مولانا حافظ عبد الرشید اظہر رحمہ اللہ .... کچھ یادیں کچھ باتیں!
بعض لوگ معاشرے میں ایسا اعتبار رکھتے ہیں کہ ان کی شخصیت اور عالمانہ وجاہت ذہن میں گہرا اور دیرپااثر چھوڑتی ہے۔ ایسی ہی ایک نامور شخصیت مرحوم حافظ عبد الرشید اظہر کی تھی۔ اپنے بچپن میں جن شخصیات کانام اور روزمرہ تذکرہ مَیں والدِ گرامی حافظ عبد الرحمٰن مدنی ﷾کی زبانی سنتا رہا اور اپنے والد کے دوست ورفیق ہونے کے ناطے اُن کا مقام بھی ذہن میں اُنہی کے مثل بنتا گیا، ان میں چار پانچ ہستیاں نمایاں ہیں: شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی جو والدصاحب کے تعلیم وتعلّم کے ساتھی ہیں، ان کی ہم راہی میں والد محترم نے محدث اور مدرسہ رحمانیہ جو بعد میں جامعہ لاہو راسلامیہ بنا، کا آغاز کیا۔ حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب کےساتھ والد صاحب کی صحیح بخاری کے شرح وحل کے لئے سالہا سال مجالس منعقدہوا کرتیں جس میں اُن دونوں کے ساتھ والدہ محترمہ بھی ہوتیں اور نواب وحید الزمان کا حاشیۂ بخاری پیش نظر ہوتا اور اس کی ضروری اصلاح وترمیم کے ساتھ ، والدہ محترمہ بعض مزید اضافے قلم بند کیا کرتیں۔ والد صاحب کے اِن دوستوں میں ایسی ہی دو شخصیتیں پروفیسر حافظ محمد سعید اور پروفیسر ظفر اقبال حفظہم اللہ کی بھی ہیں۔ اوّل الذکر کو تو آج دنیا جانتی ہے، لیکن اُس وقت یہ دونوں حضرات باقاعدگی سے روزانہ ادارہ محدث میں تشریف لایا کرتے، سالہا سال اُنہوں نے والد محترم سے کسبِ فیض کیا اور پھر انہی کے تعاون سے والد محترم نے 1981ء میں مشہور زمانہ 'قاضی کورسز' کا آغاز کیا جس کے پروفیسر حافظ سعید صاحب منتظم اور پروفیسر ظفر اقبال صاحب ناظم امتحانات ہوتے تھے۔ بعد ازاں جامعہ کی سند پر ہی یہ شخصیات سعودی عرب مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے تشریف لے گئیں۔ ہمارے گھر روزمرّہ آنے والی ان شخصیات میں ایک نام مولانا عبد السلام کیلانی کا بھی تھا، جو والد محترم کے اُس وقت سے ساتھی تھے جب وہ حضرۃ العلام محدث روپڑی سے تعلیم حاصل کیا کرتے۔ ان قریبی احباب میں ایک نمایاں نام حافظ عبد الرشید اظہر کا بھی ہے، جو انہی دنوں مدینہ یونیورسٹی سے تازہ تازہ تحصیل علم کرکے لوٹے تھے۔ ہم نے اپنے والد گرامی سے ہمیشہ اُن کا تذکرہ ایسے الفاظ میں سنا جس سے اُن کی علمی شخصیت ہماری اوائل عمری کی یادوں میں مستحکم وبلندقامت ہوتی گئی۔
1980ء کی دہائی کا یہ وہ دور ہے جب محدث، جامعہ، مجلس تحقیق اسلامی اور المعہد العالی للشریعہ والقضا، سب سرگرمیوں کا محور ومرکز ہماری رہائش گاہ 99 جے ماڈل ٹاؤن ہی ہوتا تھا حتیٰ کہ ان اداروں کے فیض یافتگان ہمارے گھر کے کمروں میں اکثر براجمان رہا کرتے اور ہمیں اور والدہ محترمہ کو آئے روز اُن کی میزبانی اور آؤ بھگت کا خوش گوار فریضہ انجام دینا ہوتا۔ادارہ کی اکلوتی سواری سوزوکی وین، ان حضرات کو انجینئرنگ یونیورسٹی سے لانے، لیجانے اور دعوتی مراکز تک پہنچانے میں مصروف رہا کرتی۔ ہمارا بچپن انہی یگانہ روز شخصیات کے ہاتھوں میں کھیلتے گزرا ہے اور اُن کی بہت سی شفقتیں، سرزنشیں یادوں کے پردےمیں لپٹی ہوئی ہیں۔
حافظ عبد الرشید صاحب مرحوم سےہماری یادداشتیں بچپن کے اوائل دور کی ہیں، جب کہ ابھی میں نے دینی تعلیم کا سلسلہ بھی شروع نہ کیا تھا۔والد محترم نے پاکستان میں سب سے پہلے مکتب الدعوۃ کے قیام کے لئے راہ ہموار کی اور اپنی رہائش گاہ ماڈل ٹاؤن کے قریب ہی ٹیپو بلاک نیوگارڈن ٹاؤن لاہور میں کرائے کی ایک کوٹھی مکتب الدعوۃ پاکستان کا پہلا مستقر بنی۔ مجھے آج بھی وہ کوٹھی یاد ہے اور اظہر صاحب ایک ماہ قبل جب آخری بار لاہور تشریف لائے اور مجھے اُن کی میزبانی کی سعادت ملی تو میں نے ان کو رات گئے مکتب الدعوۃ کا وہ اوّلین ٹھکانہ دکھایا۔ کہنے لگے کہ مجھے یہ جگہ یاد نہیں بلکہ میری مکتب الدعوۃ میں آمد اس کے بعد کی بات ہے، تاہم مکتب الدعوۃ کی ابتدائی کتب میں اُس کا پتہ درج ہے۔
عبد الرشید اظہر صاحب اوائل سے ہی مکتب الدعوۃ، پاکستان سے وابستہ ہوگئے تھے، پھر بعد کے 30 سالوں میں پاکستان میں مکتب الدعوۃ اور حافظ عبد الرشید اظہر لازم وملزوم کی حیثیت اختیار کرتے گئے۔ عہدیدار بدلتے گئے،سعودی عرب سے نئے مدیر آتے رہے لیکن عبد الرشید اظہر صاحب کی حیثیت اس مکتب میں ہمیشہ روحِ رواں کی ہی رہی۔ اس مکتب کی رپورٹوں ، دوسرے لفظوں میں عبد الرشید اظہر صاحب کی تصدیقات پر اس مکتب کے رویے کا بے حد انحصار ہوتا اور ہر مقام پر وہ اس کی بھرپور نمائندگی کرتے۔
مجھے بخوبی یاد ہے کہ 1987ء کےآس پاس جب مکتب الدعوۃ کو سعودی حکومت نے اسلام آباد لے جانے کا فیصلہ کیا تو والدِ محترم نے اس کی شدید مخالفت کی اور یہ کہا کہ اس طرح یہ عظیم دعوتی آفس، ایک بے روح دفترمیں تبدیل ہوکر رہ جائے گا، اور اس کی دعوتی وعلمی تاثیر پاکستانی معاشرے سے ختم ہوکررہ جائے گی۔سعودی حکومت نے اپنا فیصلہ تو تبدیل نہ کیا لیکن والد محترم کی یہ پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی اور پاکستان میں کتاب وسنت کی جس دعوت کو پورے زور وشور سے پھیلانے کی ضرورت تھی، وہ مکتب الدعوۃ اسلام آباد کی غلام گردشوں میں گم ہوکر رہ گئی اورعوام سے اِس کا رابطہ منقطع ہوگیا۔
مولانا عبد الرشید اظہر صاحب کی شخصیت، ایک انتہائی ذہین وفطین، چست وچوبند اور دانا و زیرک شخص کی تھی۔ ان سے عام روزمرہ گفتگو بھی بڑے سنبھل کرکرنا پڑتی۔ والد محترم اور اُن کا علم اُصولِ فقہ کا ذوق قدرِ مشترک تھا۔والد گرامی بتایا کرتے کہ جامعہ کا المعہد العالی للشریعہ والقضا کا قاضی کورس اپنے دور کا کامیاب ترین پروگرام تھا ، اس کورس میں داخلے کے لئے بڑے بڑے عہدیدار اپنے عزیزوں کے داخلے کے لئے سفارشوں کے متلاشی رہتے۔ سعودی عرب نے اس معہد کے لئے صرف ایک سال میں 60سکالر شپ دئیے۔ والد محترم کے اُستادِ خاص، سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبد العزیز بن باز نے اس کی کامیابی کے لئے ہر خلیجی حکومت میں اپنے اثر ورسوخ کو بھی استعمال کیا ۔ اس کورس کی مقبولیت وافادیت کو دیکھتے ہوئے صدر ضیاء الحق کے دور میں ، اس وقت کی اعلیٰ عدلیہ نے اس تعلیمی منصوبے کو اپنی سرپرستی میں لے لیا اور یہی کورسز چند تبدیلیوں کے ساتھ اعلیٰ افسران کے تربیتی ادارے 'نیپا' میں ہونے لگے۔ اب والد محترم کے آئے روز وہاں تربیتی لیکچرز ہوتے۔ کورسز کی کثرت اور علوم کی وسعت کے پیش نظر جب مدنی صاحب کو اپنے ساتھ کے لئے ایسی فاضل شخصیت کی ضرورت محسوس ہوئی جو علمی طورپر مستحکم اور راسخ ہو اور جدید قانون کے ماہرین کے سامنے شریعتِ اسلامیہ کے محاسن کو دلیل ومنطق کے ساتھ ثابت کرسکے، اس عظیم مقصد کے لئے اُن کی نظر انتخاب حافظ عبدالرشید اظہر پر پڑی اور پھر جس طرح حافظ اظہر صاحب نے مستقبل کے اِن جج ؍قاضی حضرات کو علم اُصولِ فقہ پڑھایا تو والد صاحب بھی ان کی صلاحیت ولیاقت کے معتر ف ہوگئے۔ مجھے بخوبی یاد ہے کہ والد صاحب نے ایک بار فرمایا کہ میں علم اُصول فقہ کے دقیق نظریات کو تو بہترین طریقے اور جدید قانون کے ساتھ تقابلی جائزے کے ساتھ پڑھا سکتا ہوں لیکن کسی ایک موضوع پر بہترین حافظے کی مدد سے دلائل کے انبارجمع کردینے میں قدرے مشکل محسوس کرتا تھا۔یہ خوبی حافظ اظہر صاحب میں موجودتھی جس سے سرکاری انتظامیہ کے زیرتربیت افسران بے انتہا محظوظ ہوتے اور اسلام کی عظمت اُن کے قلب ونظر میں راسخ ہوجاتی ۔حافظ صاحب کے اس وقت کے اُصول فقہ کے ہر پہلو پر درجنوں شاندار لیکچرز آج بھی ادارہ محدث کی کیسٹ لائبریری میں محفوظ ہیں۔اسی طرح اس موقعہ پر نیپاکے زیر اہتمام ہونے والے کورسز میں پروفیسر حافظ محمدسعید کا نام بھی مدنی صاحب نے متعارف کرایا اور اُنہوں نے ایک سال تک نیپا میں علم اُصولِ حدیث کی تدریس کرائی۔
اظہر صاحب کی علمی لیاقت اور ذہانت پر والد محترم حافظ عبدالرحمٰن مدنی ﷾کے اعتماد کا یہ عالم تھا کہ آپ کو بعدازاں اُصول کی تدریس میں جب بھی کوئی مشکل مرحلہ پیش آیا تو آپ نے اس مہم کو سر کرنے کی ذمہ داری اظہر صاحب کو تفویض فرمائی۔ 1984ء میں ہی لاہور میں خواتین کا معروف دینی مدرسہ، جو میرے نانا مرحوم مولانا عبد الرحمٰن کیلانی کی زیرنگرانی چل رہا تھا، میں خواتین اساتذہ کی اعلیٰ علمی تربیت کا مرحلہ پیش آیا، تو والد محترم نے جامعہ کے بعض قابل اساتذہ کو وہاں تدریس کی ذمہ داری تفویض کی۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ اُس وقت انہی دنوں سعودی جامعات سے سندِ فضیلت لے کر آنے والے کئی اساتذہ کو وہاں تدریس کے لئے متعین کیا گیا لیکن خواتین مدرّسات کو وہ اپنی علمی قابلیت سے متاثر نہ کرسکے۔آخر حافظ عبد الرشید اظہر صاحب کو یہ درخواست کی گئی جو کہ اس وقت مکتب الدعوۃ میں انتظامی فرائض انجام دے رہے تھے ۔ اُنہوں نے اس ذمہ داری کو قبول کیا اور بعد میں یہ سلسلہ درس ان دعوتی نتائج تک وسیع ہوا جس کی نشاندہی اسی شمارے میں راقم کی خالہ محترمہ باجی فوزیہ ام عبد الربّ کے قلم سے بالتفصیل آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔
حافظ صاحب بڑے وضع دار اور خلیق انسان تھے۔ اس کی شہادت چھوٹے بھائی ڈاکٹر حافظ انس مدنی یوں دیتے ہیں کہ مدینہ یونیورسٹی میں 1998ء میں داخلہ سے قبل 1997ء میں اُنہیں جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں مدینہ یونیورسٹی کی ایک تربیتی ورکشاپ میں بطورِ طالب علم شرکت کا موقع ملاجس میں حافظ اظہر صاحب بھی سعودی اساتذہ کے ساتھ ثقافۃ اسلامیہ کے اُستاد کے طورپر شریک تھے۔حافظ صاحب کے اعلیٰ اخلاق اور والدِ گرامی حافظ عبد الرحمٰن مدنی﷾ سے تعلق کا نتیجہ تھا کہ حافظ صاحب نے بطورِ خاص جامعہ سلفیہ کی انتظامیہ کو ان کے قیام وطعام کے بارے ہدایات دیں اورورکشاپ کے ماہ بھر کے قیام کے دوران ایک والد کی طرح اُن سے شفقت ومحبت کا خصوصی برتاؤ کیا ۔ ورکشاپ کے آخری روز ایک نوخیز نوجوان ہونے کے باوجود صرف والدِ گرامی سے تعلق خاطر نبھاتے ہوئے، اُنہیں فیصل آباد کے ایک اعلیٰ ہوٹل میں پرتکلف ظہرانہ کے لئے ساتھ لے گئے۔ اظہر صاحب کے اعلیٰ اخلاق اور کریمانہ تواضع نے انس بھائی کو بہت متاثر کیا اور وہ ہمیشہ اُن کے لئے رطب اللسان رہتے ہیں۔
بچپن میں حافظ صاحب کی عالمانہ شخصیت کے یہی آثار آج تک میرے ذہن میں مرتسم ہیں۔اپنے وہ اساتذہ جنہیں حافظ صاحب سے کسبِ فیض کا موقع ملا اور وہ آج خود علم کے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں، نے ہمیشہ حافظ صاحب سے شرفِ تلمذ پر اظہار سعادت کیا اور ان کے علم وفضل کی خوبصورت اندازمیں تعریف کی۔ وہ بتایا کرتے کہ حافظ صاحب کو عربی نحو کی مشہور کتاب ہدایۃ النحو اور الفیہ ابن مالک مکمل طورپر حفظ تھے۔جب میں نے 1992ء میں جامعہ سے تحصیل علم کے مراحل مکمل کئے تو اس سے چند سال قبل حافظ صاحب مکتب الدعوۃ کے ساتھ ہی اسلام آباد منتقل ہوچکے تھے۔اس بنا پر اس کے بعد کے سالوں میں حافظ صاحب کی یاد داشتیں چند درچند ملاقاتوں کا ہی حاصل ہیں۔
2005 ء میں جامعہ لاہور اسلامیہ میں درسِ بخاری شریف کے لئے مقرر کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو والدِ محترم نے حافظ عبد الرشید صاحب اظہر کے نام نامی پر اتفاق کیا اور جب اُنہوں نے درس بخاری دیا تو بہت سے لوگ اس یادگار درس سے بے انتہا محظوظ ہوئے اور ان کے لئے بہت سی زبانیں دعاگو ہوئیں۔ میں نے حافظ صاحب سے گذارش کرکے اس درس کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا اور بعد میں 'محدث' میں صحابہ کرام کی عظمت وفضیلت کے موضوع پر یہ یاد گار درس دوقسطوں میں شائع بھی ہوا۔
راقم کو 2007ء میں جب باقاعدہ جامعہ لاہور اسلامیہ میں بطورِ مدیر التعلیم خدمت کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ جامعہ کے اکثر وبیشتر اساتذہ حافظ اظہر صاحب کے جامعہ ہذا یا جامعہ سلفیہ میں تلامذہ رہ چکے ہیں اور سب ہی اُن کا تذکرہ اچھے الفاظ میں کرتے ہیں۔ ان میں قاری محمد ابراہیم میرمحمدی، مولانا زید احمد، مولانا شفیق مدنی اور مولانا عبد القوی لقمان حفظہم اللہ مولانا عبد الرشید راشد وہ اساتذہ تھے جو اُن کے علم وفضل کے بے انتہا معترف تھے۔ جیساکہ میں ذکر کرچکا ہوں کہ حافظ صاحب میں علمی رسوخ کے ساتھ ذہانت وفطانت ، حاضر جوابی اوردانائی زیرکی کی ایسی خوبیاں جمع تھیں کہ آپ مخاطب پر چھا جاتے اورپھر اپنے دلائل سے اپنے موقف کو مزین کرتے چلے جاتے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار حافظ صاحب نے دورانِ گفتگو، دیگر مذاہب کے لئے دین کا لفظ استعمال کرنے پر میری گرفت کی اور فرمایا کہ ان الدین عند اللہ الاسلام... چنانچہ باقی مذاہب کو ادیانِ باطلہ کہنے سے گریز کرنا چاہئے۔ میں نے بھی طالبِ علمانہ سوال جڑ دیا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکافرون میں لکم دینکم ولی دین اور ومن یبتغ غیر الاسلام دینا میں دیگر نظریات کے لئے 'دین' کا لفظ کیوں استعمال کیا ہے۔حافظ صاحب نے میری اس بے تکلّفانہ دلیل کی وضاحت کو کسی اور موقع پر اُٹھا رکھا۔
2009ء میں حافظ عبد الرشید اظہر صاحب مرکزی جمعیت اہل حدیث کے ایک مرکزی جلسے میں خطاب کے لئے لاہور تشریف لائے تو رات کے قیام کے لئے اُنہوں نے جامعہ لاہور اسلامیہ کا انتخاب فرمایا۔میں بھی اس وقت جامعہ میں رہائش پذیر تھا، رات حافظ صاحب جامعہ میں قیام پذیر ہوئے اور صبح کی نماز کے بعد اُنہوں نے جامعہ کے طلبہ کو ایک یادگار درس دیا۔ درس کا موضوع 'دینی علم کی فضیلت اورعلما کا مقام' تھا۔ مجھے بخوبی یاد ہے کہ نمازِ فجر کے بعد ہونے والے اس درس میں پوری مسجد طلبہ علم سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی، ہر کان اُن کی سمت پوری طرح متوجہ تھا اور دل میں ان قیمتی دلائل اور خوش گوار بیان کو سنتے ہوئے یہ خواہش مچل رہی تھی کہ کاش میں نے اس درس کی ریکارڈنگ کا انتظام کرلیا ہوتا۔
جامعہ لاہور اسلامیہ کے بارے میں حافظ اظہرصاحب کا یہ حسن ظن تھا کہ پاکستان میں علوم اسلامیہ کے سب سے بہترین اساتذہ یہاں موجود ہیں۔ اسی بنا پر اُنہوں نے پہلے اپنے بڑے بیٹے حافظ مسعوداظہر کو یہاں سے دینی تعلیم دلوائی ، ان کے دو دامادوں: عبد الوکیل اور عبد الجلیل نے جامعہ ہذا سے دینی تعلیم مکمل کی۔ بعد ازاں یہ تینوں حضرات اعلیٰ تعلیم کے لئے سعودی جامعات میں داخل ہوئے۔پھر انہی سالوں میں اپنے بھانجوں حافظ عبد الماجد اور حافظ عبد العظیم جواد کو جامعہ میں دینی تعلیم کے لئے داخل کروایا اور تین سال سے وہ یہاں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
یہ جامعہ کے وہ سال تھے جن میں ہم جامعہ کو جدید تعلیمی قالب میں ڈھالنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔حافظ صاحب کی اس تشریف آوری کو غنیمت جانتے ہوئے میں نے صبح کے درس کے بعد اُن سے دریافت کیا کہ پاکستانی کے دینی مدارس میں ، کیا ایسی اصلاحِ احوال کی گنجائش موجود ہے؟ تو فرمانے لگے کہ مدارس جس سادگی اور للہیت کے ساتھ دین کی خدمت کررہے ہیں، اس سلسلے کو تبدیل نہیں ہونا چاہئے۔ مدارس کے طلبہ کو جدید تعلیم میں مشغول کرنا اور طلبہ کو جدید تعلیمی اسناد مہیا کرناایک فتنے کے سوا کچھ نہیں۔ ماضی میں جن علما نے دین کی عظیم خدمات انجام دی ہیں، وہ اسی ڈھنگ کی درسگاہوں کے فیض یافتہ تھے۔ یہیں سے قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں بلند ہوتی ہیں اور اُمتِ مسلمہ کا درخشاں مستقبل مدارس سے بلند ہونے والی انہی پرخلوص صداؤں سے وابستہ ہے جنہیں تہذیبِ حاضر کی چکاچوند نے خیرہ نہ کیا ہو۔پھر اپنی ڈاکٹریٹ اور جدید اسناد کی تحقیر کرتے ہوئے گویا ہوئے کہ جدید اداروں کی یہ تعلیمی ڈگریاں صرف علم کا دھوکہ ہیں ، اصل علم تو اسلاف کی اُمہاتِ کتب پڑھ کر آتا ہے۔آخری ملاقات میں فرمانے لگے کہ سعودی عر ب کی جامعات میں کلیہ کی سطح تک چار سالہ تعلیم کا حصول تو انتہائی مفید ہے، طلبہ کو علمی رسوخ اور فاضل اساتذہ سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے، تاہم سعودی جامعات میں اس سے مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ، یعنی ماجستیر وڈاکٹریٹ وغیرہ کرنا، ایک طالب علم کی صلاحیتوں کا رخ موڑ دیتا ہے، اس لئے اس سے گریز ہی بہتر ہے۔
حافظ صاحب اپنی سرشت میں ایک انتہائی تیز اور ناقدانہ مزاج رکھتے تھے۔ ہر بات کو بڑی ذہانت کے ساتھ نوٹ کرنا اور لمحہ بھر میں اس کا مسکت جواب دینا ان کی شخصیت کا خاصہ تھا۔ سننے میں آیا کہ چند سالوں سے حافظ صاحب نے کئی ایک ٹی وی پروگراموں میں بھی عظمتِ حدیث اور اُصول حدیث کے موضوع پر شاندار مکالمے کئے اور بعض لوگوں نے راقم کو اُن کی ریکارڈنگ میسر کرنے کا بھی وعدہ کیا، لیکن ایک دو کی آڈیو ریکارڈنگ سننے کے علاوہ راقم کو اُن کے مباحثے دیکھنے کا موقع نہ مل سکا۔ جامعہ کے بعض اساتذہ نے مجھ سے تذکرہ کیا کہ منہج اہل حدیث پر حافظ اظہر صاحب کی گفتگو سننے سے تعلق رکھتی ہے لیکن افسوس کہ ایسا کوئی پروگرام مرتب کرنے سے قبل ہی حافظ صاحب نے داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔
چند ماہ قبل حافظ عبد الرشید اظہر کے شاگرد قاری عبد الحلیم محمد بلال لاہور تشریف لائے۔ قاری عبد الحلیم مدینہ یونیورسٹی کے فاضل، عربی زبان کے نامور عالم اور دہشت گردی اور اس سے ملحقہ موضوعات پر کئی عربی کتب کے فاضل مصنف ہیں۔ بتانے لگے کہ اُن کی اظہر صاحب سے تکفیر وخروج کے مسئلے پرتفصیلی گفتگو ہوئی۔ بعد ازاں میری بھی قاری صاحب سے کئی گھنٹے طویل اسی موضوع پر ایک مجلس ہوئی جس میں دیگر علما بھی موجود تھے۔ قاری صاحب نے کہا کہ اظہر صاحب کو اس امر پر شدید ناراضگی تھی کہ کئی نوجوان لوگ، ان دنوں تکفیر وخروج جیسے حساس مسئلے میں رائے زنی کو اپنا معمول بنائے ہوئے ہیں۔ اُن کی رائے میں یہ موضوع بڑی علمی بصیرت اور عالمانہ فراست کا متقاضی ہے ۔ تکفیر وخروج کے مسائل میں وہ متوازن ومعتدل موقف کے قائل اور داعی تھے۔ ان کی وفات کے موقع پر مجھے پتہ چلا کہ اسلام آباد میں تکفیری سوچ رکھنے والے لوگ، اس واحد مسجد میں جمعہ پڑھنے کو روا سمجھتے تھے جہاں حافظ اظہر صاحب کئی سال سے خطبہ جمعہ پڑھا رہے تھے۔گویا اُنہیں بھی اظہر صاحب کے علم وفضل پر پورا اعتماد تھا۔
گذشتہ سال،جب جامعہ لاہور اسلامیہ کی دوسری عظیم الشان بلڈنگ (البیت العتیق برانچ) میں توسیع ہوئی اور جامعہ کی ثانوی کلاسز وہاں منتقل ہوگئیں تو حافظ صاحب بطورِ خاص اس عمارت اور جامعہ کے انتظام وانصرام کو دیکھنے تشریف لائے۔ حافظ صاحب کی تشریف آوری کے موقع پر میرے بھائی ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی ( جو البیت العتیق برانچ کے مدیر ہیں) نے مجھے بھی مدعو کیااور حافظ صاحب سے کھانے کی میز پر تفصیلی نشست ہوئی۔ ادارہ کے مستقبل کے پروگراموں کے بارے میں تبادلہ خیال ہوا۔ حافظ عبد الرشید اظہر صاحب جامعہ کی خدمات کے بہت مداح تھے ۔ ان کی وفات کے موقع پر مجھے جب اسلام آباد ، ان کے دفتر اور عملہ سے ملنے کا موقع ملا تو مجھے پتہ چلا کہ ہماری غیرموجودگی میں، وہ سب حضرات کے سامنے ماہ نامہ محدث، جامعہ لاہور اور اس کے مختلف ادارہ جات کی کارکردگی کی بے انتہا تعریف کیا کرتے۔اُن کے دوستوں نے مجھے بتایا کہ وہ اپنے نجی مجلسوں میں اس جامعہ ، والد محترم اور ہم بھائیوں سے بہت سی نیک توقعات رکھتے تھے۔
جامعہ کے بعض مسائل میں ، میں بھی ان سے راہنمائی لیا کرتا۔ گذشتہ سال کی بات ہے کہ ان کے شاگردِ رشید اور میرے اُستادِ گرامی مولانا زید احمد ﷾ جو جامعہ لاہور اسلامیہ میں 15 سال مدرس رہنے کے بعد، اُن کی ہدایت پر کئی سال جامعہ سلفیہ اسلام آباد میں شیخ الحدیث کے فرائض انجام دیتے رہے، اور اب پھر تین سال سے جامعہ لاہور میں ہی اُستاذِ حدیث کی ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔ اُنہیں کئی برس سے جادو کی سنگین شکایت ہے، جو آخر کار اس شدت تک جاپہنچی کہ جولائی 2010ء میں اُنہوں نے تدریس چھوڑ کر ، اپنے گاؤں میں ڈیرہ جما لیا، کیونکہ ان کے بقول جادو کے حملے کے دوران اُنہیں ایسی شرمناک کیفیتوں سے واسطہ پڑتا ہے جس میں صرف اُن کے اہل خانہ کی موجودگی ہی ممکن تھی ۔ مولانا زید احمد صاحب کی علومِ دینیہ کی تدریس سے انقطاع پر میں بڑا رنجیدہ تھا۔ سو میں نے ان کے اُستاد حافظ عبد الرشید اظہر صاحب سے رابطہ کیا کہ وہ اُن کو سمجھائیں اور اس عظیم کام سے منسلک رہنے پر مجبور کریں۔ اظہر صاحب نے جس وقت میرا فون سنا، وہ اس وقت نیویارک میں کسی تبلیغی دورے کے سلسلے میں گئے ہوئے تھے۔ میرا مطالبہ سن کر فرمانے لگے کہ میں پاکستان پہنچ کر، اُن کو اس سعادت سے منسلک رہنے کی پوری تلقین کروں گا۔ پاکستان واپس ہوئے اور مولانا زید احمد ﷾ کو فون کیا اور بعد میں مجھے بتانے لگے کہ میں نے اُنہیں کہہ دیا کہ ''جاود وَادو کچھ نہیں ہوتا، علما کو یہ باتیں زیب نہیں دیتیں، یہ صرف ذہن کا فتور ہے۔میں نے اُنہیں حکم دیا ہے کہ آؤ اور قرآن وسنت پڑھاؤ، سب ٹھیک ہوجائے گا۔''
اِمسال فروری کے اَواخر میں مجھے اچانک علم ہوا کہ وہ لاہور تشریف لا رہے ہیں۔ میں نے اُن کا فون ملایا تو خانیوال سے لاہور کے لئے پابہ رکاب تھے۔ سفر کا مقصد ان کے دیرینہ دوست وہم دم، جامعہ کے شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی ﷾ کی احوال پرسی تھی۔ میں نے اُنہیں جامعہ میں تشریف آوری کی دعوت دی اور عشائیہ کا بھی کہہ دیا۔ رات 8 بجے جب وہ اکیلے لاہور میں ڈائیوو بس سے اُترے تو اُسی وقت میرے ذہن میں یہ خیال کوند کر آیا کہ ایسا فاضل شخص کیوں کر، یوں اکیلے بسوں پر سفر کررہا ہے، ان کے ساتھ ہر لمحہ اُن کے رفقا کو ہونا چاہئے۔ لیکن حافظ صاحب ایسے بے باک اور جری انسان کے سامنے ایسی کوئی بات کہنے کی بھی ہمت کم ہی ہوتی تھی۔ لاہور کے اس آخری سفر میں، میں اُن کا میزبان تھے۔ میرے بھائی ، جامعہ کے اُستاد ڈاکٹر حافظ انس مدنی اور حافظ اسحٰق طاہر(جو دونوں مدینہ یونیورسٹی کے ممتاز فضلا میں سے ہیں) میرے ہمراہ تھے۔اس شام 4 گھنٹے ہم اکٹھے رہے۔ اس رات مجھے علم ہوا کہ حافظ صاحب کافی خوش نوش ہیں ، چنانچہ ایک پرسکون مقام پر مجھے ان کی خدمت میں عشائیہ پیش کرنے کا موقع ملا۔ اس عشائیہ پر بہت سی قیمتی یادیں اور محبت اور اپنائیت کی بہت سی باتیں ہوئیں۔ مجھ سے ایک ایک کرکے اُنہوں نے گھر کے تمام افراد، بہن بھائیوں بالخصوص والدہ محترمہ اور والدِ گرامی کے حالات پوچھے۔ پھر بہنوئیوں کی سرگرمیاں جانیں، ان کے پاس اسلام آباد میں میرے دو بہنوئی حافظ طاہراسلام عسکری اور محمدجنید خاں اکثر علمی رہنمائی کے لئے جایا کرتے تھے۔ حافظ صاحب نے سب کا تذکرہ بڑے غور سے سنا ،پھر چچاؤں کے حالات جانے، اداروں کی انتظامی ومالی مشکلات میں بھرپور دلچسپی لی۔ سب کچھ سن کر بولے کہ
''میں آپ کے والدِ گرامی حافظ عبد الرحمٰن مدنی سے بے انتہا محبت کرتا ہوں۔ ان کے دینی عزم وارادہ کا میں صمیم دل سے قائل ہوں ۔میرےاُن سے تعلق کا یہ عالم ہے کہ بیت اللہ میں ملتزم سے لپٹ کر ، میں نے اللہ سے یہ دعائیں مانگی ہیں کہ میں اور وہ مل کر دین کا کوئی عظیم کام کرسکیں۔ ماضی میں بہت عرصہ ایسا ہوا ہے اور اللہ کو جب منظور ہوگا، ہم مستقبل میں بھی اکٹھے ہوں گے۔''
پھر اُنہوں نے مجھے اور میرے بھائی کو دین کے اس کام کے ساتھ دل وجان سے منسلک رہنے اور اُس کی دن رات خدمت کی تلقین کی۔ اُنہوں نے فرمایا کہ جس طرح آپ بھائیوں نے دین کے اس کام کو حرزِ جان بنایا ہے، اس سے میری بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔ میرے لئے حافظ عبد الرشید اظہر صاحب کے یہ اختتامی کلمات ، دلی سرور واطمینان کا سبب ہوئے۔ میں نے موقع غنیمت جان کر ان سے گذارش کی کہ جب لاہور تشریف لائیں تو ہمیں خدمت کا موقع مرحمت فرمائیں، صرف آمد کا ایک اطلاعی فون کردیا کردیں۔ اپنی بے نیازانہ طبیعت کے عین مطابق اُن کا ارشاد تھا کہ ''فون تو میں نہ کروں گا، آپ کو طلب ہوگی تو اطلاع بھی آپ کسی ذریعے سے ازخود حاصل کرلیا کریں گے۔''
بعدازاں میں اُنہیں لے کر شیخ زید ہسپتال میں حافظ عبد المنان نورپوری کی عیادت کو چلا اور ہم نے اُن کی معیت میں حافظ نورپوری کی اس حال میں عیادت کی کہ وہ اپنے ہوش وحواس میں نہیں تھے اور اُن کو سانس کی نالی لگی ہوئی تھی۔ عیادت کے بعد میں نے اُنہیں رات کو اپنے ہاں ٹھہرنے کی پیش کش کی، لیکن وہ صبح سویرے شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی سے ملاقات کرکے، واپس اسلام آباد کے لئے عازمِ سفر ہونا چاہتے تھے۔ سو چار وناچار اُن کو الوداع کہا ... یہ تھی ہماری ان سے وہ آخری ملاقات جس کا تذکرہ بعد میں ، میں نے والد محترم سے کیا تو اُنہوں نے ہماری میزبانی کی تحسین کی اور ہمیشہ کی طرح حافظ عبدالرشید اظہر صاحب کے علم واہلیت کی کھل کر تعریف کی۔
اظہر صاحب والد صاحب سے عمر میں کئی برس چھوٹے تھے، اس بنا پر والد محترم کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ ان جیسا ذہین وعالم شخص ، اپنی ذہانت وفطانت اور اوقات کو علم دین کی براہ راست اور کلّی خدمت پر صرف کرے تو اس کے شاندار نتائج برآمد ہوں گے۔ مجھے بتانے لگے کہ ایک بار میرا اُن سے مکالمہ ہوا کہ دینی خدمات کو دنیاوی صلہ اور ملازمت سے ہٹ کر ادا کرنے کا لطف او رتاثیر ہی اور ہے!!
بہرحال حافظ عبد الرشید اظہر کی جس طرح اچانک وفات ہوئی، وہ سب کے لئے شدید دھچکا ثابت ہوئی۔ حافظ عبد الرشید اظہر ایک ذہین وفطین، زندگی سے بھرپور اور علم واستدلال کی قوت سے مالا مال شخصیت کا نام تھا۔وہ ایسی ہستی تھی جو اپنے دو ر کی پہچان ہوتی ہے۔ علما واساتذہ کا وہ بھرم تھے اور دین کے دفاع کے لئے ہمہ تن گوش ۔ ان کی موجودگی کی وجہ سے احساس ہوتا کہ دین اسلام کو لاحق خطرات کا ازالہ کیا جاسکتا ہے لیکن اللہ کی حکمتِ بالغہ اس سے کہیں بلند ہے۔ وہ اپنی تدبیروں اور اپنے بندوں کی خوبیوں کو بخوبی جانتا ہے۔ یہ جان کر بھی دلی دکھ ہوا کہ ان کو شہید کرنے والے، وہ لوگ تھے جو غربت کے سبب کئی سال سے اُن سے وظیفہ لے رہے تھے۔ ایک حافظِ قرآن جس نے اُن سے وظیفہ لے لے کر، قرآن کی تعلیم پائی تھی اورحافظ صاحب کو اُن کے اصلاحِ عقائد میں دلچسپی تھی، اس لئے بے وقت آنے اور لمبا وقت بیٹھنے کے باوجود آپ کبیدہ خاطر نہ ہوئے۔ لیکن ان ظالموں نے اپنے محسن کی جان لے کر چھوڑی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کے زیر ریاست ادارے جامعہ سعیدیہ کو علم وعمل کا مرکز بنائے۔ اس ادارے کا احیا اور مؤثر خدمات اُن کی شدید خواہش تھی جیسا کہ ان کے فرزند حافظ مسعود اظہر کی زبانی پتہ چلا۔ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد کو اُن کے لئے صدقہ جاریہ بنائے اور انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ آمین!
٭٭٭٭٭