ضعیف اور موضوع احادیث اور اصول حدیث

٭ کیا ضعیف اور موضوع احادیث رسول اللہ ﷺپر بہتان ہیں؟
٭ علم حدیث کے حوالے سے بعض سوالات اور احادیث کی تحقیق
٭ بدعتی امام کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟

سوال نمبر1:کیا ضعیف اور موضوع احادیث رسول اللہ ﷺپر بہتان ہیں؟
جواب:ضعیف روایات کی کئی قسمیں ہیں ۔بعض نے 17اور بعض نے ۵۱ تک بھی بیان کی ہیں اور ہر ایک کے ضعف میں درجہ کےاعتبارسے فرق ہوتا ہے۔ لہٰذا ضعیف روایات کے بارے یہ بات کہنا درست نہیں ہے کہ وہ اللہ کے رسول ﷺپر بہتان ہیں بلکہ محدثین کے صحیح اور راجح قول کے مطابق ضعیف روایات میں صحت کا امکان موجود ہوتا ہے لیکن یہ پہلو مرجوح ہوتا ہے اور ضعف کا پہلو راجح ہونے کی وجہ سے ضعیف کا حکم لگایا جاتا ہے۔اس کو آپ سادہ سی مثال سے یوں سمجھیں کہ ہر خبر میں سچ اور جھوٹ دونوں امکانات موجود ہوتے ہیں اور ان میں سے سچ کا پہلو راجح ہو تو وہ خبر سچی اور جھوٹ کا پہلو راجح ہو تو خبر جھوٹی کہلاتی ہے۔
ضعیف کی ایک قسم 'موضوع روایات' اللہ کے رسولﷺ پر بہتان ہیں اور بعض محدثین نے اُنہیں حدیث کہنے سے بھی منع فرمایا ہےکیونکہ موضوع روایت میں یہ بات قطعی ثابت ہوتی ہے کہ اس روایت کی نسبت اللہ کے رسولﷺ کی طرف جھوٹی ہے، لہٰذا یہ بہتان ہے جب کہ ضعیف روایت میں اس کے اللہ کے رسول ﷺ کی طرف جھوٹ ہونے کی نسبت قطعی ثابت نہیں ہوتی ہے۔وباللہ التوفیق

سوال نمبر2: امام بخاری﷫نے'التاریخ الکبیر'میں صحیح سند کے ساتھ امام ربیعہ بن عبدالرحمٰنؒ سے روایت کیا ہے کہ امام زہریؒ حدیث میں اِدراج کیا کرتے تھے۔ سوال ہے کہ کیا اِدراج کرنے والے کی حدیث صحیح ہوتی ہے؟ اگر ہاں تو کیا انکی حدیث پرعمل کیا جائے؟
جواب:'ادراج 'یعنی کسی حدیث کے متن میں اپنی طرف سے جان بوجھ کر کچھ اضافہ کر دینا حرام ہے لیکن ادراج کی ایک قسم ایسی ہے جو جائز ہے اور وہ یہ کہ کوئی راوی احادیث کے غریب الفاظ کی تشریح میں کچھ الفاظ اس طرح بیان کرے کہ وہ حدیث کا حصہ معلوم ہوں ۔ امام زہری کے ادراج کی نوعیت بھی یہی ہے۔امام زہری ﷫ کی طرف جس ادراج کی نسبت ثابت ہے، وہ ایسا ادراج ہے جسے جائز قرار دیا گیا ہے یعنی حدیث کے غریب الفاظ کی شرح کرنا جیساکہ اما م سیوطی کی درج ذیل عبارت سے واضح ہو رہا ہے،لکھتے ہیں :
«وعندي ما أُدرج لتفسیر غریب لا یمنع ولذٰلك فعله الزهري وغیر واحد من الأئمة»1
''اور میرے نزدیک کسی غریب الفاظ کی تشریح کے لیے جو ادراج کیا جائے تو وہ ممنوع نہیں ہے جیسا کہ امام زہری اور دوسرے ائمہ حدیث سے مروی ہے ۔''

سوال نمبر3:رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ''ایسا بدعتی جس کی بدعت شرک تک نہ پہنچی ہو،اس کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں۔'' اس سے کیا مراد ہے؟
جواب:ایسی کسی حدیث کاہمیں علم نہیں ہے اگر آپ کے پاس اس کا کوئی حوالہ ہو تو میسر کریں،آپ کے حوالہ دینے پر جواب ارسال کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں بعض فقہا کا قول'عقیدہ طحاویہ' میں بیان ہوا ہےجس کا خلاصہ یہ ہے کہ با جماعت نماز کی اہمیت زیادہ ہے اور کسی امام کے فاسق، فاجر یا بدعتی ہونے کی وجہ سے اُس کے پیچھے نماز کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح رہے کہ امام اسی کو بنانا چاہیے جو صحیح العقیدہ ، متقی ، پرہیزگار، عالم دین اور قاری قرآن ہو۔لیکن اگر کوئی امام عالم دین یا قاری قرآن یا متقی یا صحیح العقیدہ نہ ہو یعنی بدعتی ہو تو اس صورت میں احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ صحیح العقیدہ لوگوں کی مسجد تلاش2 کی جائے ،بصورتِ دیگر ایسے بدعتی امام کے پیچھے جو اپنی بدعت کا داعی ہو، نماز پڑھنے کے بجائے تنہا نماز پڑھنا اولیٰ ہے۔واللہ اعلم

سوال نمبر4: ایک حدیث کی تحقیق مطلوب ہے،جس کا مفہوم یہ ہے کہ مومن زانی ہو سکتا ہے، شرابی ہو سکتا ہے، جواری ہوسکتا ہے ،مگرجھوٹا نہیں ہو سکتا۔ کیا اس طرح کی کوئی حدیث ہے ؟اگر ہے تو اس کی سند بتادیں۔
جواب: اس طرح کی ایک مرسل روایت تو موجود ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ مؤمن بزدل ہو سکتا ہے، بخیل ہو سکتا ہے لیکن جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ممکن ہے کہ خطبا حضرات نے اسی حدیث سے سوال میں بیان کردہ مفہوم کشید کیا ہو۔صفوان بن سلیم بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا:
«أيكون المؤمن جبانا؟ قال: «نعم» فقيل: أيكون المؤمن بخيلا؟ قال: «نعم» فقيل له: أيكون المؤمن كذابا ؟ قال : «لا»
''کیا مؤمن بزدل ہوسکتا ہے؟آپ ﷺنے فرمایا:ہاں،عرض کیا گیا کہ کیا مؤمن بخیل ہوسکتا ہے؟آپﷺنے فرمایا: جی ہاں،پھرآپﷺ سے پوچھا گیا : کیامؤمن جھو‎ٹا ہوسکتا ہے؟آپ ﷺنے فرمایا نہیں۔''

سوال نمبر5:کیاروزہ افطارکرنےکی معروف دعا: اللهم لك صمتُ وعلىٰ رزقك أفطرت3 ضعیف ہے ؟
جواب:یہ حدیث دو سندوں سے مروی ہے اور یہ دونوں ہی ضعیف ہیں:
1- انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷺ جب روزہ افطار کرتے تو یہ کہتے:
«بسم الله،اللهم لك صمتُ وعلىٰ رزقك أفطرت»4
اس سند میں اسمٰعیل بن عمرو بن نجیح اصبہانی ضعیف اور داؤد بن زبرقان رقاشی متروک راوی ہے۔
2- معاذ بن زہرہ سے مروی ہے کہ نبیﷺ جب روزہ افطار کرتے تو یہ دعا کرتے:
«اللهم لك صمتُ وعلى رزقك أفطرت»5
یہ حدیث دو علّتوں کی وجہ سے ضعیف ہے:
اول تو یہ روایت مرسل ہےاس لیے کہ معاذبن زہرہ تابعی ہے، ثانیاً: معاذبن زہرہ مجہول راوی ہے۔اس کے برعکس روزہ افطار کرتے وقت مسنون دعا یہ ہے:
عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ رسول ﷺجب روزہ افطار کرتے تو یہ الفاظ کہتے‎:
«ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللهُ»6
''پیاس چلی گئی ،رگیں تر ہو گئیں اور اگر اللہ نے چاہا تو اجر ثابت ہوگیا۔''

سوال نمبر6: اکثر سننے میں آیا ہے کہ علما حدیث کو طبقات میں تقسیم کرتے ہیں ،یعنی یہ حدیث پہلے طبقے کی ہے،یہ دوسرے اور یہ تیسرے طبقے کی، اس سے کیا مراد ہے؟
جواب:بعض اہل علم نے کتبِ حدیث کو ان کی صحت کے درجات کے اعتبار سے مختلف طبقات میں تقسیم کیا ہے ۔مثلا شاہ ولی اللہ﷫ دہلوی نےاپنی کتاب حجۃاللہ البالغہ میں کتب حدیث کے اُن کی صحت کے اعتبار سے چار درجات بنائے ہیں:
پہلا درجہ: موطا امام مالک، صحیح بخاری اور صحیح مسلم
دوسرا درجہ: سنن ابو داؤد، جامع ترمذی ، سنن نسائی اور مسند احمد
تیسرا درجہ: مسند ابی یعلیٰ ،مصنف عبدالرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ،سنن بیہقی ،معاجم طبرانی
چوتھا درجہ: کتاب الضعفاء والمجروحین لابن حبان، الکامل فی ضعفاء الرجال از ابن عدی، خطیب بغدادی ، ابونعیم ، جوزقانی ،ابن عساکر، ابن نجار اوردیلمی کی کتب اور مسندخوارزمی۔7

سوال نمبر7:حدیثِ قدسی اورحدیثِ نبوی کے درمیان کیا فرق ہے ،نیز حدیثِ قدسی کو قدسی کیوں کہا جاتا ہے؟
جواب:حدیث قدسی وہ ہے جس کی نسبت اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف کی جائے،اس میں بیان شدہ مفہوم اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور الفاظ رسول اللہ ﷺکے ہوتے ہیں جبکہ حدیثِ نبوی میں قول وفعل کی نسبت رسولِ کریمﷺ کی طرف ہوتی ہے اور الفاظ ومعانی رسول اللہﷺ کے اپنے ہوتے ہیں۔ حدیثِ نبوی بھی وحی الٰہی ہوتی ہے اورحدیثِ قدسی کو قدسی اس کی عظمت ورفعت کی وجہ سے کہا جاتا ہےیعنی قدسی کی نسبت قدس جل جلالہ کی طرف ہےجو اس حدیث کے عظیم ہونے کی دلیل ہے۔ حدیث قدسی کی مثال یہ ہے:
«عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال النبي ﷺ: يقول الله تعالىٰ: «أنا عند ظن عبدي بي، وأنا معه إذا ذكرني، فإن ذكرني في نفسه ذكرته في نفسي، وإن ذكرني في ملإ ذكرته في ملإ خير منهم، وإن تقرّب إلي بشبر تقرّبت إليه ذراعًا، وإن تقرب إليّ ذراعًا تقرّبت إليه باعًا، وإن أتاني يمشي أتيته هرولة»8
''سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺکہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں اپنے بندے سے، میرے بارے میں اُس کا جو گمان ہے، اس کے مطابق معاملہ کرتا ہوں۔ جب بھی وہ مجھے یاد کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں اس کو اپنے پاس یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ مجھے کسی جماعت میں یا د کرتا ہے تو میں اس کا تذکرہ اس سے بہتر جماعت میں کرتا ہوں۔ اگر وہ میری طرف ایک ہاتھ آگے بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف بازو بھر پیش قدمی کرتا ہوں۔ اگر وہ بازو بھر آگے بڑھتا ہے تو میں دوہاتھوں کی لمبائی بھر اس کی طرف بڑھتاہوں۔ اگر وہ میرے پاس چل کر آتاہے تو میں اس کی طرف دوڑ کرآتا ہوں۔''
جبکہ حدیثِ نبویﷺ کی مثال یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
«عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله ﷺ يقول: «من رأى منكم منكرًا فليغيّره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطع فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان»9
''جو بھی تم میں برائی دیکھے تو اس کو اپنے ہاتھ سے ختم کرے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے اسکا خاتمہ کرے، اگر یہ بھی مشکل ہو تو دل سے اسکو برا جانے...''


حوالہ جات
1. تدریب الراوی : 1؍ ٢٣١

2. مزید تفصیل کے لئے دیکھئے:كتاب'مقالاتِ تربیت'مقالہ مولانا ارشاد الحق اثری﷾: ص تا ؟؟؟؟

3. سنن ابو داؤد، :2358

4. طبرانی اوسط:7549،طبرانی صغیر:912،اخبار اصبہان:1756...ضعیف جدا

5. سنن ابوداود:2358،سنن بیہقی:4؍ 239،مصنف ابن ابی شیبہ:9837 ‎،ضعیف

6. سنن ابوداود:2357،حاكم 1؍422 ،بیہقی 4؍239،عمل الیوم و اللیلہ لابن السنی:477... اسنادہ حسن

7. تلخیص از قواعد التحدیث از جمال الدین قاسمی:247ت250

8. صحیح بخاری:7405، صحیح مسلم:2675

9. صحیح مسلم :49