اہل حدیث اور فتویٰ نویسی؛ ایک تاریخی جائزہ

قيام پاکستان کے بعد اہلحدیث مجموعہ ہائے فتاویٰ کا تعارف

۱۔ فتاویٰ ثنائیہ ازمولانا ابو الوفاء ثناء الله امرتسری﷫ (۱۸۶۴ء۔۱۹۴۸ء)
مولانا ابو الوفاء ثناء الله بن خضر امرتسریکشمیر کے منٹو خاندان میں ۱۸۶۴ء کو اَمرتسر میں پیدا ہوئے۔ سات سال کی عمر میں پدری سایہ سے محروم ہوگئے۔1
مولانا نے حصولِ تعلیم کے سلسلہ میں اِنتہائی مصائب برداشت کیے۔ پندرہ سال کی عمر میں مولانا احمد الله کے مدرسہ تائید الاسلام امرتسر سے تعلیم کا آغاز کیا۔ وزیر آباد میں مولانا عبدالمنان محدثسے۱۸۸۹ء میں سند حدیث حاصل کی اس کے بعد دہلی تشریف لے گئے اور حضرت میاں نذیر حسین محدث دہلوی سے تعلیم حاصل کی اور ان سے تدریس حدیث کی اجازت حاصل کر لی۔ اس کے بعد سہارنپور اور وہاں سے دار العلوم دیوبند تشریف لے گئے اور شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے حلقہ شاگردی میں شامل ہوئے۔
بعد اَزاں کانپور کے مدرسہ فیض عام میں داخل ہوئے۔ ۱۸۹۲ء میں آپ کو دستارِ فضیلت دی گئی۔ دورانِ تعلیم مولانا کو اہل حدیث،دیوبند اور بریلوی اَساتذہ سے استفادہ کا موقع ملا۔ بعد اَزاں مولانا ندوة العلماء تاسیس کمیٹی کے رکن نامزد کیے گئے۔2
مدرسہ تائید الاسلام اَمرتسر میں چھ سال حدیث کی تدریس فرمائی۔3
مولانا کی تفسیر قرآن،سیرت ِ ثنائی میں ردّ ادیان باطلہ، مسلکی، تاریخی و ادبی اور کلامی موضوعات پر ۱۳۱ کتب کی فہرست دی گئی ہے ۔4
ان کتب سے مولانا کے تبحر علمی، دقت نظری اور قابلِ قدر خدمات کا بخوبی اَندازہ ہوتا ہے جو انہوں نے ہند کے مسلمانوں کے لیے سر انجام دیں۔ ۱۹۴۷ء کی تحریکِ آزادی میں مولانا کے بیٹے بم دھماکے میں شہید ہوئے بعد میں ہندوؤں نے آپ کے ذاتی کتب خانہ جس میں ہزاروں نادر و نایاب کتب تھیں جلا کر خاکستر کر دیں۔ جس کا صدمہ مولانا کے لیے فرزند کی شہادت سے کم نہ تھا۔ مولانا ۱۹۴۸ء میں سرگودھا منتقل ہو گئے اور اسی سال ۱۵ مارچ کو مختصر علالت کے بعد دارِ فانی سے رخصت ہو گئے۔5
فتاویٰ ثنائیہ مولانا ثناء الله اَمرتسریکے فتاویٰ کا مجموعہ ہے جن میں سے زیادہ ترہفت روزہ 'اہل حدیث' امرتسرمیں شائع ہوئے۔ مولانا محمد داؤد رازکا مرتب کردہ یہ مجموعہ ادارہ ترجمان السنۃ لاہورکی طرف سے دو جلدوں میں طبع کیا گیا ہے، جن میں بارہ ابواب ہیں۔ فتاویٰ ثنائیہ کا اجمالی خاکہ یہ ہے :
باب اوّل:       عقائد و مہمات دین        کل ۲۶۴ فتاویٰ
باب دوم:        کتاب الصلوٰة                   کل ۲۷۶ فتاویٰ
باب سوم:        کتاب الصیام                  کل ۵۲ فتاویٰ
باب چہارم:      کتاب الزکوٰة                  کل ۸۵ فتاویٰ
باب پنجم:             کتاب الحج                       کل ۳۵ فتاویٰ
باب ششم:        کتاب الجنائز                 کل ۷۸ فتاویٰ
باب ہفتم:             مسائل متفرقہ               کل ۱۷۷ فتاویٰ
باب ہشتم:             کتاب النکاح                  کل ۲۵۱ فتاویٰ
باب نہم:           کتاب البیوع                کل ۲۱۶ فتاویٰ
باب دہم:         کتاب الفرائض             کل ۱۶۹ فتاویٰ
باب یازدہم:       کتاب الامارہ             کل ۳۳ فتاویٰ
باب دوازدہم:      کتاب المتفرقات       کل ۸۲ فتاویٰ
اس طرح یہ مجموعہ ۱۵۳۹ فتاویٰ پر مشتمل ہے۔
فتاویٰ ثنائیہ میں فکری واعتقادی فتاویٰ جات کے ذیل میں مختلف مذاہب کا مختصر تعارف پیش کرتے ہوئے ان کے عقائد باطلہ کا قرآن کے حوالہ جات سے رد کیا ہے۔ مولانا حوالہ جات میں اکثر قرآنی آیات و احادیث اور کہیں کہیں اَشعار کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ فتاویٰ ثنائیہ کے فقہی فتاویٰ جات میں اقتصادی، وراثتی، سیاسی، معاشرتی اور عائلی استفسارات کے قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل جوابات فراہم کیے ہیں۔
مولانا نے اپنے فتاویٰ میں قرآن مجید، صحاح ستہ،حافظ ابن حجر، ابن قدامہ، بدایۃ المجتہد، رد المختار، مصنف عبدالرزاق، صحیح ابن حبان،سنن بیہقی، بدائع و صنائع، نیل الاوطار،معجم طبرانی، مسند احمد، سنن دارقطنی،مشکل الآثار طحاوی وغیرہ سے حوالہ جات لیے ہیں۔ مولانا قرآن اور حدیث کے عربی متن کو تحریر فرماتے ہیں اور اس کا ترجمہ و تشریح کرتے ہیں اور بعض اَوقات ایک مسئلہ میں مختلف علما کی رائے بیان فرما کر اپنی ذاتی رائے کو بھی بیان فرماتے ہیں، لیکن مولانا انتہائی اختصار سے کام لیتے ہیں۔ بعض اوقات ایک مسئلہ میں مختلف اَقوال بیان فرما کر اپنی رائے کا یہاں ذکر کرتے ہوئے راجح قول بیان کرتے ہیں۔ مولانا نے مہر کے مسئلہ پر فقہاے حنابلہ، شافعیہ، حنفیہ اور مالکیہ کے اَقوال نقل کر کے قرآن سے اِستدلال کیا ہے۔ اس مسئلہ میں مولانا نے حنفیہ اور حنابلہ کے قول کو ترجیح دی ہے۔ اسی طرح کفو کے مسئلہ پر قرآن پاک کی آیت کا حوالہ دے کر فقہا کے اختلافات کا اختصار کے ساتھ جائزہ لیا گیا ہے اور اس مسئلہ میں مولانا کی رائے مالکی مذہب سے ملتی ہے۔ نیز اس مسئلہ میں نبی کریمﷺکی احادیث کا حوالہ دیا ہے اور اس کی سند پر بحث کی ہے۔6
نیز مفقود الخبرکے مسئلہ کوبیان کرتے ہوئے رد المختار کا حوالہ دیا ہے۔ بعد ازاں آپﷺ کی اَحادیث بیان کرتے ہوئے فقہی مباحث کا ذکر کیا ہے۔ ان مثالوں سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا اپنی مجتہدانہ شان رکھتے تھے اور مختلف فقہا کی آراء میں دلائل کے ساتھ کسی ایک کو ترجیح دیتے تھے ۔7
۲۔فتاویٰ اہلحدیث از حافظ عبدالله محدث روپڑی﷫ (م۱۳۸۴ھ؍۱۹۶۴ء)
حافظ عبدالله محدثموضع کمیر پور تحصیل اجنالہ ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے۔8
قرآن ناظرہ پڑھنے کے بعد لکھو کے ضلع فیروز پور میں مولانا عبدالقادرسے صرف ونحوکی ابتدائی کتابیں پڑھیں اور پھر کمیر پور واپس آکر امرتسر مدرسہ غزنویہ میں قرآن مجید حفظ کیا اور نحو تا شرح جامی اور منطق تا قطبی مولوی معصوم علی سے پڑھیں۔
فقہ اور فلسفہ کی بعض کتابیں مدرسہ نعمانیہ اَمرتسر میں قراءت کیں۔ تفسیر و حدیث امام عبدالجبارغزنویسے اور حدیث کی بعض کتابیں مولوی عبدالاول غزنویسے پڑھیں پھر دہلی جا کر حافظ عبدالله صاحب غازی پوریسے منطق اور فلسفہ کی تعلیم مکمل کی۔ مدرسہ عالیہ رام پور سے مولوی فاضل اور درس نظامی پر دو اَسانید فضیلت حاصل کیں۔9
وہاں پر مولوی فضل حق رام پوریاور مولوی محمد امین پشاوریسے منطق و فلسفہ میں اکتساب فیض کیا۔ ۱۹۱۴ء میں فراغت پا کر واپس ہوئے۔ علامہ مولانا محمدحسین بٹالویکے ایماء اور جماعت اہلحدیث روپڑ ضلع اَنبالہ کی دعوت پر روپڑ میں قیام فرمایا۔ ۱۹۱۶ء کو روپڑ میں دار العلوم عربیہ اسلامیہ کے نام سے ایک مدرسہ جاری کیا۔10
حافظ صاحب نے صرف تدریس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ہمہ جہت جماعتی ذمہ داریوں کو اَدا کرتے رہے۔ حافظ صاحب نے تصنیف و تالیف کے میدان میں حصّہ لیا اور مقلدین اور اہل بدعت کی تردید میں متعدد کتابیں تالیف کیں جن کی تعداد ۴۴ ہے۔
آپ ۱۳۸۴ھ؍۱۹۶۴ھ کو لاہور میں فوت ہوئے۔ علم و فضل کے اس آفتاب کو گارڈن ٹاؤن لاہور کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔11
حافظ عبداللہ روپڑی کے فتاویٰ جات کو' فتاویٰ اہلحدیث' کے نام سے ان کے شاگرد مولانا محمد صدیق بن عبدالعزیزنے مرتب کر کے ادارہ احیاء السنہ النبویہ، ڈی بلاک سیٹلائٹ ٹاؤن سرگودھا سے شائع کیا۔
مجموعہ ہذا میں ایمانیات، عبادات، معاملات فقہ اور عقائد سے متعلقہ سوالات کو شامل کیا گیا ہے۔ اس میں تقریباً تمام شعبہ ہائے زندگی کے روز مرہ مسائل کے متعلق قرآن و حدیث سے اِستدلال کرتے ہوئے جوابات دیئے گئے ہیں تاکہ انسان اپنی اُخروی زندگی کو کامیاب بنانے کےلیے اس دنیاوی زندگی میں اپنے عقائد، اعمال، عبادات ومعاملات کو درست کر سکے۔اس مجموعہ کی چند خوبیاں درج ذیل ہیں:
1۔ ہر جواب کے بعد اپنا نام اور تاریخ مع سن لکھتے ہیں۔فتویٰ کے جواب کے اختتام پر یوں تحریر ہے: ''عبدالله اَمرتسری روپڑی ۱۹ محرم ۱۳۵۶ بمطابق ۱۲ اپریل ۱۹۳۷ء''12
2۔ قرآنی آیات سے بھر پور اِستدلال کیا گیا ہے جیسا کہ آیت قرآنی کا حوالہ دیتے ہیں۔ ترجمہ: میری رحمت نے ہر شے کو گھیر لیا ہے۔ عنقریب میں اس رحمت کو ان لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو پرہیزگاری کرتے ہیں: زکوٰة دیتے ہیں اور ہماری آیات پرایمان لاتے ہیں ۔13
3۔ زیادہ تر اَحادیث مبارکہ سےاِستدلال کرتے ہیں۔صحاح ستہ سے اور دیگر کتب حدیث سےاستفادہ کرتے ہیں مثلاً عالم کی فضیلت میں یہ حدیث لائے ہیں:
''عالم کی فضیلت عابدپر ایسی ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی ستاروں پر۔''14
4۔ دیگر کتب فقہ سے بھی اِستفادہ کیا ہے۔ جیسا کہ 'مسلم الثبوت' سے حوالہ دیتے ہیں۔ یعنی رسول الله اور اِجماع کی طرف رجوع کرنا اور عامی کا مفتی کی بات ماننا اور حاکم کا گواہوں یا گواہوں کی توثیق کرنے والوں کی بات ماننا تقلید نہیں ۔15
5۔ جواب نہایت آسان اور سادہ ہوتا ہے۔ لیکن کبھی کبھار صرف و نحو، فقہ اور منطق کی اِصطلاحات کا استعمال بھی کرتے ہیں۔
6۔ روپڑی صاحببعض اَوقات فقہاے اَحناف کے بارے میں سخت لہجہ اختیار کرتے ہیں۔ لیکن کئی مواقع پر اپنے فتویٰ کی تائید میں اَحناف کی کتب فقہ سے عبارت بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔
7۔ کسی اختلافی مسئلہ میں تحقیق سے مطمئن نہ ہوں تو اس کا اظہار کر دیتے ہیں۔
8۔ مسئلہ کی صورت حال کومدلل اَنداز میں تفصیل سے واضح کرنے کے بعد آخر میں اَخذ شدہ نتیجہ کو بطورِ خلاصہ درج کر دیتے ہیں۔
جیسا کہ غیبت کی حقیقت پر بحث کے آخر پر لکھتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ عیب والے کی یا دوسرے کی خیر خواہی کی نیت ہو تو اس صورت میں عیب کا ذکر غیبت نہیں ورنہ غیبت ہو گا۔16 قرآن پاک کی تفاسیر میں سے تفسیر ابن کثیر، تفسیر کبیر، تفسیر خازن کے حوالہ جات بھی موجود ہیں۔
9۔ فتاویٰ اہل حدیث میں ایمان، طہارت، عبادات، معاملات یعنی تجارت، نکاح اور طلاق وغیرہ سے متعلق فتاویٰ شامل کیے ہیں۔
۳۔فتاویٰ ستاریہ از مولاناحافظ ابو محمدعبدالستاردہلوی﷫ (۱۹۰۵ء-۱۹۶۶ء)
مولاناحافظ ابو محمدعبدالستاردہلویستمبر۱۳۲۳ھ؍ ۱۹۰۵ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ابتدا میں قرآن کریم حفظ کیا پھر دیگر علوم اپنے والد سے حاصل کئے۔17 تکمیل تعلیم کے بعد دہلی میں اپنے والد عبدالوھاب دہلویکے قائم کردہ 'مدرسۃ الکتاب والسنۃ'میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکے کراچی تشریف لائے اور پرنس روڈ پر 'مدرسہ دارالسلام' قائم کرکے درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا۔18
آپ جماعت غرباءِ اہل حدیث کے اَمیر ثانی تھے۔ جماعت کے ترجمان مجلہ 'صحیفہ اہل حدیث' جو انڈیاسے چھپتا تھا تحریکِ پاکستان کی وجہ سے کچھ عرصہ بند رہا۔ کراچی آمد کے بعدصحیفہ اہل حدیث کا اِجراء(ثانی) بھی کیا۔ مولاناکثیر الدرس عالم تھے، ان سے تلامذہ کی ایک کثیر جماعت نے استفادہ کیا۔اپنی تمام تر مصروفیتوں کے ساتھ ساتھ تصنیف وتالیف کی طرف بھی عنان توجہ مبذول فرمائی۔ ان کی گراں قدرتصانیف،تفسیرستاری، نصرة الباری شرح صحیح بخاری اور فتاویٰ ستاریہ بہت اَہم ہیں۔آپ نے ایک طویل عرصہ کی جہدِ دینی وسعی علمی کے بعد ۲۹اگست۱۹۶۶ء کو کراچی میں وفات پائی۔19
مولانا عبدالستار دہلویکے فتاویٰ کا یہ مجموعہ آپ کے صاحبزادے مولانا عبدالغفار سلفی نے مرتب کیا ہے۔ جو کہ آپ سے پوچھے گئے سوالات اور رسائل وجرائد میں شائع شدہ فتاویٰ پرمشتمل ہے۔ اس فتاویٰ کی کوئی خاص ترتیب نہیں ہے۔آغازِ مسئلہ رضاعت اورمسئلہ زکوٰة پر اختتام ہوتاہے۔ اس میں آپ کے صاجزادے مولاناعبدالغفاراور دیگر علما کے فتاویٰ بھی شامل ہیں۔
اس فتاویٰ میں شعبہ ہائے زندگی کے متعلق مختلف مسائل کا حل پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور بلاترتیب فتاویٰ کو جمع کیا گیا ہے۔ مسائل کو دلیل دیے بغیر مسئلہ کی وضاحت کی گئی ہے۔اکثر فتاویٰ عمومی نوعیت کے شخصی مسائل پر مشتمل ہیں۔صرف فروعی اختلافات کے مسائل کے متعلق جوابات مدلل دئیے ہیں اور عقیدہ توحید کے متعلق جوابات مفصل ہیں۔قرآن وحدیث سے سب سے زیادہ دلائل دیے گئے ہیں۔جبکہ کتب فقہ سے دلائل بہت کم ہیں۔
مسائل کی وضاحت کے لیے زیادہ سے زیادہ قرآن وحدیث سے دلائل پیش کئے ہیں۔مثلا ترکہ کے بارے سوال پر کہتے ہیں:
''ہندہ کا ترکہ ۲۴حصوں پر منقسم ہو کر بدلیل آیت قرآنی وفیصلہ آسمانی ﴿فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ ﴾ وایضاً ﴿ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ ﴾ کے خاوند کو چوتھائی یعنی۲۴حصوں میں سے ۶حصے اور والدین میں سے ہر واحد کے لیے سُدس یعنی چار چار حصے اور باقی دس حصے لڑکے کو ملیں گے۔20
تارکِ نماز کے متعلق آپ یہ فتویٰ صادر کرتے ہیں:
''میری تحقیق میں جس جگہ شارع نے کفر کا اطلاق اپنے حال پر رہنے دیا ہے وہاں اطلاق کفر کا کرنا صحیح ہے۔ بے نماز کو رسول اللہ ﷺنے کافر کہا ہے۔ سنن نسائی جلد 1 صفحہ ۴۹ میں ہے: قال رسول اللهﷺ: «العهد الذي بیننا وبینهم الصلوٰة فمن ترکها فقد کفر»دوسری روایت میں ہے قال: کان أصحاب محمد ﷺ لایرون شیئًا من الأعمال ترکه کفر غیر الصلوٰة اور امام احمد کا بھی یہی مذہب ہے کہ تارک الصلوٰة کافر ہوجاتا ہے ۔پس ایسا آدمی اگر توبہ کرے (اور مرنے سے قبل نماز کا پابند ہوجائے) تو اس کی جنازہ کی نماز جائز ہے ورنہ جائز نہیں۔ والله تعالى أعلم وعلمه أتم وأکمل21
اور مختلف کتبِ فقہ اور فتاویٰ سے بھی اِستدلال و استشہاد کرتے ہیں۔ آپ سے جب پوچھا گیا :
''بچہ کے عقیقہ میں بھیڑ بکری ہی ذبح کرنی چاہیے یا گائے بیل بھی جائز ہے جواب مدلل ہو اور بکروں کی جگہ ایک بکرا اور ایک بیل جائز ہے یا نہیں؟''سائل مولانا خضر الدین صاحب ازکھولاہاٹی رنگپور'' اس کے جواب میں رقمطراز ہیں:
''عقیقہ میں شرعاًبھیڑ،بکری،اونٹ ،گائے جائز ہے۔ ہرشخص حسبِ توفیق وحسبِ حیثیت اس اَمر مسنون کو اداکرسکتا ہے۔ دوبکروں کی بجائے ایک بکرا اور ایک گائے یا بیل کی ممانعت پر بھی کوئی دلیل نہیں۔'' پھر نیل الاوطار اورفتح الباری کے مباحث نقل کرنے کے بعد بطور استشہاد لکھتے ہیں۔''نیز مولوی ابوالقاسم محمد عبدالغنی اپنی کتاب تذکرة الحسنیٰ کے ص۱۸۰ پر تحریر کرتے ہیں کہ (عقیقہ میں) گائے اور شتر بھی جائزہے اور ساتواں حصہ گائے کا مثل ایک بکری کے ہے۔ اگر مثلاً تین بیٹے اور ایک بیٹی کا عقیقہ ساتھ کرنا چاہیں تو ایک شتر یا گائے کفایت کرتا ہے۔کیونکہ تین بیٹے کے چھ جانور اور ایک بیٹی کا ایک تو اَب سات ہوئے اور ایک شتر یا گائے حکم سات بکری کا رکھتا ہے انتہیٰ۔نیز مولوی محمود حسن صاحب حنفی دیوبندی کے شاگرد نے اپنے رسالہ'فتاویٰ محمدی' کے ص۵۰میں لکھا ہے اگر ایک گائے میں چھ شخص قربانی کی نیت سے شریک ہوں اور ساتواں شخص اپنے بچے کے عقیقہ کے لیے شریک ہوجائے تو جائز ہے۔"22
۴۔فتاویٰ سلفیہ از مولانا محمداسماعیل سلفی﷫ (۱۹۰۱ء۔۱۹۶۸ء)
مولانا محمداسماعیلوزیرآباد ضلع گوجرانوالہ کے قریب ایک گاوٴں'ڈھونے کی' میں ۱۳۱۹ھ؍۱۹۰۱ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد بزرگوار مولانا محمدابراہیماعلیٰ درجہ کے خوشنویس تھے۔ چنانچہ سنن ترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی کی چاروں جلدیں اور قرآن مجید مترجم مولانا وحید الزمان مطبوعہ لاہور ان کی خوشنویسی کا شاہکارہیں۔ انہوں نے اپنے اس اَکلوتے فرزندِارجمند کو ہوش سنبھالتے ہی اُستاد پنجاب حافظ الحدیث مولاناحافظ عبدالمنان صاحب﷫ محدث وزیرآباد ی کی خدمت میں دینی تعلیم کےلیے بھیج دیا۔آپ نے جملہ علوم وفنون،قرآن وحدیث،فقہ اصولِ فقہ،عربی اَدب،منطق،فلسفہ،عقائد وکلام وغیرہ حضرت حافظ صاحب سے حاصل کیے بعد اَزاں اَمرتسراوردہلی کے مشہور اَساتذہ سے بھی کسبِ فیض کیا۔ آخر میں مولانا حافظ محمد اِبراہیم میر سیالکوٹی کی خدمت میں حاضر ہوکر مزید علم حاصل کیا۔ آپ نے ۱۳۴۰ھ؍۱۹۲۱ء میں مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی اور مولانا ثناء اللہ اَمرتسری کی تجویز پرگوجرانوالہ میں مسند تدریس وخطابت سنبھالی ۔
گوجرانوالہ شہر میں بالخصوص اور علاقہ گوجرانوالہ میں بالعموم توحید وسنت کا نور آپ کے دم قدم سے پھیلا۔آپ کو 'علم حدیث'میں تبحر حاصل تھا۔چنانچہ آپ کے اِنتقال پر ماہ نامہ 'الرحیم'نے لکھا کہ آپ واقعی'شیخ الحدیث'تھے۔
آپ اَکابرعلماے اہل حدیث کی جملہ صفات کے حامل اور ایک مثالی شخصیت تھے۔ مولانا حافظ عبداللہ غازی پوریکاورع اور تقویٰ مولانا عبدالرحمن مبارک پوریکی تواضع مولاناعبدالواحدغزنویکا ذوق قرآن فہمی،مولانا عبدالعزیزرحیم آبادیکی انگریزدشمنی مولانا ثناء اللہ امرتسریکا ذوق تالیف، مولانامحمد ابراہیم میر سیالکوٹی کا جوہرخطاب،مولانا عبدالقادر قصوریکی متانت اور عمق فکر،مولاناحافظ عبداللہ روپڑیکا ملکہ افتاء،مولانامحمد داوٴد غزنویکی معاملہ فہمی اور وُسعتِ قلبی...یہ صفات ایک مولانااسماعیل میں موجود تھیں۔23
جامع مسجد اہل حدیث گوجرانوالہ میں خطیب اور مدرسہ محمدیہ کے'شیخ الحدیث'رہے۔ تقریباًپچاس برس شہر میں درس قرآن وحدیث دیا۔ہزاروں لوگوں کو قرآنِ پاک کا ترجمہ مع ضروری تفسیر کے پڑھایا۔ ۲۰ ذیقعدہ ۱۳۸۷ھ؍ ۲۰فروری۱۹۶۸ء بروز منگل چار بجے بعد نماز عصر انتقال فرماگئے۔ جنازہ میں لوگوں کابے پناہ ہجوم تھا کہ بقول شورش کاشمیری ''ایسا جنازہ تو بادشاہوں کو بھی نصیب نہیں ہوا۔''24
'فتاویٰ سلفیہ'آپ کے فتاویٰ جات کا مجموعہ ہے۔یہ ۱۹۲صفحات پر مشتمل ہے جو اِسلامک پبلشنگ ہاوٴس ، لاہور نے ۱۴۰۷ھ؍۱۹۸۶ء میں شائع کیا ہے۔ یہ اُن فتاویٰ جات کا مجموعہ ہے جو ہفت روزہ 'الاعتصام' میں وقتاًفوقتاً چھپتے رہے۔ ہفت روزہ 'الاعتصام' مسلک اہل حدیث کا نمائندہ جریدہ ہےجو ۱۹اگست ۱۹۴۹ء کو گوجرانوالہ سے جاری ہوا۔ مولانا سلفیکی زیرِ نگرانی ہونے کی وجہ سے اس میں جگہ پانے والی تحریرات علمی، اَدبی اور جماعتی حمیت کی مظہر ہوتیں۔زیرِنظر مجموعہ میں ۱۹۵۰ءاور ۱۹۶۷ء کے دوران 'الاعتصام' میں چھپنے والے آپ کے فتووں کو یکجا کیا گیا ہے جو کہ تعداد میں ۲۳ہیں۔ اگر ان میں ضمنی فتاویٰ کو بھی شامل کیا جائے تو ان کی تعداد۳۰ ہوجاتی ہے، ہر فتویٰ کے آخر میں تاریخ اور شمارہ کا نمبر درج کردیا گیا ہے۔
بعض فتاویٰ نہایت مختصر ہیں بعض مفصل مثلاًعدت کے دوران نکاح کے متعلق فتویٰ صرف دوسطروں پرمشتمل ہے۔25 جبکہ اَکثر جواب بہت مفصل ہیں جیسے دیہات میں نماز جمعہ فرض ہے (ص۷۵تا ۹۹)، آنحضرتﷺکایوم پیدائش(ص۱۱ تا۲۰)، رویتِ ہلال اور مشینی آلات (ص۴۰ تا ۵۶)، داڑھی کتنی بڑی ہو(ص۹۹ تا۱۱۲)اہلحدیث کی اِقتدا (ص۱۱۲ تا ۱۲۷)
فتویٰ میں آپ کا منہج یہ ہے کہ آپ زیادہ تر دلائل قرآن وحدیث سے پیش کرتے ہیں نیز آثار ،فقہا کی آراء اور علماے سلف کی تحریروں سے اِستشہاد کرتے ہیں۔ضروری کلمات اور مفردات کی لغوی بحث بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ نیز معاصر علما جن میں اہل حدیث بزرگ بھی شامل ہیں سے ٹھوس علمی دلائل کے ساتھ اختلاف رائے کیا ہے۔ لیکن اس میں حدِ احترام کو خاص طورپر ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔26
اگرقرآن وسنت سے کوئی دلیل نہ ملے تو صراحت کردیتے ہیں کہ ''مجھے اس سلسلہ میں کوئی دلیل شرعی نہیں ہے۔ میں اپنی فہم سے عرض کررہا ہوں اس لیے آپ کو اس پر قانع ہونے کی ضرورت نہیں بہتر ہے کہ تسکین کے لیے علما کی طرف رجوع کیا جائے۔''
اس میں کوئی خاص ترتیب کا اِہتمام نہیں کیا گیا بلکہ متفرق پوچھے گئے مسائل کو مرتب کیا گیا ہے۔تحریر کا اسلوب بہت دل نشین اور ٹھوس علمی دلائل کی وجہ سے پر تاثیر ہے۔اَنداز تحریر کی یہ خوبی قابل ذکر ہے کہ خاصے چبھتے اور اختلافی مسائل کو زیرِبحث لاتے ہوئے قاری کوناگواریت کا احساس نہیں ہونے دیتے۔معاصر ین علما اور فضلاء اور مقتدر اصحاب پر تعاقب کرتے ہیں اور کہنے کی کوئی بات نہیں چھوڑتے کہیں کہیں چُٹکیاں بھی لیتے ہیں۔تاہم اپنے مقام رفیع سے نیچے اُترتے نظرآتے ہیں نہ ان کے ادب واحترام کے منافی کوئی چیز نوک قلم پر لاتے ہیں۔27
فتویٰ میں سب سے پہلے قرآنی آیات سے اِستدلال کرتے ہیں جیسے دیہات میں جمعہ کے متعلق فتویٰ میں اس آیت: ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا نودِىَ لِلصَّلو‌ٰةِ مِن يَومِ الجُمُعَةِ فَاسعَوا إِلىٰ ذِكرِ‌ اللَّهِ وَذَرُ‌وا البَيعَ ذ‌ٰلِكُم خَيرٌ‌ لَكُم إِن كُنتُم تَعلَمونَ ٩ ﴾ ..... سورة الجمعة سے استدلال کیا ہے۔28
موجودہ مجموعہ میں کوئی ایک آدھ فتویٰ کو چھوڑ کر کوئی بھی فتویٰ بغیراَحادیث کے استدلال سے نہیں دیا گیا ہے۔ بلکہ ایک سوال کے جواب میں کئی کئی روایات ذکر کی گئی ہیں بعدازاں مذاہبِ ائمہ محدثین اور شارحین کے تشریحات کو بطور استشہاد پیش کیا ہے۔
مثلاً عائلی قوانین کی بابت تفصیلی بحث کرتے ہؤئے ابن کثیر کے حوالے سے حضرت عمرؓ کی روایت تین اسانید سے بیان فرمائی ہے۔ پھر حافظ ابن جریر طبری کے اقوال سے استشہاد کرتے ہیں۔ بعد ازاں مستدرک حاکم کے حوالے سے حضرت علیؓ کی روایت میں علیحدہ علیحدہ حوالوں سے بیان فرماتے ہیں۔29
بعض مسائل میں ائمہ فقہا کی آرا تفصیلاً بیان کرتے ہیں اور بعض اوقات فقہاے احناف کے مابین اختلاف کوواضح کرتے ہیں۔30 اسی طرح ضرورت کے مطابق لغوی بحث بھی کرتے ہیں جیسے'قریہ'،'مدینہ' اور'مصر' نیز اعفا، ارخا، ایفا، ارجا اور توقیر وغیرہ31
مولانا اپنے فتاویٰ میں صحاح ستہ، فتح الباری، ابن کثیر، مسعودی، ابن خلدون، ابن حزم، ابن جریر،امام ابن قیم، امام شوکانی، امام نووی، نواب صدیق حسن خاں، امام ابن تیمیہ﷭ سے استدلال پیش کرتے ہیں۔
۵۔اسلامی فتاویٰ ازعبدالسلام بستوی﷫ (۱۹۰۷ء۔۱۹۷۴ء)
مولانا عبدالسلام بستوی بن شیخ یادعلی ۱۳۲۷ھ؍۱۹۰۷ء کو ہندوستان کے نوگڑھ قصبہ بشن میں پیدا ہوئے۔ مفتاح العلوم، مدرسہ حمیدیہ،مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور اور دیوبند سے علوم دینیہ کی تحصیل کی۔
فراغتِ تعلیم کے بعددہلی میں دینی خدمات سرانجام دیں۔علوم اسلامیہ میں گہری نظر رکھتے تھے،تفسیر حدیث اور فقہ پر عبور حاصل تھا ۔فتویٰ نو یسی میں آپ کو خاص مہارت حاصل تھی۔آپ نے ۱۳۹۴ھ؍۱۹۷۴ء میں وفات پائی۔32
آپ کے مجموعہ فتاویٰ'اسلامی فتاویٰ' کے نام سے سوال و جواب کی صورت میں ہے۔ ایک جلد اور کل ۴۱فتاویٰ پر مشتمل ہے۔ کتب خانہ مسعودیہ ،دہلی سے ۱۹۶۹ء شائع ہوا ہے۔ یہ ایک بلند پایہ علمی ذخیرہ ہے جس میں بڑے مدلل اور مفصل فتاویٰ جات لکھے گئے ہیں۔ ابتدا میں علامہ ابن قیم 'اعلام الموقعین عن رب العالمین' میں سے آداب فتویٰ کی علمی بحث بھی شامل اِشاعت ہے۔
مولانا کے اکثر فتاویٰ اَخبارات ورسائل میں چھپ چکے ہیں جنہیں مولانا نے خود فقہی ترتیب کے مطابق مرتب کیا ہے ۔ آپ نے قرآن اور حدیث کی روشنی میں سوالوں کے مدلل جوابات دیئے ہیں فقہ کی کتب کا حوالہ شاذہے۔صحاح ستہ وشروح صحاح ستہ کے حوالہ جات دیئے گئے ہیں۔ مثلاً مولانا نے منکرین حدیث کے رد میں جو فتویٰ دیا اس میں۱۱ قرآنی آیات۹ اَحادیث ہیں۔نیز کتاب الام، تفسیر ابن کثیر، اعلام الموقعین،تفسیر خازن، تفسیرفتح البیان اور احیاء العلوم وغیرہ سے عبارتیں نقل کرکے مفصل ومدلل فتویٰ دیا۔33
منکرینِ حدیث کے بارے میں ۱۳ صفحات پر مشتمل تفصیلی فتویٰ میں کتابت وتدوین حدیث پر تفصیلی بحث کی ہے اور ان کتب وصحائف کا تعارف بھی دیا ہے جو عہد رسالت میں رسول اللہﷺ نے خود لکھوائیں یا صحابہ کرام نے لکھی ہیں۔34
۶۔فتاویٰ علماے اہل حدیث (مرتب)ابوالحسنات علی محمد سعیدی﷫ (م۱۹۸۷ء)
یہ مجموعہ فتاویٰ نامور اور جید ومعروف علماے اہل حدیث کے فتاویٰ پر مشتمل ہے۔ مرتب ابو الحسنات علی محمد سعیدینے اس میں فتاویٰ نذیریہ،فتاویٰ عزیزیہ، فتاویٰ غزنویہ اورفتاویٰ نواب صدیق حسن خان کے مکمل مجموعہ فتاویٰ کے علاوہ اہل حدیث مکتب فکر کے نمائندہ رسائل،تنظیمِ اہل حدیث، اہل حدیث سوہدرہ، اہل حدیث دہلی،گزٹ اہل حدیث، اَخبارِ محمدی وغیرہ سے۶۸ علما کے فتاویٰ کو بڑی محنت اور عرق ریزی سے جمع کیا ہے۔ چودہ جلدوں پر مشتمل اس مجموعہ کی ہر جلد کے آ غاز میں ماخذ فتاویٰ علماے حدیث کے ذیل میں ان کتب فتاویٰ اور مفتیوں کے نام موجود ہیں جن سے فتاویٰ اخذ کیے گئے ہیں۔35
اکثر مجموعہ فتاویٰ کا تعارف مقالہ ہذا میں موجود ہے۔یہ مجموعہ فقہی اَبواب پر مرتب ہے۔ استفتا ء کے جواب میں براہِ راست کتاب وسنت سے دلائل پیش کیے گئے ہیں۔تکرار فتویٰ سے اجتناب کیا ہے۔ایک ہی مسئلہ کے متعلق مختلف مفتیان کے فتاویٰ کو ایک ہی جگہ جمع کیا ہے۔ہرسوال اور فتویٰ کے اختتام پر سائل اور مجموعے کا حوالہ جلد و صفحہ نمبر کے ساتھ دیا ہے۔مثلاً
مولوی نور الٰہی کھرجاکھی کے محررہ۱۹۳۴ء کے اِستفسارات کے جواب میں شاہ عبدالعزیز شیخ جلال البخاری ،شیخ اَرشد جونپوری،شیخ رشید احمد جونپور،شیخ احمد فیاض امیتھوی، مرزا جانِ جاناں دہلوی،سید اِسماعیل شہید دہلوی اور مولانا خرم بلہوری کے فتاویٰ وآرا کو یکجا کیا ہے۔یہ فتویٰ فتاویٰ نذیریہ ،ص۴۲۰ کے حوالہ سے نقل کیا گیا ہے۔36
اور امام کا مقتدیوں سے اونچا کھڑا ہونے کے بارے فتاویٰ ثنائیہ سے نقل کیا گیا ہے :
''امام کو مقتدیوں سے اونچا کھڑا ہونا بجز کسی خاص اَہم ضرورت کے جائز نہیں۔ دارقطنی میں روایت ہے: نهىٰ رسول اللهﷺ أن یقوم الإمام فوق شيء والناس خلفه یعنی أسفل منه یعنی آنحضرتﷺ نے منع فرمایا ہے کہ امام مقتدیوں سے اونچا کھڑا ہو (۱۸اپریل۱۹۴۱ء،فتاویٰ ثنائیہ،جلد۱،ص۲۸۰) ۔37
۷۔فتاویٰ رفیقیہ از حضرت مولانا محمد رفیق پسروری﷫ (م ۱۹۷۷ء)
یہ مجموعہ جماعت اہلحدیث کے فاضل نوجوان رانا محمدشفیق پسروری کے والدِ گرامی مولانا محمد رفیق پسروریکا ہے۔ ان کا یہ مجموعہ مکتبہ اہل حدیث پسرور میں موجود ہے۔ مجموعہ ہذا مختلف مسائل خصوصاً اہل حدیث کے امتیازی مسائل پر مشتمل ہے۔ پہلے یہ فتاویٰ مختلف اہل حدیث جرائد میں شائع ہوتے رہے۔ بعد ازاں موصوف نے خود ہی عوام کی راہنمائی کے لیے ان فتاویٰ کو چار اَجزا میں مرتب کر دیا جو بعد اَزاں طبع بھی ہوا۔
۸۔فتاویٰ صراطِ مستقیم ازمحمود احمد میر پوری﷫ (۱۹۴۲ ء ۔ ۱۹۸۸ء)
مولانامحمود احمد میر پوری میر پور آزاد کشمیر کے گاؤں نگیال میں ۱۹۴۶ء کو پیدا ہوئے۔ جامعہ اِسلامیہ مدینہ یونیورسٹی سے سندِ فراغت حاصل کرنے کے بعد برطانیہ میں حکومت سعودیہ کی طرف سے دینی خدمات سر انجام دینے کے لئے مقرر کیے گئے۔
جمعیت اہلحدیث برطانیہ کے ناظم اعلیٰ، اسلامی شریعت کونسل کے جنرل سیکرٹری مجلس تحفظ مقاماتِ مقدسہ کے کنوینر اور ماہنامہ'صراطِ مستقیم' کے مدیر مسئول رہے۔آپ ۱۰ اکتوبر ۱۹۸۸ء کوکار حادثے میں فوت ہو گئے۔38
'صراط مستقیم' چونکہ ایک دینی رسالہ تھا جس کی اِدارت مولانا خود فرمایا کرتے تھے۔ نہایت احتیاط اور دلچسپی سے آپ یہ کام سر انجام دیتے رہے۔ دنیا بھر سے ہر فرقے کے لوگ ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہو کر اس رسالے کا بے قراری سے انتظار کرتے تھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مولانا کے الفاظ میں آمد ہوتی تھی نہایت دھلے ہوئے الفاظ جو قاری کے دل میں اُتر جاتے۔ یہ رسالہ اَب بھی جاری ہے اوراس کے مدیر مولانا عبدالہادی ہیں۔
آپ کے فتاویٰ جات کو مولانا ثناء الله سیالکوٹی نے مرتب کیاہے۔ جسے اِدارہ صراط مستقیم برمنگھم نے 'فتاویٰ صراط مستقیم' کے نام سے شائع کیا ہے ۔اسکے ۵۵۸ صفحات ہیں۔
'فتاویٰ صراطِ مستقیم' سوالاً جواباً ہے جو برطانیہ دیگر یورپین ممالک، متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک سے آنے والے استفسارات کے جوابات پرمشتمل ہے۔
زیرِنظر مجموعہ دو حصّوں پر مشتمل ہے۔حصّہ اوّل میں درج ذیل عنوانات ہیں:
عمل، ایمان اور عقائد، قبولیت عمل کے لیے شرائط، دعا میں واسطے یا وسیلے کی شرعی حیثیت، رسالت، مسائل وضو، جرابوں پر مسح، تیمم،احکام مسجد، نماز کے مسائل، وِتر کی نماز کا وقت اور تعداد، جمعہ کے مسائل، صلوٰة جنازہ، ایصال ثواب کی بدعات، احکام رمضان، مسائل عیدین، قرآن حکیم سے متعلق چند سوالات۔
حصّہ دوئم میں درج ذیل عنوانات ہیں:مسائل زکوٰة، مسائل حج، جہاد، مسائل نکاح،اَحکام طلاق، مسنون کام، بدعت کے مختلف روپ، عورتوں کے متفرق مسائل، گانا بجانا، حرام اَشیا سے متعلقہ مسائل، مختلف فرقے، جدید مسائل، متفرق مسائل شامل ہیں۔
اس مجموعہ کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں دنیا بھر کے لوگوں کے بھیجے گئے مسائل کا تسلی بخش جواب دیا گیا ہے۔ ایسے ایسے جدید مسائل سے آگاہی ہوتی ہے جو ایک عام انسانی سوچ سے بالاتر ہے کہ دنیا میں لوگوں کو اس قسم کے مسائل بھی در پیش ہو سکتے ہیں۔ لیکن مولانا کی علمی وجاہت اور شان و شوکت کو دیکھیں آپ جدید سے جدید مسئلے کو قرآن وسنت اور صحابہ کرام کے اَقوال کی روشنی میں یوں حل فرماتے ہیں کہ تشنگی باقی نہیں رہتی۔
بحیثیتِ مجموعی زبان سادہ اور عام فہم ہے۔ مولانا موصوف کی اس تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے پوری زندگی دینی مسائل کی تفہیم کے لئے اپنی زبان اور قلم کو نہایت ہی سلجھے اَنداز میں استعمال کیا۔
مولانا موصوف اپنے مسائل کے اِستدلال میں قرآن مجید اَحادیث، اَئمہ اَربعہ، فقہاے کرام کے اَقوال بھی لیتے ہیں اور بعض جگہ اپنی اجتہادی رائے بھی دیتے ہیں۔
نماز میں بلاوجہ تاخیر کرنے کے بارے میں قرآن مجید کی آیت پیش کرتے ہیں: ﴿وَإِذا قاموا إِلَى الصَّلو‌ٰةِ قاموا كُسالىٰ..... ١٤٢ ﴾.... سورة النساء", اور اس کے علاوہ مسائل میں احادیث سے بھی اِستدلال کرتے ہیں۔39 آدھی آستین والی قمیص میں نماز پڑھنا کے بارے میں حدیث کی دلیل دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:«من صلى في ثوب واحد فیخالف بین طرفیه»یعنی جس آدمی نے ایک کپڑے میں نماز پڑھی وہ اپنے دونوں کندھوں پر اس کپڑے کو ضرور ڈالے۔40
بعض جگہ اپنے مسئلہ کے اِستدلال کے لیے اَئمہ اَربعہ کے اَقوال بھی پیش کرتے ہیں۔
نعتوں اور قوالیوں کا سلسلہ جو گانے بجانے کے ساتھ ہے ان کے بارے میں ائمہ اربعہ کے اَقوال بھی پیش کرتے ہیں۔امام نوویشرح صحیح مسلم میں لکھتے ہیں کہ گانے کو امام ابو حنیفہاور دوسرے ائمہ عراق نے حرام قرار دیا ہے۔
اس کے علاوہ وہ فقہاے کرام کے اقوال بھی بیان کرتے ہیں۔ حضرت شاہ عبدالعزیز دہلویاپنے فتوے میں فقہ حنفی کی مشہور کتاب محیط کے حوالے سے لکھتے ہیں:"التغنى والتصفیق واستماعها کل ذلك حرام ومستحلها کافر" یعنی گانا بجانا، تالیاں پیٹنا اور ان کا سننا یہ سب حرام ہیں اور ان کو حلال قرار دینے والا کافر ہے۔41
بعض جگہ وہ مسئلہ کا حل اپنے اجتہاد کے ذریعے بھی کرتے ہیں مثلاً عورت کی ڈرائیونگ کے بارے میں لکھتے ہیں:
عورتوں کو ڈرائیونگ سیکھنے یا کار چلانے میں بظاہر کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے خواتین بسوں میں زیادہ محفوظ ہیں یا اپنی کاروں میں سفر کرتے ہوئے تو اس کا انحصار حالات پر ہے بعض اَوقات اکیلی عورت چلاتے ہوئےبھی کئی قسم کے خطرات کی زد میں ہوتی ہے اور اسے زیادہ حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے اور بسا اوقات بسوں میں دوسری عورتوں سے زیادہ مامون ہوتی ہے۔42
۹۔فتاویٰ برکاتیہ از اَبوالبرکات احمد بن اسماعیل﷫ (۱۹۲۶ء۔۱۹۹۱ء)
اَبوالبرکات احمد بن محمد اسماعیلہندوستان کے قصبہ چمناڑ میں ۱۳۴۵ھ؍۱۹۲۶ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مختلف علما سے حاصل کی بعداَزاں مدرسہ عالیہ عربک کالج، مدراس سے سند فراغت حاصل کی۔آپ نےشوافع، احناف اور اہل حدیث مکاتب کے اکابر علما سے کسبِ فیض کیا۔تقسیم ہند کے بعد گوجرانوالہ آگئے اوریہاں جامعہ اسلامیہ سے تاحیات وابستہ رہے۔ آپ کی وفات۱۹۹۱ء گوجرانوالہ میں ہوئی۔43
آپ کے فتاویٰ جات کو مولانا محمد یحییٰ طاہر نے 'فتاویٰ برکاتیہ'کے نام سے مرتب کیا ہے اور یہ ۳۶۶صفحات اور ۵۵۸ فتووں پر مشتمل ہیں۔
فتاویٰ ہذا کے مقدمہ میں آپ کے حالات زندگی درج کیے گئے ہیں۔اس مجموعہ فتاویٰ میں عبادات،عقائد ،نکاح ،طلاق ، قراءت خلف الامام ،عورت کی حکمرانی اورمسئلہ علم غیب سے متعلق مذکورہیں۔ یہ فتاویٰ مختصر آسان زبان میں ہے۔اس میں اکثر قرآن، حدیث، فقہ، اور مآخذثانویہ سے حوالے ذکر کیے ہیں۔ تاہم حوالے نامکمل ہیں۔ فتاویٰ جات پر حافظ محمد گوندلوی صاحب کے دستخط بھی موجود ہیں۔
1۰۔ فتاویٰ قادریہ از مولانا عبدالقادرعارف حصاری﷫ (۱۹۰۷ء۔۱۹۸۱ء)
آپ کا پورا نام عبدالقادر بن محمد ادریس ہے۔ آپ کے دادا کا نام مولوی محمد مستقیم تھا۔ راجپوت خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ تحصیل سرسہ ضلع حصار کے ایک بڑے گاؤں گنگا میں ۱۹۰۷ء میں پیدا ہوئے۔
اِبتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کرنے کے بعد آپ لکھوکے چلے گئے اوروہاں حضرت مولانا محمد علی لکھویکے سامنے زانوئے تلمذطے کیا اورکچھ عرصہ منڈی صادق گنج ضلع بہاول نگر میں غزنوی خاندان کے ایک بزرگ سے بھی تعلیم حاصل کی۔
تعلیم سے فارغ ہو کر خدمتِ دین کے لیے اپنے ہی گاؤں میں تعلیم و تعلّم کا سلسلہ جاری کیا۔ تقریر میں قرآن و حدیث کے حوالہ جات موتیوں کی طرح جڑے ہوتے تھے اور تاریخی واقعات تقریر کی زینت ہوتے، جبکہ برجستہ اور برمحل اَشعار فصاحت و بلاغت کے ساتھ مل کر سونے پر سہاگہ کا کام دیتے۔ تقریر دعوتِ فکر و عمل دیتی اور ذہنوں کی خشک کھیتیوں کے لیے آبیاری کا کام کرتی تھی۔
آپ طلبا میں تحریر و تقریر کا شوق ابھارنے کے لیے تقریری مقابلہ کراتے طلبا کو انعامات بھی دیتے۔ طلبا کوسمجھانے کا انداز بہت پیارا اور دلچسپ تھا۔ نماز کی بہت زیادہ تلقین فرمایا کرتے تھے۔ بے نماز کی نمازِ جنازہ نہ پڑھتے۔ اپنے حقیقی چچا محمد یعقوب کا جنازہ اس وجہ سے نہ پڑھا کہ وہ بے نماز تھا۔
آپ دینی معاملات میں اس قدر سخت ہونے کے باوجود انتہائی رحم دل تھے۔ انسانوں کے علاوہ جانوروں پر بھی رحم کی تلقین فرماتے، ایک دفعہ کسی رشتہ دار (چچا) نے ایک بلّی کو مار دیا۔ اس پر انہیں سخت خط لکھا۔ باہرلکھ دیا: ''ظالم کے دروازے پر جائے۔''
مکّہ مکرمہ میں کسی مسجد میں ایک مولوی صاحب کے ساتھ نماز پڑھی، دیکھا کہ پاجامہ ٹخنوں سے نیچے تھا۔ بعد از نماز فرمایا:فسد الوُضوء وفسدت الصّلوةُ وہ حیران ہوا تو حدیثِ رسول سے اس کو یہ مسئلہ دکھایا... ان کی سختی صرف دینی غیرت کی بنا پر تھی اور محبت و الفت کا معیار الله اور اس کے رسول کی اِطاعت تھی۔
کتاب دیکھنے، خریدنے اور حفاظت سے رکھنے کا بہت شوق تھا۔ آپ کی آمدنی کا معقول حصّہ کتب کی خریداری کے لیے وقف تھا۔ آپ کا کتب خانہ تقریبًا پانچ ہزار کتب پر مشتمل تھا۔ ان میں لغت،تفسیر،احادیث،شروح اَحادیث،اُصول حدیث، غریب الحدیث، فقہ، اصولِ فقہ، تاریخ، صرف و نحو، منطق، فلسفہ اور طب معقولات اورمنقولات کی کتابیں تھیں۔
آپ چونکہ مناظر بھی تھے۔ اس لیے مختلف مذاہب کا مطالعہ ضرور کرتے۔ عیسائیت، یہودیت، بہائیت، بابیت، شیعیت اورمرزائیت وغیرہ پر خاصی نظر تھی۔ ان مذاہب پر بے شمار کتب آپ کے پاس تھیں۔مسئلہ کے تمام پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ایک دفعہ 'ختم بر طعام'پر ایک رسالہ لکھنے کا عرض کیا تو اس کی تصنیف میں لغت سے لے کر اس کی تاریخ اور پھر قرآن و حدیث کی روشنی میں یوں بحث کی کہ لوگ حیران تھے ۔
آپ ہمہ وقت باوضو رہتے۔ جماعت کی پابندی تو زندگی کا معمول تھا۔ اگر سفر میں ایک ساتھی بھی ہوتا تو اَذان کہہ کر جماعت کراتے۔سفر میں ضرورت کے مطابق جمع تقدیم اور جمع تاخیرسے نماز پڑھتے۔تہجد اور اشراق کبھی نہ چھوڑتے، رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے۔ تمام زندگی سنتِ نبویﷺ کو مشعل راہ بنایا۔اتباعِ رسول کا بڑا خیال رکھتے۔ ۱۹ ستمبر ۱۹۸۱ء پانچ بجے شام کو بورے والا میں الله کو پیارے ہو گئے۔44
آپ جو فتوٰی دیتے اس کی نقل بھی اپنے پاس رکھتے۔ مولانا محمد یوسف صاحب مہتمم دارالحدیث راجو وال( اوکاڑہ) آپ کے فتاوٰی کومرتب کروا رہے ہیں۔ بقول ڈاکٹرحافظ عبدالرحمٰن بن مولانا محمد یوسف صاحب تین ہزار صفحات ہو چکے ہیں۔
عوام عام طور پر نکاح، طلاق اور وراثت کے مسائل لے کر حاضرہوتے۔ بعض اَوقات لوگ اپنی مرضی کے مطابق غلط بیانی کر کے فتوٰی لینے کی کوشش کرتے لیکن ان کو منہ کی کھانی پڑتی۔فتوٰی کے معاملہ میں اگر کبھی عدالت میں طلبی ہوئی تو کبھی جھجک محسوس نہ کی جہاں آپ سے خصوصا عائلی مسائل (نکاح ، طلاق) وراثت اورعہد جدید کے مسائل راہنمائی لی جاتی ۔ بھاول نگر میں عدالت میں طلبی ہوئی تو جج صاحب کو بہت اچھی طرح سے مطمئن کیا۔
آپ کے فتاوٰی پورے ملک میں مختلف رسالوں اور جریدوں کی زینت بھی بنے۔ایک دفعہ مولانا داؤد غزنوی نے فرمایا:
''مولانا سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کی لائبریری کتنی بڑی ہے۔''
فتویٰ نویسی میں آپ کا اُسلوب محدثانہ تھا۔ قرآن و احادیث سے اِستدلال کرتے۔ ساتھ ہی فقہی اختلاف کو بھی واضح کرتے مثلاً قرآن اور دینی تعلیم کی اُجرت کے بارے میں حضرت عبادہ بن صامتؓ کی ایک روایت کی روشنی میں پوچھے گئے سوال کا جواب یوں تحریر کرتے ہیں:
''مسئلہ مذکورہ بالا میں اہلحدیث اور حنفی حضرات کا اختلاف ہے۔ اہلحدیث اور جمہور علما قرآن و حدیث اور دینیات کی تعلیم پر اجرت، مشاہرہ لینا جائز کہتے ہیں اور متقدمین احناف میں سے بعض اس کو نا جائز کہتے ہیں۔ اور متاخرین حنفیہ اہلحدیث کے ساتھ متفق ہو گئے ہیں۔
رمضان شریف میں نماز تراویح میں حفاظ قرآن مجید سناتے ہیں تو ان کو بہت کچھ دیا جاتا ہے۔ اہلحدیث اور حنفیہ کا اس پر عام طور پر تعامل موجود ہے۔ کوئی کسی کو حرام خور نہیں کہتا۔ اسی طرح مدارس عرب و عجم میں تعلیم و تبلیغ پر مشاہرے لیے جا رہے ہیں اور دیئے جا رہے ہیں۔بلوغ المرام میں ہے: ''حضرت عبدالله بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللهﷺ نے فرمایا: تحقیق بہت ہی لائق(تحسین) چیز جس پر تم مزدوری حاصل کرو الله کی کتاب ہے۔'' (بخاری)
یہ حدیث نہایت درجہ کی صحیح ہے۔تاہم باقی رہی بات حدیث عبادہ کی تو وہ ضعیف ہے۔ اس حدیث کی سند میں مغیرہ بن زیاد مختلف فیہ ہیں۔ وکیع اور یحیٰ نے اس کو ثقہ کہا ہے اور ایک جماعت نے اس میں کلام کیا ہے۔ امام احمدنے اس حدیث کو منکر کہا ہے۔ ابوزرعہ نے کہا کہ اس کی حدیث سے دلیل نہیں لی جا سکتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ حدیث ابن عباس عام ہے اور حدیث عبادہ خاص ہے، عام اور خاص کا مقابلہ ہو تو عام کی تخصیص کی جائے گی۔هٰذا هو المرام والله أعلم بحقیقة الکلام
11۔ مقالات و فتاویٰ (اُردو ترجمہ) از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز﷫
آپ کا پورا نام ابو عبداللہ عبدالعزیز بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن محمد بن عبداللہ آل باز ہے۔ آپ سعودی عرب کے معروف شہر ریاض میں ۱۲ذی الحجہ۱۳۳۰ھ کو پیدا ہوئے۔ شروع میں نظر درست تھی مگر بیس سال کی عمر میں نابینا ہوگئے۔ آپ بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے۔ شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز﷫، جیدعالمِ دین تھے۔ آپ حنبلی المسلک عالمِ دین تھے لیکن مکمل طور پر مقلد نہ تھے بلکہ سلفی المشرب تھے۔ سعودی حکومت کے دارالافتاء سے منسلک رہے۔
بعد اَزاں مفتی اعظم سعودی عرب مقرر ہوئے۔ بڑے رعب اور دبدبے کے مالک تھے۔ ان کے مسئلہ بیان کرنے کے بعد حکمرانوں تک کسی کو اختلاف کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ انتہائی پرہیزگار اور نیک سیرت تھے۔آپ کی کتب جو شائع ہوچکی ہیں ان کی تعداد ۲۲ تک ہے۔
زیرِنظر مجموعہ اگرچہ عربی میں ہے تاہم اس کا ترجمہ اردو میں کیا گیا ہے اس لیے اس کا تعارف کروایا جا رہا ہے۔یہ 'مقالات وفتاویٰ' چار سو اکہتر۴۷۱ صفحات پر محیط ہے۔ جس کا ترجمہ محمد خالد سیف(اسلامی نظریاتی کونسل اسلام آباد)اور نظرثانی محمد عبدالجبار( فاضل دارلحدیث محمدیہ، جلالپور پیروالا) نے کی ہے۔اسے دارالسلام الریاض سعودی عرب سے ۱۹۸۸ ء میں شائع کیا ہے۔
مقدمہ میں ' اسلام میں افتا کی اہمیت'،'نبیﷺ بحیثیتِ مفتی اعظم'،'صحابہ کرام اور افتاء'،'فتویٰ کو ن دے سکتا ہے؟' ،'مفتی کا اپنے فتویٰ سے رجوع'،'افتا واستفتا کی تاریخ' جیسے اہم عنوانات شامل ہیں۔45
قرآن مجید سے اِستدلال: شیخ مسائل کے بیان میں سب سے پہلے قرآن سے استفادہ فرماتے ہیں اور قرآن کے مشکل الفاظ کا مفہوم بھی بیان فرماتے ہیں۔مثلا کیا جہالت کی وجہ سے کوئی شخص معذور سمجھا جا سکتا ہے؟ کے جواب میں شیخ نے چودہ آیات سے استدلال کیا ہے۔(ص ۱۸۸۔۱۹۲)
اَحادیث سے استدلال: شیخ آیاتِ قرآنی کے ساتھ ساتھ احادیث سے بھر پور اِستدلال کرتے ہیں ۔جس کا پوری کتاب میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔مثلا عورت کی بے حجابی کے بارے۱۵ آیات کے ساتھ ۹ احادیث ذکر کرتے ہیں۔ (ص۳۵۶ا،1۳۵۸)
تطبیق بین الاحادیث: بعض اَوقات آحادیث کے مابین تطبیق سے کام لیتے ہیں مثلا فاتحہ خلف الامام کے مسئلہ میں ص۔ ۲۳۲ ۔۲۳۳ پر «لا صلوة لمن لم یقرأ بفاتحة الکتاب» اور «قراءة الإمام قراءة لمن خلفه » میں تطبیق دی ہے۔
اَشعار سے استشہاد: شیخ عام معمول سے ہٹ کرکہیں کہیں اشعار بھی پیش کرتے ہیں مثلاً کثرت سے قسم کھانے کے بارے فتوی دیتے ہوئے ص۔ ۱۷۴ پر کہتے ہیں:
«قلیل الألا یا حافظ لیمینه إذا صدرت منه الألیة برت»
''وہ قسمیں کم کھانے والا اور اپنی قسم کی حفاظت کرنے والا ہے۔ جب اس سے قسم صادر ہو جاتی ہے تو وہ پوری ہو کر رہتی ہے۔''
دوٹوک موقف:شیخ بن باز مسائل کی وضاحت فرماتے ہوئے ایک قطعی موقف بیان کرتے ہیںِ لگی لپٹی بات نہیں کرتے اور نہ ہی اس سلسلے میں کسی مصلحت سے کام لیتے ہیں۔
1۲۔ فتاویٰ اَصحاب الحدیث از ابو محمد حافظ عبدالستار حماد﷾
یہ مولانا عبدالستار حماد کے ان فتاویٰ کا مجموعہ ہے جو ۲۰۰۱ء تا ۲۰۰۵ء کے دوران ہفت روزہ 'اہلحدیث' میں وقتاً فوقتاً چھپتے رہے ہیں۔
اِبتدا میں فتویٰ کے مفہوم و اہمیت اور اس کی شرائط، مفتی کے فرائض و مستفتی کے آداب اور سب سے بڑی بات انہوں نے فتاویٰ علمائے اہل حدیث کے سلسلۃ الذہب کے شاندار مجموعات کا مختصر تعارف بھی پیش کیا ہے۔46
کتاب و سنت کی روشنی میں جدید مسائل کا حل اور تمام مسائل کے جزئیات پر تفصیلی اور مدلل بحث پھر دلائل کی حسن ترتیب، اسلوب میں سلاست اور روانی اور دلائل کی تحقیق اور استنباط مسائل کا محدثانہ اَنداز 'فتاویٰ اصحاب الحدیث' کی امتیازی خصوصیات ہیں۔ اس کی طباعت مکتبہ اسلامیہ لاہورکی طرف سے خوبصورت اور دیدہ زیب جلد میں ۵۰۰ صفحات میں ۲۰۰۶ء میں ہوئی ۔
اس کے مطالعہ سے منصف مزاج قاری محسوس کرتا ہے کہ یہ ظن و تخمین اور شخصی آرا پر مبنی فتاویٰ نہیں ہیں بلکہ کتاب و سنت سے مدلل اور مزین فتاویٰ ہیں جیسا کہ ُسترہ کے مسئلہ میں ہے۔ انہوں نے اس پر مدلل بحث کی ہے اورآیات و احادیث مختلف علما کے اَقوال و نظریات کو پیش کیا ہے۔47
مصادر وماخذ میں کتب حدیث، صحاح ستہ، مسند احمد، نیل الاوطار، سنن بیہقی، فتح الباری، سیر اعلام النبلاء، صحیح ابن خزیمہ، مصنف ابن ابی شیبہ، میزان الاعتدال، مجمع الزوائد، الکامل لابن عدی کے حوالے بکثرت ملتے ہیں۔
1۳۔ آپ کے مسائل اور ان کا حل از ابو الحسن مبشراحمد ربانی﷾
ابو الحسن مبشر اَحمد ربانی﷾ عصر حاضر کے نوجوان عالم دین اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ آپ کی تحریر سہل اور عالمانہ ہے۔ مجلہ الدعوة لاہور میں قارئین کی طرف سے استفسارات کے جوابات کو زیر نظر مجموعہ کی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔
موصوف نے اپنے فتاویٰ جات مسائل شرعیہ کے اَحکامات کا استنباط قرآن و سنت سے کیا ہے۔ کمزور اور ضعیف روایات سے استدلال نہیں کرتے۔ نیز احکامات کے استنباط کے ساتھ ساتھ مختلف مکاتب فکر کا دلائل کے ذریعے محاکمہ بھی کیا اور صحیح اور راجح مؤقف واضح کیا ہے۔
آپ کے فتاویٰ میں حافظ عبدالسلام بھٹوی(فاضل مدینہ یونیورسٹی) ،مولانا عبدالرحمن عابد اور مولانا رحمت الله ربانی کے فتاویٰ بھی شامل مجموعہ ہیں۔ ۲۰۰ فتاویٰ پر مشتمل اس مجموعہ کو عقائد اعمال، عبادت کے حوالے سے مرتب کیا گیا ہے۔
بعض فتاویٰ جات کو بہت ہی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔مثلا رؤیا میں زیارت النبیﷺ (ص۴۶۔۴۹)، قنوتِ نازلہ (ص۱۷۱۔۱۸۵) عورت اور مرد کی نماز کا فرق (۱۸۸۔۱۹۵)، میت کے لیے اجر(۲۶۶-۲۷۴) وغیرہ
مجموعہ میں صرف قرآن و سنت سے اِستدلال کرنے کا رویہ غالب ہے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ اَئمہ فقہا کی آراء کو بھی بطور استشہاد پیش کیا گیا ہے۔مثلا ولی کے بغیر نکاح پر امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام ثوری، امام حسن بصری اور امام نخعی﷭ کی آرا پیش کی گئی ہیں۔(ص۳۳۳۔۲۳۵)
فتاویٰ میں محدثانہ اَنداز اپناتے ہوئے کتب شروح حدیث سے زیادہ استفادہ کیا گیا ہے۔اور ضعیف اور کمزور روایات سے استدلال نہیں کیا گیاجس کا اظہار مقدمہ میں اس طرح کیا گیا ہے:
''اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ حتی الوسع اس میں کسی کمزور روایت کو جگہ نہیں دی گئی ۔اگر کسی کو کسی مقام پر کوئی کمزور روایت معلوم ہو جو کہ ناقابل حجت ہو تو وہ خیر خواہی کے جذبہ سے ہمیں ضرور مطلع کرے۔''48
یہ مجموعہ مکتبہ قدوسیہ لاہور سے ۱۹۹۹ ء میں بہت خوبصورت اور دیدہ زیب انداز میں شائع کیا گیا ہے۔
تجاویز و آرا
یہ فتاویٰ جات جو آنے والی نسلو ں کے عقائد کی صحت کے لیے ضروری ہیں کہ نسل نو کو اس علمی سرمائے سے واقف کرانے کی ذمہ داری اس وقت پوری ہوگی جب اہل علم اس طرف توجہ کریں گے۔ اس حوالہ سے چند تجاویز بھی تحریر کی جاتی ہیں:
1. بعض فتاویٰ کی از سرنو ترتیب کی ضرورت ہے۔
2. قدیم اُردو کی بجائے آسان اور سہل زبان کا استعمال کیا جائے۔
3. آج کل کمپیوٹر کا دور ہے ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ان تمام قدیم فتاویٰ کی کمپوزنگ کمپیوٹر پر کی جائے۔
4. تمام فتاویٰ جات کو مد نظر رکھ کر ایک جامع مجموعہ مرتب کیا جائے ۔
5. ان فتاویٰ جات کی روشنی میں عصر جدید کے مسائل کو دیکھا جائے اور مسائل جدیدہ کے جواب کا خاطر خواہ اہتمام کیا جائے۔
6. فتاویٰ میں موجود عربی اور فارسی عبارات کا ترجمہ بھی کیا جائے۔
7. فتاویٰ جات کے اِجرا کے وقت ایسے اصول و ضوابط ترتیب دیے جائیں جس سے بین المسالک رواداری کی فضا قائم ہو سکے۔
نوٹ: زیر نظر مضمون کے تتمہ کے طورپر بعض مزید اہل حدیث فتاویٰ کا تذکرہ کرنے کی بھی ضرورت ہےجس میں حافظ ثناء اللہ خان مدنی ﷾ کا فتاویٰ ثنائیہ، حافظ عبد المنان نورپوری  کا فتاویٰ احکام و مسائل اورفتاویٰ عزیزیہ وغیرہ کا تذکرہ بھی ہوجائے۔ علاوہ ازیں ارکانِ اسلام پر شیخ محمد صالح العثیمین کے فتاویٰ کا اُردو ترجمہ ودیگر اُردو فتاویٰ تراجم کو بھی درج کردیا جائے۔ ادارہ محدث


 حوالہ جات

1. چالیس علمائے حدیث:ص۱۸۱

2. ایضاً،ص۸۶

3. سیرت ثنائی : ص۱۲۷۔۱۲۸

4. ایضاً: ص۲۴۶۔۲۸۱

5. سیرت ثنائی: ص۴۷۹

6. فتاویٰ ثنائیہ :ص۱۸۰۔۱۹۰

7. ایضاً: ص۲۶۱۔۲۶۹

8. تذکرة النبلاء از عبدالرشید عراقی:ص۱۹۰؛چالیس علماء اہلحدیث: ص۲۹۴

9. تذکرة النبلاء:ص۱۹۱؛چالیس علماء اہلحدیث، ص۲۹۴

10. تذکرة النبلاء : ص۲۹۴

11. تذکرہ علمائے پنجاب از اختر راہی :ص۱؍۳۹۳

12. فتاویٰ اہلحدیث از حافظ عبداللہ روپڑی: ۱؍۱۷۰

13. ایضاً:۱؍۱۳۹

14. ایضاً:۱؍۱۵۴

15. ایضاً:۱؍۱۰۶

16. فتاویٰ اہلحدیث از حافظ عبداللہ روپڑی: ص۱؍۱۶۷

17. اصحاب علم وفضل از الحسینی :ص۱۸۵

18. ایضًا

19. اصحاب علم وفضل از الحسینی:ص۱۸۵

20. فتاویٰ ستاریہ از حافظ عبدالستار دہلوی :۱؍۶۹۔ ۷۰

21. ایضاً:۱؍۱۴۷

22. فتاویٰ ستاریہ،۱؍۱۷۶-۱۷۷

23. تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کا تجدیدی مساعی فکر از محمداسماعیل سلفی :ص۳۲ ،مقدمہ ازمحمد حنیف یزدانی

24. ایضاً:ص۳۳

25. فتاویٰ سلفیہ از محمد اسماعیل سلفی :ص۲۹

26. فتاویٰ سلفیہ از محمد اسماعیل سلفی ص۷۳-۷۴

27. ایضاً:ص۴

28. فتاویٰ سلفیہ : ص۷۵

29. ایضاً:ص۶۱

30. ایضاً:ص۷۷،۸۵

31. ایضاً:ص ۸۵، ۸۷، ۱۰۳

32. چالیس علماء اہلحدیث: ص۳۳۹۔۳۴۱

33. اسلامی فتاویٰ از عبدالسلام بستوی :ص۱۶۲-۱۸۶

34. ایضاً:ص۱۸۶۔۱۹۸

35. فتاویٰ علماے اہل حدیث از ابو الحسنات علی محمد سعیدی :۳؍۳-۴

36. ایضاً:ص۳؍۱۲۲۔۱۳۵

37. فتاویٰ علماے اہل حدیث: ۱؍۱۹۷

38. فتاویٰ صراط مستقیم از از ثناء اللہ سیالکوٹی :ص۲۵۔۲۷

39. فتاویٰ صراط مستقیم:ص۱۸۳

40. ایضاً:ص۱۸۱۔۱۸۲

41. ایضاً:ص۴۷۴

42. ایضاً: ص ۴۵۹

43. الاعتصام،ہفتہ روزہ،لاہور۱۵نومبر۱۹۹۱ء: ص۷-۸

44. جواہر درذکرِ کبائر ازعبدالقادر حصاری نبوی (مرتب ڈاکٹر عبدالروٴف ظفر):ص مقدمہ محقق

45. ابن باز، عبدالعزیز ، مقالات و فتاویٰ(ترجمہ محمد خالد سیف) (دار السلام، لاہور۱۹۹۸ء)ص۱۹ تا ۲۸

46. حماد، عبدالستار،فتاویٰ اصحاب الحدیث(مکتبہ اسلامیہ لاہور ۲۰۰۶ء)ص۱۵-۳۱

47. ایضاً،ص۹۳-۹۹

48. آپ کے مسائل اور ان کا حل از ابوالحسن مبشر احمد ربانی: ص۳۱