امام نسائی اور سنن نسائی

(215تا303ھ)


ابو عبدالرحمٰن ،احمد بن شعیب بن علی بن سنان بن بحر الخرسانی ،النسائی صاحب "السنن"

"نساء"کی طرف نسبت:

خراسان کا ایک شہر ہے جو"سرخس "سے دودن کی مسافت پر واقع ہے۔ ابن خلکان لکھتے ہیں ۔

وهي مدينة بخراسان خرج منها جماعة من الاعيان

(الوفیات ج1ص66،البلدان68نیز بستان المحدثین)

یعنی "نساء خراسان کا مشہور شہر ہے جہاں سے بہت سے ارباب فن مشہور ہوئے ہیں " امام نسائی بھی اس کی طرف ہی منسوب ہیں ۔

ولادۃ ونشاۃ :۔

امام موصوف تقریباً215ھ کو پیدا ہو ئے ان کا قول ہے ۔( تہذیب التہذیب (ج8ص398۔321)

شبه أن يكون مولدي في سنة 215ھ

موصوف کی ابتدائی تعلیم کے متعلق کچھ معلوم نہیں ہو سکا تاہم اس دور میں خراسان کا علاقہ علم وفن کا مرکز تھا بہت سے ارباب فضل و کمال موجود تھے اس لیے قیاس یہی چاہتا ہے کہ موصوف کی ابتدائی تعلیم بھی یہیں پر ہوئی ہو گئی علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں سفره في طلب العلم.

یعنی بچپن میں علم کا شوق دامن گیرہو گیا تھا (النبلاء 14/120)

سماع حدیث کے لیے رحلہ اولیٰ :۔

محدثین نے طلب حدیث کے لیے رحلت کا ضابطہ مقرر کیا ہے یعنی یہ کہ طالب علم پہلے اپنے اہل بلدہ سے حدیث حاصل کرے اس کے بعد سفر کرے اور جو حدیث حاصل نہیں ہو ئی اسے حاصل کرنے میں کو شش کرے۔

خطیب بغدادی رحلت کے مقاصد بیان کرتے ہو ئے لکھتے ہیں ۔

طلب حدیث کے لیے سفر سے دو مقصد ہو تے ہیں ۔

(الف)"علواسناد"،"اور قدم سماع "کا حاصل کرنا

(ب)حفاظ حدیث سے ملا قات اور ان سے مذاکرہو استفادہ یہ دونوں چیزیں اگر اپنے شہر میں حاصل ہو جا ئیں تو سفر کی ضرورت نہیں ہے۔( الجامع لا خلاق الراوی والسامع)

چنانچہ امام نسائی نے بھی انہی دو مقاصد کوحاصل کرنے کے لیے طلب حدیث کے لیے سفر کئے اور سب سے پہلے قتیبہ بن سعید البغلانی کی خدمت میں حاضر ہوئے"بغلان"۔۔۔بلخ کے نواحی میں ایک پرفضا قصبہ ہے بعض نے اس کا نام "طخارستان"بھی نقل کیا ہے "بلدان"میں ہے ۔

"وهي أنزه بلاد الله"

کہ یہ بہت ہی پاکیزہ شہرہے۔اور علامہ سمعانی نے الانساب میں لکھا ہے (بلدة بنوا حي بلخ)اور میرا خیال ہے کہ طخارستان سے قریب ہے اور اس شہر کو آب و ہوا کے لحاظ سے نہایت صحت افزا مقام حاصل ہے۔ محدث کبیر قتیبہ بن سعید بن جمیل بھی اسی شہر میں سکونت پذیر تھے۔

قتیبہ بن سعید محدث (لمتوفی 240ھ):۔

مو صوف بڑے پایہ کے محدث تھے امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو "شیخ الحفاظ"اور محدث خراسان "کے لقب سے یاد فرمایا۔( تذکرہ 446ج2،النبلاء 11/13) ابن عدی لکھتے ہیں ۔

"ان کا اصل نام یحییٰ ہے اور قتیبہ لقب ابن مندہ نے ان کا اصل نام علی بتایا ہے آئمہ خمسہ نے ان سے روایت کی ہے اور ابن ماجہ ان سے امام ذھلی کے واسطہ سے روایت کرتے ہیں ۔ان کوامام مالک ،لیث بن سعد ،ابن لہیعہ رشدین بن سعد اور ان کے ہم طبقہ سے شرف روایت حاصل ہے اور ابو العباس محمد بن اسحاق السراج سے آخری راوی ہیں ۔امام احمد فرماتے ہیں ۔

"وهو أخره من سمع ابن لهيعة"

امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ میں نے ان کا مستقل ترجمہ لکھا ہے اور تقریباً اسی(80)احادیث ان کے عوالی سے ذکر کی ہیں ۔( النبلاٰ 11/14)

امام بخاری نے ان سے 308اور امام مسلم نے 668احادیث بیان کی ہیں ۔( تہذیب 358۔361/8)

امام نسائی نے 230ھ میں ان کی طرف رحلت کی اور ایک سال کا مل ان کے پاس قیام کیا لیکن ابن لہیعہ کی کتاب سے روایت میں احتراز کیا اور سنن میں ان سے کو ئی روایت درج نہیں کی۔ نیز امام نسائی نے قتیبہ بن سعید سے جمع فی السفر والی حدیث روایت نہیں کی۔کیونکہ قتیبہ اس حدیث کے روایت کرنے میں لیث سے منفرد ہے اور آئمہ حدیث کی ایک جماعت نے اس حدیث کو معلول قرار دیا ہے ۔ہاں ابو داؤد نے(حدیث نمبر :1220)باب الجمع بین الصلاتین میں اور ترمذی نے یہ حدیث قتیبہ سے روایت کی ہے ۔امام ترمذی لکھتے ہیں ۔

"وَحَدِيثُ مُعَاذٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، تَفَرَّدَ بِهِ قُتَيْبَةُ لَا نَعْرِفُ أَحَدًا رَوَاهُ عَنِ اللَّيْثِ غَيْرَهُ"

امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ علوم الحدیث "میں لکھتے ہیں ۔

"هذا حديث رواته أئمة ثقات، وهو شاذ الإسناد والمتن"

تاہم یہ حدیث معلول نہیں ہے۔( معرفتہ علوم الحدیث ص120۔119) اور معاذ بن جبل سے ایک دوسرے طریق سے بھی مروی ہے۔( ابو داؤد رقم1208)لیکن اس میں بھی جمع التقدیم کے لفظ کے ساتھ نہیں ہے اور آئمہ حدیث نے استغرب کی وجہ سے اس کو روایت کیا ہے اور جمع التقدیم کی قید کے ساتھ صرف قتیبہ نے روایت کی ہے جو کہ ابو داؤداور ترمذی کے علاوہ مسند احمد 241/5اور دارقطنی393اور بیہقی163۔3،میں ہے ۔

علاوہ ازیں امام نسائی نے خراسان ،حجاز ،مصر ،عراق ،جزیرہ ،شام اور مخورکی طرف بھی رحلت کی اور مشاہیر سے حدیث کا سماع کیا پھر مصر کو اپنا وطن بنا لیا اور زقاق القندیل میں مقیم ہو گئے جو امر ء کی آبادی تھی اور ہر لحاظ سے پر رونق محلہ تھا۔

شیوخ کی فہرست:۔

علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے شیوخ کی فہرست لکھی ہے مگر ان میں نو شیوخ وہ ہیں جو آئمہ ستہ کے مشترکہ شیوخ شمارہوتے ہیں (1)محمد بن بشار بندار(252ھ)(2)محمد بن مثنی ابو موسیٰ (252ھ)۔۔۔(3)زیادہ بن یحییٰ الحمانی (254ھ)۔۔۔(4)عباد بن عبد العزیزالقبری (364ھ)

(5)ابو حفص بن علی الفلاس

6۔ابو سعید الاشج عبد اللہ بن سعید الکندی

7۔محمد بن معمر القیسی البحرانی (256ھ)

8۔یعقوب بن ابراہیم دورقی

9۔نصر بن علی الجہضمی (250ھ)( مقدمہ شرح ترمذی الاحمد محمد شاکر ،تذکرہ الحفاظ 446/2النبلاء 127/14)

تلامذہ :۔

علامہ مزی "تہذیب الکمال "میں لکھتے ہیں امام نسائی سے خلق کثیر نے حدیث اخذکی ہے اور موصوف روایت میں مشہور معروف تھے لیکن ہم مختصر طور پر چند ایک اہم تلامذہ کے اسماء درج کرتے ہیں جن میں سنن النسائی الکبری اور المجتبیٰ کے رواۃ بھی شامل ہیں (1)المحدث الامام ابو علی حسن بن الخضر بن عبد اللہ الاسیوطی (361ھ)

امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔( تذکرہ 920/3والنبلاء 93/16)

"يروي عن النسائي سننه وعن جماعة مات سنة261ھ"

اور قرآءت احمد بن نصر نیساری المقری اور ابو شعیب صالح بن زیاد السوسی سے حاصل کی ہے۔

اور تاریخ اسلام میں ان کے کبار شیوخ مذکورہیں اسحاق بن راہویہ،ہاشم بن عمار عیسیٰ بن حماد ،حسین بن منصور السلمی،عمر وبن زراۃ ،محمد بن النفرالمروزی ،سویدبن نصر ابو کریب وغیرہم۔

لیکن انساب سمعانی اور یاقوت بلدان میں سن وفات(372ھ) درج ہے تاہم پہلا قول صحیح ہے۔

(2)ابن الاحمر ابو بکر محمد بن معاویہ بن عبد الرحمٰن الاموسیٰ القرطبی المعروف بابن الاحمر المتوفی (358ھ) علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔( النبلاء 68/16وراجع الترجمۃ : الانساب 263/1،البلدان العبر 324/2حسن المحاضرہ 370/1النبلاء 93/16)

وارتحل سنة خمس وتسعين ، فسمع من أبي خليفة الجمحي بالبصرة ، ومن إبراهيم بن شريك ، ومحمد بن يحيى المروزي ، وجعفر الفريابي ، ببغداد ، ومن أبي عبد الرحمن النسائي ، وأبي يعقوب المنجنيقي ثم رجع إلى الأندلس ، وجلب إليها " السنن الكبير " للنسائي ، وحمل الناس عنه .

(3)ابن حبان علامہ حافظ شیخ خراسان ابو حاتم محمد حبان البستی الدارمی بہت سی کتب کے مصنف ہیں علامہ لکھتے ہیں ۔( النبلاء 93/16راجع الترجمۃ: وتذکرہ 920/3۔وشذرات 16/3النبلاء 160/16النجوم 128/4تاج العروس (مادہ"حی")والعبر342/2،البدایہ والنھار160/16)

وأكبر شيخ لقيه أبو خليفة الفضل بن الحباب الجمحي ، سمع منه بالبصرة ، ومن زكريا الساجي ، وسمع بمصر من أبي عبد الرحمن النسائي

ان کی تالفات میں (الانواع والتقاسيم...التاريخ"اور"كتاب الضعفاء)مشہور ہیں اور دوہزار سے زیادہ شیوخ سے روایت کا شرف حاصل ہے۔

(4)ابن حیویہ ۔الشیخ الامام المعمر الفقیہ قاضی ابو الحسن محمد بن عبد اللہ بن زکریا بن حیویہ النیساپوری ثم المصری ۔انھوں نے امام ابو عبد الرحمٰن نسائی سے سماع کیا اور عبد الغنی الحافظ علی بن محمد الخراسانی الفیاس اور دارقطنی نے ان سے اخذ کیا ۔(366ھ)میں فوت ہو ئے ۔( الاکمال 360/2العبر 342/2حسن المحاضرہ370شذرات 57/3تاج العروس مادہ (حی ) النبلاء 160/16)

(5)ابو العباس ابیض بن محمد حارث بن ابیض بن اسود بن نافع القرشی الفہری المصری :امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ ان کے متعلق لکھتے ہیں ۔( راجع النبلا ء 318/16۔وایضاًالعبر4/3حسن المحاضرہ 370/1شذرات 88/3)

"أخر من مات من اصحاب النسائي كان عنده مجلسان فقط"

ان سے حافظ عبدالغنی اور یحییٰ بن علی الطحان اور ایک جماعت نے روایت کی ہے سند 293ھ میں پیدا ہو ئے اور سنہ377ھ میں فوت ہو ئے انھوں نے اپنے والد محمد بن ابیض ابو محمد بن النحاس سے بھی روایت کی ہے۔( راجع الترجمۃ : تذکرہ الحفاظ 959/3العبر355/2میزان اعتدال الوافی 16/12،غایۃ النہار یہ 2120/طبقات الحافظ 384النجوم الزاہرہ 139/4حسن المحاضرہ 325/1شذرات 113/3،71/3والنبلاء 280/16)

(6)الحسن بن رثیق ابو محمد العسکری المصری محدث اور مسند مصر تھے سنہ 283ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ 370ھ میں فوت ہوئے ۔علامہ ذہبی لکھتے ہیں ۔

"وسمع من أبي عبد الرحمن النسائي فأكثر وطال عمره ، وعلا إسناده ، وكان ذا فهم ومعرفة . . وكان محدث مصر في زمانه "

(7)ابو بکر احمد بن اسماعیل البناء ابن المھندس سمیع الدولابی وغیرہ ۔۔۔توفی سنہ 385ھ آپ کے بارے میں ہے۔

وكان مكثرا ،وأخطأ من قال : إنه سمع من النسائي . روى عنه : عبد الغني الحافظ ، ويحيى بن الحسين العفاص ، وعبد الله بن مسكين ، وعبد الرحمن بن مظفر الكحال ، وعدد كثير . وانتقى عليه الحفاظ . وكان ثقة خيرا تقيا . عاش تسعين سنة (النبلاء 463/16۔العبر27/3تاریخ اسلام المحاضرہ 370/10۔شذرات 113/3)

(8)ابو عبد اللہ البیانی محمد بن قاسم بن محمد بن سیار الامام الحافظ الکبیر امام ذہبی لکھتے ہیں۔(النبلاء254/16۔تاریخ علماء الاندلس 46/2،العبر 209/2شذرات 3ہ9/3،)

سمع اباه وبقي بن مخلد ومحمد بن وضاح وفي رحلته من ابي عبد الرحمان نسائي وغيرهم قال ابو محمد لم ادرك بقرطبة من الشيوخ اكثر حديثا منه

علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ مزید لکھتے ہیں میں کہتا ہوں کہ وہ عالم ثقہ اور راس فی الشروط و عقد الوثائق تھے۔( دیکھئے تذکرہ الحفاظ 845/3)

(9)ابن الحداد ۔ الامام العلامہ الثبت شیخ الاسلام ابو بکر محمد بن احمد بن محمد بن جعفر الکنانی المصری الشافعی ۔ابن الحداد صاحب "کتاب الفروع "فی المذہب سنہ 264ھ۔ میں مولود ہو ئے علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔( النبلاء 445/15،وراجع :الانساب 71/4والمنتظم 379/6وفیات 197/4تذکرۃ الحفاظ 899/3طبقات الشافعیہ 79/3البدایہ 220/11النجوم الزاہرہ 313/3شذرات 368/2)

وسمع أبا الزنباع روح بن الفرج ، وأبا يزيد يوسف بن يزيد القراطيسي ، ومحمد بن عقيل الفريابي ، ومحمد بن جعفر بن الإمام ، وأبا عبد الرحمن النسائي ، وأبا يعقوب المنجنيقي ، وخلقا سواهم

ولازم النسائي كثيرا ، وتخرج به ، وعول عليه ، واكتفى به ، وقال : جعلته حجة فيما بيني وبين الله تعالى ، وكان في العلم بحرا لا تكدره الدلاء ، وله لسن وبلاغة وبصر بالحديث ورجاله

ان کی بعض تالیفات بھی مشہور ہیں "کتاب ادب القاضی "( فی التذکرہ "ادب القضا")چالیس اجزاء میں ہے۔

اور "کتاب الفرائض "ایک سو جز کے قریب ہے۔ (محدثین کے عرف میں ایک جزء تقریباً 20ورق )اسحاق بن راہویہ ان کو الشافعی الامام کے لقب سے یاد کرتے ہیں جس روز المزنی صاحب الشافعی فوت ہو ئے اسی روز ابن الحداد پیدا ہو ئے ۔( توفی المزنی سنہ 2634،طبقات 93/2) امام دارقطنی کہتے ہیں ۔ابن الحداد كثير الحديث، لم يحدث عن غير النسائي، وقال: رضيت به حجة بيني وبين الله.( طبقات الشافعیہ للسبکی 81/3)

امام نسائی کی کتاب خصائص کے راوی ہیں ابن الحدادکا بیان ہے کہ میں ابن الاخشید ملک مصر کی مجلس میں گیا تو اس نے مجھ سے سوال کیا۔ابو بکر عمر اور علی میں سے افضل کو ن ہے۔؟

تو میں نے جواب دیا ۔(اثنين حذاء واحد)یعنی دو ایک کے مقابلہ میں ہیں اس پر اس نے دوبارہ سوال کیا : ايما افضل ابو بکر اوعلی؟

تو میں نے کہا: إن كان عندك فعلي، وإن كان برا فأبو بكر،( برا:علانیہ)

تو اس پر وہ ہنس پڑا ۔آپ رحمۃ اللہ علیہ سنہ 345ھ یا 344ھ میں فو ت ہو ئے۔

(10)عبد الکریم بن ابی عبد الرحمٰن النسائی ۔( تہذیب التہذیب ج1/ص37)یہ امام نسائی کے صاحبزادےہیں۔

(11)علی ابن ابی جعفراحمد الطحاوی(351ھ)( تہذیب التہذیب ج1/ص37) یہ علماء حنفیہ سے ہیں اور ابو جعفر الطحاوی صاحب شرح معانی الاثار کے صاحبزادےہیں۔

مذکورہ بالا رواۃ وہ ہیں جن کے نام ذکر کرنے کے بعد حافظ ابن حجر لکھتے ہیں(راجع الکمال لا بن ماکولا 501/4الانساب 186/7،تذکرۃ الحفاظ 939طبقات ،39/3الاعلان بالتوبیخ 141)

"هولاء رواة كتاب السنن"

(12)ابن السني(النبلاء 656/16حاشیہ تہذیب الکمال 328/1) ان میں السنی ابو بکر احمد بن محمد بن اسحاق الھاشمی الجعفری الدینوری کو بھی شامل کر لیا جا ئے تو کل رواۃ 12ہو جا تے ہیں ۔ابن السنی نے اولاابو حنفیہ الجمی سے سماع کیا جو بقول ذہبی ان کے بڑے شیخ ہیں پھر انھوں نے امام نسائی سے السنن"کا سماع کیا اور تصنیف و تالیف میں مشغول ہو گئے ان کی کتاب "الیوم واللیلہ"مشہور تر کتاب ہے اور اذکار میں کا مل کتاب سمجھی جا تی ہے اور نسائی کتاب "الیوم اللیلہ"سے عمدہ شمار ہو تی ہے ۔امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔

"وَهُوَ مِنَ الْمَرْوِيَّاتِ الْجَيِّدَةِ."

پھر ابن السنی نے امام نسائی سے سماع کے بعد "السنن "کو مختصر کیا جس کا تذکرہ امام نسائی کی تالیفات میں ہو گا اور بقیہ رواۃ السنن کی تصریح ملتی ہے اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ان کا ذکر کیا ہے ۔وہ "السنن "کے رواۃ ہیں کیونکہ "المجتبیٰ"کے نام نسائی کی تالیف ہونے میں اختلاف ہے۔

اضافہ :۔

یہ وہ رواۃ "السنن "ہیں جن کا علامہ مزی اور پھر حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے مگر ایک راوی وہ ہے جس کا علامہ مزی یا حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ میں سے کسی نے ذکر نہیں کیا اور وہ ہے مسعود بن علی بن الفضل الیحانی ان کی کنیت ابو القاسم ہے مصر میں امام نسائی سے ان کی تاریخ کا سماع کیا اور پھر بعد میں السنن کا چنانچہ عزالدین ابن الاثیر لکھتے ہیں ۔

روي عن ابي عبدالرحمان النسائي السنن له

اور علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے "المشتبہ" میں ان کو ذکر کیا ہے اور لکھا ہے۔

الجباني بالتثقيل والفتح نسبة بجانة ومنها مسعود بن علي الجباني حمل عن النسائي السنن

السنن کی روایت :۔

اب ہم السنن کی روایت اور سند کو بیان کرتے ہیں جو شاہ ولی اللہ سے ابن السنی تک مذکور ہے واضح رہے کہ ہمارے ہاں معروف ابن السنی کی روایت ہے جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں ۔

قاضی ابو نصرالکسار:۔

احمد بن الحسین بن محمد بن عبد اللہ بن بران الدینوی ۔۔۔علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔

سمع سنن النسائي المختصر من الحافظ ابي بكر ابن السني وسماعه له منه في سنه وحدث به في جمادي الاولي سنه 433ھ

صاحب علم و جلالت اور صحیح السماع تھے اس کتاب کی تحریف سے تھوڑا عرصہ بعد فوت ہو گئے۔( النبلا ء514/17شرح القاموس(ک س ر)) پھر الکسار سے ابو محمد عبد الرحمٰن بن حمد الدونی نے روایت کی اور ان سے آخری راوی بالا جازہ مسند اصبحان ابو علی الحداد (متوفی 505ھ) ہیں ۔( النبلا ء514/17شرح القاموس(ک س ر))

ابو محمد الدونی :۔

ابو محمد الرحمٰن بن محمد بن الحسن بن عبد الرحمٰن الدونی(ترجمہ کے لیےتاریخ الاسلام 165/4دولا الاسلام 30/2،العبر2/4،النجوم الزاہرہ197/5شذرات ¾،النبلاء 239/19)

قریہ"دون"کے رہائشی تھے جو کہ ہمدان کے مضافات سے ہے ۔امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔

كان آخر من روى كتاب " المجتبى " من سنن النسائي ، وغير ذلك عن القاضي أبي نصر أحمد بن الحسين الكسار صاحب ابن السني

ان سے متعدد رواۃ نے روایت کی ہے لیکن اس اسناد میں ابن طاہر المقدسی مذکور ہیں ۔نیز ذہبی لکھتے ہیں ۔

قرأ عليه السلفي في سنة خمسمائة بالدون كتاب النسائي ،

سیرویہ قول (كان صدوقا متعبدا سمعت منه السنن )

اور سلفی نے کہا یہ سفیانی المذہب اور ثقہ تھے یعنی سفیان الثوری کے مقلد تھے سنہ 501ھ میں فوت ہو ئے۔

ابن طاہر المقدسی:۔

العالم المسند ابو زرعہ طاہر بن حافظ محمد بن طاہر بن علی الشیانی المقدسی ثم الرازی الحمدانی ش۔( العبر 192/4دول الاسلام 79/2،البدایہ 264/12شذرات217/4،

والنبلاء503/20)سنہ 481ھ کو"ری"میں پیداہوئے ابو منصور المقوی (م484ھ) مکی بن منصور الکرجی(م491ھ)( ابو الحسن مکی بن منصور بن محمد بن علان الکرجی المعتمد (491۔390)علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔الشیخ الرئیس المسند المعمر السلاوالرج والکرج بلدۃ من بلاد الجبل بین صبہان وھذان،حوالہ النبلاء 71/19والعبر331/3تبصیر المتبہ 1209/3،شذرات307/3،ان سے حسب ذیل محدثین نے روایت کی۔

1۔الفقیدہ ابو الحسن محمد بن عبد الملک للکرجی 2۔ابو الکارمساحمد بن محمد بن علان 3۔ابو زرعہ طاہر بن محمد المقدسی وابو ہ ابو طاہر السلفی سمع مسند الشافعی) اور ابی القاسم بن بیان سے سماع کیا۔اور متعدد (مرتبہ حج کی بغداد پہنچ کر حدیث بیان کرتے ۔

وتفرد بالكتب والأجزاء . وحدث ب " سنن " النسائي المجتبى عن عبد الرحمن بن حمد الدوني

ان سے عمعانی ابن الجوزی عبد الطیف بن القسیطی اور ابو بکر محمد بن سعید بن الخازن نے روایت کی۔ عمر بن علی القرشی کا بیان ہے۔

جب میں نے "سنن " ابن ماجہ کی قرآءت ابو زرعہ پر شروع کی تو انھوں نے کہا۔

الكتاب سماعي من أبي منصور المقومي ، وكان سماعي في نسخة عندي بخط أبي ، وفيها سماع إسماعيل الكرماني

قرشی کا بیان ہے کہ ہم نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ان کو واقعی مقومی سے "اجازہ" حاصل ہے پس ان پر اگر مقومی کا سماعا ً نہیں تو اجازۃًتو مقروء ضرور ہے۔

مقومی سے ابو زرعہ کو کتاب "فضائل القرآن "لابی عبید کا بھی اجازہ حاصل ہے جو سنہ 484ھ کا ہے لہٰذا انھوں نے چار سال کی عمر میں سماع کیا اور انہی کے طریق سے ہم کو مسند الشافعی المجتبیٰ اور سنن ابن ماجہ کا سماع حاصل ہے۔

سمعانی نے الذیل میں اس کا نام داؤد ذکر کیا ہے جومحض وہم ہے۔یہ ایک تاجر تھے علم کی واقفیت نہ تھی اس لیے انھوں نے اپنے باپ کی تمام کتب ابو العلاء العطار کے سپردکر دیں سنہ 536ھ میں فوت ہو ئے ۔ (ترجمہ کے لیے ۔العبر 192/4دولالاسلام 79/2۔البدایہ 264/12شذرات217/4، والنبلاء503/20)

ابو طالب القسیطی(641ھ):۔

ابو زرعہ سے قسیطی کو اجازہ حاصل ہے قیسطی کا نام اللطیف بن محمد بن حمزہ ہے جو حرانی بغدادی نسبت رکھتے ہیں سنہ 554ھ کو پیدا ہوئے۔متعدد محدثین سے سماع کیا جن میں ابن البطی اور ابو زرعہ بھی شامل ہیں اور ان سے ابو العباس ابن الشحنہ کو اجازہ حاصل تھا سنن ابن ماجہ کے سماع میں کچھ فوات ہے سنہ 641ھ کو فوت ہو ئے کچھ اجزاء میں تفرد حاصل تھا۔( العبر 168/5النجوم349/6والنبلاء 77/23)

الحجار(730ھ):۔

ابو العباس شہاب الدین احمد بن ابی طالب الصالحی (امعروف بان شحنہ ) انھوں نے صحیح کا سماع الزبیدی سے کیا اور ستر سے زیادہ مرتبہ بخاری شریف کادرس دیا اور مخلوق خدا نے ان سے استفعادہ کیا۔ ان کو بغداد سے 138شیوخ سے اجازہ حاصل ہے جو اصحاب عوالی اور مسندین ہیں ۔لہٰذا وہ اپنے وقت کے مسند الدنیا ہیں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔

عمر طويلا حتى ألحق الأحفاد بالأجداد(الدررالکا منہ 143/1شذرات 93/6،فہرس الفہارس252/1،البدایہ،

150/14)

حجار تک شاہ ولی اللہ کا سلسلہ سند یہ ہے ۔

حجار الزین زکریا 926ھ والسیوطی (911ھ) ان سے شیخ بن احمد الرملی (1004ھ) وعن الرملی الشیخ احمد شنادی (1028ھ)و عنہ الشیخ احمد قشاشی(1071ھ)

وعن القشاشی الشیخ ابرا ہیم الکردی (110ھ) وعن الکردی ابنہ الشیخ ابو طاہر الکردی (1145ھ) و عن ابی طار شاہ ولی اللہ الدھلوی (1176ھ)

امام نسائی ۔۔۔معاصرین کی نظر میں !

علم وفضل:۔

معاصرین میں سے بہت سے آئمہ اور قرآن نے امام نسائی کی تعریف کی ہے ۔ابن عدی لکھتے ہیں۔( النبلاء 131/14)

"میں نے فقیہ منصور اور احمد بن محمد بن سلامہ الطحاوی سے سنا کہ ابو عبد الرحمٰن النسائی امام من آئمہ المسلمین ہیں ۔"

ابو علی نیشاپوری نے بھی آپ کو "امام فی الحدیث بلامدافعہ "لکھا ہے ابو سعید ابن یونس اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں ۔

كان أبو عبد الرحمن النسائي إماما حافظا ثبتا

امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے کہاہے کہ ابن یونس کی بات نہایت صحیح ہے کیونکہ ایک تو وہ باخبر حافظ ہیں اور دوسرے امام نسائی سے انھوں نے استفادہ بھی کیا ہے اصل بات یہ ہے کہ تیسرصدی کے خاتمہ پر امام نسائی سے بڑا حافظ حدیث کو ئی نہیں تھا ۔وہ حدیث کے علل و رجال کو امام مسلم ابو داؤد اور ترمذی سے بھی زیادہ جانتے تھے۔بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ فنون حدیث میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے ہم پلہ سمجھے جاتے ۔آپ کے بارے میں ہی کہا گیا ہے۔

وهو جار في مضمار البخاري

ابو عبید اللہ ابن مندہ لکھتے ہیں ۔

الذين أخرجوا الصحيح وميزوا الثابت من المعلول والخطأ من الصواب أربعة : البخاري ومسلم ومسلم وأبو داود وأبو عبد الرحمن النسائي.

امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ میں نے دارقطنی کو متعدد مرتبہ یہ کہتے ہو ئے سنا۔

أبو عبدالرحمن مقدم على كل من يذكر. بهذا العلم من أهل عصره، وقال: النسائي أفقه مشايخ مصر في عصره، وأعرفهم. بالصحيح والسقيم، وأعلم بالرجال

امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ مامون مصری محدث (تلمیذ نسائی) سے روایت کرتے ہیں ۔کہ انھوں نے کہا۔ہم امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ طرسوس گئے وہاں پر آئمہ کی ایک جامعت جمع ہو گئی جن میں عبد اللہ بن احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ محمد بن ابرا ہیم رحمۃ اللہ علیہ مربع ابو الاذان اور کیلجہ(محمد بن صالح ابو بکر الانماطی)جیسے ممتاز علماء حدیث شامل تھے سب نے مشورہ کیا کہ شیوخ پر انتقاء امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کریں ۔چنانچہ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کے انتخاب کو سب نے قلم بند کیا۔

ورع و امانت :۔

حاملین حدیث میں سب سے ممتاز وصف ان کا ورع و امانت ہے کہ حدیث کے اخذ واداء میں پوری دیانت داری سے کام لیتے روایت و سماع سے پہلے یہ تسلی کر لیتے کہ شیخ میں عملی دیانت بھی پائی جاتی ہے یانہیں ؟کیا اس کا سماع صحیح ہے چنانچہ یہ چیزاس قدر اہم ہے کہ اس پر "آداب الشیخ والسامع"کے نام سے مستقل کتابیں لکھی گئیں ہیں ۔

امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کے ورع تقویٰ اور امانت و دیانت کے سلسلہ میں ایک واقعہ بہت مشہور ہے ابن الاثیر "جامع الاصول "میں لکھتے ہیں ۔( 196/1)

وكان ورعا متحريا. قيل: إنه أتى الحارث بن مسكين في زي أنكره، عليه فكان يجئ فيقعد خلف الباب ويسمع، ولذلك ما قال: حدثنا الحارث، وإنما يقول: قال الحارث بن مسكين قراءة عليه وأنا أسمع

امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کا اعتقاد و مذہب:۔

امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ جمہور محدثین اور اہل السنہ کے ہم عقیدہ تھے اور شیخین کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر مقدم رکھتے تھے۔لیکن اس کے باوجود امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ پر تشیع کی تہمت لگائی گئی حتیٰ کہ شام میں نواصب نے ان کو شہید کر ڈالا۔امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔( النبلاء 133،135/14)

وهو جار في مضمار البخاري ، وأبي زرعة ، إلا أن فيه قليل تشيع وانحراف عن خصوم الإمام علي ، كمعاوية وعمرو ، والله يسامحه

لیکن ذہبی کی یہ بات صحیح نہیں ہے بلکہ ایک غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ اصل قصہ یہ ہے امام نسائی دمشق گئےتو انھوں نےدیکھا کہ لو گ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہت منحرف ہو چکے ہیں تو انھوں نے اعتدال کی راہ بتانے کے لیے "خصائص علی" کتاب لکھی لیکن فضائل شیخین اور حضرت معاویہ پر کو ئی کتاب نہیں لکھی ۔امام موصوف کو جب یہ چیز پہنچی تو انھوں نے خود ہی حقیقت حال بیان کر دی اور کہا۔( النبلاء 129/14)

ﺩﺧﻠﺖ ﺩﻣﺸﻖ ﻭﺍﻟﻤﻨﺤﺮﻑ ﻋﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻬﺎ ﻛﺜﻴﺮ

ﻓﺼﻨّﻔﺖ ﻛﺘﺎﺏ ﺍﻟﺨﺼﺎﺋﺺ ﺭﺟﻮﺕ ﺃﻥ ﻳﻬﺪﻳﻬﻢ ﺍﻟﻠﻪ،

پھرانھوں نے "فضائل صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین پر کتاب لکھ کر اس تہمت کا ازالہ کر دیا اس پر کسی نے کہا کہ آپ معاویہ کے فضائل پرکیوں کتاب نہیں لکھتے تو امام نے جواب دیا۔

ﺃَﻱُّ ﺷَﻲْﺀٍ ﺃُﺧْﺮِﺝُ ﺣَﺪِﻳْﺚ: "ﺍﻟﻠَّﻬُﻢَّ ﻻ‌َ ﺗُﺸْﺒِﻊْ ﺑَﻄْﻨَﻪُ "؟(راجع للحدیث"مسند الطیالی"رقم 2688من طریق ابی عوانہ واخرجہ مسلم فی البروالصلہ(2604)بلفظ آخر عن شعبہ النظر انساب الاشراف 125/4وہوفی المسند 240/1،338،335،291من طریق شعبہ وابی عوانہ حدیث ابن عباس والنبلاء129/16)

تو سائل لا جواب ہو کر رہ گیا ۔

مزید وضاحت :۔

مسند علی اور الخصائص کی وجہ سے امام پر تشنیع کا الزام لگا یا جا تا ہے مگر یہ دونوں کتابیں "السنن الکبیر"کا حصہ ہیں اور السنن کے بعض نسخوں میں "الخصائص"بھی مو جو د ہے۔ لہٰذا یہ مستقل کتابیں نہیں ہیں ۔

حقیقت حال:۔

اصل بات یہی ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل کے بارے میں کو ئی صحیح حدیث نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ امام بخاری نے کتاب الفضائل میں باب ذکر معاویہ کے عنوان سے ترجمہ قائم کیاہے اور اس کے تحت حضرت ابن عباس کا قول ذکر کر دیا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک وتر پڑھا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مولیٰ کریب یہ دیکھ کر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور واقعہ بیان کیا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا۔

دعه فإنه قد صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم

اور ایک روایت میں ہے (فانه فقيه)تواس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی فضیلت کی طرف اشارہ کر دیا ہے کہ وہ صحابی ہیں ۔اورصحابی بھی فقیہ تو پھر وہ کسی مسند اور اثر کے بغیر ایک وتر کیسے پڑھ سکتے ہیں ۔معلوم ہواکہ صرف ایک وتر ثابت ہے۔ نفس مقالہ پر بحث کرتے ہو ئے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ایک وتر متعدداحادیث سے ثابت ہے لہٰذا ابن التین شارح بخاری کا یہ کہنا ہے۔

( ان الوترلم يقل به الفقهاء وقابل استناد)

نہیں ہے ہاں بہتر یہ ہے کہ پہلے دو رکعت پڑھ لے اور اس کا وصل ضروری نہیں ہے بلکہ فصل بھی جائز ہے۔

خیر یہ ایک جملہ معترضہ تھا حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ "تنبیہہ" کے عنوان سے لکھتے ہیں ۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت "باب ذکرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عنوان سے ذکر کی ہے اور فضیلت یا منقبت سے تعبیر نہیں کیا کیونکہ ترجمہ الباب کے تحت جو کچھ ذکر کیا ہے اس سے فضیلت میں نکلتی صرف حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحبت اور فقہ کی شہادہ مذکورہ ہے جو فی الجملہ فضیلت کے لیے کافی ہے ۔ابن ابی عاصم(احمد بن عمرو بن ابی عاصم بن مخلداشیانی ابو بکر بن ابی عاصم المتوفی287ھ مناہل البصرہ لہ نحو300مصنف1418/1۔سیراعلام النبلاء 420/13،تذکرۃ المفاظ 640/2۔البدایہ والنہاریہ 84/11۔اخباراصبہان 100/1،تہذیب ابن 1418/1بدران) نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب پر ایک کتاب لکھی ہے اسی طرح ابو عمر غلام ثعلب(محمد بن عبد الواحد ابو عمر المطرزالباوردی ،احد آئمہ للغہ صحب ثعلب الخوی زماناحتیٰ لقب غلام ثعلب ۔لہرسالہ فی غریب القرآن وفضائل وغرائب الحدیث علی مسند احمد توفی 345ھ دفیات الاعیان و تاریخ بغداد 356/2) اور ابوبکرنقاش(ابوبکر محمد بن الحسن الموصلی ثم البغدادی النقاش المتوفی سنہ 351ھ ضعیف فی الحدیث قال البرقانی : کل حدیث النقاش منکر قال الخطیب،فی حدیثہ مناکیر باسانید مشہور ہ راجع تاریخ بغداد202/2تا205تذکرۃ الحفاظ 908/3،طبقات للسبکی 145/3،غایۃ النہاریہ 119/2والمیزان للذہبی وللسان للحافظ ابن حجر وفیات 298/3والذہبی النبلاء تذکرہ 573/5،873/3) نے بھی اس باب میں کتابیں لکھی ہیں امام ابن الجوزی نے ان احادیث کو موضوعات میں درج کیا ہےاور آخر میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ امام اسحاق بن راھویہ کا قول درج کیا ہے۔

لا يَصِحُّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي فَضْلِ مُعَاوِيَةَ شئ

اس نکتہ کے پیش نظر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شیخ کے قول پر اعتماد کرتے ہوئے مناقب کے لفظ سے عدول کیا ہے لیکن اپنی وقت نظر سے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت پر۔۔۔اور وہ بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول سے۔۔۔استنباط کر کے روافض کے سر پر جوت لگادیاہے۔

امام نسائی نے بھی اپنے شیخ اسحاق بن راھویہ کے قول پر اعتماد کیا ہے اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت پر کچھ نقل کرنے سے انکار کر دیا ہے اور یہی قصہ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کا ہے کہ ان پر تشنیع کی تہمت تھی امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے بھی حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں کسی حدیث کی صحت سے انکار کردیاہے اور ان کو إِنْ هَذَا إِلا اخْتِلاقٌ قراردیا ہے بحث کے خاتمہ پر حافظ ابن حجر لکھتے ہیں ۔

اعلم أنه قد ورد في فضائل معاوية أحاديث كثيرة لكن ليس فيها ما يصح من طرِيق الإسناد وبذلك جزم إسحاق بن راهويه والنسائي وغيرهما .

دراصل شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی تقیحات سے معلوم ہوتا ہے کہ تشنیع کامفہوم متقدمین کے ہاں صرف یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے افضل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےجو مخالفین کے ساتھ جنگیں لڑیں ان میں وہ حق پر تھے اور مخالفین خطا پر اور شیخین کی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر فضیلت اور تقدم کے قائل تھےلیکن متاخرین کے نزدیک تشیع محض کا نام ہے اور امام نسائی یا امام حاکم اس قسم کے رفض سے پاک تھے بلکہ امام نسائی سے تو یہ بھی ثابت نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی افضل تھے۔

ایک لطیفہ:۔

ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے ابن زولاق کی کتاب "قضاۃ مصر"کے حوالہ سے لکھا ہے کہ والی مصر ابن الاخشیدنے ابن الحداد کو جو امام نسائی کے تلمیذ تھے مصر کا قاضی مقرر کر دیا اور ہم (ابن زوالاق ) نے کتاب الخصائص نسائی کی اس پر قرآءت شروع کی۔ اسے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق کوئی بات پہنچی تو انھوں نے کہا۔

اب میں یہ کتاب جامع مصر میں بیٹھ کر املاء کراؤں گا تو علی بن حسن نے بتایا کہ ابن الحداد نے بتایا کہ میں ایک مرتبہ ابن الاخشید کی مجلس میں بیٹھا تھا جب ہم کھڑے ہوئے تو اس نے میرا بازو پکڑلیا۔اور تنہائی میں پوچھا کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں کون افضل ہے؟ تو میں نے جواب دیا۔

الحذاء اثنين في واحد

تو اس نے کہا : ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں کون افضل ہے؟ تو میں نے کہا:

إن كان عندك فعلي، وإن كان برا فأبو بكر، فضحك.

فقہ اجتہاد :۔

محدثین بالعموم اور آئمہ ستہ بالخصوص کسی فقہی مسلک کے ساتھ مقید نہ تھے بلکہ حریت رائے اور عدم تقلید سے فتوے دیتے رہے اور اپنی رائے کا اظہار کرتے رہے اور یہ ہو بھی کیسے سکتا ہے جبکہ یہ تنقید محدثین کے مزاج ہی کے خلاف ہے۔امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کو محض اس لیے شافعی المسلک کہا گیا کہ انھوں نے کتاب "مناسک حج" شافعی مسلک کے مطابق تالیف کی ورنہ اس سے شافعی ہونا لازم نہیں آتاجوشخص سنن نسائی کا مطالعہ کرے گا اسے امام نسائی کی فقہ میں گہرائی نظر آئے گی۔چنانچہ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔( النبلاء 130/4معرفۃ علوم الحدیث ص82)

أما كلام أبي عبد الرحمن على فقه الحديث فأكثر من أن يذكر، ومن نظر في كتابه السنن تحيّر فيحُسن كلامه

شاہ ولی اللہ دہلوی نے محدثین فقہاء کے اجتہاد پر بحث میں اسی کی خوب وضاحت کی ہے اور امام نسائی کے متعلق بھی لکھا ہے کہ وہ فقہاء محدثین سے تھے ایک مقام میں لکھتے ہیں ۔( حجۃ اللہ البالغہ 15/1)

كان اهل الحديث قد ينسب الي احد المذاهب لكثرة موافقت كالنسائي والبيهقي ينسبان الي الشافعي

اور پھر لکھا ہے کہ جو علماء حدیث عہدہ قضا پر مامور رہے ہیں ان کے مجتہد ہونے میں شبہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اس عہدہ پر مجتہد کے بغیر کوئی مامورہی نہیں ہوسکتا تھا۔

فقہی مذاھب اور محدثین :۔

محدثین کے مذاہب فقہی کے متعلق علامہ طاہر الجزائری لکھتے ہیں ۔( دیکھئے ص185)

" أما البخاري ، وأبو داود ، فإمامان في الفقه من أهل الاجتهاد .

وأما مسلم ؛ والترمذي ؛ والنسائي ؛ وابن ماجه ؛ وابن خزيمة ؛ وأبو يعلى ؛ والبزار ؛ ونحوهم ؛ فهم على مذهب أهل الحديث ، ليسوا مقلدين لواحد بعينه من العلماء ، ولا هم من الأئمة المجتهدين على الإطلاق ، بل هم يميلون إلى قول أئمة الحديث كالشافعي ؛ وأحمد ؛ وإسحاق ، وأبي عبيد ؛ وأمثالهم "

ان کے علاوہ امام دارقطنی مائل بشافعیت تھے لیکن وہ صاحب اجتہاد اور آئمہ سنت سے تھے اور بعد کے محدثین سے اجتہاد میں قوی تھے کیونکہ بعد کے محدثین نے تقلیدی رنگ اختیار کر لیا تھا۔

پس جب ہم محدثین اور اہل حدیث کا مسلک پیش کرتے ہیں تو آئمہ ستہ تک کے محدثین میں تو تقلید کا شائبہ تک نہ تھا اور ان میں امام دارقطنی کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے لیکن ان کے بعد محدثین مسلک اہل حدیث کے لیے مثال نہیں بن سکتے ۔اب مقلدین میں کہ آئمہ صحاح ستہ کو بھی مقلد ثابت کرنے کے درپے ہیں تو ان کی یہ بات کیسے تسلیم کی جا سکتی ہے۔

امام نسائی کا تفرد:۔

امام نسائی مصر میں زقاق القنادیل میں سکونت پذیر رہے جو بہت صاف ستھری اور حساس آبادی تھی ۔کبرسنی کے باوجود چہرہ نہایت ترو تازہ نظر آتا ۔چار بیویاں اور کوئی لونڈی بھی رہتی ان سب کے حقوق برابر ادا کرتے ایک مرتبہ کسی طالب علم نے چہرہ کی ترو تازگی کو دیکھ کر کہہ دیا۔

ما أظن أبا عبد الرحمن إلا أنه يشرب النبيذ

اس پر دوسرے نے کہا:

ليت شعري ما يرى في إتيان النساء في أدبارهن(النبلاء 128/14)

چنانچہ امام نسائی سے یہ دونوں مسئلے دریافت کئے گئے تو امام نسائی نے فرمایا:

النبيذ ، فقال : مذهبى أنه حرام لحديث أبى سلمة عن عائشة:كل شراب أسكر فهو حرام. فلا يحل لاحد أن يشرب منه قليلا ولا كثيرا محمد بن كعب القرظي ، عن ابن عباس قال: " اسق حرثك حيث شئت " . فلا ينبغي أن يتجاوز قوله (راجع لاثر ابن عباس البیہقی196/7وفیہ : اسحق حر ٹک من حیث نبا تہ)

امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :

قد تيقنا بطرق لا محيد عنها نهي النبي صلى الله عليه وسلم عن أدبار النساء وجزمنا بتحريمه ولي في ذلك مصنف كبير

یعنی یہ فعل قطعاً حرام ہے اور میں نے اس پر ایک کتاب تصنیف کی ہے۔( امام لغوی نے اس کو اہل علم کے مابین متفق علیہ قرار دیا ہے دیکھئے شرح السنہ 106/5،

اور علماء نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس کی رخصت اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شدت سے کنار ہ کشی کی جا ئے ۔راجع ہذا المسند ایضاًزاد المعاد 257/4)

تصانیف:۔

"کتاب السنن" امام نسائی کی معروف کتاب ہے جس کے متعدد رواۃ مذکور ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔علامہ مزی نے" الاطراف "میں اس کتاب کو شامل کیا ہے اور حال ہی میں طبع ہو چکی ہے اب رہی "السنن المجتبیٰ"تو یہ مدت مدید سے متد اول چلی آرہی ہے ابن الاثیرنے جامع الاصول میں اس کو امام نسائی کی تلخیص قراردیا ہے اور امام سیوطی نے اپنے حاشیہ الزھر الربی میں ان دونوں کتابوں کے متعلق علماء کے خیالات کو ذکر کر دیا ہے۔علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے ابن الاثیر والی حکایت کو ضعیف قرارد یاہے اور لکھا ہے۔

وقد اخطاء ابن الاثير خطاء فاحشا فزعم وهو يترجم للنسائي ان المجتبي من تاليف النسائي وانتقامه وانه تحري فيه الصحة استجابة لرغبة بعض الامرائي ان المجتبي من تاليف النسائي وانتقامه وانه تحري فيه الصحة استجابة لرغبة بعض الامراء

اور بہت سے علماء نے اس مقالہ کی وجہ سے دھوکہ کھا یا ہے کہ المجتبیٰ النسائی صحیح کتاب ہے۔اور اس کی اسانید پر بحث کے بغیر ہی اس پر علم جائز ہے اس کے بر عکس السنن الکبری میں ضعیف احادیث بھی ہیں لہٰذا تحقیق کے بغیر اس پر عمل جا ئز نہیں ہے۔

لیکن اس مزعومہ کی کو ئی عملی قیمت نہیں ہے کیونکہ المجتبیٰ میں بہت سی احادیث پر امام نسائی نے خود جرح کی ہے اور السننالکبری میں بہت سی احادیث صحیح مذکورہیں جو مختلف ابواب میں بکھری پڑی ہیں ۔

اور پھر جب علامہ منذری مختصر السنن میں اخرجه النسائي کہتے ہیں تو اس سے السنن الکبری ہی مراد ہوتی ہے اسی طرح علامہ مزی الاطراف میں السنن کو لیتے ہیں اور المجتبیٰ کو بھی جو ابن السنی کی تالیف ہے اور ھافظ ابن حجر بلوغ المرام میں اخرجہ النسائی کہتے ہیں تو "الکبری "مراد ہوتی ہے۔مثلاً باب الشہادات حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ قضى باليمين مع الشاهدرواۃ النسائی اور بعض احادیث السنن میں ہیں اور المجتبیٰ میں نہیں ہیں مثلاًحدیث عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (دَخَلَ الْحَبَشَةُ الْمَسْجِدَ يَلْعَبُونَ ، فَقَالَ لِي : " يَا حُمَيْرَاءُ ، أَتُ)الخ اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر فتح الباری 355/2۔میں لکھتے ہیں۔

إسناده صحيح ولم أر في حديث صحيح ذكر الحميراء إلا في هذا

علامہ زرکشی نے حافظ ابن کثیرکا قول نقل کیا ہے کہ علامہ ابو الحجاج المزی فرمایا کرتے كل حديث فيه ذكر الحميراء باطل إلا حديثنا في الصوم في سنن النسائي

اوراوپرمذکور حدیث کو اس کے ساتھ شامل کر لیا جا ئے تو دو صحیح احادیث میں یا حمیراء کا ذکر ثابت ہے اور یہ دونوں صرف سنن النسائی میں ہیں ۔اور "السنن الکبریٰ"میں ایک حدیث ابن عباس سے (موقوفاً) بھی ہے جس کے الفاظ ہیں ۔ من أتى بهيمة فليس عليه حد"

جو امام نسائی نے"علی بن حجر ثناعیسیٰ بن یونس عن النعمان بن ثابت یعنی ابا حنیفہ عن عاصم ابی رزین عن ابن عباس "ذکر کی ہے بعض علماء احناف اس حدیث کو خصوصیت سے ذکر کرتے ہیں کہ امام نسائی نے امام ابو حنیفہ کی یہ حدیث اپنی السنن میں روایت کی ہے ۔تاہم حافظ ابن حجر لکھتے ہیں ۔

"یہ حدیث ابن عباس کی اوپر والی حدیث سے سنداً ومتناً مختلف ہے مگر امام نسائی نےمحض ابن عباس پر اختلاف کی طرف اشارہ کرنے کے لیے ذکر کر دی ہے۔

امام نسائی نے خود ہی اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے اور عاصم پر جرح کی ہے اور پھر یہ السنن الکبریٰ کے بعض نسخوں میں ہے، حافظ ابن حجر لکھتے ہیں(السنن الکبریٰ الحدود(2/14)وتحفۃ الاشراف ج5 ص158والنکت انطراف و تہذیب التہذیب 452،451/10)

وفي رواية أبي علي الأسيوطي والمغاربة عن النسائي قال ثنا علي بن حجر ثنا عيسى هو بن يونس عن النعمان عن عاصم فذكره ولم ينسب النعمان وفي رواية بن الأحمر يعني أبا .حنيفة و ليس هذا الحديث فى رواية حمزة بن السنى و لا ابن حيوة عن النسائى .

(3)خصائص علی۔ امام سیوطی نے اس کا ذکر کیا ہے۔ (؟)اور النبلاء ذہبی میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔( النبلاء 133/14)

(4)(مسند علی۔۔۔کشف الظنون میں یہ دونوں کتابیں امام نسائی کی تالیفات سے ذکر کی گئی ہیں تا ہم بعض علماء نے ان دونوں کو "السنن الکبریٰ " کا حصہ قراردیاہے اور کہا ہے" مسند علی"السنن میں مذکور ہے اور بعض نسخوں میں "الخصائص" بھی شامل ہے۔( انظرتسمیہ ماوردبہ الخطیب دمشق للمالکی رقم 394)

(5)"الکنی "۔۔۔امام ذہبی نے اس کو "اکتاب حافل"قراردیا ہے اور یہ دوجلد میں طبع ہو کر نشر ہو چکی ہے۔

(6)کتاب " یوم ولیلہ "یہ بھی "السنن "میں داخل ہے۔ذہبی لکھتے ہیں ۔

وهو مجلد هو من جملة السنن الكبير في بعض النسخ(تاریخ بغداد 330/7)

(7)کتاب التفسیر (مطبوع ہے)

(8)مسند مالک

(9)اسماء الرواۃ

(10)الضعفاء والمتروکین :مطبوعہ الٰہ آباد 1325ھ۔

(11)کتاب الاخوۃ

(12) وهو ما أغرب شعبة على سفيان وسفيان على شعبة له،

(13)مسند منصور بن زاذان

(14)مشیخۃ النسائی : امام نسائی نے جن مشائخ سے حدیث کا سماع کیا ہے ان کو جمع کر دیاہے تذکروں میں مذکور ہے کہ خطیب بغدادی جب بغداد سے دمشق گئے تو ان کی کتابوں میں یہ کتاب بھی تھی اور عبد الکریم بن ابی الرحمٰن النسائی کے طریق سے روایت ہے یعنی خطیب ۔

البرقاني...الدارقطني...حسن بن رشيق العسكري...عبد الكريم بن ابي عبد الرحمان النسائي

اور خطیب بغدادی نے 83مواضع پر اس سے استفادہ کیا ہے اور 60نصوص نقل کئےہیں اور ایک مقام پر شیوخ کے سلسلہ میں اس کی تصریح بھی کی ہے اور حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں مسلسل سے استفادہ کیا ہے چنانچہ حسان بن ابی وجزۃ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں (خصوصی طور پر 254۔253)

له عند النسائي حديث واحد ما توكل من اكتوي أو استرقي(رواۃ النسائی فی الکبری (فی الطب5/27) والحدیث فی ق الطب (1/23) والترمذی فی الطب (14)ولفظہ من اکتوی اوا ستراقی ،فقد بری من التوکل وقال حسن صحیح قال المزی حدیث س لیس فی الرویہ ولم یذکرۃ ابو القاسم قال فی النکت انطراف : اختلاف فیہ علی سفیان الثوری وقد استوفاہ قط فی العلل(اطراف 486/8)

اور خطیب بغدادی اپنی تاریخ میں محد بن علی الصوری کے طریق سے اپنے اسناد کے ساتھ لکھتے ہیں ۔

اخبرنا عبد الكريم بن عبد الرحمان النسائي اخبرني ابي قال ابو علي الحسن بن الصباح ليس بالقوي هكذا ذكر النسائي في كتاب الاسماء والكني وذكره في تسمية شيوخه

اور پھر برقانی سے بھی اسناد مذکور کے ساتھ یہ قول نقل کیا ہے۔

(15)فضائل صحابہ : ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں اس کا ذکر کیا ہے ۔( تذکرۃ 242/2)

(16)مناسک حج : ذہبی نے النبلاء میں اور ابن الاثیر نے الجامع الاصول میں نشان دہی کی ہے۔( دیکھئے جامع الاصول مقدمہ 116)

(17)نسخہ ابن لحیعہ: جو اپنے شیخ قتیبہ بن سعید سے سماع کے ساتھ حاصل کیا تھا چنانچہ علامہ ذہبی ابو طالب احمد بن نصیر الحافظ کا قول نقل کرتے ہیں ۔

مَنْ يَصْبُرُ عَلَى مَا يَصْبِرُ عَلَيْهِ النَّسَائِيّ؟!عِنْدَهُ حَدِيْثُ ابْنِ لُهِيْعَةَ تَرْجَمَةً-يَعْنِي:عَنْ قُتَيْبَةَ،عَنِ ابْنِ لُهِيْعَةَ-قَالَ:فَمَا حَدَّثَ بِهَا.

سنن النسائی:۔

اب ہم اس کے بعد "السنن"پر بحث کرتے ہیں لیکن اصل السنن یعنی "السنن الکبریٰ "ہمارے سامنے نہیں ہے اس لیے مختصر السنن (المجتبیٰ ) کو موضوع بحث بناتے ہیں جو متداول ہے اور ہمارے مدارس عربیہ میں مقررات میں شامل ہے۔

شاہ عبدا لعزیزمحدث دہلوی بستان المحدثین میں لکھتے ہیں ۔

امام نسائی جب السنن الکبریٰ کی تالیف سے فارغ ہوئے تو اس کو امیر رملہ کی خدمت میں پیش کیا ۔امیر موصوف نے امام ممدوح سے دریافت کیا کہ کیا اس میں جو کچھ ہے سب صحیح ہے؟امام موصوف نے فرمایا : نہیں ۔۔۔!اس پر امیر نے فرمائش کی کہ میرے لیے صرف صحیح روایات کو جمع کر دیجئے ۔تب امام صاحب نے سنن صغریٰ تصنیف فرمائی ۔علامہ ابن الاثیر نے اس واقعہ کا ذکر جامع الاصول میں کیاہے اورملا علی القاری مرقاہ میں سید جمال الدین کے حوالہ سے نقل کیا ہے لیکن ہم ذکر کر آئے ہیں ۔کہ علامہ ذہبی نے اس کے بارے میں النبلاء میں تصریح کی ہے۔

إن هذه الرواية لم تصح بل المجتبى اختصار ابن السني تلميذ النسائي(توضیح الافکار ج1 ص331)

اور بعض نے ابن الحجر کے بیان سے سہارا لیا ہے کہ انھوں نے امام نسائی سے نقل کیا ہے۔

كتاب السنن الكبرى كله صحيح وبعضه معلول - إلا أنه لم يبين علته - والمنتخب المسمّى بـ "المجتبى" صحيح كله

پس احتمال ہے کہ امام نسائی کے اشارہ سے ابن الحسنی نے اختصار کیا ہو لہٰذا محض احتمال کی بنا پرجماعت کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے ۔( الیانع الجنی ص 53برحاشیہ رجال الطحاوی)

سنن النسائی ۔صحاح ستہ موازنہ:۔

امام نسائی گو زمانہ کے لحاظ سے قدرےمتاخر ہیں مگر سنن کے تراجم ابواب پر غور کیا جائےتو صحیح بخاری سے متاثر نظر آتے ہیں خصوصاً تراجم استنباط یہ میں امام بخاری کے نقش قدم پر چلے ہیں تاہم بخاری اور ترمذی میں تراجم مرسلہ پائے جاتے ہیں اور سنن نسائی میں اس قسم کے تراجم منقود ہیں ۔اور پھر کثرت طرق کے بیان کرنے میں امام مسلم کے اسلوب کو اختیار کیا ہے چنانچہ ابو عبد اللہ ابن رشید مالکی (721ھ)( الدیہا : ج2/297) کا قول ہے۔

كتاب النسائي أبدع الكتب المصنّفة في السنن تصنيفاً وأحسنها ترصيفاً، وكان كتابه جامعاً بين طريقي البخاري ومسلم، مع حظّ كثير من بيان العلل. بل قال بعض المكيين من شيوخ ابن الاحمر انه اشرف المصنفات كلها وما وضع في الاسلام مثله يعني في دفة الاسناد(تدریب الراوی ص: وفتح المغیث سخاوی : ص33)

بہر حال سنن نسائی استنباط کی گہرائی میں دوسرے اصحاب سنن میں ممتاز ہیں اور موصوف نے استنباطی تراجم میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی پیروی کی ہے۔ اور کثرت طرق میں امام مسلم کے طریق پر چلے ہیں علاوہ ازیں کثرت تبویب اور بیان علل میں دوسروں پر ممتاز نظر آتے ہیں چنانچہ ابو جعفر غرناطی۔(708ھ) لکھتے ہیں ۔

ان الكتب الخمسة اتفق المُسلمون على اعتماده، وذلك الكتُب الخمسة، و'المُوطَّأ' الذي تقدَّمها وضْعاً، ولم ... وقد اختلفتْ مقاصدهم فيها، و'للصحيحين' فيها شُفوف، وللبخاري لمن أرادالتفقُّه مقاصد جميلة ولابي داودفي حصر احاديث الاحكام واستيعابها ما ليس لغيره وللترمذي في فنون الصناعة الحديثية ما لم يشاركه غيره وقد سلَك النَّسائي أغمَض تلك المقاصد واجلها

اور ابو الحسن المعافری نے دوسری کتب کے مقابلہ میں سنن نسائی کو "اقرب الی الصحہ"قرار دیاہے۔

امام حاکم نے نسائی ترمذی اور ابو داؤد پر صحت کا اطلاق کیا ہے ۔چنانچہ ابن الصلاح اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں ۔

أطلق الخطيب والسلفي الصحة على كتاب النسائي

اسی طرح ابو علی نیشاپوری (م349ھ) ابو احمد بن عدی (م365ھ) المعروف بالقطان، ابو الحسن دارقطنی ابن مندہ ،عبدالغنی بن سعید اور ابو یعلی الحلیلی وغیرھم نے بھی نسائی پر صحت کا اطلاق کیا ہے۔

وقال ابو عبداللہ ابن مندۃ :

الذين خرجوا الصحيح أربعة : البخاري ومسلم وأبو داود والنسائي(النکت لا بن حجر ج1 ص481)

صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے مصادر زیادہ ہیں اور امام نسائی کے مصادر ان سے کم ہیں ۔مگر سنن النسائی عبادات کے فروع بیان کرنے میں صحیحین پر فائق ہے۔

شرط النسائی:۔

سعید بن علی الزنجانی نے کہا ہے کہ امام نسائی کی شرط امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور مسلم رحمۃ اللہ علیہ سے بھی سخت ہے لیکن یہ قول ان سے صحت کے ساتھ ثابت نہیں ہے ۔بلکہ زین الدین عراقی تذکرۃ میں لکھتے ہیں ۔

أن شرط النسائي : 13 : أن يخرج حديث من لم يجمع على تركه

اور حافظ منذری نے مختصر السنن کے خطبے میں ابو داود سے بھی یہ نقل کیا ہے علامہ عراقی اس کو وسعت قراردیتے ہیں مگر ابن حجر لکھتے ہیں کہ اس اجماع سے اجماع خاص مراد ہے ۔اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ ناقدین کے ہر طبقہ میں متشددین اور متوسطین پائے جاتے ہیں مثلاً طبقہ اولیٰ میں شعبہ اور سفیان ثوری ہیں جن میں شعبہ متشدد ہے اور طبقہ ثانیہ میں یحییٰ القطان اور عبد الرحمٰن بن مھدی ہیں اور یحییٰ عبد الرحمٰن سے متشدد ہے۔

طبقہ ثالثہ میں یحییٰ بن معین اور احمد ہیں اور یحییٰ امام احمد سے متشدد ہے۔طبقہ رابعہ میں ابو حاتم اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ہیں ان میں ابو حاتم ،امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ سخت ہیں ۔

تو امام نسائی کا مطلب یہ ہے کہ میں کسی راوی کو متروک قرار نہیں دوں گا جب تک کہ جمیع طبقات (متشدداور متوسط) اس کے ترک پر متفق نہ ہو جائیں

مثلاً ایک راوی کو عبد الرحمٰن بن مہدی ثقہ قرار دیتا ہے اور یحییٰ قطان ضعیف تو یحییٰ کے متشدد کی وجہ سے اس راوی کو ترک نہیں کر دیا جا ئے گا۔

حافظ ابن حجر اس تفصیل سے اپنے شیخ عراقی کے نظر یہ رد کرنا چاہتے ہیں کہ امام نسائی کے قول سے وسعت ثابت نہیں ہو تی بلکہ بہت سے رواۃ وہ ہیں کہ ابو داؤد اور ترمذی بھی ان سے روایت لیتے ہیں مگر امام نسائی ان سے اجتناب کرتے ہیں بلکہ امام نسائی نے بعض رجال صحیحین سے روایت لینے میں کنارہ کشی کی ہے اس بنا پر زنجانی (173ھ)کو کہنا پڑا ۔( النکت علی ابن الصلاح لا بن حجر ج1ص482،شروط الائمہ السنۃ لابن طاہر المقدسی ص18)

إن لأبي عبد الرحمن في الرجال شرطا أشد من شرط البخاري ومسلم"

خلاصہ کلام یہ ہے کہ امام نسائی نے السنن میں روایت کے متعلق نہایت محتاط رویہ اختیار کیا ہے چنانچہ احمد بن محبوب رملی کا بیان ہے کہ میں نے امام نسائی سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ جب میں نے السنن کی تالیف کا ارادہ کیا تو میں نے ان شیوخ سے روایت کے متعلق استخارہ کیا جن سے روایت لینے میں کچھ تردو تھا چنانچہ استخارہ کے بعد میں نےان سے روایت کو ترک کر دیا اور میں نے علوکی بجائے نزول اختیار کیا۔

امام دارقطنی کے شیخ ابو طالب احمد بن نصر بغدادی(م323ھ)کا بیان ہے۔

مَنْ يَصْبُرُ عَلَى مَا يَصْبِرُ عَلَيْهِ النَّسَائِيّ؟!عِنْدَهُ حَدِيْثُ ابْنِ لُهِيْعَةَ تَرْجَمَةً- تَرْجَمَةً-::فَمَا حَدَّثَ منها بشئي(شروط الائمہ مقدسی ص18،النکت لابن حجر ج1ص483،وزہرالربی ص10ج1)

حالانکہ قتیبہ کے واسطہ سے امام موصوف کے پاس عالی روایات تھیں لیکن السنن اور غیر سنن میں ابن لہیعہ سے ایک بھی روایت نہیں لی۔ابن رشد محمد بن عمر ابو عبد اللہ الضھری( م721ھ) مولف کتاب السنن الابین فی المحاکمہ بین البخاری و مسلم فرماتے ہیں ۔

كتاب النسائي أبدع الكتب المصنّفة في السنن تصنيفاً وأحسنها ترصيفاً، وكان كتابه جامعاً بين طريقي البخاري ومسلم، ع حظ كبير منبيان العلل

شروح و حواشی:۔

علامہ سیوطی لکھتے ہیں ۔

جس طرح میں نے صحیحین سن ابی داؤد اور ترمذی پر حواشی لکھے ہیں اس طرح حسب وعدہ اب میں سنن النسائی پر بھی تعلیقات لکھ رہا ہوں اور یہ سنن اس کی مستحق ہے کہ اس پر تعلیق لکھی جا ئے کیونکہ اس کی تالیف پر چھ سوسال گزر چکے ہیں مگر کسی نے اس کی خدمت نہیں کی ۔

(1)الا معان:۔

تاہم یہ بات امام سیوطی نے اپنے علم کے مطابق کہی ہے حالانکہ ان سے پہلے علامہ ابو الحسن علی بن عبد اللہ الانصاری الاندلسی المتوفی 567ھ نے جو ابن النعمہ کے عرف مشہور ہیں نے سنن نسائی پر بہت بڑی شرح لکھی ہے جس کا نام "الامعان فی شرح سنن النسائی لابی عبدالرحمن "ہے نیل الابہتاج بتطریزالدیباج میں علامہ ابن فرحون ان کے ترجمہ میں لکھتے ہیں ۔( نیز دیکھئے ہدیۃ العارفین بغدادی ص700ج1)

انه صنف تاليف مفيدة جليلة منها الامعان في شرح سنن النسائي لابي عبد الرحمان لم يتقدمه احد بمثله بلغ فيها الغاية احتفا لا واكثارا

علامہ محمد منیردمشقی سلفی"نموذج من الاعمال الخیر یہ"میں لکھتے ہیں (ص639)

وهذا الشرح لم يذكره ملا كاتب في كتابه كشف الظنون ولعله لا يوجد الان منه في المكاتب العمومية نسخة ولا علمت احد تقل عنه اوذكره او وصفه

(2)شرح سنن نسائی :۔

اسی طرح حافظ ابن الدررمیں لکھتے ہیں ۔( ص 62ج،4)

ان الحافظ محمد بن علي الدمشقي المتوفي شرع في شرح سنن النسائي

صا حب "التعلیقات السلفیہ " ان ہر دو شروح کی نشان دہی کے بعد لکھتے ہیں

فسقط هذا قول بعض الحنفية ان هذا الكتاب لم يرزق من اقبال العلماء علي شرحه والتعليق عليه مثل ما رزق غيره الي عصر السيوطي

حالانکہ یہ قول ان کی قلت تتبع کا نتیجہ ہے کیونہ بقول علامہ محمد منیر الدمشقی لکھتے ہیں یہ کتاب (سنن نسائی) نہایت عظیم القدر کتاب ہے اور علماء کے اس شرح تعلیق کی طرف التفات نہ کرنے کی دو وجوہ ہو سکتی ہیں ۔

1۔یہ کتاب سہل ہے اور اس کے اکثر تراجم ظاہرہ ہیں ۔

2۔یا اس کی وجہ یہ ہے کہ علماء محققین نے صحیحین اور ابو داؤد کی شروح لکھنے کو کافی سمجھا ہے کیونکہ یہ نسائی پر متقدم ہیں ۔واللہ اعلم۔

(3)زھرالربی علی المجتبیٰ للسیوطی :۔

امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کا پورا نام جلال الدین ابو الفضل عبد الرحمٰن بن الکمال ابی بکر سیوطی 911ھ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف ہر فن میں موجود ہیں اور اپنے معاصر اکابر علماء سے ان کو اجازہ حاصل ہیں انھوں نے حسن المحاضرہ میں بقلمہ اپنا ترجمہ لکھا ہے صحاح ستہ پر حواشی لکھے ہیں جن کے اسماء حسب ذیل ہیں ۔

التوشيح شرح الجامع الصحيح. الإمام السيوطي, الديباج على صحيح مسلم بن الحجاج

اسعاف المبطا برجال الموطا مرقاة الصعود حاشية سنن ابي داود اورزهر الربي علي سنن المجتبي اور مصباح الزجاجةعلي سنن ابن ماجة وقوت المغتدي علي جامع الترمذي

حضرت الامیر القنوجی لکھتے ہیں ۔

امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے روایات و روایات میں ہر قسم کی معلومات تو جمع کی ہیں لیکن تنقیح و تحقیق کما حقہ بجانہ لا ئے ۔بلکہ ان کے سرمایہ علمی سے اکثر اہل بدعات کو فائدہ پہنچاہے اور شیعہ نے بھی ان کتابوں سے سہارا لیا ہے تاہم تالیف و تحقیق کے میدان میں امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی کتب سے بے نیازی بھی ناممکن ہے۔

شاہ عبد العزیز دہلوی لکھتے ہیں ۔

"واکثر مسائل نادرہ مثل اسلام ابو ین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم و روایات مسح رجلین ازابن عباس وامثال این نوادراز ہمیں کتب (طبقہ کتب رابعہ ) مے براآید و مایہ تصانیف شیخ جلال الدین دررسائل و نوادر ہمیں کتابہااست (عجالہ نافعہ)

امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کے زھر الربی کا مختصر "عرف زھر الربی "ہے جو علی بن سلیمان الدمنتی البجعوی(المتوفی1306ھ)کا اختصار ہے۔

(4)حاشیہ سندھی:۔

علامہ نور الدین ابو الحسن محمد بن عبدالھادی الحنفی التنوی السندھی حرم نبوی میں میں مدت تک درس دیتے رہے۔ان کے احوال میں مذکور ہے کہ انھوں نے صحاح ستہ پر شاندار حواشی لکھے جو مطبوع ہیں سنن نسائی پر ان کی تعلیق بہت سی خوبیوں کی حامل ہے اس میں متن کے ضروری مقامات کا حل اعراب کی تحقیق اور الفاظ غریب کی تشریح کی گئی ہے جو سیوطی کے زھرالربی کے مطبوع ہے۔

(5)تعلیقہ الشیخ حسین بن محسن الانصاری :۔

حضرت الامیر القنوجی نے ابجد العلوم میں اور علامہ محمد شمس الحق نے غایۃ المقصود کے کے مقدمہ میں ان کے حالات قلمبند کئے ہیں ۔موصوف شیخ السید حسن بن عبد الباری الاحدل کے تلمیذ ہیں اور ان کو امام شوکانی سے اجازہ عامہ حاصل ہے۔اپنے اخ کبیر قاضی علامہ محمد بن محسن انصاری سے بھی الجامع الصحیح اور علوم حدیث و فقہ حاصل کئے ہیں ۔مکہ مکرمہ میں علامہ محمد بن ناصر الحازمی پر صحاح ستہ بحث و تحقیق کے ساتھ قراء کی ہیں اور ان سے اجازہ عامہ حاصل ہے۔ صاحب التعلیقات السلفیہ نے سنن نسائی پر اس تعلیقہ کو اپنی تعلیقات کے مراجع میں شامل کیا ہے جس کی افادیت اہل علم پر مخفی نہیں

( 6)الحواشی الجدیدہ:۔

شیخ محمد ابو عبد الرحمٰن پنجاب غربی کے باشندے ہیں ۔فرید آباد ضلع ساہیوال کے ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے اور والدین نے"بہادر سنگھ "نام رکھا اپنی طالب علمی کے زمانہ میں ہی حافظ عبدالمنان المحدث وزیر آبادی کی خدمت میں پہنچ گئے اور ان کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہو گئے۔۔حافظ صاحب نے ان کا اسلامی نام محمد رکھ دیا حافظ صاحب سے مبادی علوم اخذ کرنے کے بعد دہلی حضرت (میاں صاحب)سید نذیر حسین کی خدمت میں پہنچ گئے۔اور ان سے علوم حدیث حاصل کئے اور حضرت میاں صاحب کے تلامذہ سے رابطہ قائم کر لیا جن میں مطبع انصاری کے مالک مولانا عبد المجید بھی تھے انھوں نے اپنے مطبع میں تصحیح کتب کاکام ان کے سپرد کردیا اور مولوی نذیر احمد کے ساتھ ترجمہ القرآن میں بھی شریک رہے مطبع میں سنن نسائی کی تصحیح اور اس پر حواشی لکھنے پر مامورہوئے جو حواشی جدیدہ کے نام سے مطبوع ہیں صاحب التعلیقات السلفیہ رقم طراز ہیں کہ ان کی تصحیح کردہ نسخہ نسائی اصح النسخ ہے اور میں نے سنن نسائی کی تصحیح میں اس نسخہ کو اصل قرار دیا ہے ان کے حواشی میں جل الاسناد واللغہ وضبط الاسماء خوبی سے مذکور ہے اور انھوں نے مسائل مہمہ کے حل پر بھی توجہ دی ہے اور یہ حاشیہ تقریباً دو تہائی کتاب تک پہنچاہے اور یہ نسخہ مطبعہ انصاری دہلی میں 1316ھ1898ء میں طبع ہو کر شائع ہو چکا ہے۔مجلہ برھان دھلی میں ان کے حالات شائع ہو چکے ہیں۔

اس حاشیہ کا تکملہ علامہ ابو یحییٰ محمد شاہجہان پوری 1338ھ نے کیا ہے جو حضرت سید نذیر حسین محدث دہلوی کے تلمیذ ہیں۔

(7)حواشی مولانا اشفاق الرحمٰن الکاندلوی :۔

مولانا موصوف کبار علمائے حنفیہ سے تھے اور مدرسہ عالیہ فتح پوری دہلی میں راقم الحروف کے مشکوۃ المصابیح کے استاد رہے ہیں ان میں تعصب شدید تھا حتیٰ کہ علمائے اکابر اہلحدیث کو محدث کی بجا ئے فلاں محدث کہہ کر پکارتے ۔عافہ، اللہ تعالیٰ ۔۔۔!انھوں نے سنن نسائی اور موطا مالک پر حواشی لکھے ہیں اور ان کی کتاب نورالعینین فی نسخ رفع الیدین ہے جس کے جواب میں حضرت العلام حافظ محمد اعظم صاحب گوندلوی نے التحقیق الراسخ پیش کردی ہے جو لاجواب کتاب ہے۔سنن نسائی پر حواشی کے بارے میں صاحب التعلیقات السلفیہ لکھتے ہیں کہ یہ دراصل حواشی جدیدہ شیخ ابو عبد الرحمٰن محمد پنجابی ہیں جن کو دوسرا لباس پہنا دیا گیا ہے۔

(8)شرح ابن الملقن:۔

شیخ ابو حفص عمر بن علی بن محمد سراج الدین المعروف بابن ملقن(م804ھ)انھوں نے صحاح ستہ کی شروح لکھی ہیں اور سنن النسائی کے زوائد علی الاربعہ پر ایک جلد میں شرح لکھی ہے ۔

جس میں صرف ان حدیثوں کی شرح لکھی ہے جو صحیحین اور ترمذی و ابو داؤدمیں نہیں ہیں صاحب کشف الظنون نے اس کا ذکر کیا ہے۔راقم الحروف نے ان کی شروح صحاح ستہ کا تذکرہ شروح بخاری و مسلم میں بالتفصیل کیا ہے۔حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں مو صوف کی شروح حدیث سے استفادہ کیاہے۔اور حالات کے لیے الاضواء اللامع 267/5۔وانباء الغمر252/5والعقود للمقریزی ۔

(9)اردو ترجمہ و شرح مولانا وحید الزمان :۔

جو کہ"روض الربی عن ترجمہ المجتبیٰ "کے نام سے معروف ہے 1886ء میں لاہو ر میں طبع ہو ئی۔کسی نے سنن المجتبیٰ کا مختصر بھی الربا عیات من کتاب السنن الماثورہ کے نام سے شائع کیا ہے۔

(10) تعلیقات علی سنن النسائی :۔

شیخ محمد شمس الحق الدیانوی صاحب عون المعبود ۔(دیکھئے سیرت بخاری مولانا عبد السلام المبارکپوری ) اس میں مشکل مقامات کا حل ہے ۔موصوف کے مکتبہ میں اس کا نسخہ موجود ہے لیکن معلوم ہو تا ہے کہ یہ بھی مولانا ڈیانوی کے ان مسودات سے ہے جو ضائع ہو ئے ہیں۔

(11)حاشیہ مولانا محمد ذکریا سہارنپوری:۔

اس حاشیہ میں مولانا مرحوم نے اپنے اساتذہ اور شیوخ کے افادات کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے اور حواشی مذکورہ سندھی و سیوطی کو سامنے رکھ کر مشکل مقامات حل کرنیکی کوشش کی ہے ۔

(12)التعلیقات السلفیہ:۔

حضرت مولانا ابو الطیب محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی اہل حدیث کےکبارعلماء سے تھےجو حال ہی میں 1987ء کو مرحوم ہو گئے۔

بہت سی کتب و رسائل کے مؤلف ہیں من جملہ ان کے"التعلیقات السلفیہ "علی السنن النسائی بھی ہے جو علمی حلقوں میں مقبول ہےکاش یہ حاشیہ دور جدید کے تقاضوں کے مطابق نظر ثانی کے بعد ٹائپ حروف پر شائع ہو جائےتو یہ مولانا موصوف کا بہترین صدقہ جاریہ ہے۔تعلیقات سلفیہ کی کیفیت خود مؤلف رحمۃ اللہ علیہ نے سنن نسائی کے تقدمہ میں بیان کردی ہے۔مولف نے لکھا ہے تعلیقات سلفیہ حواشی اربعہ (زھرالربی سیوطی تعلیق السندھی ،حواشی جدیدہ اور تعلیقہ لطیفہ شیخ حسین بن محسن انصاری)کو متضمن ہیں اور ان پر مزید فوائد السلف حل المشکلات الحدیثیہ اور مسائل فقہیہ کی تنقیح کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔

یہ حوشی مکتبہ سلفیہ لا ہور سے شائع ہو چکے ہیں جو مؤلف مرحوم کا اپنا مکتبہ ہے۔مولف مرحوم حمد اور صلاۃ و سلام کے بعد لکھتے ہیں ۔

فهذا تعليق لطيف على سنن الامام الحافظ ابي عبد الرحمن احمد بن شعيب بن علي بن بحر النسائي رحمه الله تعالى يقتصر على حل ما يحتاج اليه القارئ والمدرس من ضبط اللفظ وايضاح الغريب والاعراب.

اللہ تعالیٰ بخیر و خیریت اس کو اتمام تک پہنچائے (آمین رب العالمین)

اب ہم بعض ابواب میں " تعلیقات سلفیہ"کے نماذج پیش کرتے ہیں جو اہل علم کے لیے دلچسپی کا باعث ہوں گے اور صاحب التعلیقات کے علمی ذوق پر برھان کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

حدیث انس: موسیٰ علیہ السلام ۔۔ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ (190/ج1)

امام نسائی نے یہ حدیث دو طریق سے ذکر کی ہے۔

(الف)معاذ بن خالد .حماد بن سلمة.سليمان التيمي.ثابت.انس

(ب)يونس بن محمد... حماد بن سلمة.سليمان التيمي.ثابت.انس

اور دوسرے طریق کو ترجیح دی ہے

قال النسائي : هذا أولى بالصواب عندنا من حديث معاذ عن خالد.

تعلیق نمبر4 میں ہے۔

هذه يعني كونه عن سليمان وثابت بحرف العطف اولي بالصواب من كونه عن سليمان عن ثابت والله اعلم

علامہ مزی نے بھی تحفہ میں امام نسائی کا یہ مقولہ نقل کیا ہے۔

وهذا اولي بالصواب من حديث معاذ بن خالد يعني عن حمار عن سليمان التيمي عن ثابت عن انس راجع حديث(882)تحفۃ الاشراف ج1)اور عطف والی روایت صحیح مسلم میں ہے۔

اور عطف والی حدیث حماد بن سلمہ سے یونس بن محمد المؤدب کی روایت ہے جو صحاح ستہ کا راوی ہے اور معاذ بن خالد المروزی حرف "س"کا راوی ہے۔

حافظ ابن حجر تہذیب میں لکھتے ہیں

قال عنهالذهبيُّ: "له مَناكيرُ، وقد احتُمل"،

لیکن حافظ پر تعجب ہے کیونکہ ذہبی کی یہ جرح عسقلانی پر ہے نہ کہ مروزی پر(دیکھئے میزان الاعتدال ج4ص132 تہذیب التہذیب) مقرون روایت صحیح میں ہےاور ثابت والی روایت صحیح مسلم کی۔ اصول و شواہد دونوں میں ہے تاہم امام بخاری صرف شواہد میں لا ئے ہیں اور سلیمان والی روایت صحیحین میں نہ اصول میں ہے اور نہ شواہد میں۔واللہ اعلم۔

باب فضل صلاة الليل ص 193 ج1 :حديث حميد بن عبد الرحمان (هو ابن عوف) قال في التعليق :ص 2 كذا وقع في هذا الاصل لاغير وليس في اصول كثيره وصرح في مسلم والترمذي حميد بن عبدالرحمان الحميري وكذانبه عليه السيوطي في الذهر الربي بانه الحميري لكن لم يتكلم علي قول النسائي(هو ابن عوف)وكذا المزي اورده في الاطراف في ترجمة حميد بن عبد الرحمان الحميري ولم يورده في ترجمة ابن عوف ولم ينبه ايضا علي قول النسائي هذا كذا في حاشية النسخة النظامية قال النووي:اعلم ان ابا هريرة يروي عنه اثنان كل منهما حميد بن عبد الرحمان احدهما هذا الحميدي والثاني حميد بن عبد الرحمان بن عوف الزهري قال الحميدي في الجمع بين الصحيحين :كل ما في الصحيحين حميد بن عبد الرحمان ان ابي هريرة فهوالزهري الا في هذالحديث خاصة وهذا الحديث لم يذكره البخاري في صحيحه بل لا ذكر للحميدي في البخاري اصلا ولا في مسلم الا في هذا الحديث 12 زهر

یہ تعلیق بہت عمدہ ہے اور "المجتبیٰ"میں ھوابن عوف" کی زیادۃکے حل کے لیے کافی ہے تاہم سیوطی کے عدم تعرض سے وہم ہو تا ہے کہ یہ امام نسائی کا وہم ہے مگر حافظ ابن حجر نے "النکت انطراف" اس وہم کو دور کر دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ۔

قلت وقع في رواية ابن السني عن قتيبة الزهري (كذا وصوابه عن ابي بشر عن حميد بن عبدالرحمان بن عوف) وقوله ابن عوف وهم من غير النسائي وقد رواه غير ابن السني فلم يقل فيه"ابن عوف" ونسبه مسلم في رواية(الحميري)وقرأت بخط مغلطائي:ان المزي اغفل من هذا الاسناد عن محمد بن المنتشر عن حميد بن عبد الرحمان به والله اعلم

یعنی ابن عوف کی زیادہ صرف ابن السنی کی روایت ہی ہے اور یہ وہم امام نسائی کا نہیں ہے کیونکہ ابن السنی کے علاوہ کسی نے"ابن عوف" کی زیادہ کو ذکر نہیں کیا یعنی معلوم ہو تا ہے کہ وہ وہم ابن السنی کا ہے ۔(باب قیام اللیل ص191/ج1)

قال أبو عبد الرحمن كذا وقع في كتابي ولا أدري ممن الخطأ في موضع وتره عليه السلام ص 280 ج1 قال أبو عبد الرحمن خالد أثبت من المعتمر قال في التعليق ص9 الرواية المتصلة اصح من المرسلة وبعده زاد المذي وحديث معتمر اولي بالصواب (تحفة ج6ص359 رقم 8682)وهذه اللفظة ساقطة من النسخة المطبوعة وقال المنذري :اسناده لا مقال فيه وخالد ابن الحارث امام فقيه احتج به البخاري ومسلم

قال أبو عبد الرحمن هذا أثبت الثلاثة.

اي يروي حديث ابن عباس رضي الله عنه ثلاثة الحسن ومحمد بن سيرين وابو رجاء ثم عن الحسن حميد الطويل وعن ابن سيرين هشام وعن ابي رجاء ايوب وفي الرواية الاولي نصف صاع من قمع وفي الثانية صاعا من بروفي الثالثة صياعا من طعام

ولفظ نصف صاع من قمح مخالفة لجميع الروايات الصحيحة وليس بمرفوع علي الصحيح بل هو قول معاوية رضي الله عنه قالها حين قدم من الشام المدينة حين حج وفي النسائي فاخذ الناس بذلك والاقط بفتح فكسر معناه اللبن المتحجر

محمد بن سيرين عن ابن عباس منقطع قاله في التنقيح وقال ابن ابي حاتم في علله عن ابي حاتم انه منكر والحسن البصري رواه عنه حميد الطويل والحسن لم يسمع من ابن عباس قضية انقطاع وابو رجاء العطاردي (عمران بن تيم ويقال ابن سلمان) روي عنه ايوب وكانت هذه الرواية سالمة عن الانقطاع قال ابو عبد الرحمان هذا اثبت الثلاثة

ص284ج1:عن ابي عمار الهمداني الدهني

قال ابو عبد الرحمان:ابوعمار اسمه عريب بن حميد وعمروبن شرجيل يكني ابا ميسرة وسلمة بن كهيل خالف الحكم في اسناده والحكم اثبت من سلمة بن كهيا قلت:هذا القول الاخير ليس في الكبري والله اعلم

قال الحافظ:في اسناده راو مجهول (فتح الباري 4/110)

ص 241/ج1:قال ابو عبد الرحمان هذا خطا والصواب حديث يونس بن يزيد وادخل هنا حديثا في حديث

وفي الاطراف للمزي قال:حديث يونس اولي بالصواب يعني عن الزهري عن عبيد الله عن ابن عباس (ح:584)رواه ابوبكر ابن السني عن النسائي عن محمد بن اسماعيل البخاري وفي سائر الروايات عن النسائي عن محمد بن اسماعيل حسب:لم يقولوا البخاري وفي نسخة محمد بن علي الصوري (بخطة) محمد بن اسماعيل وهو ابوبكر الطبراني (الاطراف:ج12 ص 97...98)

وحديث ابن عباس(ح:5840) في الكبري في الصوم وفي فضائل القرأن(الكبري) والله اعلم

باب ذكر الاختلاف علي الزهري فيه:ص242 ج1:كتاب الصيام

رواه ابن اسحاق عن الزهري قال ابو عبد الرحمن هذا يعني حديث ابن اسحاق خطا ولم يسمعه ابن اسحاق عن الزهري والصواب ما تقدم ذكرنا له اخبرنا عبدالله بن سعد قال ابو عبدالرحمن هذا الحديث خطا رقم 2109ص 242ج1

حديث عتبة بن فرقد في فضل رمضان رواه عن محمد بن منصور عن سفيان عن عطاء بن السائب عن عرفجة عنه قال ابو عبد الرحمن هذا خطا قال في التعليق ص 17 وجه الخطا ان عرفجة جعله من مسند عتبة بن فرقد والصواب رواية عرفجة عن رجل من اصحاب النبي صلي الله عليه وسلم غير عتبة بن عرفجة والله اعلم

وتوضيحه ان هذا الخطا انما في رواية سفيان واما رواية شعبة والثوري وابن فضل وابراهيم بن صهمان كلهم عن عرفجة علي الصواب كما اخرج النسائي رواية شعبة عن عطاء عن عرفجة والفريابي عن الثوري عن عطاء رواية ابراهيم عن عطائ عن عرفجة عن ابي عبد الله رجل من الصحابة قال ابن حجر في النكت الظراف فبهذا يتعين الصحابي الذي ابهم في رواية النسائي عن عتبة فتخلص منه ان الرواية عن عرفجة عن رجل من اصحاب النبي صلي الله عليه وسلم كما اشار اليه المعلق من تعليقه الشيخ رحمه الله تعالي وراجع التهذيب لابن حجر لترجمته عرفجة بن عبد الله السلمي وقال المزي رواه عرفجة عن رجل من اصحاب النبي صلي الله عليه وسلم

وهذا اولي بالصواب من حديث ابن عينية وعطاء بن السائب كسان قد تغير واثبت الناس فيه شعبة والثوري وحماد بن زيد واسرائيل حديث رقم 2153 ص 246ج1

قال ابو عبد الرحمان حديث يحيي بن سعيد هذا اسناده حسن وهو منكر واخاف ان يكون الغلط من محمد بن فضيل وايضا في المزي ....ولا اعلم رواه عن يحيي بن سعيد غير محمد بن فضيل

وكونه منكرا لان محمد بن فضيل فيه كلام والمعروف كونة من طريق عطاء عن ابي هريرة والله اعلم

ص 248/ج1 باب التقدم قبل شهر ر مضان حديث ابن عباس لاتقدموا الثهر الخ رواه محمد بن عمرو من طريق ابي سلمة عن ابن عباس قال ابو عبدالرحمان هذا خطا

قال في التعليق لان اكثر الرواة عن ابي سلمة رووه عن ابي سلمة عن ابي هريرة قلت هذا التعليل صحيح لان في المذي بعده هذا خطا رواه عبدة بن سليمان عن محمد بن عمرو عن ابي سلمة عن ابي هريرة وهو المحفوظ كذا في حديث من قام رمضان ذكر الاختلاف ثم قال ابو عبد الرحمان هذا عن ابي سملة عن ا بن عباس رضي الله عنه يعني هذه الرواية معنعنة

فتخلص ان يحيي بن ابي كثير عن ابي سلمة عن ابي هريرة والمحفوظ عن محمد بن عمرو عن ابي سلمة عن ابي هريرة كما رواه عبده بن سليمان واما رواية ابي سلمة عن ابن عباس انما رواه ابو خالد عن محمد بن عمرو فقط

رواه يحيي بن ابي كثير ومحمد بن عمرو ايضا عن ابي سلمة عن ابي هريرة ثم اكثر الرواة رواه عن محمد بن عمرو عن ابي سلمة عن ابي هريرة رواه عن محمد بن عمرو اسماعيل بن جعفر وابو بكر بن عباس واسباط بن محمد واسامة بن زيد قال الدارقطني بعد اخراج حديثهم هذه اسانيد صحاح

فعلم منه ان قول ابي عبد الرحمن هذا خطا معناه لان اكثر الرواة عن محمد بن عمرو انما رواه اولي من التعليق عن ابي سلمة عن ابي هريرة كما زاد المزي...السكن التعليل الخطا لهذا وحديث ابي هريرة هذا رواه عبد الملك بن ابي سليمان عن عطاء مرفوعا وموقوفا ورواه ابن ابي يعلي عن عطاء مرفوعا ورواه محمد بن فضيل عن يحيي بن سعيد عن ابي سملة عن ابي هريرة

محمد بن موسیٰ المامونی تلمیذ امام نسائی کا بیان ہے۔( النبلاء 129/14) کہ میں نے کچھ اصحاب سے سنا کہ وہ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ پر "الخصائص "یعلی کی تالیف کے سبب طعن کرتے ہیں کہ انھوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل تو جمع کر دئیے مگر فضائل شیخین جمع نہیں کئے چنانچہ میں نے امام موصوف نے اپنی پوزیشن واضح کر دی اور پھر جب امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے "فضائل صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین "لکھی تو کسی نے کہا ۔

آپ "فضائل معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ "کیوں نہیں لکھ دیتے تو امام نے فرما یا :

ﺃَﻱُّ ﺷَﻲْﺀٍ ﺃُﺧْﺮِﺝُ ﺣَﺪِﻳْﺚ: "ﺍﻟﻠَّﻬُﻢَّ ﻻ‌َ ﺗُﺸْﺒِﻊْ ﺑَﻄْﻨَﻪُ "؟(راجع للحدیث "مسند الطیالسی"برقم 2688من طریق ابی عوانہ واخرجہ مسلم برقم (2604)فی البروالصلہ بلفظ آخر عن شعبہ اُنظرانساب الاشراف 136۔135/4)

توسائل نے اپنا سامنہ لے کر رہ گیا ۔

نسائی کے حالات کے لیے مراجع:۔

المرجع : الانساب 559/،1المستطم131/6،الکامل

فی التاریخ96/8،وفیات77/1،تہذیب الکمال 96/8،

مختصر طبقات علماء الحدیث لابن عبد الہادی

،تذکرۃالحفاظ:698/2،العبر123/2،دولاسلام 184/1،الوافی416،

مراءۃ الجنان240/2،طبقات الشافعیہ للسبکی14/3،

البدایہ والنہاریہ 123/11،طبقات القراء للجزری61/1،تہذیب التہذیب

36/1،شذرات 239/2۔الرسالہ المستطرفۃ 12۔11۔

اورتاریخ بغدادی 330/2۔۔۔!