجلّات میں اہتمام کے ساتھ شائع ہوتے رہے۔ کئی سالوں سے آپ دینی مدارس کے تعلیمی سال کے اختتام پر منعقد ہونے والی تکمیل صحیح بخاری کی تقریبات میں شریک ہوکر امام بخاری کی شخصیت، اُن کی کتاب کی جامعیت و اصحیت، علوِمرتبت، حدیث ِرسول کی ضرورت و اہمیت اور عقیدۂ توحید کا بیان بڑی تفصیل سے کرتے۔
آپ نے اپنی بھرپور اور معروف علمی زندگی میں دیگر علمی و دینی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ تحریر و تصنیف سے بھی برابر رابطہ اُستوار رکھا۔ آپ کے قلم گوہر بار سےبہت سی کتابیں منصۂ شہود پر آئیں۔ اُستاذ العلماء شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ خان مدنی ﷾ کے مرتب کردہ 'فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلداوّل) کے شروع میں آپ نے فتویٰ و افتا کی اہمیت وضرورت ، اس کی تاریخ اور اِس سے متعلقہ احکام و مسائل بڑے سائز کے 84 صفحات میں بڑی شرح و بسط کے ساتھ ارقام فرمائے۔ اس سے آپ کے علم کی وسعت و گہرائی و گیرائی کا پتہ چلتا ہے۔ یہ تحریر صرف اس کتاب کا مقدمہ ہی نہیں بلکہ مستقل کتاب کے طورپر شائع کی جانے کی حق دار ہے۔ اسی طرح شیخ الحدیث حافظ عبدالستار حماد نے صحیح بخاری کا ترجمہ اور تشریح کی ہے۔ صحیح بخاری کا آخری حصہ کتاب التوحید ہے۔ڈاکٹر صاحب مرحوم نے اس کے آغاز میں عقیدہ توحید کی وضاحت اور مبتدعین کے بدعی عقائد کی تفصیل بیان کرتے ہوئے 124 صفحات پر محیط ایک مبسوط مقدمہ تحریر کیا ہے۔ آپ کی یہ دونوں تحریریں مستقل تصنیف کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے سیّال قلم گوہر بار نے بہت سا تصنیفی کام کیا جس کی تفصیل کا یہ موقعہ نہیں۔
یہ ڈاکٹر صاحب موصوف کے ایک دوست اور ان سے تعلق رکھنے والے کے دلی جذبات ہیں جو فوری طو رپر نوکِ قلم پر آگئے ہیں، ورنہ آں موصوف کی شخصیت پر مفصل کتابیں لکھی جاسکتی ہیں او ریقیناً اصحابِ علم و فضل اِن کے متعلق اپنے اپنے جذبات و خیالات کو حیطہ تحریر میں لاکر آں مرحوم کے ساتھ اپنے تعلق کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ اس علمی امانت کو ادا کرنے کی کوشش کریں گے جو دینی حوالے سے اُن کی ذمے داری ہے۔ دُعا ہےکہ اللہ کریم شہید ڈاکٹر صاحب کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دیتے ہوئے انبیا ، صدیقین، شہدا اور صالحین میں شامل فرمائے۔ آمین! ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد!

٭٭٭٭٭