نوجوانوں کی ذمہ داریاں تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ،بعثت عامہ ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا بنا کر بھیجے گئے۔آپ کا الٰہ رب العالمین،کتاب ذکرللعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود رحمۃ اللعالمین ہیں۔

لاکھ ستارے ہر طرف،ظلمت شب جہاں جہاں
اک طلوع آفتاب صلی اللہ علیہ وسلم دشت وچمن سحر سحر


آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ کہ اس میں تار یخیت بھی ہے۔کاملیت وجامعیت اور عملیت بھی!(خطبات مدراس) اور یہ کل انسانیت کو محیط ہے۔

اس عالم انسانیت میں سب سے اہم نوجوان ہیں کیونکہ بچے احکام شریعت کے مکلف نہیں۔بزرگ بالعموم جرات واقدام کی بجائے مصلحت کو شی کو اپناتے ہیں۔ایسے میں صرف ایک طبقہ۔۔۔نوجوان۔۔۔ہی رہ جاتا ہے۔جو انسانیت کا نجات دہندہ،دکھ ہاروں کی امید،مظلوموں کا سہارا اور بھٹکے ہوئے انسانوں کے لئے قندیل رہبانی ہے۔ایک مسلم نوجوان کو جو مسائل درپیش ہوں ان مسائل کے لئے حل وکشود کے لیے وہ وہی راہ اختیار کرے جس کی تلقین اسے لسان نبوت صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے۔اسی کی بدولت نوجوان اپنی ذمہ داریوں کو نبھا سکے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ کو جب جوان اپنائیں گے تو ان میں ملکہ راسخہ پیدا ہوگا اور پھر دوسرے مرحلے میں یہ ذمہ داریاں ہمارے اخلاق وکردار کا حصہ بن جائیں گی تب ہی ہم نوجوان دین ودنیا کی بلندیاں پاسکتے ہیں۔

ہرکہ عشق مصطفےٰ سامان اوست
بحر وبرد گوشہ دامان اوست


معنی ومفہوم:

نوجوان کو عربی میں "شاداب" کہتے ہیں جس کے معنی اولوالعزمی ،تقدم وتیزی طبع کے ہیں۔اسی طرح لفظ"الشباب" میں گرم جوشی نور وبصیرت اور سمجھ بوجھ پوشیدہ ہیں۔(لسان العرب المورد)

اہمیت:۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت ہے کہ"میں تم کو نوجوانوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تلقین کرتا ہوں کیونکہ نوجوان نسل رحم دل ہوتی ہے۔نوجوانوں نے میرا ساتھ دیا اور بوڑھوں نے میر ی مخالفت کی"پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی:

"پھر ان پر طویل مدت گزری،ان کے دل سخت ہوگئے۔اور ان میں اکثر نافرمان وعہد شکنی ہیں۔"(القرآن)

مصلحین امت کے نزدیک کسی قوم کی فلاح وبہبود کا انحصار اس کی نوجوان نسل پر ہوتاہے (مقدمہ ابن خلدون) اور پاکیزہ اخلاق،عمدہ خصال(جو اصلاً تعلیم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ماخوذ ہیں) کو اپنا کر ہی نوجوان اپنی ذمہ داریوں کو نبھاسکتے ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جوانی:۔

اس معاشرے میں گزری کہ جہاں لوگ برہنہ تن،بیت اللہ کاطواف کرتے تھے(ترمذی) رداء شرم وحیا میں جابجا ہوس وبرہنگی اور بے حیائی کے سوراخ تھے۔لیکن اس ماحول میں آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی جوانی سپیدہ سحر کی طرح بے داغ اور اہل معاشرہ نے آپ کو ان پاکیزہ پر عفت خصائل کی بناء پر صادق وامین کاخطاب دیاتھا۔(طبری)

اگر عصر حاضر کانوجوان اس جاہلیت جدیدہ میں تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنائے تو مجسمہ صدق وامانت بن سکتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو اولا نوجوان نے ہی قبول کیا(کنزالعمال) "دارارقم" کے سابقون اولون میں اکثر نوجوان صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین شامل تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوانوں کی ذمہ داریوں کے حوالے سے ان کی خصوصی تربیت فرمائی کہ وہ ہر بڑی سے بڑی ذمہ داری کے اہل بن گئے(ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ )

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تربیت کی بدولت ہی د نیائے تاریخ کا یہ معجزہ رونما ہوا کہ ان نوجوانوں (خلفاء اربعہ وصحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین ) کی حکومت ر بع مسکون تک پھیل گئی۔لیکن انھیں کسی بھی اہم امر کے لیے کسی غیر عرب کی احتیاج تک نہ ہوئی(انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر) تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نوجوانوں کی ذمہ داریوں کے ضمن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالخصوص تین اہداف تھے۔

1۔تعلیم وتربیت۔2۔دعوت وتبلیغ۔3۔جہاد

اس مضمون میں نوجوا نوں کی اپنی ذمہ داریوں کا ہم دو طرح سے جائزہ لیں گے۔

الف۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوانوں کی کس طرح تربیت کی۔

ب۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے نوجوانوں کی ذمہ داریوں کے متعلق پہلو۔

تعلیم وتربیت:۔

اہمیت وضرورت:۔

دین کا آغاز ہی" اقْرَأْ " سے ہوا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا(وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافرض(وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ )

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہچان"تکمیل اخلاق کے معلم" ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کو جہاد کیا(ابو داود) عالم کو عابد پر فضیلت دی(ابن ماجہ) علم کو ہر مسلمان پر فرض قرار دیا)(بخاری)

طریقہ تعلیم وتربیت:۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاطریقہ تعلیم وتربیت بڑا سادہ اور فطری ہوتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نوجوان سے اس کی صلاحیتوں کے مطابق کام لیتے تھے(انسان کامل) تعلیم وتربیت کے دو درجے تھے۔ایک عام صحابہ اوردوسرے اصحاب صفہ تھے۔ان میں خلفائے اربعہ رضوان اللہ عنھم اجمعین عبادلہ اربعہ رضوان اللہ عنھم اجمعین ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سعد بن وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ مصعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ زید ابن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ ایسے اصحاب شامل تھے(طبقات ابن سعد)

ان ہر دو طبقات کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاً اخلاقی تربیت کی پھر علم وحکمت کا شناور بنایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت وتربیت کے ان ترشے ہوئے ہیروں نے پھر بعد میں ہر جگہ ا پنی تربیت کو کمال درجے پر نبھایا۔

درفشانی نے تیری قطروں کو دریا کردیا

دل کو روشن کردیا ،آنکھوں کو بینا کردیا

خود نہ تھے جو راہوں پر وہ اوروں کے ہادی بن گئے

کیانظر تھی ،جس نے مردوں کو مسیحا کردیا۔

دین کی تعلیم:۔

اس قرآن کے سبب لوگ سربلند بھی ہوتے ہیں اور (چھوڑ دینے پر) پست بھی (موطا) آپ سب سے زیادہ قرآن جاننے والے نوجوان کو ترجیح د یتے تھے ابن اسحاق آج کے نوجوان جتنا قرآنی علوم سے قریب تر ہوں گے۔اتنے ہی ذمہ دار بنیں گے ۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید صلی اللہ علیہ وسلم بن ثابت کو غیر زبان سیکھنے کا حکم دیا(نسائی)

عصر حاضر میں دین کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے اپنے وقت کی ہر اہم زبان کو سیکھنا نوجوانوں کی ذمہ داری ہے۔قبائل عرب کا ایک ایک گروہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلیم حاصل کرتا(طبقات ابن سعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نوجوانوں میں تعلیم کا فہم پیدا کرتے۔ارشاد ہے کہ جس سے خدا بھلائی کا ارادہ کرتا ہے۔اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔(ابن ماجہ)

چنانچہ نوجوان معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جواب کہ میں اپنی سمجھ بوجھ سے دین میں کام لوں گا،کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحسین فرمائی(ابو داود)

خشیت وتقویٰ:۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم وتربیت کے امتیازات تھے آپ کا فرمان ہے کہ عرش کے سایہ تلے نوجوان عابد ہوگا(مسند احمد) اور وہ نوجوان بھی جو حسین عورت کی دعوت گناہ محض اللہ کے ڈر سے مسترد کردے(ترمذی) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کے نوجوانوں نے یہ سب کچھ عملاً کرکے دکھا دیا۔

احساس ذمہ داری۔:۔

نوجوانوں میں اس طرح احساس ذمہ اری پیدا کیا کہ فرمایا: بروز قیامت جب تک امور جوانی کا حساب نہ دے لے قدم نہیں اٹھا سکتا۔(بخاری)

سعی وعمل:۔

اور شعور اس طرح دیا کہ"جوانی کو بڑھاپے سے پہلے غنیمت سمجھو۔"(ترمذی) قرآن کریم میں ہے:

" إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى."۔۔۔سعی وعمل نوجوانوں کی طبیعت کا خاصہ وامتیاز ہے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بلند ہمتی ایمان کا حصہ ہے(بیہقی) گویا خدا ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ستاروں پر کمند پھینکنے والے نوجوانوں سے محبت تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعی وعمل کی فضیلت بیان کی تو فرمایا کہ سخی کا ہاتھ سائل کے ہاتھ سے بہتر ہے۔(بخاری) الغرض نوجوان علم ہمت کا خوگر بن کر ہی ا پنی ذمہ داریوں سے نبھا سکتا ہے۔

عدل وانصاف:۔

"اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ"

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلام وآقاسے یکساں سلوک کیا۔بنی مخزوم کی فاطمہ سے چوری ہوئی تو کہا کہ اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ کام کرتی تو یہی سزا پاتی(بخاری) نوجوانوں کی بڑی ذمہ داری ہے۔ اگر انہیں مسند انصاف پر بیٹھنا پڑے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو مشعل راہ بنا کر صرف اور صرف حق کی پاسداری کریں اور قانون کی نظر میں سب کو برابر جانیں،خوف طبع اور دباؤ کو خاطر میں نہ لائیں۔

تواضع ومساوات:۔

"لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ"

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت تھی کہ مجلس میں کسی کی بات قطع نہ کرتے(ترمذی) ہرشخص سے محبت واحترام سے پیش آتے ،تواضع اس قدر کہ فتح مکہ پر سر مبارک بوجہ انکسار اونٹنی کی کوہان سے ٹکرارہا تھا(طبقات ابن سعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت یہ ہے کہ دروازے پر کوئی چوکیدار نہیں ہوتا تھا۔ہر ایک سے بے تکلف ہوکر ملنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی۔(کنز العمال) آج ہم نے انسانوں کی ان کی معاشی حیثیت سے مختلف خانوں میں بانٹ رکھا ہے۔یہ نوجوانوں کی ذمہ داری ہے کہ انسانی عزت کے حقیقی معیار تقویٰ کو قائم کریں۔اور انسان دوستی اور خدا پرستی کے جذبے کو فروغ دیں۔

شرم وحیاء:۔

"إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنكُمْ ۖ "

شرم وحیاء انسانی فطرت کا ایسا جوہر ہے جو اسے وقار پاکیزگی عطا کرتا ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بچپن ہی سے باحیاء اور شرمیلے تھے(طبری) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ حیاء نصف ایمان ہے(الشفاء) حیاء دین اسلام کا امتیازی وصف ہے۔(مشکواۃ) آج کے نوجوانوں میں جب شرم وحیاء کا غلبہ ہوگا تو معاشرے سے آوارہ ذہنی اور جنس بے راہ روی کا خاتمہ ہوجائےگا ایک شریف نوجوان کی نگاہ جب حیاء سے جھکتی ہے تو زمانے بھر کی پاکیزگی اپنے اندر سمولیتی ہے۔

حیاء نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی

خداکرے تیری جوانی رہے بے داغ

عفت وعصمت:۔

"وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ"

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے عفت پر بیعت لی کہ وہ اس چیز کا اقرار کریں کہ وہ زنا نہیں کر یں گی۔(القرآن) ایسے ہی فرمایا کہ جو عفت وپاکیزگی پر پابند رہے اس کے لیے جنت کی ضمانت ہے(بخاری) آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس نوجوان کو نفسانی جذبات سے مغلوب ہوجانے کا خطرہ ہو،اسے چاہیے کہ وہ ر وزہ رکھے(مشکواۃ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ"اے نوجوانان قریش! نکاح سے ا پنی عفت وعصمت کی حفاظت کریں۔(مسلم) دور شباب جذبات کے عروج کا زمانہ ہے۔اسلام جو دین فطرت ہے ۔ اس نے اس موقع پر بھی نوجوانوں کو رہنمائی کے بغیر نہیں چھوڑا۔ان کے لیے نکاح کاباوقار طریقہ تجویز کیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے نوجوان اپنی جوانی کو صحیح ودرست مواقع پر استعمال کرسکتے ہیں۔

غض بصر:۔

"قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ "

شرم وحیاء سے پر نگاہ اک شریف مسلم نوجوان کا سرمایہ ہے۔نگاہ کی آوارگی جب بڑھتی ہے۔ تو نوجوانوں کو جنسی برائیوں کی دلدل میں دھکیل دیتی ہے۔ اس لیے آپ کی تعلیمات میں نوجوانوں کے لیے اس طرح سے راہنمائی کا انتظام کیا گیا ہے۔کہ اول مرحلے پر ہی ان کے سامنے روک لگا دی جائے۔قرآن کا ارشاد ہے کہ:

"اور زنا کے قریب بھی نہ جاؤ"(سورہ بنی اسرائیل ) نگاہ کا بہکنا نوجوان کو زنا تک لے جاتا ہے۔فرمودہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:"نظر"ابلیس کے تیروں میں سے ایک زہر آلود تیر ہے۔(مسند دارمی) جب نظر پاکیزہ ہو تو جذبات میں پاکیزگی آتی ہے۔اور نوجوان کو اپنی اہم ذمہ داریوں کا احساس دلاتی ہے۔

بزرگوں کی تعظیم وتوقیر:۔

بزرگوں کی تعظیم وتوقیر اور ان کی مدد نوجوان کی اہم ذمہ داری ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ نوجوان کسی بوڑھے بزرگ کی تعظیم کرتا ہے،خداتعالیٰ اس نوجوان کی بڑھاپے میں عزت کرواتا ہے(ترمذی) یعنی جوانی میں خدمت بڑھاپے میں سہولت۔ع

وہ کاٹے گا بڑھاپے میں جو بوتاہے جوانی میں

چھوٹوں پر شفقت:۔

چھوٹوں پر شفقت نہ کرنے والوں کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ا پنی امت میں شمار نہیں کیا(بخاری) آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے بہت محبت کرتے تھے انہیں اپنے کندھوں پر بٹھاتے تھے اور ان کی دلچسپی کی چیزیں انھیں لادیتے۔(الشفاء)

پاکیزگی وصحت:۔

"وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ "

پاکیزگی وصحت کو اختیار کرکے نوجوان اپنی ذمہ داریوں کو بہتر طریقے سے نبھا سکتے ہیں۔فرمودہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ بھوک لگے تو کھاؤ اور پیٹ بھر کر مت کھاؤ(ترمذی) یہ صحت کا بنیادی اصول ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے واضح ہوتا ہے کہ آپ حفظان صحت کو کس قدر اہمیت دیتے تھے۔دنیا کے مذاہب میں اس پہلو سے بالعموم اعراض کیا گیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرے جسم کا تجھ پر حق ہے(مشکواۃ) پاکیزگی کو نصف دین قرار دیا(مسلم) ایک شخص کو پراگندہ حال دیکھ کر کرنا پسند فرمایا(ترمذی) سفر میں کنگھی،آئینہ اور تیل ساتھ رکھتے(ابن ماجہ) اُم معبد کی بکری کا جس طرح دودھ ودھیا،وہ پاکیزگی کی عمدہ مثال ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس راہ سے گزرتے وہ خوشبو سے مہک اٹھتا(ترمذی)

ابھی اس راہ سے گزر کر گیا ہے کوئی

کہے دیتی ہے شوخی نقش کف پا کی

خوش پوشی میں نوجوان لو ازم دین کو ملحوظ رکھیں کہ عمدہ لباس تو لباس تقویٰ ہے پاکیزہ جسم وذہن والے کی باتیں دل میں اترتی چلی جاتی ہیں۔

نوجوانان عصر کی دوسری عملی ذمہ داری:"تبلیغ"

تبلیغ کا معنی پیغام کو پہنچا دینا ہے(المنجد) جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہے:

"يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ "

اس طرح قرآن میں مستقل تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے:اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو لوگوں کو دین کی طرف بلائے۔"(آل عمران)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے" بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً ، "(مشکواۃ) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "اللہ سرسبز وشاداب رکھے اس شخص کو جس نے میری بات کو بحفاظت دوسروں تک پہنچایا"(سنن ابوداود)

طریقہ تبلیغ:۔

قرآن میں ہے: ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ

ترجمہ:۔اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ۔

حکمت:۔

نوجوان مبلغوں کے تین اوصاف ہونے چاہیں۔

1۔موقع شناسی۔2۔مزاج شناسی۔3۔وقت شناسی

1۔تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں نوجوان مبلغین کو چاہیے کہ مخاطب کی نفسیات کا خیال رکھیں۔

2۔لوگوں سے ان کی فہم کے مطابق گفتگو کریں(ابن ماجہ) وقت اور حالات زمانہ کو ملحوظ رکھیں۔

اصول تبلیغ:۔

تبلیغ کے ضمن میں درج ذیل امور ملحوظ رہنے چاہیں:

1۔تدریج:جیسے شراب کی حرمت تین مرحلوں میں ہوئی۔

2۔موعظۃ الحسنۃ:۔سامع کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے اور برے نتائج سے متنفر اور اچھے نتائج کی ترغیب اور خوشخبری دینی چاہیے۔ملحوظ رہے کہ مخاطب کو نفرت نہ دلائیں(بخاری)

3۔مجادلہ احسن:مجادلہ احسن انداز میں ہو ذہنی دنگل نہ ہو،مخاطب کو ہرانامقصود نہ ہو بلکہ نوجوان مبلغ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے غم خواری اور دل سوزی سے دعوت دیں۔

4۔عدم اکراہ:( لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ )

"یعنی دین میں کسی بھی طرح سے سختی روا نہیں رکھی گئی مخاطب کو ہر طرح سے دعوت دیئے جانے کی ذمہ داری مبلغ پر ہے اور ہدایت اللہ تعالیٰ پر،جیسا کہ قرآن میں ہے:

" إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ "

ترجمہ:۔اے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ! جس سے آپ محبت کرتے ہیں اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہدایت نہیں دے سکتے۔بلکہ اللہ تو جسے چاہتاہے ہدایت سے سرفراز کرتا ہے۔"

4۔عقلی استدلال:مبلغ کو چاہیے کہ دوران تبلیغ عقلی دلائل سے بھی مخاطب کو قائل کرے۔قرآن کی آیت ہے:

"إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآَيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ "

کیونکہ عقلی دلائل کی بدولت مخاطب جلد سمجھ جاتا ہے۔اور جلد آمادہ عمل ہوجاتا ہے۔

5۔آسان انداز:۔آسانی پیدا کرو سختی نہ کرو۔(مسلم)

چنانچہ داعی،پر لازم ہے کہ دین کو عام فہم انداز میں سہل بنا کر پیش کرے تاکہ مخاطب الجھن کا شکار ہوئے بغیر آمادہ ہوجائے اس کی ذات پر بھی مثبت تبصرہ مناسب ہے۔کیونکہ اس سے بھی تعلیم دین میں آسانی ہوتی ہے۔(فضائل اعمال)

لوازم تبلیغ:۔

1۔اعلان حق:( فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ )

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق گوئی کو ایک بڑا جہاد قرار دیا ہے۔(دارمی) مزید فرمایا کہ"تم میں سے جو برائی کو دیکھے وہ ہاتھ سے روکے اگر یہ بس میں نہ ہوتو زبان سے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہوتو دل سے برا سمجھے"(مسلم) ہماری دانست میں اس ارشاد کے سب سے اہم مخاطب نوجوان ہیں جو دوسروں کو تبلیغ دین کے ساتھ ساتھ برائیوں کو ہاتھ سے روکنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور اگر نوجوان حق گوئی اور حق پسندی کو ا پنی ذمہ داریہ سمجھیں تو معاشرے کی کتنی ہی بُرائیاں ہیں جنھیں وہ ختم کرسکتے ہیں:

2۔قول وفعل میں مطابقت:۔

"لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ "

ایک عورت بچہ لائی کہ یہ گڑ کھاتا ہے اسے سمجھا یئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کل آنا کیونکہ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود گڑ کھایا ہوا تھا،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ جو کہا،وہ کرکے بھی دکھایا محض فلسفہ ہی پیش نہیں کیا چنانچہ آج کا نوجوان اگر ایک اس وصف کو اپنا لے تو معاشرے کی کتنی ہی ذمہ داریاں ہیں جنھیں وہ بخوبی ادا کرسکتا ہے۔لہذا اسلام میں علم وہی معتبر ہے۔جس پر عمل بھی کیا جائے۔

واعظ کا ارشاد بجا،تقریر بہت دلچسپ مگر

آنکھوں میں سرور عشق نہیں چہرے پہ یقین کانور نہیں

3۔دفع ایزا:۔

اسلام کا سنہری اصول ہے کہ دین میں نقصان ومضرت نہیں(مسند احمد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکلیف کی کسی چیز کو بھی دور کرنے کو صدقہ کہا(موطا) نوجوان مبلغ کی ذمہ داری ہے کہ وہ مضر چیزوں سے خود مجتنب رہے اور معاشرے کو ان سے پاک رکھے۔اسی طرح مسلم کی شان ہی یہ ہے کہاس سے لوگوں کی جان وعزت محفوظ رہے۔(مسلم)

4۔مداومت عمل:

نوجوانوں بالعموم لااُبالی پن نمایاں ہوتا ہے۔لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا کو سب سے محبوب وہ کام ہے جو مستقلاً کیا جائے کیونکہ ایسا عمل نوجوانوں کی کردار سازی کرتاہے اسے ذمہ دار بناتا ہے۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اوقات ومعمولات لگے بندھے ہوتے تھے۔یہ انسانی شخصیت کا حسن بھی اور زندگی کی صحیح قدر وقیمت بھی ہے۔(سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ازشبلی نعمانی)

5۔اعتدال:۔

"وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ "

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا قاعدہ اعتدال ومیانہ روی تھا(ابن ہشام) دین نے میانہ روی کو نبوت کا چوبیسواں حصہ قرار دیا۔(ابو داود) خدا تعالیٰ نے اس امت کو امت وسط بنایا(آل عمران) اگر آج نوجوان دو طرفہ انتہاؤں کی بجائے نقطہ اعتدال پر رہیں تو محض یہ ایک عمل ہی انہیں انتہا درجے کا ذمہ دار بنا دے گا۔

6۔خدمت خلق:۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مخلوق کو اللہ کا کنبہ قرار دیا ہے۔(زاد المعاد) اور اس میں کوئی قید نہیں لگائی۔خدمت خلق عصر حاضر کے نوجوانوں کے اہم ترین ذمہ داری ہے۔اور تبلیغ کا عمدہ اصول بھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ا پنے بھائی کی حاجت پوری کی خدا اس کی حاجت پوری کرے گا۔(ترمذی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کمزور وغلام، بے کس،شناسا وغیر شناسا ہر ایک کی حسب موقع خدمت کرتے تھے۔(زاد المعاد)

نوجوان مبلغین:۔

جنھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ذمہ داریوں کے لئے تیار کرکے ان میں مبلغانہ اوصاف پیدا کیے اور ان کا اخلاق کردار سنوارا۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ نے یمن بھیجا۔ان کے عمدہ طریقہ تبلیغ کے سبب آل ہمدان نے اسلام قبول کیا۔اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی مسرت ہوئی (بیہقی) معصب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں اپنی آمد سے قبل وہاں بھیجا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نوجوان،نازونعم میں پلے ہوئے مگر تربیت وصحبت رسول میں ڈھلے ہوئے تھے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تبلیغی مساعی سے مدینہ کی فضا بدل گئی(الدرایہ) ایسے ہی سالم رضی اللہ تعالیٰ عنہ معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ خصوصی مسلمان مبلغین تھے(سیر النبی صلی اللہ علیہ وسلم از شبلی) یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ مبلغین ہی تھے جن کے سبب دین کا پھیلاؤ بسر عت بڑھنےلگا پس عصر حاضر کے نوجوانوں کی یہ اہم ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈھلے ہوئے ان صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے کردار اوصاف کی پیروی کرتے ہوئے تبلیغ کے کام کو سنبھالیں۔

نوجوانان عصر کی تیسری عملی ذمہ داری

جہاد

لغوی معنی:کوشش کرنے کے ہیں۔( مقابلے میں غالب آنے کے لیے)

اصطلاحی معنی:دین کی حمایت میں کسی بھی قسم کاکام کرنا(چونکہ اصطلاح میں لغوی معنی کابھی لحاظ ہوتا ہے۔لہذا جہاد اسلام کے لیے مخالفین کے مقابلہ میں بھر پور محنت کو کہتے ہیں،جس کی انتہائی شکل قتال بھی ہے۔چنانچہ جس طرح جہاد کے آلات میں قلب ولسان سے بڑھ کر قوت ید کا استعمال ہوتا ہے۔اسی طرح مال ونفس کی قربانی بھی دینی پڑتی ہے۔(ح۔م))

اور دشمنان دین سے بالفعل قتال کرنا،قتال فی سبیل اللہ جہاد کا اعلیٰ ترین درجہ ہے(الجہاد فی الاسلام)

اہمیت وفضیلت:۔

مجاہدین کا اللہ کے ہاں سب سے بڑا درجہ ہے۔(سورہ توبہ)

1۔قرآن میں ایمان کے بعد جہاد کا ذکر کیا گیا ہے جیسے:

" آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا .................."

2۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت بنی المقاتل ہے۔(زاد المعاد)

شوکت سنجر وسلیم تیرے جلال کی نمود

3۔دائمی ضرورت:قرآن میں ہے۔( إِلا تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ )

اسی طرح حدیث میں ہے کہ"جہاد تا قیامت رہے گا"(نسائی)

4۔مستقل تیاری کا حکم:۔( وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ )

اس میں ہر وقت اور ہر زمانہ کی ٹیکنالوجی شامل کردی گئی ہے۔ اسی طرح(خُذُوا حِذْرَكُمْ ) میں ہمہ وقت تیاری کا حکم ہے۔

5۔رضائے الٰہی کاحصول: فی سبیل اللہ کی قید کے سبب ذاتی خواہشات ،مال،غنیمت،حسن ودولت اور کشور کشائی کی نفی کردی گئی جہاد کا مقصد محض رضائے الٰہی کے حصول کو قرار د یا گیا ہے۔

6۔درست نیت:نیت درست نہ ہوتو ظاہری مجاہد بھی جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔(صحیح بخاری)

7۔جہاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم خود بنفس نفیس معہ صحابہ کرام ستائیس بار غزوات کےلیے گئے اس میں بہت بڑا سبق ہے عصر حاضر کے نوجوانوں کےلئے کہ وہ غلبہ کفر کی صورت میں بار بار ہر طرح سے اللہ کی راہ میں جہاد کریں کہ خود رحمۃ اللعالمین نے اس راہ میں اپنا خون بہایا۔دانت شہید کروائے اور اذیتیں جھیلیں۔

سرور جو حق وباطل کی کارزار میں ہے

تو حرب وضرب سے بیگانہ ہوتو کیا کہیے

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش:

حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کا ان الفاظ میں ذکر ہوا ہے کہ مجھے محبوب ہے کہ میں اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ،پھر زندہ کیا جاؤں،پھر قتل کیا جاؤں(بخاری) شہادت میں جو درجہ اور جہاد میں جو لطف ہے اس کے سبب انسان بار بار اس عمل کی خواہش کرتا ہے۔آج کے نوجوانوں کی خواہش بھی اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم والی بن جائے اور وہ اللہ کی راہ میں جہاد کو اپنی ذمہ داری اور شہادت کو اپنی آرزو بنالیں تو غلبہ اسلام کی راہیں دنوں میں کھل سکتی ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آخری عمل:۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کا آخری عمل نوجوان صحابی حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قیادت میں لشکر بھیجنے کا کیا۔(ابن اسحاق) اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جہاد سے محبت اور نوجوانوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتماد کا اندازہ ہوتا ہے ۔آج کے نوجوان پر لازم ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اعتماد کو عمل جہاد کے ذریعے پوراکرے۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کے سبب ہی نوجوان حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو "اسداللہ" اور نوجوان خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو"سیف اللہ" کہا(الکامل) پس آج کے نوجوانوں کے کندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں اپنے کردار کو عملی جہاد کے ذریعے اتنا بلند بنالیں کہ وہ اللہ کے ہاں سرخرو ہوسکیں۔

جہاد سے روگردانی:۔

امت کے زوال وادبار کا سبب ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ آخری وقت مسلمانوں کی تعداد بہت ہوگی لیکن موت کے خوف اور دنیا کی محبت کے سبب وہ مغلوب ہوجائیں گے۔(ابو داود)

موت سے بے خوفی اوردنیا کی محبت سے خالی ہوناجہاد ہی کے سبب ممکن ہے۔ گھمسان کےرن میں جہاد کا جذبہ ہی انسان کو استقامت وثبات دیتا ہے جہاں زندگی موت کی گھات میں ہو،یہی تو مقامات ہیں جہاں"اسد الٰہی" بنتی ہے۔

جنت کی ضمانت:۔

فرمایا:جنت تو حقیقت میں تلواروں کے سائے تلے ہے۔(مسلم) عصر حاضر کےنوجوان تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے سانچے میں ڈھل کر صاف زندگی میں سیرت فولاد پیدا کرسکتے ہیں دنیا بھر کی باطل قوتوں کو للکارنا اور ان سے دو بدو مقابلہ کرنا جہاں مسلم نوجوان کی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔وہیں اس کے لیے سامان تسلی بھی ہے۔کہ اگر وہ قوت ایمانیہ سے لیس ہے۔تو ان جابر وقاہر لادینی قوتوں کے خلاف آخری فتح اسی کی ہے۔

شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو

خوف باطل کیا کہ ہےغارت گر باطل بھی تو

نفاق کے خلاف جہاد:۔

آج کا نوجوان ہی کرسکتا ہے۔معاشرے کے رگ وپے میں سرایت نفاق کی بیماری کاعلاج اللہ نے مضبوط سیرت کے حامل نوجوان ہی کو ٹھہرایا ہے۔نوجوانوں کی ہمیت اولوالعزمی کے سبب ان کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر قسم کے نفاق کو معاشرے سے اکھاڑ پھینکیں۔

غرض یہ کہ صبر واستقامت ،عفووکرم،صدق وسخاوت،شجاعت وہمت کے پیکر نوجوان ہی تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا کر اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے سر انجام دے سکتے ہیں۔

دور حاضر کا چیلنج:۔

ہی ہر قسم کے لادینی اور مادی افکارات کے خلاف نوجوان علمی فکری اور نظری جہاد کرے،تجدید واحیاء دین کا خواب تبھی شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔آج ہر طرف بے دینی والحاد پرستی کا دور دورہ ہے۔لیکن آہ! کوئی ایسا نوجوان نہیں جو اسوہ نبی وصدیقی کو اپنا کر اس طوفان کے خلاف اٹھ کھڑا ہو کہ نوجوانان عصر کی یہ سب سے بڑی اجتماعی ذمہ داری ہے۔

پھر ان تمام امور وذمہ داریوں سے آج کا نوجوان تبھی عہدہ برآہوسکتا ہے۔جب اس میں ایمان محکم ،اطاعت رسول، اور بالخصوص فراوانی اخلاص ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وقت کے نوجوانوں کو بدنی طہارت،خشوع وخضوع،رقت قلبی،پاکیزہ نگاہی عطاء کی۔انہیں مادی گرفتوں سے آزاد کرایا اور خواہشات کی اتباع سے چھٹکارا دلایا اور وہ نوجوان انہی تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں اپنی ذم داریوں کو نبھاتے ہوئے پوری دنیا پر چھا گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام آج بھی زندہ وتوانا ہے۔تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اتنی قوت اب بھی ہے کہ وہ دل ونگاہ کی دنیا بدل کررکھ دے۔ان تعلیمات کو اپنا کر ہی آج کا نوجوان پوری دنیا کو ایمان پرور،سکون آور دین کی ضیاء پاشیوں سے منور کرسکتا ہے۔

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے

دہرمیں اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اجالاکردے

مصادر ومراجع

نمبرشمارمصنف کتب مطبع سن طبع

1۔محمد بن اسماعیل البخاری الجامع الصحیح البخاری مصطفیٰ البابی الحلبی مصر 1345ھ

2۔مسلم بن الحجاج القشیری الجامع الصحیح محمد بن علی واوراد مصر 1334ھ

3۔ابو عیسیٰ محمدبن عیسیٰ ترمذی سنن ترمذی مکتبہ میریہ میر 1931ء

4۔ابو داود سلیمان بن الاشعث سنن ابی داودمطیع السعادۃ مصر 1959ء

5۔ابو عبداللہ محمد بن یزید ابن ماجہ سنن ابن ماجہ عیسیٰ البابی المحلی مصر 1953ء

6۔ابو عبدالرحمان احمد بن شعیب النسائی سنن نسائی مطبع المصریہ1930ء

7۔مالک بن انس الموطا طبع مصر1361ھ

8۔امام احمد بن حنبل المسندمطیع الامیریہ1350ھ

9۔ابو محمد عبداللہ بن عبدالرحمان الدارمی سنن دارمی طبع مصر1950ء

10۔ولی الدین محمد بن عبداللہ الخطیب مشکواۃ المصابیح الکتب الاسلامی للطباعہ دمشق1380ھ

11۔جلال الدین سیوطی کنز العمال مطبع منیریہ مصر1351ھ

12۔زمخشری الکشاف مطبع المصریہ مصر 1343ھ

کتب سیرت

13۔عبدالمالک بن ہشام السیرۃ النبویہ مصطفیٰ البانی مصر 1936ء

14۔محمد بن اسحاق سیرۃ مصر

15۔قاضی عیاض الشفاء احیاء التراث بیروت 1350ھ

16۔شباب الدین احمد بن علی بن حجر العسقلانی الاصابہ فی تمیز الصحابہ المکتبہ التجاریہ الکبریٰ مصر 1358ھ

17۔شمس الدین ابو عبداللہ ابن قیم زاد المعاد (مترجم) نفیس اکیڈمی کراچی 1962ء

18۔ابو جعفر محمد بن جدید الطبری تاریخ الامم والملوک طبر مصر 1365ھ

19۔ابو الفداء عماد الدین اسماعیل بن کثیر البدایہ والنہایہ مطبع السعادۃ قاہرہ 1351ھ

20۔ابن سعد الطبقات الکبریٰ بیروت 1960ء

21۔ابو عبدالرحمان ابن خلدون المقدمہ درا لکتاب البانی بیروت 1961ء

22۔ علی بن محمد عز الدین(ابن اثیر) الکامل فی التاریخ قاہرہ مصر 1356ھ

لغات

23۔ابن منظور الافریقی لسان العرب مکتبہ الامیریہ مصر 1327ھ

24۔لوئس معلوف الیسوعی المنجد احیاء التراث بیروت 1327ھ

25۔ المورد

اردو کتب

26۔شبلی نعمانی علامہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم نیشنل بک فاونڈیشن 1986ء

27۔سلیمان ندوی سید خطبات مدراس مجلس نشریات اسلام کراچی 1985ء

28۔ابو الاعلیٰ مودودی سید الجہاد السلام ادراہ ترجمان القرآن لاہور 1988ء

29۔ابو الحسن علی ندوی سید مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر مجلس نشریات اسلام کراچی 1982ء

30۔محمد زکریا شیخ الحدیث فضائل اعمال مکتبہ فیضی لاہور 1986ء

31۔خالد علوی پروفیسر انسان کا مل