اسلام میں عورت کی سر براہی کی قطعاًکوئی گنجائش نہیں ۔

(مولانا کوثر نیازی کے جواب میں)


سب سے پہلے عورت کی سر براہی کے جواز یا عدم کے بارے میں اس وقت کی مختلف علمی شخصیتوں نے اخبارات و رسائل میں مضائین لکھنا شروع کئے جب محترمہ فاطمہ جناح صدر محمد ایوب خان کے مقابلہ میں میدان سیاست میں اتریں ۔ اس وقت اہلسنت کے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کرام کی اکثریت نے شدت سے اس کی مخالفت کی جب کہ چند روشن خیال حضرات کے علاوہ جماعت اسلامی نہ صرف عملاً اس کی حمائت میں پیش پیش تھی۔بلکہ اس کا شرعی جواز ثابت کرنے کے لیے جماعت نے ایڑی چوٹی کا زور لگا یا اور عورت کی سر براہی کی حرمت کا وہ اجماعی مسئلہ جس پر اس سے قبل سید الاعلیٰ مودودی اور ان کے دیگر رفقاء کار جمہور علماء کرام سے متفق تھے کو بھی چیلنج کیا ان دنوں جماعت اسلامی لاہور کے امیر مولانا کوثر نیازی نے بھی اس موضوع پر ایک کتابچہ موسومہ "کیا عورت سر براہ مملکت بن سکتی ہے؟"تحریر کر کے بقول ان کے لاکھوں کی تعداد میں ملک میں تقسیم کیا گیا ۔بندہ نے بھی اس وقت دیگر علماء حق کی ہمنوائی میں ایک مضمون فتویٰ کی شکل میں سید الاعلیٰ مودودی کے افکار و خیالات کے جواب میں تحریر کیا تھا جو مقامی اخبارات میں بھی شائع ہوا تھا اسی طرح مولنا کوثر نیازی کے رسالہ مذکورکا جواب بھی ایک مختصر رسالہ کی شکل میں بغرض اشاعت ایک بزرگ سیاسی رہنما خان غلام قاسم خان خاکوانی کے حوالے کیا۔ لیکن وہ اسے بعض ناگزیر وجوہ کی بنا پر طبع نہ کراسکے ۔اب جبکہ محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہوئیں تو مولانا کو ثر نیازی صاحب نے پھر ایک مرتبہ اس موقف کا جس پر بقول ان کے وہ تیس سال سے ڈٹے ہوئے ہیں کا اعادہ کیا ہے اور چند اضافوں کے ساتھ اس کا خلاصہ روزنامہ "جنگ"لاہور مورخہ 24۔10۔93میں دیکھنے میں آیا ہے۔ مولانا صاحب نے جن دلائل کا ذکر کیا ہے وہی پرانے چبائے ہوئے نوالے تھوڑے سے لفظی ہیر پھیر کے ساتھ چند منکرین حدیث ،روشن خیال حضرات کی تحریرات سے متاثر ہو کر پیش کئے ہیں ۔

علماء کرام کا وہ گروہ جو عورت کی سربراہی کو خلاف شریعت سمجھتا ہے قرآن مجید سے ان کی سب سے واضح دلیل سو رۃ نساء آیت ۔

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ (سورۃ نساء: 34)ہے۔جس میں مرد کو اسلامی معاشرہ میں حاکم اور سربراہ مقرر کیا گیا ہے اکثر مفسرین نے " الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ " کا ترجمہ حکمران،کفیل ،نگران وغیرہ کیا ہے۔اور جملہ تفاسیر میں واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ یہ آیت اس بارے میں نص صریح ہے۔کہ اسلام میں حکمرانی اور سربراہی مردوں کے لیے ہی مختص ہے۔صنف نازک اپنی فطری کمزوری اور کئی ایک دیگر موانعات کی بناء پر نہ تو اس منصب پر فائز ہوسکتی ہے اور نہ ہی حکمرانی کے فرائض منصبی کو ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

1۔مولانا کوثر نیازی نے اپنے موقف کی تائید میں مولانا اشرف علی تھانوی کا ایک فتویٰ امداد الفتاویٰ سے نقل کیا ہے جو ان کے تفردات میں سے ہے اور جمہور علماء امت اور کتاب و سنت کی روح کے منافی ہے۔جو کسی صورت میں بھی قابل قبول نہیں مزید برآں ان کا یہ فتویٰ ان کی تفسیر بیان القرآن زیر آیت سورۃ نمل" إِنِّي وَجَدتُّ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ" الخ کے بھی خلاف ہے۔اس لیے ان کی صرف وہ رائے جو جمہور علمائے امت کے موافق ہوگی بقول" خُذْ منْ زَمانِكَ ما صفا, وَدَعِ الذي فيهِ الكَدَرْ" قابل قبول ہوگی۔ دونه خَرْطُ القتَاد

علماء کے تفردات کے بارے میں صحیح اور فیصلہ کن رائے بھی یہی ہے کہ انھیں کتاب وسنت پر پیش کیا جائے۔اگر کتاب وسنت سے اس کی تائید ہوتی ہے۔تو بسرو چشم قبول ورنہ مسترد کردیا جائے۔چنانچہ ائمہ اربعہ کی تصریحات اس سلسلہ میں پیش کیجاتی ہیں۔کہ ان کے بقول اگر ان کا کوئی قول کتاب وسنت کے خلاف ہو تو اسے ترک کردیا جائے۔اور کتاب وسنت کے مطابق عمل کیا جائے۔ائمہ اربعہ کے اقوال مختصرا پیش کئے جاتے ہیں:۔

حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"اُتْرُكُوْا قَوْلــِى بِخَبَرِ الرَّسُوْلِ صلي الله عليه وسلم"

میرا وہ قول جو حدیث کے خلاف ہو اسے چھوڑ دو۔اور حدیث پر عمل کرو،ایسا ہی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"إذا قلت قولا ... أو أصلت من أصل فيه عن رسول اللهصلى الله عليه وسلم لخلاف ما قلت فالقول ما قال"

یعنی میرا کوئی اصول یا قول حدیث کے مخالف ہوتو اسے چھوڑ دو اور حدیث رسول کی اتباع کرو۔ایسا ہی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا ایک فرمان موجود ہے۔جس کے الفاظ یہ ہیں:۔

"مَا مِنْ أَحَدٍ إِلَّا يُؤْخَذُ مِنْ عِلْمِهِ وَيُتْرَكُ إِلَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"

"یعنی ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کہ اسکی باتیں مان لی جائیں سوائے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے۔"

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان بھی ملاحظہ فرمائیں:۔

"لا تقلدني ولا تقلد مالكًا ولا الشافعي ولا الأوزاعي ولا الثوري، وخذ من حيث أخذوا من الكتاب والسنة"

کہ میری اور مالک کی تقلید مت کرو تم بھی وہیں سے احکام لو جہاں سے انھوں نے لیے(یعنی کتاب وسنت سے) جب کبار ائمہ کے تمام اقوال اور مجتہدات کا ماننا امت کے لیے ضروری نہیں بلکہ ان کے لئے بھی کتاب وسنت سے تائید ضروری ہے تو ان کے مقلدین کے تفردات جو کتاب وسنت اور جمہور علماء امت کے خلاف ہوں انھیں آنکھیں بند کرکے کس طرح قبول کیا جاسکتاہے۔

2۔مولانا کوثر نیازی صاحب نے اپنے موقف کی تائید میں بلقیس کی حکمرانی کو بھی بطور دلیل پیش کیا ہے۔جواب میں ان کی خدمت میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی وہ وضاحت جسے انہوں نے اپنی تفسیر "بیان القرآن" میں سورہ نمل کی آیت" إِنِّي وَجَدتُّ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ "الخ" کی تفسیر کرتے ہوئے فرمائی ہے۔پیش کی جاتی ہے۔

"ہماری شریعت میں عورت کو بادشاہ بنانے کی مخالفت ہے پس بلقیس کے قصہ سے کوئی شک نہ کرے اول تو یہ فعل مشرکین کا تھا دوسرے اگر شریعت سلیمانیہ نے اس کی تقریر بھی کی ہوتو شرع محمدی میں اس کے خلاف ہوتے ہوئے وہ حجت نہیں،"بررسولاں بلاغ باشد وبس"

ایسا ہی انہوں نے آیت مذکورۃالصدر" الرِّجَالُ قَوَّامُونَ " کا ترجمہ اپنی تفسیر"بیان القرآن" میں مرد عورتوں پر حاکم ہیں،کیا ہے۔اختصار پیش نظر ہے۔ورنہ اس بارے میں مزید کچھ لکھاجاسکتاہے۔مولانا نیازی کے مزید اطمینان کے لیے،حضر ت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے استاد حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن کا ترجمہ اور فوائد بلفظہ نقل کرتے ہیں اور اس بات کا فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ فریقین میں سے کون سا فریق حق پر ہے۔ الْحَقِّ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ

" الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ....الخ "مردحاکم ہیں عورتوں پر،اس و اسطے کے بڑائی دی اللہ نے ایک کو ایک پر اور اس و اسطے کے خرچ کیے انہوں نے ا پنے مال!

مزید برآں فائدہ(3) میں فرماتے ہیں۔

"پہلی آیتوں میں مذکور تھا کہ مرد اور عورتوں کے حقوق کی پوری رعایت فرمائی گئی اگر رعایت حقوق میں فرق ہوتاتو عورتوں کو شکایت کا موقع ہوتا۔اب اس آیت میں مرد اور عو رت کے درجہ کو بتلاتے ہیں۔مرد کا درجہ بڑھا ہوا ہے عورت کے درجہ سے اس لیے فرق مدارج کے باعث جو احکام میں فرق کیا گیا وہ سراسر حکمت اور قابل رعایت ہوگا۔خلاصہ یہ ہے کہ مردوں کو عورتوں پر اللہ تعالیٰ نے حاکم اور نگران بنایا اس میں عورت اور مرد بتقاضائے حکمت ہرگز برابر نہیں ہوسکتے۔اور عورتوں کو اس کی خواہش کرنی بالکل بے جا ہے۔ مرد کے حاکم ہونے کی وجوہات دو ہیں۔اول بڑی اور وہبی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اصل سے بعضوں کو بعض پر یعنی مردوں کو عورتوں پر علم وعمل میں(کہ جن پر تمام کمالات کا مدار ہے )فضیلت اور بڑائی عطا فرمائی ہے جس کی تشریح احادیث میں موجود ہے۔

"دوسری وجہ جو کسبی ہے وہ یہ ہے کہ مرد ا پنی عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں اور مہر،خوراک اور پوشاک جملہ ضروریات کی کفالت کرتے ہیں مطلوب یہ ہے کہ عورتوں کو مردوں کی حکم برداری چاہیے"

درخانہ اگر کس است آں را ایک حرف بس است

جناب کوثر نیازی پر عورت کی سربراہی کو جائز ثابت کرنے کا بھوت سوار ہے۔اس لیے وہ قرآن مجید کی آیات کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ایسی فحش غلطیاں کر تے ہیں۔جس سے ان کی علمی لیاقت پر رونا آتا ہے۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ"علم نحو" کی ابجد سے بھی کورے اور ناآشنا ہیں۔جناب کوثر نیازی لغت کے حوالے سے" قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ " کا ترجمہ کفالت کرنے والا اور روزی مہیار کرنے والابتاتے ہیں اور اس کی تائید میں یوں ارشاد ہوتے ہیں کہ خود اسی میں" بِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ "کہہ کر واضح کردیا ہے کہ اس کا سبب وہ اخراجات(نان نفقہ) ہیں۔جو مرد عورت پر کرتاہے۔مولانانے اگر کسی دینی درسگاہ میں کسی استاز فن کے سامنے زانوائے تلمذ تہہ کیے ہوتے تو شاید ان تاویلات وتسویلات تک نوبت نہ آتی۔ان کی یہ نکتہ سنجی بالکل غلط ہے ۔کیونکہ قرآن مجید نے مردوں کی فضیلت کی اس آیت میں دو وجہیں بیان کی ہیں اور انہیں دو مستقل جملوں میں بیان کیا ہے۔پہلی وجہ وہبی ہے یعنی جس میں کسب کو دخل نہیں جو پہلے جملے " بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ " بیان کی گئی ہے۔اور دوسری وجہ کسبی ہے جسے وہ مال خرچ کرنے سے حاصل کرتاہے۔دوسری وجہ کو" بِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ " میں واؤحرف پر عطف لا کر دوسرے جملے بیان کیاگیا ہے۔حرف عطف جو تغایر پر دلالت کرتاہے اس کی واضح دلیل ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مرد کے عورت کے حاکم ہونے کی دو وجوہ ہیں جن میں اہم تر اور بڑی وجہ تو" بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ " اور دوسرے وجہ مرد کا عورت کے لئے کفیل ہونا ہے۔لیکن محترم نیازی صاحب نے اپنے مضمون میں آیت کی واضح صراحت کے باوجود جانتے بوجھتے ہوئے اصل وجہ کو توذ کر ہی نہیں کیا اور دوسری وجہ پر بحث شروع کردی۔اگر بات اس طرح ہوتی جیسا کہ نیازی صاحب نے سمجھا ہے تو عبارت یوں ہوتی( الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ) بالفرض نیازی صاحب کی بات کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو ایک ایسا شخص جو بالفعل متاھل(شادی شدہ) نہیں یا پھر رنڈوا ہے تو وہ قوامیت کا مستحق نہ ہوگا۔جبکہ اس بات کا کوئی بھی قائل نہیں۔جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے وہ قرآن کی آیت سے واضح اور الم نشرح ہے۔ نیازی صاحب نے منکرین حدیث کی روش پر چلتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ قرآن مجید میں کوئی ایسی آیت نہیں پائی جاتی جس میں عورت کو حکمران بنانے کی ممانعت کی گئی ہو اس کا جواب دو طرح سے دیا جاسکتا ہے ۔اگر تو سائل کا تعلق منکرین حدیث سے ہے تو ان سے دریافت کیا جائے کہ کیا گھریلو گدھے کا گوشت حلال ہے یاحرام؟۔۔۔اگر جواب نفی میں ہے تو پھر اس کی حرمت قرآن مجید کی کسی نص صریح سے ثابت کی جائے۔اور اگراثبات میں ہے تو پھر۔۔۔اس کے استعمال اور کھانے کو جائز سمجھا جائے جو کہ بالکل آراء ائمہ اور کتاب وسنت کے خلاف ہے۔

اگر سائل کاعقیدہ کتاب وسنت کے علاوہ سنت رسول کو بھی مستقل دوسرا ماخذ تسلیم کرنے کا ہے تو گدھے کی حرمت کی دلیل حدیث یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے:

" وإن ما حرم رسول الله صلي الله عليه وسلم كما حرم الله ، ألا لا يحل لكم الحمار الأهلي "

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حرام کردہ چیزوں کا حکم بھی قر آن مجید کی حرام کردہ چیزوں کی طرح ہے۔چنانچہ گدھے کی حرمت کا ذکر قرآن میں تو بالکل نہیں لیکن اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرمان میں حرام قرار دیا ہے۔

اس حدیث کو فی الحال یہیں ختم کر تے ہیں اور کتاب اللہ کے بعد اسلامی شریعت کا دوسرا ماخذ یعنی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر تفصیلا گفتگو کرتے ہیں نیازی صاحب نے یہاں بھی روشن اول منکرین حدیث کو خوش کرنے اور ان سے داد تحسین وصول کرنے کے لیے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جس انداز سے تحقیرکی ہے۔ایسا ر ویہ ایک عالم دین اورحدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنے کے ہرگز شایان شان نہیں ہے۔

الفاظ ملاحظہ ہوں!

"لے دے کر علمائے کرام ایک ہی حدیث پیش کرتے ہیں"اور پھر مضمون کے اختتام پر یوں ہرزہ سرائی کرتے ہیں۔"صاف صاف بات یہ ہے کہ جیسا کہ ا وپر کہا گیا ہے یا تو یہ قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے۔اس کے راوی مشکوک ہیں کیونکہ تاریخ اس کے خلاف شہادت دیتی ہے۔یا پھر فقط ایک پیشن گوئی جو صرف اس ایرانی قوم کے لیے تھی جس نے ایک خاص عورت کو حکمران بنایا تھا راوی نے"القوم" کو قوم بنا کر اسے ہمیشہ کے لئے عام کردیا"

سوال پیدا ہوتا ہے کہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم (جو کہ اہل زبان بھی تھے) معرفہ اورنکرہ میں تمیز نہ کرسکے اور انہوں نے ایک معرفہ کونکرہ کردیا لیکن آج آپ ان کی غلطی کی نشاندہی کررہے ہیں۔برین عقل ودانش بباید گریست،اناللہ وانا الیہ راجعون۔۔۔صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں۔

اب ذرا ٹھنڈے دل سے اس کا جواب ملاحظہ فرمائیں: یہ حدیث بخاری شریف کی ہے جسے تمام مسلمانوں کے نزدیک قرآن مجید کے بعد صحت کے اعتبار سے دوسرادرجہ حاصل ہے اور اس کی صحت پر امت کااجماع ہے۔آئیےعلامہ سیوطی کا ایک ارشاد(جو انہوں نے"تدریب الراوی" میں بخاری شریف کی صحت کے بارہ میں فر مایا ہے ) ہم بلفظہ نقل کرتے ہیں:

أول مصنّف في الصحيح المجرّد، صحيح البخاري، ثم صحيح مسلم. وهما أصح الكتب بعد القرآن. والبخاري أصحّهما، وأكثرهما فوائد.

صحیح مجرد میں پہلی تصنیف صحیح البخاری ہے پھر صحیح مسلم اور قرآن کے بعد یہ دونوں سب کتابوں سے اصح ہیں اور بخاری ان دونوں میں سے اصح ہے۔اور اس میں فوائد بھی زیادہ ہیں اسی طرح امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی شرح مسلم کے مقدمہ میں بھی یہی با ت کہی ہے:۔

اتفق العلماء رحمهم الله على أن أصح الكتب بعد القرآن العزيز الصحيحان البخاري ومسلم وتلقتهما الأمة بالقبول، وكتاب البخاري أصحهما وأكثرهما فوائد ومعارف ظاهرة وغامضة،

یعنی علماء کرام اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن عزیز کےبعد سب سے زیادہ صحیح کتابیں صحیح البخاری اور صحیح المسلم ہیں۔امت نے دونوں کو قبولیت سے اپنایاہے۔دونوں میں سے زیادہ صحیح کثرت فوائد کے لحاظ سے اور ظاہر وپوشیدہ معارف کے اعتبار سے صحیح بخاری ہے۔" امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ا پنی معرکۃ الآراء تصنیف حجۃ اللہ بالغہ جلد اول ص34 پر صحیحین کے بارے میں یوں اظہار خیال فرمایا ہے:۔

أما الصحيحان فقد اتفق المحدثون على أن جميع ما فيهما من المتصل المرفوع صحيح بالقطع وأنهما متواتران إلى مصنفيهما وأن كل من يهون أمرهما فهو مبتدع متبع غير سبيل المومنين

"یعنی تمام محدثین کا اس بات پر ا تفاق ہے۔کہ بخاری اور مسلم کی تمام مرفوع متصل حدیثیں قطعی طور پر صحیح ہیں اور یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک بطریق تواتر پہنچتی ہیں اور جو کوئی ان کی شان میں تحقیر یا گستاخی کرے گا وہ بدعتی ہے اور ایمان والوں کا راستہ چھوڑکر دوسری راہ پر چلنے والا ہے۔"

لہذا ان مقتدر حضرات کی رائے کے مقابلے میں روشن خیال پرفیسروں کی رائے کیا وقعت رکھتی ہے۔

گرنہ بنید بروز شپرہ چشم

چشمہ آفتاب راچہ گناہ

محترم نیازی صاحب اس کی سند پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔

" وَالْإِسْنَادُ كُلُّهُ بَصْرِيُّونَ"اس کے تمام ر اوی بصرہ کے رہنے والے ہیں اور اس روایت کا مکہ اور مدینہ کے لوگوں سے تعلق نہیں۔لہذا اس کی صحت(خاکش بدہن) مشکوک ہے۔ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ مولانا کا تعلق علوم دینیہ سے سطحی قسم کا ہے۔اس لیے وہ بلا غوروتامل منکرین حدیث کے فضول اور پھر اعتراضات کو نقل کردیتے ہیں۔پس یہاں" وَالْإِسْنَادُ كُلُّهُ بَصْرِيُّونَ "کا مفہوم صحیح بیان نہیں کیا گیا۔اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ حدیث ہذا کی سند کے تمام راوی بصرہ یعنی ایک ہی جگہ کے رہنے والے ہیں۔یعنی اس کی سند متصل ہے۔انقطاع کا کوئی شبہ نہیں۔اگر کسی روایت کو اس بناء پر مسترد کردیا جائے کہ اس کے روایت کرنے والے بصرہ سے تعلق ر کھتے ہیں تو اس اطلاق کاکوئی محدث بھی قائل نہیں۔ہاں جب مکہ اور مدینہ کے اور دوسرے شہر کے لوگوں کی روایت کردہ حدیث میں کسی قسم کا اختلاف پا یا جائے تو اس صورت میں مکہ ومدینہ کے رواہ کی بیان کردہ حدیث کو ترجیح ہوگی ورنہ اچھے بُرے لوگ تو ہر جگہ ہوتے ہیں۔

حسن زبصرہ بلال از حبش صہیب از روم

زے خاک مکہ ابو جہل این چہ بوالھبیت

اگر نیازی صاحب نے"تدریب الراوی" کا خود بنظر غائر مطالعہ کیا ہوتا اور حاشیہ میں مندرجہ ذیل عبارت کو بھی دیکھ لیا ہوتا تو کبھی اس حدیث کے صحت کا انکار نہ کرتے۔

"وأما أهل البَصْرة فلهم من السُّنَنِ الثابتة بالأسانيد الواضحة

ما ليس لغيرهم، مع إكثارهم "

کہ واضح اسانید کے ساتھ صحیح احادیث جس کثرت کے ساتھ اہل بصرہ سے مروی ہیں ان کے علاوہ اور کسی سے مروی نہیں"اور اسی صفحہ پر امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول بھی مذکور ہے۔

اتفق أهل العلم بالحديث على أن أصح الأحاديث ما رواه أهل المدينة, ثم أهل البصرة ثم أهل الشام.

"حدیث کے اہل علم کا اس پر اتفاق ہے کہ سب سے زیادہ صحیح وہ احادیث ہیں جو اہل مدینہ نے پھر اہل بصرہ نے اور ان کے بعد اہل شام نے روایت کی ہیں۔"

مزید یہ کہ" وَالْإِسْنَادُ كُلُّهُ بَصْرِيُّونَ"کا ترجمہ کرتے ہوئے بھی مولانا سے فحش غلطی سرزد ہوئی ہے۔لفظ "اسناد" بکر الہمزہ سند کا مترادف ہے۔بفتحۃ الہمزہ سند کی جمع ہے یعنی مختلف سندیں۔اب اس تفصیل کے بعد مولانا کی تحریر ملاحظہ فرمائیں۔ہم ان کے اس تغافل کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں،مولانا میدان صحافت کے شہسوار ہیں علوم متد اولہ کی چھوٹی چھوٹی اصطلاحات سے ان کی عدم واقفیت کوئی تعجب انگیز بات نہیں۔یہاں ان کے اصل الفاظ نقل کیے جاتے ہیں۔

"حدیث پر غور کرنے کے لیے دوسرا قابل غور پہلو یہ ہے کہ جن افراد نے یہ روایت بیان کی ہے یا حدیث کی اصطلاح میں جتنی اس کی اسناد ہیں ان سب کا تعلق بصرہ عراق سے ہے۔فتح الباری جلد ہشتم صفحہ 27 پر ہے۔ "وَالْإِسْنَادُ كُلُّهُ بَصْرِيُّونَ"اس کےتمام راوی بصرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔مکہ اور مدینہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں اسناد ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ ہے جس کا معنی "سند" ہوتا ہے لیکن نیازی صاحب کو اس اسناد یعنی ہمزہ کی زبر کے ساتھ بتارہے ہیں۔ہم اس بات کی دلیل میں(کہ اسناد بکر الہمزہ سند کے مترادف ہے) الفیہ عراقی کے وہ اشعار جس میں صحیح مرفوع احادیث کی تعریف بیان کی گئی ہے پیش کرتے ہیں:۔

الأول هو ما أتصل سنده بنقل العدل الضابط عن مثله إلى منتهاه من غير شذوذ ولا علة قادحة فتوذي

نیازی صاحب نے اپنے خیال میں اس حدیث کے لفظ"فلاح" سے مادی ترقی اور خوشحالی سمجھا ہے اور پھر انسانوں کی لکھی ہوئی تاریخ سے ثابت کیا ہے کہ کئی ایک مسلم اور غیر مسلم خواتین کی حکمران کا دور خوشحالی کا دور تھا اس لیے کیسے ممکن ہے کہ تاریخ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث یا پیشن گوئی کی مخالفت کرے۔اس ضمن میں ہماری گزارش یہ ہے کہ اولا تو قرآن وحدیث کے مقابلے میں تاریخ کے حوالے سے عورتوں کی حکمرانی کو پیش کرنا کسی صورت میں بھی مسلمان کے لیے درست طرز عمل نہیں۔ثانیاً جب کسی مسلمان کا کوئی عمل جسے کتاب وسنت کو تائید قابل قبول نہیں تو کسی غیر مسلم خاتون کی حکمرانی کو بطور نظیر پیش کرنا تو سوال گندم اور جواب چنا کے مترادف ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ حدیث میں مذکورہ"فلاح" سے در اصل للاح اخروی مراد ہے نہ کہ دنیوی فلاح! اگر بالفرض فلاح سے مادی خوشحالی بھی مراد ہوجائے جیسا کہ مولانا اور اس کے ہمنوا سمجھتے ہیں تو پھر انبیاء علیہ السلام سے لے کر ایمان والوں تک سب اس کی زد میں آئیں گے۔کیونکہ آج کے معروف معنی کے مطابق تو نہ صرف خیر القرون کا زمانہ بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دور بھی فلاح کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔کہ فلاح کے آج کے عمومی معنی کے لحاظ سے دنیوی آسائش وآرائش کا مہیا ہونا تو پہلی شرط ہے۔

اگر فلاح کے اس معنی کو سامنے رکھاجائے تو واقعہ یہ ہے کہ صحابہ کرام بھی دنیوی فلاح سے ہمکنار نہ ہوئے۔اس کے ثبوت کے لئے قرآن مجید کی دوآیات پیش کی جاتی ہیں۔

1۔ "وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ هَٰذَا الْقُرْآنُ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ "

"یہ قرآن مجید طائف اور مکہ کے کسی متمول اور خوشحال شخص پر کیوں نہیں اتارا گیا۔"

2۔ " لَا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلَادِ ﴿١٩٦﴾ مَتَاعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۚ وَبِئْسَ الْمِهَادُ"

"تجھے کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا فریب میں نہ ڈال دے، (196) یہ تو بہت ہی تھوڑا فائده ہے، اس کے بعد ان کا ٹھکانہ تو جہنم ہے اور وه بری جگہ ہے"

جب عام حالا ت میں مولانا صاحب عورت کی سربراہی کا جواز کتاب وسنت سے ثابت نہ کرسکے تو اس کے جواز کے لیے نظریہ ضرورت کا سہارا لینا پڑا۔اور فقہ حنفی کے ایک مشہور عالم شیخ الاسلام علامہ خیر الدین رملی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک فتویٰ کا حوالہ دیا۔جونہایۃ المختاج فی شرح المنہاج ص248 پر مرقوم ہے۔جس میں عورت کی سربراہی کو بوقت ضرورت جائز سمجھا گیا ہے۔ہمارے خیال میں مولانا نے حوالہ جات ک ے نقل کرنے میں اکثر وبیشتر روشن خیال منکرین حدیث کی کتب پر اکتفاء کیا ہے۔اگر وہ خود اصل کتابوں کامطالعہ کرلیتے تو کبھی ایسی فاش غلطیوں کے مرتکب نہ ہوتے۔ہم پہلے مولانا کی عبارت بلفظہ نقل کرتے ہیں پھر اس کا جواب تحریر کریں گے۔

"گو اس زمانے میں بھی جواز کے رستے نظریہ ضرورت کے تحت نکال لیے گئے تھے مثال کے طور پر مشہور حنفی عالم حضرت شیخ الاسلام علامہ خیر الدین رملی نے فتویٰ دیا کہ اگر لوگوں کے لئے ناگزیر ہوجائے کہ ان کی حکمران عورت ہوتو ضرورت کے تحت وہ حکمران بن سکتی ہے۔

(نہایۃ المحتاج فی شرح المنھاج ص248)

لیجئے! اب ذرا تفصیل سے اس کا جواب ملاحظہ فرمائیں:

جناب محترم ! ہمارا اور آپ کا اختلاف تو عام حالات میں اسلامی تعلیمات یعنی کتاب وسنت کی روشنی میں عورت کی حکمرانی ہونے کے جواز اورعدم جواز کا ہے۔ہم کتاب وسنت اورجمہور علمائے امت کے فیصلوں کی ر وشنی میں عورت کی حکمرانی کو قطعاً حرام اور ناجائز سمجھتے ہیں جبکہ آپ اور آپ کے ہمنوا شرذمہ قلیلہ اسے جائز سمجھتے ہیں۔

نظریہ ضرورت جس کا آپ نے اپنے سابق پیشوا سید ابو الاعلیٰ مودودی کو بھی مشورہ دیا تھا کہ "کہ حرام ابدی اور غیر ابدی" کی تقسیم کو اگر تسلیم کرلیاجائے توشریعت ایک مذاق بن کر رہ جائے گی۔ہم بھی آپ کو نظریہ ضرورت کے تحت کسی حرام کو حلال بنانے کا یہی جواب دیتے ہیں کہ اگر آپ کے نظریہ ضرورت کو مان لیا جائے تو ایک بے دین اور لامذہب بھی اپنا اُلو سیدھا کرنے کے لیے اپنی بوگس نظریہ ضرورت کے تحت خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حرام کردہ چیزوں کو حلال اور جائز بنادے گا۔

پھر علامہ خیر الدین رملی حنفی رحمۃ اللہ علیہ کا حوالہ عورت کو سربراہ بنانے کے بارے میں قطعاً نہیں ہے۔آپ یا تو اصل کتاب کا مطالعہ نہیں کرسکے یا پھر قصداً دھوکہ دے رہے ہیں۔علامہ کی عبارت کا تعلق تو عورت کو قاضی بنانے کے سلسلے میں ہے۔جسے انہوں نے باب القضاء کے ذیل میں ذکر فرمایا ہے۔چنانچہ نہایۃ المحتاج فی شرح المنھاج جلد8سے دو حوالے نقل کئے جاتے ہیں جس سے جناب کوثر نیازی کے غلط مفروضے کی حقیقت واضح ہوجائے گی۔

ولو ابتلي الناس بولاية امراة اوقن او اعمي في ما يضبطه نفذ قضاءه للضرورة كما افتي به الوالد رحمه الله والحق به ابن السلام عبد السلام الصبي بالمراة ونحوها لاكافر

"اگر لوگ عورت یا غلام یا اندھے کے ان معاملوں میں قاضی بنانے کی آزمائش میں ڈالے جائیں جن میں ان کا حکم چلتاہے ۔تو ضرورت کے تحت اس کے فیصلہ کو جاری کیا جائے گا۔میرے والد نے یہی فتویٰ دیا ہے اور ابن السلام عبدالسلام نے عورت کے ساتھ اس کی مثل اور بچے کو بھی ملادیا ہے لیکن کافر قاضی نہیں بن سکتا"

اگر مولانا کو عنوان اور معنون کا فرق پیش نظر ہوتا تو کبھی یہ دعویٰ نہ کرتے۔اسی طرح دوسری عبارت(جو شرائط القاضی کے تحت ذکر کی گئی ہے) کے الفاظ بھی ملاحظہ فرمائیں:

فلا تولى امرأة لنقصها ، ولاحتياجالقاضي لمخالطة الرجال وهي مأمورة بالتخدر ولا خنثى في ذلك كالمراة لخبر البخاري وغيره لن يفلح قوم ولوا أمرهم امرأة

عربی عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ قاضی کے لئے ایک شرط مرد ہونا بھی ہے کیونکہ عورت دو وجوہ سے قاضی نہیں بن سکتی۔ایک وجہ تو اس کا ناقص العقل ہونا ہے۔اور دوسری وجہ یہ ہے کہ قاضی کو مردوں سے میل جول رکھنا ہوتا ہے ۔ جبکہ عورت کو پردے میں رہنے کا حکم دیاگیا ہے۔

اس کی دلیل بخاری شریف کی وہ روایت ہے جس کامفہوم یہ ہے:

"کہ وہ قوم کبھی فلاح سے ہمکنار نہ ہوگی جس نے عورت کو اپنا سربراہ بنایا۔

ان دونوں حوالوں سے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس ساری بحث کا تعلق تو عورت کے قاضی بن جانے کی صورت میں ہے۔ نہ ملک کی حکمران بن جانے کی صورت میں کہ جس کی حرمت اور ممانعت پر امت کا اجماع ہے۔اور پھر یہاں تو بات نظریہ ضرورت کی بھی نہیں بلکہ اسلام کی بنیادی تعلیم کی ہے۔ہنگامی حالات کو عام حالات پر قیاس کرنا ان لوگوں کا شیوہ ہے جو احکام شریعت میں تدبر سے کام نہیں لیتے اگر پاکستان کے موجودہ آئین کے حوالے سے جواز کی بات کی جاتی تو شاید ہم اس پر خامہ فرسائی نہ کرتے۔جب شریعت کے حوالے سے اس کےجواز کے لئے دلائل کشید کئےجاتے ہیں۔اور اگر کتاب وسنت سے اس کے جواز کی سند نہ مل سکے تو پھر حرام اور ممنوع چیز کو جائز اور حلال بتانے کے لئے نظریہ ضرورت جیسے فرسودہ خیال کا سہارا لیا جائے۔تواس وقت علمائے حق پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ کتاب وسنت کی روشنی میں اس کا حل پیش کریں۔بحث کے اختتام سے قبل ہم اپنے دلائل کا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔تاکہ قارئین اس مسئلے کو باآسانی سمجھ سکیں اور انہیں کسی قسم کی دقت پیش نہ آئے ہماری سب سے پہلی دلیل قرآن مجید کی سورہ نساء کی آیت" الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ " ہے جس میں(باتفاق مفسرین) ملک کی حکمرانی صرف مردوں کےلئے مختص کی گئی ہے۔اسلام نے عورتوں کو چند وجوہ کی بناء پر ملک کی سربراہی کا مکلف نہیں بنایا۔جس کی تفصیل پہلے بیان ہوچکی ہے۔

دوسری دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان جسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان الفاظ کے ساتھ صحیح بخاری میں روایت کیا ہے کہ کوئی قوم فلاح سے ہمکنار نہ ہوگی جس نے عورت کو اپناحکمران بنایا۔یہ حدیث بخاری شریف کی ہے جس کی صحت پر تمام امت کا اجماع ہے۔بلکہ قرآن مجید کے بعد صحت کے اعتبار سے اسے دوسرا درجہ حاصل ہے۔جس کی وضاحت امام نووی،امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اور امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے اقوال سے عیاں ہے۔ان کے مقابلے میں زمانہ حال کے چند روشن خیال مفکرین اسلام کی جرح وقدح کا کوئی اعتبار نہیں۔تاریخ اسلام میں عورت کی حکمرانی کے جواز پر ایک مثال بھی نہیں ملتی۔ائمہ اربعہ کے علاوہ فقہ جعفریہ میں بھی عورت کی حکمرانی کا ثبوت نہیں ملتا۔جس کا واضح اور بین ثبوت یہ ہے کہ جنوری 1951ء میں تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام نے متفقہ طور پر پاکستان کے لئے جو دستوری سفارشات مرتب کرکے پیش کی تھیں۔اس میں مملکت خداداد پاکستان کے سربراہ کے لیے مسلمان مرد کا ہونا ضروری قرار دیا تھا۔اور جس میں اہل سنت کے علاوہ شیعہ حضرات کے مجتہدین مفتی جعفر حسین مجتہد اور مفتی حافظ کفایت حسین مجتہد بھی شامل تھے۔

اس موضوع پر ہماری ایک جامع کتاب زیر تصنیف ہے۔جس میں عورت کی حکمرانی کا جواز ثابت کرنے والوں کا عموماً اور ماہر قانون دان ایس ایم ظفر کے مضمون عرض دعویٰ اور جواب دعویٰ،پروفیسر رفیع اللہ شہاب اور پروفیسر رحمت اللہ طارق کی کتاب عورت اور مسئلہ امارت کا خصوصاً محاسبہ کیاگیا ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق بات سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین!