مسئلہ تکفیر وخروج اور علما کی ذمہ داری
اسلام اور اہل اسلام پر استعماری یلغار کے پس منظر میں،مختلف اسلامی ممالک بالخصوص پاکستان کے دینی منظرنامے میں تکفیر وخروج1 اور جہاد ی منہج کا مسئلہ بڑی اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ سادہ الفاظ میں تکفیر وخروج کی یہ بحثیں اس صورتحال میں اُبھر رہی ہیں، جب روس کے زوال کے بعدامریکہ دو دہائیاں قبل عالمی استعمارکی ہمراہی میں، نیوورلڈ آرڈر کی تکمیل کرتے ہوئے عالم اسلام پر چڑھ دوڑا ہے۔امریکہ کی عراق،خلیجی ممالک، پھر افغانستان، عراق، پاکستان اور صومالیہ ویمن میں ملتِ اسلامیہ پر جارحیت کا جواب نوجوانانِ اُمت نے جس طرح دینے کی کوشش کی ہے، اس میں جہادی گروہوں کے جوابی اقدامات کے طور پر یہ مباحث غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہوجاتے ہیں کیونکہ نوجوانانِ ملت انہی نظریات پر اس جارحیت کی مزاحمت اور اپنے دفاع کو منظّم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
چند برسوں سے استعماری ادارے اور مغربی این جی اوز بھی اس موضوع کو خاصا اُچھال رہی ہیں اور اس پر دیگر سماجی حلقوں کی طرح علما کی آرا جاننے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حال ہی میں گوجرانوالہ سے شائع ہونے والے مجلّہ 'الشریعہ' کا مارچ 2012ء کا 660صفحات پر محیط ایک ضخیم شمارہ بھی اسی موضوع پر سامنے آیا ہے جس میں فی زمانہ جہاد کی مشروعیت پر کئی پہلوؤں سے سوالیہ نشان پیدا کردیے گئے ہیں اور اُمتِ مسلمہ میں صدیوں سے چلے آنے والے روایتی وشرعی نظریہ جہادکے متبادل موقف کو دلائل سے مزین کرکے تفصیل کے ساتھ پیش کردیا گیا ہے۔حنفی مکتبِ فکر کے ترجمان اس مجلّہ کے بارے میں بعض حنفی اہل علم ودانش کا یہ تبصرہ بھی پڑھنے میں آیا ہے کہ 'الشریعہ' کے اس شمارے میں مرزا قادیانی کی دہائیوں بھر کی خلافِ جہاد کاوشوں کو نئے پیراہن میں مرتب کرکے، اس خاص اشاعت کے ذریعے ازسرنو قادیانی نظریات کی منظم ترجمانی کی جارہی ہے۔مولانا سرفراز صفدر کے فرزندِ گرامی مولانا زاہد الراشدی اور ان کے بیٹے جناب عمار ناصر خاں کے زیر ادارت شائع ہونے والے مجلّہ الشریعہ کے مضامین پرکڑی تنقید بھی اسی خانوادہ کے دوسرے مجلّے ماہنامہ'صفدر'کے اوراق میں شائع ہوئی ہے۔مستقبل قریب میں بھی مجلّہ الشریعہ کے اس شمارے اور پیش نظر موضوع کے متعدد پہلؤوں کو زیر بحث لایا جاتا رہے گا۔
راقم نے دو ماہ قبل اس حوالے سے تفصیلی مضمون تحریر کیا تھا جس میں اسی موضوع پر منعقد ہونے والی ایک مجلس کی رپورٹ پیش کی گئی تھی، اس مضمون کو بعض معاصر رسائل نے دوبارہ شائع کرکے اپنے حلقہ قارئین تک بھی پہنچایا ہے۔ اس کے بعد بعض حضرات کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آیا کہ آپ کا اس ضمن میں بالاختصار موقف کیاہے،اس کی وضاحت فرما دیں۔ چنانچہ ہمارے موقف کا خلاصہ نکات کی صورت میں حسب ِذیل ہے:
1. ہم پاکستان کے موجودہ حالات میں سیاسی تکفیر وخروج کے قائل نہیں ہیں۔تکفیر نہ تو اسلام کا کوئی منہاجِ دعوت ہے اور نہ ہی کوئی اُسلوبِِ جہاد۔ بلکہ یہ تو مظلوموں کا ایک سیاسی آلہ ہے اپنی مزاحمت کو تقویت دینے کا، یا اپنی سیاسی دعوت میں تاثیر پیدا کرنے کی ایک کوشش ہےجیسا کہ علامہ محمد ناصر الدین البانی کا یہ موقف مشہور ہے کہ توحید حاکمیت وغیرہ کی بحثیں شریعت سے بڑھ کرپیش نظر سیاسی مصالح ومقاصد کا تقاضا ہیں۔ جہاں تک خروج کی بات ہے تو یہ خلافت ِاسلامیہ کا ایک سیاسی تصور ہے جس کی اُصولاً مشروعیت کے بعداس سلسلے میں بہت سی شرائط اورحکمتیں پیش نظر رکھنا ہوتی ہیں، تاہم پاکستان میں اس وقت خروج کا بھی کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں اگر اسلامی حکومت ہوگی تو اُسی صورت میں خروج کا سوال پیدا ہوگا۔ یوں بھی مزاحمت وانتقام لینے والوں نے اپنی سرگرمیوں کو کبھی خروج سے تعبیر ہی نہیں کیا۔غرض موجودہ حالات میں تکفیر وخروج دونوں ہی غلط منہاج ہیں، اور جن لوگوں کو اِس کا داعی قرار دیا جاتا ہے تو اس اساس پر اپنی دعو ت کو مستحکم کرنے والے غلطی پر ہیں۔ جب ہلاکت وبربریت کا شکار لوگ اپنے دفاع، انتقام اور غصّے کے اظہار کے لئے میدان میں نکل آتے ہیں تواُن کی مزاحمت کو خروج سے تعبیر کرنا ، امریکہ ومغرب نواز اداروں کا کارنامہ ہے تاکہ اس طرح خروج کے بارے شریعتِ اسلامیہ میں موجود سخت احکام وشرائط کا اُنہیں مخاطب بنا کر آخر کار شریعت ِاسلامیہ کی تائید سے محروم کیا جائے۔گویا یہ موقف اور اس کا دفاع دونوں ہی خلطِ مبحث اور فکری ڈپلومیسی کا شاخسانہ ہیں جس کو غیروں نے بلاوجہ ہم پر ٹھونس دیا ہے۔
2. جس طرح ہم جارحانہ مزاحمت کو غلط سمجھتے ہوئے بھی اُن لوگوں سے دلی ہمدردی رکھتے اور ان کے بارے میں انتہائی فکر مند ہیں جو عالمی طاقتوں کے ظلم کا نشانہ بنے ہیں، اسی طرح اپنے ان پاکستانی بھائیوں سے بھی ہم دلی ہمدردی رکھتے ہیں جو امریکی جارحیت کا شکار ہونے والوں کے جوابی غم وغصہ کا شکار ہوئے ہیں۔بعض لوگوں نے سیاسی تکفیر کا جوسلسلہ شروع کیا ہے، تو تکفیر کی یہ سیاسی حکمتِ عملی دراصل ظلم وستم کا ردّعمل ہی ہے اور اپنے اوپر ہونے والے ظلم وستم کا شکار ہونے کی وجہ سے ہمارے تکفیری بھائی مظلوم ومجبور ہیں، چنانچہ ہم اُن کی ہمدردی اور مظلومیت کا اعتراف کرتے ہوئے اُن کے موقف کو غلط سمجھتے اور ان پر ہونے والے استعماری مظالم کے مداوے کی مؤثر تدبیر واقدام کے لئے کوشاں ہیں۔
3. یہ صورتِ حال ہر ملک کے لحاظ سے مختلف ہے۔ پاکستان وافغانستان میں یہ ظلم وستم انتہا درجے پر پہنچا ہوا ہے جبکہ سعودی عرب میں تکفیر کا منہج اختیار کرنے والے ہمدردی کے مستحق بھی نہیں۔سعودی عرب میں جو لوگ اس غلط منہاج کے پیرو ہیں، اُنہیں حکمرانوں میں پائی جانے والی بعض کوتاہیوں پر صبر کرنا اور حکمت وموعظہ حسنہ کے ساتھ اُن کی اصلاح کی مؤدبانہ جستجو کرنا چاہئے۔ اسلام کی رو سے حکمران کے شخصی کردار سے اُس کا وظیفہ حکومت یعنی کارکردگی زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔اور یہ مسلّمہ حقیقت ہے کہ سعودی حکمرانوں نے دنیا بھر کے مسلم ممالک میں نہ صرف سب سے زیادہ اسلام کو اپنے وطن میں نافذکررکھا ہے، اسی خالص اسلام'سلفیت'پر وہ مفتخر ومستقیم ہیں بلکہ عملاً اُن کے ہاں غیرمسلموں سے پائی جانے والی قربت بھی ڈپلومیسی اور عالمی سیاست کا ایک تقاضا اور ضرورت ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ یہی سعودی حکومت ہے جو درحقیقت سعودی عرب کے اندر بلکہ دنیا بھر میں بھی نظری اور فکری طورپر اسلام کی سب سے بڑی محافظ وپشتیبان ہے۔ کیا یہ امر چشم کشا نہیں کہ عالمی سیاست کے میدان میں ایک دوسرے کی بظاہر حلیف ریاستیں(امریکہ وسعودی عرب)نظریاتی طور پر اسلام وکفر کی نمائندہ وقائد ہونے کے ناطے ایک دوسرے کی عین نقیض ومتضاد کھڑی نظر آتی ہیں۔وہاں سے مجاہدین کے مطالبوں کے مطابق امریکی دستے نکل چکے ہیں، اور جس وقت یہ دستے وہاں موجود تھے تب بھی یہ پاک وافغان سرزمین کی طرح کھلم کھلّا دندناتے نہیں پھرتے تھے۔ سعودی حکمرانوں کی شخصی حامیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ، اور نوجوانانِ اُمت کو اُن سے متنفر کرنا، دوسری طرف سعودی معاشرے کی خوبیوں کو نظرانداز کرنا دراصل ملتِ اسلامیہ کے دشمنوں کا طریقۂ واردات ہے۔
4. تکفیر وخروج کے اس مزعومہ منظر نامے کے پانچ مختلف کردار ہیں۔ پہلے کردار'عالمی استعمار' کو ہم اصل مجرم سمجھتے ہیں جو اقتصادی ونظریاتی اہداف کے لئے ملت اسلامیہ کو آسان شکار سمجھ کر اس پر حملہ آور ہے۔اور پاکستان جیسے مسلم ممالک کے حکمران اُن کے مقاصد پورے کرکے ظالم کی مدد اور اپنی قوم و اسلام کے خلاف اقدامات کررہے ہیں۔ یہ حکمران ظالم کے مدد گار اور فاسق وظالم ہیں، لیکن اس کا نتیجہ یہ نہیں نکلتا کہ اُس سے یہ حکمران اسلام سے نکل کر کفر کے دائرے میں داخل ہوچکے ہیں۔ اس لئے ایسے حکمرانوں کو ، جو اس منظرنامے کا دوسرا کردار ہیں، ہم بدترین ظالم قرار دیتے ہیں۔ ان پر کوئی واضح حکم عائد نہ کرنے کی بنیادی وجہ اُن کی طرف سے اپنے اقدامات کی متعدد تاویلات اور بظاہر اسلام کا دعویٰ ہے۔ جہاں تک تیسرا کردار مظلوم سرحدی مسلمان ہیں تو اُن کے ساتھ ملتِ اسلامیہ کی فرنٹ لائن ہونے کے ناطے سنگین زیادتی ہورہی ہے جس کا نتیجہ وہ انتہاپسندانہ اقدامات کی صورت میں دینے پر اس لئے مجبور ہیں کہ اُن کے پاس اپنے سے ظلم کے دفاع کا کوئی راستہ نہیں ہےاور باقی مسلمان بھی اُن کے بارے میں اپنی مدد ونصرت کی ذمہ داری سے غافل ہوکر، اُن کو مغربی میڈیا کا ہم نوا بنتے ہوئے بدترین تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس تیسرے کردار یعنی مظلوم سرحدی مسلمانوں کا تکفیر وبغاوت کا رویہ اختیار کرنا غلط اورغیرشرعی ہے، ایسے ہی اپنے ظالم مسلمان بھائیوں کے خلاف کسی بھی درجہ میں دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث ہونا یا اُن کی تحسین کرنا حکمت ِدین کے تقاضوں کے بھی سراسر خلاف ہے۔اس منظرنامے کے چوتھے کردار علماے پاکستان جو غیرمتاثرہ پاکستانیوں کی ذہن سازی کرتے اور ان مظلوم مسلمانوں کی شرعی رہنمائی کے ذمہ دار ہیں، کا جہاں تک تعلق ہے تو علماے پاکستان کا یہ شرعی فرض ہے کہ اس ظلم کے خاتمے کے جائز راستے تلاش کریں، اس پر مجالس ومباحثے منعقد کریں اور اپنے مظلوم بھائیوں کی اپنے علم وعمل سے بھرپور مدد اور سرپرستی کریں،اس سے قبل کہ یہ ظلم اُن کو بھی اپنے گھیرے میں لے لے اور ان پر ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے اور راستہ سجھانے والا کوئی نہ ہو، اس ظلم کے گرد اپنا گھیرا کس دیں۔چونکہ علماے اسلام اپنی اس ذمہ داری کو پورا نہیں کررہے، اس بنا پر مظلوم مسلمانوں کو اُن سے شکوہ پیدا ہوتا ہے اور وہ اُن علما کو بعض اوقات مرجئہ قرار دے کر، ان سے اظہارِ ناراضگی کرتے ہیں۔ چوتھے کردار: علماے کرام کی کوتاہی اور یہ بدعملی کہ وہ کسی متبادل جائز راستہ کی جدوجہد نہیں کررہے اورعوام الناس کی ذہن سازی نہیں کررہے، کا یہ نتیجہ کہ اُن کو مرجئہ بنادیا جائے،بھی درست نہیں ۔ کیونکہ اِرجا کا تعلق دراصل نظریے سے ہے، نہ کہ عملی کوتاہی سے۔ اگر کوئی مسلمان بہترین اعمال تو کرتا ہو لیکن عقیدتاً عمل بالارکان کو ایمان کا رکن ثالث نہ سمجھتا ہو تو وہ مرجئی ہے، دوسری طرف جو مسلمان عمل کو ایمان کا رکن ثالث تو سمجھتا ہے لیکن شدید عملی کوتاہی کا مرتکب ہے تو وہ خارج از ایمان تو نہیں اورعقیدتاً اہل السنہ والجماعہ میں ہی شامل ہے لیکن وہ ناقص الایمان اور فاسق وفاجر ہے، جیسا کہ ہمارے بہت سے حکمران اسی قسم کے تحت آتے ہیں۔ علما اگر ان پریشان کن حالات میں اپنا فرضِ منصبی ادا نہیں کررہے تو یہ اُن کی بھی زیادتی ہے، جس کی از بس اصلاح ہونی چاہئے۔ پانچواں کردار: عوام المسلمین ہیں جو اسی صورت پر راضی ہوکرمظلوموں پر ہونے والے ظلم پر آنکھیں بند کئے بیٹھے اور اپنے گھر تک آگ کے پہنچنے کا انتظار کررہے ہیں۔ صورتِ واقعہ پر غور کرنے کی بجائے وہ میڈیا کی زبان بول کر دہشت گرد امریکہ کو اپنا خیرخواہ اور اپنے پاکستانی بھائیوں کو 'دہشت گرد' قرار دے کر مطمئن ہوئے بیٹھے ہیں۔
5. الغرض اس منظر نامے کے پانچوں کرداروں یعنی عالمی استعمار جو برائی کی اصل جڑ ہے کا استیصال اور اس کا بھرپور جواب وخاتمہ ازبس ضروری ہے، دفاعِ ملت کے لئے تمام مسلمانوں کو منظم اور ٹھوس حکمتِ عملی فوری بنیادوں پر تشکیل دینی چاہئے... دوسرے کردار: حکمران جو برائی کے معاون وایجنٹ ہیں،ان کے خلاف ہر قسم کی جائز جدوجہد ہونی چاہئے نہ کہ تکفیر کا سیاسی ہتھکنڈا استعمال کیا جائے... مظلوم عوام کے ساتھ ہمدردی اور اُن سے ہونے والے ظلم کے مداوے کی جائز تدبیر تلاش کرنا چاہئے... اور چوتھے کردار: علما کو اپنی مثبت ذمہ داریوں کو تن دہی سے انجام دینا اور شرعی رہنمائی کے لئے مجالس ومباحث منعقد کرنا چاہئیں، اوران فاسق حکمرانوں کی شرعی حیثیت کے بارےمیں متفقہ طورپر فتویٰ جاری کرنا چاہئے۔ جب مسلمانوں کے تمام عناصر کوتاہیوں کا مرقع ہیں تو مسئلہ حل کیسے ہوگا؟... ان حالات میں انتہاپسندی اور تشدد کے رجحانات کو ہی ہوا ملے گی اور معاملہ مزید اُلجھے گا اور یہی منظرنامہ ہماری مشکلات کا سبب ہے!!
6. اندریں حالات پاکستانی عوام اور علما نے اصلاحِ احوال کی کوئی تدبیر نہیں کی، لیکن ان پر ظلم کرنے والا استعماراپنے مختلف النوع اداروں کے ذریعے، علما کو مزید غلط مقاصد کے لئے بروئے کارلارہا ہے۔ یہ استعمار جیسا کہ میڈیا کے ذریعے اپنا ذہن ہر جگہ پھیلا کر قوم کو منتشر کرچکا ہے، اسی طرح یہ بھی چاہتا ہے کہ اپنی جارحیت کے خلاف ایک طرف تو علما میں پائے جانے والے مختلف رجحانات معلوم کرکے، اُن کے سدِباب کی حکمت ِعملی تشکیل دے تو دوسری طرف بحث کے ایسےآغاز سے ، وہ علما کی زبان سے اِن مظلوموں کے خلاف جارحانہ تاثرات حاصل کرنے کا بھی متمنی ہے جس سے یہ تکفیر وبغاوت کے منہج پر عمل پیرا مظلوم مسلمان معاشرے میں مزید اکیلے اور تنہا ہوجائیں۔ راقم مغرب کی زیر اثر این جی اوز جیسے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز وغیرہ کے تکفیر وخروج کے علما کے مابین مباحثوں کو اسی تناظر میں دیکھتا ہے کہ اس سے مغرب کو علما کے رجحانات جاننے اوران کے سدباب کی تیاری کا موقع ملتا ہے، کیونکہ یہ تمام خطابات اور مباحثے استعماری اداروں میں ترجمہ ہوکر پہنچتے ہیں تو دوسری طرف مغرب تکفیر وخروج کے نام پر علما سےمظلوموں کی مدد کی بجائے اُن کی مذمت کا کام لینا چاہتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی مغرب زدہ این جی او کو کسی ایسے فقہی مسئلے کی شرعی حیثیت سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے جس کا مفہوم ومقصدعوام الناس تو کجا خواص کو بھی علم نہیں ہے۔ مغرب یا اس کے زیر اثر اداروں نے کب سے کسی اسلامی فقہی تصور کی شرعی حیثیت کے نکھار کی دینی خدمت انجام دینا شروع کردی ہے؟ دراصل بحث کو اصل پس منظر سے شروع کرنے کی بجائے یہاں سے آغاز کرنے کا اس کے سوا کوئی مقصد نہیں کہ خروج کی مذمت کی احادیث پڑھ پڑھ کر، مظلوم مسلمانوں پر مزید معنوی ظلم وستم بروئے کار لایا جائے۔ علما اگر اِن سے ظلم کے خاتمے کی مؤثر جدوجہد کرنے سے محروم ہیں تومغرب زدہ این جی اوز کے کھلے پیسوں اور فائیو سٹار ہوٹلوں میں ایک دعوتِ طعام وقیام کے نام پر کم ازکم اہل اسلام پر تو معصومیت بھرا ظلم نہ ڈھائیں۔ یہ اسلامی حکمت ِعملی کے منافی اور کلمہ حق کے نام پر باطل کی تائید ہے۔یاد رہے کہ مظلوموں کی نری تکفیر کی مذمت پر اکتفا کرلینا کوئی کامل دینی تقاضا نہیں بلکہ یہاں تک استعمار کا بھی مفادِ مشترک ہے۔ اس کے بعد مثبت راستے کی تلاش، جستجو اور اس کے لئے محنت کرنا اصل مثبت ذمہ داری اور فریضہ ہے جس سے لگاتار انحراف کیا جارہا ہے۔
7. اس اہم ترین قومی بحران کا حل ، علما کو ذمہ دار مباحثوں اور بھرپور اقدامات کے ذریعے دینا چاہئے جیسا کہ اس کی ایک شکل 'دفاعِ پاکستان کونسل' کی شکل میں امریکی جارحیت کی شدید مذمت کی صورت میں سامنے آئی ہے اور امریکہ نے ان پر اظہارِ ناپسندیدگی کرتے ہوئے اپنے سفیر کے ذریعے پاکستانی حکومت سے ان کے خاتمے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔اسی طرح اس سرگرمی سے انتہائی ناراض ہوکر جماعت الدعوۃ کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید اور دیگر رہنماؤں کے سروں کی قیمتیں مقرر کردی ہے۔حافظ صاحب اور دیگر رہنماؤں کے بارے میں امریکہ کا یہ رویہ سراسر دہشت گردی، ہٹ دھرمی اور عالمی قوانین سے مذاق کے مترادف ہے۔یہ کفر کا وہی گٹھ جوڑ اور غم و غصہ ہے جس کی نشاندہی اللہ کے قرآن اور نبیﷺ کے فرمان میں صدیوں پہلے کئی بار کی جا چکی ہے۔ جس مہذب دنیا کی رَٹ لگاتے لگاتے اہل مغرب کی زبانیں نہیں تھکتی تھیں، ان کی تہذیب ومتانت کا بھانڈا اس دہشت مجسم بیان نے بیچ چوراہے کے پھوڑ دیا ہے اور عالمی اداروں ، قومی رہنماؤں کی اس پر خاموشی مجرمانہ تغافل اور ظلم کی خاموش تائید کے سوا کچھ نہیں۔ہماری دعاہے کہ اللہ تعالیٰ اس کونسل کے مقاصد واہداف اور مساعی کو اسلام کے لئے خالص ویکسو کرے۔امریکہ کا یہ اقدام اس حقیقت کو بھانپ لینے کا نتیجہ ہے کہ اگر یہ دفاع پاکستان کانفرنسیں جاری رہیں تو پوری قوم آخر کار امریکی وبھارتی مکارانہ سازشوں کے مقابل کھڑی ہو سکتی ہےاور اس وقت امریکہ اور اُس کی جارحیت کے شکار افغانی وسرحدی مسلمانوں سے مجرمانہ غفلت برتنے والی پوری پاکستانی قوم کا وَزن اور وِژن امریکہ مخالف پلڑے میں پڑ سکتا ہے۔ امریکہ کی یہ دھمکیاں گیڈر بھبکیوں سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں اور آخر کاراللہ کی تدبیر کو ہی غالب ہونا او رباطل کو سرنگوں ہوکررہناہے۔ سیاسی جلوسوں سے آگے بڑھتے ہوئے،سنجیدہ حکمت ِعملی، متاثرہ علاقوں میں آمد ورفت، ان کے مسائل سے آگہی، اور اُنکے حل کے لئے مؤثر لائحہ عمل کی تشکیل وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جس کی طر ف فوری توجہ کی جانی چاہئے۔
8. اربابِ دانش اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ موجودہ پریشان کن حالات پر قابو پانے کے لئے طویل جدوجہد کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ کی ملتِ اسلامیہ کی اُصولی تائید کے وعدے کے ساتھ،تکوینی طورپرفوز وفلاح کے لئے ملتِ اسلامیہ کو کلّی اتفاق سے ٹھوس عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔دوسو سال سے ملتِ کفر کا گٹھ جوڑ اور اہل اسلام کی مسلسل نادانیاں اور بے اتفاقیاں اہل اسلام کو اس مقام پر لے آئی ہیں کہ چند دنوں میں ظلم کا مداوا اور جارحیت کا کلّی خاتمہ ایک طفلانہ خواہش سے زیادہ کچھ نہیں۔ اگر اللہ کی یہ سنت ہوتی تو چند روز میں اللہ تعالیٰ محض عظیم قوتِ ایمانی کی بدولت دنیا کی سب سے عظیم ومقرب جماعت،صحابہ کرام کو جزیرہ عرب پر غلبہ عطا کرسکتے تھے، لیکن اس کے لئے اُنہیں نبی کریمﷺ کی سیاسی قیادت میں سالہا سال جستجو کرکے قربانیوں کی داستانیں رقم کرنا پڑیں ۔آج بھی صلح حدیبیہ کی طرح اُمتِ محمدیہ کو پرامن وقت لے کر، اپنی اجتماعیت اور قوت کو متحد کرنے کی منظم منصوبہ بندی کرنا ہوگی، تب ہی ملت اسلامیہ کے موجودہ زوال کا خاتمہ اور کفر کا استیصال ممکن ہوسکے گا۔
9. تکفیر وخروج کے اس منظر نامے میں تاویلات وشبہات کی اس قدر بھرمار ہے کہ کوئی فرد یا گروہ اپنے تیئں کسی دوسرے فریق پر شرعی حکم لگانے کا مجاز نہیں ، اس موقع پر وقت کی ضرورت یہ ہے کہ علماے کرام غفلت کی تنی چادر اُتار کر، ان مسائل کے بارے میں کلّی اتفاق سے ایک موقف طے کرکے عوام کی رہنمائی کریں۔ اگر امریکی جارحیت ختم ہونے میں نہیں آتی ، اہل اسلام کا خون بہے جارہا ہے ، حکومت اپنی ذمہ داریوں سے غافل اور باہمی مفادات کی کھینچا تانی سے ہی فرصت نہیں پاتی، تو مظلوم مسلمان کیا لائحہ عمل اختیار کریں؟ دیگر مسلمانوں کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟ اس ظلم کے معاونین سے کیا سلوک اور برتاؤ کیا جائے؟اس نوعیت کے کئی ایک سوال جو شریعت کی مہارت کے ساتھ احوال ووقائع سے واقفیت اور شرعی حکمت وبصیرت کے متقاضی ہیں، ان کا فیصلہ علماے پاکستان کا باہمی اتفاق ہی کرسکتا ہے۔ حکمران تاویلات کے پردے اور نظریۂ ضرورت کے تحت وہ سب کچھ کررہے ہیں جو کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا، کیا وہ تاویل وتوجیہ کے نام پر ہر طرح کا کھیل کھیلنے میں آزاد ہیں؟ یہ پرآشوب حالات علما سے چیخ چیخ کراپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں، بصورتِ دیگریہ فکر ی انتشار بڑھتا رہے گا اور ملتِ محمدیہ آپس میں ہی برسرپیکارہوتی جائے گی، اور اس فکری انتشار سے کفر یہی فائدہ اُٹھانا چاہتا ہے اور وہ اس میں بظاہر کامیاب نظر آتا ہے!!
حوالہ جات
1. تکفیر سے مراد 'کسی مسلمان کوکافر قرار' دینا ہے۔موجودہ دور میں مسلمانوں کے حکمرانوں کو کفار سے دوستی، اہل اسلام پر زیادتی، شریعتِ الٰہیہ کی بجائے انسانوں کے بنائے قوانین کو نافذ کرنا، دین کا استہزا کرنا اور اسے طعن وتشنیع کا نشانہ بنانا یا اپنے شرعی فرائض کو انجام دینے میں مجرمانہ غفلت کرنا وغیرہ کی بنا پر اُن کی تکفیر کی جارہی ہے۔'خروج' سےمراد مسلمانوں کااپنے حکمران کی اطاعت چھوڑ دینا، اُس کے خلاف آواز اُٹھانا اوربعض انتہائی صورتوں میں اپنے حکمرانوں کے خلاف کھلم کھلا جنگ وقتال کرنا اور اسے معزول کرنے کی جدوجہد کرنا وغیرہ