آہ ! اُستاذی... مولانا عبد الرشید اظہر رحمہ اللہ

ڈاکٹر مولانا عبد الرشید اظہر ﷫‏سے طویل عرصہ علم وتربیت کا فیض پانے والی محترمہ امّ عبد الربّ جنہیں عوامی حلقوں میں 'باجی فوزیہ 'کے نام سے جانا جاتا ہے،نے اس مضمون میں اپنی گزری یادیں سپردِ قلم کی ہیں۔اپنے اُستاد کے رویّہ، مزاج، علمی ذوق اور دینی جذبات ورجحانات کا اس میں جابجا اظہار موجود ہے۔اس تحریر میں بہت سی ذاتی یادداشتیں بھی آگئی ہیں جنہیں اس بنا پر نذرِ قارئین کیا جارہا ہے کہ راقمہ محترمہ بھی دینی حلقوں میں اپنی نمایاں خدمات کی بنا پر جانی پہچانی جاتی ہیں۔لاہور میں خواتین کا معروف دینی ادارہ'مدرسہ تدریس القرآن والحدیث'دودہائیوں سے اُن ہی کے زیر انتظام اور اب زیر سرپرستی چل رہا ہے۔ اُن کا گھرانہ علم وفضل کا مرکز ہے ، اس تحریر میں ان کے والدِ گرامی صاحبِ تیسیر القرآن مولانا عبدالرحمٰن کیلانی﷫ کے علاوہ متعدد علماے کرام سے دینی روابط کا ذکر بھی موجود ہے جن میں بہت سے اب دنیا سے تشریف لے جاچکے ہیں۔'محدث' کے مدیر اعلیٰ حافظ عبد الرحمٰن مدنی﷾ نے خواتین کی تعلیم وتربیت بالخصوص عقیدہ وفقہ میں جو پروگرام تشکیل دیے، ان کا تذکرہ بھی ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر خواتین کو قرآن وحدیث کےتراجم پڑھا دینے پر اکتفا کیا جاتا ہے اور ان میں علمی اِستدلال کے اَسالیب وضوابط کے بارے میں کم توجہ دی جاتی ہے۔ اس بنا پر یہ مضمون مولانا مرحوم کی یادوں کے ساتھ ساتھ حافظ مدنی ﷾ کی خواتین اساتذہ کی بصیرت کے لئے تربیتی پروگرام کی جھلک بھی پیش کررہا ہے جن کو ترتیب دے کر اُنہوں نے مولانا حافظ عبد الرشید اظہر﷫کو مکلف بنایا تھا جو اس وقت جامعہ لاہور اسلامیہ میں مبعوث تھے۔ اللہ تعالیٰ مولانا عبد الرشید اظہر ﷫کے اعمالِ صالحہ کو درجہ قبولیت سے نوازکراُنہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ جن علما کا ذکر خیر ہوا ہے، ان کو بھی اعلیٰ علیین میں مناصب مرحمت فرمائے اور دینی تعلیم وتربیت کے ان سلسلوں کو قائم ودائم اور شاد رکھے۔ ح م
فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالمنان نور پوری نوّر اللہ مرقدہ کی وفات کے تذکرے سے ابھی زبانیں فارع نہیں ہوئی تھیں، دل ابھی اسی صدمے سے سنبھل نہ پائے تھے، تعزیت کا سلسلہ جاری تھا کہ ایک اور ایسا حادثہ جانکاہ پیش آگیا جس سے سنبھلنے میں شاید عمر درکار ہو، زندگی کا روگ بن جانے والے صدمات میں ایک اور جانکاہ صدمے کا اضافہ ہوا۔ اور وہ تھا اُستادِ مکرم حافظ عبد الرشید اظہر ﷫کی ناگہانی اور مظلومانہ وفات کا دکھ!
17؍ مارچ 2012ء بروز ہفتہ،مغرب کے بعد اسلام آباد جی 6 کی مرکزی مسجد اہلحدیث میں قرآن کلاس تھی جس میں ہم سب اہل و عیال سمیت شریک تھے۔ موبائل سائلنٹ پرتھا لیکن نظروں کے سامنے7:43 سے موبائل پر مختلف نمبر وں سے کالیں آنا شروع ہوئیں جنہیں میں نظر انداز کرتی رہی، پھر پیغام آنے شروع ہوگئے۔ پیغام پڑھ کر تو میرے پاؤں تلے زمین ہی کھسک گئی۔ فوری طور پر حافظ صاحب، پھر اُن کی اہلیہ ، ان کی بیٹی کا فون ملایا۔ حافظ صاحب اور اُن کی اہلیہ کا نمبر بند تھا۔ مگر بیٹی کا فون جس نے سنا، وہ رو رَہی تھیں جس سے اس جانکاہ خبر کی تصدیق ہوگئی جسے ماننے سے ہمیشہ ہی جذبات نے انکار کیا ہے۔
اتنی دیر میں ابوعبدالربّ انجینئر عبد القدوس سلفی کا پیغام بھی مل چکا تھا کہ باہر نکلو، چلیں۔ گاڑی میں بیٹھے اور گاڑی آئی 10 میں حافظ عبدالرشید صاحب کی رہائش گاہ کی طرف موڑ دی۔ بچوں سمیت حافظ صاحب کے گھر پہنچ گئے۔ گھر میں پولیس پہنچ چکی تھی اور ضابطے کی کارروائیوں میں مصروف تھی۔ مظلومانہ ہلاکت پر شور شرابا، ہائے وائے، رونا دھونا... جماعتی احباب جمع تھے اور اپنے اپنے قیافے،اندازے لگائےجارہے تھے او رمیں سوچ رہی تھی کہ جو سانحہ گزر چکا، اب اس کا ازالہ تو ممکن نہیں۔ اب ان باتوں سے کیا حاصل.....؟ جو کچھ بھی کرلیا جائے، اسلام کا نظامِ قصاص تو پاکستان میں ہے نہیں کہ جو 'حیات آور' ہو ۔جب حیاۃ نہیں تو پھر'مماۃ ہی مماۃ' ہے۔ سانپ نکل جانے کے بعد لکیر پیٹنے کا کیا فائدہ؟ افسوس کہ ابھی تک ہمارا قومی و دینی شعور اتنا پختہ نہیں ہوپایا کہ ہم اس طرح کے نقصانات کروا کے بس وقتی ہنگامہ آرائی، شور شرابا، احتجاج اور غل غپاڑہ کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم شاید اپنے ملّی وجماعتی فریضے سے عہدہ برا ہوچکے...!
حافظ صاحب سے سلسلۂ تلمذ
حافظ عبدالرشید اظہر صاحب﷫ رحمۃ واسعۃًکے ساتھ تعلق ربع صدی سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ یہ 8019ء کی دہائی کی بات ہے۔ شاید 84ء یا 85ء کی بات ہو جب وفاق المدارس السّلفیہ کا قیام عمل میں آیا اور تمام مدارس کی رجسٹریشن ہورہی تھی۔ وفاق کے تحت علماے کرام امتحان دے کر الشهادة العالميةکی اسناد حاصل کررہے تھے۔ دین کی ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناطے ہمارا بھی امتحان ہوا۔ بڑی باجی (باجی رضیہ مدنی اہلیہ حافظ عبدالرحمٰن مدنی﷾) اور راقمہ آثمہ ہم دو ہی امتحان دینے والے تھے۔ انٹرویو کے دوران میں ایک سوال میں اُلجھ گئی۔ عقیدہ کی بحثیں شروع ہوئیں، توحید کی تین اقسام تو خیر ادھر اُدھر سے پڑھ رکھی تھیں مگر اسماء و صفات کی دقیق بحثیں معلوم نہ تھیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جب تک مدینہ یونیورسٹی کے فاضلین کا غلغلہ نہیں ہوا تھا اور مدنی علم پاک و ہند میں نہ پہنچا تھا تو روایتی دینی علوم کے باوجود علم العقیدہ کا کچھ اتنا تذکرہ سنا ہی نہ تھا۔ شاہ اسمٰعیل دہلوی﷫ کی 'تقویۃ الایمان' ہی اس موضوع پر ہمارے علوم کا منتہیٰ تھی۔ کچھ کچھ شیخ محمد بن عبدالوہاب کی 'کتاب التوحید'سے بھی تعلق خاطر تھا۔
انٹرویو پینل میں ایک صاحب نے سوال کیا: ''اللہ ربّ العزت کہاں پر ہیں؟'' جواب دیا:﴿الرَّ‌حمـٰنُ عَلَى العَر‌شِ استَوىٰ ٥ ﴾.... طه" سوال ہوا: ''کرسی کیا ہے، اس کا کیامفہوم ہے؟'' ﴿وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ﴾کا جواب دیا کہ اللہ کی کرسی نے زمین و آسمان کو گھیر رکھا ہے۔ سوال ہوا: ''کرسی اور عرش کا باہمی تعلق کیاہے؟'' کرسی بڑی ہے یا عرش؟ کرسی اوپر ہے یا عرش؟ اب میں ناقص العلم کہوں کہ عرش کے اوپر تو اللہ ہیں ، اللہ سے اوپر کچھ نہیں مگر کرسی کا کیا کروں، اس پر تو بیٹھتے ہیں۔ اللہ تو عرش پر ہیں پھر کرسی کہاں ہے؟میں اسی میں اُلجھ گئی اور خالی الذہن ہو کر سوچتی رہی اور مجھے کچھ جواب معلوم نہ تھا سوائے تُک بندی کے؛ سو مجھے کہا گیا کہ بی بی آپ کا عقیدہ کمزور ہے۔
میں بے چاری جو سمجھتی تھی کہ میرے جیسا پکے ٹھکے عقیدے والا موحد اہلحدیث اور وہابی شاید کوئی ہے ہی نہیں، منہ لٹکا کر واپس آگئی کہ میرا عقیدہ کمزور ہے! اللہ بھلا کرے حافظ عبدالرحمٰن مدنی صاحب کا کہ اُنہوں نے ہمارے عقیدے کی مضبوطی کا بندوبست کیا کہ اسے انتہائی پختہ ہونا چاہیے اور میں اپنے زیر انتظام مدرسہ 'مدرسہ تدریس القرآن والحدیث 'کی معاونات او راساتذہ سمیت عقیدہ پڑھنے لگ گئی۔
عقیدے میں مجھے مضبوط کرنے والے صاحب تھے:حافظ عبدالرشید اظہر جو ان دنوں مکتب الدعوۃ کے گارڈن ٹاؤن، لاہور میں واقع دفتر میں بطورِ مبعوث کام کرتے تھے اورجامعہ لاہور اسلامیہ میں بطورِ اُستاد پڑھا بھی رہے تھے۔میرے بہنوئی محترم مدنی صاحب ﷾کی مہربانی سے ایک گاڑی روزانہ وسن پورہ سے ہم 8 طالبات کو نمازِ فجر کے بعد لےکر ماڈل ٹاؤن پہنچتی او ردو گھنٹے کلاس ہوتی جس میں باجی رضیہ مدنی او رمیرے علاوہ مدرسہ تدریس القرآن والحدیث، وسن پورہ کی آٹھ اساتذہ شامل تھیں۔ ہم نے آٹھ دن میں حافظ صاحب سے 'عقیدہ اہل السنۃ والجماعۃ' سبقاً سبقاً پڑھا۔ آٹھویں دن امتحان دیا، روزانہ کا ہوم ورک بھی ملتا تھا۔ ڈٹ کر کلاس پڑھی اور ایسی پڑھی کہ پھر اس کے بعد حافظ صاحب سے تعلیم و تعلّم کا جو تعلق بنا، وہ اتنا طویل ہےکہ اس تذکرے کو بیان کرنا انسان کے بس سے باہر ہے۔
یہ سلسلسہ تب سے ایں دم ہے کہ حافظ صاحب سے جو آخری سبق میں نے اُن کی زندگی میں پڑھا ، وہ 10 مارچ 2012ءکا تھا۔ میں،ابوعبدالربّ اور میر ی عزیز دوست مصباح عبدالستار شرکائے کلاس تھے اور پچھلے تین ہفتے سے متواتر اُن کے قیمتی لمحات سے اپنا حصہ وصول کررہے تھے۔ شروع کے کچھ اسباق ہم زوجین نے پڑھے، پھرمصباح عبدالستار بھی شریک سبق ہوگئیں۔
1985ء میں عقیدہ پڑھنے کے کچھ ہی دنوں بعد کا واقعہ ہے کہ میرے بھائی حافظ عتیق الرحمٰن کیلانی جو انجینئرنگ یونیورسٹی لاہو رمیں پڑھتے تھے اور'سلفیہ رائزنگ انجینئرز' کے نام سے اہل حدیث طلبہ کی تنظیم میں وہ مرکزی کردار ادا کیا کرتے۔اس تنظیم نے اپنا ایک پروگرام منعقد کیا جس میں مکتب الدعوۃ کے ڈائرکٹر کو بطورِ مہمان بلایا گیا تھا۔ اس سعودی مہمان کے خطبہ صدارت کا اُردو ترجمہ کرنے کے لیے اُن کے ساتھ ایک صاحب تھے۔یونیورسٹی کے اس ماحول میں جہاں طلبہ کو عربی کی ذرا بھی شُد بد نہ تھی، اس مہمان کے ترجمان کی روانی بیان ، شگفتگی، سلاست اور فی البدیہہ ترجمانی نے طالب علموں کو بہت متاثر کیا۔گھر آکر بھائی نے اس تقریب کا جو حال سنایا اور خوب مزے لے لے کر سنایا کہ اس تقریب کی روداد میں جو چیز اہم تھی وہ 'مترجم' تھا، کیا بات تھی اس کی؟ یہ دوسرا تعارف تھا اُستاذی محترمی مکرمی حافظ عبدالرشید اظہر﷫ کا۔
آج جب میں عقیدہ کلاس (جو میری زندگی اور خصوصاً طالب علمانہ دور میں بہت اہمیت کی حامل ہے)کو یاد کرنے بیٹھی ہوں تو میرے غم مجھ پر ہجوم1 کرکے آرہے ہیں ۔یہ عقیدہ کلاس میری زندگی کا اہم ترین موڑ تھی۔ جس کو سمجھنے کے لیے مجھے اپنا تھوڑا سا پس منظر بتانا پڑے گا ۔ اگر اس کو خود نمائی یا خود رائی پر محمول نہ کیا جائے بلکہ اظہارِ احوال کے لیےاس کی ضرورت کو سمجھا جائے تو یہ بتانا فائدہ مند ہوگا کہ میں والد محترم مولانا عبد الرحمن کیلانی﷫ کی اولاد میں سب سے چھوٹی ، لاڈلی اور والدین کے فیض سے سب سے زیادہ حصہ وصول کرنے والی تھی۔ خصوصاً والدہ محترمہ کی تو میں بہت مقروض ہوں۔ اللہ مجھے اخلاص و محبت کے ساتھ اُن کے حقوق کو سمجھنے، تسلیم کرنے اور ادا کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین!
والدہ صاحب نے اسکول داخل کروایا توبنیادی تعلیم گھر میں دے چکی تھیں مثلاً ناظرہ قرآن، نماز، ادعیہ ترجمہ سمیت یاد کروا رکھی تھی ۔ اُردو لکھنا پڑھنا حتیٰ کہ مجھے اس عمر میں مسدس حالی بڑی سمجھا کر پڑھاتیں او راس کے اشعار میرے ساتھ مل کر زبانی تکرار سے دُہرایا کرتیں کہ میں اُنہیں یاد ہی کرلوں۔ اسلامی تاریخ کے اَحوال و واقعات جہادی پس منظر کےساتھ سناتیں ۔ چھ سات سال کی عمر میں مجھے تیسری کلاس میں داخل کروایا تو میں سکول میں کم عمر ترین فرسٹ آنے والی طالبہ تھی۔ چھٹی کلاس سے سکول سے اُٹھوا کر قرآن حفظ کرایا او رپھر آٹھویں کلاس میں داخل کرا دیا۔ میٹرک میں بورڈ میں ٹاپ کیا۔ الحمدللہ!
سکول جانے کے دوران والدہ محترمہ نے ایک دفعہ تذکرہ کیا کہ میں بچے پڑھا پڑھا کر تھک گئی ہوں، اب مجھ سے یہ خدمت نہیں ہوتی تو میں نے کالج پڑھنے کا خیال بھی دل سے نکال دیا۔میٹرک کے بعد دنیاوی تعلیم پرائیویٹ طور پر ساتھ ساتھ چلتی رہی مگر اس زندگی کا مجھے جو فائدہ حاصل ہوا، وہ یہ تھا کہ الحمدللہ مجھے دینی تعلیم کے لیے اپنے وقت کے بہترین اساتذہ سے کسب ِ فیض کا موقع ملا۔
یہاں پر ایک اَہم ترین شخصیت مصباح بنت عبدالستار صاحبہ (شیخ محمد وسیم صاحب کی بہن اور شیخ محمد نعیم مرحوم کی زوجہ) کا تذکرہ میرے لیے ناگزیر ہے۔ یہ میری دینی تعلیم کی اوّل و آخر ساتھی رہی ہیں۔ حتیٰ کہ حافظ صاحب مرحوم کی زندگی کے آخری ایام میں ہم نے جو سبق پڑھے ہیں، یہ اُن میں بھی شریک تھیں او رہمارا ساتھ ہمیشہ سے قابل رشک رہا ہے۔ والدین، اقربا، اعزا، اساتذہ سبھی کی طرف سے اس صحبت کی وجہ سے ہمیں ستائش ملی۔حتیٰ کہ شادی کے بعد بھی بلا انقطاع یہ ساتھ نبھتا رہا۔ 2000ء کے آخر تک میں شادی کے باوجود 'مدرسہ تدریس القرآن والحدیث'کی انتظامی و تدریسی ذمہ داریوں کی وجہ سے لاہور ہی میں قیام پذیر رہی۔ اس دوران محض دو تین سال کے لئے مصباح اپنے شوہر کی رفاقت میں لاہور سے باہر رہیں۔ پھر مستقلاً لاہور مدرسہ کے جوار میں منتقل ہوگئیں اور مدرسہ کو ہم دونوں کی خدمات میسر رہیں۔اب 2000ء میں اسلام آباد منتقل ہونے کے بعد وہ مدرسہ کی مدیرہ کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں او ردور بیٹھ کر جو خیر مجھ سے ہوسکتی ہے، میں بھی پورا کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ والحمد لله على ذلك!
گھر میں امی جان سے جوکچھ پڑھنا ممکن تھا، پڑھا اور ان کی نگرانی میں پڑھانا بھی شروع کردیا۔ محترمہ باجی عطیہ انعام الٰہی رانا (اُمّ عثمان) صاحبہ سے مشکوٰۃ المصابیح اور کچھ عربی گرامر پڑھی۔ مولانا عبدالغفور صاحب (خطیب جامع مسجد توحید عامر روڈ شادباغ لاہور) سے سنن نسائی او رصحیح مسلم پڑھیں۔مولانا ابوبکر الصدیق سلفی صاحب (خطیب جامع مسجد نجم، مدیر 'الاعتصام') سے بخاری سبقاً سبقا پڑھیں۔مدرسہ تدریس القرآن والحدیث کی مدیرہ ہونے کے ناطے بہت سے علماے کرام سے رابطہ رہتا اور شرفِ فیض ہوتا رہتا۔ بہت سے علماے کرام سے باضابطہ نہیں تو بے ضابطہ درس و تدریس، فہم و تفہیم اور اخذ مسائل کا تعلق رہتا۔
مثلاً حافظ یحییٰ میر محمدی ﷫ سے تربیت و تعلّم کا بہت حصہ حاصل کیا ۔ الحمدللہ جمعہ گاہے بگاہے بھائی پھیرو پڑھنے کی سعادت حاصل ہوتی۔ او ریہ نیکی اللہ غریق رحمت کرے عموماً شیخ محمد یونس صاحب مرحوم (علامہ احسان الٰہی ظہیر﷫کے سمدھی) او رمصباح کے والد شیخ عبدالستار صاحب مرحوم کے حصے آتی کہ وہ ہمیں لے جاتے او رلے آتے۔ یہاں پر حافظ صاحب ایک طرف ہمیں عموماً موقعہ دیا کرتے کہ ہم خواتین تک اللہ کا پیغام پہنچائیں اور دوسری طرف خود مخصوص وقت عنایت فرمایا کرتے جس میں تعلیم و تعلّم مسائل کا پوچھنا اور مناقشہ شامل ہوتا۔ جب کبھی لاہور میں کوئی پروگرام ہوتا تو خصوصی وقت عنایت فرماتے اور مدرسہ تدریس القرآن والحدیث (نزد نجم مسجد) کی عمارت میں اُن سے پڑھنا زندگی کی خوشگوار یادوں میں سے ہے۔ حافظ صاحب انتہائی محبت اور شفقت کا اظہار فرمایا کرتے۔اللهم أدخله جنة الفردوس۔ آمین!
انہی بزرگانِ دین کے تذکرے میں مولانا یحییٰ شرقپوری صاحب ، حکیم عبدالرحمٰن خلیق آف بدوملہی صاحب بھی آتے ہیں۔ خواتین کے مدارس اور پروگراموں کے سلسلے میں ان سے بھی رابطہ رہتا۔ مولانا عزیز زبیدی صاحب (آف منڈی واربرٹن) سے کچھ عرصہ بحیثیتِ اُستاذ مدرسہ تدریس القرآن والحدیث میں بھی سیکھنے کا تعلق رہا۔
علامہ احسان الٰہی ظہیر﷫ کو بھی بوقتِ ضرورت فون کرکے مسائل پوچھ لیا کرتی۔ ان میں سے مؤخر الذکر کے علاوہ ہر ایک سے انتہائی شفقت، محبت، احترام اور عزت پائی۔ علامہ صاحب سے بات ہوتی تو وہ اپنے دبنگ لہجے میں غلطیاں نکالا کرتے:تلفظ کی، اعراب کی، لہجے کی، فہم کی، منہج کی اور سیاست کی۔ بہرحال وہ اپنے طور پر نہ صرف عالم دین بلکہ لیڈر اور خطیبانہ شخصیت ہونے کی وجہ سے اپنا ایک الگ سٹائل رکھتے تھے جس سے محظوظ ہونے اور فیض پانے کی وجہ سے پھر بھی اُن سے رابطہ کرلیتی۔ مگر بقیہ تمام علما کی شفقتوں کی وجہ سے اپنے علم کے بارے میں خوش فہمی کا بھی شکار تھی۔ حفظ و تجوید میں قاری جعفر صادق صاحب آف ٹھینگ موڑ اور اُستاذ القرا ء ادریس عاصم سے بھی فیض پایا۔
اسی دور میں مجھے گورنر ہاؤس میں اس وقت کے گورنر غلام جیلانی نے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی بھی عطا کیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم کی سیرت کانفرنس میں بھی سرکاری طور پر مدعو کیا گیا تو اس سے میری خوش فہمی اور بے جا اعتماد میں کافی اضافہ ہوا۔
حافظ عبد الرشید اظہر صاحب کی میرے ساتھ سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ وہ مجھے فوق الثریا سے تحت الثریٰ تک لائے۔علم اخذ کرنے کا طریقہ، علماء کااحترام و ادب بزرگوں کے بارے میں حفظِ مراتب کا دھیان رکھنا اپنے فہم و استنباط پر علماے سلف سے حجت پکڑنے کے بعد اس کا تذکرہ کرنا، کسی بھی مسئلے پر انتہائی غوروخوض کے بعد رائے قائم کرنا اور پھر اپنی رائےپر اصرار نہ کرنا بلکہ دوسروں کی رائے اپنے موقف کے خلاف بھی ہو تو اسے برداشت کرنا، دلائل کی قوت سے بات کرنا او راسی طرح بہت کچھ جس نے میری تربیت کی۔ مجھے تحمل و ادب سکھایا، اپنی ذات کا عرفان عطا کیا۔ اللہ سے قربت، دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا فکر، عقیدے کی پختگی، فکر کی راستی، زہد، دوسروں کا احترام او راُنہیں وقعت دینا، ان کے لیے اپنے مال و وقت کا حصہ نکالنا سکھایا۔ اُن سے تعلق کے دوران ان سے بہت کچھ پڑھا، بہت کچھ سیکھا اور بہت ساری تربیت حاصل کی جو لفظوں کی نہیں، عمل کی تھی۔
عقیدہ کی مختصر کتاب پڑھانے کے بعد اُنہوں نے کہا: جاؤ اب خود سے شرح عقیدہ طحاویہ پڑھو، اس کی فلسفیانہ بحثیں چھوڑ کر باقی تمہیں سمجھ آجائے گا۔ پھر ہم نے پڑھا او رجو سمجھ نہ آیا، ان سے پوچھ لیا۔ جب بھی موقع ملا اُنہیں سکھانے کے لیے خندہ رُو اورکشادہ دل پایا ۔ فرمایا کرتے : پوچھو پوچھو یہی پڑھانے بتانے کے تو میں پیسے لیتاہوں( یہ اُن کا اپنے سعودی مبعوث ہونے کی طرف اشارہ تھا) پھر کیوں نہ بتاؤں ؟ یہ بھی ان کی عالی ظرفی تھی کہ کھلے دل سے تسلیم کرتے بلکہ دوسروں کے سامنے اظہار بھی کرتے کہ یہ میرا فرضِ منصبی ہے کوئی احسان نہیں، ورنہ اکثر علما اعزازیہ وصول کرکے بھی نہ صرف بندوں پر بلکہ بسا اوقات اللہ پر احسان چڑھا رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے ہی دین کی عمارت تھام رکھی ہے۔
کہا کرتے کہ کتاب لے کر جب بھی کوئی آجائے تو میں انکار نہیں کرسکتا لہٰذا میں ان لوگوں میں سے ہونے کی کوشش کرتی کہ کتاب لے کر جب موقع ملے پہنچ جاؤں او رمجھے ان کی طرف سے کبھی کم ظرفی کا سامنا نہ کرنا پڑا۔
انہی سالوں میں عقیدہ کے بعد اُنہوں نے 'تسهیل الوصول إلی فهم علم الأصول' ( جو شیخ عطیہ محمد سالم ، عبدالمحسن بن حمد العباد اور حمود بن عقلا، اساتذہ مدینہ یونیورسٹی کی تالیف ہے) بہت محنت اور توجہ سے پڑھائی۔ شاید ہم پڑھنے کا حق ادا کر پائے کہ نہیں۔ فرمایا کرتے اب محنت کرو تو 'الوجیز' پڑھا سکتا ہوں۔
یہ اَسباق اب جامعہ لاہور اسلامیہ گارڈن ٹاؤن کی بجائے مدرسہ تدریس القرآن وسن پورہ میں ہونے لگے او ران میں حافظ عبدالرحمٰن مدنی ﷾ کا تعاون ہر لمحہ شریکِ حال رہا کہ ان کی گاڑی حافظ صاحب کو قینچی سے وسن پورہ لانے لے جانے کی ڈیوٹی دیتی رہی۔ خصوصاً باجی رضیہ مدنی صاحبہ ، اہلیہ حافظ عبدالرحمٰن مدنی بھی ماڈل ٹاؤن سے ان سبقوں کے لیے تشریف لاتیں۔ ہمارے یہ اسباق الحمدللہ روز بروز ترقی کرتے جارہےتھے کہ ان کے شرکا میں اضافہ ہونے لگا۔ میرے بڑے بھائی ڈاکٹر حافظ شفیق الرحمٰن کیلانی، محترم عبدالقدوس سلفی (زوجی المحترم)، محترم شیخ نعیم (زوج مصباح) وغیرہم بھی ان اسباق میں عموماً شریک ہونے لگے۔ گاہے بگاہے والد صاحب مولانا عبد الرحمن کیلانی بھی اپنی کسی تصنیف یا مقالہ کے حوالہ جات یانقطہ نظر پر بحث کے لیے تشریف لے آتے۔ والدہ محترمہ بھی جب فراغت پاتیں تو ضرور اپنے ذوق کی آبیاری کے لیے آبیٹھتیں۔ مدرسہ کی دیگر تلامذہ میں سے جوکوئی بھی ذوق رکھتی، وہ بھی ضرور آکے بیٹھتی او رمیں ان کی حوصلہ افزائی کرتی۔ پڑھنے والی تقریباً سبھی شاگردیں تھیں۔ ان کے درمیان حافظ صاحب میری خوب اچھی طرح کلاس لیاکرتے اور خوب دھنائی اور صفائی کیا کرتے، ذرا سی کوئی غلطی ہوتی تو فرماتے استغفراللہ کس قدر رحم آتا ہے ان بچیوں پر جنہیں آپ جیسااُستاد مل گیا ، کیا ان بچیوں کا مبلغ علم یہی ہے؟ اور پھر میری اصلاح کا سلسلہ شروع ہوجاتا.......
پڑھائی کے دوران ، غالباً1987ء کی بات ہے کہ میں ایک دفعہ کہہ بیٹھی کہ یہ چیز پڑھ لیتے ہیں، میرے ایم اے کی نصاب میں بھی ہے۔ اس کے بعد کچھ بھی پڑھاتے تو طنزاً ایم اے کا ذکر ضرور کرتے اور ضرور حوالہ دیتے کہ شاید تمہارے کچھ نمبر مزید آجائیں، ان دنیاوی ڈگریوں پر ہلکا طنز بھی کرتے اور اس ڈگری فوبیا کو ضرور رگڑتے۔
ان دنوں لاہور ریڈیو پر خواتین کے لیے ایک دینی پروگرام'متنجن' کے نام سے چلتا تھا پانچ منٹ کا لیکچر ہوتا تھا۔ میں اس پروگرام کی میزبان تھی اور علماء سے اس کی شرعی حیثیت بھی پوچھ رہی تھی؟ الإثم ماحاك في صدرك کے مصداق اگرچہ بہت سے مفتیانِ کرام اس کے حق میں بے شمار دلائل رکھتے او رمجھے ملتے بھی رہتے مگر میرے دل کی کھٹک نہ گئی تو حافظ صاحب سے پوچھا۔ اُنہوں نے جو کہا مجھے کبھی نہیں بھولا اور میں نے اس کا تذکرہ اپنی کتاب 'ٹی وی کے نقصانات'میں بھی کیا ہے۔
کہنے لگے: الیکٹرانک میڈیا سارا ہی شیطان کا کاروبار ہے۔ جیسے ایک گھاگھ بیوپاری اپنی دکان میں ہر چیز رکھتاہے، (ڈیپارٹمنٹل سٹور یا ایک چھت تلے ہر چیز ملنے والی دکانیں جن کا آج کل بہت رجحان ہے) اس طرح شیطان اپنی دکان میں ہر طرح کے بندوں کو پھانسنے کا سامان رکھتا ہے۔ تجوید کے طالب علموں کے لیے قرا حضرات کا لیکچر، مذہبی رجحانات رکھنے والوں کے لیے علما، سائنس کے طالب علموں کے لیے سائنس........ وغیرہ وغیرہ۔ تاکہ یہاں سے بھی کوئی خالی ہاتھ نہ جاسکے تو یہاں جو بھی کام کرتا ہے اخلاص نیت کے باوجود وہ یک گونہ شیطان کی دکان بڑھاتا ہے۔ الحمدللہ جواب مجھے کلک کرگیا اور میں نے اس کے بعد یہ پروگرام چھوڑ دیا۔
حافظ صاحب بہت عمدہ ذوق رکھتے تھے، انتہائی ذکی الحس تھے۔ خوشبو سونگھ کر تبصرہ کردیتے کہ سالن اچھا بنا ہے ، پکنے میں کمی ہے، مرچ کرا ری ہے وغیرہ وغیرہ۔کوشش کرتے کہ ہر اعتبار سے شریعت کے دائرے میں رہیں، کھانے پینے میں نقص نہ نکالیں مگر طلاقت لسانی کی وجہ سے منہ سے بات نکل جاتی اور بعد میں معذرت کرتے رہتے۔
عمدہ کھانے کھلاتے، ساتھ ساتھ فضائل بھی بتلاتے، اس کی دستیابی کے مقام کابھی تذکرہ کرتے، دین کے طالب علموں کےساتھ ہمیشہ ہی انتہائی مروّت و محبت کا سلوک کرتے خواہ وہ عمر و مرتبہ میں اُن سے کس قدر کم ہوتا۔ مدرسہ کی بچیوں سمیت جب کبھی موقعہ بنا تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی کہ وہ کم عمری،کم علمی ، کم حیثیت سے صرفِ نظر کرکے صرف ایک طالب علم سمجھ کر ان کا کس قدر اکرام کرتے۔
حافظ صاحب کی ضیافتیں
الحمدللہ حافظ صاحب کی اگر خدمتیں کی ہیں تو بہت سی ضیافتیں اُن سے وصول بھی کی ہیں۔ جب بھی ان کے ہاں پڑھنے گئے، شاذ و نادر ہی ایسا ہوا ہوگا کہ صرف پڑھ کر آگئے اور کچھ کھایا نہیں۔ پڑھائی بھی چلتی رہتی اور اللہ بھلا کرے باجی (اہلیہ عبدالرشید صاحب) کا وہ خدمت گزار جنتی خاتون (ان شاء اللہ) چپ چاپ مہمان نوازی میں لگی رہتیں۔ حافظ صاحب آرڈر کرتے رہتے او روہ پورے کرتی رہتیں۔
ان آخری دنوں میں جب ہم حافظ صاحب سے بخاری پڑھنے جارہے تھے، ایک دن چائے پی ،مٹھائی کھائی، سبق پڑھا اور اُٹھنےلگے تو حافظ صاحب کہنےلگے جاؤ اندر جاکر کچھ کھا پی لو، میں نے کہا: کھالیاہے، حکماً بولے :جاؤ نا۔اندر جاکر باجی کے پاس آٹھ دس منٹ بیٹھے، رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے تھے۔ پھر ابوعبدالرب کو کال دی کہ چلیں ، وہ نکل آئے۔ کوئی پانچ سات منٹ دور گئے ہوں گے کہ بہن مصباح کے فون پر حافظ صاحب نے کہا : کہاں پہنچے ہو واپس آؤ۔ تمہارے لیے کچھ رکھا ہوا ہے میں نےکہا :اتنی رات ہوگئی ہے ، گھر پہنچتے پہنچتے بارہ سے اوپر ٹائم ہوجائے گا۔
ابوعبدالرب نے بہت ہی خوبصورت بات کہی کہنے لگے:بچوں کی طرح اپنی مرضی سے ہر چیز کھا ئیں گے، جب والدین کہیں تو ''نہیں، پیٹ بھرا ہوا ہے۔'' واپس چلو! واپس گئے تو حافظ صاحب دروازے میں دو پلیٹیں لئے کھڑے تھے،یہ لو گھر جاکے کھا لینا۔
مرغی کے شوربے میں شاندار ثرید اور بوٹیاں تھیں گھر آکے کھایا اوردعا دی۔ کھانے کے بارے میں کہا کرتے: کھانا لذیذ ہو تو چبا چبا کر مزے لے کر کھانا چاہیے، یہ کیا حماقت ہے کہ کھانا مزے کا تھا میں نے جلد جلدی کھا لیا۔دیکھو ایک ہزار کا کھانا ہو یا دس روپے کا مزہ تو صرف دو انچ کی زبان کو ہے۔ بعد میں تو سب برابر ہے۔ بلکہ ہوسکتاہے کہ دس روپے والا کھانا ایک ہزار والےسے صحت کے اعتبار سے بہتر ہو۔ اس لیے دو انچ کی زبان کو مزہ تو لینے دو۔
انتہائی معاملہ فہم، زیرک،حاضر جواب اورحساس تھے۔مخاطب کے لہجے کو پہچانتے، چلنے والے کی چال سمجھتے، نظریں پہنچانتے، بات کا جواب دینے سے پہلے مخاطب کا دماغ درست کردیتے کہ اس سوال سے تمہارا کیا مقصد ؟ کہاں استعمال کرنا چاہتے ہو؟ او رمخاطب عاجز ہوکر اپنےموقف سے رجوع کرتا۔ گفتگو کے دوران کسی نقطہ نظر سےاختلاف کرنا ہوتا تو دلائل کا انبار لگا دیتے حتیٰ کہ انسان سمجھتا میرے موقف میں غلطی ہے اور اتنا گناہگار ہو رہا ہوں تو دوسری طرف چل پڑتے۔ انسان حیران ہوکر سوچتا کہ یہ جو ابھی قیاس کے ردّ میں علم وفصاحت اور بلاغت و فقہ کے دریا بہا رہے تھے، شاید ان سے بڑا قیاس کے حق میں دلائل دینے والا کوئی ہے ہی نہیں۔ دونوں انتہاؤں تک پہنچانے کےبعد واپس آتے اورٹھہراؤ کے ساتھ ،آہستہ آہستہ شریعت کے قریب ترین موقف تک پہنچاتے۔ وہ آٹھ گھنٹے کی گفتگو ہم دو دن تک دہراتے او رلکھا کرتے کہ ہمارے پلّے پڑ جائے او رہفتوں بلکہ مہینوں باہم تبصرہ کرتے۔
درس و تدریس یا خطبے کے دوران ذراتیز بولتے۔ میں عموماً راعنا کی درخواست کرتی اُنظر نا کہتی۔ پوچھتی کہ آپ ذرا ٹھہر ٹھہر کر کیوں نہیں بولتے تو ایک دفعہ کہنےلگے دراصل پائپ چھوٹا ہو او رپانی زیادہ ہو تو پریشر سے نکلتا ہے بس اتنی ساری باتیں او ردلیلیں جمع ہوتی رہتی ہیں کہ بولتے ہوئے پتہ ہی نہیں چلتا کہ تیز تیز بولنے لگ جاتا ہوں۔
ہمارے اسباق کا سلسلہ شادی کے بعد بھی جاری رہا، الحمدللہ بلکہ یہ اسباق مزید بارونق ہوگئے کہ دو طرفہ سوال و جواب ہوتے رہتے اور ایک دوسرے کی وجہ سے ہمارے علم میں اضافہ ہوتا بلکہ بعد میں بھی ایک دوسرے کے سامنے سبق کی دہرائی ہوتی رہتی۔لیکن دو کتابیں مسلسل پڑھنے کے بعد ایک دفعہ یہ سلسلہ رک گیا۔ بعد میں بلا انقطاع جاری رہا جس میں حافظ کو لانے لے جانے کی ذمہ داری عموماً مصباح عبدالستار کے بھائی یامین صاحب یامعین صاحب ادا کرتے بلکہ بسا اوقات اگر حافظ صاحب کے مدرسہ آنے کاسلسلہ منقطع ہوا ہوتا او رپڑھانے کے دوران کوئی مشکل پیش آرہی ہوتی تو یہ بھائی ہمیں 'قینچی امرسدھو' حافظ صاحب کی رہائش گاہ پر لے جاتے، جہاں ہماری علمی مجلس ہوا کرتیں۔
انہی دنوں ایک دفعہ حافظ صاحب نے خود فون کرکے بلوایاکہ رینالہ خورد سے محترمہ آپا جی وحیدہ بانو اپنی شاگردوں سمیت تعلیمی سلسلے میں آکر ٹھہری ہوئی ہیں او ران کی طالبات حافظ صاحب سے گرائمر پڑھ رہی تھیں، ہمیں بلوایا کہ آکر ملو اور پڑھو۔ سو ایک دن ہی جانا ممکن ہوسکا۔ بہرحال اس کے نتیجے میں آپا جی محترمہ (والدہ ذکی الرحمٰن لکھوی) سےایک اچھا تعلق بن گیاجو اُن کی وفات تک خوب نبھا۔
جہاد کے بارے میں موقف
جہاد او رمجاہدین کے ساتھ حافظ صاحب کا تعلق بہت ہی اچھا رہا۔ خود لکھوی خاندان کے ساتھ اُن کے بہترین مراسم تھے اور ابتداءً وہ اسی جہادی جماعت سے قریب بلکہ حامی اور ساتھی رہے لیکن بعض جماعتی اور انتظامی معاملات سے اختلاف کی وجہ سےاس تعلق میں کچھ کمی اور سرد مہری آگئی لیکن اس سب کے باوجود جہاد کے مسئلے پراُن کا ذہن بہت واضح اور کلیئر تھا۔ جہاد کے موضوع پر گفتگو کرتے تو حق ادا کردیتے ۔انتظامی اختلافات نے ان کے نظریات و عقائد کو متاثر نہ کیاتھا۔ اپنے موقف کے اظہار کے لیے انہوں نے ایک اور جگہ تلاش کی اور جامعہ لاہور اسلامیہ کے طلبہ کی قائم کردہ تحریک مجاہدین اسلام2  کی سرپرستی فرماتے رہے ۔ شہادت میں مستقل کالم بھی اسی جہادی ذوق کی علامت تھا۔ جہاد اور مسئلہ تکفیر کے سلسلے میں حافظ صاحب کاذہن بہت واضح تھا ۔ خروج، تکفیر اور ردّ ان کا مزاج نہ تھا۔ اعتدال اور احترام، جمع و تطبیق ان کے مزاج کا حصہ تھا۔ او ریہ چیز ان کی مجلس میں بیٹھنے والے اصحاب کے لیےاظہر من الشمس ہے۔ جہاد کے بارے میں ان کے نقطہ نظر پر معترض اصحاب سے میری گزارش ہے کہ وہ مولانا فضل الٰہی وزیر آبادی کی مسئلہ جہاد کشمیر پر لکھی ہوئی کتاب کا مقدمہ از حافظ عبدالرشید اظہر﷫ ضرور ملاحظہ کریں۔ یہ ان شاء اللہ نہ صرف ان کے بارے میں سوے ظنی کے خاتمے کا سبب ہوگا بلکہ قاری کے ایمان و علم میں اضافے کاموجب بھی ہوگا۔
جہاد کشمیر کےسلسلے میں مترد دین اور معترضین کے لیے بھی اس میں کافی و شافی مواد موجود ہے جو اُن کے اشکالات دور کرکے انہیں بصیرت عطاکرسکتا ہے۔
وقتاً فوقتاً حافظ صاحب سے ہرچیز سیکھی یعنی علم کے ہر شعبے کو چکھا۔ قرآن کا ترجمہ مختلف مقامات سے پڑھایا۔ کبھی کوئی رکوع کبھی کوئی رکوع، سورۃ نور مکمل پڑھائی۔ کہا کرتے قرآن مجید ساری عمر پڑھنا چاہئے۔ ایک دفعہ احادیثِ رسولؐ کی روشنی میں، ایک دفعہ تفسیر صحابہ وتابعین کی روشنی میں اور ایک دفعہ فقہی نقطہ نظر سے، ایک دفعہ فصاحت و بلاغت کے لیے اور ایک دفعہ گرامر و اعراب کے لیے او رہر دفعہ نصیحت و عبرت کے لیے ...پھر ہر دفعہ مختلف منہج کے مطابق پڑھاتے۔
میراث پڑھائی۔ اس کے لیے عربی کتاب شیخ محمدصالح العثیمین کی 'فقہ الفرائض' پڑھائی اور خوب پڑھائی او رکہا کرتے کہ حساب میں نہ پھنسانا تو مسائل سارے پڑھا دوں گا۔ انہی کے فیض کو جاری کرتے ہوئے یہاں معہد التعلیم والتزكیہ للبنات، اسلام آباد میں دورہ میراث بھی کرایا جو لوگوں کے لیے بہت ہی توجہ اور دلچسپی کا باعث رہا۔ پہلے پہل تو پڑھانے کے دوران میڈیم (ذریعہ تعلیم) اُردو تھا پھر اتنی دیر پڑھانے کے بعد ڈائریکٹ عربی کتب عربی میں پڑھانا شروع کیں جس سے ہمارا عربیت کا ذوق بن گیا۔ الحمدللہ اور اتنابہترین ذوق بن گیا کہ جب 1990ء میں حج کرنے کی سعادت حاصل کی تو علماء سے مسائل پوچھنے پر ذرا دقت نہ ہوئی بلکہ کہیں میں نے کہا کہ میں ضیوف الرحمٰن میں سے غریب الدیار ہوں تو وہ عرب کہنے لگا : والله لسان الفصحاء وأنت غریبة ....سبحانك هذا بهتان عظیم
حدیث میں ہمیں صحیح بخاری کی کتاب الایمان، کتاب التوحید والرد علی الجہمیہ پڑھائی۔ مسلم کا مقدمہ پڑھایا ۔ موطا کی کتاب النکاح ،ابوداؤد کی کتاب الادب پڑھائی، نسائی سے کتاب الاستعاذہ پڑھائی۔ الحمدللہ ہر کتاب سے کچھ نہ کچھ پڑھایا کہ اصل میں ہمیں پڑھنے کا طریقہ سکھلایا۔ کہا کرتے کہ اُستاد تو پڑھنے کا طریقہ ہی سکھلا سکتا ہے۔ یہ شاگرد کا کمال ہے وہ کیا پڑھتا ہے۔
عربی گرامر پڑھنے کا وقت آیا تو 'الفیہ ابن مالک' منگوائی۔ اس سے تقریباً سو صفحے پڑھائے۔ ذوق بنایا کرتے خود عربی ذوق بہت عمدہ تھا، بہت اچھے اشعار پڑھتے اور سناتے تھے ایک دفعہ میں نے کہا: استاد صاحب اتنا شعر و شاعری کا ذوق ہے تو ہمیں کچھ عربی ادب ہی پڑھا دیں : سو متنبّی، امرؤ القیس بھی کہیں کہیں سے پڑھادیں۔
مصباح عبدالستار کے والد شیخ عبدالستار صاحب 1986ء میں فوت ہوگئے تھے۔ اللہ انہیں غریق رحمت کرے ۔ تو بس ایک دن بات چیت کے دوران اُس نے کچھ اس طرح تذکرہ کیا کہ میرے بھائی آپ سے بہت محبت کا تعلق رکھتے ہیں اور ضمناً یہ بات کہ آپ کی شکل بھی میرے ابو سےملتی ہے، حافظ صاحب نے اس کے بعد سے اپنے آپ کو ایک والد کے مقام پر ہی رکھا اور ثابت کیا ۔لفظاً بھی کہا کرتے اور عملاً بھی اس طرح کا رویہ رکھا کرتے۔
عربی ادب پڑھانے کی میری اس فرمائش پرفرمانے لگے: لاحول ولا قوة کوئی باپ اپنی بچی کے سامنے عربی شعر نہیں پڑھ سکتا؟ میں نے کہا کہ آپ اُردو اشعار بھی تو پڑھتے ہیں تو بولے: عربی زبان کے مقابلے میں اُردو انتہائی معصوم او رپاک ہے۔ یہاں زیادہ سے زیادہ نظر آنے والا گند میر و غالب کی غزلیں اور جوش ملیح آبادی کا گند ہے۔ عربی اشعار تو پڑھ کر طبیعت خراب ہوجاتی ہے، آئندہ کبھی ایسی بات نہ کرنا کیونکہ مجھ سے پھر آپ کی بات ٹالی بھی نہیں جاتی۔ لیکن پھر اسی بات کی لاج رکھتے ہوئے ہمیں حسان بن ثابتؓ اور زہیرؓ بن کعب کے قصیدے پڑھائے اور بہت ہی خوب پڑھائے کہ ایک مدت تک ان کے اشعار وردِ زبان ہی رہے او ربھی کچھ حکمت و بلاغت کی چیزیں مختلف کتابوں سے ہمارے ذوق کی تسکین کی خاطر ڈھونڈ لاتے او رپڑھایا کرتے۔
مجھے او رمصباح کو ایک شاگرد شمار کرتے تھے۔ فرمایا کرتے تم دونوں مل کر پڑھو تو پڑھایا جاتا ہے تم دونوں مل کر ایک شاگرد ہو۔ ایک د وسرے کی کمیاں کوتاہیاں دور کرنے والی۔ جو ایک کو سمجھ آتا، دوسری کو نہیں آتا۔ جو دوسری کو آتا ہے وہ پہلی کو نہیں آتا او رپھر سمجھتی بھی ایک دوسرے کی ہو، میری نہیں سمجھتی۔
یہی وجہ ہے کہ ان کی زندگی کے آخری ایام میں ہم نے جو اسباق پڑھنے شروع کیے اور ابوعبدالرب بھی ہمارے ساتھ جانے لگے۔ دو چار اسباق ہی پڑھے تو میں نے مصباح کے سامنے تذکرہ کیا۔ اس کو دین سیکھنے کا شوق چرایا۔ الحمدللہ وہ بچوں اور مدرسہ کی مصروفیات سے نکل کر پندرہ دن یہاں ٹھہری اور پھر صبح و شام الحمدللہ یادگار مجلسیں رہیں۔
شیخ نعیم صاحب اپنی ملازمت کے سلسلے میں 1991ء میں اسلام آباد مع فیملی منتقل ہوگئے۔ مکتب الدعوۃ اسلام آباد منتقل ہونے کی وجہ سے حافظ صاحب بھی اپنی فیملی لے آئے۔ یوں نعیم صاحب والے گھر میں دونوں خاندانوں کو تقریباً سال بھر اکٹھے رہنے کا موقعہ ملا جس سے تعلقات مزید پختہ ہوگئے۔حافظ صاحب اس کو احسان سے تعبیر فرمایا کرتے۔ مصباح کا مجھ پر بہت احسان ہے جس نے میرا گھر آبا دکیا ہے۔ اسے اللہ خوش رکھے۔ میں اس کا کس قدر احسان مند ہوں۔ اگر یہ مجھے کہے کہ میرا بچہ رو رہا ہے اور 'مدرسہ تدریس القرآن والحدیث' وسن پورہ میں بیٹھے تھے تو مجھے اس بچے کے لیے پیدل چوک ناخدا سے جاکر مونگ پھلی لانا پڑے تو میں ضرور جاؤں گا۔
حافظ صاحب بہت گہری اور حکمت افروز گفتگو کیاکرتے تھے۔ بے انتہا نازک مزاج اور زود رنج بھی تھے۔ ایک دن سبق کے دوران کسی طالب علم کے تیکھے سوالوں پر ناراض ہوگئے۔ وہ طالبِ علم بھی مخصوص مزاج کی وجہ سے مسئلہ کی بہت کرید کرتے۔ تو اس کے بعد ایک دو موقع پر زیادہ کرید کی وجہ سے مجھے پھر سے خدشہ ہوا، کہیں حافظ صاحب ناراض نہ ہوجائیں اور مجھ سے اس بات کا اظہار ہو بھی گیا تو انہوں نے اس کا جو جواب دیا وہ میری زندگی میں میرے بہت کام آیا۔بولے: میری زندگی میں کبھی کسی کے ساتھ ایک سے زیادہ دفعہ توتکار نہیں ہوئی۔ جب ایک دفعہ توتکاری ہوتی ہے تو میں اچھی طرح لڑتا ہوں اور یہ چیک کرتا کہ یہ 'ناداں' ہے یا 'بدنیت'!!اگر 'ناداں' ہو تو میں اس کی بات کا پھر کبھی بُرا نہیں مناتا۔ نظر انداز کردیتا ہوں اور اگر 'بدنیت' ہو تو میں دوبارہ کبھی اس طرح کا موقع نہیں بننے دیتا کہ وہ میرے ساتھ بدتمیزی کرسکے۔ ان کی بعض حکیمانہ اور ظریفانہ باتیں بہت ہی یاد آتی ہیں۔
ایک دفعہ بیٹھے اپنی بیگم صاحبہ کی بہت تعریفیں کررہے تھے۔ ان کے شرعی حجاب ، ان کی سادہ لوحی او راطاعت شعاری کو عموماً سراہا کرتے تھے اور غائبانہ بھی ان کے احسان مند رہا کرتے تھے۔تعریفیں کرتے ہوئےکہنے لگے ۔ ویسے بھی آج کل اپنی بیگم کا بہت ہی فرمانبردار ہوگیا ہوں۔ میں نے پوچھا کیوں:بولے، بوڑھا ہوگیا ہوں ناں۔ میں نے پوچھا: اس کا کیامطلب ؟ کہنے لگے: نادانو! آپ نہیں سمجھتے کہ انسان جوں جوں بوڑھا ہوتا ہے ،بیگم کا غلام بنتا جاتاہے۔ اس کے کئی اسباب ہیں مثلاً
1۔ اس کی خاطر سارے رشتہ داروں سے کٹ کٹا کر اس عمر میں پتہ چلتا ہے کہ واقعی اس کے علاوہ میرا ہے بھی کوئی نہیں۔
2۔ وہ صرف بیوی نہیں، بچوں کی ماں بھی ہوتی ہے۔ او رہر بچے کے ساتھ یہ تعلق بڑھتا ہے۔
3۔ تعلق اگر اچھا ہو تو نبھتا ہے نہیں تو ٹوٹ جاتاہے او راگر اچھا ہو تو ہر روز مزید اچھا ہوتا رہتا ہے
فقہ پڑھنے کے دوران دو چار دفعہ اوپر تلے ہی ایسے مواقع آئےکہ امام احمد کی کسی مسئلہ میں دو آرا تھیں یااُن سے دو قول ثابت تھے۔ فيه قولان عن أحمد ــ في إحدٰی الروایتین عن أحمد ـــ في أصح القولین عن أحمد
تو میں نے استعجاباً سوال کیا کہ امام احمد سے ہر مسئلے میں دو آرا کیوں منقول ہیں۔ شاید میرے انداز میں کچھ بے ادبی یاگستاخی کی بُو محسوس کی۔ حافظ صاحب نے ایک لمبا لیکچر دیا کہ یہ ان کے تبحر علمی کی دلیل ہے ۔ یہ ہر دو طرف کےدلائل پر ان کی گہری نظر کی علامت ہے کہ وہ کسی ایک بات پر اَڑ نہیں سکتے تھے۔ یہ جہلا کم علم، کم فہم لوگوں کا طریقہ ہے کہ ایک بات پر اَڑ جائیں۔ جس کا انہیں علم ہوگیا ہے بس وہی ٹھیک ہے خواہ اس کے مقابل دلائل کا انبار ہو جس پر اُن کی نظر ہی نہیں پڑی۔ احمق! یہ ان کی تنقیص نہیں تعظیم ہے ۔ کم فہمی نہیں گہرائی او رگیرائی ہے۔ میری تربیت میں حافظ صاحب کے جن ارشادات نے اہم کردار ادا کیا ہے ان میں سے یہ اہم ترین بات تھی۔
ایک دن پڑھانے آئے تو راستے میں دیکھا کہ 'مدرسہ تدریس القرآن والحدیث للبنات وسن پورہ ،لاہور 'کے سالانہ جلسے کے اشتہار لگےہوئے تھے جس میں ہمارے نام لکھے تھے۔ آتے ہی کہنے لگے: ''آج میں نے راستہ میں کچھ باپردہ خواتین کے بے پردہ نام پڑھے۔'' وہ دن گیا کہ ہم نے اشتہارات پر نام لکھوانا تو بہت دور، حتیٰ الوسع اشتہار چھپوانا ہی ختم کردیا۔کوئی بہت مجبوری ہو تو اس وقت یا پھر کنیت۔ شعو ری طور پر سمجھا کہ ہر عام و خاص کی زبان پر خواتین کا نام آنا اُن کے وقار کے منافی ہے۔
حسن اتفاق کہ 2000ء میں، راقمہ بھی ابوعبدالربّ کی سروس کی وجہ سے اسلام آباد منتقل ہوگئی ۔ یہاں الحمدللہ بہت اچھی ہمسائیگی رہی بلکہ حافظ صاحب نے ہمیشہ فیاضی او رمیزبانی کا رویہ رکھا۔ بچوں کوگھمانا پھرانا، کھلاناپلانا، دو فیملیوں کا متعدد مقامات پراکٹھے سیر کو جانا تو بہت ہی یادگار ہے۔حافظ صاحب انتہائی عمدہ ذوق رکھتے۔ مناظر فطرت سے گہرا لگاؤ تھا۔ جڑی بوٹیوں، درختوں، پھولوں کی پہچان اور خواص کو جاننا پہچاننا،کچھ کچھ حکمت کا ذوق بھی پایا تھا۔ سیر کے دوران تبصرے جاری رہتے۔ بہت سے نسخے،متفرق بیماریوں کے بہت سے علاج بتلایا کرتے۔ ایک طرف مناظر فطرت کے شیدا تھے اور دوسری طرف ہر نئی سیر گاہ حافظ صاحب نے ہی دکھائی۔ میرے بچے بڑے ہورہے تھے اور ان کے بچوں کے بچے (پوتے و نواسے)بھی بڑے ہورہے تھے۔ بعض خانگی مسائل کی وجہ سے کچھ دیر باہمی تعلقات میں تعطل رہا۔ گو کہ اس تعطل کے دوران بھی علمی تعلق بہرحال برقرار ہی رہا۔ تاہم مسائل کا پوچھنا، درس و تدریس میں حاضری، یا اُن کو دعوتِ درس دی تو بہرحال قبول کرلی۔
پھر کچھ ایسا ہوا کہ بہت سی طالبات اور شاگردوں کے کہنے پر میں جو متفرق جگہ کلاس لے رہی تھی، اس کو ایک جگہ منظّم کرنے کا پروگرام بن گیا۔ 2010ء کے آخر میں جب یہ پروگرام بنا تو سب سے پہلے میں نے حافظ صاحب سے حاضری کی اجازت مانگی کہ میں ان کی علمی رہنمائی کے بغیر شاید کچھ نہ کرپاؤں ، سو اجازت دے دی۔
میں اور ابو عبدالربّ گئے۔ سلام دعا کے بعد مجھے عرضِ مدّعا یا معذرت کرنے کا موقع ہی نہ دیا۔ خود ہی کہنے لگے: مجھے آپ لوگوں سے ایک بات پوچھنا ہے ۔ میں نے کہا: جی! بولے ان 20، 25 سالوں میں میری کسی حرکت ، کسی بات، کسی عمل سے کبھی آپ کو یہ شبہ پڑا ہو کہ میں آپ کے ساتھ باپ جیسا سلوک نہیں کررہا؟ میں نے مسعودہ (حافظ صاحب کی بڑی بیٹی) اور فوزیہ میں کبھی فرق نہیں کیا۔ (حافظ صاحب کی دو بیٹیاں شیرخوارگی میں فوت ہوگئی تھیں جن میں سے ایک کا نام فوزیہ تھا) کہا کرتے تھے۔ تم جب آتی ہو تو مجھے لگتا ہے کہ میری فوزیہ آگئی ہے۔ کہا کرتے، چھوٹی اولاد سب سے لاڈلی ہوتی ہے اور جو بعد میں آئے وہی سب سے چھوٹا ہوتا ہے۔
پھر حافظ صاحب کی بھرپور راہنمائی اور بھرپور شفقت کے سائے میں 'معہد التعلیم والتزکیہ، اسلام آباد' کی بنیاد رکھی۔ جس کی افتتاحی تقریب میں حافظ صاحب نے تزکیہ و تربیت کا مفہوم سمجھایا اور حصولِ تزکیہ کا نبوی منہج بتایا۔اس کے بعد بھی گاہے بگاہے راہنمائی کرتے رہے۔ ان آخری دنوں میں ان کے فیض کو عام کرتے ہوئے میں نے 'عقیدہ اسلامی'پڑھایا۔ میں نے پوچھا: شرکاکو سند دینی چاہیے۔ حافظ صاحب نے تائید کی، ٹھیک ہے: دو۔پھر مجھے سند تیار کرائی۔ میں نے پوچھا : حافظ صاحب 'مُشرف'(نگرانِ علمی) کے دستخط کریں گے، بولے: صرف اس بار؟ میں نے کہا: نہیں، مستقل! جواب دیا: ٹھیک ہے۔
شرکاے دورہ میں ایک صاحبہ باہر سے آئی ہوئی تھیں او راُنہیں واپس جانا تھا۔ ان کی خوش قسمی کہ اُن کو جلدی جلدی سند تیار کرکے دی جس پر حافظ صاحب نے دستخط بھی کئے۔بقیہ اسناد اطمینان کے ساتھ دستخط کرنے کے لیے تیار رکھی تھیں جو رکھی ہی رہ گئیں اور فرشتہ اَجل سبقت لے گیا۔ إنا لله وإنا إليه راجعون. ماشاء الله کان وما لم یشاء لم یکن!
15؍ مارچ بروز جمعرات، وفات سے دو دن قبل میں نے فون کیا: اُستاذ صاحب! کچھ پوچھنا ہے،آجائیں؟اپنے مخصوص لہجے میں بولے:آجاؤ آجاؤ۔آج ہے وقت، پھر سفر اور دروس ہی دروس ہیں۔ میں نے کہا: موسم کھلا آگیا ہے، کیا تقریبات ہیں؟ بولے: ختم بخاری کا موسم ہے، پھر رمضان ہے اور چل سو چل اپنی مصروفیات کی ایک لمبی فہرست سنا دی۔ اللہ کا کرنا ابوعبدالربّ دفتر سے لیٹ آئے، تھکے ہوئےبھی تھے۔ بولے، آج نہیں، اتوار کو چلیں گے۔غرض جو چیز مقدر میں نہ ہو، بس زندگی کی وہ آخری ملاقات ہی بن گئی جو دس مارچ بروز جمعرات مع فیملی اُن کے ہاں کھانا کھایا اور حافظ صاحب اس وقت نمازِ مغرب سے قبل جلدی میں تھے۔ اُنہیں بھارہ کہو جانا تھا۔ کہنے لگے: احباب نے کوئی مسجد بنانی ہے، تو جلدی جلدی جیسے اجازت طلب کرتے ہیں یا اطلاع دیتے ہیں تو یہ کہہ کر چلے گئے۔
حافظ صاحب انتہائی چست اور پھرتیلے، جلدی جلدی کام سمیٹنے والے تھے ۔ اُن کی وفات کےموقع پر لوگ مختلف تبصرے کررہے تھے کہ ان کو شہید کرنے والے دو ہی تو بندے تھے، پھر حافظ صاحب نے مزاحمت نہ کی۔ کیا اُنہیں پتہ نہ چلا ،اُنہوں نے شور نہ مچایا۔ اُنہیں لوگوں نے کیسے گرایا ہوگا؟ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا: حافظ صاحب!جس طرح سے معاملہ فہم اور متنبہ طبیعت کے آدمی تھے، شاید اُنہیں چھ بندے بھی نہ گرا سکتے۔ انہیں بندوں نے نہیں، موت نے گرایا ہے۔ جو وقت لکھا تھا، آخر وہ آکے رہتا ہے۔میں حافظ صاحب کی اہلیہ محترمہ اور بچیوں کے ساتھ بیٹھی تعزیت کررہی تھی کہ اللہ ربّ العزت نے جو الفاظ میری زبان سے ادا کرائے، وہ یہ تھے: باجی! میرا اور آپ کا ایمان ہے کہ حافظ صاحب کے کوچ کا یہی وقت اللہ کے ہاں طے شدہ تھا۔ وہ بندے نہ بھی آتے تو بھی یہی اجل مسمیّٰ تھا۔ گھر میں اگر سارے افراد بھی ہوتے تو اللہ کے حکم کو ٹال نہیں سکتے تھے تو پھر ہمیں تو شکرگزار ہونا چاہیے ،اُن لوگوں کا جنہوں نے جاتے جاتے حافظ صاحب کے درجات بلند کردیئے او ران کے گناہوں کو سمیٹ کر لے گئے۔ میری مراد ہابیل کے اُن الفاظ سے تھی جو اس نے اپنے بھائی کی بدنیتی بھانپتے ہوئے کہے تھے:
﴿لَئِن بَسَطتَ إِلَىَّ يَدَكَ لِتَقتُلَنى ما أَنا۠ بِباسِطٍ يَدِىَ إِلَيكَ لِأَقتُلَكَ إِنّى أَخافُ اللَّهَ رَ‌بَّ العـٰلَمينَ ٢٨ إِنّى أُر‌يدُ أَن تَبوأَ بِإِثمى وَإِثمِكَ فَتَكونَ مِن أَصحـٰبِ النّارِ‌ وَذ‌ٰلِكَ جَز‌ٰؤُالظّٰلِمينَ ٢٩ ﴾..... المائده
''اگر تو میری طرف اس لیے ہاتھ بڑھائے کہ تو مجھے قتل کرڈالے تو میں پھر بھی تیری طرف ہاتھ نہ بڑھاؤں گا کہ تجھے قتل کروں۔ کیونکہ میں اللہ ربّ العالمین سے ڈرتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ تو میرے او راپنے سارے ہی گناہ سمیٹ لے اور تو اصحاب النار میں سے ہوجائے اور ظالموں کی یہی جزا ہے۔''
اللہ ربّ العزت بڑے رحیم و کریم ہیں، وہ اپنے بعض بندوں کو بلند مقامات سے نوازنا چاہتے ہیں۔ لیکن بشری کمیوں، کوتاہیوں کی وجہ سے وہ اگر ان مقامات تک نہیں پہنچ پاتے تو اللہ رب العزت ان کے لیے اس طرح کے حالات پیدا کر دیتے ہیں کہ جو اُن کے گناہوں اور کوتاہیوں کاکفارہ بن سکیں او ران کی بلندئ درجات کا موجب قرار پائیں۔
یقیناً رحمٰن و رحیم کے فیصلے اس کی مخلوق کے حق میں بہت ہی بہترین ہیں اس وقت میرے ذہن میں حافظ صاحب کی ادعیہ جو بہت ہی دل سوزی کے ساتھ پڑھا کرتے تھے، گونج رہی ہیں:
«اللهم اقسم لنا من خشیتك ما تحول بيننا وبين معاصيك... اللهم اجعل ثأرنا على من ظلمنا وانصرنا على من عادانا ولا تجعل مصیبتنا في دیننا... ولا تسلط علينا من لا يخافك فينا ولا یرحمنا.»3
«اللهم إني عبدك وابن أمتك، ناصيتي في يدك، ماض في حکمك، عدل فيّ قضاءك، اسئلك بکل اسم هو لك سميت به نفسك ...»4
حافظ صاحب محترم اپنی گونا گوں خصوصیات اور ہمہ جہت صفات کی وجہ سے زندگی میں بھی متنازع شخصیت رہے او روفات کے بعد بھی وہ مختلف الخیال لوگوں کی آرا سے مامون نہیں ہیں اور یہ چیز ،میں ایمان وعقیدے کی بنا پر سمجھتی ہوں کہ ان شاء اللہ ان کے لئے کفارہ سیئات و بلندئ درجات کا سبب ہے او راللہ ربّ العزت جب تک چاہیں گے یہ حسنات ان کے نامہ اعمال میں درج ہوتی رہیں گی۔
ایک بار درسِ حدیث کے دوران «لا حسد إلا في اثنتین» کا مفہوم بیان کرتے ہوئے بتا رہے تھے کہ حسد کا معنی مذموم و بُرائی نہیں ہوتی بلکہ اس کا معنی فی الواقع رشک بھی ہے اور کل ذي نعمةمحسود ہر منعم علیہ پر رشک کیا جاتا ہے۔ آج کل بھی عرب کسی کا حال پوچھتے ہیں ۔ اس کا حال بہت اچھا ہو تو جواب ہوتا ہے: هو محسود یعنی وہ قابل رشک ہے۔ بُرا ہو تو کہا جاتا ہے هو غیر محسود اس کی حالت قابل رشک نہیں ۔ مجھے خیال آرہا ہے کہ حافظ صاحب زندگی بھر بھی محسود تھے اور اب بھی:

إذا أراد الله نشر فضیلةٍ              طُويت أتاح لها لسان حَسود5

''اللہ ربّ العزت جب کسی کی مخفی فضیلتوں کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو اسے حاسدوں کی زبان پر چڑھا دیتے ہیں۔''
محترم حافظ صاحب اپنے مخصوص مزاج کے باوجود بزرگوں کے ادب و احترام اور ان کے تذکرہ خیر کا بہترین انداز رکھتے تھے۔ حتیٰ کہ جب کسی کی تنقیص بھی کرتے تو بعد میں ان کے حق میں ایک دو جملے خیر کے ضرور کہتے۔ مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کا تذکرہ بڑے عقیدت مندانہ انداز میں کرتے بلکہ ایک دن یہ بھی کہا کہ مولانا بتلاتے ہیں کہ آپ کی باجی مسز ثریا بتول علوی ان سے پڑھی ہوئی ہیں۔ علما کا شجرۂ نسب اُنہیں حفظ ہوتا تھا اور وقتاً فوقتاً علمی سندیں اور سلسلے سنایا کرتے تھے۔ اب جو اُن سے آخری گفتگو فون پر ہوئی جس میں انہوں نے آنے کی دعوت دی۔ وہ اصلاً میں نے یہ پوچھنے کے لیے کیا تھا کہ میں نے سورہ نور پڑھانی ہے، کس کتاب کا مطالعہ کروں؟ اوّلاً تو کہنے لگے: اپنے ابا جی کی تفسیر پڑھو(تیسیر القرآن)۔ پھر بولے میری کتاب پردے و الی پڑھو پھر جیسے ذہن حاضر ہوتا ہے۔ کہنے لگے:حافظ عبدالسلام بھٹوی کی تفسیر سورہ نور بھی آگئی ہے، وہ پڑھو۔ کام کی باتیں ہوں گی۔ دارالاندلس سے پتہ کرو، شاید اُنہوں نے الگ بھی چھاپی ہو۔ حافظین محترمین (حافظ عبد السلام بھٹوی اور حافظ عبد المنان نورپوری) کا تذکرہ بڑے اچھے انداز میں کیاکرتے۔ خصوصاً حافظ عبدالسلام بھٹوی ﷾کی فصاحت و بلاغت اور شعری ذوق کا عموماً تذکرہ کرتے تھے۔
انہی آخری مجلسوں میں حافظ عبدالمنان ﷫ کی وفات کے بعد اُن کا تذکرۂ خیر کرتے ہوئے ایک دن کہنے لگے: مجھے عموماً کتابوں میں بہت غلطیاں نظر آتی ہیں لیکن حافظ عبدالمنان ﷫ کا کمال ہے کہ اُن کی کتب سے کوئی غلطی پکڑی نہیں جاسکی،کم از کم مجھے نہیں مل سکی؛ نقطہ نظر اور مسائل میں اختلاف ہوسکتا ہے مگر اغلاط معدوم ہیں۔
خواب ہوئیں وہ یادیں ، وہ باتیں جواَب ہمارے پاس محض حسرت ہی حسرت ہیں۔ حافظ صاحب کے گھر سے واپس آئے تو میری جھوٹی بیٹی پوچھتی ہے: امّی جی! آپ نے حافظ صاحب کو دیکھا۔ میں نے کہا: زندگی میں نہیں دیکھا تو اب کیوں دیکھتی؟ اللہ کے احکامات تو وہی ہیں۔ شعوری طور پر نہیں دیکھا، اتنا لمبا ساتھ رہا، نظر پڑ جانا اور بات ہے، لیکن اللہ ربّ العزت نے اپنے دین اور نام کی برکت سے جو تعلق بنایا تھا، وہ الحمدللہ ان حدود وقیود میں ہی نبھتا رہا۔
اس تعلق کے منقطع ہونے پر دُکھی تو ہم ہیں ہی او رکچھ ہاتھ سے نکل جانے کا غم تو ہمیں ہی برداشت کرنا ہے۔ ورنہ اللہ ربّ العزت کی جناب سے قوی اُمید ہے کہ وہ اس وقت جل جلالہ کی برکات سے بہت کچھ پا ہی رہے ہوں گے ، وصول ہی کررہے ہوں گے کیونکہ ان کے کھونے کا وقت گذر چکا۔ اللهم اغفرله وارحمه، وعافه واعف عنه....
اللهم لا تحرمنا أجره ولا تضلنا بعده... آمین یا إلٰه العٰلمین!
! من کان باکیًا فلیبك علىٰ فقد العلم والعلماء !
حافظ عبد الرشید اظہر... ابو عبد الربّ انجنیئرعبد القدوس سلفی کی یادیں
میری زوجہ محترمہ باقاعدہ حضرت حافظ صاحب کی شاگرد رہیں تاہم راقم الحروف کا بھی باقاعدہ شاگردی کا سلسلہ اِتنا ہی طویل ہے۔ ہماری شادی سے قبل جب میں انجینئرنگ یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھا، تب سے حضرت حافظ صاحب سے تعلق بنا اور پھر اسلام آباد میں تا وفات اُستوار رہا۔راقم الحروف کو وہ وقت بھی یاد آتے ہیں جب 'تدریب الدعاۃ' کے کورسز جامع مسجد القدس چوک دالگراں لاہور او رپھر مسجد اہل حدیث لوکو ورکشاپ لاہور میں منعقد ہوا کرتے تھے جن میں حافظ عبد الرحمٰن مدنی ﷾ تحریکوں (الملل والنحل) کے جائزہ میں ؟؟؟کےساتھ ڈاکٹر اظہر صاحب بھی لیکچر دیتے تھے۔ الفقہ الاکبر (عقیدہ )اور الفقہ الاصغر (فقہ) کے اُصول ہم نے باضابطہ موصوف سے پڑھے چونکہ ان کلاسوں کی نظامت راقم کے ذمہ ہوتی جس میں موصوف کے لانے اور جانے کاانتظام مجھے کرنا ہوتا تھا تو ایک دفعہ وسن پورہ سے لوکو شیڈ ورکشاپ جانا ہوا۔ میرے پاس چائنہ کی سائیکل تھی تو بلا تذبذب سائیکل پر پیچھے بیٹھ گئے، تب میں حیران ہوگیا کہ اُنہوں نے سائیکل سواری کرلی؟! اِسی طرح ایک دفعہ اسلام آباد سے لاہور پڑھانے کے لئے آنا تھا تو وقت بچانے کے لیے ہوائی جہاز پر آگئے تب بھی میں حیرت زدہ ہوگیا کہ کس قدر ذِمہ داری کا احساس اور وعدہ کا پاس تھا اُنہیں ؟ وفات کی خبر سن کر مجھے مولانااعجاز احمد تنویر کا فون آیا۔ وہ ان ایام کا تذکرہ کر رہے تھے جب لوکو ورکشاپ کی مسجد میں حضرت حافظ صاحب طلباء وعلماء کو پڑھانے آیا کرتے تھے۔
آخری دنوں میں جب ہم زوجین، حضرت حافظ صاحب مرحوم سے بخاری شریف پڑھنے جا رہے تھے کہ اس دوران ایک دفعہ مجھ بتانے لگےکہ آپ کے رشتہ دار مولانا عبدالکریم دہلوی﷫،جن کو فوت ہوئے کئی سال ہوگئے ہیں، وہ میرے سگے پھوپھی زاد تھے۔ میں نے کہا آپ نے اُن کو کیسے یاد کیا۔کہنے لگے: دراصل وہ میرے اُستاد کے اُستاد تھے۔ پوچھا وہ کیسے؟ کہنےلگے: مولانا داؤد﷫ میرےاُستاد ہیں اور وہ اُن کے استاد تھے۔ پھر میں نے کہا:آپ مولانا مشتاق صاحب کو جانتے ہیں، وہ میرے چچا لگتے تھے۔کہنے لگے: ہاں وہ بھی میرے اُستاد کے اُستاد ہیں۔ تو عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے اَساتذہ کو کس قدر یاد رکھا کرتے تھے؟
زندگی بھر صالحین کی صحبت کے متلاشی رہے۔ اچھے وقتوں کی بات ہے کہ حافظ محمدیحییٰ عزیز میرمحمدی ﷫ کے مرکز بونگہ بلوچاں (موجودہ نام البدر) کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ جی چاہتا ہے کہ اسی بستی میں مکان بنایا جائے۔ جب مریدکے میں ایک مرکز شروع ہوا تو کہنے لگے کہ یہاں کوئی پلاٹ مل جائے تو ۔ اسی طرح کی خواہشات کا وقتاً فوقتاً اِظہار کیا کرتے ، ہم نے علماء کی قدر دانی اُن سے سیکھی۔ علماے کرام پر تنقید بھی بہت فرماتے لیکن علما کا دفاع کرنے پر آتے تو آخری حد تک جاتے ۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ ایسے عالم تھے جن کو سلف کی ایک تعبیر کے مطابق 'الامۃ'کہا جاسکتا ہے۔ہماری تنظیمیں اور جماعتیں حافظ صاحب کی ضرورت کبھی نہیں رہیں، بلکہ وہ تنظیموں کی ضرورت تھے۔
میں نے ایک دفعہ اسلام آباد میں 'عقیدہ کلاس'جاری کی۔ لوگوں نے سوال کیا کہ آپ نے یہ عقیدہ کہاں سے سیکھا کہ بڑی نادر باتیں آپ بتلاتے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ سب فیض ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اَظہر﷫ کا ہے۔ ہم کیا ہیں، ہم تو اُنہی کی باتیں آپ کو بتا رہے ہوتے ہیں۔ میں نے رُبع صدی سے اب تک جو منبر و محراب سنبھالا ہوا ہے تو اس میں جہاں حافظ عبدالمنان نوری پوری، حافظ عبداللہ بہاولپوری ،مولانا سلطان محمود محدث جلال پوری ﷭ کا حصہ ہے؛ وہاں ایک بڑا حصہ شہید حافظ عبدالرشید اظہر ﷫ کا بھی ہے ۔ مقالاتِ تربیت میں حضرت حافظ صاحب کا مقالہ پڑھا تو بے ساختہ میں نے کہا کہ حضرت آج مجھے مولانا اسماعیل سلفی﷫ کی جھلک نظر آرہی ہے۔کیونکہ محدثین کے فہم پر جامع بیان مولانا اسماعیل سلفی﷫ کے بعد اُن کے مقالات میں نظر آیا۔ آخری دنوں میں صحیح بخاری کی کتاب التوحید جس کی شرح حضرت مولانا حافظ عبدالستار حماد ﷾ نے لکھی ہے ، عنایت فرمائی۔ ہم زوجین کے سبق بخاری کا اختتام اس طرح فرمایا کہ یہ صحیح بخاری کی آخری کتاب ہے، اس پر میرا مقدمہ پڑھ لینا اور شرح سیکھ لینا۔ اسی طرح مسئلہ سُود اور اِسلامی بینکاری کے بارے میں ایک کتاب 'جانبِ حلال' عنایت فرمائی تو کہنے لگے کہ اس کا صرف مقدمہ ہی پڑھنا۔ کتاب میں جو موقف اِختیار کیا گیا ہے میں نے مقدمہ اُس کے خلاف ہی لکھا ہے ۔ یہ کتاب مولانا خلیل الرحمٰن جاوید صاحب کی لکھی ہوئی ہے۔
ہم سوچ رہے تھے کہ حافظ صاحب سے مزید بہت کچھ سیکھا جائے ۔ ان کا سارا علم سمیٹ لیا جائے لیکن جتنا مقدر تھا وہ سمیٹا تو خوب سمیٹا! ...ابھی بہت کچھ سیکھنا باقی تھا ۔
إن لله ما أخذ وله ما أعطٰى وكل شيء عنده بأجل مسمى
پس اَب تو اتنا ہی کہا جا سکتا ہے: اللهم لا تحرمنا أجره ولا تفتنّا بعده
سینیٹر پروفیسرساجد میر امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث کے تاثرات
''جامعہ سعیدیہ میں آج کی حاضری ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر﷫کی وفات حسرت آیات پر اظہارِ افسوس اور تعزیت کے لئےتھی۔ اللہ ڈاکٹر صاحب شہید کی خدماتِ جلیلہ کو قبول فرمائے اور اُنہیں بلند درجات سے نوازے ۔ نیز جامعہ کی تعلیمی و تدریسی بہتری و ترقی کے سامان خود مہیا کرے اور حافظ مسعود اور ان کے رفقا کو توفیق دے کہ وہ اس سلسلہ کو اچھے طریقے سے جاری رکھ سکیں ۔ آمین!''


 

حوالہ جات

1. اس عقیدہ کلاس کی شرکا میں سے دو اہم اورعزیز ترین شاگردات کافی مدت سے اللہ کی بارگاہ میں پہنچ چکی ہیں۔ شبانہ الطاف جسے میں مدیحہ کہا کرتی تھی اور صدیقہ عبدالرحمٰن جسے میں منیبہ کہا کرتی تھی۔ اللهم اغفرلهم وارحمهم وعافهم


2. 'تحریک مجاہدین اسلام' جامعہ لاہور اسلامیہ سے اُٹھنے والی پاکستانی سلفیوں کی وہ اوّلین تحریکِ جہاد تھی جس نے افغان جہاد میں حصہ لیا۔ جامعہ کے ناظم دفتر اور طلبہ اُمور کے اِنچارج جناب خالد سیف شہید اس کے قائد اور روح رواں تھے۔ 1988ء میں اس تحریک نے 'نداء الجہاد' کے نام سے پہلا جہادی رسالہ نکالا، راقم جامعہ کی جس رہائش گاہ میں اِن دنوں رہائش پذیر ہے، وہ اس تحریک کا اَوّلین دفتر تھی۔ 1990ء كے رمضان المبارك میں مولانا خالد سیف کی افغانستان میں دلیرانہ شہادت کے بعد اس تحریک کی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں، انہی سالوں میں مرکز الدعوۃ والارشاد (موجودہ جماعۃ الدعوۃ) نے جہادِ افغان کا محاذ سنبھالا جو بعد اَزاں جہاد کشمیر کی طرف مبذول ہوتا گیا۔ (ح م)

3. سنن النسائی الکبریٰ: رقم10235

4. مستدرك حاكم: رقم 1877

5. موسوعة الدفاع عن رسول اللہﷺ: ج2؍ص47