فکر و نظر

(سطور ذیل میں ہم اپنے محترم دوست ڈاکٹر محمود الرحمٰن فیصل کی طرف سے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے نام ایک کھلا خط معمولی کانٹ چھا نٹ سے شائع کر رہے ہیں جس میں پاکستان کو درپیش سیاسی مسائل کا ایک جا مع مگر مختصر جائزہ لیا گیا ہے۔یہ ایک درد مند دل کی آواز ہے امید ہے کہ اسے اسی جذبہ سے پڑھا جا ئے گا ۔اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے ۔آمین!)

محترمہ بے نظیر بھٹو :۔ السلام علیکم !

اتفاق سے آپ کی دوسری وزارت عظمیٰ سیاست دوراں میں کچھ تیزی لا نے کا باعث بنی ہے۔ یہ حکومت بنانے میں کا میابی کا شا خسانہ ہے کہ آپ نے انتخابات کو آزادانہ منصفانہ اور شفاف قراردیا ہے ۔اس سبب سے جہاں الیکشن کمیشن فوج اور عدلیہ شکریہ کےمستحق قرار پائےہیں وہاں سب سے زیادہ خراج تحسین نگران وزیر اعظم معین قریشی کو ملنا چا ہیےجو آپ سے وزارت عظمیٰ کے بدلے میں پھولوں کا گلدستہ وصول کر کے سیدھے واشنگٹن واپس پہنچے۔وہ اس مشن کی تکمیل کا میابی سے کر چکے تھے جسے پوراکرنے کے لیے انہیں درآمد کیا گیا تھا ۔

قبل ازیں پاکستان کو امریکی نوآبادیاتی نظام (Neo.colonialism)کا حصہ سمجھا جاتا تھا اور امریکی سفیر کو یہاں وائسرائے بہادر کا درجہ حاصل تھا لیکن اب بات اس سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے اور انکل سام اپنے احکامات پر حرف بحرف عمل درآمد کرانے پر بضدہیں ۔نگران حکومت نے ورلڈ بنک اور آئی ،ایم ،ایف کی ریکوری ٹیم کا کردار اداکیا ۔معین قریشی نے ایک تحلیل کنندہ (Liquidator)کی طرح پاکستان کے عوام کا خون نچوڑکر سودکی رقم بدیشی آقاؤں کی خدمت میں پیش کردی۔امریکہ جن اقتصادی پابندیوں کے ذریعہ ایران ،لیبیا ،عراق اور سوڈان کو نیچا دکھاکر عالم اسلام کو کمزور کرنے کا سلسلہ شروع کر چکا تھا ،پاکستانی کرنسی کی قیمت کم کر کے اس نے وہی مقاصد حاصل کر لیے ۔بنیادی ضروریات زندگی کو مہنگائی کے ذریعہ عام آدمی کی دسترس سے دور کر دیا گیا۔پاکستانی باشندوں کو مقدمہ چلانے کے لیے امریکہ کے حوالے کر کے ملک کی عزت و ناموس کونیلا م کیا گیا ۔منشیات کے نام پر موت کی سزا کا آرڈنینس جاری کر کے ثابت کیا گیا کہ جو سزا امریکی شہریوں کو نہیں دی جاسکتی وہ پاکستان میں اس لیے نافذکی گئی کہ یہ غلاموں کا ملک ہے۔امریکی جنرل ہو ورکوسیاچن جیسے حساس علاقے کاودر ہ کرایا گیا ۔

نام نہاد عالمی مبصرین کی ٹیمیں بھی ایک سازش کے تحت پاکستان آئی تھیں ۔امریکی قانون ساز ادارےنے 1990ءنے "پاکستان کی امداد"کے ممبران سے یہ شرط عائد کر رکھی ہے کہ پاکستان کی اقتصادی امداد ،فوجی امداد اور تعلیم وتربیت کے پروگرام اس شرط پر جاری رکھے جا ئیں گے کہ پاکستان میں انتخابات عالمی نگرانی میں( Internationally Monitored)منعقد ہوں گے۔اور خصوصی عدالتیں ان کی راہ میں متراجم نہیں ہو ں گی۔یہی وجہ ہے کہ ان ٹیموں سے آزادانہ منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے سرٹیفکیٹ حاصل کئے گئے ۔یہ ملکی معاملا ت میں بیرونی مداخلت کی بہترین مثال تھی۔صیہونی لابی کی اس سے بھی بڑی سازش پاکستان کے ایٹمی پروگرام کوختم

(Roll back)کرنا ہے۔عالمی نظام نو(نیوورلڈآرڈر) کی کامیابی کے لیے بھارت اور اسرائیل کے تعاون سے اس فریضہ کو سر انجام دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ان حقائق کو مدنظرر کھتے ہوئے پاکستانی حکمرانوں کو چاہیے کہ خبردارہو کر ہوش کے ناخن لیں اور بیرونی تسلط سے آزادی کے لیے موثر اقدامات کریں ۔

اندرونی محاذ پر سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری کا ہے ۔نئی بھرتی اور ملازمتوں پر سالہا سال تک پابندی لگائے رکھنا کسی طرح بھی ایک محب وطن حکومت کا وطیرہ نہیں ہو سکتا ۔یہ فرعونی نظام کی علامت ہے۔ جس طرح فرعون بچوں کے قتل کا مرتکب ہوا اسی طرح موجودہ نظام میں معاشی قاتل کےذریعہ نوجوانوں کو زندہ درگور کر دیا جا تا ہے۔ آپ نے سابقہ دور میں جوادارہ ملازمت(Pla cement Bureau)تشکیل دیا تھا اس کی وساطت سے صرف پی پی کے کارکنوں کو نوکری مل سکتی تھی۔۔آپ کی مو جود ہ حکومت کے لیے اس روش کی کی اصلاح کر کے اور دیگر عوام کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک ترک کر کے انہیں روزگار مہیا کرنا ضروری ہے۔

دوسرابڑا مسئلہ شعائر اسلامی پر عمل اور نفاذ اسلام کا ہے ۔فحاشی اور عریانی کا فروغ اخلاق بافتہ مغرب کی اندھا دھند پیروی سے ہو رہا ہے ۔یہودی گماشتے عیسائی دنیا کو فحاشی کا دلدادہ بنا کر اب باقی ماندہ اقوام کو بھی اس دلدل میں گھسیٹ رہے ہیں تاکہ انہیں ناکارہ بنا کر اپنے دام فریب میں لا سکیں اور اپنے نئے عالمی نظام کو دنیا پر مسلط کر سکیں ۔اگر اس کے حل کی طرف فوری توجہ نہ دی گئی تو ایڈزکی وبا مسلم ممالک کا بھی رخ کر لے گی۔خصوصاً ذرائع ابلاغ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ضابطہ اخلاق پر سختی سے عمل کریں ۔

نفاذ شریعت(lslamisation)سے دراصل اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور اس کا حیاءمرادہے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ قرون وسطیٰ کے حکمرانوں کی نگرانی میں تیار کردہ قوانین کچھ ردوبدل کے ساتھ نافذ کر دئیے جا ئیں۔درباری ملاؤں کی تخمین وظن سے دامن بچاتے ہو ئے اسلام کے ازلی ابدی اور آفاقی اصولوں پر مبنی نظام کا قیام ضروری ہے۔ اس غرض کے لیے قائم کردہ کو نسلیں کمیٹیاں اور دیگر ادارے اجتہاد کے دروازے بند کر کے لکیرکے فقیر نہ بنیں بلکہ حقیقی اسلام سے آگاہی حاصل کریں ۔آپ کی سابقہ کا بینہ کے ایک اجلاس میں شرعی قوانین کو فرسودہ(Archaic)اور وحشیانہ (Barbaric)کہا گیا تھا جس کا نوٹس سپریم کورٹ نے بھی لیا۔ لہٰذا ضرورت اس امرکی ہے ۔کہ آئندہ مغربی پراپیگنڈہے سے متاثر ہوئے بغیر سابقہ روش کو خیر باد کہا جا ئے۔

آئین میں چند اسلامی دفعات نمائشی طور پر شامل کر دی گئی ہیں لیکن انہیں دیگر دفعات پر کوئی فوقیت نہیں دی گئی۔ وزارت قانون پر غیر اسلامی قوانین بنانے پر کو ئی قدغن نہیں ۔یہ عوام پرچھوڑدیا گیا ہے کہ وہ اگر فارغ ہوں تو اپنے وسائل خرچ کر کے ان غیر اسلامی قوانین کووفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کر سکتے ہیں ۔اگر عدالت انہیں غیر اسلامی قرار دے بھی دے تو حکومت حسب عادت سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دیتی ہے۔ سالہا سال کے بعد اگر فیصلہ ہو جا ئے تو سر کاری کا رپرداز معمولی ردو بدل کے بعد وہی قانون دوبارہ نافذ کر دیتے ہیں اور معترضین کو ایک بار پھر وفاقی شرعی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا مشورہ دیتے ہیں ۔پارلیمنٹ کے اکثر ممبران بنیادی اسلامی تعلیمات سے نابلدہوتے ہیں اور آرٹیکل 62اور63کے تقاضے پورے نہ کرتے ہوئے بھی پارلیمان میں جابیٹھتے ہیں ۔ لہٰذا قوانین وہ نہیں وزارت قانون میں بیٹھا ہوا ایک ڈرانٹس مین تیار کرتا ہے پارلیمنٹ کاکامصرف ان پر انگوٹھا لگانا ہوتا ہے۔ اتنے اہم معاملہ سے حکومت کا اغماض غفلت شعاری کے زمرہ میں آتاہےاور اس غیر ذمہ داری پر اسے معاف نہیں کیا جاسکتا ۔

سب سے بڑی مثال سود کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ ہے جس پر عمل درآمدکرنے کی بجا ئے سابقہ حکومت اپیل میں چلی گئی۔یہ فیصلہ راقم الحروف کی درخواست پر دیا گیا اور اب اس کی اپیل "وفاق پاکستان بنام ڈاکٹر الرحمٰن فیصل "سپریم کورٹ میں سماعت کی منتظرہے۔سود کے خاتمہ کے لیے آئین میں مو جوددفعات پر کار بند ہونے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

تمام علماء عامۃ الناس دینی وسیاسی جماعتوں کے متفقہ مطالبہ کے باوجود اس فیصلہ کو من و عن تسلیم نہیں کیا گیا اور نہ سپر یم کورٹ سے یہ اپیل واپس لی گئی ۔یہ سود کا وبال تھا جو سابقہ حکومت کی کشتی ڈبو گیا اب گیند آپ کی کورٹ میں ہے اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو پس پشت ڈالنا کسی طرح بھی آپ کے مفاد میں نہیں ہو گا اس ضمن میں قرآن کی سرزنش ملاحظہ ہو ۔

"اے ایمان والو اللہ سے ڈرواور اگر تم مومن ہوتو باقی ماندہ سود کو ختم کر دو۔اگر تم ایسا نہیں کرتے تو اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ"(البقرۃ :آیت 278۔279۔)

سود کی ممانعت صرف دین اسلام میں ہی نہیں بلکہ دیگر آسمانی ادیان بشمول عیسائیت و یہودیت میں بھی سود کا لین دین منع ہے۔لہٰذااس ضمن میں معذرت خواہانہ رویہ اپنانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا ۔جدیدماہرین معاشیات سود کے ظالمانہ نظام کی تباہ کاریوں سے واقف ہو چکے ہیں ۔اسی لیے لارڈکینزنے دور حاضر میں صفر شرح سود (Zero Rate of lnterest)کو مثالی قرار دیا ہے اس طرح سے سود کے خاتمہ کو اپنا آئیڈیل بنا یا ہے ۔دنیا بھر میں پائی جانے والی غربت مہنگائی ،افراط زراور معاشی ناہمواری سود کی مرہون منت ہے۔ ہر سال کی جانے والی خسارے کی سر مایہ کاری اور انڈیکیشن سود کی مرہون منت ہے اس کا خاتمہ ہو جا ئے تو پوری دنیا سکھ کا سانس لے گی۔اگر عالمی مالیاتی نظام مختلف ہے تو ہم اس کے پابند نہیں ۔ابتدا میں قربانی بھی دینا پڑے تو ایک نظر یاتی مملکت ہونے کی بناء پر پاکستان کو اس سے گریز نہیں کرنا چا ہیے۔

کشمیرکا مسئلہ انتہائی نازک معاملہ ہے۔ آپ کے انتخاب پر سب سے پہلے بھارتی وزیر اعظم نرسیما راؤ نے مبارک باد بھجواتے ہو ئے کشمیر کے بارے میں مذاکرات کی پیش کش کی جسے آپ کی جانب سے فوری طور پر قبول کر لیا گیا ۔بھارتی حکمران آپ کی حکومت سے کچھ زیادہ توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں کیونکہ ماضی کا تجربہ ان کے سامنے ہے بھارت نے ایک بڑی کا میابی شملہ معاہدہ کی صورت میں پہلے ہی حاصل کر رکھی ہے جس کی روسے کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لیے عالمی ادارے بشمول اقوام متحدہ مداخلت کرنے کے مجاز نہیں ہیں ۔

پاک فوج کا تشخص بہتر بنا نے اور امیج بحال کرنے کی جانب کافی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔1971ء کے بعد آرمی کا مورال بلند کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے۔

جنرل ضیاء کے مرشل لاء کے بعد فوج کو سیاست میں ملوث کرنے کی پوری کو شش کی گئی اور اسے مستقل سیاسی کردار دئیے جانے کی بات ہوئی۔ فوج کے ایک سر براہکو آپ نے تمغہ جمہوریت دیا آپ کی پارٹی کے پہلے دور حکومت میں سول مارشل لاء کی بدعت ڈالی گئی جس کے اثرات آمرانہ سول حکومت کی صورت میں سامنے آئے ۔جمہوریت ہنوز اس قابل نہیں ہو سکی کہ فوج کی مدد کے بغیر اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکے۔

خلیج کی جنگ کے تلخ تجربہ کے بعد اسلامی آئینی اور اخلاقی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کرپاک فوج کو ایک مرتبہ پھر امریکی کمان میں صومالیہ میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف لڑنے پر مجبور کر دیا گیا ۔ امریکی صیہونی شاطروں نے صومالیہ میں پاک فوج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ ذرائع ابلاغ کے زریعے اسے بدنام کیا اور اپنے عالمی نطام کی تو سیع اور سوڈان سمیت افریقہ کے مسلم ممالک میں اسلامی احیاء کی تحریک کو روکنے کے لیے مہرے کے طور پر استعمال کیا۔تقریباً سوفیصد مسلم آبادی والے ملک صومالیہ میں قحط زدگان کے لیے امدادی سرگرمیوں کو پس پشت ڈال کر وہاں کے سیاسی نظام میں مداخلت اور عوام کے قتل عام کا کو ئی جواز نہیں تھا ۔خود امریکہ میں صومالیہ سے فوجیں واپس بلانے کا مطالبہ زور پکڑنے کے باوجود ہمارےارباب اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔

صومالیہ میں امریکی مداخلت کے عزائم مندرجہ ذیل تھے جو اس نے بڑی حد تک حاصل کر لیے ہیں ۔

1۔اسلامی ملک صومالیہ کے حصے بخرےکرنا۔

2۔بحیرہ احمر اور بحرہند میں آبی راستوں کا کنٹرول حاصل کرنا۔

3۔صومالیہ میں خام لوہے اور یورانیم کے ذخائر پر قبضہ کرنا۔

4۔سوڈان میں مداخلت کے لیے راہ ہموار کرنا۔

5۔بھارت کو اسرائیل کے اتحادی کی حیثیت سے صومالیہ کے معاملات میں لانا

6۔پاکستان کے خلاف نفرت پیدا کرنا اور پاک فوج کو نقصان پہنچانا ۔

7۔دنیا بھر میں آئندہ فوجی مداخلت کے لیے جواز فراہم کرنا۔

8۔عیسا ئی قوتوں اور حلیف مسلمانوں کو صومالیہ کی اسلامی ریاست تباہ کرنے کے لیے استعمال کرنا۔

9۔صومالیہ کا تشخص اور اسلامی نظر یہ تباہ کرنا۔

10۔بڑی تعداد میں صومالی باشندوں کا انخلا اور ہجرت ۔

11۔عالمی اسلامی تحریک کو نقصان پہنچانا۔

ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کی اہم ذمہ داری یہ ہےآئندہ کسی بھی فوجی مہم میں فوج کو سوچےسمجھے بغیر ملوث نہ کیا جا ئے تاکہ اس کی کردار کشی کی نوبت نہ آئے ۔اگر اس صورت حال کو تبدیل نہ کیا گیا تو امریکہ اور روایت کو دہرانے سے گریز نہیں کرےگا۔جب تاج برطانیہ نے ہندی مسلمان فوجیوں سے خانہ کعبہ پرگولی چلوادی تھی ۔بوسنیاکے حالات اس امر کے زیادہ متقاضی تھے کہ افواج وہاں بھجوائی جاتیں لیکن ایسا نہ کرنا سر اسرمنافقت اور دہرے معیار (Double Standard)کی غمازی کرتا ہے۔

فلسطین کے حالیہ واقعات انتہائی تشویش کا باعث ہیں ۔یاسر عرفات کا اسرائیل سے معاہدہ کوئی معجزہ نہیں بلکہ ایک بزدلانہ اقدام ہے۔ یہ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطین کو فروخت کردینے کے مترادف ہے۔یہ معاہدہ کم اور اعلامیہ زیادہ ہے۔ اسرائیل کی شروع سے یہ کوشش تھی کہ اسے اپنے وجود کا جواز مل جائے۔ محدود پیمانے پر بلدیاتی اختیارات کے حصول کی اتنی بڑی قیمت ادا کرنے کے اہل فلسطین کبھی متحمل نہیں ہو سکتے ۔اسلامی ممالک کو یہ معاہدہ ہر گز تسلیم نہیں کرنا چا ہیے ۔خصوصاً پاکستان جس نے جلد بازی کرتے ہو ئے فلسطین کے لیے سفیر کاتقرر بھی کردیا تاکہ اسرائیلی حدودمیں سفارتخانہ کھولا جا سکے ۔امریکی دباؤ کا مظہر نظر آتا ہے۔اسرائیل کو تسلیم کرنا یااس کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات رکھنا پاکستانی حکمرانوں کے لیے ناممکن ہو گا کیونکہ ایسا کرنا نظریہ پاکستان کی نفی قبلہ اول سے غداری اور عالم اسلام پر یہودی تسلط کے مترادف ہے۔جہاں تک فلسطینی سر زمین پر یہودی قبضہ کا تعلق ہے یہ اس مکافات عمل کا حصہ ہے جس کے تحت دنیا بھر کے صیہونی یہودی ایک خطہ میں جمع ہو جا ئیں گے جہاں ان کی تباہی اور بربادی مقدر ہو چکی ہے اس حقیقت کی جانب قرآن کریم میں واضح اشارہ موجود ہے۔

"ہم نے اس کے بعد بنی اسرائیل سے کہا کہ تم زمین میں رہو سہو۔پھر جب آخرت کا وعدہ آجائے گا تو ہم تمہیں ایک جگہ جمع کر کے لے آئیں گے"(بنی اسرائیل :104)

پاکستانی سیاست میں وراثت اور تجارت کے داخلہ سے نظام حکومت جمودکا شکار ہے۔سیاستدان اس ملک کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھتے ہیں اور تجارت کرنے کے نظریہ سے سیاست میں آئے ہیں وراثت کا عنصر اس قدر مضبوط ہے کہ اگر آپ بھٹو کی بیٹی نہ ہو تیں تو کبھی پاکستان کی وزیر اعظم نہ بن سکتیں ۔یہاں لوگوں کی قدرو منزلت ان کی اہلیت کی بناپر نہیں کی جاتی ۔نااہلی کایہ حال ہے کہ صدر سے لے کر چپڑاسی تک کوئی بھی اپنی اہلیت یا میرٹ کی بنا پر اپنے عہدے تک نہیں پہنچا ۔ہمارے ہاں پائی جانے والی جمہوریت کا مغربی ایڈیشن بڑے پیمانے پر اصلاح طلب ہے۔اگر چہ آپ دختر مشرق کہلاتی ہیں لیکن آپ کی تعلیم و تربیت آکسفورڈ اور ہارورڈ جیسے سکہ بند مغربی اداروں میں ہوئی ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک کا یہ سب سے عظیم المیہ ہے کہ یہاں مغرب کی حکومت ہے۔ حکیم الامت علامہ اقبال نے فرمایاتھا۔

ہم مشرق کے مسکینوں کادل مغرب میں جااٹکاہے
واں کنٹرسب بلوری ہیں ۔یاں ایک پرانا مٹکا ہے


اب صرف مٹکے ہی نہیں بلکہ یہاں کی سیاست میں لوٹے لفافے ڈبے اور بریف کیس بھی شامل ہو چکے ہیں ۔آپ نے خود تسلیم کیا ہے کہ جمہوری نظام بجائے خود آخری منزل نہیں بلکہ حصول مقصد کی طرف ایک قدم ہے الیکشن 93میں 55فیصد عوام نے ووٹ بہ ڈال کر اس نظام سے بیزاری کا اظہار کر دیا ہے۔ چند فیصد ووٹ حاصل کرنے والے خود فیصلہ کریں کہ وہ کس جمہوری اصول کی بنیاد پر سو فیصد عوام کی نمائندگی کا حق ادا کر رہے ہیں

اور کس مینڈیٹ کی بات کرتے ہیں ۔اکثریت کی حکومت کا صول غلط ثابت ہو چکا ہے۔نیز یہ انتخابات کسی قومی معاملہ (Issue)کی بجائےشخصیات کی بنیاد پر منعقد ہوئے ۔لہٰذا یہ ثابت کرنا کہ نتائج سے معلوم ہو تا ہے کہ اسلام کوئی ایشو نہیں ہے انصاف پر مبنی نہیں ۔

بہر حال کمپیوٹر جیت گیا۔عوام ہار گئے۔اسمبلیوں میں ہندسوں کا کھیل (Game fo numbers) شروع ہوا۔کوئی بھی پارٹی تن تنہا حکومت بنانے کے قابل نہیں تھی ۔بات پھرو ہیں ہارس ٹریڈنگ تک جا پہنچی ۔لہٰذا سپورٹس مین سپرٹ ،اپوزیشن کو جائز مقام دینے مخالفت برائے مخالفت نہ کرنے اقتدار کی میوزیکل چیئر کا کھیل جاری نہ رکھنے اکھاڑ پچھاڑ نہ کرنے کی بات اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔

موجودہ نظام انتخابات اور اس میں ہو نے والے اسراف و تبذیر کے شیطانی عمل کو وفاقی شرعی عدالت غیر اسلامی قراردےچکی ہے لیکن حکومت حسب عادت اپیل چلی گئی اور اب تک اس فرسودہ نظام کو باقی رکھے ہوئے ہے۔ الیکشن کمیشن کے اختیارات محدود ہیں آئینی تقاضے پورے کرنے کے لیے مناسب قانون سازی نہیں کی گئی ۔امیدوار کی تعلیمی اہلیت اور دیانتداری کا اعلیٰ معیار نہیں پرکھا جا تا ۔ ووٹر کی صرف عمر کی حد مقرر کرنے کی بجا ئے اس کی ذہنی استعداد اور اخلا قی حالت کو جانچنا بہت ضروری ہے۔امیدوار کے علاوہ ووٹر کا معیار بھی مقرر کیا جا ئے ۔مزارعت ،برادری اور سرداری نظام کے اثرات کو ختم کیا جا ئے دھن دھونس اور دھاندلی کے امکانات کا سد باب کیا جا ئے۔انتخابی اخراجات امیدوار کے ذمہ نہ ہوں بلکہ اس کا تعارف ذرائع ابلا غ کے ذریعہ الیکشن کمیشن کے نظام پر کرایا جا ئے۔1

دور رس انتخابی اصلاحات کے بغیر موجودہ نظام "جمہوری "کہلانے کا مستحق نہیں ۔سیاسی نظام ہی نہیں بلکہ سماجی اور اقتصادی میدانوں میں بھی اسلامی بنیادوں پر انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔

عارضی حد بندیوں کےٹوٹنے اور نوع انسانیت کے قریب آجانے کی بناء پر آپ نے جس عالمی گاؤں (Globl village)اور نئے عالمی نظام کا ذکر کیا ہے وہ ظالمانہ صیہونی نظام میں جکڑا ہوا ہے ۔ تیسری دنیا کے عوام کو اس میں "پینڈو"سے زیادہ اہمیت حاصل نہیں ہے۔بلکہ اقوام متحدہ کا روبہ زوال ادارہ بھی یہودی عزائم کی تکمیل کے لیے بنایا گیا ہے اور اسی کو وہ اپنی عالمی حکومت (World Government)کا ذریعہ سمجھتے ہیں اس ادارہ میں مسلمان ممالک کی واضح اکثریت کے باوجود انہیں ویٹوکا حق حاصل نہیں ہے۔ انسانی بنیادی حقوق کے اپنے ہی چار ٹر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس نے متعدد ممالک پر اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جن کے نقصان دہ اور مہلک اثرات بے گناہ عوام کو برداشت کرنا پڑتے ہیں ۔اس تنا ظر میں دنیا بھر کی مظلوم اقوام خصوصاً اسلامی ممالک کو اپنے لیے علیحدہ لا ئحہ عمل اور اپنے الگ عالمی ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کرہ ارض کی یہ عظیم بستی واقعی انسانوں کے بسنے کے قابل بن سکے ۔اس ضمن میں پاکستان کیا کردار ادا کرتا ہے؟ اس کا انتظار ہے۔

آخر میں آپ کے اس عندیہ کی جانب آتا ہوں جس میں امریکہ سے تعلقات کی بحالی کی خواہش ظاہر کی گئی ہے۔امریکی حکمرانوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ کسی اسلامی ملک سے ہمدردانہ رویہ رکھیں گے قطعاً عبث ہے روس کے زوال کے بعد اب یکطرفہ ہو کر طاقت کا توازن کھوچکی ہے طاقت کا یہ توازن اسلامی دنیا اپنے اتحاد کے ذریعہ قائم کر سکتی ہے بشرطیکہ اس مقصد کے حصول کے لیے خلوص دل سے کام کیا جا ئے۔

نیا معاہدہ عمرانی


پاکستان کی سوہنی دھرتی عرصہ دراز تک سر زمین بے آئین رہی ہے۔ اسے جو آئین عطا ہوئے ان میں اکثر آمروں کے تیار کردہ تھے اور آمروں نے ہی انہیں پرزے پرزے کر کے ردی کی ٹوکری کی نذر کردیا پھر برسوں تک معطل کئے رکھا ۔نظر پاکستان کی پاسداری اس مملکت کے آئین یا اس میں کی گئی ترامیم کا بنیادی تقاضا ہونا چاہیے ۔اس کے علی الرغم صورت حال یہ ہے کہ غیر اسلامی دفعات جوں کی توں بحال ہیں اور ان کے سائے میں غیر ملکی آقاؤں کے عطا کردہ پچھلی صدی کے قوانین کی عملداری بھی اب تک قائم ہے عدالتی ضابطوں مسلم شخصی قوانین آئین کی غیر اسلامی دفعات کو شرعی عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر رکھا گیا ہے (دفعہ 203۔بی) آئین کے دیباچہ میں اقرار کیا گیا ہے کہ پوری کا ئنات پر اقتداراعلیٰ صرف اللہ تعا لیٰ کی ذات کو حاصل ہے اور اس کی عطا کردہ حدود میں پاکستان کے عوام اس اختیار کو ایک مقدس امانت کے طور پر استعمال کریں گے ۔لیکن آگے چل کر خالص مغربی پارلیمانی نظام اور لا دین یا سیکولرنظریات کو تحفظ دے دیا گیا ہے اسی طرح شرک فی الاطاعت کا راستہ کھول کر اسلام کے بنیادی نظر یہ توحید پر کاری ضرب لگا ئی گئی جس سے وطن عزیز کے اساسی نظریہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔

اللہ کی وحدانیت کا نظریہ کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ اس حقیقت کو نوع انسانیت تک پہنچانے اور اس کا اعتراف کرانے کے لیے تمام انبیاء معبوث ہو ئے ۔توحید کے اثبات اور اس کے تقاضوں کی عملدرای کا نام اسلام ہے بقول اقبال ۔

یہی دین محکم یہی فتح باب
کہ دنیا میں تو حید ہو بے حجاب


اللہ تعالیٰ نے انسانوں کا خالق ہونے کے ناطے ان کی ضروریات ،رجحانات ،عیوب اور محاسن کو مد نظر رکھتے ہو ئے ایسے قوانین اور احکامات نازل فرمائے ہیں جو قیامت تک کے لیے غیر مبدل ہیں اللہ کی ذات کو سب سے بڑی قانون ساز ہستی تسلیم کرنا ضروری ہے ۔قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس امر کا اعلان کیا گیا ہے کہ ارادہ اختیار اور حکم صرف اللہ کا چل سکتا ہے۔نیز "کیا وہ جاہلیت کا قانون چاہتے ہیں ؟اللہ کے قانون سے بہتر کون ساقانون ہو سکتا ہے۔(المائدہ: آیت 50)

"جو لو گ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں وہ کا فر ظالم اور فاسق ہیں "(المائدہ: آیات :44۔45۔47)

لہٰذا پارلیمنٹ کو صرف غیر منصوص امور میں محدود قانون سازی کی اجازت دی جا سکتی ہے پارلیمنٹ کے ممبران انسانی کمزوریوں سے مجبور ہو کر اپنے ذہنی تحفظات اور مفادات سامنے رکھ کر قانون سازی کرتے ہیں اور اکثر اوقات حکمرانوں کے اشارہ ابرو کے مطابق عمل کرتے ہیں ۔قانون سازی کے نازک مرحلہ میں ان سے غلطی اور خطا کے ارتکاب کا امکان رہتا ہے ۔پارلیمنٹ کی بھاری اکثریت کتاب وسنت کی تعلیمات سے نابلد ہے اور اعلیٰ تعلیمی معیار اور اخلاقی اہلیت کے پیمانوں پر پورا نہیں اترتی ۔بہت سے ارکان بلدیاتی اداروں سے آئے ہیں اور قانون سازی کے اصولوں پر توجہ دینے کی بجائے سڑکیں بنوانے ،نالیاں کھدوانے اور بجلی کے کھمبے لگوانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں ۔

پاکستان کی قانون ساز اسمبلیوں میں قانون سازی کے دوران قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کرنے کا کو ئی طریق کار موجود نہیں ہے اس ضمن میں اسلامی نظریاتی کونسل کی حیثیت صرف نمائشی ہے اس کی تحقیق پر مبنی رپورٹوں کو نہ کبھی قابل التفات جانا گیا اور نہ کبھی انہیں کوئی اہمیت دی گئی ۔ پارلیمنٹ میں غیر مسلم ارکان اگرچہ تعداد میں کم ہیں لیکن مسلم ارکان کی تفریق کا فائدہ اٹھاتے ہو ئے قانون سازی پر فیصلہ کن انداز میں انداز ہو سکتے ہیں بلکہ قومی اسمبلی بعض اقلیتی ارکان کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ انھوں نے حلف اٹھاتے وقت "نظریہ پاکستان کے تحفظ" کی عبارت پڑھنے سے انکار کردیا ۔متعدد حکمران اپنے معنوی آقاؤں کو خوش کرنے کی خاطر اپنے آپ کو سیکولر ثابت کرنے کے لیے اسلامی قوانین کو وحشیانہ قرار دینے اور اپنے بنیاد پرست مسلمان نہ ہو نے کا اقرار کرچکے ہیں ۔

کئی سال کی ردو قدح کے بعد جو شریعت بل پاس کیا گیا اس میں سود کو تحفظ دینے کے علاوہ فرسودہ سیاسی نظام کو قرآن و سنت کی بالادستی سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ۔قراردادمقاصد اور دیگر اسلامی دفعات کو محض اشک شوئی کے لیے آئین میں شامل کیا گیا ۔بعد میں معلوم ہوا کہ ان دفعات کو دیگر آئین پر کو ئی فوقیت حاصل نہیں ہے چنانچہ نفاذ اسلام کی راہ مزید دشوار ہو گئی ۔دفعہ 227میں اسلام کے نام پر فرقہ سازی اور اپنے اپنے شخصی قوانین پر عمل پیرا ہونے کی کھلی چھٹی دے کر اس حکم خداوندی سے روگردانی کی گئی ہے۔

"جن لوگوں نے دین کو فرقوں میں تقسیم کردیا اور گروہوں میں بٹ گئے ان سے آپ کا کوئی تعلق نہیں "(الانعام :آیت 159)

متعدد دفعات میں قوانین کو اسلامی سانچہ میں ڈھالنے کا جو دعویٰ کیا گیا ہےوہ دفعہ 268اور 203۔بی) میں بڑی حد تک واپس لے لیا گیا ہے۔دفعہ 251میں اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے کے لیے پندرہ سال کا وعدہ کیا گیا ۔یہ مدت اگست1988ء میں ختم ہو گئی لیکن ہنوز اس پر عمل در آمد نہیں ہوا ۔اس پر مستزادیہ کہ دفعہ 254میں کو ئی کام متعینہ مدت میں تکمیل پذیر نہ ہو نے پر اس مدت کے جاری رکھنے پر اصرار قرآن کے اس حکم کی خلاف ورزی ہے جس میں وعدہ کی پاسداری اور جوابدہی پر زور دیا گیا ہے۔متعدد دفعات میں غاصب حکمرانوں کے افعال ضوابط اور مارشل لاء دور کے کالے قوانین کو تحفظ دیا گیا ہے۔

1953ء کے پنجاب کے فسادات کے ضمن میں پیش کی گئی جسٹس منیر رپورٹ میں نفاذ اسلام کے بلند بانگ دعوؤں اور بے حقیقت وعدوں کے حوالہ سے قرارداد مقاصد پر تنقید کرتے ہو ئے کہا گیا ہے کہ اس میں ابہام پا یا جاتا ہے اس میں مقتدراعلیٰ اور جمہوریت کے الفاظ غلط طور پر استعمال کئے گئے ہیں۔کیونکہ ایک اسلامی ریاست کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ قرآن و سنت کے کسی قانون کو منسوخ یا تبدیل کردے اب یہ قراردادآئین کا باقاعدہ حصہ ہے لہٰذا ضرورت اس امرکی ہے کہ ان ابہامات کو دور کیا جا ئے اور آئین میں ایسی ترامیم نہ کی جائیں جن سے یہ مزید تضادات کا مجموعہ بن جا ئے مغرب کی اندھی تقلید کی بناء پر اس ملک کو مستحکم سیاسی آئینی اور قانونی نظام نصیب نہیں ہو سکا۔جس قوم کے پاس قرآن کی صورت میں ایک مکمل اور تضادات سے پاک آئین موجود ہواسے ادھر ادھرجھانکنے کی حاجت نہیں رہتی ۔

برطانیہ کا آئین میگنا کار ٹاغیر تحریری صورت میں ہو تے ہو ئے بھی اپنی عملداری منواسکتا ہے تو قرآن کریم اس سے کہیں اعلیٰ وارفع دستاویز ہو کر پاکستان کا آئین کیوں نہیں ہوسکتا ۔

توھمی دانی کہ آئین تو چیست؟
زیر گردوں سر تمکین تو چیست؟
آں کتاب زندہ قرآن حکیم
حکمت اولا یزال است و قدیم
(اقبال)


(کیا تمھیں معلوم ہے کہ تمھارا آئین کون ساہے اور آسمان تلے تمھاری تمکنت کا راز کیا ہے؟وہی زندہ کتاب یعنی قرآن حکیم۔۔۔۔جس کی حکمت لازوال اورقدیم سے ثابت شدہ ہے)

صرف آئین پر ہی موقوف نہیں بلکہ بہت سے ایسے قوانین سالہا سال سے نافذ ہیں جو پاکستان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں اور جن میں اصلاح کی توفیق پارلیمنٹ کو نہیں ہو سکی ۔خصوصاً جو قوانین اسلام کے نام پر نافذ کئے گئے ہیں اسلام سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ۔صلوٰۃ اور زکوٰۃ کا قیام اسلام حکمت کے اولین فرائض میں شامل ہے لیکن پاکستان میں نظام زکوۃ کا مثلہ کر کے نافذ کیا گیا اموال باطنہ پر زکوۃ کاٹ لی گئی ۔تیس ہزار روپے نصاب رکھنے کی بجا ئے تین ہزار روپے پر ایک سال گزارنےسے پہلے بینکوں میں زکوۃوضع کر لی گئی بعض فرقوں کو زکوۃ سے مستثنیٰ قراردے دیاگیا۔امانتوں ،قرضوں اور سود پر بھی زکوۃ کاٹ لی گئی زکوۃ کے نظام کی مو جود گی کے باوجود اس کے مترادف بے شمار سیکولر ٹیکس بشمول انکم ٹیکس اورویلتھ ٹیکس نافذ رہے ۔اسی طرح مسلم عائلی قوانی کئی عشروں سے اسلام کا منہ چڑا رہے ہیں ۔اسلام نے مردوں کو ایک سے زائد شادیوں کی اجازت دی ہے۔اس کے علی الرغم عائلی قوانی نے پہلی بیوی اور ثالثی کونسل سے اجازت لینا ضروری قراردے کر خلاف ورزی پر پانچ ہزار روپے جرمانہ اور ایک سال قید کی سزاکا مستوجب ٹھہرایاہے چنانچہ شادی کے جائز راستہ کو مشکل بنا کر ناجائز جنسی تعلق کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔اور اس طرح فحاشی اور بے راہروی کو مزید فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے بارہا اس قانون کی منسوخی کی سفارش کی مگر بے سود ۔وزارت قانون نے 1980ء میں اپنے ایک آرڈرمیں ان قوانین کے بارے میں اپنی را ئے ان الفاظ میں ظاہر کی۔

"مسلم عائلی قوانین کا آرڈیننس1961ءقطعی طور پر غیر اسلامی ہے یہ قرآن وسنت کے خلاف ہے اس میں ارتدادکی حد تک قرآنی قانون میں ترمیم کی جراءت کی گئی ہے اس کا باقی رکھنا ایک الزام ہے ۔یہ ایک دھبہ ہے سیاہ دھبہ اسلام کے روشن چہرے پر اور ہمارے اسلامی ملک کے چہرے پر ایسے قانون بلکہ اس کے نام کو بھی باقی نہیں رہنا چا ہیے ۔ہمیں چاہیے کہ اس قانون کو یکسر منسوخ کر کے اس دھبے کو قطعی طورپر صاف کردیں "

لیکن افسوس کہ عائلی قانون کا یہ بدنما داغ ابھی تک موجود ہے اور اس کی منسوخی کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔استعماری دور کے یادگار قوانین اور ضابطوں کی بھر مارہے بنی اسرائیل کی طرح ہماری قوم بھی اپنے ہاتھ سے سامری کا بچھڑا بنا کر اس کی پو جا کرتی ہے۔انصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے نہ کہ پرپیچ الفاظ اور ضابطوں کی اندھی تقلید ہم اپنے ہاتھ سے قانون بناتے ہیں اور پھر اس کی پوجا شروع کر دیتے ہیں اسلام کا نظام قانون جج کو لکیر کا فقیر نہیں بناتا ۔ بلکہ اسے وسیع اختیارات دے کر قیام انصاف کے بہترمواقع فراہم کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ شرعی قوانین زیادہ ترججوں کے وضع کردہ ہیں لہٰذا جس قدر جلد ہو سکے دور غلامی کی یادگار تمام قوانین کو منسوخ کردیا جا ئے ۔ اسلامی قانون کی جگہ لے کر بہتر انصاف فراہم کر سکتا ہے۔

مفکر پاکستان علامہ اقبال کی اسلام کے احیاء اور غلبہ سے وابستگی کسی تعارف کی محتاج نہیں بانی پاکستان محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اہل پاکستان کے لیے جو معاہدہ عمرانی تجویز کیا ہے وہ اقبال کے افکار اور نظریات سے مختلف نہیں ۔ان کے الفاظ ہیں ۔

"اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز ہمیشہ پیش نظر رہنا چا ہیے ۔کہ اس میں اطاعت اور وفا کشی کا مرجع خداکی ذات ہے جس کی تکمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔

اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہےنہ پارلیمان کی۔نہ کسی شخص یاادارے کی۔ قرآن مجید کے احکام ہی ریاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدودمتعین کر سکتے ہیں اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میں قرآنی احکام اور اصول کی حکمرانی ہے جس کے لیے لا محالہ آپ کو الگ خطہ زمین ضرور چاہیے "(1941ء:عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد دکن )

لاالہ اللہ کا اقرار سب سے بڑا معاہدہ عمرانی ہے جو مقتدراعلیٰ اور انسانوں کے درمیان طے پاتا ہے ۔اس کے نتیجہ میں تیار ہونے والے ضابطہ حیات کو اسلام کہتے ہیں ۔ یہ اقرار اللہ تعالیٰ نے انسانی جبلت میں شامل کردیا ہے اور نوع انسانی کی دنیا میں آمد سے قبل ارواح سے توحید باری کا حلف اٹھو ایا گیا تھا ۔اس معاہدہ عمرانی کی مو جودگی میں کسی نئے معاہدہ کی ضرورت کم از کم ایک اسلامی ریاست کو درپیش نہیں ہو نی چا ہیے ۔اسی معاہدہ عمرانی کے نفاذ کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا تھا بقول قائد :

"ہم نے پاکستان کا مطالبہ صرف ایک خطہ زمین حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں ۔"(13جنوری1948ء:اسلامیہ کالج پشاور )

" پاکستان کا قیام جس کے لیے ہم گزشتہ دس سال سے مسلسل کوشش کر رہے تھے اب خدا کے فضل سے ایک حقیقت ثابتہ بن کر سامنے آچکا ہے۔ لیکن ہمارے لیے اس آزاد مملکت کا قیام مقصود بالذات نہیں تھا بلکہ ایک عظیم مقصد کے حصول کا ذریعہ تھا تاکہ ہمیں ایک ایسی مملکت مل جا ئے جس میں ہم آزادانسانوں کی طرح رہ سکیں ۔اور سانس لے سکیں ۔اور جہاں اسلام کے عدل عمرانی کے اصول آزادانہ طور پر روبہ عمل لائے جاسکیں۔"(11۔اکتوبر 1947ء ۔خالق دیناہال ،کراچی)

"مسلمان پاکستان کا مطالبہ اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اس میں اپنے ضابطہ حیات ،ثقافتی رویات اور اسلامی قوانین کے مطابق زندگی بسر کر سکیں "(21نومبر1948ء،پشاور )

"میں تو یہ سمجھ ہی نہیں سکا کہ لوگوں کو اس استفسار کی ضرورت کیوں پڑرہی ہے کہ پاکستان کا آئین اسلامی ہو گا یا نہیں ؟اسلامی اصول تو ایسے ہیں جن کی نظیر دنیا میں کو ئی پیش نہیں کرسکتا ۔یہ اصول آج بھی اسی طرح کار آمد ہیں جس طرح آج سے تیرہ سو سال پہلے تھے ۔(25جنوری 1945ء،سدھ بار)

"مغرب کے معاشی نظام نے نوع انسانی کے لیے لاینحل مسائل پیدا کر دئیے ہیں اس نظام کی روسے ہم اپنا نصب العین یعنی عوام کی خوش حالی اور اطمینان کبھی حاصل نہیں کر سکتے ۔لہٰذا ہمیں اپنا راستہ آپ تراشنا چاہیے اور دنیا کے سامنے وہ نظام پیش کرنا چاہیے جو اسلام کے نوع انسانی کی مساوات اور عدل عمرانی کے تصور پر مبنی ہو۔ صرف یہی طریقہ ہے جس سے ہم اس فریضہ سے عہدہ براء ہو سکیں گے جو ہم پر مسلمان ہونے کی حیثیت سے عائد ہوتا ہے ۔ہم دنیا کو وہ پیغام دے سکیں گے جو اسے تباہیوں سے بچالے اور نوع انسانی کی بہبود ومسرت اور خوشحالی کا ضامن ہو سکے۔یہ سب کچھ کسی اور نظام سے نہیں ہو سکتا "(یکم جولائی 1948ء ،اسٹیٹ بنک ،کراچی)

محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کے بیانات سے مترشح ہوتا ہے کہ وہ آئین کی تشکیل اور ضمنی قانون سازی کے لیے اسلامی اصولوں کو کافی سمجھتے تھے۔ان کی موجود گی میں کسی نئے معاہدہ عمرانی کی نہیں بلکہ عدل عمرانی (سوشل جسٹس )کی ضرورت ہے۔ جس کی کمی کی وجہ سے موجودہ سیاسی نظام بحران کا شکار ہے۔نئے معاہدہ عمرانی (نیو سوشل کنٹریکٹ) کا نعرہ گہرے تجزیہ اور بحث و تمغیص کا محتاج ہے نئے عمرانی معاہدہ کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب کو ئی نئی مملکت وجود میں آئے ۔ریاست کے قیام اداروں کی تشکیل اور بنیادی حقوق کے معاملات تصیفہ طلب ہوں ۔عوام اور حکمرانوں کے حقوق و فرائض اور اختیار کا تعین " معاہدہ عمرانی"کہلاتا ہے۔ یورپ میں سول وارکے بعد نئے عمرانی معاہدہ کی تشکیل کی ضرورت پیش آئی تھی۔ چنانچہ انقلاب فرانس سے قبل ہی سیاسی مفکرین نے نئےریاستی نظام کے خدوخال وضع کرنے شروع کر دئیے تھے۔ ہابز بینتھم جان لاک روسواور ٹی ایچ گرین کے نام ماضی قریب کے مفکرین میں شامل ہیں ۔انھوں نے ریاستی اداروں کی تشکیل کے لیے نظریاتی عمارت کی تعمیر ارسطو افلاطون اور سقراط کی رکھی ہوئی بنیادوں پر شروع کی۔ شاطرانہ سیاست کے ماہرین میں مکیاولی کا نام آتا ہے ہیگل کے فلسفہ کے بعد مارکس کے نظریات نے انقلاب روس کی بنیاد رکھی۔ اس تناظر میں ہمارے ہاں سیاسی نظام کو کو ئی بڑی تبدیلی یاہمہ گیر انقلاب برپا نہیں ہوا جس کی بنیاد پر ایک نئے معاہدہ عمرانی کی حاجت ہو۔ آٹھویں ترمیم سے صدر کے اختیارات میں کمی یا اضلاع میں گورنروں کے تقرر کے لیے نیا عمرانی معاہدہ در کار نہیں ۔بلکہ اسے بجا طور پر "اقتدارکی جنگ "کا نام دیا جا سکتا ہے۔

اس ضمن میں جو سب سے بڑا تیر چلایا جا رہا ہے وہ ہرضلع میں گورنر کے تقررکا معاملہ ہے اس طرح پاکستان بھر کے تمام اضلاع کے لیے 80گورنر درکارہوں گے۔ ایک غریب ملک جو حکمرانوں کے اللوں تللوں کی وجہ سے پہلے ہی دیوالیہ ہو چکا ہے اتنے گورنروں کا بوجھ کیسے برداشت کر سکے گا ۔جہاں تک اختیارات کی تقسیم اور عدم مرکزیت کا سوال ہے تو وہ پہلے سے موجودہے ۔بلدیاتی ادارے ہیں ضلع کونسل کے چیئرمین ہیں پھر صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے ممبران اور سینٹر حضرات ہیں جو اپنی اپنی جگہ پر اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ پھر جہاں علاقائی اور لسانی تعصب اپنے عروج سپر ہو یہ تقسیم در تقسیم ملکی استحکام کی بجا ئے انتشار کا سبب بن سکتی ہے۔کنفیڈریشن کا نعرہ لگانے والوں میں خود محترمہ کے ایک ٹیلنٹڈانکل بھی شامل ہیں ۔اس اسکیم سے صرف بے روز گاری سیاسی کارکنوں کوگورنر بننے کا موقع فراہم ہو سکے گا۔

اس طرح بلدیاتی اداروں ضلعی انتظامیہ پارلیمنٹ،سینٹ ،وزارت عظمیٰ اور صدارت ،غرض تمام اداروں پر ایک پارٹی کا تلسط ہو گا ۔لہٰذا محترمہ کو اپنے والد کی طرح ایک مطلق العنان حکمران بننے کا موقع فراہم ہو سکے گا ہمیشہ ایک پارٹی کی حکومت یامطلق العنانی کی خواہش کم از کم پارلیمانی جمہوریت میں زیب نہیں دیتی ۔لہٰذا سوشل کنٹریکٹ کے نعرہ کا تجزیہ اس پہلو سے کیا جا نا ضروری ہے۔آیا جس کا صدمہ ابھی عوام کے ذہنوں سے محونہیں ہوا ۔اس کی تاریخ میں بڑے بڑےپردہ نشینوں کے نام آتے ہیں ۔بہتر ہو گا کہ نیو سوشل کنٹریکٹ کے نام سے ایک اور پنڈوراباکس کھولنے سے گریز کیا جا ئے۔

علاقائیت اور مذہبی تعصب کے بارے میں قائد کا نکتہ نظر ملحوظ خاطر رہے۔

"میں چاہتا ہوں کہ مسلمان صوبائی مرض کے اس تعصب کو دل سے دور کریں یہ امر اس برصغیر کے مسلمانوں کے لیے لعنت ہے کہ ان کا ذہن ابھی تک سندھی ،پنجابی ،پٹھان ،اور دھلومی کے تنگ دائروں میں گھوم رہا ہے۔"(26جنوری1948ء،خطبہ عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم )

"اسلام نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے اور میرا خیال ہے کہ آپ سب اس بات پر مجھ سے متفق ہوں گے۔ ہم خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہوں ۔آخر الامر مسلمان ہیں ۔ لہٰذا اگر آپ ایک ملت بننا چاہتے ہیں تو خدا کے لیے صوبہ جاتی تفریق کو خیر باد کہئے ۔تفریق اور مذہبی فرقہ بندیاں شعیہ سنی وغیرہ لعنت ہیں۔"

(21مارچ 1948ءجلسہ عام ڈھاکہ )

پاکستان میں شامل انتظامی اکا یوں میں دوری پیدا کرنے کی بجائے انہیں مستحکم بنانااس لیے لازم ہے کہ آئین کے دیباچہ میں وفاق کو مضبوط کرنے کے لیے نہ صرف پاکستان کے علاقوں بلکہ ان خطوں کو بھی جو پاکستان کا حصہ نہیں ہیں کو پاکستان میں شامل کرنے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔اگرچہ اس نکتہ پرکبھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا،لیکن در حقیقت یہ ایک عظیم فریضہ ہے جس سے اب تک روگرادانی کی گئی ۔کشمیر جوناگڑھ اور حیدار آباد دکن کی غلامی اسی غفلت کا نتیجہ ہے۔ دیگر مسلم ریاستوں اور علاقوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کے ذریعہ یاکسی اور صورت میں ایک وحدت میں متحدہوجائیں ۔خلافت اسلامیہ یا ایک عظیم تراسلامی حکومت کا قیام امت مسلمہ کا دینی فریضہ ہے جس سے گریز کی بنا پر مسلمانوں کا شیراز ہ بکھرا ہوا ہے پاکستان اس ذمہ داری سے بخوبی عہدہ براء ہونے کی صلاحیت رکھتا ہےاس منزل کی جانب پہلے قدم کے طور پر مسلمانوں کی اپنی اقوام متحدہ قائم ہو جا ئے تو عالم اسلام دشمنوں کی سازشوں اور صیہونی طاقتوں کی بلیک میلنگ سے محفوظ ہو سکتا ہے۔

وطنیت کا بت عالم اسلام کے اتحاد میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ چھوٹے چھوٹے مسلم ممالک قومی ریاستوں کی صورت میں بٹے ہوئے ہیں ابھی تک دنیا میں صحیح معنوں میں ایک اسلامی ریاست وجود میں نہیں آسکی ۔اسلامی ریاست کے قیام کے لیے قومی ریاستوں کا خاتمہ اولین تقاضا ہے۔ اسلام کے معاہدہ عمرانی کا یہی مطالبہ ہے لیکن اقتدار کے پجاریوں اور استعمار کے حواریوں نے عالم اسلام کی بند ربانٹ کر رکھی ہے ۔جبکہ کچھ علاقے دشمنوں کے غاصبانہ قبضے میں ہیں جو وہاں ہر ممکن ظلم وجوروستم جاری رکھے ہو ئے ہیں ۔

اللہ تعا لیٰ کی تو حید کے معاہدہ سے گریز کی بنا پر مسلم اور دیگر اقوام روبہ زوال ہیں انہیں ہوش میں لا نے کے لیے مشیت خداوندی کی جانب سے ارضی اور سمادی حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں ۔لیکن عبرت حاصل کرنے والوں کی کمی ہے اس حوالہ سے اگر روس اور مشرقی یورپ کی شکست وریخت ،بھارت کے تباہ کن زلزلہ ،امریکی آتشزدگی (کیلیفورنیا فائرز) اور پاکستان کے پارلیمنٹ ہاؤس کی تباہی کا تجزیہ کیا جا ئے تو عبرت پکڑنے والوں کے لیے ان واقعات میں بڑے اسباق پنہاں ہیں ۔خصوصاً بھارت کو اہل کشمیر کا قتل عام حضرت بل کی مسجد کا محاصرہ اور بابری مسجد کا انہدام بڑی سے بڑی سزا کا مستق بنا چکا ہے اور بعید نہیں کہ پورا بھارت ٹکڑوں میں بٹ جائے۔ وقت کی پکار یہ ہے کہ تاریخ کے اس نازک موڑ پر رہنمایان قوم اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے اور افتراق وانتشار سے بچتے ہوئے ملت کی قیادت کریں۔اقتدارکے بے وقعت کھیل سے دامن بچا کر اہل پاکستان کو غفلت سے بیدار کریں اور امت کو دشمنوں کے چنگل سے چھڑانے کے لیے جہاد کی تیاری کریں۔اگر اس موقع پر قوم کو مخلص قیادت فراہم نہ ہو ئی تو تاریخ کا بے رحم دھارا کسی کا لحاظ نہیں کرے گا ۔آج روح اقبال بندہ مومن سے فریاد کناں ہے۔

لاپھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی!
ہاتھ آجائے مجھے میرا مقام اے ساقی!
تین سوسال سے ہیں ہند کے میخانے بند
اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی!

حاشیہ

1۔مذکورہ اصلاحات کی تجویز اس مفروضہ پر مبنی ہے کہ ملک میں مغربی جمہوری نظام تو موجود ہے اور اسی سے "اسلام "کی طرف پیش قدمی کا طریق کار اختیار کر لیا جائے جو مروجہ لا دینی نظاموں میں بتدریج اسلام کی بعض اخلاقی تعلیمات کی پیوند کاری کی صورت ہو۔ لیکن یہ معذرت خواہانہ نکتہ نظر کچھ اسلام پسندوں کی خواہش تو ضرور ہو سکتا ہے تاہم اس طرح سر مایہ دارانہ معیشت اور قومیت کا دیوئے استبدادہی آزادی کی نیلم پری کے روپ میں رقص کرتا رہے گا کوا مور بننے سے تو رہا۔