تبصرہ کتب

نام مجلہ القلم

ناشر ادارہ علوم اسلامیہ ،جامعہ پنجاب،لاہور

صفحات 200+21

جامعات کے بنیادی وظائف میں اولین ذمہ داری درس و تدریس تدوین وتحقیق کی ہے۔دنیا بھر میں ہرنوع کا تحقیقی ،تنقیدی اور توضیحی کام زیادہ تر جامعات اورمخصوص تحقیقی اداروں میں ہورہاہے۔جامعہ پنجاب،برصغیر کے تعلیمی پس منظر میں اپنا ایک خاص مقام اورشناخت رکھتی ہے۔ اس کے بہت سے دوسرے شعبوں کی طرح ادارہ علوم اسلامیہ نے بھی اپنے علمی اورتحقیقی مجلے کاآغاز"القلم" کے نام سے کیا ہے۔اس ادارے کی طرف سے اس نوعیت کے تحقیقی مجلے کی اشاعت ایک لائق تحسین اورقابل تبریک کاوش ہے۔اس مجلے کی اس اولین اشاعت کو صوری اور معنوی اعتبار سے خوب سے خوب تر بنانے کی سعی جمیل کی گئی ہے۔

علوم اسلامی سے متعلق اداروں میں تحقیقی اور تنقیدی مباحث کی نوعیت بہت ذمہ دارانہ ہوتی ہے۔اس سے تحقیق وتنقید کے ساتھ اسلوب تحقیق وتنقید کےمعیارات کو بھی متعین کیاجاتا ہے۔ اور تحقیق وتنقید کی روایت کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری کو پورا کیاجاتاہے۔گذشتہ دو تین صدیوں کی سائنسی اور میکانکی تحقیق نے تہذیب وثقافت کے احوال وظروف کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔اس تبدیلی کے اثرات بالواسطہ،بلاواسطہ ریاستی امور میں،بالخصوص معیشت ومعاشرے میں بہت نمایاں نظر آتے ہیں۔ایسی صورت حال میں علوم اسلامیہ سے دلچپسی رکھنے والے اداروں کو دو طرح کے تحقیقی امور پر زیادہ توجہ صرف کرنا چاہیے۔ایک تو یہ کہ اس عہد کے تمام علوم جدید ہ کا علوم وحی کی روشنی میں جائزہ لینا چاہیے۔ اور دوسرا یہ کہ نئی تہذیب و ثقافت کے ہاتھوں پیدا ہونے والے مسائل کا اسلامی حل پیش کیا جانا چاہیے ۔ہمارے نزدیک علوم اسلامیہ کے بہت کم ادارے تحقیق وتنقید کے اس پہلو پر توجہ دے رہے ہیں۔

جامعہ پنجاب کے ادارہ علوم اسلامیہ کا یہ مجلہ اور اس کے نقش اول کے مطالعہ سے کچھ حوصلہ پیدا ہوتا ہے اور کچھ ڈھارس بندھی ہے کہ جامعات کے ایسے اداروں میں تحقیق وتنقید کا ایک متوازن اسلوب سامنے آرہا ہے۔اس سہ لسانی مجلے میں سبک اردو میں سترہ مضامین موجود ہیں۔

جن میں قرآن ،حدیث،تاریخ،سیاست،معاشرت،معیشت،ثقافت،نفسیات اور آثار وسوانح پر چند مفید معلومات کے حامل مضامین دستیاب ہوتے ہیں۔یہ تمام تر مضامین اساتذہ کرام ک نوک قلم سے پھوٹے ہیں ۔سبق عربی میں پانچ مضامین درج ہیں۔جن میں سے ایک شبعہ کے استاد ڈاکٹر حمیداللہ قادر کا ہے جب کہ باقی اس شعبہ کے عرب طلبہ کی ترتیب وتخلیق کی مثال ہیں ۔سبک انگریزی میں ادارتی نوٹ کے علاوہ تین مستقل مضامین شامل ہیں۔زبانوں کے اعتبار سے یہ گلدستہ مضامین اپنے موضوعات اور اسلوب ہر دو اعتبار سے لائق مطالعہ ہیں۔ ہر مضمون میں مراجع اور مصادر کے حوالہ جاتی اندراجات نے ان کے تحقیقی پایہ میں اضافہ کیا ہے ۔ہمارے نزدیک اس میں کچھ موضوعات کی موجودگی ناگزیر ہے۔جن میں ایک تو علوم اسلامیہ پر شائع ہونے والی کسی بھی زبان کی اہم اور جید کتب کاتعارف کرایا جانا چاہیے۔اس تعارف میں ان کتبکےمحتویات کے علاوہ فنی اعتبار سے ان پر نقد ونظر کو بھی شامل ہونا چاہیے ۔دوم یہ کہ اسلامی ریاست کو اپنے مختلف شعبوں میں در پیش مسائل کا حل ان میں پیش کیا جانا چاہیے۔سوم یہ کہ علوم جدیدہ کے مختلف موضوعات کا جائزہ علوم قرآنی کی روشنی میں پیش کیا جانا چاہیے۔یہ وہ اہم کام جس کے بغیر علوم اور فنون کے قبلہ کو درست نہیں رکھا جاسکتا۔

"القلم" کایہ شمارہ بے شمار صوری اورمعنوی خوبیوں کا آئینہ دار ہے۔ہم اس نقش اول کے مشمولات کو لائق قدر اور امید افزا تصور کرتے ہیں اور اس ادارے کے لائق وفائق اساتذہ ومحققین سے یہ بجا توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس تحقیقی مجلے کے معیار کوخوب سے خوب تر بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔

نام کتب انسان،نشان،رحمان

مولف عبدالرحمان مالیرکوٹلوی

ناشر رحمانیہ دار الکتب امین پور بازار فیصل آباد

ضخامت 578 صفحات

موعظت اور تذکیر قرآن مجیداور دین اسلام کی دعوت کاایک خاص موضوع ہے۔قرآنی اصطلاح میں اسے انذاروتشبیر بھی کہاجاتاہے۔قرآن مجید میں یہ موضوع بہت سے تنوعات اور اسالیب کے حوالے سے بیان ہواہے۔جناب عبدالرحمان عاجز نے جو ایک معروف دینی شاعر بھی ہیں اور جن کے مطبوعہ شعری کارناموں میں اصلاح اور ناصحانہ انداز بہت ہی نمایاں ہے۔انہوں نے اس مضمون کو ایک نئے پیرایہ نثر میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ قرآن مجید کامخاطب حضرت(لفظ مٹا ہوا ہے) جسےفاضل مولف نشان رحمان قراردیا ہے۔یوں تو اس کائنات عرش وفرش میں ہر چیزنشان رحمان ہے جسے زبان وحی میں یوں بیان کیا گیا ہے ۔

وَفِي الْأَرْضِ آيَاتٌ لِّلْمُوقِنِينَ وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ (الزاریات:21)

مگرہیژدہ ہزار عالم کے اطراف واکناف میں پھیلی تمام مخلوقات می حضرت انسان احسن تقویم کا نمونہ ہے۔ جو اپنے مقصد زندگی سے ہم آہنگ ہوتو طبقہ انبیاء وصلحاء میں شمار ہوتا ہے اور اگر مقصد زندگی سےالگ ہوجائےتو" أَسْفَلَ سَافِلِينَ"بن جاتا ہے۔یہ انسان جو مخلوقات عالم میں اپنی حیاتیاتی اور ادراکی حیثیت اوراوصاف کمالات کے اعتبار سےبہت ممتاز اور نمایاں ہے،یہی انسان پستی اور زوال سے نکل کر اوج سیرت اورکمال بصیرت تک کیسے پہنچ جائے کہ یہ دنیا میں " خليفة الله في الأرض؟"، " اور نیابت الٰہیہ کے تقاضوں اور اوامر کو پورا کرکے آخرت میں منشائے خداوندی کا مظہر کامل بن جائے اور حیات برزخی کے بعد حیات اخروی میں انعامات الٰہیہ کاصحیح حقدار بن جائے،یہ اس کتاب کاموضوع خاص اور مقصدوحید ہے۔۔۔

عبدالرحمان عاجز صاحب کو قر آن مجید کا یہ موضوع خصوصیت سے بہت پسند ہے یہ قصہ آدم قرآن مجید میں ایک خاص ترتیب اورترکیب کے ساتھ بیان ہواہے۔حضرت آدم علیہ السلام کی آفرینش کرشمہ تخلیق خداوندی کا مظہر اول ہے ۔جن کی بائیں پسلی سے وہ خاتون جنم دی گئی جو اس کائنات میں نوع بشر کےاضافے کاموجب بنی۔وہ ہرچند خود تو مکالمات فلاطون نہ لکھ سکی مگر اس کےبطن سے اس کے شرارے ضرور پھوٹتے رہے اسے ہی یہ اعزاز دیاگیا کہ اس کے قدموں تلے جنت کی تعبیر ملتی ہے۔اس کے بعد ہمیں کمثل آدم علیہ السلام،حضرت عیسیٰ علیہ السلام کاتذکرہ ملتاہے۔جن کی پیدائش ایک معجزانہ صورت رکھتی ہے۔پھر ان کا قتل اور صلیب کی آزمائشوں سے بچتے ہوئے جسم عنصری کے ساتھ آسمانوں پر اٹھایا جانا اور قبل قیامت پراُمم عالم کو ضلالت و گمراہی کے فتنوں سے محفوظ رکھنےکے لئے نازل ہونا،اسی حضرت انسان کی تخلیق کی کچھ اور ابعاد ہیں۔جن کو قرآن مجید نے تفصیل واجمال کے دونوں اسالیب کے ساتھ پیش کیا ہے یوں انسان کی تخلیق ایک طرف دست قدرت کے سب سے بڑے شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے اور پھر ایک بدبو دار مادہ منویہسے ایسے حسین وجمیل اور متناسب ومتوازن خدوخال رکھنے والا انسان پیداکیاگیا ،جس کے تخلیقی مراحل پر قرآن مجید نے وہ حقائق بیان کیے جنھیں موجودہ سائنس کی تحقیقات وتفتیشات سامنے لارہی ہیں۔قرآن مجید کے حوالے سے اس انسان کی تخلیق وپیدائشی کے ان مراحل کو عبدالرحمان عاجز صاحب کے قلم نے بہت تفصیل اور استشہاد کے ساتھ پیش کیا ہے۔اور اس ضمن میں جدید ترین سائنسی تحقیقات کاملخص بھی پیش کردیاہے۔

فاضل مولف نے اپنی کتاب کے آخری حصوں میں اسی حضرت آدم علیہ السلام کے شرف کے تحفظ اور اس کی اُخروی فوز وفلاح کے لئے مکافات عمل اور حیات بعد الممات کے وہ مناظر پیش کیےہیں۔ جن کو سامنے رکھ کر وہ اپنے اعمال کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوسکتاہے۔اس کتاب کامقصد وحید اسی حضرت انسان کو معرفت نفس کے وسیلے سے معرفت الٰہیہ تک کا سفر طے کرانا ہے۔تاکہ اس انسان کی رہنمائی کے لئے وحی الٰہی کے ذریعے سے اسکے صراط مستقیم پر چلنے کے جو سامان فراہم کیے گئے ہیں۔ ان پر عمل کرکے یہ اپنی حیثیت گم گشتہ کو پھر سے حاصل کرلے۔فاضل مولف نے اس میں عمدہ اسلوب اور دلنشین اشعار کے ساتھ کتاب وسنت کے حوالوں سے اپنے موضوع کو وحدت وتذکیر اور پند ونصیحت کا مضمون بنایا ہے۔ جس کے باعث یہ کتاب لائق مطالعہ ہے اور ایک مثبت دعوت عمل پیش کرتی ہے۔