سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعہ کی اہمیت وافادیت

تاریخ عالم میں بے شمار ایسے افراد ہو گزرے ہیں جنہوں نے اپنے دور میں مختلف علمی ،فنی عسکری کار نامے انجام دے کر شہرت پائی۔ان میں بادشاہ ہیں فوجی جرنیل ہیں دانشور ہیں مفکر ہیں ،مشہور شعراء حکماء اور فاتحین عالم ہیں یقیناً ایسے لوگوں کی زندگیاں پر کشش اور قابل توجہ ہوسکتی ہیں ۔مگر ان میں سے دراصل بڑے لوگ وہ ہیں جنہوں نے اپنے علم اور عمل کی ضیا پا شیوں سے حقیقی معنوں میں دنیا کو منور کیا۔یہ نفوس قدسیہ انبیاکرام علیہ السلام ہیں جنہیں خود خالق کائنات اپنے بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے وقتاًفوقتاً مبعوث فرماتا رہا ۔ان سب انبیاکرام علیہ السلام نے اپنے اپنے دور میں دنیا میں تشریف لا کر اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق اپنی امتوں کے لیے عقائد عبادات ،حسن اخلاق اور اعمال صالحہ کا بہترین نمونہ پیش کیا ۔وہ امت کی خلالت و تاریکی کو دور کرنے کے لیے وحی کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ ذاتی عملی نمونہ بھی پیش کرتے رہے۔

رہبر کامل کا دائمی اسوہ :۔

اب ضرورت ایک ایسے رہبر و رہنما کی تھی جو پوری دنیا کو بقعہ نور بنادے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری دنیا کے لیے رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجا ۔اپنا آخری کلام قرآن پاک آپ پر نازل فرمایا ۔چونکہ آپ آکری پیغمبر تھے اور تمام اقوام عالم کی طرف معبوث فرمائے گئے تھے۔لہٰذا آپ کی لا ئی ہوئی تعلیم بھی ابدی اور دائمی تھی۔ یعنی اس کو تاقیامت باقی رہنا تھا ۔اس لیے آپ کی ذات بابرکات کو علم اور عمل دونوں کا مجموعہ کمال بنادیا گیا ۔چنانچہ قرآن پاک میں آپ کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے۔

لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ (سورۃ الاحزاب آیت نمبر21)

یعنی تم میں سے ہر ایک کے لیے جو اللہ پر اور روز آخرت پر یقین رکھتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔

انسان کی یہ سر شت ہے کہ وہ ہر وقت خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتا ہے۔ اپنا ہر کام سر انجام دیتے وقت اپنے سامنے کوئی ماڈل رکھتا ہے تاکہ اپنے کام کو بہترین انداز میں پا یہ تکمیل تک پہنچا سکے۔توپھر زندگی گزارنابھی ایک فن ہے زندگی عطیہ الٰہی ہے جو صرف ایک بار ملتی ہے۔یہ زندگی کس طرح بہتر انداز میں بسر کی جا ئے لازماً ہر حساس دل اس کے بارے میں غور و فکر کرتا ہے تو پھر زندگی عطا کرنے والے خالق نے خود ہی انسان کی یہ مشکل حل فرمادی اور یہ اس بندے پر عظیم احسان ہے کہ اس نے پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو ہمارے لیے ماڈل اور نمونہ کے طور پر پیش کر دیا کہ یہ ہےوہ بہترین معیاری اور مثالی زندگی جس کی اتباع اگر تم کرو گے تو دنیا وی زندگی بھی بہت اچھی گزار سکوگے اور آخر وی زندگی میں کامیاب و کامران رہوگے۔

سیرت محمدی کے کمالات :۔

سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے کیا امتیازی اوصاف ہیں جس کی بناء پر ہمیں آپ کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے ان میں سر فہرست یہ بات ہے کہ اپنی ساری تعلیم پر آپ نے مکمل عمل کر کے دکھا یا چنانچہ آپ کی زندگی قول و فعال اور تعلیم و عمل کا حسین مرقع ہے۔ یعنی آپ نے جس تعلیم کو پیش کیا آپ کی ذاتی زندگی اس کی ترجمان اور ذاتی عمل اس کے مطابق ہے۔وگرنہ اچھے سے اچھا فلسفہ اور عمدہ سے عمدہ نظریہ تو ہر شخص پیش کرسکتا ہے مگر جو کام نہیں ہو سکتا وہ اس نظریے اور فلسفے کے مطابق "عمل"ہے اس لحاظ سے سیرت محمدی انسانیت کے لیے ازلی اور ابدی نمونہ ہے۔

سیر نبوی زندگی کے تمام پہلوؤں کو محیط ہے:۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کے ہر شعبے ہر گوشے اور ہر پہلو کے بارے میں مکمل رہنمائی عطا فر ما ئی ہے قوی ہدایات بھی دی ہیں اور پھر خود ان پر عمل بھی کرکے دکھا یا ہے۔اس طرح ہمیں ہر گوشہ زندگی کے بارے میں واضح صاف افراط و تفریط سے پاک ،معقول ،روشن اور بہترین رستہ بتا یا ہے۔پھر آپ کی سیرت پاک میں بنی نوح کے ہر طبقے اور ہر گروہ کے لیے ذاتی اور اجتماعی طور پر بھی واضح ہدایات موجود ہیں ۔ ایک شخص بچپن میں ناساز گار حالات میں گھر جا ئے تو وہ مائی آمنہ کے لال اور مکنہ کے دریتیم محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں تسلی و اطمینان کا سامان پائے گا ۔نوجوانوں کے لیے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاداری اور عفت و پاکبازی کا بہترین عملی نمونہ موجود ہے۔ کہ آپ بچپن سے ہی کنواری لڑکیوں سے زیادہ حیادار تھے ۔تاجروں کو مکہ کے اس عظیم تاجر سے سبق ملتا ہے جس کے تجارتی لین دین فیانتداری اور کھرے معاملے کا شہرہ ملک شام تک پھیلا ہوا تھا اور اسی بنا پر اس کو متفقہ طور پر "صادق "اور امین "کا خطاب اپنی قوم سے مل چکا ہے۔ حکمرانوں کو اگر نمونہ عمل چاہیے تو وہ غور کریں مدینہ کے اس بوریا نشین سر براہ جو مکہ میں فاتحانہ داخل ہوا تو انکساری کی وجہ سے سر مبارک اونٹ کی گردن تک جھکا ہوا تھا ۔اساتذہ اور معلمین کے لیے اس معلم اعظم کی ذات میں بہت بڑا سبق موجود ہے جو صفہ والوں کو کتنی شفقت درد مندی اور دل سوزی سے پڑھایا کرتا تھا ۔شاگردوں کے لیے نمونہ ہے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس میں کہ وہ اس طرح حضرت جبریل علیہ السلام کے سامنے دو زانو اور مئودب بیٹھا کرتے تھے ۔اگر آپ مبلغ اور واعظ ہیں تو منبر نبوی پر کھڑے ہونے والے کی واعظ و تقریر اور اس کی سادگی و دل نشینی پر غور فر مائیں ۔شوہروں کے لیے حضرت خدیجہ طاہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شوہرکی پاک زندگی کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔

اگر آپ اولاد والے ہیں تو حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے باپ اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نانا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت و محبت اور حسن تربیت پر غور فرمائیں ۔اگر مزدور اور محنت کش ہیں تو مسجد نبوی کے معمار اور اپنے ہاتھوں سے خندق کھودنے والے پیغمبر کی زندگی کا مطالعہ فرمائیں۔

غرض مولانا شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں تم جو کوئی بھی ہو اور جس حال میں بھی ہو تمھاری زندگی کے لیے نمونہ تمھارے سیرت و اخلاق کی درستگی کے لیے سامان تمھارے ظلمت کدہ کے لیے ہدایت کا چراغ اور راہنمائی کا نور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کامل اور سیرت پاک میں ہر وقت مل سکتا ہے۔اس لئے ہر طبعہ انسانی کے لیے ہر فرد کے لیے ہر طالب حق کے لیے ،حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا مطالعہ ہدایت کا نمونہ اور نجات کا ذریعہ ہے۔ کیونکہ قرآن نے خود آپ کے بارے میں گواہی دی ہے۔

وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ.(سورۃ قلم )

یقیناً آپ کا اخلاق بہت بلند ہے اور دوسری طرف خود آپ نے اپنے بارے میں ارشاد فر ما یا :

"إنّما بُعُثتُ لإُتَمم مكارَم الأخلاق "

یعنی میری بعثت کا مقصد ہی یہ ہے کہ تمام اخلاق عالیہ کو مکمل کردوں۔

دائمی نمونہ :۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ساری انسانیت کے لیے تاقیامت اسوہ حسنہ ہے کیونکہ آپ کی زندگی کھلی کتاب طرح ہمارے سامنے روشن اور مکمل ہے ۔ماہ وسال کی پوری کڑیاں ملتی جاتی ہیں ۔آپ کی زندگی مبارک کا ایک ایک دن معلوم و موجود ہےکہیں بھی عدم واقفیت یا پردہ جہالت نہیں ۔پھر آپ تمام طبقات انسانی کے لیے مبعوث کئے گئے ہیں آپ کے بعد کوئی پیغمبر بھی آنے والا نہیں ۔لہٰذاآپ کا نمونہ زندگی تاقیامت دائمی اسوہ ہے آپ کے عہد مبارک سے لے کر تاقیامت ہر طالب حق کو ہدایت و راہنمائی اسی اسوہ نبوی سے ہی حاصل ہو سکتی ہے ۔جو کوئی ایک بار اس درس گاہ تک آپہنچا اسے کوئی کو ئی دوسرادروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آسکتی ۔انسانیت جس آخری کمال تک پہنچ سکتی تھی وہ اس ہستی میں جلوہ گرہے۔ لہٰذااس ہستی کو ہم انسان اعظم رہبر کامل اور محسن انسانیت کہنے پر مجبور ہیں تاریخ عالم کے پاس بیشک کئی بڑےانسان ہیں مگر انسان اعظم صرف ایک وہی ہے جس کو چراغ بنا کر ہر دور میں ایوان حیات کو روشن کیا جا سکتا ہے ۔کڑوڑوں انسانی افراد نے اس سے روشنی لی۔لاکھوں انسانوں نے اپنے علم وفضل کے دئیے اسی لو سے جلائے ۔دنیا کے گوشے گوشےمیں آپ کا پیغام گونج رہا ہے دیس دیس کے تمدن پر اس کے گہرے اثرات مرتسم ہیں دنیا کا کو ئی انسان چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو ایسا نہیں جو کسی نہ کسی پہلو سے اس انسان اعظم کا زیر بار احسان نہ ہو۔ مگر افسوس اس کے احسان مندا سے جانتے نہیں اور اس سے تعارف نہیں رکھتے ۔

ہدایت حاصل کرنے کے لیے دو بنیادی ستون :۔

ہر دور میں انسان کی ہدایت کے لیے اللہ نے پیغمبربھیجے اور ساتھ ان کو الہامی کتب عطا فرمائیں ۔چنانچہ یہ پیغمبر اور یہ الہامی کتب دونوں مل کر انسان کی ہدایت کا ذریعہ بنتے رہے ۔اگر کسی قوم نے کتاب کو نظر انداز کر کے صرف اپنے رسول کی ذات سے وابستگی اختیار کی(مثلاً انصاریٰ )تووہ رسول کا درجہ اس حد تک بڑھاگئے کہ اس کو پہلےابن اللہ اور پھر خود خدا بنا ڈالا اور اگر کسی نے اپنے پیغمبر کی ذات کو نظر انداز کر کے صرف کتابوں کو اختیار کیا: مثلاً ہندو تو وہ کتابوں کے لفظی گور دھندوں میں ہی الجھ کر رہ گئے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ آخر کاروہ کتابیں بھی گم کر بیٹھے۔اس سے ثابت ہوا کہ اللہ کی کتاب اور نبی کی سیرت حصول ہدایت کے لیے لازم و ملزوم ہیں کتاب میں تو اللہ کی تعلیمات ہوتی ہیں اور نبی کا مقصد منشائے ربانی کے مطابق ان تعلیمات کا ٹھیک ٹھیک مفہوم بیان کرنا ۔انسانی افراد اور معاشروں کا تزکیہ کرنا اور انسانی زندگی کے بگاڑ کودور کے اس کی صالح انداز میں تعمیر کرنا ہو تا ہے۔

لہٰذا ہمیں ہدایت اسی طرح مل سکتی ہے کہ قرآن پاک کو سیرت نبوی کے ذریعہ اور سیرت نبوی کو قرآن پاک کی مدد سے سمجھا جا ئے جس نے دونوں کو ایک دوسرے کی مدد سے سمجھ لیا گویا اس نے اسلام کو سمجھ لیا۔ روح دین کو سمجھ لیا اور ہدایت کو پالیا ۔اور جس نے دونوں کو الگ کر دیا وہ دین کے بنیادی فہم سے دور رہا۔اور نتیجتاً ہدایت سے محروم رہا ۔چونکہ قرآن پاک اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کا مشن ایک ہے مقصدو مدعا ایک ہے ۔لہٰذا دونوں کو سمجھنے کا انحصار اس پر ہے کہ ہم دونوں کے مقصد و مدعا کو کس حد تک سمجھتے ہیں اس مقصد کا فہم جتنا واضح ہو گا ۔اتنا ہی قرآن و سیرت کا فہم صحیح ہو گا اور اگر وہ مقصد و مدعا نظروں سے اوجھل ہے تو قرآن سیرت کا فہم ناقص رہے گا قرآن پاک محض چند عبارتوں کا مجموعہ نظر آئے گا اور سیرت نبوی محض چند اوقات کا مجموعہ ۔۔۔اور قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد ہے الٰہی ہدایت کے مطابق انفرادی و اجتماعی زندگی کی صالح تعمیر ۔

حیات طیبہ : وسیع الاطراف کشمکش کی داستان :۔

بہت ظلم کرتے ہیں وہ لوگ جو سیرت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو صرف چند مذہبی عقائد اور رسوم و رواج کا مجموعہ قرار دیتے ہیں ۔جس کا دائرہ صرف طہارت نماز روزہ ،حج، زکوہ تک محدود ہے وہ نہ اس کو ساری زندگی کے لیے شفا بخش سمجھتے ہیں نہ ہی اپنے نظام باطل کو بدلنے کے لیے کوئی تگ ودو کرتے ہیں ۔نماز کے وقت سر خدا کے سامنے جھکا لینے کے بعد وہ عملی میدان میں ہر باطل نظام کے ساتھ آمادہ تعاون نظر آتے ہیں اور ہر فساد کے وہ تابعدار ہوتے ہیں ۔ایسے لوگ سیرت نبوی کے ہمہ گیر پیغام خود ہی نہیں سمجھ سکتے وہ دوسروں کو کیا سمجھائیں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ ایک بیان الاقوامی مشن کی داستان ہے۔ جو پوری انسانی تہذیب و تمدن کی اصلاح و تعمیر کا جامع عنوان ہے۔ جو قرآن کے ابدی اصولوں کی تفسیر ہے جسے عمل کی زبان میں پیش کیا گیا ہے اور اس مقدس پیغام کی تکمیل ہے جس کی مشعل جملہ انبیاء کرام علیہ السلام اپنے اپنے دور میں جلاتے رہے ہیں۔

بلاشبہ تاریخ انسانی میں شیریں مقال واعظ آتش بیان خطیب بہادر جرنیل ،فاتح بادشاہ قانون دان ،دانشور ،اور منکروں کی ایک عظیم کھیپ ہے جنہوں نے بارہاانسانی زندگی میں انقلاب پیدا کیا اور انسانی تمدن کو سنوار نے میں اپنااپنا پارٹ اداکیا ۔مگر اول تو ان کی یہ اصلاح کلی نہ تھی بلکہ جزئی تھی ۔دوم وہ اصلاح بھی اپنے دامن میں بے شمار مفاسد لیے ہوئے تھی۔

یہ صرف اور صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم عربی کاکار نامہ ہے۔ جس نے انسان کو پورے کے پورے انسان کو اور انسانی معاشرہ کو اندر سے بدل کر رکھ دیا ۔تہذیب و تمدن کے تمام اداروں اور تمام شعبوں کی کایا پلٹ کر رکھ دی اس انداز سے کہ ہر طرف خیر ہے۔ اصلاح ہی اصلاح ہے۔کہیں فساد نہیں کہیں شراور فتنہ نہیں کہیں بگاڑ نہیں ،ہر طرف بناء ہے ہمہ پہلو تعمیر ہے ہر آن ارتقاءہےآپ نے دراصل اپنے لائے نظام حق کی مدد سے ایک نئے الاقوامی دور تاریخ کا افتتاح فرمایا۔یہ اتنا کارنامہ ہے جس کی نظیر دنیا میں ممکن ہی نہیں ۔تربیت انسانی کا شعبہ ہو حسن اخلاق ہو حسن معاملات معیشت کا میدان ہو یا سیاست کا معاشرت کا پہلو ہو یا علم و تعلم اور غور وفکر کی جو لا نگاہ آپ نے حقیقتاً تہذیب انسانی کے ہر دائرے اور گوشے میں دور رس انقلابی تبدیلیاں بر پا کیں۔(اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سب کچھ محبت سے پیار ،شفقت ہمدردی دلسوزی سے کیا کہیں تشدد نہیں ماردھاڑ نہیں ذاتی انتقام نہیں بلکہ جب صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین گھبرا کر بددعا کو کہتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرماتے عفوودرگزر اور گالیاں کھا کر دعائیں دینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شیوہ تھا) پھر اس نظام میں پوری انسانی زندگی ایک ہی ضابطہ ہدایت کے ماتحت تھی اس لیے اس نظام میں تضاد نہ تھا اور اس کے اجزا آپس میں ٹکراتےنہ تھے۔اس نظام کے تحت جو افراد تیار ہوئے وہ مکمل طور پر اندر سے بدلے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاانقلابی جذبہ کہ کعبہ میں کھڑے ہو کر جاہلیت کو چیلنج کیا جناب بن الارت اور بلال نے کس شان سے احد ،احد کا پیغام دنیا کو سنایا بینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جیسی بے بس خواتین کی عزیمت و شجاعت دیکھئے ۔بندش شراب کی منادی پر ہونٹوں سے لگے ساغر اُلٹ دئیے گئے ۔پردہ و حجاب کے حکم پر دوپٹے اور اوڑھنیاں نظر آنے لگیں ۔جہاد کے لیے اعلان ہوا تو نو عمر لڑکے ایڑیاں اونچی کر کرکے جہاد میں حصہ لینے کو بے تاب نظر آتے ۔اگر جہاد کے لیے فنڈ جمع کیا گیا تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے تاجروں نے سامان سے لدے ہوئے اونٹوں کی قطاریں کھڑی کر دیں ۔حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے جانثار وں نے سارا مال ومتاع لا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈھیرکردیا ۔اگر مال غنیمت سپہ سالار کے پاس جمع کرانے کا حکم دیا گیا تو فوج ایک ایک سوئی اپنے افسر کو پیس کرنے لگی حتی کہ چشم فلک نے وہ درخشاں واقعہ دیکھا کہ مدائن کے اموال کا ایک قیمتی حصہ عامرنامی سپاہی کے حصے میں آتا ہے اور بغیر اس کے کہ کسی کو کچھ علم ہو وہ رات کی تاریکی میں چپکے سے اپنا نام بتائے بغیر اپنے افسر تک پہنچادیتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مائیکل ہارٹ جیسا عیسائی مصنف جب اپنی کتاب (The One Hundred)لکھتا ہے تو عیسائی ہونے کے باوجود سر فہرست وہ آپ کا نام لکھنے پر مجبور ہے۔ ساتھ لکھتا ہے کہ میری عقیدت بار بار میرا دامن کھینچتی ہے کہ میں یہ مقام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دوں ۔میں نےعرصہ تک اس بات پرغور کیا مگر میرادماغ کہتا ہے کہ بڑا تو وہ ہے جس نے انسانی مسائل کو ٹھیک انداز میں حل کیا ہے اور پھر (حضرت ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا نام ہر لحاظ سے ذہن میں آتا ہے۔

اس طرح ایک اور یورپی عیسائی مصنف "تھا مس کار لائل "ہے۔

(Hero Hero Worship)نامی کتاب کا مصنف !وہ برٹش میوزیم ہال میں لیکچر دیا کرتا تھا اس کے عالمانہ لیکچر کو سننے کے لیے پورے یورپ سے لوگ امڈے چلے آتے تھے اس نے جب (Hero as Prophet)پر لیکچر دیا تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انتخاب کیا۔ جبکہ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ یہ مقام حضرت عیسیٰ کودے گا۔ اس پر سارے ہال کے لوگوں نے شور مچانا شروع کیا پھر وہ ہال چھوڑ کر یکے دیگر جانے لگے مگر اس نے اپنا لیکچر جاری رکھا۔ وہ کہنے لگا اگر تم میں سے ایک بھی آدمی نہ ہو گا تب بھی وہ اپنا لیکچر پورا کرے گا ۔میں دیوار کو لیکچر دیتا رہوں گا۔ چنانچہ آدھا گھنٹہ وہ دیوار کی طرف منہ کر کے بولتا رہا اس کے لیکچر میں بے پناہ جوش و خروش تھا آخر سارے لوگ آہستہ آہستہ کر کے واپس آگئے۔

یہ حقیقت ہے کہ جو کوئی بھی بنظر غائر آپ کے کارنامہ کا جائزہ لے وہ یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی دراصل سرور عالم ہیں ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انقلابی کار نامہ کی بنیاد :۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سار ی جدو جہد کی بنیاد کلمہ طیبہ تھا ۔یہ انقلابی کلمہ حق "لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ"تھا آپ نے انسانی معاشرہ کی تعمیر وصلاح کا کا م گہرے غور وخوض کے بعد شروع کیا تھا ۔بچپن سے حساس دل لے کر پیدا ہوئے تھے ۔اپنے اندرون پر بھی غور فرماتے ۔انسانی معاشرے کے فساد و بگاڑ کو بھی دیکھتے ۔غار حرا کی خلوتوں میں کئی کئی دنوں تک بیٹھے اصلاح کے بارے میں غور و فکر فرماتے ۔مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی اقدام اس وقت تک نہ اٹھا یا جب تک اللہ تعالیٰ نے آپ کو وحی کی ہدایت سے فیض یاب نہیں کر دیا ۔آپ کون و مکان کے سب سے سچے کلمہ یعنی "لاالہ الہ اللہ"کولے کر اٹھے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔الٰہ نہیں باا ختیار نہیں۔ حلال و حرام کا قانون دینے والا اور جزا و سزا کا مالک نہیں ۔نفع نقصان کا مالک اور رازق نہیں۔وہ ہمہ متقدر اور کامل بااختیار ہے۔ اس کلمہ کے دوسرے جز"محمد رسول اللہ "میں بتا یا گیا کہ زندگی کا اصل علم وہ ہے جو وحی کے ذریعے ملا ہے۔اسی سے عقل انسانی کو سوچنے کے لیے رہنما اصول ملتے ہیں۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلسلہ وحی ونبوت ختم ہے۔ زندگی میں رہنمائی صرف آپ کے واسطے سے میسر ہو سکتی ہے اور اسی ہستی کی قیادت میں ہی انسانی قافلہ فلاح وار تقا کی منزل پر گامزن ہو سکتا ہے۔ اس انقلابی کلمہ کو آپ نے پورے عرب کے سامنے پیش کر دیا۔میلوں کے اندر حج کے دوران آپ بار بار لوگوں سے کہتے لوگو! مجھ سے یہ کلمہ یہ دعوت قبول کر لو۔اسی میں تمھاری دنیا اور آخرت کی بہتری ہے۔ مختلف قبائل کو ملتے تو فرماتے ۔لوگو!مجھے اپنے ساتھ لے چلو اور میرے ساتھ تعاون کرو تاکہ میں اس کام کو مکمل کر سکوں جس کے لیے مجھے مبعوث کیا گیا ہے۔ غرض انفرادی اور اجتماعی طور پر اس کلمہ حق کو قبول کرنے کا پیغام آپ نے ممکن حد تک سب لوگوں کو پہنچادیا۔

مقصد اور نصب العین کی صداقت پر یقین:۔

آپ کو اپنے نصب العین کا اتنا واضح اور اجلا تصورتھا کہ مسلمان ساتھیوں کی تکلیفیں سن کر انہیں تسلی دیتے اور فرماتے "اللہ کی قسم !اللہ اس کام کو ضرور مکمل کرے گا حتی کہ ایک سوار "ضعاء "سے حضرموت" تک سفر کرے گا ۔

اور اے اللہ کے سوا کسی اور کا ڈر نہ ہو گا ۔"بے سرو سامانی کے عالم میں سفر ہجرت کے درمیان پکڑنے اور گرفتار کرنے کی خواہش رکھنے والے سراقہ کو فرمایا :"سراقہ اس وقت تمھارا کیا حال ہو گا جب تمھارے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن ہوں گے۔( غزوہ خندق کھودنے کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسریٰ کے محلات فتح ہونے اور ایک صحابی کو کسریٰ کے کنگن پہننے کی خوشخبری سنائی) اس قسم کی پیشین گوئیاں روایات میں مو جود ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو یقین تھا کہ میری جدو جہد کے بعد اللہ تعالیٰ کی مدد سے وہ وقت ضرورآئے گا جب پورا انسانی معاشرہ خوف الٰہی فکر آخرت ،خدا ترسی اور تقویٰ کی بنیادوں پر از سر نو تعمیر ہو گا اور فتنہ و فساد کا خاتمہ ہو جا ئے گا ۔

نصب العین کے حصول کے لیے آپ کی جدو جہد :۔

آپ نہ فلسفی تھے کہ چند اونچے فلسفے پیش کر کے رہ جاتے ۔نہ محض شیریں مقال واعظ تھے۔جو چند میٹھے وعظ پیش کرکے اجتماعی ماحول کو نظر انداز کر دیتے ۔بلکہ انسانیت کے محسن اعظم کے ہاں پورے تمدنی شعور کے ساتھ حیات انسانی کی مکمل تبدیلی آپ کے پیش نظر تھی۔یہی وجہ تھی کہ جس جس نے بھی کملہ طیبہ قبول کرتے ہوئے اسلام کا رنگ اختیار کیا۔آناً فاناً وہ عالم کفر کی تمام قبیح عادات سے تائب ہو گیا (حضرت جعفر طیار نے نجاشی کے دربار میں جو تقریر کی تھی 5ءنبوی میں وہ اس کا بات کا ٹھوس ثبوت ہے)( "اے بادشاہ ہم لوگ جاہلیت میں مبتلا تھے ۔بت پرست مردار خور تھے بدکاری اور قطع رحمی ہمارا شیوہ تھا۔ ہمسایوں سے ہم زیادتی کرتے تھے ۔ہم میں سے طاقتور کمزور کا حق دبا لیتا ۔یہاں تک کہ اللہ نے ہمارے درمیان ایک رسول معبوث فرمایا۔جس کے نسب صدق امانت اور پرہیز گاری کوہم خوب پہچانتے ہیں اس نے ہمیں ایک خدا کی طرف بلا یا صرف اس کی عبادت کرنے اور پتھروں بتوں وغیرہ کو چھوڑ نے کے لیے کہا۔ اور اس نے ہمیں حکم دیا کہ سچ بولیں امانت ادا کریں صلہ رحمی کریں ہمسایوں سے اچھا سلوک کریں حرام کاموں اور خون ریزی سے بچیں ۔اس نے ہمیں بے حیائی کے کاموں جھوٹ بولنے یتیم کامال کھانے اور عورت پر جھوٹے الزامات لگانے سے روکا ۔ہم اس پر ایمان لائے ۔اس کی پیروی کی اور اس کی باتوں کو مانا ۔اس پر ہماری قوم نے ہم پر ظلم کرنا شروع کردیا اس نے ہمیں یہ سچادین چھوڑ کر بت پرستی کی طرف واپس لوٹنے پر مجبور کیا جب ان کا ظلم انتہا کو پہنچ گیا تو پھر ہم آپ کے ملک کی طرف نکل آئے ہم امید رکھتے ہیں کہآپ کے ہاں ہم پر ظلم نہ ہو گا) پھر اس مکمل دین کو برپا کرنے کے لیے آپ نے معاشرے کے تمام سلیم الفطرت افراد کو تلاش کیاپھر جس کے سینے میں کلمہ حق کی شمع فروزاں ہو گئی انہیں نظم دین میں پرودیا۔ان کی تربیت کی اپنے ساتھ ان کو بھی کشمکش کی بھٹی میں ڈالا پھر انہیں اپنی بہترین قیادت میں جاہلی نظام کے بالمقابل لا کھڑا کیا۔فکری عملی سیاسی اور بالاآخر جنگ کے میدان میں ہر جگہ یہ مقابلہ ہوا اچھی فطرت کے لوگ بہترین قیادت کے ہاتھوں تربیت پاکر ناقابل شکستبن گئے ۔اور قیصر و کسریٰ کی عظیم قوتوں کو للکارنے لگے۔ پھر بالآخر ان کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گئے۔اس بے مثال جدو جہد کے دوران آپ کو کس طرح مصائب کا سامنا کرنا پڑا ۔کس طرح آپ کو ستا یا گیا لالچ دیا گیا ڈرایا گیا دھمکایا گیا۔ اس کا اندازہ چند نبوی اقوال سے کیا جا سکتا ہے۔آپ نے فرما یا اللہ کی راہ میں مجھے اتنا دکھ دیا جتنا کسی اور کو نہیں دیا گیا"۔۔۔"مجھ پر تیس دن رات ایسے گزرے ہیں (سفر طائف کے دوران ) جب میرے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے کوئی ایسا کھا نا مہیا نہ ہو سکا جسے جاندار کھا سکتے ہوں سوائے اس چھوٹی سی پوٹلی کے جسے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بغل میں دبا لیتے" (عن انس بحوالہ مشکوۃ )۔۔۔خود اللہ تعالیٰ نے فرما یا :"اس وجہ سے کہ لو گ ایمان نہیں لا تے آپ اپنے کو گھل گھل کر ہلاک ہی نہ کرڈالیں ۔"(سورۃ کہف)

محسن انسانیت کا عظیم ایثار:۔

آپ کی تیئس سالہ عظیم جدو جہد اور کاوش کے نتیجہ میں اللہ نے آپ کو کامیابی عطا فرمائی اور آپ کا مشن مکمل ہو گیا۔اس اتنی جاں گسل کشمکش کے دوران انتہائی ایثار کا مظاہرہ فرمایا اور کو ئی صلہ و معاوضہ نہ لیا۔آپ کا اصول تھا ۔

وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ

معاشی لحاظ سے :۔

نبوت ملنے سے قبل آپ بہت کامیاب تاجر تھے آپ نے اپنا پورا سرمایہ اپنے مشن پر لگا دیا۔ جب کامیابی کا دور آیا تب بھی آپ نے فقرو فاقہ اور سادگی ہی سے گزر بسر کی ازواج مطہرات نے کچھ مزید کا مطالبہ کیا مگر رد کر دیا گیا۔ آپ نے گھر میں کو ئی اندوختہ نہ رکھا ۔کوئی دربان اور خادم نہ تھے۔سواری نہ تھی نہ گھر میں سامان آرائش تھا دنیا سے رخصت ہوتے وقت آپ کے گھر میں صرف چند ہتھیار پائے گئے۔

سیاسی لحاظ سے:۔

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ خدا کے احکام نافذ کئے ۔خود احکام شریعت کے پابند رہے۔ آپ نے کبھی کسی کو اپنا حکم (بطور انسان ) ماننے پر مجبور نہ کیا ۔یہودو منافقین کی نت نئی سازشوں کے باوجود کسی کو نظر بند نہ کیا۔ ہنگامی عدالتیں نہ بٹھائیں کسی کی کمر کو تازیانوں سے نہیں اُدھیڑا۔لوگوں کو تنقید کا حق دیا ۔اختلاف کرنے کی آزادی دی ان سے مشورے کئے۔پھر ان کے مشورے قبول فر ما ئے۔

سماجی لحاظ سے:۔

سماجی لحاظ سے بھی ہمیشہ اپنے لیے مساوات پسند فرمائی ۔مجلس میں سب کے برابر بیٹھتے ۔اپنے لیے کسی کو کھڑے ہونے کی اجازت نہ دی ۔رہن سہن ،لباس وضع قطع کسی میں امتیاز نہ فر ما یا ۔

خندق کی کھدائی ہو یا مساجد کی تعمیر غرض ہر جگہ ہر موقع پر لوگوں کے ساتھ مل کر کام کیا۔ قرض خواہوں کو اپنے ساتھ درشتی سے تقاضہ کرنے کا حق دیا اپنے آپ کو مجلس عام میں انتقام کے لیے پیش کردیا۔ نہ قانونی طور پر اپنے آپ کو دوسروں سے بر تر سمجھا اور نہ سماجی طور پر کبھی امتیاز برتا۔

کیا اس بے لوث اور پر خلوص ایثار کا مظاہرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے علاوہ کہیں اور مل سکتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ آپ کے مشن کی تکمیل پر اللہ رب العزت نے بشارت دیتے ہوئے اعلان فرما یا :

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (المائدہ: 3)

ترجمہ کہ میں نے آج تمھارے دین کو مکمل کر دیا تم پر اپنی نعمتوں کو تمام کر دیا اور تمھارے لیے دین اسلام کو پسند فر ما یا ۔

اللہ تعالیٰ نے انسان پر بے شمار احسانات کئے ہیں ان گنت انعامات سے اسے نوازا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان نعمتوں کا اپنے بندے پر احسان نہیں رکھا ۔اگر اس نے اپنے بندوں پر اپنی کسی نعمت کو جتلایا ہے۔تو وہ یہی نبی آخر الزماں کی بعث ہے ارشاد ہو تا ہے۔

لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (آل عمران :164)

ترجمہ:اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان فر ما یا جب انہی میں سے ان کے درمیان ایک رسول معبوث تعلیم دیتا ہے ۔حالانکہ اس سے پہلے یہی لو گ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ نےآپ پر ایمان لانے کو لازمہ ایمان آپ کی اطاعت کو اپنی اطاعت اور آپ کی اتباع کو شرط نجات قراردیا ہے۔

ایک اور مقام پر ارشاد ہو تا ہے۔

قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (آل عمران: 31)

ترجمہ: پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم آپ فر ما دیں "اے لوگو!اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہوتو پھر میری اتباع کرو۔اللہ تم سے محبت فر ما ئے گا اور تمھاری خطاؤں سے درگزر فر ما ئے گا۔وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔"

یعنی اتباع نبوی ہی حب خداوندی کے حصول کی ضامن ہے جو شخص آپ کی اتباع نہ کرے وہ کبھی خدا کا محبوب نہیں بن سکتا نہ اس کے گناہ معاف ہو سکتے ہیں قرآن و سنت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعث کو انسانیت کے لیے عظیم نعمت اور اہل ایمان کے لیے آپ کی اتباع کو شرط ایمان قراردیا گیا ہے۔

ارشاد ہو تا ہے:

مَنْ يُطِعْ الرَّسُول فَقَدْ أَطَاعَ اللَّه (نساء: 80)

"ترجمہ:کہ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی اس نے درحقیقت اللہ ہی کی اطاعت کی"

رسول کی اطاعت نہ کرنا دراصل اپنے اعمال کو ضائع کرنے کے مترادف ہے سورۃ محمد میں ارشاد ربانی ہے۔

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ (محمد :33)

ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔اور رسول کی اطاعت نہ کر کے اپنے اعمال ضائع نہ کر بیٹھو"

اس سے معلوم ہوا کہ نیک اعمال اس وقت شرف قبولیت حاصل کر سکتے ہیں جب تک آپ کی اطاعت کی جا ئے بلکہ کوئی عمل عمل صالح ہی تب کہلا سکتا ہے جب وہ سنت کے مطابق ہو۔جب کو ئی عمل آپ کے طریقہ مبارک سے ہٹ کر کیا جا ئے گا تو وہ باطل اور مردود ٹھہرے گا۔

ایک اور مقام پر ارشاد ہو تا ہے۔

وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ" (حشر:7)

ترجمہ:رسول جو کچھ تمھیں دیں اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے باز آجاؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے"

اسی طرح حدیث میں بھی اتباع سنت پر بہت زور دیا گیا ہے۔

مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَى اللَّهَ ، وَمَنْ أَطَاعَ عَلِيًّا فَقَدْ أَطَاعَنِي ، وَمَنْ عَصَى عَلِيًّا فَقَدْ عَصَانِي (صحیح بخاری)

"کہ جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جن نے میری نافر ما نی کی اس نے دراصل اللہ کی نافر ما نی کی" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا:

مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي (صحیح بخاری مسلم)

"یعنی جس نے میری سنت اور طریقے سے منہ موڑا اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں "مومنوں کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق اور واسطے کے کئی مدارج ہیں۔

1۔آپ کی معرفت اور آپ کی پہچان ہو کہ آپ کتنی رفعتوں اور عظمتوں کے حامل ہیں آپ کے فضائل اسوہ حسنہ اور خلق عظیم کی کچھ واقفیت ہو۔ آپ کے سنت طریقہ آپ کے ارشادات و فرامین آپ کا مرتبہ و مقام آپ کے زہد و تقویٰ عفوودرگزر عزم و استقلال صبرو حوصلہ ایثار اور شرافت گویا آپ کی سیرتو اخلاق کی معرف حاصل کرنا لازمی ہے۔ کیونکہ جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت نہ ہو آپ کا احترام اور عظمت دل میں جاگزیں ہوہی نہیں سکتی ۔لہٰذا سیرت طیبہ کے ہر ہر لمحہ کا مطالعہ کرنا اور اس سے واقفیت بہم پہنچانا ۔۔۔ایک مسلمان کا فرض اولین ہے۔کہ یہ آپ پر ایمان لا نے کا پہلازینہ ہے۔

2۔ایمان لانا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا مفہوم یہ ہے کہ دل سے آپ کی قدر کریں آپ کو اللہ تعالیٰ کا سچا پیغمبر مانیں آپ کی لائی ہوئی تعلیم کے متعلق ہمارا عقیدہ یہ ہو نا چاہیے کہ اس پر عمل پیرا ہونے میں ہی ہماری فلاح ہے اور اگر اس پر عمل نہ کیا گیا تو یہ انجام کار دنیا و آخرت میں ہمارے ہی لئے نقصان کا باعث ہو سکتا ہے آپ کی تعلیمات دائمی اور ابدی ہیں اور خدا کی معرفت کا وہی طریقہ بہترین ہے جو آپ نے بتا یا ہے۔

محبت کرنا: ایسی عظیم ہستی سے ہمیں بے لوث محبت کرنی چاہیے ۔دل کی گہرائیوں سے آپ کے ساتھ شعوری محبت کی جا ئے اور یہ محبت دنیا کی تمام محبتوں سے بڑھ کر ہو نی چاہیے ماں باپ ،اولاد ،بہن بھائی عزیز و اقارب ،دوست احباب ان سب سے زیادہ محبت آپ کے ساتھ ہونی چاہیے بلکہ اپنی ذات سے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو مقدم رکھنا تقاضائےایمان ہےچنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔

لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكونَ أحَبَّ إِلَيْهِ مِنْوَالِدِهِ وَوَلَدِه وَالنَّاسِ أَجْمَعينَ

"یعنی تم میں سے کو ئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کی نگاہ میں اس کے والدین ،اولاد اور دیگر سب لوگوں سے زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں "۔حقیقت یہ ہے کہ کو ئی کام یا عمل اس وقت تک اللہ کے ہاں شرف قبولیت نہیں پاسکتا جب تک اس کی بنیاد حب رسول پر نہ ہو۔

4۔اطاعت واتباع : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت آپ پر ایمان لانے اور آپ سے دلی محبت رکھنے کا یہ منطقی تقاضا ہے کہ آپ کی اطاعت کی جا ئے اور آپ کے حکم پر سر تسلیم خم کیا جا ئے ۔

ارشاد خداوندی ہے۔:

مَنْ يُطِعْ الرَّسُول فَقَدْ أَطَاعَ اللَّه(النساء :80)

"کہ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل اللہ ہی کی اطاعت کی"آپ نے اپنی وفات سے قبل ارشاد فر ما یا تھا ۔"میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ،جب تک تم ان دونوں پر مضبوطی سے قائم رہو گے۔گمراہ نہ ہو گے۔ ایک اللہ کی کتاب دوسری سنت رسول "اطاعت کے ساتھ آپ کی اتباع بھی لازمی ہے اتباع کا دائرہ اطاعت سے وسیع ہے اس سے مراد آپ کے ہر فعل کی پیروی ہے چاہے وہ فرض رہو سنت ہو۔مستحب بانفل رہوہر مومن صادق کی یہ خواہش ہو نی چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے سانچے میں ڈھال دے ۔پھر یہ اتباع کی گہرائیوں سے ہو۔ احترام و عقیدت کے جذبے سے ہو۔خدا کی محبوبیت کا درجہ ایسے ہی اتباع سے حاصل ہو سکتا ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے۔

"اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دو اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو۔ اللہ تم سے محبت کرے گا۔ اور تمھارے گناہ بھی بخش دے گا ۔بیشک وہ بخشنے والا مہربان ہے" (آل عمران:31)

خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔

مَنْ أَحَبَّ سُنَّتِي فَقَدْ أَحَبَّنِي (ترمذی)

"یعنی جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی"

5۔درود شریف : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم پر ایک اور حق ہے وہ یہ کہ آپ پر کثرت سے درود بھیجا جا ئے۔درود ہے کیا؟ غور کیا جا ئے تو یہ دراصل ایک دعا ہے جو ہر مومن کے دل سے ازخود نکلنی چاہیے کہ اے اللہ کے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات ہم پر بے شمار ہیں انھوں نے تیرا پیغام ہم تک بلا کم و کاست پہنچایا ۔اس سلسلے میں آپ کو بڑے جاں گسل مراحل سے گزرنا پڑا ۔بے شمار تکلیفیں اٹھا نا پڑیں۔اے اللہ ہم جزوبے بس بندے تیرے اس عظیم الشان پیغمبر کے بے پا یا ں احسانات کا بدلہ خود دینے کے قابل نہیں ہیں۔ اس لیے ہم تجھ سے درخواست کرتے ہیں کہ تو ہماری طرف سے ان پر رحمتیں برکتیں اور سلامتی نازل فر ما ۔اس طرح ان کو ہماری طرف سے اپنے خزانہ عامرہ سے جزائے خیراور اجر بے پایاں سے نواز۔

آپ پر درود بھیجنے کا حکم خود رب کریم نے قرآن پاک میں دیا ہے۔ ارشاد ہو تا ہے۔

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيماً (احزاب 56)

"بیشک اللہ تعالیٰ نبی پر رحمت نازل فرماتا ہے اس کے فرشتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں اے ایمان والو!تم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو اور ان پر سلام بھی بھیجو"

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا " وہ سب سے بڑا بخیل ہے جس کے سامنے میرا نام لیا جاوے پھر وہ مجھ پر درود نہ بھیجے " (ترمذی) مزید آپ کا ارشاد مبارک ہے"جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا"اس کے دس گناہ معاف کرے گا۔اور اس کے دس درجے بلند کرے گا۔(نسائی)اور یہ بھی احادیث سے معلوم ہو تا ہے کہ دعا بغیر درود کے قبول نہیں ہوتی علاوہ ازیں درود پڑھنے سے روز قیامت آپ کی شفاعت نصیب ہو گی ۔اب اگر کو ئی شخص آپ کا نام تو بڑے پیارو محبت سے لے آپ سے زبانی عقیدت و محبت کے بڑے وعدے بھی کرے مگر عملاً آپ کے فعل اور عمل کی پیروی نہ کرے بلکہ اس کا پنا قول و فعل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے متصادم ہو تو ایسا شخص دعوائے حب رسول میں جھوٹا اور اس کا دل حب رسول سے خالی ہے۔ کیونکہ آپ کے ساتھ محبت کا معیار تو آپ کی سنت کی پیروی ہی ہے ۔ایک عربی شاعر لکھتا ہے۔

تَعْصِي الإِله وَأنْتَ تُظْهِرُ حُبَّهُ,

هذا محالٌ في القياس بديعُ.

لَوْ كانَ حُبُّكَ صَادِقاً لأَطَعْتَهُ,

إنَّ الْمُحِبَّ لِمَنْ يُحِبُّ مُطِيعُ.

ترجمہ: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافر مانی بھی کرتا ہے پھر آپ سے محبت کا دعویٰ بھی رکھتا ہے ۔واللہ یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے۔اگر تیری محبت سچی ہو تی تو حضور کی اطاعت و اتباع کرتا کیوں کہ محب تو اپنے محبوب کا اطاعت شعار ہوا کرتا ہے۔

قرآن حکیم جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری پر دنیا میں کامیابی اور آخرت میں اجر جزیل کا وعدہ فرماتا ہےوہاں آپ کی نافرمانی کو بہت بڑی گمراہی سے تعبیر فرماتا ہے چنانچہ ارشاد ہو تا ہے۔

وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا (سورۃ الاحزاب:17)

"جوشخص اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے بے شک وہ بڑی کامیابی سے ہمکنار ہوا "

دوسری جگہ قرآن پاک میں اس کا میابی کی وضاحت بھی کی گئی ہے۔۔۔"اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہیں وہ قیامت کے روز( جنت میں) ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے۔یعنی انبیاء صدیق شہید اور صالحین لوگ !۔۔۔اور ان لوگوں کی رفاقت کتنی خوب ہے (النساء 69) اس کے بر عکس نافر مانی کرنے والے کے لیے قرآن پاک میں ارشاد ہو تا ہے۔

وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا (الاحزاب:26)

اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافر مانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔

6۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق کا ایک اور تقاضہ ہم پر یہ عائد ہو تا ہے کہ ہم آپ کے پیغام کو دوسروں تک پہنچائیں دین اسلام پر خود عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تبلیغ بھی کریں۔اقامت دین کی سعی ہر مسلمان پر لازم ہے عملاً آپ کی تعلیمات کی اشاعت کرنا اور آپ کے نور کو دوسروں تک پہچانا لازمی فریضہ ہے آپ کا ارشاد ہے :

" بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً ، "(بخاری )

"کہ میرا پیغام دوسروں تک پہنچانا چاہے ایک آیت کیوں نہ ہو"

ہمارے کرنے کا کام:۔

اللہ رب العزت نے ہمیں اس اسوہ حسنہ کی مکمل اتباع کا حکم دیا ہے ۔اسی پر ہماری فلاح و نجات کا دارومدار رہے ۔حقیقی اطاعت اور اتباع کی بنیاد معرفت محبت اور تعظیم ہے محبت اور تعظیم دل میں جتنی زیادہ ہو گی ۔اتنی ہی اتباع کا مل اور پائیدارہو گی۔ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و عقیدت اور آپ کی عظمت و بر تری کے اس احساس کو بیدار کرنے کے لیے اور پھر اسے پروان چڑھانے کے لیے آپ کی سیرت پاک کا بار بار مطالعہ کیا جا نا ضروری ہے۔ یہ مطالعہ غور سے ہو نا چاہیے اور بار بار ہو نا چا ہیے کیونکہ عظمت و بر تری کا احساس تو شاید ایک دو بار کے مطالعہ سے بھی ہو جا ئے مگر محبت و عقیدت پیدا کرنے کے لیے بار بار مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ ایک اور بات بھی ذہن میں رہے کہ آپ کی سیرت پاک کا مطالعہ ہمیں دوسری تمام سیرتوں کے مطالعہ سے بے نیازکر سکتا ہے۔مگر دوسری تمام عظیم ہستیوں کا مطالعہ آپ کی سیرت سے ہمیں بے نیاز نہیں ہو سکتا ۔

پھر مطالعہ کرنے والے پیروکاروںکا فرض ہے کہ وہ یہ احساس لے کر آگے بڑھیں کہ میں بھی حضور کی انقلابی ٹیم کا ایک سپاہی ہوں۔اپنے ماحول کی تیرگیوں کے خلاف جدو جہد کرنے کا فرض مجھ پر بھی عائد ہو تا ہے ۔مجھے بھی حضور کے کلمہ حق کی مشعل کو فضاؤں میں بلند رکھنا ہے اور اس کی روشنی کو فروغ اس طرح دینا ہے کہ تمدن کی دنیا میں اصلاح و تعمیر نمودار ہوا فساد اور باطل دم دبا کر بھاگ جا ئے ۔میں پہلے اپنی زندگی میں انقلاب لاؤں پھر اپنے ماحول کی اصلاح کروں یہ جذبہ جتنا قوی اور توانا ہو گا سیرت کا مطالعہ ہر بار ہمارے سامنے نئے نئے باب روشن کرے گا اور ہمارے لیے معاشرے میں پھیلی ہو ئی ظلمت کے خلاف جدو جہد کو آسان بنادے گا۔

ہر دور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ بکثرت ہو تا رہا ہے اور آج بھی ہو رہا ہے مگر افسوس یہ ہے کہ آج سیر ت نبوی کا مطالعہ کرنے والے لوگ اپنے سامنے کچھ دوسرے نام نہاد مقاصد رکھتے ہیں ۔بعض لوگ تو صرف معلومات کے حصول کے لیے کرتے ہیں کئی کو ئز پروگراموں میں اپنی بر تری ثابت کرنے کے لیے بعض لوگ یورپ کی تقلید میں آپ کا یوم پیدائش و وفات اس احساس تفاخر کے ساتھ مناتے ہیں کہ دیکھو ہمارے پاس بھی ایک عظیم پیغمبر ہے ۔( حالانکہ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جتنی معلومات مشرکین کو تھیں وہ ہمیں نہیں ہیں کہ وہ چشم دیدگواہ تھے ۔مگر ان کی محض یہ معلومات ان کے کسی کام نہ آئیں ۔قرآن پاک تو ان کی مذمت سے بھرا پڑا ہے۔) بیسیوں مجالس سیرت بالعموم اور ماہ ربیع الاول میں بالخصوص ہزاروں کی تعداد میں تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ماہ ربیع الاول کے آمد کے ساتھ ہی بے شمار سیرت کانفرنسیں ہوتی ہیں۔اخبارات ورسائل کے ایڈیشن نکلتے ہیں بے شمار کتب سیرت وجود میں آتی ہیں میلاد کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں ان محفلوں میں خوشبو اور عطریات سے بھر پور ماحول شیرینی کے تھال پھولوں کے گجرے اور ہار قمقموں اور فانوسوں کی ضیاء پاشیاں نعت خوانی اور قوالی کے اہتمام پھر ان میں حسن صوت اور حسن ترنم کے بے پناہ جادو جگائے جاتے ہیں ۔مگر عملاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع کا کوئی اثر زندگیوں پر نمودار نہیں ہو تا بس اپنے بے چین ضمیر کو تھپکی دے کر سلانے کے لیے یہ نعرہ بار بار لگائے جاتے ہیں ۔

"کچھ بھی ہیں مگر تیرے محبوب کی امت میں ہیں۔

سچی بات تو یہ ہے کہ ان مجالس سیرت سے دلوں پر تو وجد طاری ہو سکتا ہے پریشان ذہنوں کو وقتی طور پر سکون مل سکتا ہے۔ معلومات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔مگردلوں میں وہ انقلاب کہاں سے آئے کہ ہم اپنی زندگیوں کو سیرت کے سانچے میں ڈھالیں ۔بلکہ افسوس تو اس بات کا ہے کہ عقیدت کے پھول تو آپ پر صرف زبانی کلامی برسائے جاتے ہیں ۔عملاًہم میں سے بہت سے مسلمان ایسے ہیں جو حضور کے مشن کو زمانہ حال کے لیے ناکارہ اور آپ کے عطا کردہ نظام زندگی کو آج کے دور میں ناقابل عمل سمجھتے ہیں ۔۔ان میں وہ بھی ہیں جو تحقیق کے نام پر سنت حدیث اور سیرت کے تمام ریکارڈ کو یا برد کرنے پر تلے بیٹھے ہیں اور ان میں وہ بھی ہیں جو آپ کی تئیس (23)سالہ جدو جہد اور لازوال انقلابی کار نامے کو آج کی فاسد مغربی تہذیب کے مطابق ڈھال کر محسن انسانیت کی ایک بالکل نئی تصویر نئے عالمی ذوق اور نیوورلڈآرڈر کے مطابق تیار کرنا چاہتے ہیں ۔

کسی غمگسار کی نعمتوں کا یہ خوب میں نے صلہ دیا

کہ جو میرے غم میں گھلا کیا اسے میں نے دل سے بھلا دیا

تیرے حسن خلق کی ایک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی

میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے دروبام کو تو سجادیا

تیرے ثور و بدر کے باب سے میں ورق اُلٹ کے گزر گیا

مجھے صرف تیری حکایتوں کی روایتوں نے مزا دیا

(پرو فیسر عنایت علی خاں )