نجات شیراز ہ بندی میں ہے جبکہ فرقہ بندی ہلاکت!

(قرآن مجید انبیاء کرام علیہ السلام کی شریعتوں کے اختلاف کے باوجودبھی نہیں ایک امت قرار دیتا ہے۔)

﴿وَإِنَّ هـٰذِهِ أُمَّتُكُم أُمَّةً و‌ٰحِدَةً وَأَنا۠ رَ‌بُّكُم فَاتَّقونِ ﴿٥٢﴾ فَتَقَطَّعوا أَمرَ‌هُم بَينَهُم زُبُرً‌ا كُلُّ حِزبٍ بِما لَدَيهِم فَرِ‌حونَ ﴿٥٣﴾... سورة المؤمنون

"(اے پیغمبر ) تم یہ سب ایک ہی جماعت ہو اور میں تمھارارب ہوں پس میرا تقویٰ اختیار کرو پس لوگوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر لیا ۔ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اس پر ہی نازاں ہے"لیکن امت مسلمہ فرقہ بندی کی صورت میں کتنے بڑے فتنہ کا شکار ہے؟مگر یہ ہے کہ خوشنما ناموں اور من گھڑت دعوؤں سے ایک دوسرے پر برتری کے نعروں پر ہی اکتفاء کر لیا جا تا ہے قرآن مجید نے فرقہ بندی کو شرک قراردیاتو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرقہ بندی کی سزا جہنم قراردی جس کی نشاندہی عوام میں مشہور حدیث میں بھی کی گئی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ "پہلی امتوں سے بڑھ کر امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرقہ بندی کا شکار ہو گی۔ ایک قسم کے علاوہ تمام دھڑے آگ میں ہوں گے لیکن جنت میں جانے والوں کی خاصیت یہ ہو گی کہ وہ انتشار سے بچ کر اجتماعی مزاج کے حامل ہوں گے"

ظاہر ہے کہ مذکورہ حدیث مختلف فرقوں میں کسی کی بر تری ثابت کرنے کی بجائے امت کے اس خلق و کردار کو نمایاں کرنا چاہتی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا تھا جس سے نبی کا انفرادی اور اجتماعی (صحابہ کے ہمراہ )رویہ مراد ہے جیسا کہ دوسری روایت کے الفاظ ہیں ۔"ما انا عليه واصحابي"

یعنی جس طریق پر نبی ذاتی طور پر اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ مل کر قائم و دائم رہے۔ حدیث ہذا میں واقعی حق و باطل کے اعتبارسے شریعت کے ایک اہم پہلو کی نشاندہی موجود ہے جس پر مسلم معاشرہ کے افراد اور گروہوں کے رویوں کو پرکھا جا سکتا ہے جبکہ صحیح بخاری کی ایک اور حدیث میں "جماعت المسلمین "کے الفاظ سے ملت اسلامیہ کے "نظم "کا پہلو اجاگر کیا گیا ہے یعنی دونوں حدیثوں میں "وھی الجماعہ"اور جماعہ المسلمین"الفاظ سے دو مختلف ہستیوں کا بیان ہے وھی الجماعۃ سے اگر معاشرتی رویہ مقصود ہے تو جماعۃ المسلمین سے نظم حکومت۔۔۔لہٰذا مسلمانوں کو معاشرہ میں ایسا فکر و عمل اپنانا چاہیے جو انسانی ہمدردی اور باہمی خیر خواہی پر مبنی ہو۔ اسی طرح نظام حکومت سے آخری حد تک استواری اور اطاعت کا سلوک اپنانے میں ہی نجات ہے الایہ کہ حکومت علی الاعلان کفر کے غلبے اور اسلام کی بیخ کنی شروع کردے۔

باقی رہا یہ امرکہ مسلمانوں کی تاریخ میں عقیدہ وعمل کی گمراہیاں پھیلتے دیکھ کر مصلحین نے بھی اپنے امتیازی نام رکھے جیسے اہل سنت وغیرہ یا گمراہ فرقوں نے اپنے لیے خوشنما لقب اختیار کئے جیسے معتزلہ کا "اہل العدل التوحید "کہلا ناوغیرہ بلکہ اسی ردعمل میں ان فرقوں کے ایسے نام بھی رکھے گئے جن کو وہ خود اپنے لیے پسند نہیں کرتے ۔حقیقت یہ ہے کہ صرف ان ناموں کی بنیاد پر حق و باطل کا فیصلہ کرنا معتدل مزاج لوگوں نے کبھی گوارا نہیں کیا۔ چنانچہ کوئی من پسند نام رکھ کر "حق "کا دعویٰ کرتا ہے یاقرآن و حدیث میں وارد نام کو اپنے اوپر چسپاں کر کے اتراتا ہے تو یہ درست طریقہ نہیں ہے بلکہ اس سے امت میں انتشارہی پیدا ہو گا جو حدیث بالا (تہتر فرقوں والی) کی روسے مذموم ہی ہو گا خواہ خوارج یا شیعہ کے کسی گروہ کی طرف سے "محمدی"یا حزب اللہ کہلاتا ہو یا کوئی فرد یاگروہ "جما عۃ المسلمین"کی رجسٹریشن کراکراس کی رکنیت کا دعویٰ دار بن جا ئے زیر نظر مضمون اگر چہ کئی پہلو سے تشنہ ہے جن کی طرف ادارتی نوٹ میں ہم اشارے ہی کر سکے ہیں ۔تاہم بعض عمدہ نکات اس میں ضرورآگئے ہیں جن پر بالخصوص "جماعۃ المسلمین"رجسٹرڈ کراچی کو غور کرنا چاہیے ۔اگر محترم مقالہ نگار یاکوئی دیگر فاضل شخصیت علمی انداز پر اختصار سے ایسی جملہ احادیث کو سامنے رکھ کر معاشرے میں پائے جانے والے متضاد رویوں کا تعین کر سکے تو اہم خدمت ہو گی۔اس طرح احادیث کی جمع و تطبیق کے علاوہ بالواسطہ قابل مذمت مذہبی اور سیاسی ٹولیوں کی پہچان بھی ہو جا ئے گی ۔(محدث)

الجماعہ اور فرقے:۔

الجماعہ

ملت اسلامیہ کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرما یا تھا کہ (1)

"خبر دار !تم سے پہلے جو اہل کتاب تھے وہ بہتر (72)ٹکڑوں میں بٹ گئے تھے ۔اور یہ ملت تہتر(73)ٹکڑوں میں بٹ جا ئے گی۔جن میں سے بہتر (72)جہنم میں اور ایک جنت میں ہو گا ۔اور وہ ایک "الجماعۃ"سے۔۔۔

(امام ابو داؤد نے"کتاب السنہ"میں اس حدیث کو ذکرکرکے یہ اشارہ کر دیا کہ "الجماعۃ" سے مراد وہ لو گ ہیں جو "السنہ" کو لا زم پکڑ لیں گے۔)

مندرجہ بالا حدیث میں (ناجی)جنتی گروہ کو "الجماعہ"کے نام سے مو سوم کیا گیا ہے اگر ہم اس حدیث کے مختلف متون کا مطالعہ کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی۔کہ یہ ناجی گروہ وہ ہو گا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے طریقے پر گامزن ہوگا ۔جیسا کہ ترمذی میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ابواب صفۃ جہنم کے "باب افتراق ھذہ الامہ"کے زیل میں حدیث میں یہ حدیث لا ئے ہیں ۔کہ"عبد اللہ بن عمرو بن عاص کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ(2)

"بنی اسرائیل بہتر (72)فرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت تہتر(73) فرقوں میں بٹ جا ئے گی ۔ان میں سے ایک کے سوا سب آگ میں جائیں گے۔عرض کیا گیا کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون ساہوگا؟آپ نے فرمایا " جس پر میں اور میرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں "

مندرجہ ذیل بالا حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیش گوئی کر دی تھی میری امت کی تہتر (73)ملتوں (ٹکڑوں ) میں سے فقط ایک ملت جنت میں جائے گی۔اور یہ (ان لوگوں کا راستہ ) وہ ہو گا جس پر میں (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) اور میرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں ۔

بحث کا خلا صہ یہ ہے کہ پہلی روایت جو ابو داؤد کی ہے اس میں جنت جانے والے لوگوں کو الجماعہ کہا گیا ہے اور دوسری میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ وہ لوگ نبی کے طریقے (سنت) اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے طریقے پر گامزن ہوں گے۔ان دونوں روایات (ابو داؤد ترمذی) میں کو ئی تعارض نہیں بلکہ ایک روایت دوسری روایت کی ہی تشریح و توضیح کرتی ہے۔

ایک اور روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اختلاف امت میں سنت نبوی اور خلفاء راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کی سنت کو تھا منے کا حکم دیا ہے آپ نے فرمایا ۔(3)

"توجوشخص میرے بعد رہے گا وہ بہت اختلاف دیکھے گا ۔تو تم پر میری سنت اور میرے خلفاء جو ہدایت دینے والے اور ہدایت یافتہ ہیں ان کی سنت کی پیروی کرنا لا زم ہے۔ تم اس کو ہی تھا مے رہو اور اس کو مضبوطی سے داڑھوں سے پکڑ لو۔۔۔"(ترمذی ،ابن ماجہ ،ابوداؤد،کتاب السنہ،باب فی لزوم السنہ ،و لفظ ابو داؤد ) ( قال الالبانی صحیح ،صحیح سنن ابی داؤد ص871/ج3)

معلوم ہوا کہ اختلاف کے زمانے میں سنت نبوی اور خلفاءکے طریقے کو لازم پکڑناضروری ہے اور یہاں خلفاء کی تعریف میں سب سے پہلےصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہی داخل ہیں کیونکہ آپ نے اپنے بعد کا ذکر کیا ہے اور آپ کے بعد سب سے پہلے صحابہ ہی خلیفہ بنے۔

امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے " جابیہ " کے مقام پر خطبہ دیتے ہو ئے کہا تھا کہ نبی نے خطبہ دیتے ہو ئے فرما یا : (4)

"میں تمیں اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے بارے میں وصیت کرتا ہوں ۔پھر وہ لوگ جو ان سے متصل ہوں پھر وہ لوگ جو ان سے متصل ہوں ۔پھر جھوٹ پھیل جائےگا۔یہاں تک کہ ایک شخص قسم کھا ئے گا اور اس سے قسم نہ لی جا ئے گی ۔گواہ سے گواہی نہ دینے کو کہا جا ئے گا۔"

خبردار کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہیں ہو تا مگر تیسرا شیطان ان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے۔تم پر "الجماعۃ"کو تھامنا ضروری ہے اور تم الجماعہ سے علیحدگی سے بچو ۔بیشک شیطان اکیلے آدمی کے ساتھ ہو تا ہے اور وہ دو آدمیوں سے دوررہتا ہے۔جو شخص جنت کے درمیان جگہ بنانا چاہتا ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ "الجماعہ"کو لازم پکڑے"

عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کردہ اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہو گئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے مجمعے میں دوران خطبہ لوگوں کو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین تابعین اور تبع تابعین کے بارے میں وصیت کی اور مختلف قسم کے فتنوں کی نشاندہی کرنے کے بعد فرما یا کہ تم "الجماعہ"(صحابہ تابعین اور تبع تابعین رضوان اللہ عنھم اجمعین ) کو لا زم پکڑنا ۔آخر میں مزید نشاندہی کی کہ جو جنت میں جانا چاہتا ہے اس کے لیے "الجماعہ"(صحابہ ،تابعین اور تبع تابعین رضوان اللہ عنھم اجمعین ) کو لا زماً تھا مناہو گا ۔

ان روایات کے بعد اس بات پر اصرار کرنا کہ "الجماعہ"سے مراد خود ساختہ "جماعت المسلمین"رجسٹرڈہی ہے ۔اور باقی امت مسلمہ جو کتاب و سنت پر عامل ہے خارج الاسلام ہےدین اسلام کے ساتھ ایک مذاق ہے۔

باقی رہی حذیفہ بن یمان والی حدیث تو خود اس حدیث کے مطالعہ سے ہی یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ "الجماعہ"سے خود ساختہ جماعت المسلمین رجسٹرڈ مراد نہیں بلکہ وہ فرقہ ناجیہ مراد ہے جو "مااناعلیہ واصحابی "کے مصداق ہو خواہ اسے کسی نام سے پکارا جا ئے اسے عباد اللہ کہئے مسلمین کا نام دیجئے یا مومنین سے موسوم کیجئے ۔یہ ایک ہی فرقہ ناجیہ کے نام ہیں جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث سے واضح ہے کہ نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

وَلَكِنْ تَسَمَّوْا بِاسْمِ اللَّهِ الَّذِي سَمَّاكُمْ عِبَادَ اللَّهِ الْمُسْلِمِينَ الْمُؤْمِنِينَ

(مسند احمد ص344/ج5 قال الالبانی و اسناد صحیح تعلیقات مشکوۃ :ص65/1)

"بلکہ تم وہ نام رکھو جو اللہ تعا لیٰ نے تمھارا رکھا ہے یعنی عباد اللہ مسلمون،مومنون ،یہ تمام نام اللہ ہی کے رکھے ہوئے ہیں ،"ان میں سے کسی نام سے پکار ئیے وہ الجماعہ ہی ہے ۔ایک سے زائد نام ہونا کوئی جرم نہیں قرآن حکیم نے نبی کے نام کی جو بشارت دی ہے وہ احمد نام کی ہے ۔

مُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ(سورۃ الصف : 6)

میں (عیسیٰ رضوان اللہ عنھم اجمعین ) بشارت دینے والا ہوں ،اپنے بعد ایک رسول کے آنے کی جس کا نام "احمد"ہو گا ۔

جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے بڑوں نے آپ کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم رکھا اور قرآن حکیم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو چار(4)بار ذکرکیا ہے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : (5)

"بے شک میرے چند نام ہیں ۔میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں ۔میں احمد ہوں اور میں الماحی ہوں ۔جس سے اللہ تعالیٰ کفر کو مٹاتا ہے اور میں الحاشر ہوں اور لوگ (قیامت میں) میرے قدموں پر اکھٹے کئے جائے گے اور میں العاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہیں ۔"

مسعود صاحب (بی ایس سی) یہ فیصلہ فرمادیں کہ ان ناموں میں سے کون سانام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی ہے اور کون سا صفاتی ۔اور نبی کے ان کے ذاتی اور صفاتی ناموں کے ذریعےفرقے کس طرح وجود میں آتے ہیں۔؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب منافقین نے فتنوں کی یورش کی اور نت نئے فتنے امت مسلمہ میں اٹھ کھڑے ہوئے ۔اور آپ کی پیش گوئی کے مطابق امت مسلمہ گمراہ فرقوں میں بٹتی چلی گئی ۔حدیث کے جمع کرنے میں قرون اولیٰ میں بھی محدثین کو بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گمراہ فرقوں نے مختلف باتیں منسوب کرنا شروع کردیں ۔ایسے فتنے کے ماحول میں امام ابن سیرین کا یہ قول آج بھی فتنہ پھیلانے والوں کے لیے شمشیر برہنہ کا حکم رکھتا ہے۔کہ:

"پہلے لوگ اسناد دریافت نہ کرتے تھے لیکن فتنہ بپا ہو جا نے کے بعد راویان حدیث کے متعلق چھان بین شروع کردی گئی۔پس غور و خوض کے بعد اہل السنہ کی حدیث قبول کر لی جاتی اور اہل البدعہ کی حدیث رد کر دی جاتی۔"

(مقدمہ صحیح مسلم ص11/ص1السان المیزان ص7ج1کتاب العلل از ترمذی ص236/ج2)

محدثین کا یہ معیار اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ فرقہ ناجیہ کو امت مسلمہ کے دیگر گمراہ فرقوں سے ممیز کرنے کے لیے "اہل السنہ"کی اصطلاح سے یاد کیا گیا ۔خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کی نشاندہی فرمارہا تھا کہ فرقہ ہوگا جس پر میری سنت اور میرے صحابہ کی سنت دلالت کرتی ہوگی ۔امام ابن سیرین کا اہل السنہ کی اصطلاح استعمال کرنا مسلمان سے ہٹ کر کو ئی نیا نام نہ تھا بلکہ اس جماعت المسلمین کی شناخت تھی جس کا تعلق الجماعہ سے ہے اور جب مسلمین کے مختلف فرقے ناموں سے باوجود میں آگئے تو فرقہ ناجیہ کی شناخت اہل السنہ کہلائی ۔قرآن حکیم اور احادیث صحیحہ میں بھی امت مسلمہ کو مختلف ناموں سے پکارا گیا ہے۔ مثلاً:

1۔حزب اللہ (المائدہ56۔المجادلہ22)

2۔خیرامتہ (آل عمران /110)

3۔امتہً وسطاً (البقرۃ/143)

4۔انصار (صحیح بخاری ۔کتاب المغازی ص588/ج2)

5۔مہاجر (صحیح بخاری ۔کتاب المناقب ص535/ج1)

6۔اہل الہجرۃ(صحیح بخاری۔کتاب المغازی ص616/ج2)

7۔اہل لصفہ (صحیح بخاری۔ کتاب الرقاق ص955/ج2)

8۔اہل بدر (صحیح بخاری ۔کتاب المغازی ص575/ج2)

9۔اہل التوحید (سنن ترمذی ۔ابواب صفۃ جہنم قال الالبانی صحیح ،صحیح سنن ترمذی ص323/ج2)

10۔اہل اسلام (سنن ابو داؤد ۔کتاب السنہ باب فی قتل الخوارج قال الالبانی صحیح ،صحیح سنن ابو داؤد ص903)

11۔اصحاب الشجرہ (صحیح مسلم ص303/ج2کتاب الفضائل)

دراصل مسعود ٍصاحب نے صرف الفاظ کا یک کھیل کم علموں کے سامنے ان کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے کھیلا ہے کیونکہ فرقے ناموں سے وجود میں نہیں آتے بلکہ عقائد کی وہ گمراہیاں جو دین کو ٹکڑے کردیا کرتی ہیں فرقہ بندی کو جہنم دیتی ہیں اور قرآن نے فرقہ ضالہ کی بنیاد بھی اسی چیز پر رکھی ہے ماضی کی امتوں میں بھی گمراہ فرقے عقائد میں بگاڑ پیدا ہونے سے وجود میں آئے تھے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق بنی اسرائیل (72)فرقوں میں بٹ گئے۔ہر چند کہ فرقہ جو صحیح القیدہ تھا اور فرقہ ناجیہ میں سے تھا ۔اس کو قرآن نے حواری کہا۔ لاریب یہ بھی "جماعۃ المسلمین"میں سے تھا لیکن قیامت تک کے لیے "حواریوں "کا لفظ استعمال کیا جائے گا اور اس کی ہی تلاوت کی جا ئے گی۔ان کے اس صفاتی نام سے فرقہ ضالہ کی بنیاد نہیں پڑی (معاذ اللہ )

علی ہذا القیاس امت مسلمہ کے لیے یہ تمام (صفاتی اور ذاتی) نام جو ان کے فرقہ ناجیہ ہونے پر دلالت کرتے ہیں ۔اپنے اندر قطعاً کوئی قباحت نہیں رکھتے حدیث نے کبھی ان کو الجماعہ کہا کبھی عباد اللہ کہا کبھی مسلمین اور کبھی مومنین الجما عۃ المسلمین وغیرہ ۔

پھرطرفہ تماشا یہ کہ خذیفہ بن یمان کی اس حدیث میں مسعود صاحب نے تحریف بھی کی۔حدیث میں جماعۃ المسلمین کی عدم موجود گی میں جماعۃ المسلمین بنانے یا اس کے احیاء کرنے کی وصیت حذیفہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کی۔ لیکن مسعود صاحب نے وصایا نبوی کے عنوان سے نبی کی طرف سے یہ وصیت بھی منسوب کی کہ:

"نہیں ہے تو بنائیے نہیں بناسکتے تو پھر تمام فرقوں سے کنارہ کش ہو جا ئے اور اس حالت میں مر جائیے۔(پملفٹ "ہمارا نام صرف ایک یعنی مسلم" ص8۔)

فریب دینے کے لیے یہ بھی کہا جا تا ہے کہ جب بہت سے مسلم مو جود ہوں تو ان کے ملنے سے خود بخود جماعۃ المسلمین وجود میں آجاتی ہے اور "اجماعہ"کے وجود میں آجانے کے بعد ایک "امیر جماعہ المسلمین "کا ظہور ہو جا تا ہے ۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حذیفہ سے یہ فرما رہے تھے تو کیا اس وقت حذیفہ صرف اکیلے باقی بچ رہے تھے جن کے اکیلے ہونے کی وجہ سے چونکہ "جماعہ" وجود میں نہیں آسکتی تھے اس لیے وصیت فرمادی کہ تم تنہا ہونے کی وجہ سے جماعۃ المسلمین نہ بنا سکو گے اس لیے تم کو اکیلے رہنا ہو گا۔چاہیے تمہیں درخت کی جڑیں ہی کیوں نہ چبانی پڑیں اور اسی حال میں تمہیں موت آجائے۔

حدیث (تلزم جماعة المسلمين وإمامهم )کی وضاحت

حذیفہ بن یمان کی ایک روایت ابو داؤد نے اپنی سنن میں نقل کی ہے جس کے الفاظ یہ ہے کہ(6)

"اگر (اس وقت )اللہ کا خلیفہ زمین پر ہواور وہ تیری کمر پر مارے اور تیرا مال لے لے تو بھی اس کی اطاعت کرنا اور اگر (وہ خلیفہ) نہ ہوتو اس حال میں مر جا تا کہ تو درخت کی جڑیں چباتا ہو"

اس صحیح حدیث کی موجودگی میں جب نام نہاد بے اختیار امارت کاپول کھلنے لگا تو بجائے اس کے کہ حدیث رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا جاتا لا یعنی اعتراضات شروع کردئیے گئے۔براہو ذہن پرستی کا کیونکہ وہ ایسے ہی گل کھلاتی ہے۔ آئیے دیکھیں کہ اس حدیث پر مسعود صاحب کیا اعتراضات کرتے ہیں ۔

1۔پہلا اہم اعتراض یہ ہے کہ اس حدیث کے راوی سیع بن خالد کو ابن حجر نے صرف "مقبول" لکھا ہے سویہ اعتراض اس لیے بھی باطل ہے کہ موصوف خود مقبول راوی کی روایت کو جا ئز مانتے ہیں چنانچہ قربانی کی دعا احمد ابو داؤد اور ابن ماجہ وغیرہ سے نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ"وفیہ ابو عیاش و ھو مقبول "(منہاج المسلمین ص96)

2۔دوسرا اعتراض یہ ہے کہ حدیث کی سند میں قتادہ کا عنعنہ بھی ہے جو اس حدیث کو مشکوک بنا دیتا ہے ۔الغرض یہ حدیث سنداًضعیف ہے۔یہ اعتراض بھی باطل ہے کیونکہ موصوف کہتے ہیں کہ "امام حسن بصری ،امام الولیدبن مسلم، امام سلیمان الاعمش ،امام سفیان ثوری ،امام سفیان بن عیینہ ،امام قتادہ

امام طلحہ بن نافع وغیرہ وغیرہ ہمارے نزدیک ان سے کوئی امام بھی مدلس نہیں ۔(کتابچہ اصول حدیث مرتبہ مسعود احمد اشاعت اول ص17۔16)

نتیجہ : جب قتادہ مدلس ہی نہ رہے تو ان کا عنعنہ اور حدیث برابر ہے۔ اس لیے اعتراض باطل ہوا۔لیجئے اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے آگے تحریر کرتے ہیں کہ:

"انتباہ!اگر اس تحریر سے پہلے کبھی ہم نے کسی حدیث کو کسی امام کی طرف منسوب کر دہ تدلیس کی وجہ سے ضعیف کہا تو وہ حدیث ہمارے نزدیک صحیح ہے"(کتابچہ اصول حدیث ص17)

تو صاحب یہ ابو داؤد کی حدیث تو صحیح ہو گئی ۔"اب نہ جا ئے آمدن نہ جائے رفتن "

3۔تیسرا اعتراض الفاظ سے متعلق ہے۔لیکن جو اصول ذکر کئے گئے۔ہیں وہ سب موصوف کی ذہنی اختراع ہے۔ جن کا کوئی ثبوت کسی اصول حدیث کی کتاب سے نہیں دیا گیا ۔اس لیے ہم کہتے ہیں کہ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ واضح رہے کہ احادیث کی اقسام وغیر ہ تحریر کرتے وقت مسعود صاحب نے بھی اصول حدیث کی کتب کو ملحوظ رکھا ہے۔

4۔چوتھا اعتراض یہ ہے کہ حدیث مضطرب المتن ہے لیکن یہ اعتراض بھی خود ساختہ ہے ابو داؤد کی یہ حدیث جو سنداًصحیح ہے۔ بخاری و مسلم کی صحیح روایتوں کی تشریح کر رہی ہے۔جس طرح مسلم کی روایت میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ"امیر کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا اگرچہ تیری پیٹھ پر کوڑےہی کیوں نہ لگا ئے جائیں اور تیرا مال تجھ سے لے لیا جا ئے ہر حال میں سمع وطاعت لازم ہے۔ پس مسلم کی روایت کے یہ الفاظ حدیث کو مضطرب یا ضعیف نہیں قرار دے رہے ہیں تو پھر ابو داؤد کی اس روایت پر کلہاڑاکیوں چلا جا رہا ہے۔

پانچواں اعتراض یہ ہے کہ ابو داؤد کی حدیث کو کسی نے بھی صحیح نہیں کہا یہ اعتراض یا تو کم علمی پر مبنی ہے یا پھر۔۔۔ابو داؤد کی سیع بن خالد کی روایت پر منذری نے سکوت اختیار کیا۔علامہ ناصر الدین البانی نے حسن کہا: اور مستدرک میں جو روایت ہے اس کو امام حاکم نے صحیح الاسناد کہا اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے ۔(مستدرک ص433/ج4)

چھٹا اعتراض یہ ہے کہ ابو داؤد کی روایت میں چاروں زمانوں کا ذکر وضاحت سے نہیں ہے موصوف نے اس سے شاید یہ نتیجہ اخذ کیا کہ الفاظ کا یہ اختلاف حدیث کو مشکوک بنا دیتا ہے معلوم نہیں وہ کس اصول حدیث کی بنیاد پر یہ کہہ رہے ہیں اگر ان کے اس خود ساختہ اصول پر عمل کیا جا ئے تو بخاری مسلم کی کتنی ہی روایات اس اصول کی نذر ہو جا ئیں گی۔کیونکہ صحیحین کی بہت سی روایات آپس میں ایک دوسرے سے الفاظ میں مختلف ہیں اور یہ اختلاف کمی و بیشی یا تقدیم اور تاخیردونوں طرح کا ہے یہ ذہن پرستی کی ایک مکروہ شکل ہے۔جو لا یعنی اعتراضات پیش کر کے حدیث سے جان چھڑاتی ہے۔

ساتواں اعتراض موصوف کو یہ ہے کہ "معرضین کو ابو داؤد کی حدیث پر بڑا ناز ہے تو آخر وہ اس حدیث پر عمل کیوں نہیں کرتے ۔خلیفہ ہے نہیں ۔تو وہ درخت کا تنا چبا کر مرتے کیوں نہیں ۔فوراً جنگل چلے جا ئیں اور وہیں تناچبا چبا کر زندگی کے بقیہ دن گزاریں "

یہ الفاظ منکرین حدیث کی زبانوں پر آتے ہیں تو تعجب نہ ہو تا ۔صحیح حدیث پر ہمیں ایمان لا نا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر قول پر ایک امتی تو ناز کرتا ہے اور قربان ہو جاتا ہے ہمیں ابوداؤدکی روایت پر ویسا ہی ناز ہے جیسا کہ حذیفہ بن یمان کی بخاری و مسلم کی روایت پر ہے۔

فرقے

لغوی معنی :۔

فرقے کے لغوی معنی لوگوں کے گروہ کے ہیں اور اس کی جمع "فرق"ہے۔

جیسا کہ المنجد میں ہے"الفرقہ :الطائفۃ من الناس ،ج فرق ۔۔۔المنجد : ص610"الفرقہ: لوگوں کی ایک جماعت ۔ج فرق ۔ (مصاح اللغات ص630)

قرآن حکیم نے بھی لوگوں کی جماعت پر فرقہ کا اطلاق کیا ہے (7) احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی فرقہ کا اطلاق لوگوں کے اجماع اور ان کی جماعت پر ہوا ہے۔

ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا میری امت میں دو فرقے ہو جا ئیں گے ان دونوں کے درمیان سے ایک (مارقہ) گروہ نکل جائے گا (ان دو فرقوں میں سے ) جو حق سے زیاد قریب ہو گا ۔وہ اس (مارقہ ) گروہ کو قتل کرے گا۔(8)

اصطلاحی معنی:۔

قر آن و حدیث میں جس قسم کے فرقے بنانے کی ممانعت یا مذمت کی گئی ہے وہ اصول دین کے اختلاف پر بننے والے فرقے ہیں جیسا کہ قرآن حکیم میں مالک رحیم کا ارشاد ہے(9)

"اس (اللہ تعالیٰ) نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح علیہ السلام کو دیا تھا اور ہم نے آپ کی طرف بھی یہی وحی کی اور جس کا حکم ابراہیم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کو دیا تھا کہ دین کو قائم کرو اور فرقے فرقے مت ہو جا ؤ"

امام ابن کثیر اس آیت کے ذیل میں رقم طراز ہیں کہ (10)

"اور دین تو صرف وہی ہے جو تمام رسول لے کر آئے تھے اور وہ اللہ کی عبادت ہے جو اللہ اکیلا ہے اور اس کو ئی شریک نہیں ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

"اور (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول بھیجا اس کی طرف یہی وحی بھیجی کہ میرے سوا کو ئی معبود نہیں ۔تو تم سب میری ہی عبادت کرو۔"

واضح رہے کہ امام ابن کثیر کا قول خود مسعود صاحب نے بھی نقل کیا ہے (کتابچہ الجماعۃ :24)امام ابن کثیر آگے لکھتے ہیں کہ: (11)

"انبیاء کرام علیہ السلام کے درمیان قدر مشترک اللہ وحد ہ لا شریک کی عبادت ہے اگرچہ ان کے درمیان شریعت اور منہج کا اختلاف تھا جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے۔ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے شریعت اور راستہ بنا دیا ہے۔"

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کے مطالعہ سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تمام انبیاء علیہ السلام کا دین ایک ہی تھا جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں ہے کہ آپ نے ارشاد فر ما یا ۔

"میں عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام سے لوگوں کی نسبت دنیا اور آخرت میں زیادہ قریب ہوں ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !وہ کیسے؟ آپ نے فر ما یا تمام انبیاء علاتی بھائی ہیں ان کی مائیں جداجدا ہیں اور دین ایک ہی ہے میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں "

اگر ہم خیر القرون پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا فرقے کیوں اور کون سے بنے؟

فرقے بننے کی چند وجوہات:۔

اصول دین (عقائد و نظر یات ) میں کمی و زیادتی کرنا کسی صحیح عقیدہ کا انکارکرنا اور کوئی خود ساختہ عقیدہ اختیار کرنا دین کی کسی بنیاد کو ماننے سے انکار کرنا یا اپنے گروہ کے علاوہ تمام امت مسلمہ کی تکفیر کرنا وغیرہ فرقے بن جانے کی چند بنیادی وجوہات ہیں ۔اب ہم خیر القرون کے چند فرقوں کے نام اور ان کے عقائد وغیرہ پر الگ الگ گفتگو کرتے ہیں ۔تاکہ یہ واضح ہو جائے"فرقہ" کسے کہتے ہیں۔

(1)خوارج :۔

لغت میں خوارج کے معنی ہیں ۔

الخوارج :قوم يخالفون السلطان والجماعة (المنجد:691)

"الخوارج: باغی لوگ ۔جماعت سے نکلے ہو ئے لو گ ۔(مصباح اللغات :196)واضح رہے کہ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کی وضاحت کرتے ہو ئے مسعود صاحب "المنجد "کا حوالہ دیا کرتے ہیں )

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس بات کی نشاندہی کر دی تھی کہ:

يَكُون أُمَّتِي فِرْقَتَيْنِ فَيَخْرُج مِنْ بَيْنهمَا مَارِقَة يَلِي قَتْلهمْ

(صحیح مسلم ص342/ج1مسند احمد ص64/ج3)

یعنی " میری امت میں دو فرقے ہو جا ئیں گے۔ ان دونوں کے درمیان سے ایک (مارقہ )گروہ نکل جا ئے گا سو (ان دونوں فرقوں میں سے ) جو حق سے زیادہ قریب ہوگا وہ اس (مارقہ) گروہ کو قتل کرے گا ۔

معلوم ہوا کہ جو( مارقہ) گروہ خروج کرے گا۔ وہ پہلا فرقہ ہو گا اور وہ یہی "خوارج"تھے ابو داؤد میں ہے کہ آپ نے فرمایا"یہ گروہ اہل اسلام کو قتل کرے گا اور بت پرستوں کو چھوڑدے گا۔اگر میں ان کو پاؤں تو عاد کی طرح قتل کردوں"(صحیح سنن ابو داؤد ص903/ج3)

اس حدیث میں جماعت المسلمین کو "اہل اسلام"کے نام سے پکارا گیا ہے۔

(2)القدریہ:۔

خیر القرون میں ایک فرقہ قدریہ بھی تھا قدریہ کی تعریف یہ ہے کہ:

والقَدَرِيَّةُ:: قوم يَجْحَدُون القَدَرَ الخ(المنجد645)

القدریہ۔۔۔"ایک جامعت ہے جو تقدیر الٰہی کاا نکار کرتی ہے اور کہتی ہے کہ بندے اپنے افعال اختیار یہ کے خود خالق ہیں اور جبریہ اس کے خلاف ہے"(مصباح اللغات 663)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ میں بھی القدریہ کے متعلق پیش گوئی اور ان کی مذمت ملتی ہے۔

الْقَدَرِيَّةُ مَجُوسُ هَذِهِ الأُمَّةِ، إِنْ مَرِضُوا فَلا تَعُودُوهُمْ، وَإِنْ مَاتُوا فَلا تَشْهَدُوهُمْ

(سنن ابو داؤد کتاب السنہ باب فی القدریہ قال الالبانی "حسن "صحیح سنن ابوداؤد ص887/ج3)

یعنی "قدریہ اس امت کے مجوسی ہیں اگر وہ بیمار ہو جا ئیں تو ان کی عیادت نہ کرو۔اور اگر وہ مرجائیں تو ان کے جنازے پر حاضر نہ ہو"مسند احمد ص86/ج میں یہ الفاظ ہیں کہ:

لكل أمة مجوس ومجوس أمتي الذين يقولون لأقدر أن مرضوا فلا تعودوهم وإن ماتوا فلا تشهدوهم".

"ہرامت کے مجوس ہوتے ہیں اور میری امت کے مجوس وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ تقدیرکچھ نہیں ۔اگر وہ بیمار ہو جا ئیں تو ان کی کی عیادت نہ کرو۔اور اگر وہ مرجائیں تو ان کے جنازے پر حاضر نہ ہو۔"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا ۔يَكُونُ فِي أُمَّتِي أَوْ فِي هَذِهِ الأُمَّةِ مَسْخٌ، وَخَسْفٌ، وَقَذْفٌ»، وَذَلِكَ فِي أَهْلِ الْقَدَرِ

(ابن مانہ، کتاب الفتن ۔باب الخسوف ،قال الالبانی "حسن"صحیح سنن ابن ماجہ ص381/ج2)

"میری امت کے چہرے مسخ ہوں گے۔اور لوگ دھنسائے جا ئیں گے اور پتھر گریں گے اور یہ اھل القدر( جو تقدیر کا انکار کرتے ہیں ان) میں ہو گا "

(3)روافض :۔

قرون اولیٰ میں ایک فرقہ ضالہ روافض کا بھی تھا۔ لغت میں روافض کے معنی"قائد و رہنما کو چھوڑ دینے والی جماعت کو کہا جا تا ہے"جیسا کہ المنجد274میں ہے۔(12)

الرافضہ" جنگ وغیرہ میں اپنے قائد و رہنما کو چھوڑ دینے والی جماعت ج(جمع) روافض اور انہی کے بارے میں ہے ،

"لا خیر فی الروافض"الرافضہ ۔شیعوں کی ایک جماعت اور نسبت کے لیے رافضی ۔(مصباح اللغات 305)

امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ بدعت کبریٰ پر بحث کرتے ہو ئے کہتے ہیں کہ:

ثم بدعةٌ كبرى كالرفض الكامل والغلو فيه والحط على أبي بكر وعمر رضي الله عنهما والدعاء إلى ذلك: فهذا النوع لا يُحتجّ بهم ولا كرامة(میزان الاعتدال ج1 ص5)

ثم بدعةٌ كبرى كالرفض الكامل والغلو فيه والحط على أبي بكر وعمر رضي الله عنهما والدعاء إلى ذلك: فهئولاء لا يقبل حديثهم ولاكرامة(لسان المیزان ج1 ص9)

(4) معتزلہ:۔

معتزلہ بھی اسلامی قرون اولیٰ ہی کا ایک گمراہ فرقہ ہے لغت میں ہے کہ علیحدہ سفر کرنے والے اور الگ ہو جا نے کو معتزلہ کہتے ہیں ۔جیسا کہ المنجد میں ہےکہ۔

المعتزلة، .... والمُعْتَزِلَةُ: من القَدَرِيَّةِ زَعَموا أنهم اعْتَزَلوا فِئَتَيِ الضَّلالةِ عندهم: أهلَ السُّنَّةِ والخوارِجَ،(المنجد 525۔526۔)

ترجمہ: (المعتزلہ و العزال ) قدریہ کی ایک جماعت ہے جو اپنے خیال سے اہل سنت و الجماعت اور خوارج دونوں کو گمراہ سمجھ کر جدا ہو گئے تھے ۔(مصباح اللغات 550۔

(5)اھل السنہ والجماعہ :۔

امت مسلمہ (جماعت المسلمین) کے گمراہ فرقوں خوارج ،قدریہ، معتزلہ،رافضیہ کے مقابلے میں امت مسلمہ کے ناجی فرقہ نے اپناشناختی نام" اھل السنہ واالجماعہ " رکھا اور یہ نام بھی دراصل حدیث "مانا علیہ و اصحابی "سے مستنبط کیا گیا ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین تابعین تبع تابعین رضوان اللہ عنھم اجمعین کے درمیان مستعمل رہا اور تمام گمراہ فرقوں کے مقابلے میں استعمال ہو تا رہا۔ امام مسلم نے مقدمہ مسلم میں امام ابن سیرین کا قول نقل کیا ہے کہ۔

فلما وقعت الفتنة قالوا سموا لنا رجالكم فينظر إلى أهل السنة فيؤخذ حديثهم وينظر إلى أهل البدع فلا يؤخذ حديثهم

(مقدمہ مسلم ص11/ج1 السان المیزان ص7/ج1کتاب العدل ازترمذی ص336/ج2)

"جب فتنہ بپا ہو گیا تو ہم راویان حدیث کے متعلق پوچھنے لگے تب اہل سنت کی احادیث لے لی جاتیں اور اھل بدعت(مخالفین اھل سنت) کی احادیث نہ لی جاتیں ۔"

(اہل سنت کے نام کی مزید تحقیق کرنے والے امام شاطبی الاعتصام اور امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا مجموع الفتاویٰ ج3وغیرہ کا مطالعہ کریں )

آپ نے دیکھا کہ گمراہ فرقے قدریہ ،خوارج وغیرہ رکھنے سے نہیں بنے بلکہ ضروریات دین عقائد کا انکار کرنے نیا عقیدہ نکا لنے یا ساری امت کو کافر قرار دینے سے بنے جیسا کہ رافضی وغیرہ ۔جبکہ محدثین نے اس کے مقابلے میں "اہل السنہ والجما عہ"کی اصطلاح استعمال کی تاکہ امت مسلمہ کو ان گمراہ فرقوں سے ممیز کیا جا سکے۔اب حدیث کے مطابق یہی الجماعہ ہے کیونکہ جب فرقے الجماعہ سے الگ ہو گئے اور اپنے نام رکھ لیے تو باقی امت مسلمہ کو اہل السنہ والجماعہ کہا گیا ۔اور کتب اسماء الرجال اس سے بھری ہو ئی ہیں کہ فلا ں راوی اہل سنت میں سے ہے ۔فلاں راوی کا مذہب اہل سنت ہے۔آئیے چند ایسے راویوں کا مطالعہ کریں جن کو آئمہ جرح و تعدیل نے اہل السنہ والجماعہ میں شامل کیا ہے اور ان کو کبھی اہل السنہ کہا کبھی مذہب السنہ کبھی اہل السنہ کےمذہب کی وضاحت کی ہے۔

(6) اہل السنہ :۔

1۔ابن الانباری النعوی۔۔۔خطیب بغدادی کہتے ہیں ۔

كان ابن الأنباري صدوقا دينا من أهل السنة (تذکرۃ الحفاظ :842)

2۔شیخ الاسلام ابو القاسم اسماعیل بن محمد بن الفضل بن علی التیمی (کے متعلق ابو موسیٰ فرماتے ہیں )

(قال أبو موسى المديني في "معجمه" : (أبو القاسم الحافظ إمام أئمة وقته، وأستاذ علماء عصره، وقدوة أهل السنة في زمانه

(تذکرۃ الحفاظ :1278)

3۔محمد بن ناصر بن محمد بن علی عمر کے متعلق ابن الجوزی کا قول ہے۔

4۔ قال الشيخ جمال الدين ابن الجوزي كان شيخنا ثقة حافظا ضابطا من أهل السنة (تذکرۃ الحفاظ :ص1289/ج4)

5۔محمد بن اسماعیل۔۔۔ محمد بن اسماعيل وقال الخطيب كان فهما متقنا مشهورا بمذهب السنة

(تذکرۃ 605/تہذیب : 62/9)

6۔ابرا ہیم بن عبد العزیز بن الضحاک۔۔۔بعض لوگوں نے ان پر رافضی ہونے کا الزام لگا یا چنانچہ ابن حجر اس الزام کا یہ جواب دیتے ہیں ۔

قلتُ القائل الحافظ ابنحجر : وهذا ظلم بيّن، فإن هذا مذهب جماعة من أهل السنة، اعني التوقف في تفضيل أحدهما على الىخر، وإن كان الأكثرعلى تقديم عثمان، بل كان جماعة من أهل السنة يقدمون عليا على عثمان منهم سفيان الثوري و ابن خزيمة

7۔الدارقطنی ۔۔۔(امام دارقطنی کے ترجمے میں ابن طاہر کا قول )

وَقَالَ الدَّارَقُطْنِيُّ:اختلفَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ بَغْدَادَ ، فَقَالَ قَوْمٌ : عُثْمَانُ أَفضلُ ، وَقَالَ قَوْمٌ : عليٌّ أَفضلُ . فَتَحَاكَمُوا إِليَّ ، فَأَمسكتُ ، وَقُلْتُ :الإِمْسَاكُ خَيْرٌ ثُمَّ لَمْ أَرَ لِدِيْنِي السُّكُوتَ ، وَقُلْتُ لِلَّذِي اسْتَفْتَانِي : ارْجِعْ إِلَيْهِم ، وَقُلْ لَهُم : أَبُو الحَسَنِ يَقُوْلُ : عُثْمَانُ أَفضَلُ مِنْ عَلِيٍّ بِاتِّفَاقِ جَمَاعَةِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، هَذَا قَولُ أَهْلِ السُّنَّةَ ، وَهُوَ أَوَّلُ عَقْدٍ يَحلُّ فِي الرَّفْضِ . اسی طرح بہت سے ثقہ راویان حدیث کو اہل حدیث اہل ،الاثر، حنفی ،مالکی ،شافعی اور حنبلی وغیرہ بھی کہا گیا ہے ۔اگر یہ فرقہ پرستی تھی تو پھر ان فرقوں کے (مشرک )راویوں سے حدیث بھی لینا جائز نہیں ہے۔

اہل حدیث :۔

8۔احمد بن نصر ۔۔۔ قال الحاكم هو فقيه اهل الحديث في عصر نيسا بور(تذکرۃ الحفاظ : 540/2)

9۔ابو داؤد ۔۔۔(سنن ابو داؤد کے متعلق امام حاکم کا قول )

قال الحاكم أبو عبدالله: أبو داود إمام أهل الحديث في عصره بلا مدافعة (تذکرۃ الحفاظ : ص592/ج2)

10۔عبد اللہ بن محمد بن علی۔۔۔کے متعلق ہے کہ:

وقال الخطيب: كان أحد أئمة أهل الحديث

(تذکرۃ الحفاظ: ص690/ج2)

(7)اہل الاثر :۔

(11)بقی بن مخلد ۔۔۔کے متعلق ہے کہ:

وقد تعصبوا على بقي لإظهاره مذهب أهل الأثر

(تذکرۃ الحفاظ:ص630/ج2)

(8)حنفی :۔

الإمام العلامة الحافظ صاحب التصانيف البديعة أبو جعفر أحمد بن محمد بن سلامة بن سلمة الأزدي الحجري المصري الطحاوي الحنفي(تذکرۃ الحفاظ: ص809/ج3)

12۔الحسکان۔۔۔القاضی المحدث ابو القاسم عبید اللہ بن عبد اللہ بن احمد بن احمد بن محمد بن حسکان القریشی العامری النیساربوری الحنفی (تذکرۃ الحفاظ ص: 1200/ج3)

(9)مالکی :۔

13۔ابو العرب کے ترجمے میں ہے کہ:

ذكره القاضي عياض فيالفقهاء المالكية فقال : كان حافظاً لمذهب مالك (تذکرۃ الحفاظ: ص890/ج3)

(10)شافعی :۔

14۔ابن سریج ۔۔۔الإمام العلامة شيخ الإسلام القاضي أبو العباس أحمد ابن عمربن سريج البغدادي قدوة الشافعية

(تذکرۃ الحفاظ: ص811/ج3)

الطحاوی کے ترجمے میں ہے کہ:

وكان أولاً شافِعياً، يقرأ على المزني (تذکرۃ الحفاظ ص809 /ج3)

15۔الاصم کے ترجمے میں ہے کہ:

قال الحاكم حضرت الأصم يوما خرج ليؤذن للعصر فاستقبل وقال بصوت عال أنا الربيع بن سليمان أنا الشافعي ثم ضحك وضحك الناس ثم اذن........... (تذکرۃ الحفاظ: 862/3)

16۔البیہقی کے متعلق ہے کہ:

عن إمام الحرمين أبي المعالي الجويني قال : ما من فقيه شافعي إلا وللشافعي عليه منة إلا أبا بكر البيهقي ، فإن المنة له على الشافعي لتصانيفه في نصرة مذهبه(تذکرۃ الحفاظ: ص1133/ج3)

(11)حنبلی:۔

17۔ابن المقری ۔۔۔کے ترجمے میں ہے کہ:

قال أبو عبد الله بن مهدي:

" سمعت ابن المقرئ يقول : مذهبي في الأصول مذهب أحمد بن حنبل، وأبي زرعة الرازي "(تذکرۃ الحفاظ: ص975/ج3)

18۔ظاہری مذہب ابن ابی عاصم کے ترجمے میں ہے کہ:

قال أبو نعيم الحافظ: كان ظاهري المذهب وكان مذهبه القول بالظاهر وترك القياس

(تذکرۃ الحفاظ:ص341/ج3)

(12)مذہب ابن جریر:۔

19۔المعانی زکریہ بن یحییٰ بن حمید (کے متعلق خطیب کا قول )

قال الخطيب كان علي مذهب ابن جرير

(تذکرۃ الحفاظ:ص1011/ج3)

(13)ابن حزیمہ کا مذہب:۔

20۔دملج بن احمد دملج (کے ترجمے میں حاکم کا قول )

قال الحاكم: أخذ دعلج عن ابن خزيمة المصنفات. قال: وكان يفتي بمذهبه، (تذکرۃ الحفاظ:ص881/ج3)

(14)محمد ی المذھب:ابن شاہین کے ترجمےمیں ہے۔

وكان إذا ذكر له مذهب أحد يقول انا محمدي المذهب

(تذکرۃ الحفاظ:ص988)

(15)سفیان واہل الکوفہ:۔

غسل کی ایک سنت پر بحث کرتے ہو ئے امام ترمذی کہتے ہیں ۔

وهو قول سفيان الثوري وبعض أهل الكوفة .

(ترمذی واضح رہے کہ امام ترمذی کا قول مسعود صاحب نے بھی نقل کیا ہے (کتابچہ سکتے اور قراءت ص8)

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ سنن ترمذی میں حدیث نقل کرنے کے بعد فقہاء اور مختلف آئمہ کا اختلاف اور ان کا مذہب اور اس کی دلیل ذکر کرتے ہیں ۔ مثلاً غسل جمعہ میں کہتے ہیں۔

امام شافعی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس حدیث میں غسل جمعہ کے لیے حکم دینا استحباب کے لیے ہے وجوب کے لیے نہیں ۔

قال الشافعيّ ومما يدلّ على أَنّ أمْرَ النبيّ صلى الله عليه وسلم بالغسلِ يومَ الجُمعةِ أنه على الاِختيارِ لا على الوجُوبِ:

فأما غسل الجمعة فإن الدلالة عندنا أنه إنما أمر به على الاختيار.

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ"غسل جمعہ کا حکم ہمارے نزدیک استحبابی ہے"کتاب الام"سوال پیدا ہو تا ہے کہ کیا یہ تمام ثقہ راوی جن کی شناخت کے لیے اھل السنہ اور اھل الحدیث وغیرہ کی اصطلاح استعمال کی گئی ۔وہ جماعۃ المسلمین میں شامل نہیں تھے۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ مذھب اہل السنہ والجماعہ کی تاریخ و تعریف اس طرح بیان کرتے ہیں ۔

ومذهب أهل السنة والجماعة مذهب قديم معروف قبل أن يخلق الله أبا حنيفة ومالكاً والشافعي وأحمد، فإنه مذهب الصحابة الذين تلقوه عن نبيهم، ومن خالف ذلك كان مبتدعًا عند أهل السنة

لیجئے امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ " مذھب اھل السنہ والجماعہ" کو صحابہ کا وہ مذھب قرار دیتے ہیں جو ان کو ان کے نبی سے ملا تھا۔اور جو لوگ اھل السنہ والجماعہ کو فرقہ قرار دیتے ہیں اور ان کو جماعت المسلمین سے نکا ل کر ان کی مخالفت کرتے ہیں ایسے لوگ شیخ الاسلام کے نزدیک بدعتی ہیں۔

مفسر قرآن عبد اللہ بن عباس سے لے کر ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ تک مختلف آئمہ کرام الجماعہ ،جماعۃ المسلمین ،اماناعلیہ اصحابی وغیرہ سے مراد اھل السنہ والجماعہ ہی لیتے ہیں اور مسعود صاحب ان تمام اسلاف کی راہ کو چھوڑ کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر خوش ہیں ۔تواس پر صرف یہی آیت پیش کی جاتی ہے۔کہ:

وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا

(سورۃ النساء 115)

جو شخص ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور مومنین کے راستےکے علاوہ کسی اور راستے پر چلے ۔تو ہم اسے ادھر ہی جانے دیں گے ۔جس طرف جانے کے لیے اس نے رخ پھیر لیا پھر ہم اسے دوزخ میں داخل کریں گے اور وہ بہت بری جگہ ہے۔

(ترجمہ تفسیر عزیز :از مسعود احمد ص368/ج3)

مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ ناجی فرقے کے نام بھی بدلتے رہے ہیں کیونکہ اصل چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے طریقے سے تمسک ہے نہ کہ مجرونام۔۔۔!مثلاً روافض اپنے کو مومنین کہتے ہیں کیا ان کے مومنین کہنے سے وہ مومن ہو گئے؟اسی طرح قرآنی نام حزب اللہ کو آج بھی ایران نواز ایک گروہ اپنے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اس "حزب الشیطان "کو حزب اللہ نام رکھ لینے سے کو ئی فائدہ نہیں اس طرح آج اپنے ملک میں " اھل السنہ والجماعہ"نام کو بریلوی لوگ بڑے طمطراق سے کہلاتے ہیں ان کی گمراہیاں کن پر واضح نہیں اور جن کا اوڑھنا بچھونا ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے طریقے کے خلاف ہے ۔اسی طرح ایک "جماعت المسلمین رجسٹرڈ" مسعود بی ایس سی والی جو کوثر نیازی کا لونی کراچی میں مو جود ہے جبکہ دوسری جماعۃ المسلمین (گول "ۃ"والی) کیماڑی کراچی میں قائم ہے نیز دور کیوں جائیے ۔ مسعود صاحب کی "جماعت المسلمین" سے نکلے ہوئے"مرتدین "بھی آخر "جماعۃ المسلمین " ہی کے دعویدارہیں۔اب ان میں حقیقی کون سی ہے ۔یہ ان کے گھر کا معاملہ ہے۔

ہم تو نیک و بد "حضور " کو سمجھائے جاتے ہیں

(1)۔ إِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ افْتَرَقُوا عَلَى اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً يَعْنِي الأَهْوَاءَ وَإِنَّ هَذِهِ الأُمَّةَ سَتَفْتَرِقُ عَلَى ثَلاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً ، يَعْنِي الأَهْوَاءَ اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِي النَّارِ وَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ وَهِيَ الْجَمَاعَةُ فَاعْتَصِمُوا بِهَا فَاعْتَصِمُوا بِهَا " .

(2)۔ وَإِنَّ بني إسرائيل تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلاَثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً ،كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلاَّ مِلَّةً وَاحِدَةً، قَالُوا: وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي" رواه الترمذي وحسَّن الألباني إسناده .

(3)۔ إنه من يعش منكم بعدي فسيرى اختلافا كثيرا، فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين، تمسكوا بها، وعضوا عليها بالنواجذ،

(4)۔ أوصيكم بأصحابي ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم يفشو الكذب حتى يحلف الرجل ولا يستحلف ويشهد الشاهد ولا يستشهد ألا لا يخلون رجل بامرأة إلا كان ثالثهما الشيطان عليكم بالجماعة وإياكم والفرقة فإن الشيطان مع الواحد وهو من الاثنين أبعد من أراد بحبوحة الجنة فليلزم الجماعة

(5)۔ إِنّ لِي خمسة أَسْمَاءَ: أَنَا مُحمّدُ، وَأَنا أَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِي الّذِي يَمْحُو الله بِي الْكُفْرَ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الّذِي يُحْشَرُ النّاسُ عَلَى قَدَمَيّ،وَأَنَا الْعَاقِبُ؛ أي الّذي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌ ". أخرجهما البخاري ومسلم ...

(6)۔ إن كان لله خليفة في الأرض فضرب ظهرك وأخذ مالك فأطعه وإلا فمت وأنت عاض بجذل شجرة(سنن ابو داود)

(7)۔ وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ(التوبہ:122)

(8)۔ يَكُون أُمَّتِي فِرْقَتَيْنِ فَيَخْرُج مِنْ بَيْنهمَا مَارِقَة يَلِي قَتْلهمْ أَوْلَاهُمْ بِالْحَقِّ (صحیح مسلم ج1 ص342)

(9)۔ شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰ ۖ أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ۚ(سورۃ شوریٰ:13)

(10)۔ والدين الذي جاءت به الرسل كلهم هو : عبادة الله وحده لا شريك له ، كما قال : ( وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلك مِنْ رَسُول إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَه إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ(تفسیر ابن کثیر)

(11)۔ أي : القدر المشترك بينهم هو عبادة الله وحده لا شريك له ، وإن اختلفت شرائعهم ومناهجهم ، كقوله تعالى : ( لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ۚ(المائدة : 48 )

(12)۔ رافضي، الفرقة من الروافض وهم الذين تركوا قائدهم في الحرب أو سواها ومنه قولهم لا خير في الروافض الر افضة ايضا فرقة من اصحاب الشيعة والنسبة رافضي